24/12/19

جدید اردو افسانے کے امتیازات مضمون نگار: صغیر افراہیم




 جدید اردو افسانے کے امتیازات
 صغیر افراہیم


تلخیص
مضمون میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو افسانے کی ہیئت اور بنت کسی حتمی تکنیک کی محتاج نہیں رہی ہے۔اس میں ابتداء سے ہی تجربات ہوتے رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کے افسانہ نگاروں نے یک رخی حقیقت نگاری سے اجتناب کیا، ابہام پسندی اور تجریدیت سے دامن بچایا ہے نتیجتاً جو پیرایہئ اظہار وجود میں آیا اُس میں قوتِ بیان کے ساتھ تخیل کی جدّت بھی ہے۔ اسی لیے دور ِحاضر کے افسانے کو مقبولیت اور اعتبار حاصل ہوا ہے۔
کلیدی الفاظ
ہمعصر افسانہ، اجتماعیت، داخلیت، خارجیت، شعور کی رَو، علامت، تمثیل، بیانیہ، تجریدی اظہاریت، سماجی جبر، تہذیب، اقدار، بازیافت، صارفیت، انسانی فطرت، نفسیاتی عمل، ابہام، تکنیک، کردار، رمزیت، اشاریت، خودکلامی، سرریلزم
————————
جدید اردو افسانے سے مراد محض اصطلاحی طور پر جدیدیت کے رجحان تک محدود نہیں بلکہ اس عنوان کے دائرۂ خاص میں ہم عصر افسانے کا مطالعہ خصوصیت کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت جو افسانہ نگاراردو افسانے کے کینوس پر مختلف رنگ وروغن بھر رہے ہیں ان میں رتن سنگھ اس اعتبار سے نمایاں ہیں کہ وہ عمر کی 92 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور صنفِ افسانہ کے تنِ نازک کو ستر برس سے سنوار رہے ہیں۔ اب انھیں یا ان کے فعال معاصرین جیلانی بانو، ذکیہ مشہدی، انیس رفیع، رشید امجد وغیرہ کو ہم اصطلاحی یا رجحانی خانوں میں کس طرح تقسیم کرسکتے ہیں۔ ویسے لفظ تقسیم نے ہمیں، ہماری تہذیب وثقافت اور زبان وادب کو بڑی اذیت پہنچائی ہے لہٰذا اس آسیب سے بچتے ہوئے افسانہ کے منظر، پس منظر اور پیش منظر کے توسط سے تجزیاتی مطالعہ کیا گیاہے۔
ہم سب واقف ہیں کہ اردو افسانہ بیسویں صدی کے آغاز میں، مغرب کے زیرِ اثر، انگریزی کے وسیلے سے ہمارے ادب میں داخل ہوا۔ راشد الخیری اور پریم چند کی بدولت یہ شروع سے مشرق کی بازیافت کی ایک سعئ جمیل قرار پایاہے۔ ایک صدی سے زائد کے سفر میں موضوع کی وسعت کے ساتھ اِس صنف نے تکنیک اور اسلوب کے مختلف تجربے کیے ہیں۔ مثلاً راشد الخیری اور پریم چند کا عہد حقیقت نگاری کا ہے۔ تین دہائیوں پر مشتمل اس دَور نے خارجی زندگی کے مختلف مسائل کو منعکس کیا، تمام عناصرِ ترکیبی کو بروئے کار لاتے ہوئے منطقی بیان کو فروغ دیا ہے۔ ترقی پسندی کے زمانے میں پریم چند کی روایت کو استحکام ملا ہے۔عوامی زندگی کے گوناگوں مسائل کو تخلیقی سطح پر منظم طریقے سے برتا گیا ہے۔بیانیہ براہِ راست اور کرداروں کی واضح پہچان ہے۔ جدیدیت کے دور میں اجتماعیت کے مقابلے میں فردیت اور خارجیت کے مقابلے میں داخلیت زور پکڑنے لگی اور منجھی ہوئی مانوس اور مربوط زبان کے بجائے قدرے نا ہموار بلکہ کبھی کبھی نامانوس زبان کا استعمال شروع ہوا اور یہ تصوّر پنپنے لگا کہ پلاٹ، کردار، واقعہ، فضا اور ماحول کے بغیر بھی افسانہ بن سکتا ہے۔اس تصور کے تحت شعور کی رَو اور آزاد تلازمۂ خیال طاقت ور پیرایۂ اظہار کی صورت اختیار کر نے لگے۔ علامتی اور تمثیلی افسانوں کے ساتھ تجریدی افسانے منظرِ عام پر آئے جن میں نئی حسیت اور فن کے نئے راستوں کا انتخاب نظر آتا ہے۔ ادبی حلقے میں اس نئے نظریے کی پذیرائی ہوئی۔ جدیدیت نے بیانیہ انداز سے انحراف برتا تھا۔اور پھیلاؤ کے بجائے ارتکاز سے کام لیا تھا لیکن ما بعد جدید دور بیانیہ کی واپسی کا دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں ابہام اور تجرید کی جگہ بیانیہ افسانہ لکھنے کا رجحان بھی بڑھا ہے اور استعاراتی اور علامتی انداز بھی پروان چڑھا ہے۔ آج کہانی کا مرکز و محور انسان کی ذات ہے جس کے تجربات کی عکاّسی مختلف زاویوں سے کرتے ہوئے تہہ بہ تہہ پرتیں کھولی جا رہی ہیں۔ اب موضوعات سے زیادہ فن پر زور ہے بلکہ اکثر موضوعات کی تکرار کے باوجوداظہار کی تازگی نے فن پارے کو قابلِ توجہ بنایا ہے۔ عصرِ حاضر کے افسانوں کی تمام ترموضوعاتی عمارت خارجی دنیا کی صداقت، معیشت کے بے رحمانہ تضادات، روز مرہ پیش آنے والے سیاسی و سماجی مسائل، بھوک، جنس اور انسانی رشتوں کی کرختگی پر قائم ہے۔فنّی اعتبار سے اکیسویں صدی کے اُفق پر طلوع ہونے والے افسانوں نے صنفِ افسانہ میں ایک نئی حرارت اور توانائی پیدا کردی ہے۔ ان کی بدولت تخلیق کا کینوس بھی وسیع ہو رہا ہے اور تجربات کی راہیں بھی روشن نظر آرہی ہیں۔
خواتین وحضرات! تحریک، تنظیم، رجحان جیسی اصطلاحی حدبندیوں سے گریز کرتے ہوئے دیکھیں تو’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ پہلی جدیدمنفرد کہانی نظر آتی ہے جس میں  غیاث احمد گدی نے مشینی دور کی اس مشین اور اس کو چلانے والے مصنوعی آلوں کے ذریعے پورے سسٹم کو ہدف بنایا ہے کہ وہ کس طرح بے ضرر اور بے زبانوں کو تختہئ مشق بناتے ہیں۔ افسانہ نگار نے علامتوں اور استعاروں کے ذریعے انسانی بے حسی اور سماجی جبر کو اس طرح ابھارا ہے کہ صارفیت کے دور کی تمام لعنتیں اشاریے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔زیریں سطروں میں اُبھرنے والا تقابلی مطالعہ صرف مشرق و مغرب کا نہ رہ کر، ظالم و مظلوم کے مابین در آتا ہے۔ منّی بائی، افسانہ نگار، کبوتر، طوطا وغیرہ متحرک اور بے جان یا انسان اور جانور میں متشکل ہوکر حساس قاری سے سوال کرتے ہیں کہ فطرت کے حسن اور اس کی حقیقی زندگی کو ضائع کیو ں کیا جا رہا ہے؟ سود و زیاں کیوں اور اُن کا ماحصل کیا ہے؟ کیا صارفیت اور بازار کی عالم گیری مخلوقات کو اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے؟ اگر نہیں تو معصوم بچہ فطرت کو دیکھ کر کیوں مسکراتا اور لذت و خوشی محسوس کرتا ہے!!کیا محض اس وجہ سے کہ وہ ابھی ان مسائل و مصائب سے دو چار نہیں ہوا ہے۔ یہ چُبھتے ہوئے سوالات جس ڈھنگ سے افسانے میں بنے گئے ہیں وہ غیاث احمد گدی کی فنکارانہ بصیرت کے ضامن ہیں۔
فوٹوگرافر‘ میں اشیا کے فنا ہونے کا تصور اور ماضی کے گزرے ہوئے ایام کی کیفیات کا امتزاج ہے۔ قرۃ العین حیدر کے اس افسانہ میں موضوع کی انفرادیت، ہیئت کی مضبوط گرفت اور اسلوب کا موثر اظہار ہے۔ ترتیب اور تنظیم میں بیان سے زیادہ بصری پیکر کی اہمیت ہے مثلاً فوٹو گرافر دیکھ اور سن رہا ہے مگر جذبات سے عاری ہے۔اس کا کیمرہ آنکھ رکھتا ہے مگر سماعت نہیں۔
ہزار پایہ‘ میں بیانیہ سے گریز کرتے ہوئے تجریدی اظہاریت سے کام لیا گیا ہے۔( اس کی قرأت کے لیے قاری کو دو باتیں ذہن نشین رکھنی ہوں گی۔نمبر ایک جدیدیت کا تصور اور نمبر دو خوف کا احساس۔) خالدہ حسین علامت اور تجرید کی وساطت سے وجودیت کے فلسفے کو اپنے افسانوں کا جز بنا دیتی ہیں۔یہ فنی طریقۂ کار ان کے دیگر افسانوںکی طرح ’ہزار پایہ ‘ میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ کہانی میں شروع سے ہی موت کی قربت کا احساس ہے جو بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ جسمانی موت کا احساس مرکزی کردار کو ہی نہیں بلکہ اس کے افراد خانہ کو بھی ہے اور جب زندگی موت کی گرفت میں بے بس ہو تو بہت سے سوالات سامنے آتے ہیں مثلاً زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ کیا موت ہر چیز کا خاتمہ ہے؟ کیا کوئی ایسی چیز ہے جسے زندہ رکھا جا سکتا ہے؟کیا وجود با معنی ہو سکتا ہے؟ ہم کیا ہیں؟ہمارے علاوہ کیا ہے؟خارجی اور باطنی زندگی میں اشیا اور ان کے ناموں میں کیا ربط ہے؟ بیماری اور موت کے تجربے کے توسط سے سامنے آنے والے اس وجودی افسانے کو آگہی کے کرب اور آشوبِ عصر کے تناظر میں بھی پڑھا جا سکتا ہے مگر اس کا اصل سروکار زندگی کے ازلی اور ابدی معموں سے ہے۔
کونپل‘علامتی اور استعاراتی اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ اس میں انور سجاد نے ایک طرف ظلم و تشدد کی تصویر کشی ہے تو دوسری طرف صبر و ضبط کی فضا ہے اور درمیان میں احتجاج و انقلاب کی نئی کونپل پھوٹتی ہے جس میں آمریت کو شکست دینے کی قوت پروان چڑھتی ہے۔فوجی حکمرانی جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مواقع تلاش کرتی ہے مگر عوامی نمائندہ فن کار کی شکل میں تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مرکزی کردار جوجمہوریت کا امین اور با شعور نیز نئی نسل کا نمائندہ ہے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ جابر نظام اس کی آواز دبادینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ پرانی پیڑھی جو ماں کی شکل میں سمجھوتے کی ڈگر پر چلتی رہی ہے وہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی خاموش ہے تاہم بچہ جدو جہد کا علمبردار بن کر ابھرتا ہے اور قاری محسوس کر لیتا ہے کہ اُس انقلاب کو دبایا نہیں جا سکتا ہے جس نے مضبوط جڑ پکڑ لی ہے۔
شہر افسوس‘بے حد وسیع کینوس پر پھیلا ہوا مربوط افسانہ ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے حدود کو توڑتا ہوا بنی اسرائیل، ’گیا کے بھکشوؤں‘ اور بیگم حضرت محل کے نیپال کے گھنے جنگلوں کی ہجرت پر آہ و زاری کرتا ہے۔انتظار حسین کے اس افسانے میں پرانی زمین سے ناطہ توڑنے اور نئی زمین سے رشتہ جوڑنے کی کیفیت کو علامتی اور استعاراتی پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ کردار اور پلاٹ کے روایتی تصور سے آزاد افسانہ ہے۔ اس میں علائم کی تہہ داری فضا کو پراسرار بنا دیتی ہے۔ انسان کی اپنی ذات سے شروع ہونے والے سریندر پرکاش کے اس افسانہ میں حدود کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے اور پھر اس میں پوری کائنات سمٹ آتی ہے۔ماحول خوابناک بھی ہے اور پراسرار بھی۔ سب کچھ غیر متوقع طور پر شروع ہوتا ہے۔ بے ربط انداز میں یادوں کے دریچے کھلتے ہیں اور قاری خلاؤں میں پرواز کر جاتا ہے اور جب اس سحر زدہ ذہنی سفر سے باہر آتا ہے تو خود کو دوسرے آدمی کے ڈرائنگ روم میں پاتا ہے۔’ماچس‘ استفہامیہ انداز میں شروع ہونے والابلراج مین را کا علامتی افسانہ ہے۔ یہ افسانہ ایک ایسی طلب سے شروع ہوتا ہے جس میں معاشرے کا مسخ شدہ چہرہ سامنے آتا ہے۔خوبی یہ ہے کہ اس افسانہ میں اشاروں اور کنایوں میں عصری حسیت اور انسانی فطرت و جبلت پوری طرح سمٹ آئی ہے۔
جیلانی بانو، قاضی عبدالستار، ممتاز مفتی اور نور الحسنین کے افسانے نہایت موثر نفسیاتی افسانے ہیں۔ موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے ان کے افسانوں نے اردو افسانہ کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ خاص طور سے’پیتل کا گھنٹہ‘ وقت کے جبر و ستم کا افسانہ ہے۔قاضی عبدالستار نے ایک صدی کی رُوداد کو پانچ صفحے میں نہایت فنکارانہ طریقے سے پیش کر دیا ہے۔ اسی لیے یہ افسانہ ایک مخصوص تہذیب میں اقدار کی شکست کے ساتھ نئے نظام کی نمود اور بدلتے ہوئے حالات سے پیدا شدہ بے اطمینانی اور ماضی کی بازیافت کا ترجمان بھی ہے۔
شہر زاد‘نفسیاتی کہانی ہے۔ رضیہ فصیح احمد نے خواتین کے حوالے سے جدید و قدیم نظامِ فکر کی کشمکش اور صارفیت کی چکا چوندھ پر سخت تنقید کی ہے۔’خلیق الزماں کی ٹم ٹم‘اقبال مجید کا روایت سے الگ ہٹ کر افسانہ ہے جس میں تمثیل اور استعارے سے کام لیا گیا ہے۔ شعور، تحت الشعور اور لا شعور کی کشا کش پر مبنی بظاہر یہ افسانہ ایک بے جان شے پر مبنی ٹم ٹم کی کہانی ہے۔یہ ٹم ٹم چودھری خلیق الزماں کی ہو، ورثے میں ملی ہو یا کباڑ سے آئی ہو، اس کا مثبت رول سیاست دانوں کی پینترے بازی کی بنا پر ذہن سے اوجھل ہوتا گیا ہے۔افسانہ نگار نے تمثیلوں اور استعاروں کے ذریعے شخصیت پرستی اور عقیدت مندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سچائی کا مقابلہ کرنے کی جانب ذہن کو راغب کیا ہے۔ موضوع، اسلوب، بنت اور پیش کش کے اعتبار سے اقبال مجید کا یہ افسانہ نہایت فکر انگیز ہے۔
انیس رفیع کا افسانہ’کرفیو سخت ہے‘ جبر و استحصال کا تیزابی علامیہ ہے۔دراصل یہ افسانہ اُس قومی اقلیت کی حرماں نصیبی اور بیچارگی کا بیان ہے جو بطورفاتح جنوب مشرقی ایشیا کے اس جغرافیائی خطے میں وارد ہوئی تھی اور اسے اپنا وطن بنایا تھا۔ عدل و انصاف کی بنیادوں اور اپنی قوت ارادی کی بدولت وہ شہنشاہیت قائم کی جو سیکڑوں برس کی تاریخ کا نا قابل فراموش حصہ ہے، اور جس پر تیزی سے گرہن لگ رہا ہے۔
سلام بن رزاق کے افسانہ’ایک جھوٹی/سچی کہانی‘میں راوی کی مُداخلت یوں ہے کہ وہ ٹی وی دیکھتا ہے اور خبریں سن کر اسے لگتا ہے جیسے پوری دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ اس کا بچہ اسے کہانی سنانے کی فرمائش کرتا ہے۔ پہلے تو وہ منع کرتا ہے مگر بچے کے اصرار پر کہانی سناتا ہے۔ قصے کے آغاز سے ہی وقت کی طنابیں کھنچتی ہیں۔ ماضی بعید میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ محبت اور اتحاد تھا، آسودگی اور خوش حالی تھی۔ اشرف المخلوقات کے ساتھ اس بستی میں ایک پری بھی براجمان تھی اور بہت خوش تھی۔ مگر پھر کیا ہوا کہ بستی کے لوگوں کی نیتوں میں کھوٹ آگیا، برکتیں اٹھ گئیں۔ لالچ اور خود غرضی کا زہر فضا میں گھل گیا۔ تقسیم اس طرح ہوئی کہ عبادت گاہیں بھی بٹ گئیں۔ قید و بند اور افرا تفری نے فنونِ لطیفہ کا بھی خاتمہ کر دیا۔ بس ہر وقت ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے، اذیت دینے، تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بننے لگے۔ پری بہت دُکھی ہوگئی۔ وہ سوچنے لگی کہ آخر بستی والوں کو کیا ہو گیا ہے۔ کیوں وہ ایک دوسرے کے اس حد تک دشمن ہو گئے ہیں۔ چوری، دھوکہ، فریب، لوٹ مار، قتل و غارت گری ان کا معمول کیوں بن گیا ہے۔ معصوم انسانوں کے لیے روز بروز یہ زمین تنگ کیوں ہوتی جا رہی ہے..... اورپھر اچانک ایک دن فضا میں پری کا نغمہ گونجا، لوگوں کے اندر سلگتی ہوئی آگ اور کدورت ختم ہوتی گئی۔ وہ آستینوں سے آنسو پونچھتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے لگ گئے۔انھوں نے اپنے گاؤں میں اس پری کا مجسمہ تیار کیا اور جب بھی کوئی تنازعہ ہوتا سب وہیں جاتے، اس گیت کو دہراتے اورمطمئن ہو جاتے۔آج بھی وہاں کے لوگ اس گیت کی بدولت امن و چین سے زندگی گزار رہے ہیں۔ افسانے کے اس انجام پربچہ سوال کرتا ہے کہ وہ گیت کیا تھا؟راوی یہ کہہ کر کہ مجھے وہ گیت یاد نہیں کیوں کہ میرے پاپا اور ان کے پاپا کو بھی یہ گیت یاد نہیں تھا۔تاہم بچہ مطمئن نہیں ہوتا ہے اور یہی بے اطمینانی در اصل نئی نسل کو ہیجان میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔بستی کی کہانی صرف ہمارے معاشرے کی کہانی نہیں بلکہ پوری انسانی برادری کی کہانی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس گیت کی ہے جس کے ذریعے آپس کی کدورت اور نفرت کو محبت میں تبدیل کیے جانے کا عِندیہ ہے۔’مئی دادا‘ بظاہر ایک کردار پر مبنی نہایت موثر افسانہ ہے۔ نقلِ مکانی کے سبب بچھڑنے کا غم، کھوجانے کی کسک اور گلے لگانے کی تڑپ پر اسد محمد خاں نے کئی افسانے خلق کیے ہیں۔ انھوں نے وندھیاچل کی آتما میں اتر کر یا پھر نرمدا کے کنارے بیٹھ کر فن کارانہ ڈھنگ سے جو قلمی تصویریں بنائی ہیں ان میں ہجرت کی پوری تاریخ سمٹ آئی ہے۔ان رنگا رنگ تصویروں کے ذریعے اسد محمد خاں نے اساطیر اور علامتوں کو نئے معنوں سے ہم آہنگ کرکے ہمارے دور کی داستان پینٹ کی ہے۔’گنبد کے کبوتر‘ میں تعبیر کی کئی جہتیں ہیں، ہر جہت اپنی الگ معنویت رکھتی ہے۔ تہہ دار کہانی کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اِمکانات کے مختلف پہلوؤں کو کھنگالا جا سکے، معنویت میں اضافے کیے جا سکیں۔ شوکت حیات کی اس تہہ دار کہانی میں تعبیر کے امکانات کے مختلف پہلو ہیں اور ہر پہلو اپنے تھیم سے جڑا ہوا ہے۔’گم شدہ کلمات‘ ماضی کی عظمت اور حال کی زبوں حالی کا ترجمان ہے۔ مرزا حامد بیگ نے لفظ کی ہمہ جہتی اور معنویت تک اپنی ذات کے حوالے سے رسائی حاصل کی ہے۔ یہ ذات اُن کے دیگر افسانوں کی زیریں سطح پر ہمیشہ موجود رہتی ہے اور اس افسانے میں بھی نظر آتی ہے۔
زاہدہ حنا کا معروف افسانہ’کُم کُم بہت آرام سے ہے‘ میں تین ادوار کا ذکر ہے۔ پہلے دور میں رابندر ناتھ ٹیگو ر کی مشہور کہانی ’کابلی والا‘ کا براہِ راست تفصیلی اور با معنی ذکر ہے۔عہدِ غلامی میں افغانستان کا پٹھان،رحمت اپنوں سے جدا ہوکر تلاشِ معاش کے لیے کلکتہ آتا ہے اور زحمتوں میں پھنس جاتا ہے تاہم منی اسے اپنی بیٹی کی یاد دلاتی رہتی ہے۔دوسرا دور تبدیلیوں کا ہے۔ خصوصاً ایشیا کا بدلتا ہوا منظر نامہ۔ زاہدہ حنا نے اِس کا براہِ راست ذکر نہیں کیا ہے مگر بالواسطہ طور پر’کابلی والا‘کے کردار کی توسیع بھی محسوس ہوتی ہے (مشہورافسانہ نگارانور قمر نے’کابلی والے کی واپسی‘ میں اس کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہوئے محسوسات و جذبات کوخوبی سے اجاگر کیا ہے)۔
انور قمرکے ساتھ ساتھ ذکیہ مشہدی،ساجد رشید، نورالحسنین، عبدالصمد، شموئل احمد، خورشید حیات، مبین مرزا، رشید امجد، حمید سہروری،مشتاق احمد نوری، خالد جاوید، صادقہ نواب سحر، فیاض رفعت، مقدر حمید، ظفر اوگانوی، رحمن عباس، اسرار گاندھی، مشرف عالم ذوقی، ترنم ریاض، احمد صفیر، حسین الحق، احمد رشید، غضنفر، سید محمداشرف، طارق چھتاری، شائستہ فاخری، اس طویل فہرست سے اجتناب برتتے موثر جدید ترین افسانوں کے تانے بانے بنے ہیں بلکہ فکری اور فنی دونوں صورتوں میںمذکورہ بالا فنکاروں کے افسانوں میں 1960 کے بعد کا تیزی سے بدلتا ہوا مزاج نظر آتا ہے۔ ان میں بنتی بگڑتی ہوئی تہذیب اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اَقدار کا منظر نامہ ہے، عالمگیریت اورصارفیت کے مسائل و مصائب کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ سب نفسی کیفیات اورجذبات کو اجاگر کرتے ہوئے صورت واقعہ کی عکاسی پر قاری کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ یہاں رُک کر میں تفصیل سے ’دخمہ‘، ’علام اور بیٹا‘ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ ’دخمہ‘ میں بیگ احساس نے آریائی نسل کے دو اہم مرکز فارس اور ہندوستان کے تمدنی مزاج کے نشیب وفراز اور ماحولیات کے ساتھ قدروں کے زوال کو فنکارانہ ڈھنگ سے سمیٹ لیا ہے۔ اِس افسانے کی نوعیت اور معنویت اس لیے بدل جاتی ہے کہ مردہ جسم، مجردگاہ، مے کدہ، چیونٹی اور گدھ سبھی استعارے کی شکل میں اُبھرتے ہوئے کچھ کھونے اور بچھڑنے کا احساس دلاتے ہیں اور وہ بھی اس تکنیکی ہنر مندی اورخوش سلیقگی کے ساتھ کہ قاری کو اس کا علم ہوجاتا ہے کہ کس طرح معاشرے سے مثبت قدریں، منفی سوچ کے طابع ہوتی چلی گئی ہیں۔ دائروی شکل میں ترتیب دیے گئے اس افسانے کاآغاز وسط یعنی سہراب کی نعش سے ہوتاہے۔ منظر پارسی فرقہ کا عکس پیش کرتاہے۔ مختصر سے منظر کے بعد ہی راوی کہانی کو آگے بڑھاتا ہے— افسانہ نگار لاش اور دَخمہ کے گیٹ کے محض بیان پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس پس منظر کو اُجاگر کرتاہے جس میں محبت ہے، معصومیت ہے اور جس پر ہر ہندوستانی ناز کرتاہے۔ منظرکا زمان ومکاں ماضی کو اپنے دائرے میں لے لیتاہے۔ صاف ستھرا، محبت اور رواداری کا ماحول، مسجد وچرچ کے ساتھ پارسی گٹہ یعنی قبرستان کا ذکر— چند جملوں کے بعد ہی اس طرزو طریق کا بیان ہے جو پارسی مردے کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر گول عمارت یعنی’دَخمہ‘ کی وضاحت، مگر اس حصے میں ’سگ دید‘ یعنی چار آنکھوں والے کتے کے تعلق سے تشنگی برقرار رکھی گئی ہے۔یہ تشنگی صنفِ افسانہ میں کہانی کی واپسی کی ضامن ہے کیوں کہ ”کہانی کا سحر وہ سحر ہے جو ازل سے انسان کو مسحور کرتا چلا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ خواہ اِس میں راستہ بھول جانے ہی کا خطرہ کیوں نہ ہو“۔
برق رفتاری سے بدلتے ہوئے مناظر میں ایک جانب پارسیوں کی طرز زندگی اور دوسری طرف مسلمانوں کے طور طریق، جن میں جزوی فرق کے علاوہ کوئی تخصیص وتمیز نہیں۔ اسی مشترکہ ماحول میں بچے پروان چڑھتے ہیں مگر تبدیلیِ وقت نے ان قدروں کو متزلزل کردیا جن پر تہذیب وتمدن کی تعمیر ہوئی تھی۔ شیرازۂ فکرونظر کے بکھرنے کی یہ تمثیلیِ رُوداد مختصر ترین الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔چودہ 14صفحے کے اس افسانے میں صدیوں کی تہذیب اور اُس کے رسم ورواج اشاروں اشاروں میں سمٹ آئے ہیں۔ قوموں کی نقل مکانی، شہروں کے آباد ہونے اور پھر ان پر تعصب اور تنگ نظری کے بادل چھانے کی کیفیت کو افسانوی ڈھنگ سے پیش کرنے کا ہنر بیگ احساس کو خوب آتاہے۔ تھوڑے سے ہی وقفے میں کس طرح محبت، مروت اوررواداری، نفرت وحقارت میں بدل جاتی ہے، اس کے بیان میں بھی بیگ احساس کوقدرت حاصل ہے۔
دخمہ‘ میں تنگ نظری کس طرح زور پکڑتی اورروشن خیالی ماندپڑتی ہے، اس کا بیان موثر لہجے میں ہے۔ جسم کی توانائی اور اُس سے وابستہ رنگ رلیاں، حواسِ خمسہ کی بیداری تک محدود رہتی ہیں لیکن جسم کے جامد اور ساکت ہوتے ہی منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ ’سہراب کے میکدہ‘ کاحدودِ اربعہ نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ اور بغل میں حکمراں طبقے کی ڈیوڑھیاں،دائیں جانب ڈرامہ تھیٹر، بائیں جانب ریزیڈنسی اور مقابل میں مسجد اور اس سے لگ کر جانے والی گلی میں ادبی مرکز۔ قاری دورانِ قرأت ٹھہرتا، غور کرتا ہے۔ تاریخی شہر جس کی اپنی ایک تہذیب تھی، ختم ہوا، اور وہاں وہ لوگ بسنے لگے جو اُس جگہ سے جڑے نہیں تھے، جنھیں اَقدار سے زیادہ مال وزر عزیز تھا۔ اس طرح تاریخی شہر کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ یہاں تک کہ نہ تو شاہی خاندان کو اپنی تہذیب کی فکر رہی، نہ امرا کو اور نہ ہی عوام کو۔ تبدیلیِ وقت نے سب کچھ بدل دیا۔ بقول راوی:
یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ تاریخی، تہذیبی، قومی، معاشرتی، جذباتی وذہنی ہم آہنگی کی ساری روایتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ پورا ادب درونِ ذات کے کرب میں مبتلا تھا“۔ (ص129)
افسانہ نگار تجرید اور تمثیل کی آمیزش سے شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ دبستانِ حیدرآباد کے تصور کو پیش کرتا ہے اور پھر یکایک اس تہذیب وتمدن کے شیرازے کے بکھرنے کو جس ایجاز و اختصار کے ساتھ قلم بند کیاہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ نہ جانے کیوں ایسے میں مجھے نیّر مسعود کا افسانہ ’علاّم اور بیٹا‘ شدّت سے یادآتا ہے حالانکہ دونوں کی فضا، ماحول اورکرداروں کا برتاؤ اور اُن کی پیش کش کا انداز جُداگانہ ہے مگر کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہے جو ایک دوسرے کو قریب کرتی ہے اور یہ بات ہے، ثقافتی سرمایے کے خَسران اور تہذیبی زیاں کی حشرسامانی کی۔ اگرچہ دونوں فنکاروں کے فنی رویوں اور اُن کے برتاؤ میں اختلاف موجودہے۔
علاّم اور بیٹا‘ میں انسانی فطرت اور نفسیاتی عمل کے زاویوں کو اجاگر کرنے کے لیے راوی دوہرے عمل سے گزرتا ہے یعنی محفوظ کو بیان کرنے کے لیے کھوئی ہوئی چیزوں کو حوالہ بناتا ہے۔ اِن حوالوں میں روشنی کاجھماکا تصویر کا عکس دکھلاتا ہے اور جب وہ جھماکا غائب ہوتا ہے تو تصویر بھی غائب ہوجاتی ہے۔ وَاہمہ اور اشکال جواز مہیا کرتے ہیں کہ چہروں کا غائب ہونا نفسیاتی عمل ہے جس میں واقعے کی اہمیت ابھرتی ہے نہ کہ چہرے کی۔ اس طرح غیر محفوظ واقعات وحادثات محفوظ ہوکر بیانیہ کاحصہ بن جاتے ہیں۔ نیرمسعود کی فنّی ہُنرمندی یہ ہے کہ ابہام کو سلیس زبان میں پیش کرکے تہہ داری کا حصہ بنادیا ہے۔ درمیانی خلا کو پُر کرنے کے لیے نہ صرف انسانی تشکیلی ادوار بلکہ ضعیفی اور نسیان کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔ اِس طرح افسانہ ’علاّم اور بیٹا‘ کے تانے بانے بُننے میں یادداشت، شناخت اور بدلتے ہوئے وقت کو اس طرح تحلیل کردیا گیا ہے کہ اختر انصاری کا شعر ذہن کے پردے پر اُبھرآتاہے
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
افسانہ ’علام اوربیٹا‘ اپنے آغاز سے ہی یہ تاثر دیتا ہے کہ باوجود مذکورہ حقیقت کے (1) یادوں کے ذخیرے لامحدود ہیں (2) بے شمار غیر معمولی یادیں محفوظِ دماغ ہیں، حصۂ نشعورہیں اور اتنی بیش قیمت ہیں کہ کاش یہ ماضی کو حال میں تبدیل کرکے، دماغ کو جوان رکھ کر گرمائے رکھتیں لیکن محفوظ یادوں میں اگر انتہائی کریہہ صورتیں موجود ہیں تو بہتر ہے کہ میرا حافظہ ہی معدوم ہوجائے۔ (3) مبہم اشاروں میں یادوں کی کرچیں نظر آتی ہیں۔ راوی اعتراف کرتا ہے کہ اُس کی یادداشت جارہی ہے۔ لفظوں کا ذخیرہ ختم ہورہا ہے۔ (4) بقول راوی وہ عمر کے اس حصے سے گزررہا ہے جب کہ وہ اپنی زندگی سے جڑی یادوں میں سے بہت سی چیزوں کو بھول چکا ہے،اور کچھ چیزیں صرف نشان کے طور پر یاد رہ جاتی ہیں۔ انہی نشانوں کو جوڑ کر وہ ایک کہانی بناتاہے۔ نہایت باریکی سے بنی گئی کہانی میں قاری اس نکتے کو ہر پل یادداشت میں محفوظ رکھتا ہے کہ بچپن میں کھویا ہواعلام کا بیٹا مل گیا تھا۔ اُس کے دوبارہ غائب ہونے کاپتہ افسانہ کے آخرمیں چلتا ہے۔ جب وہ دوبارہ غائب ہوا تو بچہ نہیں تھا۔ بظاہر نیر مسعود کا یہ افسانہ یقین سے پرے ہے لیکن زندگی کی سچائیوں سے بہت قریب ہے۔ جب کہ’دَخمہ‘ طلسماتی فضا کا عکاس ہوتے ہوئے حقائق سے منسلک ہے۔ معاشرے کی تہذیبی تنزلی کے باوجود، مسرت آمیز اوررجائی نتائج پر زندگی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ یوں دونوں فنکاروںمیں شعور ولاشعور کی کشاکش ہے۔ اودھ کے لکھنوی پس منظر کی نمائندگی کرنے والے افسانے میں زندگی کے سفر میں،ڈھلتی عمر میں حافظہ زیادہ غلطیاں کرتا ہے لیکن بچپن کی پتھر کی لکیر بھلائے نہیں بھولتی۔ تاہم ایک موسمی بخار نے راوی کے لڑکپن کی یادوں کو بالکل مسخ کرکے رکھ دیا— وائے رے ناکامی! بچپن کا ایک منظر بھی یاد نہیں رہا۔ اس استفہامیہ انداز کے باوجود قاری محسوس کرلیتا ہے کہ بچپن کی بعض یادوں کا کوئی منطقی جواز نہیں ہوتا، اوٹ پٹانگ قسم کی یادیں بھی ہوسکتی ہیں جب کہ ’دَخمہ‘ میں شعور مسلسل سوالات اور ان کے جواز تلاش کرتا رہتاہے۔ اس میں علامتیں واضح اور تاثر مُثبت ہے۔ تاہم نیکی کابدلہ نیکی ہے اور بھلائی کا بدلہ بھلائی ہے چاہے وہ کسی مے کدہ کا مے فروش ہی کیوں نہ ہو۔محبت کا سودا کبھی رائیگاں نہیں جاتا جیسے شکر کے لیے چینٹیاں آہی جاتی ہیں۔ ”علاّم اور بیٹا“ میں ’سیاہ پوشی، غم کی علامت، کفن‘ انتہائی غم کی علامت اور خود فراموشی معرفت کی کوتاہی یعنی محض پہچان کی غلطی کے طور پر نہیں ابھرتی ہے بلکہ یہ داخلی اور ذہنی بیماریوں کی جانب اشارہ کناں ہیں اور اُس پر قہقہہ، بے حسی کی انتہا کو ثابت کرتا ہے او ریہ تَاثر دیتا ہے کہ آشنا، ہمدرد اوردوست سب اجنبی ہوگئے۔ ایسے میں یہ لاتعلقی ابتری اور بحران کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ شناسا اور منحوس چہروں کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے اور آواز بلند ہوتی ہے کہ خدا ایسی صورت حال پر رحم کرے کہیں یہی اصلیت اور زمانے کی حقیقت تو نہیں ہے!!
دخمہ‘ میں منفی فضا، مثبت ماحول کی آمد کی نشاندہی کرتی ہے۔ ’علام اور بیٹا‘ میں وقتی خوشگواری کی سوگوار فضا جلد ہی رُندھی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ جملہ بہت ہی بامعنی بن جاتا ہے کہ ذرا سا اگر موسم صاف ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے اور زیادہ دھند چھاجاتی ہے۔ ایسے میں ایک جانب کلہاڑی، جنگلی جانور اور شہری نواح کے جنگل تو دوسری طرف بجو، قبر، مجاور اور انوکھی وضع کے جانور سوالیہ نشان کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور قاری، راوی کی طرح خود سے ہم کلام ہوتا ہے کہ کیا انسان بکتا ہے یا نہیں بکتا؟ پھر یہ حیوانی آوازیں کیاہیں؟ گویا علام بھی بھیڑیا ہے او راس کا بیٹا بھی۔ ایسے میں شہر کا جنگل یا جنگلی جانور میں تبدیل ہونا یا پھر اجنبی کابھول بھلیاں میں کھوجانا غیر فطری عمل نہیں رہ پاتا ہے۔ ترقیِ معکوس پر لوگ خوش ہیں اور مراجعت پسندی شہریوں کا شیوۂ عام ہے اور شہری تہذیب، جنگلی بود وباش کی جانب گامزن ہوتی ہے۔ کیا یہی شرف انسانیت ہے یا مذمتِ حیوانیت؟
آج کے تناظر میں جب ہم نیرمسعود یا بیگ احساس کے افسانوں کامطالعہ کرتے ہیں تو قدرِ مشترک کا احساس ہوتا ہے کہ انسان، انسانیت کی طرف گامزن ہے یا حیوانیت کی طرف! قدریں ہی نہیں، ضرورتیں بھی بدل چکی ہیں!! نہ گھر، نہ بستر اور نہ ہی کوئی انتظام واہتمام اورکھانا اور سونا سب بے ترتیب اور منتشر۔ زندگی موجودہ نظامِ صارفیت کے کس پہلو کی نمائندگی کررہی ہے؟ اور ہماری معصوم تہذیب کس جانب رختِ سفر باندھ چکی ہے، ’علام اور بیٹا‘ کا مرکزی موضوع ہے۔ حالانکہ افسانہ نگار معصومیت کا انتخاب کررہا ہے اور اس معصومیت کے ضائع ہونے پر محض فکر مند ہی نہیں بلکہ دعا گو ہے کہ انسانیت پر حیوانیت غالب نہ آنے پائے اور اگر خدانخواستہ حیوانیت غالب آتی ہے تو بہتر ہوگا کہ اس حیوانیت کو محسوس کرنے والا حافظہ ہی معدوم ہوجائے۔ فنکار کوخدشہ ہے کہ حیوانیت اور انسانیت کے درمیان تفریق جسے ہم معصومیت کانام دیتے ہیں موجودہ عہد اسے اپنی ساز شانہ کلہاڑی سے کہیں قتل نہ کردے کیونکہ وہ اسے قتل کرنے کے درپے ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت کس طرح کی جائے یہ حساس قاری کے سامنے سب سے اہم سوال ہے اور موجودہ عہد کا سب سے بڑا لمحۂ فکریہ بھی اور جس کی خوبصورت مثال ہے، بیگ احساس کا ایک اور افسانہ ’دھار‘ جو لفظ بہ لفظ فکر مندی کا غماز ہے۔
بیگ احساس عموماً اپنے افسانوں میں حیدرآبادی قدروں کے توسط سے انسانی ذہن کو مہمیز کرتے ہیں۔ دخمہ میں بھی سہراب اور اس کے دوستوں کے مکالمے استفہامیہ انداز میں ابھرتے ہیں۔ شکل، صورت، ہیئت کے اعتبار سے ہم انسان ہیں اور ہمارا وجود بھی انسان ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن سچی انسانیت سے ہم بیگانہ ہیں حتی کہ ہم اس مقام پر پہنچ رہے ہیں جہاں خود ہمیں اپنے آپ پر ہنسی آسکتی ہے۔ نیر مسعود کے فن پارے میں بار بار ابھرنے والی سیاہی اور ظلمت پسندی شدید المیہ کی نشانی ہے ’دَخمہ‘ میں بیس برس بعد گدھوں کا شہر کارخ کرنا آزادی،محبت،مسرت اوربصیرت کی علامت ہے۔
دو الگ الگ مزاج اور اپنے اپنے مخصوص اظہار کے افسانوں کا یہاں تقابلی مطالعہ مقصود نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ قاضی عبدالستار، حسین الحق، نور الحسنین، اقبال مجید، سید محمداشرف کی طرح بیگ احساس کو بھی اپنی تہذیب اور اس کی روشن قدریں عزیز ہیں۔ جسے ابھارنے کے لیے انھوں نے مئے کدہ کے مالک سہراب کی رواداری اور ایمانداری کو واضح کیاہے۔ منظر وپس منظر کے لیے ایک جانب یہ دکھایا کہ نیک اوصاف اور اعلیٰ قدریں ختم ہورہی ہیں جیسے پارسی اور گدھ۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی مذہبی شدّت پسندی کو بخوبی پینٹ کیا ہے۔ اِس زبردست تبدیلی کاراوی چشم دیدگواہ ہے جو افسانے کا اہم کردار بھی ہے۔ اسی لیے حساس قاری کو ’دَخمہ‘ کی تہوں میں درد کی ایک زیریں لہر جاری وساری نظر آتی ہے۔ ایسی لہر جس کے پس پشت تہذیب وتمدن کی گہری معنویت ہے۔ اس معنویت کارشتہ حال، ماضی اور مستقبل سے منسلک ہے۔ اس کا بیانیہ فرد ہی نہیں قوم کی شناخت، اس کی بقا اور تحفظ کا اعلانیہ بن جاتاہے۔ اِس داستانوی افسانہ میں استعاروں اور علامتوں کے ساتھ ساتھ ایمائیت اور منظری ربط بھی موجو د ہے، ایسا ربط جس نے المیہ کو رجائی پہلوعطا کردیا ہے۔
اس تفصیلی گفتگو کے توسط سے میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو افسانے کی بنت کسی حتمی تکنیک کی محتاج نہیں رہی تاہم تکنیک کے تجربات پریم چند کے عہد سے ہی شروع ہو گئے تھے۔ پرانی روایات تبدیل ہوتی رہیں اور نئی روایتوں نے جلد ہی ان کی جگہ حاصل کر لی۔ عہدِ رتن سنگھ کے نمائندوں نے یک رخی حقیقت نگاری سے اجتناب کیا، ابہام پسندی اور تجریدیت سے بھی دامن بچایا۔ البتہ اسالیب کے بہتر عناصر کو قبول کرنے میں پس وپیش نہیں کیا۔ اس کسب فیض کی وجہ سے کہانی میں کہانی پن کی واپسی ہوئی اور تمثیلی پیرائے کو وسعت ملی۔ شہر، قصبہ اور دیہات کی نمائندگی کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ عصرِ حاضر کے افسانہ نگار نے فرق یہ کیا کہ وہ اپنے اطراف کی زندگی میں اُسی قدر شامل ہوگیا جس قدر کہ اس کے کردار، اس نے فرد کی ذاتی سوچ اور نجی مجبوری کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا پورا سیاسی اور سماجی نظام افسانہ کی گرفت میں آسکے اور پھر اس نے باریک بینی سے اس نظام کو تہہ در تہہ سمجھنے اور اپنے فن کے لوازم کے ساتھ حاصل شدہ بصیرت کو قاری تک پہنچانے کاجتن کیا۔ اگر اسے مقصد یا مطمح نظر کا نام دیا جائے تو اس کے حصول کے لیے ہمارے عہد کے افسانہ نگاروں نے تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کو اس طرح برتا کہ وہ خارج سے مسلط کی ہوئی نظر نہ آئیں بلکہ فن پارے ہی سے نکل کر اور باہم دگر مربوط ہوکر ایک وحدت تشکیل دیں۔
تنقیدی اور تجزیاتی زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو پلاٹ پر زور دینے والے افسانے ہوں یا کردار پر۔وجودی ہوں یا تجریدی، اگر کسی ایک منظر نامے پر اشتراکی و طبقاتی، نفسیاتی و جنسی، رومانی و علامتی، فضا چھائی رہی ہے۔دوسرے منظر نامہ میں اجتماعیت، فردیت، وجودیت، رمزیت، اشاریت، تجریدیت کے تجربات نظر آتے ہیں۔ کہیں شعور کی رو، آزاد تلازمۂ خیال، خود کلامی یا استہزائیہ انداز کے افسانوں میں لا شعوری محرکات کی حامل کیفیات نظر آتی ہیں۔ تو کہیں خواب کا بیان، تخیلی فضا، سررئیلزم وغیرہ نے افسانویت کو ہی نہیں وقت اور مقام کی حدود کو بھی توڑا ہے۔ اگر سماجی شعور، فکری پس منظر اور علامتی نظام میں مغربی رجحانات اور نظریات سے کسبِ فیض کیا گیا ہے تو مشرق کی قصہ گوئی کے اسالیب کی تجدید بھی ہوئی ہے تبھی تودہ آج اردو افسانے کا ایک ایسا پیرایۂ اظہار وجود میں آیا ہے جس میں قوتِ بیان بھی ہے اور تخیل کی جدت بھی، اور جسے مقبولیت بھی حاصل ہے اور اعتبار بھی۔

Sagheer Afraheim
Ex Head, Dept of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 202001 (UP)
Email.: s.afraheim@yahoo.in


سہ ماہی فکرو تحقیق، اکتوبر تا دسمبر 2019
 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں