20/12/19

اردو ادب میں انسانی اور سماجی اقدار کا تصور مضمون نگار: طارق




 اردو ادب میں 
انسانی اور سماجی اقدار کا تصور
  طارق


ادب‘خواہ کسی بھی زبان کا ہو، سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر ادیب سماج کے تانے بانے کوجوڑتا ہوا نظرآتاہے۔یہ الگ بات ہے کہ نظریات مختلف ہوں، راستے الگ الگ ہوں، مگر سبھی انسانی سماج کا راگ الاپتے ہیں،جو جتنا بڑا ادیب ہوتا ہے،وہ اتنی ہی طاقت سے انسان اورانسانی سماج کے حق میں آواز بلند کرتاہے۔ یہی عکس ونقش اردو ادب میں بھی نمایاں ہے۔میر ہوں یا غالب، اقبال ہوں یا جوش،پریم چند ہوں یامنٹوسب انسانیت کی بات کرتے ہیں اور انسانی اقدار کو اپنے اپنے رنگ ڈھنگ سے تقویت پہنچاتے ہیں۔ 
غالب کی شاعری میں انسان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ وہ انسان اور انسانی سماج کے حامی ہیں اور انسان کو انسان بنے رہنے کی صدالگاتے ہیں۔وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں پہلی دفعہ آدمی اور انسان کے فرق کو واضح کیا ہے۔اس سلسلے میں ان کا مشہور شعر ہے         ؎
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اسی عہد کے ایک اور شاعر ابراہیم ذوق کی شاعری پربھی انسان اور انسانی اقدار کا تصور چھایاہواہے۔ ذوق کا خیال ہے کہ اگر انسان نفس امّارہ پر قابو پالے تو وہ ایک اچھا نیک انسان بن سکتاہے۔’نفس امّارہ‘ اور’نفس لوّامہ‘ کے حوالے سے ہمارے صوفی شعرا نے بڑی بحثیں کی ہیں، اور نفس امّارہ کو قابو کرنے پر زور دیاہے۔اس لیے کہ نفس امارہ کا غلبہ انسان کو کمزور کردیتاہے۔ذوق چونکہ انسانیت کے بڑے داعی تھے، اس لیے اس کے تحفظ کے لیے انھوں نے بھی نفس امّارہ پر غالب آنے کی بات کی۔ذوق ان تمام اقدار کی حمایت کرتے ہیں جو انسان کو جلا بخشتی ہیں اورنیکی کے راستے پر لے جاتی ہیں۔وہ کہتے ہیں        ؎
فکر قناعت ان کو میسر ہوئی کہاں 
دنیا سے دل لے کے جو حرص و ہوا چلے
اقبال نے اور زیادہ موثر اور مستحکم انداز میں اپنی شاعری کا موضوع ’انسان‘ کو بنایا ہے۔اقبال کا فلسفہ خودی انسان کو انسان سے متعارف کراتاہے، انسانیت کی منزلوں کو طے کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اپنے جلو میں انسان کے مقام کو بلند کرنے کے تمام رموز واسرار رکھتاہے۔اقبال نے اپنی شاعری میں ایک ایسے انسان کا تصور پیش کیا ہے جو خاکی بھی ہے اور نوری بھی۔انھوں نے اپنی شاعری میں مرد مومن (مکمل انسان)کی بات کی ہے۔اقبال کا خیال ہے کہ انسان کائنات میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ یعنی اسلامی نظریہ کے مطابق وہ انسان کو اشرف المخلوقات اور خلیفۃ الارض مانتے ہیں۔مولانا صلاح الدین احمد نے لکھاہے کہ اقبال وہ پہلا شاعر ہے جس نے انسان کو کائنات کا مرکز بتایاہے۔علامہ اقبال کی نظر میں آفاقی انسان وہ ہے جس سے پوری انسانیت مستفید ہوتی ہے۔ دراصل اقبال عظمت انسان کے قائل ہیں اور انسان کو انسان کی دانائی،بینائی اور توانائی پر فخر بھی ہے۔اقبال کا انسان متحرک اور فعال ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال کے انسان کے یہاں مایوسی اور قنوطیت کا گزر نہیں ہے۔اقبال کا انسان شاہین کی طرح پرواز کرنے کانہ صرف حوصلہ رکھتاہے بلکہ دنیا کو بدلنے کا خواہاں بھی ہے۔انھوں نے کہا        ؎
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں 
اکبر الہ آبادی کی شاعری کا موضوع بھی ’انسان‘ہے۔ اگرچہ وہ طنز ومزاح کے عظیم ترین شاعر ہیں،لیکن اسی اندازمیں انسانی سماج کو بلندیوں تک لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ انھوں نے بڑی بے باکی سے غیر انسانی چیزوں پر طنز کیا ہے تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہو اور انسانی اقدار سے ہم آہنگ ہو۔ان کا مشہور شعر ہے       ؎
وہ قتل سے بچوں کے یوں بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اس شعر میں تعلیم کے جدید طریقہ کار پر گہرا طنز ہے،وہ مغرب کے تعلیمی نظام کو انسانیت کے حق میں زہر ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کے اس خیال سے اتفاق کیا جائے یا نہ کیاجائے،بہرحال یہ طے ہے کہ اس شعر کے اندرون میں ان کا جذبہئ انسانیت کارفرما ہے۔ مغرب کے جدید تعلیمی نظام پر اقبال نے بھی ضرب لگائی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں یہ تعلیمی نظام انسانیت کے لیے مضرت رساں ہے۔ وہ کہتے ہیں        ؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم 
کیا خبر تھی کہ چلاآئے گا الحاد بھی ساتھ
 مولانا الطاف حسین حالی کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔وہ اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں سے بھی تھے۔ حالی نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ میں شاعری کے حوالے سے جو باتیں بیان کی ہیں، کہیں نہ کہیں ان کے پیچھے ان کا نظریہئ انسانیت جھلکتاہوا محسوس ہوتاہے۔انھوں نے شاعری میں اصلاح کی بات کی تو وہ بھی اس لیے تاکہ شاعری زیادہ سے زیادہ انسان اور انسانی سماج کی ترقی و تعمیر کے لیے ممدو معاون ثابت ہوسکے۔حالی نے خود بھی ایسی ہی شاعری کی جو انسانی وسماجی قدروں کی آئینہ دار بن گئی۔ اس حوالے سے حالی کی نظمیں بہت اہم ہیں۔ان کی ایک نظم کا درج ذیل بند ملاحظہ فرمائیں          ؎
بنے قوم کھانے کمانے کے قابل
زمانے میں ہو منہ دکھانے کے قابل
تمدن کی مجلس میں آنے کے قابل
خطاب آدمیت کا پانے کے قابل
سمجھنے لگیں اپنے سب نیک و بد وہ
لگیں کرنے آپ اپنی مدد وہ
مولانا محمد حسین آزاد کی نظموں میں بھی انسان کی اخلاقی تربیت کا درس ملتاہے۔انھوں نے اپنی نظموں میں آزاد انسان کو ترقی کی راہ دکھانے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو اپنے اندر اتارنے پر خاص زوردیاہے۔ان کے یہاں انسانوں کے مابین تفریق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے بتایاہے کہ انسان اعلیٰ ہو یاادنیٰ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔وہ کسی بھی انسان کو کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ اس تناظر میں ان کی نظم’صبح امید‘بہت اہم ہے۔
جوش ملیح آبادی کی شاعری انسانیت کی موثر اور مستحکم آواز ہے۔ جوش شاعر شباب اور شاعرِ انقلاب تو ہیں ہی لیکن وہ شاعر انسان بھی ہیں۔ان کے شعری مجموعے میں سیف وسبو، سرود وخروش، عرش وفرش، الہام وافکار، نجوم وجواہر،فکر ونشاط، جنو ن وحکمت اور شعلہ و شبنم شامل ہیں۔ انسانیت کے حوالے سے جوش کی شاعری کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز انسان سے بالاتر نہیں ہے۔ انسان ان کے خیال میں خود مختار اور بااعتماد ہستی کا نام ہے۔انھوں نے انسان اور انسانیت کے حوالے سے اپنی شاعری کو رنگا رنگ بنایاہے۔ان کی نظم ’درس آدمیت‘ دراصل انسانیت کی آواز ہے           ؎
کوئی چیز انسان سے بالا نہیں!
ہر اک شے گماں صرف انساں یقیں 
مجاز و حقیقت کا شاہ آدمی
کلاہِ سرِ مہر و ماہ آدمی
آل احمد سرورنے جوش ملیح آبادی کی شاعری کے بارے میں لکھاہے کہ:
جس طرح یگانہ کا آدمی کا تصورغالب کی یاد دلاتاہے، مگر غالب کی عظمت کو نہیں پہنچتا،اسی طرح جوش کا انسان کاترانہ، اقبال کے انسان کی طرف ذہن کو لے جاتا ہے مگر جوش کے یہاں اقبال کی سی حکیمانہ آواز ہے نہ اقبال کا معجزہئ فن۔جوش اقبال کے عشق کے مقابلے میں عقل کی بلندی کے ترانے گاتے ہیں مگر ان کی گھن گر ج میں تشبیہات و استعارات کی ایک طلسم ہوش ربا کے باوجود فکری اعتبار سے ایک تہی مائیگی ہے۔ان میں اس اعلی سنجیدگی کی کمی ہے جو بڑے فنکار کی پہچان ہے۔ہاں ایک طفلانہ شوخی اور ایک رومانی کھلنڈراپن ضرور ہے جو فطرت، شباب اور انقلاب سے کھیلتاہے۔“ 
)تنقید کیا ہے؟ آل احمد سرور، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، 2011، ص 191(
اردو کی نثری اصناف میں بھی انسا ن اور انسانی سماج کے موضوع کو کثرت سے برتاگیاہے۔ داستان، ناول،افسانہ، رپورتاژ، صحافت،ان سب کا محور انسان ہی ہے۔بوستانِ خیال، طلسم ہوشربا، باغ وبہار،آرائش محفل، فسانہئ عجائب،رانی کیتکی کی کہانی میں انسانی تہذیب ومعاشرت کا بیان ہے اور ان میں انسانی قدروں کی باتیں بڑے موثرڈھنگ سے پیش کی گئی ہیں۔ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر عہد حاضر کے ناول نگاروں تک اورپریم چند سے موجودہ دورکے افسانہ نگاروں تک سب نے اپنا مرکزی موضوع انسان کو ہی بنایاہے۔ 
اردو میں باضابطہ ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد سے ہوتا ہے۔مراۃ العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت، فسانہئ مبتلا اور ایامیٰ ان کے قابل ذ کر ناول ہیں۔نذیر احمد نے ’مراۃ العروس‘ میں دراصل انسان کی اچھائی اور برائی کو اکبری اور اصغری کے توسط سے پیش کیا ہے۔مراۃ العروس میں نذیر احمد نے ایک جگہ لکھا ہے:
جو آدمی دنیا کے حالات میں کبھی غور نہیں کرتا اس سے زیادہ کوئی احمق نہیں۔غور کرنے کے واسطے دنیا میں ہزاروں طرح کی باتیں ہیں لیکن سب سے عمدہ اور ضروری آدمی کا اپنا حال ہے کہ جس روز سے آدمی پیدا ہوتا ہے، زندگی میں اس کو کیا کیا باتیں پیش آئیں اور کیونکراس کی حالت بدلی۔
)مراۃ العروس، نذیر احمد، کتابی دنیا، نئی دہلی 2003،  ص5(
ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ’مراۃ العروس‘ میں عورتوں کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس میں جن حقوق کا ذکر عورتوں کے حوالے سے آیا ہے، وہ حقوق عورتوں کو ضرورملنے چاہئیں۔آج خواتین کے حقوق اور تعلیم کی بات بھی کی جارہی ہے اوراس تعلق سے عملی قدم بھی اٹھائے جارہے ہیں، مگر نذیر احمد کئی سوسال قبل اپنے اردوناولو ں کے ذریعے خواتین کی تعلیم اور حقوق کی آواز اٹھاچکے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف سرمست لکھتے ہیں:
مراۃ العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح، فسانہئ مبتلا، ابن الوقت، ایامیٰ، رویائے صادقہ میں سے کوئی ایک ناول بھی ایسا نہیں ہے جس میں انیسویں صدی کی سماجی زندگی اور اس زمانے کے مسلمان گھرانوں کی حقیقت شعارانہ عکاسی نہیں کی گئی ہو۔“ 
)بیسویں صدی میں اردو ناول، ڈاکٹر یوسف سرمست، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،2016،ص 32,33(
رتن ناتھ سرشار اردو ناول کا ایک نمایاں نام ہے۔ ’فسانہئ آزاد، جام سرشار، اور سیر کہسار ان کے نمائندہ ناول ہیں۔’فسانہ آزاد‘رتن ناتھ سرشار کابہترین ناول ہے۔اس میں انسان اور انسانی سماج کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ناول کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں صرف انسان اور انسانی سماج ہی نہیں بلکہ پورا لکھنؤ زندہ ئ جاوید ہے۔ رتن ناتھ سرشار نے اپنے ناول میں لکھنؤ کے رسم و رواج اور تہذیب وثقافت کو جس طرح پیش کیا ہے، اردو کے کسی دوسرے ناول میں کمیاب ہے۔ انھوں نے لکھنؤ کی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کااحاطہ اس طرح کیا ہے کہ پورا منظرنامہ قاری کی آنکھوں کے سامنے گھومتا ہوا نظر آتاہے۔رتن ناتھ سرشارکی نظر اس وقت کے انسانی سماج پر بہت گہری تھی، وہ اپنے گردو نواح کے لوگوں کو سماجی زاویوں سے بغور دیکھتے تھے، اسی لیے انھوں نے اپنے ناول میں مصاحب، مسخرے، عامل، مولوی، مجاور، شاعر، پروفیسر، فوٹو گرافر، وکیل، بیرسٹر سب کی تصویر کشی کی ہے۔
اردو ناول نگاری میں عبدالحلیم شرر کی بھی ایک الگ شناخت ہے۔انھوں نے تاریخی ناول لکھے اور ان میں بہادر انسانوں کے کارناموں کو پیش کیا۔گویاکہ عبدالحلیم شرر انسان کو بہادردیکھنا چاہتے ہیں۔دراصل شجاعت وبہادری انسان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔یہ خوبی انسان کو بلندی پر لے جاتی ہے اور اپنی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔عام طورسے وہی انسان آگے بڑھتے ہیں اور دنیا کی منزلوں کو طے کرتے ہیں جو بہادر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں میں بہادری نہیں پائی جاتی، ان سے بڑے کارناموں کی توقع بھی نہیں کی جاتی۔
اردو کے بلند پایہ ناول نگاروں میں مرزاہادی رسوا کانام سرفہرست ہے جنھوں نے افشائے راز، امراؤ جان ادا، ذات شریف، شریف زادہ جیسے ناول لکھے، لیکن ’امراؤ جان ادا‘ نے انھیں زندہئ جاوید کردیا۔مرزا ہادی رسوانے اپنے ناولو ں میں انسان اور سماج کے مسائل کو پیش کیا ہے اور ’امراوجان‘ ادا میں انسان اور سماج کا تصور زیادہ واضح اور موثر طورپر سامنے آتاہے۔یہ اردوکا پہلاناول ہے جس میں لکھنوی تہذیب وثقافت کو پورے جاہ وجلال کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔مرزا ہادی رسوانے اس ناول میں جہاں امراوحکام کے عیش وطرب اور ان کے معیارِ زندگی کا مرقع کھینچاہے، وہیں انھوں نے سماج کے ان طبقات کوبھی اجاگر کیا ہے جو آخری پائیدان پر نظرآتے ہیں۔اس ناول کے توسط سے ایک طوائف کی زندگی کو رسوانے جس طرح پیش کیا ہے، اس سے پتہ چلتاہے کہ رسوا کی نگاہ میں انسان کی کتنی قدرومنزلت تھی۔ امراوجان ادا میں طوائف کی زندگی کو نہ صرف پیش کیاگیا ہے بلکہ یہ بتانے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ کوٹھے پر رہنے والی طوائف محض تعیش کا سامان نہیں ہے بلکہ یہ کوٹھے ہماری زبان اور تہذیب وثقافت کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔اس ناول کے ذریعے قارئین نہ صرف ایک طوائف کی دکھ بھری زندگی سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ امراوجان ادا اس معاشرے کا نمائندہ کردار ہے جس کے توسط سے ہم طوائفوں کے بالا خانوں کی آن بان سے بھی واقف ہوتے ہیں۔گوہر مرزا، سلطان مرزا، بوڑھے نواب، فیض علی ڈاکو، قانونی شاطر اکبرعلی او راکبر علی کی بیوی نواب سلطان کی بیگم یہ سب کے سب انسانی کردار ہیں جو ا مراوجان ادا کی کہانی کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔
پریم چند کے ناولوں میں بھی مرکزی موضوع انسان ہی ہے۔ مگر انھوں نے دبے کچلے انسانوں کی بات کرکے یہ تاثر دیاہے کہ انسان بلند مقام کا حامل ہے۔اس کی قدر کی جانی چاہیے، چاہے وہ سماج کے کسی بھی شعبے سے جڑا ہوا ہو۔ پریم چند کا ناول’گؤدان‘ اردو کا معرکۃ الاراء ناول ہے اور انسانیت کی مستحکم آواز بھی۔ غریب کسان کی زندگی کو پیش کرکے پریم چند نے یہ درس دینے کی کوشش کی ہے کہ سماج میں ایسے مفلوک الحال اورپریشان حال لوگ بھی ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے اور استحصال کے دروازے بند ہونے چاہئیں۔ پریم چند کے بعد کرشن چندر، بیدی، عزیزاحمد، قرۃ العین حیدرجیسے بہت سے ناول نگاروں کی ایک پوری کہکشاں موجود ہے، جنھوں انسان اور انسانی سماج کے مسائل کو اپنے ناولوں کاموضوع بنایاہے۔ 
اگر اردو افسانہ نگاری کی بات کریں تو بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اردومیں افسانہ نے زبردست ترقی کی ہے اور اس کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ اردو کے پہلے افسانہ نگار پریم چند ہیں۔جنھوں نے بہت سے افسانے لکھے، انھوں نے اپنے زیادہ ترافسانوں میں سماج کے دبے کچلے طبقات وافراد کی زندگی اور مسائل کو موضوع بنایاہے۔ ’کفن‘ اور ’عید گاہ‘جیسے ان کے افسانے ذہن پرلگی زنگ کو ہٹادیتے ہیں۔ پروفیسر قمررئیس لکھتے ہیں:
دراصل پریم چند کے دل میں سماج کے دبے کچلے ہوئے غریب انسانوں کے لیے بے پناہ ہمدردی تھی۔اب یہ حقیقت ان پر روشن ہوگئی تھی کہ مہاجنوں یا زمینداروں کا قلب ماہئیت کرکے کروڑوں غریب انسانوں کی غریبی دور نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے خلاف انسانی ضمیر کو بیدار کیاجائے۔نجات، دودھ کی قیمت اور کفن ایسی کہانیاں ہیں جن میں پریم چند کی حقیقت پسندی زندگی کی الناک سچائیوں کو برہنہ کرکے پیش کردیتی ہے۔ان میں جو کردار دکھی، منگل، گھیسو، مادھو، وہ اس سماج میں جانوروں سے بھی زیادہ گھناؤنی آمیز زندگی بسر کرنے پر مجبوررہے ہیں۔
)پریم چند کے نمائندہ افسانے، مرتبہ: قمر رئیس، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 2010، ص 22(
اردو افسانہ نگاروں میں منٹو کی عظمت سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ان کے افسانوں کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ زندگی کو جس طرح سے منٹو نے پیش کیا ہے، وہ دراصل انہی کا خاصہ ہے۔ان کے افسانوں میں انسان کا درد سامنے آتاہے۔ان کا انداز اچھوتا ہے اور بلاکی تاثیر رکھتاہے۔تقسیم وطن کے حوالے سے بہت سے افسانے لکھے گئے، مگر ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘کی بات ہی کچھ اور ہے۔ منٹونے اپنے کئی افسانوں میں طوائف کے مسائل کو بھی بیان کیا ہے۔اور سماج میں ہونے والی ناانصافی اور زیادتی کو انھوں نے کھول کر رکھ دیاہے۔ گوپی چند نارنگ ’منٹو کی نئی پڑھت‘ میں لکھتے ہیں:
جو چیز منٹو کے تخلیقی ذہن میں اضطراب پیدا کرتی ہے وہ خریدی یا بیچی جانے والی جنس نہیں بلکہ انسانی روح کا وہ درد وکرب ہے، جو جسم کو بکاؤ مال بنانے سے پیداہوتا ہے۔
)افسانوں کے درمیان، محمد اسلم پرویز، ایم۔آر۔پبلی کیشنز، دریاگنج، نئی دہلی  2018، ص 48-49(
اردوکے مقبول افسانہ نگاروں کی فہرست میں ایک نام کرشن چندرکاہے۔ انھوں نے ناول، افسانے اور ڈرامے تینوں اصناف میں طبع آزمائی کی، تاہم ان کی اصل شناخت افسانے کے میدان سے ہوئی۔ان کے قابل ذکر افسانوں کے مجموعوں میں نظارے، زندگی کے موڑ پر، ان داتا، تین غنڈے، سمندر دورہے، اجنتا سے آگے ہیں۔ کرشن چندرنے انسانی زندگی کے پہلوؤں کو ذرا مختلف انداز سے پیش کیاہے۔ان کے افسانوں میں رومان اور حقیقت دونوں کا امتزاج ملتاہے۔
منٹو اور کرشن چندر کی بات ہو اور راجندر سنگھ بیدی کی بات نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔بیدی اردو افسانہ کی آبرو ہیں۔انھوں نے اردوکی افسانوی کائنات کوخاصا وسیع کیا ہے۔بیدی کے یہاں انسان اورانسانی سماج کا تصور اچھوتے انداز میں سامنے آتاہے۔بیدی اپنے افسانوں کی تخلیق کے لیے سماج کے چھوٹے چھوٹے زندہ جاوید انسانی کرداروں کو نہ صرف پیش کرتے ہیں بلکہ ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔وہ اپنے افسانوں میں فطری انسان کو پیش کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔وہ انسان کی فطرت اور جبلت کواچھی طرح سمجھتے ہیں۔وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان معاشرتی سطح پر کس طرح سمجھوتہ کرسکتاہے اور کس سطح پر نہیں۔  وارث علوی رقمطراز ہیں:
ان کا سروکار زندگی کے بنیادی محرکات سے ہے۔آدمی اپنی فطرت اور اپنی اصل میں کیا ہے۔زندگی کی بنیادی جبلتیں اور ان کی تشفی کے ذرائع کیا ہیں۔ معاشرتی سطح پر انسان ان جبلتوں کو مسخ کیے بغیر کیا ان سے اطمینان بخش سمجھوتہ کرسکتاہے۔انسان کی جذباتی ضرورتیں کیاہیں۔اور اگر ان ضرورتوں کو پورا نہ کرسکنے کے سبب اس کی زندگی میں بگاڑ اور انتشار پیدا ہوتا ہے تو اس کی ذمے داری خود اس پر اور اس کے معاشرتی اور تمدنی طریقہ حیات پر کس حد تک عائد ہوتی ہے۔یہ ایسے سوالات ہیں جن میں بیدی کو دلچسپی ہے۔گویا بیدی کو حیات انسانی کے ان مسائل میں دلچسپی ہے جن کا ادراک صرف فنکارانہ تخیل سے کیا جاسکتا ہے۔“ 
)راجندر سنگھ بیدی: ایک مطالعہ: وارث علوی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2012، ص16-17(
اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کانام زیادہ اہم ہے۔انھوں نے عورتوں کے مسائل کو زیادہ بیان کیا ہے  بالخصوص متوسط مسلم گھرانے کی عورتوں کو اپنے افسانوں میں پیش کیاہے۔ عصمت چغتائی ترقی پسند تحریک سے باضابطہ وابستہ رہی ہیں،اس لیے ان کے افسانوں میں ترقی پسند خیالات کے عناصر بخوبی ملتے ہیں۔پریم چند، اوپندرناتھ اشک، کرشن چندر،منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی کے علاوہ دوسرے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی انسان کا تصور ملتاہے۔گویاکہ ہر ادیب انسان کے اردگرد سے ہی اپنی تخلیقات کامواد فراہم کرتاہے اور انسانی سماج کی تشکیل وتعمیر میں اپنا تعاون پیش کرتاہے۔

Tariq
S/o Shamusuzzoh, House No 626,
Nav Jeewan Colony, Tahirpur
Road No 64, New Seemapuri
Delhi- 110095
ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں