20/12/19

اجنتا کے غار مضمون نگار: احمد اقبال


اجنتا کے غار
احمد اقبال
مہاراشٹر کا شہر اورنگ آباد ایک تاریخی و سیاحتی شہر ہے۔ اندرون شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار ہیں جیسے دکن کا تاج (بی بی کا مقبرہ)، پن چکی، فصیل شہر، تاریخی دروازے، ملک عنبرؒ اور اورنگ زیب عالمگیرؒ کے عہد کی عمارتیں، سنہری محل، نپٹ نرنجن کی سمادھی اور اورنگ آباد کے غار وغیرہ۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ضلع اورنگ آباد میں جس قدر غار اور مورتیاں ہیں، شاید پورے بھارت میں نہیں ہوں گی۔ ایک اندازے کے مطابق غاروں کی تعداد ایک (100)  سو ہے۔
بیرون شہر جانب مغرب قلعہ دولت آباد، خلدآباد اور فن سنگ تراشی کے شاہ کار ایلورہ کے غار واقع ہیں۔ جانب شمال شہرہ آفاق اجنتا کے غار ہیں جنھیں World Heritage Monuments  کا درجہ حاصل ہے۔
اجنتا کے عالمی شہرت یافتہ غار، بدھ مت کی بولتی تاریخ ہے گوتم بدھ کے ماننے والوں نے ان کی زندگی اور تعلیمات کو تصاویر کی شکل میں غاروں کی دیواروں پر تحریر کیا ہے۔
اجنتا، ہندوستان کا وہ چھوٹا سا گاؤں ہے جو ساری دنیا کے سیاحوں، مداحوں اور ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ کا مرکز ہے۔ ان غاروں کی قدامت کا اندازہ چینی سیاح ہیون سانگ اور فاہیان کے سفر ناموں سے بھی ہوتا ہے۔
سطح مرتفع دکن میں واقع یہ غارانسانی ہاتھوں کی کاری گری اور محنت شاقہ کا بے مثال کارنامہ ہے۔ ان میں سب سے پرانے غار تو وہ ہیں جو تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل بنائے گئے تھے اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے ہیں۔ اس طرح ان غاروں کو تراشنے میں اندازاً کئی نسلوں نے اپنے خون جگر کا نذرانہ پیش کرکے تصاویر اور سنگ تراشی کے ذریعہ مہاتما گوتم بدھ کو دنیا کے سامنے پھر سے لا کھڑا کیا ہے۔ اجنتا کے یہ فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ خود تیار کرتے اور ان رنگوں کے فنکارانہ استعمال سے واقف تھے۔ تصاویر اور رنگوں کے امتزاج کی گہرائی سے جانچ کرنے پر یہ بھی پتہ چلا ہے کہ رنگوں کی تیاری میں ایسی اشیاء کا استعمال کرتے تھے جن میں نیلاتوتیا (کاپر سلفیٹ) اور آیوڈین بھی پائی جاتی تھیں۔ اجنتا کے یہ ماہرین فن بڑے حساس، جدت پسند، اختراعی اور سائنٹفک ذہن کے مالک ہی نہ تھے بلکہ کشش ثقل اور علم ہندسہ کے بارے میں بھی اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے۔ زاویے، قوسین، دائرے، فاصلے، طول و عرض، حجم اور Light & Shed کا استعمال بڑی مہارت سے کرتے تھے۔ ان کا مشاہدہ، شاعرانہ مزاج اور ذوق جمال بھی اعلیٰ درجہ کا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا جیسے کوئی غیبی طاقت ان کی مددگار رہی ہو۔ ان غاروں میں کچھ تصاویر ایسی بھی ہیں جنھیں ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں جیسے فولڈنگ ٹیبل، ایک کرسی جس پر ہیٹ اور ٹائی پہنے غیر ملکی سیاح بیٹھا ہے۔
اجنتا کے غار جن لوگوں نے دیکھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان غاروں میں آج کل الیکٹریسٹی کا استعمال ہوتا ہے جبکہ صدیوں پہلے بدھ بھکشوؤں نے روشنی کے حصول کے لیے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا تھا وہ یہ کہ غاروں کے منہ پر صیقل شدہ فولادی چادریں رکھ دی جاتیں جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی تو اس کا عکس غاروں کے اندر پڑتا۔ یہی نہیں، اندرونی حصوں میں بھی اسی طرح کی چادریں رکھ دی جاتیں تاکہ کام میں آسانی ہو۔ مشعلیں بھی استعمال کی جاسکتی تھیں لیکن دھوئیں سے تصاویر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ علاقے کے قدیم راجاؤں نے جو خود بھی بدھ مذہب کے پیروکار تھے اس کام کے لیے اعلیٰ درجے کے فنکاروں کی سرپرستی کی تھی۔ یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔
اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر اور جلگاؤں سے پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ہوائی اور ریل کا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے صرف سڑک کے ذریعہ پہنچا جاسکتا ہے۔ دور و نزدیک کے سیاح علی الصبح پہنچ جاتے ہیں۔ محکمہ سیاحت نے غاروں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت ٹورسٹ اسپاٹ T. Point  کی شکل میں ڈیولپ کیا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں سے دور بین کی مدد سے ان غاروں کو دریافت کیا گیا تھا۔ یہاں سے CNG کی AC اور Non-AC بسوں کے ذریعہ غاروں تک پہنچاجاسکتا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق محکمہ ایس ٹی کو سالانہ لاکھوں روپیوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ سیاحوں کو مختلف سہولتیں دی جاتی ہیں جس کے لیے فیس یا Tax کے نام پر اچھی خاصی رقم وصول کی جاتی ہے۔ ملکی لوگوں سے داخلہ فیس چالیس روپئے اور غیرملکیوں سے چھ سو پچاس روپے یا اس کے مساوی ڈالر لیے جاتے ہیں۔ کیمرے سے تصویر کشی ممنوع ہے۔
اجنتا کے غار اجنتا رینج پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ ان پتھروں کو Valcanic  یا Amedgalight   Hinyadri کہتے ہیں۔ ان گہرے سیاہ پتھروں کی خاص بات یہ ہے کہ آسانی سے تراشے جانے والے ہوتے ہیں۔ ان کے ریشے ایک دوسرے سے پیوست اور پرت در پرت والی چٹانوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے شلپ کاروں نے ان کا انتخاب کیا۔ بدھ مت کے عروج کے زمانے میں یہ غار مکمل ہوئے۔
کہتے ہیں زمانہ سدا ایک حال پر نہیں رہتا۔ آخر وہ وقت بھی آیا جب برہمن مت کو فروغ ہونے لگااور بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے لوگوں کا ترک مقام بھی یہاں تک کہ کوئی بدھ مت کا نام لیوا بھی باقی نہ رہا۔ سیکڑوں برس بیت گئے لوگ بھول گئے کہ یہ علاقہ کبھی بدھ مذہب کا ایک بڑا مرکز بھی تھا۔
اجنتا کے ان غاروں کی بازیافت نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں ہوئی۔ مشہور ہے کہ کچھ شکاری اس مقام سے گزر رہے تھے۔ یہاں انھیں کچھ غار نظر آئے۔ اندر انھیں بڑی خوبصورت تصاویر اور مورتیاں نظر آئیں وہ حیران رہ گئے۔ اس بات کی اطلاع ایسٹ انڈیا کمپنی کو دی گئی اور کمپنی نے غاروں کو محفوظ کرنے کے اقدامات کیے۔ تصاویر کی نقل کاری کی تیاری کا کام شروع ہوا۔ یہ ذمہ داری میجرگل کو دی گئی تھی۔
1885 میں ایک کتاب ’اجنتا میں بدھ مت کے غاروں کی تصاویر‘ شائع کی گئی۔ دلچسپی رکھنے والوں نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہیں سے یوروپی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔
1924 میں آصف سابع میر عثمان علی خان بہادر کے حکم پر مولوی غلام یزدانی صاحب کو ناظم آثار قدیمہ بناکر اورنگ آباد بھیجا گیا۔ جب انھوں نے یہاں کا انتظام سنبھالا اس وقت غاروں میں غلاظت بھری پڑی تھی۔ چھت سے پانی ٹپکتا تھا، غاروں میں نمی تھی، حشرات الارض نے غاروں کو اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس جانب خصوصی توجہ دی۔ مٹی ہٹاکر صفائی کروائی گئی۔ غار نمبر ایک سے انتیس تک راستہ تعمیر کیا گیا۔ قریب ترین فرداً پوری سڑک کی مرمت کروائی گئی۔ ان بنیادی کاموں کے ساتھ ساتھ گیارہ اہم تصاویر کی نقول جرمنی میں چھپوانے کے لیے بھجوائی گئیں۔ 1934 میں یزدانی صاحب کا یہ کارنامہ منظر عام پر آیا۔ اجنتا پر اردو زبان میں شائع ہونے والی یہ اولین کتاب تھی۔ اس زمانے میں ہندوستان بھر میں رنگین تصاویر کی چھپائی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ان گیارہ رنگین تصاویر کی فہرست اس طرح ہے:
1۔       محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو (دراصل خود گوتم بدھ ہیں)
2۔       محل کا منظر
3۔        محل کے اندر رقص و سرور کا منظر
4۔        بدھی ستوا پدما پانی
5۔        بدھی ستوا والوکیشور
6۔        زیورات پہنے ہوئے کالی رانی
7۔        شہزادی ماپا بوگ (کالی رانی)
8۔        ایرن وتی
9۔        ہیلوں کی لڑائی کا ایک منظر
10۔11۔ چھت پر بنی دو تصاویر
یزدانی صاحب نے اپنے معاونین کی مدد سے جو خدمات انجام دی ہیں ان میں سیاحوں کے لیے خصوصی  کیمپ، گیسٹ ہاؤس، پانی کی فراہمی وغیرہ بنیادی کام شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے دست راست مولوی خان بہادر سید احمد کی خدمات بھی لائق ذکر ہیں۔ یہ وہی خان بہادر سید احمد صاحب ہیں جنھوں نے انجمن اشاعت تعلیم کو اورنگ آباد کے محلے بڈی لین کا اپنا ذاتی وسیع اور رہائشی گھر بہت معمولی قیمت پرلڑکیوں کے اسکول کے لیے انجمن کو دیا تھا جہاں آج کل ضیاء العلوم گرلس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج جاری ہے۔
میر عثمان علی خان والیِ دکن کی فیاضانہ امداد سے آج اجنتا دنیا کے نقشے پر نظر آرہا ہے۔ اہل وطن کو چاہیے کہ وہ ان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کریں کیونکہ انھوں نے اجنتا کے غاروں کو منظر عام پر لانے کے لیے ذاتی طورپر دلچسپی لی تھی۔ حالانکہ جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں سے دنیا دوچار ہوچکی تھی۔ ہر طرف خوف اور خاموشی چھائی ہوئی تھی حیدرآباد میں بظاہر اطمینان کی فضا تھی۔ علم دوستی اور فن پروری کے لیے والیِ دکن نے جو کچھ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ 1914 میں ہی فن مصوری کی ایک دلدادہ خاتون Lady Herringhan  جب اجنتا آئیں تو ان کا حکومت وقت کی طرف سے نہ صرف استقبال کیا گیا بلکہ ان کی رہائش و آرام کا خصوصی انتظام کیا گیا۔ اس عمل سے دکن کی تہذیبی روایات اور خواتین کے ساتھ احترام کا بھی پتہ چلتا ہے۔ مصوری کے ان شاہکاروں کی دیکھ بھال اور ان کی نقول بنانے کے لیے جرمنی، فرانس، اٹلی وغیرہ یورپین ممالک سے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مصوری سے دلچسپی رکھنے والے مقامی لوگوں کو بھی اس کام میں لگایا گیا تاکہ بعد میں غیر ملکی ماہرین کی محتاجی نہ رہے اور یہ سب کچھ بادشاہ وقت میر عثمان علی خان کی خاص ہدایت پر ہورہا تھا۔ اس زمانے میں مصوری سکھانے کے لیے آرٹ اسکول قائم ہونے لگے۔ بمبئی کا مشہور جے جے کالج آف آرٹ تقریباً اسی زمانے میں قائم ہوا۔
دن گزرتے گئے۔ نظام حکومت نے کام کو آگے بڑھایا۔ مزید تصاویر کی نقول کروائیں۔ ماہرین فن نے اجنتا کی تصاویر کا بغور مطالعہ کیا۔ ان میں گوتم بدھ کی زندگی کی تلاش کی۔ ان تصاویر کا آپسی تعلق دریافت کیا گیا۔ گوتم بدھ کے بارے میں آج جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ ان ہی تصاویر کا مرہون منت ہے اور غالباً ان مصوروں کا اصل مقصد یہی تھا کہ آنے والے زمانے میں لوگ ان تصاویر کی مدد سے گوتم بدھ کی حیات اور تعلیمات کے بارے میں جان سکیں۔
ابتدا میں آرٹ کے ان نمونوں کو فنی نقطہ نظر سے دیکھا گیا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے ان میں مذہبی پہلو بھی درآیا۔
بہرحال اجنتا کی مصوری کے ان شاہکار نمونوں کو دیکھ کر ان کے بنانے والوں کی ہنرمندی، ایثار و قربانی، خلوص و انہماک اور سب سے بڑھ کر ان کے جذبہ صادق کی داد دینی ہوگی اور ان کے اپنے مذہب کے تئیں سچی محبت اور مرمٹنے کی تمنا کا اظہار نظر آتا ہے۔ آبادی کے شور و شغف اور ہنگاموں سے دور، گھنے جنگلوں میں ایک پرفضا مقام پر گیان دھیان کے لیے جو مناسب جگہ درکار تھی وہ انھیں مل چکی تھی۔ موسموں کی سختی کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنی عبادت گاہوں کی، جن میں استوپا، استمبھ اور دھرم شالائیں شامل ہیں، بنانے میں جٹ گئے۔ یہاں پانی بھی وافر مقدار میں موجود تھا۔ واگھور ندی جو آگے چل کر تاپتی ندی بن جاتی ہے اسی پہاڑی سلسلے سے نکلتی ہے۔ کنارے کا پورا ماحول نہایت خوش نما، ندی کے بہتے پانی سے پیدا ہونے والا جلترنگ، سرسبز و شاداب درخت، سبز مخملیں گھاس، جابجا مختلف رنگوں کے پھولوں اور پودوں کی افراط، رنگ برنگے پرندوں کی چہچہاہٹ نے اجنتا کے غاروں کو ایسی خوبصورتی اور بانکپن بخشا ہے کہ جو ایک بار دیکھتا ہے دوسری بار دیکھنے کی حسرت لیے واپس لوٹتا ہے۔ اجنتا اور ایلورہ کے غاروں کے اندر فنکاروں نے جو بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں اور جو کام چھوڑا ہے۔ وجد کے بقول:
کام چھوڑا ہے کہیں نام نہیں چھوڑا ہے
اس کارنامے کو انجام دے کر یہ فن کار سوگئے جیسے نروان کے بعد خود گوتم بدھ سوگئے تھے۔ اجنتا کے غاروں کو کس طرح بنایا گیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ماہرین آثار قدیمہ نے کافی غور و خوض کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ غاروں کو بڑی ہوشیاری ہنرمندی اور منصوبہ بند طریقے سے تراشہ گیا ہے۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ ہمارے گھر بنانے کے عمل سے مختلف تھا۔ یعنی بجائے نیچے سے اوپر جانے کے، چٹانوں کو اوپر سے نیچے معمولی اوزاروں، چھینی اور ہتھوڑی کی مدد سے نہایت صبر و ضبط کے ساتھ تراشا گیا۔ ابتدائی مرحلے کے بعد سطح زمین سے اونچائی کا تعین کیا گیا۔ چٹانوں کے تودوں، آگے پیچھے اور بازو کے کچھ حصوں کو عمداً چھوڑ دیا جاتا۔ بعد میں انھیں کھمبوں اور ستونوں کی شکل دی جاتی۔ فرش صاف کیا جاتا۔ دیواروں پر گوبر اور چاول کے بھوسے کے آمیزے سے لیپ دے کر چکنا بنایا جاتا۔ تب کہیں جاکر اتنی عمدہ تصاویر بنائی جاسکیں۔ غار نمبر پانچ دیکھ کر ان باتوں کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ کھدائی کا کام اسی ترتیب سے ہوا۔ بدھ مت کے ماننے والے یہ فنکار غاروں کی توسیع، مورتیوں کو تراشنے کے ساتھ ساتھ تصاویر کی زبانی بدھ مت کی تعلیمات کو پھیلانے کا کام بھی کرتے رہے۔
اجنتا کے غاروں کی جملہ تعداد تیس ہے۔ ماہرین نے ان غاروں کو ’چتیہ گرہ‘ اور ’وہارہ‘ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ آئیے دیکھیں یہ تقسیم کس طرح کی ہے:

(1       چتیہ گرہ:  دراصل ان گھپاؤں کو کہا جاتا ہے جن میں بدھ دھرم والے عبادت کرتے تھے۔
(2        وہارہ:  وہ مقام جہاں یہ لوگ سوتے جاگتے اور کھاتے پیتے اور رہتے تھے۔

اپنی بات کو بڑھانے سے قبل بدھ مت کی تعلیمات کے بارے میں مختصراً جان لینا ضروری ہے۔ گوتم بدھ کے آٹھ اہم اپدیش ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ انسان کو آٹھ چیزوں سے پناہ مانگنا چاہیے کیونکہ ان میں سے کسی کا بھروسہ نہیں۔ وہ آٹھ چیزیں یہ ہیں: 1۔ آگ، 2۔پانی، 3۔تپ لرزہ، 4۔فتنہ قتل و غارت گری، 5۔سانپ، 6۔شیر،7۔ہاتھی  اور 8۔بچے کی پیدائش۔
مہاتمابدھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ زندگی میں پیش آنے والے دکھ، مصیبت اور ڈر سے چھٹکارہ پانا ہی ’نروان‘ ہے۔ اس کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے من کو صاف رکھے اور برے کام خواہ کتنے ہی اچھے اور دلکش کیوں نہ ہوں انھیں ترک کردے کیونکہ برے کام کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اور آخر میں پچھتاوا ہاتھ آتا ہے۔ غریبوں، ضرورت مندوں، مصیبت زدوں کی مدد ہی میں اصل خوشی ہے۔ بالآخر ان کی تپسیا رنگ لائی۔بہار میں بدھ گیا کے مقام پر برگد کے درخت کے نیچے انھیں نروان حاصل ہوا اس وقت ان کی عمر 35/برس  تھی۔ بقیہ عمر انھوں نے اپنے مذہب کی اشاعت میں لگائی۔ گوتم بدھ کا انتقال 80/برس کی عمر میں ہوا۔ سیکڑوں برس کی یکسانیت کی وجہ سے بدھ مت کے پیرؤں میں اختلافات نے سر اٹھایا جس کے نتیجے میں اس مذہب کے ماننے والے دو الگ الگ فرقوں ’ہن یان‘ اور ’مہایان‘ میں بٹ گئے۔
ہن یان‘ کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ اس میں مہاتما گوتم بدھ کی مورتی پوجا نہیں ہوتی کیونکہ خود گوتم بدھ مورتی پوجا کے خلاف تھے۔ اسی لیے چیتہ گرہ میں بدھ کی مورتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے بجائے پتھر سے تراشے گئے استوپا نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل گوتم بدھ کی سمبالک ورشپ (علامتی عبادت) کا مقام سمجھا جاتا ہے۔
تیسری صدی میں ’مہایان‘ فرقہ وجود میں آیا جو مورتی پوجا کا قائل تھا۔ انھوں نے مہاتما گوتم بدھ کی مورتی تراش کر اس کی پوجا شروع کردی۔ یہ عمل بدھ مذہب کی تعلیمات کے عین خلاف تھا۔ ان کی گپھاؤں میں گوتم بدھ کی مورتی دکھائی دیتی ہے۔
اجنتا کے تیس غاروں میں سے 26,19,10,9 نمبر کے غار چتیہ کہلاتے ہیں باقی تمام وہارہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان چار چتیہ غاروں میں 10,9 ’ہن یان‘ کے فرقہ کے جبکہ 26,19 مہایان فرقے کے مندر ہیں۔
اسی طرح غار نمبر ایک تا آٹھ، اٹھارہ، بیس تا پچیس اور ستائیس تا تیس مہایان فرقے کے اور بقیہ گیارہ غار ’ہین یان‘ فرقے کے ہیں۔ فی الحال چار غاروں، ایک، دو، سولہ اور سترہ میں جا تک تصاویر کو محفوظ کردیا گیا ہے۔ جاتک دراصل اس کہانی کو کہا جاتا ہے جس میں لارڈ بدھا کے سابقہ جنموں، جدوجہد، قربانی کے واقعات کے علاوہ انھیں اپدیش دیتے ہوئے فنکارانہ انداز میں تصاویر کے ذریعہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں لارڈ بدھا کی زندگی کی مرحلہ وار جھلکیاں دکھائی گئیں ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کے عقیدے کے مطابق گوتم بدھ نے کئی جنم لیے۔ تاریخی اعتبار سے انسانی روپ میں وہ صرف ایک بار ہمالیہ کی ترائی میں واقع ایک ریاست ’کپل وستو‘ کے راجہ سدھودھن کے گھر پیدا ہوئے۔ اس موقع پر راجہ نے ایک جیوتشی سے ان کا زائچہ بنوایا۔ اس نے بتایا کہ نومولود کا یہ تیسرا جنم ہے یہ بچہ آگے چل کر بڑے دبدبے والا راجہ بنے گایا ایک مہاپرش بنے گا اور جس کا نام ساری دنیا میں ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہ سن کر گوتم بدھ کی ماں مہامایاوتی کے ہاتھ سے کنول کا پھول چھوٹ کر گرنے لگتا ہے (اس منظر کو غار نمبر ایک میں دکھایا گیا ہے)۔ یہ اور اس طرح کے کئی سوال ہیں جن کے جوابات تلاش کرنے کی ان سطور میں کوشش کی گئی ہے۔
بچپن ہی سے گوتم کی شاہی انداز میں تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی وہ سوچ بچارکرتے رہتے۔ انھیں عیش و آرام کی زندگی ناپسند تھی۔ وہ سوچتے ”کیا ہماری تمام خواہشیں پوری ہوں گی؟“ ”انسان دنیا میں کیوں پیدا ہوئے“، ”ایسا کون سا طریقہ ہے کہ تکلیفیں دور ہوں“۔ ایک مرتبہ انھیں ایک زخمی پرندہ نظر آیا‘ ایک بار ایک بوڑھے کو دیکھا، ایک ارتھی پر بھی ان کی نظر پڑی، وہ ہر بارغور و فکر میں ڈوب جاتے۔ ”لوگ مرتے کیوں ہیں؟“ ”مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟“ ”کیا انسان خود پیدا ہوتا ہے یا اسے پیدا کرنے والی کوئی اور ہستی ہے؟“ اس طرح کے کئی سوال انھیں بے چین کردیتے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ”یہ دنیا دکھوں اور مصیبتوں کی جگہ ہے اور خوشی اور مسرت بھاگتے سائے کی طرح ہیں“۔
گوتم کی زندگی دنیاوی رنگینی سے دور خاموش رہنے میں گزرنے لگی۔ وہ جوان ہوگئے۔ ان کی شادی ایک خوبصورت راجکماری یشودھا سے کردی گئی۔ ماں باپ اور بیوی سبھی کو امید تھی کہ آگے چل کر وہ راج پاٹ سنبھالیں گے۔ وہ راج گدی کے تنہا وارث تھے اور عوام میں بے حد مقبول بھی تھے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان کی غور و فکر کی عادت نہیں گئی۔ اسی دوران ایک سادھو نے گوتم سے کہا ”تمھیں سچائی اور سکون کی تلاش ہے تو جنگل میں جاکر بھگوان سے لَو لگاؤ، خوب تپسیا کرو، کامیابی تمھیں وہیں ملے گی“ چنانچہ وہ راج کمار جو محلوں میں پلا بڑھا، عیش و عشرت کی زندگی گزاری، محل میں لڑکے کی پیدائش کا جشن رقص و سرور اور اپنی بیوی بچے کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لیتا ہے۔ اس وقت ان کی عمر ۹۲/سال کی تھی۔ اس واقعہ کی تصویر بھی بنائی گئی ہے۔
تنگ و تاریک جنگل بیاباں، چاروں طرف ہو کا عالم، ہر طرف جنگلی اور خونخوار جانور، انھیں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ کھانا نہ پانی، کبھی کبھی گیان دھیان میں گھنٹوں بلکہ پہروں تک آنکھ بھی نہ کھولنا۔ کچھ دنوں بعد بھوک پیاس اور تکالیف کی وجہ سے ان کا تندرست و توانا جسم سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔ ادھر موسم کی پریشانیاں، غرض ان تمام مشکلات کا وہ سامنا کرتے رہے۔ اس دوران وہ کئی سادھوؤں اور سنیاسیوں سے بھی ملتے لیکن ان کی تشنگی کم نہ ہوتی اور دن مہینوں اور برسوں میں بدلتے گئے۔ وہ نروان یعنی نجات کا راستہ ابدی سکون یا ہمیشہ قائم رہنے والی خوشی کا راز جاننا چاہتے تھے۔ اس دوران وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ”انسانی زندگی میں رنج و آلام بھرے ہیں اور انسان خواہشات کا غلام بن گیا ہے۔ خواہشات کو مٹاکر ہی انسان ایک پرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔ وہ اپنے اپدیشوں میں بتاتے کہ نفس کی صفائی کے بغیر نجات ممکن نہیں اور یہ بھی کہ انسان مرنے کے بعد دوسرے جانداروں کے روپ میں پیدا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو محتاط زندگی گزارتے ہیں مرنے کے بعد اس بڑی روح میں مل جائیں گے جو سب پر حاوی ہے۔ وہ اصنام پرستی کے خلاف تھے۔ ذات پات کی بنیاد پر معاشرہ بٹا ہوا تھا۔ان کی مخالفت بھی ہوتی تھی۔ جب وہ آبادی کا رخ کرتے تو اسے ان کی سنگین حالات سے شکست سمجھا جاتا۔ وہ برابر اپنے اپدیش کو لوگوں تک پہنچاتے رہے اور لوگ ان کی تعلیمات پر عمل بھی کرنے لگے۔ گوتم لوگوں کو ان ہی کی آسان زبان پالی میں اپدیش دیتے۔ لوگ انھیں بدھ اور ’مہاتما‘ (روشن ضمیر) کہنے لگے۔ لفظ ’بدھ‘ ’بدھی‘ یعنی عقل سے بنا ہے۔
جاتک کی ان تصویری کہانیوں میں نہ صرف مہاتما بدھ کی حیات و تعلیمات ہی کو پیش کیا گیا ہے بلکہ اس زمانے کی عام جیتی جاگتی زندگی کا عکس، مردوں اور عورتوں کا لباس، رقص کے انداز، دربار اور درباریوں کی تصاویر کے علاوہ شب و روز کے حالات، تہذیبی و معاشرتی زندگی، تہواروں کے مناظر، قدرتی مناظر، باغات، جانوروں، کیڑوں مکوڑوں کی تصاویر بھی ملتی ہیں۔ یہی نہیں اجنتا کے یہ فنکار انسانی احساسات و جذبات، شادی و غم، غصہ و انکسار، محبت اور نفرت جیسے تاثرات کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنے پر بھی قدرت رکھتے تھے جو اپنے آپ میں بڑا مشکل کام ہے۔
مونالیزا کی ہلکی سی مسکراہٹ کی داد دینے والوں کو ان تصاویر میں بہت کچھ مل سکتا ہے۔ یہ ساکت و خاموش تصویریں بات کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اسی بات کو وجدیوں کہتے ہیں          ؎
یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں
مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں
غار نمبر ایک، دو، سولہ اور سترہ میں خوب صورت تصاویر ہیں۔ ان میں بعض جذباتی مناظر والی اور نیم برہنہ تصاویر بھی ہیں لیکن ان کو دیکھ کر ذہن میں پراگندہ خیالات کا شائبہ بھی نہیں ابھرتا۔ غار نمبر چار، نو، دس، سولہ، سترہ، اکیس، چوبیس، چھبیس میں سنگتراشی کے نمونے بھی ہیں۔ سیاحوں کا ہجوم ان میں زیادہ ہوتا ہے۔ ان غاروں میں بنائے گئے آرٹ کے نمونوں کو دیکھ کر سیاح فنکاروں کی عظمت کا اعتراف کرنے لگتے ہیں۔ ان تصاویر میں گہرانی اور گیرائی) Illusion   and  (Three Dimension پیدا کرنا ہندوستان کے ان ہی فنکاروں کی ایجاد ہے۔ یہ فن پندرہویں صدی میں یوروپ میں پھیلا۔
اجنتا کے تیس غاروں کی نمبر وار تفصیل حسب ذیل ہے:
غار نمبر1:
واحد چٹان پر بیس ستونوں پر قائم یہ غار مستطیل نما ہے جسے بڑی مہارت سے بنایا گیا ہے۔ اس میں ’جاتک‘ کہانیوں کو تصویروں کے ذریعہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں مہاتمابدھ کے پچھلے جنموں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی روپ میں آنے سے پہلے وہ سفید ہاتھی، راج ہنس وغیرہ کے روپ میں آچکے ہیں۔
ہال کی ایک دیوار پر ایک حیران کن اور فن مصوری کا شاہکار پدماپانی کی وہ قد آدم تصویر ہے جو دیوار پر اتاری گئی ہے۔ اس کے ہاتھ میں پاکیزگی، محبت اور نیکی کی علامت کنول کا پھول ہے۔ غور سے دیکھنے پر اس کی آنکھوں کی پلکیں پیروں کے انگوٹھوں پر پڑتی نظر آتی ہیں۔ دور سے دیکھنے پر یہ تصویر سیدھی نظر آتی ہے۔ سیدھی جانب سے سیدھی طرف اور بائیں جانب سے بائیں طرف جھکی نظر آتی ہے۔ اگر ذرا دور سے  90 درجہ سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ تصویر دیوار سے آگے نکل، معلق کھڑی نظر آتی ہے۔ غور سے دیکھنے پر اس کے چہرے پر بڑا اطمینان، سکون اور روحانی مسرت نظر آتی ہے۔ اس کے جسم پر بنائے گئے موتیوں والے گہنے، کمر میں بندھا دوپٹہ، سرپر سنہرا تاج وغیرہ قابل دید ہے۔
آصفی دور کے ماہر آثارِ قدیمہ جناب غلام یزدانی صاحب نے اس تصویر کو اجنتا کی جان کہا ہے۔
یہاں ایک اور تصویر ’بدھی ستواپانی‘ کی ہے جو مہاتمابدھ کے مددگار تھے۔ اس غار میں مصوری کے دیگر اعلیٰ نمونے بھی ہیں۔
غار نمبر2:
سنگتراشی کے اس نادر نمونے والے غار میں (16) ستون ہیں۔ اس میں تصویروں کی زبانی گوتم بدھ سے متعلق حسب ذیل معلومات ملتی ہیں:
1۔        راج ہنس کے روپ میں گوتم بدھ کی پیدائش
2۔        گوتم بدھ کے بچپن کا منظر جس میں انھیں پیروں پر چلتا دکھایا گیا ہے۔
3۔        ’مایاوتی‘ اپنے خواب کو اپنے شوہر سے بیان کررہی ہے۔
4۔        ایک تصویر میں گوتم بدھ پر (23) راج ہنس سایہ کیے ہوئے ہیں۔
5۔        اس غار کی چھت پر بنے بیل بوٹے جو آج کے ماڈرن زمانے میں کپڑوں اور ساڑیوں پر نظر آتے ہیں۔
6۔        گوتم بدھ کی ایک دھندلی سی تصویر، اس رات کی ہے جب وہ اپنی بیوی بچے اور محل کے عیش و آرام کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لینے کے ارادے سے نکل رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر جس کشمکش کو دکھایا گیا ہے وہ فن مصوری کا کمال ہے۔ لوگ مونالیزا کی زیرلب مسکراہٹ کو تو یاد رکھتے ہیں، انھیں اس جانب بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
7۔        اس میں ایک اور کہانی تصویروں کی زبانی پیش کی گئی ہے۔ ناگ دیس کا راجہ ’درونا‘ اپنی چہیتی بیوی کو بتاتا ہے کہ’اندرپت‘ کا وزیر ’ودھورپنڈت‘ کا طرز بیان اتنا اثر انگیز ہے کہ جو سنتا ہے وہ اس میں محو ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر رانی ضد کرتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ وہ اس وقت تک کھانا پانی آرام و آسائش تیاگ دے گی جب تک وہ اس کو بولتے ہوئے خود سن نہ لے۔ یہ سن کر راجہ درونا پریشان ہوجاتا ہے۔ اس مشکل کو اس کی نوجوان حسین بیٹی ’ارون وتی‘ دور کرتی ہے۔ وہ خوب سنگھار کرکے جنگل میں جھولا ڈال کر جھولا جھولنے اور گانا گانے لگتی ہے۔ ادھر سے ودھورپنڈت اپنے اڑن کھٹولے پر سوار گزرتا ہے۔ ارون وتی کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوکر اس سے شادی کی درخواست کرتا ہے۔ اسے اندرپت چلنے کی شرط پر وہ منظور کرلیتی ہے۔ اس طرح راجہ درونا کی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔
8۔       رقص کے ایک منظر میں رقاصاؤں کے زیورات، دوپٹے، چوڑے بارڈروالے گھیردار لہنگے آج کے جدید لباس کی طرح نفیس اور باریک ہیں۔ آلات موسیقی، مردنگ، مجیرے، بانسری کے علاوہ طبلے کی جوڑی جس کے دونوں طرف جھیلوں کو کسنے والی ڈوریاں بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔
9۔       اسی غار میں گوتم بدھ کا ایک مجسمہ بھی ہے۔
غار نمبر3: اس میں کوئی تصویر ہے اور نہ ہی کوئی مجسمہ ہے۔
غار نمبر4: تمام غاروں کے مقابلے میں نسبتاً بڑا ہے اس میں مہاتما بدھ کا مجسمہ ہے جس میں وہ اپدیش دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
غار نمبر5: یہ نامکمل اور خالی ہے۔
غار نمبر6: مہاتما بدھ کے مجسمے کے علاوہ دو مگرمچھوں کے مجسمے ہیں جن کے منہ میں پھولوں کے ہار ہیں۔ اس سے جانوروں کی مہاتما بدھ سے انسیت اور عقیدت کا پتہ چلتا ہے۔
غار نمبر7: گوتم بدھ اور ان کے دو محافظوں کے مجسمے ہیں۔
غار نمبر9: اس بڑے غار میں ’22‘ ستون ہیں اور ایک استوپا ہے۔
غار نمبر10: ’39‘ ستونوں والا یہ غار جس میں لوگ جمع ہوکر تبادلہ خیالات کرتے تھے۔
غار نمبر11 تا غار نمبر15: ان غاروں میں بھی بدھ مت کی تعلیمات کا اہتمام ہوتا تھا۔
غار نمبر16: اس میں دو تصویریں ’بدھی متواپانی‘ اور ’بدھی ستوا وجراپانی‘ کی بھی ہیں جو مہاتما بدھ کے محافظ تھے۔ ایک اور تصویر میں گوتم بدھ کے بھائی کے تیاگ کا منظر‘جس میں نجومی کی بات سن کر ان کی ماں مایاوتی گھبرا کے بے ہوش ہوجاتی ہے اور اس کے ہاتھ سے کنول کا پھول گر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک منظر میں جن محافظوں کو دکھایا گیا ہے ان کے لباس الگ الگ دکھائے گئے ہیں جیسے پاجامہ، دھوتی، تہہ بند وغیرہ۔ ایک رقص کا منظر بھی دکھایا گیا ہے۔ اسی غار میں ’سجاتا‘ نامی ایک خوبصورت خاتون کی بھی تصویر ہے جس نے بھوک پیاس سے نڈھال گوتم بدھ کو اس کیفیت سے نجات دلائی تھی۔ گوتم بدھ کا ایک بڑا مجسمہ بھی ہے جس میں وہ پیر پھیلائے ہوئے نظر آتے ہیں۔
غار نمبر17: یہ ایک بڑا ہال ہے جس میں لوگ عبادت کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس میں گوتم بدھ کا ایک بڑا مجسمہ ہے۔ اس کے علاوہ گوتم بدھ کو دوبارہ ہاتھی کے روپ میں جس کے چھ لمبے دانت ہیں‘ جنم لیتا دکھایا گیا ہے۔
اس غار کی تصاویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے بیک وقت کئی فنکاروں نے اپنے اپنے طورپر مختلف مناظر بنائے ہیں۔ مثلاً:
1۔       سیتاپھل کا ایک درخت جس پر مکوڑوں کی قطار دکھائی گئی ہے۔ یہ مکوڑے سچ مچ کے دکھائی دیتے ہیں۔
2۔        گوتم بدھ کو انسانی روپ میں جنم لیتا دکھایا گیا ہے۔
3۔        مگر مچھ اور اڑنے والے محافظ (گندھرو) دکھائے گئے ہیں۔
4۔       وہ منظر بھی ہے جب مہاتمابدھ اپنے محل میں بھکشا لینے پہنچتے ہیں۔ ان کا بچہ بھی نظر آتا ہے۔
5۔       راجہ ’وکاٹکا‘ کے ہاتھ میں چراغ دکھایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدھ مت کی تعلیمات کی روشنی چاروں طرف پھیل رہی ہے۔
6۔       ایک سنگھار کرتی عورت جس کے زیورات آج کل کے زیورات کی طرح نظر آتے ہیں۔
7۔       اس غار کی چھت پر مختلف مناظر ہیں جیسے انسان کے سر والی چڑیاں، گھوڑے کے سر والا انسان، نیلے رنگ کا سانپ، اشوک چکر، ایک چھتری جو آج کل کی چھتری جیسی ہے۔
8۔       پریاں، اڑنے والے اجسام جن کا دیومالائی کہانیوں میں اکثر ذکر ملتا ہے۔
9۔        ایک شہزادی کی تصویر جس کے گلے میں موتیوں کا ہار ہے جو لائٹ اینڈ شیڈ کی وجہ سے زیادہ چمکدار نظر آتے ہیں۔
10۔      گوتم بدھ کی بیوی یشودھرا کی دو الگ الگ تصاویر، ایک میں اسے حاملہ دکھایا گیا ہے۔ دوسری میں بچہ کی پیدائش کے بعد کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
غار نمبر18: اس غار میں کچھ نہیں ہے۔
غار نمبر19: اس میں گوتم بدھ کے بہت سے مجسمے ہیں۔
 اس میں ایک تصویر اس وقت کی ہے جب ایک عرصہ بعد گوتم خود اپنے گھر پر بھکشا مانگنے جاتے ہیں۔ ان کی بیوی یشودھرا انھیں بھکشا دینے دروازے پر آتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو پہچان کر ایک دوسرے کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ دونوں کے چہروں پر جذبات کی کشمکش کو مصور نے جس خوبصورتی اور چابکدستی سے ظاہر کیا ہے وہ لائق داد ہے۔ اس بات کی دونوں کو مطلق خبر نہیں ہوتی کہ اناج کے دانے جھولی کے باہر زمین پر گررہے ہیں۔ اس تصویر کا رنگ و روغن پھیکا پڑچکا ہے۔
غار نمبر20: اس میں گوتم بدھ کا ایک مجسمہ ہے۔
غار نمبر21: اس میں ناگ راجہ، اس کی بیوی اور بچے کی تصویر ہے۔
غار نمبر22: اس میں کنول کے پھول پر پیر پھیلائے گوتم بدھ کا مجسمہ ہے۔ دا  ہنی جانب بھی ان کا ایک اور مجسمہ ہے اس کے ساتھ گوتم بدھ کے سات چھوٹے چھوٹے مجسمے ہیں۔ یہ بدھ مت کے پھیلاؤ اور اشاعت کی طرف اشارہ ہے۔
غار نمبر23: ایک نہتا شخص مگرمچھ کو مارتا دکھایا گیا۔
غار نمبر24  اور  25: ان دونوں غاروں میں بھی کچھ نہیں ہے۔
غار نمبر26: باہر کی جانب گوتم بدھ کا مجسمہ اور دو محافظ دکھائے گئے ہیں۔ اندر کی جانب گوتم بدھ کو دو درختوں کے درمیان ابدی نیند سوتا دکھایا گیا اور آسمان سے پھول برس رہے ہیں۔
ایک اور تصویر میں گوتم بدھ کو عبادت میں محو بتایا گیا ہے جبکہ ’مایا‘ کو اپنی خوبصورت لڑکیوں سمیت ان کو بہکانے میں ناکام ہوکر واپس ہوتا دکھایا گیا ہے۔
غار نمبر27: اس میں گوتم بدھ کی زندگی کے آخری زمانے کے مناظر ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک عورت اور ایک چڑیا کی تصویر بھی ہے۔ یہ غار View Point  کے سامنے کی جانب ہے۔ بعد میں اس جگہ انگریز کی یادگار بھی بنائی گئی ہے جس نے ان غاروں کو دریافت کیا تھا۔
گوتم بدھ کی وفات کے بعد بدھ دھرم خوب پھیلا۔ سمراٹ اشوک نے کلنگ کی جنگ کے بعد کشت و خون سے توبہ کرلی اور بدھ دھرم کا سچا پیرو بن گیا۔ اس نے بدھ دھرم کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنے بھائی اور بہن کو دور دور کے ملکوں میں بھیجا۔ اشوک کے بعد راجہ ہرش وردھن نے بھی اس مذہب کی ترویج و اشاعت میں کافی دلچسپی دکھائی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بدھ مذہب چین، جاپان، کمبوڈیا، ویتنام، کوریا، منگولیا، سری لنکا، نیپال وغیرہ ممالک میں ایک مقبول مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ کچھ ملکوں میں تو اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے جبکہ یہ مذہب حضرت عیسیٰؑ سے بھی پہلے کا ہے۔ ان ممالک کے لوگ اس مذہب کو غیر ملکی نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے   ؎
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
1956 میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ اس مذہب کو قبول کرلیا تھا۔ اس دن کو مہاپری ورتن دن کہا جاتا ہے۔
گوتم بدھ کا شمار دنیا کے سو بڑے لوگوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر درج ہے۔ جاپان وغیرہ ملکوں کی مدد سے ایلورہ اور اجنتا کے غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر وغیرہ میں کافی سرمایہ لگایا گیا تھا۔ 2015 میں جاپان کے نائب صدر نے اجنتا کا دورہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اجنتا تک پہونچنے کے لیے چار لائن والی سڑک تعمیر کرنے میں مدد کی جائے گی۔
عالمی سطح پر ’اجنتا‘ کو ایک اہم تاریخی ورثہ تسلیم کیا جاچکا ہے۔ ہر سال دنیا کے کونے کونے سے بے شمار سیاح یہاں سیر کے لیے آتے ہیں۔ اجنتا کی مصوری، نقاشی اور آرٹ کے انمول نمونوں سے متاثر لوگوں میں ادیب اور شاعر بھی شامل ہیں۔ ان میں اورنگ آباد کے مایہ ناز شاعر سکندر علی وجد کا نام سرفہرست ہے۔
وجد کی نظم ’اجنتا‘ اردو ادب میں ایک خوبصورت اور قیمتی اضافہ ہے۔ اس کے ہر مصرعے میں شاعر کا دل دھڑک رہا ہے۔ اس میں ان کے خیال کی نزاکتیں، دراصل فن سنگ تراشی اور آرٹ کی نزاکتوں کا بیان ہے۔ اس نظم کے دو بند آپ کے ملاحظہ کے لیے پیش ہیں     ؎
جہاں خون جگر پیتے رہے اہل ہنر برسوں
جہاں گھلتا رہا رنگوں میں آہوں کا اثر برسوں
جہاں کھنچتا رہا پتھر پہ عکس خیر و شر برسوں
جہاں قائم رہے گی جنت قلب و نظر برسوں
جہاں نغمے جنم لیتے ہیں رنگینی برستی ہے
دکن کی گود میں آباد وہ خوابوں کی بستی ہے
جگر کے خون سے سینچے گئے ہیں نقش لاثانی
تصدق جن کے ہر خط پر تحیر خامہئ مانی
مُشکّل ہے شباب و حسن و تخییل انسانی
تقدس کے سہارے جی رہا ہے ذوق عریانی
گلستان اجنتا پر جنوں کا راج ہے گویا
یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا
آخر میں انھوں نے اجنتا کے تخلیق کاروں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے      ؎
محنت نہیں کی انھوں نے کسی انعام کی خاطر
جیے بھی کام کی خاطر مرے بھی کام کی خاطر
Ahmad Iqbal
A-18-4, Chelipura
Aurangabad - 431001 (MS)

Mob.: 9890711751


ماہنامہ اردو دنیا،نومبر2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں