23/12/19

فریاد داغ‘ اور داغ دہلوی مضمون نگار: مسرت جہاں


’فریاد داغاور داغ دہلوی
مسرت جہاں 

نواب مرزا خاں داغ دہلوی زبان و محاورے کے شاعر تھے۔ موضوع کے اعتبار سے حسن وعشق اُن کے میدان رہے جہاں انھوں نے خوب سے خوب ترجلوے بکھیرے ہیں۔الفاظ کے خوبصورت، برجستہ اور برمحل استعمال کے ساتھ روزمرہ کو برتنے میں داغ نے جوکمال کردِکھایا وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔اُن کی مثنوی”فریاد داغ“ اُن کے مخصوص رنگ میں شرابور ہے۔ شروع سے آخر تک داغ کا مخصوص رنگ عیاں ہے اور اُس رنگ کا جادو ہر جگہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔  لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مطالعہ داغ فریاد داغ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
داغ ایک زود نویس اور بسیار نویس شاعر تھے۔ بسیارنویسی کی مثال اُن کے سولہ ہزار غزلیہ اشعار اور کم و بیش چار ہزار دیگر اشعار ہیں جن میں شہرآشوب اور مثنوی شامل ہے۔ زود نویسی کی مثال خود مثنوی ”فریاد داغ“ ہے جس کے تقریباً ساڑھے آٹھ سو اشعارداغ نے محض دو دن میں نظم کردیے۔
داغ ؔکا اپنا ایک فکری زاویہ اور مطمح نظر ہے۔ شاعری میں موضوعات کی رنگارنگی اور تنوع کے بجائے گہرائی اور تہہ داری پائی جاتی ہے۔ معاملہ بندی اور عشق ان کے اہم موضوعات ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا عہدان خصوصیات سے بھرا ہوا ہے بلکہ عہد کے ساتھ ساتھ اُن کے نجی ماحول کا بھی کافی عمل دخل رہا۔ داغ کی پرورش و پرداخت بھی ایسے ہی ماحول میں ہوئی جہاں گھنگھروؤں اور پائلوں کی جھنکار، ڈھولک کی تھاپ اور طوائفوں کا ساتھ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ داغ کی والدہ اور خالہ نے بھی ایک سے زیادہ شادیا ں کی تھیں۔ نواب شمس الدین احمد خاں کو اس وقت پھانسی دے دی گئی تھی جب اُن کے فرزند داغ محض پانچ سال کے تھے۔ کچھ برسوں بعد داغ کی والدہ مرزا فخرو سے وابستہ ہوگئیں اور وہ قلعہ معلی میں پرورش پانے لگے۔ شاہی گھرانوں کے دیگربچوں کی طرح داغ نے بھی مختلف علوم و فنون کی تربیت حاصل کی۔ مثلاً گھڑ سواری، تلوار بازی، سپہ گری، خوش نویسی وغیرہ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا۔ دربار فہیم و فریس اور دور اندیش وزیروں سے بتدریج خالی ہو رہا تھا۔ بادشاہ کی حکومت محدود ہوئی جاتی تھی۔ انگریزوں کے تسلط وتغلب اوربے جا پابندیوں نے شاہی درباروں کومحدود و محصور کر دیا تھا۔ اس حصار اور قیدو بند کی زندگی سے آزاد ہونے کی کوشش اور حکمت عملی کے بجائے مغلیہ دور کے بادشاہوں نے یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو شراب و شباب میں ڈبو دیا۔ جوحالات تھے، اُسے ہی اپنا مقدر مان لیا۔ مرزا فخرو بھی ایسے ہی ماحول کے پروردہ تھے۔ انھوں نے بچپن ہی سے ایسا سماں دیکھا تھا جہاں بادشاہت ملک پرحکومت کرنے یا رعایا کے دُکھ سکھ کوبانٹنے کے لیے نہیں بلکہ زیست اورعیش و عشرت کے سامان مہیا کرنے کا نام تھی۔بساط حکومت ماہرین علوم اور یکتائے ہنر سے کہیں زیادہ رقاصاؤں اورڈیرے داریوں کے لیے بچھائی جاتی تھی۔ اندرون محل عیش و عشرت کے ساتھ گھٹن اور سازش کا ماحول تھا۔ بیرون میں غیرملکیوں کی اجارہ داری تھی۔ مرزا فخرو‘ بہادر شاہ ظفر کے فرزند تھے جن کی نگہداشت میں داغ نے زندگی کا ایک اہم حصہ گزارا۔بعد میں جب وہ رامپور منتقل ہوئے تو وہاں بھی ایسے نواب صاحب کی قربت اور ملازمت حاصل ہوئی جو خود ایک شوقین انسان اور حسن و رنگ کے دلدادہ تھے۔لال قلعہ میں اُنھوں نے جو کچھ بھی دیکھا اُس کا اثر ذہن پر ثبت ہوچکا تھا۔ رام پور کی زندگی نے  تِریاق کا کام کیا۔ ان کی تحریریں اس کی بہترین مثال ہیں۔
یہاں اس پس منظر کا بیان اِس لیے ضروری تھا کہ داغ اور حجاب کے درمیان تعلقات کے لیے اسی پس منظر نے زمین ہموار کی تھی اور پھر اسی تعلق کے ایک درمیانی واقعے کے طور پر ”فریاد داغ“ تخلیق ہوئی تھی۔ 838 اشعار پر مشتمل یہ مثنوی  1882 میں قلم بند کی گئی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔1956 میں تمکین کاظمی نے اسے ایک مبسوط اور وقیع مقدمے کے ساتھ آئینہ ادب،چوک انار کلی، لاہور سے شائع کیا۔
تمکین کاظمی لکھتے ہیں:
غدر سے پہلے ہندوستان میں طوائف سوسائٹی کا جزو سمجھی جاتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ طوائف سے مراد ان دنوں فحش پیشہ عورتیں نہ تھیں بلکہ وہ خاص طبقہ تھا جو گانے ناچنے کے فن کا ماہر مجلسی علم سے واقف اور تہذیب و تمدن کا نمونہ ہوتا تھا۔ اس طبقے کا رہن سہن‘ اس کا رکھ رکھاؤ‘ اس کی طرز معاشرت خاص تھی۔ شرفا اس سے خلا ملا رکھنا برا نہ سمجھتے تھے۔ ہر امیر‘ ہر رئیس‘ ہر شریف شخص کے پاس ایک طوائف نوکر تھی جو روزانہ ایک خاص وقت تک کے لیے آتی۔ گانا سناتی یا تھوڑی دیر اپنی بذلہ سنجی سے دل بہلاتی تھی‘ بڑے سے بڑے مولوی بھی طوائف سے ملنا معیوب نہ سمجھتے تھے۔پھر ڈیرہ دار طوائفیں ان میں بھی خصوصیت اور اعزاز رکھتی تھیں۔
آگے فرماتے ہیں:
ایسی ہی ایک ڈیرہ دار طوائف منی جان حجاب تھی جس سے داغ کی ملاقات بے نظیر کے میلے میں ہوئی۔
(تمکین کاظمی‘ مثنوی فریاد داغ‘ ص۔4)
بے نظیر کا میلہ ہر سال ایک باغ میں لگتا تھا جو باغ بے نظیر کے نام سے مقبول ہوگیا۔ اس میلے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ رامپور کے نواب کلب علی خاں بہادر اپنے شہر کو سجانے سنوارنے اور اس کی ترقی و ترویج کی سعی کرتے رہتے تھے اور اس کے لیے نت نئی ترکیبیں ایجاد کیا کرتے تھے۔ ”بے نظیر کا میلہ“ بھی انھیں کی ذہنی اختراع تھی۔1866  سے اس میلے کی ابتدا ہوئی۔ ہر سال مارچ کے آخری ہفتے میں میلے کا آغاز ہوتا تھا اور آخر میں ختم ہوجاتا تھا۔ کبھی کبھی اپریل کے پہلے ہفتے تک وہی دھوم دھام رہتی تھی۔نواب احمد علی خاں نے ایک کوٹھی بنوائی تھی جس کے اطراف میں ایک سر سبز و شاداب باغ تھا۔ اس کا نام بے نظیر تھا۔ اس کی شہرت دوردور تک پھیل گئی۔ اسی میلے میں 1881  میں حجاب اور داغ کا آمنا سامنا ہوا۔ داغ کو حجاب سے محبت ہوگئی۔مثنوی ”فریاد داغ“ کے قصے کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ اس مثنوی کی بدولت میلے کو بھی لافانی شہرت حاصل ہوگئی۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

آگیا بے نظیر کا میلا

دل پابند وضع کھل کھیلا
آفت جانِ ناتواں دیکھی

یک بیک مرگِ ناگہاں دیکھی
جلوہ دیکھا جو حور طلعت کا

سامنا ہو گیا قیامت کا
دیکھ کر اس پری شمائل کو

رہ گیا تھام تھام کر دل کو
دل کو میں ڈھونڈھتا رہا نہ ملا

آنکھ ملتے ہی پھر پتا نہ ملا
شاعر نے اپنے جذبات و احساسات کا بیان بہت ہی متاثر کن انداز میں کیا ہے۔وہ اپنی مسرت و انبساط کا اظہار اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ اپنے معاملات عشق و سرور میں سبھی کو شامل کرنا چاہتے ہوں۔ لکھتے ہیں:

رات کٹتی ہنسی خوشی کیا کیا

ہوتی رہتی کھلی وُلی کیا کیا
جاں نوازی پر اس کو ناز بھی تھا

بے نیازی میں کچھ نیاز بھی تھا
شاعر وہ دن اور زمانے کو یاد کرکے بے حد مسرور ہے اور کیف و مستی کا بیان بڑی روانی اور برجستگی سے کرتا ہے۔ ان کے اشعار سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محض تخیلات کا مرقع نہیں ہے بلکہ ان میں ذاتی تجربات و مشاہدات شامل ہیں۔ دراصل داغ کو عشق سے فطری میلان تھا۔ اُنھوں نے مثنوی کے ابتدائی حصے میں یعنی اصل قصے سے پہلے ہی عشق کی تعریف کی ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ عشق کی تعریف نہیں کی جاتی ہے لیکن میں اس کی تعریف میں لکھتا ہوں، اس لیے کہ عشق ہی انسان کو طاقت عطا کرتاہے۔دل کو تازہ اور دماغ کو معطر کرتا ہے۔ بزدل بھی تیز ہوجاتے ہیں۔ اس سے آنکھ اور دماغ روشن ہوتے ہیں۔ اُن کے اشعار دیکھیے:
یہ ہے ٹکسال نقد جاں کے لیے

یہ کسوٹی ہے امتحاں کے لیے
یہ داغ کا فکری نظریہ ہے۔ داغ عشق کو منفرد نظریے سے دیکھنے کے قائل تھے اور اسے زندگی کے لیے لازمی تصور کرتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے نہ اسے معیوب سمجھا اور نا ہی اس کی پردہ داری کی۔ ان کے عشق میں شدت اور گہرائی ہے۔ ان کا محبوب تصوراتی اور تخیلاتی دُنیا کا نہیں ہے بلکہ حقیقی دنیا کی گوشت پوست کی عورت ہے جس کا نام حجاب ہے۔ اُنھوں نے جسے چاہا، اُس سے کھل کر ملے اور پھر اس کا برملا اعتراف واظہار کیا۔
بے نظیر کے میلے کی سیر کے بعد حجاب واپس کلکتہ چلی گئیں۔ ایک سال بعد 1882 میں جب میلہ دوبارہ لگا تب حجاب کو داغ نے آنے کی دعوت دی اور وہ آئیں۔ اس ملاقات نے ان کے رشتے کو مزید مضبوطی عطا کی۔ مثنوی میں حجاب کے دوبار کلکتے سے آنے کا ذکر موجود ہے اور ایک دفعہ داغ نے کلکتے کا سفرکیا۔ داغ کے کلکتے کا سفر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کہانی کے زاویے سے دیکھا جائے تو محبوب دعوت قبول کرتے ہوئے سفر کرتا ہے اور مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ ادبی زاویے سے سفرِ داغ کی ایک الگ ہی اہمیت ہے جو دلی، لکھنؤ کانپور، الہ آباد اور عظیم آباد ہوتے ہوئے کلکتہ پہنچے:
چل کے دلی سے لکھنؤ پہنچا

ہمہ تن شوق و آرزو پہنچا
بہت اجڑے ہوئے مکاں دیکھے

مٹنے والوں کے کچھ نشاں دیکھے
خواب انجم نے میمانی کی

 اور بھی سب نے مہربانی کی
راہ میں کانپور، الہ آباد

میں نے دیکھے مگر نہ حسب مراد
اتنے میں آگیا عظیم آباد

تھا مجھے اس کا شوق حد سے زیاد
داغ کا یہ سفر بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ انھوں نے شہروں کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھنؤ دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا ہے چونکہ وہاں ایک زمانے میں نوابین اور ان کی حویلیاں ہوتی تھیں لیکن آج صرف اجڑی ہوئی علامتیں باقی ہیں۔ داغ نے عظیم آباد کی بہت تعریف کی ہے۔ لکھتے ہیں:
بہت اشخاص یک بیک آئے

اپنی اپنی سواریاں لائے
کوئی مجھ کو لیے ہی جاتا تھا

کوئی ناحق کا حق جتاتا تھا
کوئی کہتا تھا میرے گھر چلئے

آئیے اس طرف ادھر چلئے
تقریباً ڈیڑھ ماہ عظیم آباد میں رہنے کے بعد داغ کلکتہ پہنچ گئے جہاں بلاشبہ انھیں بے حد خوشی حاصل ہوئی۔ کلکتے کی تعریف میں لکھتے ہیں:
آئی ایسی ہوائے کلکتہ

دل پکارا کہ ہائے کلکتہ
داغ گرچہ حجاب کے لیے کلکتہ گئے تھے لیکن وہ شہر بھی اُنھیں بہت پسند آیا۔ وہاں کے لوگوں نے اُن کی بڑی قدرومنزلت کی۔ حجاب سے اُن کی ملاقات ہوتی ہے اور مرادیں بر آتی ہیں۔اُن کا وہاں اتنا دِل لگ گیا کہ اُنھوں نے اپنی چھٹی میں دو مہینے کی توسیع کی درخواست کرڈالی۔ البتہ منظوری صرف ایک مہینے کی ہی ہوئی۔بہرحال یہ وقت بھی گزرگیا اور رُخصت کی گھڑی آ پہنچی۔ داغ بادل ناخواستہ کلکتے سے واپس ہوگئے۔ اس کیفیت کا اظہار اُنھوں نے بڑے ہی دلدوز انداز میں کیا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
 اُنھیں جب معلوم ہوا کہ اب تو بس واپس ہو ہی جانا ہے‘  اُس وقت کی کیفیت دیکھئے:
میری رُخصت کے دن تمام ہوئے
عیش و عشرت کے دن تمام ہوئے

اس طرح کس طرح سے رہ جاتے
ہوئے باون برس نمک کھاتے
(یہاں 52 برس۔۔۔ اُن کی عمر سے مراد ہے، نہ کہ نواب رامپورکی ملازمت سے۔۔۔اُس وقت نواب رامپور کی ملازمت کے 17 سال ہی ہوئے تھے۔۔۔ بہرحال)
داغ نے جب حجاب کواپنی روانگی کی اطلاع دی، اُس وقت کی کیفیت کچھ اس طرح تھی:
میری رُخصت سے اُن کو حیرت تھی
کہ یہ رُخصت نہ تھی قیامت تھی

فکر تشویش  رنج تھا  غم تھا
عوضِ نغمہ شور ماتم تھا

اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہوئے
پاس بیٹھے تو منھ بنائے ہوئے
اور جب داغ رخت سفر باندھتے ہیں، اُس وقت کی کیفیت:
دل سے اپنے یہ گفتگو باہم
کیا رہے آئے کیا چلے کیا ہم

میں کہاں گریہ شبانہ کہاں
سر کہاں سنگ آستانہ کہاں

آبروکا خیال آتا ہے
عرقِ انفعال آتا ہے
 جب وہ کلکتے سے واپس آتے ہیں تو اُن سے غمِ فُرقت برداشت نہیں ہوتا ہے۔ شب و روز بے چین رہتے ہیں اور اُسی عالم میں ”فریاد داغ“ لکھ کر اپنی محبت کی داستان اور دلِ مضطرب کی پوری کیفیت رقم کردیتے ہیں۔ بقول گیان چند جین:
فریاد داغ دلّی کی آخری مشہور مثنوی ہے۔ زبان، بیان اور جذبات کے لحاظ سے یہ حکیم شوق کی مثنویوں کے قریب آ جاتی ہے۔
(اُردو مثنوی شمالی ہند میں۔ جلد دوم۔ ص362۔ انجمن ترقی اُردو ہند‘ نئی دہلی۔اشاعت دوم1987)
داغ نے ”فریاد داغ“ میں جہاں تک اپنی محبت کا ذکر کیا ہے اصل زندگی میں معاملہ اُس سے بھی آگے بڑھتا ہے۔ داغ کے خطوط اور مختلف محققین کے مضامین سے اس کا پتہ چلتا ہے۔ داغ جب نواب رامپور کے انتقال کے بعد حیدرآباد منتقل ہوجاتے ہیں اوراُن کے حالات پھر سے بہتر ہوجاتے ہیں۔ فارغ البالی کا دور شروع ہوتا ہے توداغ ایک بار پھر حجاب کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیتے ہیں۔اِس دوران حجاب اپنا گھر بسا چکی ہوتی ہیں مگر داغ کے اصرار پر وہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر حیدرآباد آجاتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ مثنوی داغ کی حیات، مزاج اور شاعری کو سمجھنے میں بہت معاون اور مددگار ہے۔ اس میں داغ کی شاعرانہ خصوصیات اور اُن کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ سر عبدالقادر کا یہ اقتباس اس خیال کو مزید تقویت عطا کرتا ہے:
ہرشعر حشر جذبات اور واردات قلبی کا نچوڑ ہے۔ وہ اشعار جن میں داغ محبت کا اظہار کرتے ہیں اس قدر پرلطف ہیں کہ ان کے خلوص‘ زور اور صداقت کے لحاظ سے بمشکل ان کے کسی ہم عصر کو یہ بات حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔۔ ان لوگوں کو جنہوں نے اس مثنوی کو اب تک نہیں پڑھا ہے میں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ضرور پڑھیں اور اس کے محاسن کے متعلق خود اپنی رائے قائم کریں۔ میری رائے میں اس مثنوی کا ادبی مقام بہت بلند ہے۔ اگرچہ داغ ؔ نے چار ضخیم دیوان چھوڑے ہیں مگر صرف یہ مثنوی ہی ان کے بقائے دوام کے لیے کافی ہے۔“(بحوالہ تمکین کاظمی۔ فریاد داغ۔ص 36-37)
Dr. Mosarrat Jahan
Assistant Professor
Department of Urdu
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad - 500 032 (T.S)



ماہنامہ خواتین دنیا، نومبر 2019
 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں