24/12/19

وحید الہ آبادی کی شاعری میں تصوف مضمون نگار: مہر فاطمہ



وحید الہ آبادی کی شاعری میں تصوف
مہر فاطمہ


وحید الہ آبادی اردو کے واحد ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے دیوان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے عظمت سخن کا نیا باب رقم کیا۔انھوں نے اپنے کلام کو بچانے کے لیے موت کو گلے لگالیا، دیوان تو محفوظ رہا لیکن صاحب دیوان نہ رہا۔ بقول مصحفی:

دنیا سے ہم چلے گئے ناچار مصحفی
ایک یادگار اپنا دیوان رہ گیا
وحید الہ آبادی انیسویں صدی کے اس سنہرے دور سے تعلق رکھتے ہیں جس میں با کمال اور استاد شعرا کی ایک کہکشاں موجود تھی مثلاً شاہ نصیر، ناسخ،آتش،ذوق،غالب،مومن،ظفر اور داغ وغیرہ۔جہاں یہ شعرا اردو غزل کو اپنی مشاقی، تخیل اور شاعرانہ صلاحیت سے چارچاندلگا رہے تھے وہیں وحید الہ آبادی کا نام شہرت کی بلندی کو چھو رہا تھا۔وحید الہ آبادی نے ابتدا  میں مرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورہ سخن کیا۔   وحید الہ آبادی خو د بھی کثیرالتلامذہ استاد فن تھے۔اکبر الہ آبادی نے بھی ان سے ہی اصلاح لی:

استادی وحید میں جس کو کلام ہو
تیار اس سے بحث کو اکبر ہے آج کل
وحید الہ آبادی کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے موضوعات روایتی تو ہیں لیکن اس میں خاصا تنوع ہے۔ان کے غالب موضوعات میں حسن و عشق کی باتیں، معشوق کے جور و ستم اور معشوق کا سراپا وغیرہ خاص ہیں۔ اس کے علاوہ تصوف، زندگی کی بے ثباتی، سفر، حب الوطنی، ہنگامہئ غدر، وحشت اور خمریات وغیرہ سے متعلق اشعار بھی ان کے کلام میں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ظاہر ہے،یہ روایتی موضوعات ہیں،لیکن انھیں وحید الہٰ آبادی نے جس خوبی اور تازگی کے ساتھ بیان کیا ہے، اسے دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ وہ غیرمعمولی خلاقانہ صلاحیت کے مالک تھے۔ ان موضوعات کو انھوں نے بخوبی نبھایا بھی ہے اور ہر جگہ قادر الکلامی کا ثبوت بھی دیا ہے۔
صنف غزل صرف حسن وعشق اور ان کے معاملات وکیفیات کی ترجمانی ہی تک محدود نہیں رہی ہے، بلکہ اس میں دیگرموضوعات بھی شامل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم موضوع تصوف ہے۔ تصوف کی اگر تعریف کی جائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ تصوف ایک نظام حیات ہے جو انسانی قلوب واذہان کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرکے اخوت ومحبت اورعمل و رواداری کو جنم دیتا ہے۔دوسرے لفظوں میں تصوف تزکیہئ نفس اور باطنی تطہیر کانام ہے۔ چونکہ تصوف کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس اور قرب خداوندی ہے۔ چنانچہ یہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ تصوف کو کسی نے افلاطونیت سے ماخوذ بتایا تو کسی نے بدھ مت سے۔ کسی نے یونانی فلسفہ کو اس کی بنیاد قرار دیا تو کسی نے اسے رہبانیت کا پیش خیمہ بتایا اور کسی نے اسلام کو اس کا سرچشمہ قرار دیا۔ اس سے قطع نظر دنیا کے تمام مذاہب نے اس کو اپنے اپنے طور پر اپنایا اورانسان کو اخوت ومحبت اورعمل ورواداری کا درس دیا اور قلب ونظر کی آلودگی سے پاک کرکے بندے کو خدا سے ملایا۔
عربی وفارسی میں تصوف کی ایک عظیم روایت رہی ہے۔ تصور عشق نے فنا وبقا، تسلیم ورضا، صبر وشکر، ہجر ووصال کو معنویت بخشی۔ فارسی شعرا نے تصوف کو اپنا موضوع سخن بنایا۔ فارسی کے پہلے شاعر سعید ابوالخیر سے لے کر سنائی، اوحدی، عطار، رومی، سعدی اور حافظ جیسے عظیم المرتبت شعرا نے ایک صحت مند روایت کی بنیاد ڈالی۔فارسی شاعری نے مئے تصوف کو دو آتشہ بنادیا۔فارسی کے زیر اثر اردو شاعر ی کی ابتداسے ہی تصوف شاعری کا اہم موضوع رہا۔ صنف غزل میں تصوف نے موضوعات کا تنوع اور خیال کی رنگا رنگی پیدا کی۔اس کو گہرائی اور سنجیدگی سے آشنا کیا۔ رفتہ رفتہ تصوف کے مختلف مسائل اردو غزل کا اہم جز و بن گئے۔ تصوف کے مسائل کی ترجمانی غزل میں نئی زندگی پیدا کرتی گئی۔ اس کے سہارے اس میں نئی امنگوں اور ولولوں کے چراغ روشن ہوئے اور تصوف کے متعلق کہاگیا کہ ”برائے شعر گفتن خوب است“۔ یہ کہنا کہ برائے شعر گفتن خوب است کہیں سے بھی غلط نہیں۔ تصوف نے غزل کی صحیح فنی اور جمالیاتی اہمیت ذہن نشین کرائی اور اس میں اپنے آپ کو پانے، اپنی حیثیت کو پہچاننے اور اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کا احساس وشعور پیدا کیا۔ اس نے غزل کی صنف کو حیات وکائنات کے مسائل سے آشنا کیا اور اس طرح اس میں ایک فلسفیانہ مزاج پیدا ہوا۔ چنانچہ ابتدا سے آج تک غزل کے ہر شاعر نے کسی نہ کسی حد تک اس کو اپنا موضوع بنایا۔ مثلاً ابتدا سے دیکھیں:
ولیؔ جن کو اردو شاعری کا ”باوا آدم“کہاجاتاہے۔ ان کی شاعری کا غالب رجحان تصوف نہ سہی مگر ایک اہم رجحان ضرور ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کی وہ تمام روایتیں موجود ہیں جن کی کڑیاں فارسی کے متصوفانہ اشعار سے جاملتی ہیں:

تجھ حسنِ عالم تاب کا جو عاشق وشیدا ہوا
ہر خوبرو کے حسن کے جلوے سوں بے وا ہوا

ہرذرہ عالم میں ہے خورشید حقیقی
یوں بوجھ کر بلبل ہوں ہر ایک غنچہ دہاں کا

مسند گل منزل شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدہئ بیدار کا

ولی عشق مجازی کو عشق حقیقی کا اول زینہ قرار دیتے ہیں:

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا

ولی کے ہم عصر سراج اورنگ آبادی کے یہاں تصوف سے زیادہ گہرا رنگ نظر آتا ہے۔ سراج کے نہاں خانہ دل میں جو ہنگامہ برپا تھا وہی عشق و سرمستی کا بے قرار نغمہ بن کر ان کی شاعری میں ظاہر ہوا۔ جذب وسرمستی کے عالم میں جو راگ الاپا وہ نغمہئ سرمدی بن گیا:

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

میر کے بارے میں یہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ وہ صوفیوں ے زیادہ قریب تھے لیکن یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میرؔ کے یہاں بھی متصوفانہ خیالات بہ کثرت ملتے ہیں۔ ان کی شاعری میں درد وغم، رنج والم اور عشق ومحبت کا ذخیرہ ہے۔ ان کو عشق کے سوا کچھ نظر نہیں آتا:

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر گیا ہے عشق
میرؔ کی شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
میر کے احساس کی شدت اور اس کے ساتھ گہرے انسانی شعور نے ان میں ایک آفاقی اور کائناتی رنگ پیدا کردیا ہے۔ اس لیے ان کا اثر ہمہ گیر ولازوال ہے، عشق وعاشقی کی مختلف کیفیات اور جذبات واحساسات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ میرؔ کی غزل میں تصوف اوراس کے مسائل کی ترجمانی بھی کم نہیں ہے۔ 
(غزل اور مطالعہ غزل،عبادت بریلوی،ص273)
چند شعر   ؎
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

تھا وہ تو رشک بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

دل پر خوں کی اک گلابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
خواجہ میر دردؔ متصوفانہ شاعری کی اس روایت کے امین ہیں جو فارسی شاعر عطار، رومی اورجامی کے ذریعہ اردو میں منتقل ہوئی۔ شاعری دردؔ کے نزدیک ذریعہ معاش تھی نہ باعث عزت، بلکہ دلی جذبات وکیفیات کا برملا اظہار شاعری کا سبب بنا۔
درد نے جس طرح مضامین معرفت وسلوک وتصوف کو شاعری میں سمویا اس کی مثال اردو شاعری میں تو کم سے کم نہیں مل سکتی۔ 
(خواجہ میر درد تصوف اور شاعری،وحید اختر،ص229)
یہ قول مبالغہ آمیز ضرور ہے لیکن کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ دردؔ نے عام لفظوں اور سادہ انداز میں تصوف کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو بہ آسانی سمودیا ہے  ؎

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سماسکے

غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

غالب کے یہاں مسائل تصوف کو جس قدر فلسفیانہ رنگ میں پیش کیاگیا اس کی مثال اردو شاعری میں نایاب ہے۔ غالب کی  بادہ خواری نے انھیں ولی بننے سے باز رکھا۔ کہتے ہیں:

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب مسائل تصوف کو قرآن وحدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں   ؎

دہر جز جلوہئ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
بلاشبہ کلام غالب میں جو معنویت اور تہہ داری ہے وہ کسی اور کے یہاں موجود نہیں۔غالب کے یہاں متصوفانہ مباحث کو دیکھتے ہوئے بعض نے انھیں صوفی ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ مصطفی صابری لکھتے ہیں:
غالبؔ کے صوفیانہ اشعار فی ا لحقیقت گنجینہ معنی کا طلسم ہیں۔
(غالب اور تصوف،سید محمدمصطفی صابری،ص12(
اشعار دیکھیے:
کثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہم
کردیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
خواجہ حیدر علی آتش نے لکھنؤ کی رنگین فضا میں رہ کر بھی صوفیانہ زندگی بسر کی۔ آتش کو تصوف سے قلبی لگاؤ تھا اور صاحب حال صوفی تھے۔ کلام میں جگہ جگہ تصوف کے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے پرویا ہے:
کون عالم میں ہے ایسا جو نہیں سر بسجود
کس کی گردن کو جھکاتا نہیں احساس ترا

ماسوا تیرے نہیں رہنے کو کچھ یاں باقی
جو ہے فانی ہے تیری ذات الا باقی
وحید الہٰ آبادی کا کلام دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں دو قسم کے رنگ زیادہ غالب ہیں۔ ایک صوفیانہ اور دوسرا عاشقانہ، وحیدؔ الہٰ آبادی کو آتشؔ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ وحیدؔ کو ناقدین نے سلسلہئ آتش کی اہم کڑی قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر ابوسعید نورالدین لکھتے ہیں:
سادگی اور صفائی، جو آتش اور سلسلہئ آتش کی خاص خصوصیت ہے، وہ  وحید الہٰ آبادی کے کلام کا بھی جوہر ہے اس لیے وحید الہ آبادی کو سلسلہئ آتش کی ایک اہم اورنمایاں کڑی تسلیم کرنا چاہیے۔
(مضمون:وحید الہ آبادی ایک تعارف،ابو سعید نوروالدین،مشمولہ:     وحید العصر حضرت وحید الہ آبادی، ص165(
وحید صوفی منش اور نہایت متقی پرہیز گا ر شخص تھے۔ جیسا کہ پہلے  ذکر ہو چکا ہے کہ وہ ایک بزرگ سے بیعت بھی تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تصوف کے تمام مسائل واشگاف نظر آتے ہیں۔نثار احمد فاروقی کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
وحید کی شاعری مصحفیؔ کے رنگ میں درد واثر سے خالی نہیں اور ان کی اندرونی کیفیات واحساسات کا آئینہ ہے۔ مصحفیؔ کے طرز کی یہ خصوصیت کہ اس میں ایک داخلی فضا رچی ہوئی اور لہجے کی متانت بھی غیر متوازن نہیں ہوتی، وحیدکی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ وحیدپر تصوف کا بھی غلبہ ہے وہ ایک درد مند دل رکھتے تھے اور صاحب حال بزرگ تھے۔ ان کی شاعری میں جگہ جگہ حقیقت کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔
(مضمون:وحید الہ آبادی،نثار احمد فاروقی،مشمولہ:آج کل، مارچ1957(
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسر امروہوی رقمطراز ہیں:
اردو شعرا میں بہت کم ایسے ہیں جن کے کلام میں تصوف کا گہرا رنگ موجود نہ ہو، خصوصاً وہ بزرگ جن کو مبدا ء فیض سے چشم بینا ودل بیدار عطا ہوا ہے، ہرذرے میں آفتاب اور ہر قطرے میں دریا کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں تمام ظاہر علوم جو صورتاً مختلف ومتبائن نظر آتے ہیں درحقیقت ان کا سر چشمہ ایک ہی ہے۔ وحید نے اس مسئلے کو بڑے ہی سلیس اندازمیں بیان ہے۔
وحیدالہٰ آبادی کی شاعری معرفت سے بھرپور ہے۔ ان کے اشعار میں عشق حقیقی کی چاشنی موجود ہے۔  بیشتر اشعار میں تصوف کے معاملات کو بیان کیاگیا ہے۔مثالیں دیکھیے:
ہر جگہ جب وہی ہے خود موجود
پوچھنا کیا ہے اور کہنا کیا
سب خودی کے لیے ہیں اتنے حجاب
بے خودوں سے ہے اس کو پردہ کیا
ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وحیدا لہ آبادی تصوف کے عقیدہئ”وحدت الوجود“ کی طرف مائل تھے جو عام طور پر فارسی اور اردو شاعری میں مروج رہا ہے۔ وحدت الوجود کے ماننے والوں کا نظریہ ہے کہ ہر شے میں خدا ہی کاجلوہ ہے اور وہ ہر شے میں جاری وساری اور ہر شے پر حاوی ہے۔ وہ ذرہ ذرہ میں جلوہ نما ہے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی۔ رنگ، بو اور نور کی شکل میں وہی اور صرف وہی ہے۔ اس کاظہور مکان میں بھی ہے اورلامکان میں بھی۔ وحیدکو ہر شے مظہر ذات خداوندی نظرآتی ہے  ؎
یہ آئینہ خانہ ہے کس کا کہتے ہیں جسے سب لوگ جہاں
آتا ہے نظر ہر سمت وہی ہوتا ہے جو معلوم ایک طرف
وحید الہ آبادی کے یہاں متعدد ایسی غزلیں ہیں جن میں تسلسل مضمون پایاجاتا ہے۔ ان میں سے بعض تصوف کے رنگ میں ہیں مثلاً:
ترا طرہئ مشک سا بھی ہمیں ہیں
تری نگہت جانفزا بھی ہمیں ہیں

یہ دل بھی ہمیں دلربا بھی ہمیں ہیں
نگہ بھی ہمیں ہیں ادا بھی ہمیں ہیں
یہ غزل تصوف کے رنگ میں ہے۔ اس میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ سادہ اور سلیس انداز میں اس کی ترجمانی کی گئی ہے۔ پوری غزل ایک بے خودی کی کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جگہ جگہ ایسے اشعار مل جاتے ہیں۔
پاتا ہوں اسی کا میں نشاں دل میں بھی اپنے
جس نور سے دیر وحرم آباد ہوئے ہیں

راستہ اس نے اپنے گھر کا وحیدؔ
سچ ہے ہر رہگزر میں رکھا تھا
خودی کی تلاش اور محبوب حقیقی کو خود میں پالینے کا درس یوں دیتے ہیں    ؎
اسے تو آپ ہی میں ڈھونڈھ اگر اے دل طلب ہے کچھ
اسی انساں میں سب کچھ تھا اسی انساں میں سب کچھ ہے
آگے کہتے ہیں  ؎
لیے پھرتی تھی جب دیر وحرم میں دل کی بے تابی
تجھی کو ہر جگہ پر جلوہ فرما دیکھتے تھے ہم
اصغر گونڈوی بھی شراب معرفت سے سرشار تھے۔ ان کے نزدیک ماسوا کی کوئی اہمیت نہیں تھی   ؎
جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
جبکہ وحید کو ہر شئے میں مظہر ذات خداوندی ہی نظر آتا ہے  ؎
یہ آئینہ خانہ ہے کس کا کہتے ہیں جسے سب لوگ جہاں
آتا ہے نظر ہر سمت وہی ہوتا ہے جو معلوم ایک طرف
یا 
رنگ و نقاش ہی ہر جا نظر آیا آخر
نقش اول ہی نے ہر نقش مٹایا آخر
اس طرح وحیدالہٰ آبادی کے کلام میں جگہ جگہ تصوف کی چاشنی موجود ہے اور شراب معرفت کی سرشاری اس طرح بیان کرتے ہیں:
وہ جام ہوں کہ لبالب شراب عشق سے ہوں
وہ شیشہ ہوں کہ مئے شوق سے بھرا ہوں میں
وحیدالہٰ آبادی پر آج تک جتنا بھی لکھاگیا ہے اس میں اس طرف ضرور اشارہ ہے کہ وہ صوفی منش آدمی تھے جس کی وجہ سے ان کے یہاں تصوف کا غلبہ ہے۔ کلام کے مطالعے سے یہ بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے۔ خود کہتے ہیں:

نظر نہ جائے گی اب اپنی ماسوا کی طرف
خراب ہوکے بہت آئے ہیں خدا کی طرف


Mahar Fatima
Flat No. F-3, Ist Floor
R-314 Sara Apartment
Near Quadri Masjid
Jogabai Extn.Batla House
New Delhi-110025


ماہنامہ خواتین دنیا، دسمبر 2019
 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں