26/12/19

رسالہ’جامعہ‘کی تعلیمی و ادبی خدمات ایک جائزہ(1923تا1947) مضمون نگار: فرزانہ خلیل





رسالہ’جامعہ‘کی تعلیمی و ادبی خدمات
ایک جائزہ(1923تا1947)

  فرزانہ خلیل


 رسالہ’جامعہ‘ جس ادبی، تہذیبی، علمی، قومی اور سیاسی شعور کی نمائندگی کرتا رہا ہے اس کا پس منظر خود جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ محض ایک تعلیمی اداراہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی اور سیاسی تحریکات کا  آئینہ دار بھی ہے، جس کی بنیاد1920 میں علی گھڑ میں رکھی گئی تھی۔ ابتدا سے ہی یہ ادارہ ایک مخصوص فکری اور علمی تحریک کی ترجمانی کر رہا ہے اگر دیکھا جائے تو اس درسگاہ کا قیام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کار کردگی اور بطور خاص اس ادارے کی ایک مخصوص نہج اختیار کر جانے کا رد عمل تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا ابتدائی زمانہ ہماری متعدد قومی تحریکات کا زمانہ بھی تھا، اس لیے اس ادارے کے ترجمان ماہنامہ’جامعہ‘ میں ان تحریکات کی دھمک کا سنائی دینا فطری تھا۔
رسالہ’جامعہ‘ کی اشاعت کا سلسلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے دو سال بعد ہی شروع ہو گیا تھا کیونکہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے لیے ایک ایسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے جو ادارے کی سرگرمی، اساتذہ کی کارکردگی اور طلبا کے کارناموں کو دوسروں سے متعارف کرائے۔ رسالہ ’جامعہ‘ اپنے قیام کے وقت ہی سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ترجمان رہا ہے۔ جس میں جامعہ کی فکر اور خیالات محسوس کیے جا سکتے تھے۔ ابتدا میں یہ خالص علمی اور فکری رسالہ تھا لیکن کچھ دنوں بعد اور خاص کر اگر یہ بات کہی جائے تو غلط نہیں ہوگی کہ پروفیسر محمد مجیب اور ڈاکٹر عابد حسین کی آمد کے بعد اس رسالہ کے مزاج میں تبدیلی آئی اور اس میں ادبی مضامین کی وسعت بڑھی۔اس میں ادبی موضوعات شامل ہو تے گئے۔ ابتدا میں اس رسالہ میں سیاسی و تعلیمی، مذہبی، تہذیبی موضوعات کی کثرت تھی کیونکہ وہ دور ہی سیاسی تحریکات کا دور تھا تقریباً1926 سے یہ رسالہ اردو کے ایک ادبی، تعلیمی اور فکری رسالے کی حیثیت حاصل کر گیا۔ یہ رسالہ1923 سے اشاعت پذیر ہے1947 میں نا مساعد حالات کی بنا پر تیرہ سال تک شائع نہیں ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد1960 سے رسالہ ’جامعہ‘ کی اشاعت دوبارہ شروع ہوئی جو ابھی تک جاری ہے اور آج بھی یہ رسالہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ادبی، تہذیبی اور فکری ترجمانی کر رہا ہے۔
1923 سے 1947 کے درمیان اس رسالے کے جو مدیران تھے ان میں نور الرحمن، اسلم جیراجپوری، یوسف حسین خاں، ڈاکٹر عابد حسین، نور الحسن ہاشمی اور پروفیسر محمد عاقل کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ حضرات ہیں جو اپنے آپ میں خود ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔
رسالہ’جامعہ‘ کی اگر تعلیمی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسالہ’جامعہ‘ نے1923سے1947 تک اپنے صفحات میں تعلیمی موضوعات کی ایک بڑی مقدار کو سمیٹا ہے۔ جیسے جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیمی تجربات ہوتے رہے یعنی تعلیم بالغاں اور بنیادی تعلیم وغیرہ ان سب کا ذکر رسالہ’جامعہ‘ کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین، خواجہ غلام السیدین، سعید انصاری اور سلامت اللہ وغیرہ نے جوخطبات، رپورٹیں اور تقریریں کیں ان کو بھی اس رسالہ میں دیکھا جا سکتا ہے جو آج بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ چنانچہ تعلیمی موضوعات پر متفرق مضامین رسالہ میں شائع ہوتے رہے۔ جرمنی، چین، روس، امریکہ میں جو تعلیمی صورت حال اس وقت تھی اور ماضی میں رہی ہوگی ان پر سنجیدگی سے اس رسالہ میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان ممالک کی تعلیم کا ذکرکر نا’جامعہ‘ میں اس لیے ضروری تھا تاکہ یہاں کے اساتذہ اور طالب علم وہاں کی تعلیم سے واقف ہو سکیں اور مستفید ہوں اور اپنی تعلیم کا معیار بلند کر سکیں۔ اس ادارے کا مقصد ہی اپنی قوم کی تعلیمی اصلاح کرنا اور نئے تقاضوں کے مطابق اسے رائج کرنا تھا۔ آئے دن تعلیمی نظریات بدل رہے تھے، نئی نئی ایجادات ہو رہی تھی زمانہ ترقی کی طرف گامزن تھا ایسے وقت میں تعلیم کے بارے میں سوچنا اور لکھنا اس بات کی علامت ہے کہ اکابرین جامعہ تعلیمی مسائل کے بارے میں گہرائی کے ساتھ سوچ رہے تھے۔ اس رسالے میں بعض اہل قلم نے دوسری زبانوں سے تعلیمی افکار کے تراجم بھی پیش کیے ہیں اس وقت کے ماہرین تعلیم نے تعلیم کا قومی زندگی اور اقتصادی مسائل سے رشتہ جوڑنے کے لیے جو قدم اٹھایا اور مضامین لکھے وہ توجہ طلب ہیں۔ مثلاً تعلیم اور کھیل، تعلیم اور سماج، تعلیم اور دستکاری، تعلیم بالغاں کے تجربے، تعلیم میں کھیلوں کی اہمیت، تعلیم میں سیر و سیاحت کی اہمیت وغیرہ عنوانات کے تحت مختلف مضامین ’جامعہ‘ کے صفحات میں موجود ہیں۔ بعض مضامین جن کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے سائنس اور تعلیم کے رشتہ پر بھی قلم بند کیے گئے ہیں۔ یہ تمام مضامین تعلیمی نقطہئ نظر سے آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ان مضمون نگاروں اور اہل قلم کے مضامین میں جو اپنے دور کے ماہرین تعلیم اور مفکر ہیں جن میں مولانا محمود الحسن، ڈاکٹر ذاکر حسین، یوسف حسین خاں، سعید انصاری، پروفیسر محمد مجیب، خواجہ غلام السید ین، ڈاکٹر سلامت اللہ،برٹینڈ رسل، عبد الغفور، ملا رموزی، توحیدی، ڈاکٹر فریڈ رش البرنٹ رائشی، بد ر الدین چینی، سید وقار عظیم الہ آبادی، آل احمد سرور، مولانا سید سلیمان ندوی، توکل ڈبائیوی، خواجہ احمد فاروقی، لالہ لاجپت رائے، وغیرہ ان مضامین میں مغربی و بیرونی ممالک کے ماہرین تعلیم کے مضامین کے تراجم بھی موجود ہیں جو تعلیم کے میدان میں بیش بہا قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان مضامین میں اسلام اور تعلیم جدید، آزاد اسلامی اور قومی تعلیم، پرانے صوفی اور نئی تعلیم، تعلیم اور سماج، تعلیم اور نئے معاشرے کی تعمیر، تعلیم اور مسئلہ معاش، تعلیم کی نفسیاتی بنیاد، جان ڈیوی کے فلسفہئ تعلیم کا اثر، جدید تعلیمی انقلاب اور مسلمانان ہند کے تعلیمی مسائل، شہریت کی تعلیم، کاروباری تعلیم کے خطرات، مسلمانوں کی تعلیم اور جامعہ، ہندوستان اور مسئلہ تعلیم وغیرہ موضوعات شامل ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ موضوعات ایسے ہیں جنھیں آج بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح رسالہ’جامعہ‘ کی تعلیمی خدمات سے انحراف کی بات تو الگ اس کی عظمت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی تعلیم کے میدان میں یہ مضامین اپنی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس کے برعکس رسالہ’جامعہ‘ کا مقصد صرف سیاسی، تہذیبی، تعلیمی، تاریخی مضامین شائع کرنا ہی نہیں تھا بلکہ علم و ادب کی تشہیر و تبلیغ بھی تھا۔ رسالہ’جامعہ‘ میں ادبی مضامین کا سلسلہ تقریباً1926 سے شروع ہوا ہے۔ اس کے بعد ادب کا ایک بڑا ذخیرہ رسالہ’جامعہ‘ میں موجود ہے۔ اس میں ادب کی سبھی اصناف شامل ہیں۔جن میں ادبی مضامین، افسانے، ڈرامے، خاکے، سوانح، سفر نامے، تبصرے، جائزے، انشائیے اور مکتوب وغیرہ ہیں۔ اسی طرح شعری اصناف میں غزلیں، نظمیں، مراثی، رباعیات اور قطعات وغیرہ ہیں۔ ان ادبی مضامین میں وہ اہل قلم شامل ہیں جن کی عظمت و وقار رہتی دنیا تک قائم رہے گا ان میں مولانا اسلم جیراجپوری، خواجہ احمد فاروقی، آل احمد سرور، محی الدین قادری زور، قاضی عبد الغفار، امداد صابری، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، پروفیسر محمد مجیب، عبد القیوم خاں باقی، شوکت سبزواری، ڈاکٹر عابد حسین، برکت علی فراق، مرزا فرحت اللہ بیگ، سعید انصاری، احسن مارہروی، عبد الماجد دریا آبادی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، رشید احمد صدیقی، سید نذیر نیازی، عبد العلیم احراری، علامہ اقبال، محمد ابواللیث صدیقی، شیخ محمد اسمعیل پانی پتی وغیرہ ان ادیبوں نے ان موضوعات کو رسالہ جامعہ میں پیش کیا ہے جن کی اہمیت عصر حاضر کے ادیبوں و قاری کے لیے مشعل راہ کا کام کر رہی ہے۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر ان ماہرین قلم نے اپنی ذہنی فکر کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً ادب اور مذہب، ادب اور ادیب کا مقصد، ارردو ادب 1941 میں، اردو رسم الخط، افسانے کا پلاٹ، افسانہ نویسی، اقبال اور قومیت، اقبال کا فلسفہئ حیات، اقبال اور کارل مارکس، تاریخ ادبیات ہند، تاریخ نثر اردو، جدید اردو شاعری کے بعض میلانات، حسرت موہانی کی شاعری، روسی انقلابی شاعری، شمالی اور دکنی اردو کی علیحدگی، شمالی ہندوستان کے دیہات کی زبان عربی رسم الخط، عربی شاعری کی ابتدا، علامہ اقبال کا فلسفہ، غالب اور قومی شاعری، کتب لغت عربی، لکھنوی ادب کا سماجی پس منظر، مولوی عبد الحق کی تنقید نگاری، مومن کی غزل گوئی، نثر میں شاعری، ہندوستان کی مختلف زبانیں اور ایک مشترکہ قومی زبان، ہندوستانی ڈرامہ، اس طرح رسالہ جامعہ نے اس ادبی ذخیرے کو اپنے دامن میں اس طرح سمیٹا جس میں ادب اور عالمی ادب کی ایک پوری تاریخ پوشیدہ ہے۔ علاوہ ازیں افسانے جس میں مشہور و معروف افسانہ نگاروں کے افسانے موجود ہیں ان میں اختر انصاری، خواجہ احمد عباس، حیات اللہ انصاری، عاشق حسین بٹالوی، محمد مجیب، کوثر چاند پوری، سجاد ظہیر، منشی پریم چند، علی عباس حسینی۔ اس رسالے نے ترجمہ نگاری کی روایت کو بھی آگے بڑھایا اور سبھی اصناف میں دوسرے مضامین کے تراجم نہایت عمدگی اور سلیقے سے پیش کیے گئے ہیں۔ اس رسالہ میں روسی، ترکی، اٹلی کے مشہور و معروف (چیخوف، موپاسا، سلمیٰ لا گرلاف، آسکر وائلڈ، ٹالسٹائے، بیارنسن، ٹیلڈ اسیراؤ وغیرہ کے افسانوں کا ترجمہ بہت ہی عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو ترجمہ معلوم نہیں ہوتا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ انھیں ترجمہ نگاروں کی تخلیق ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو رسالہ جامعہ نے اپنے صفحات میں افسانوں کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد پیش کی ہے۔ یہ افسانے اپنے زمانے کے ادبی، تہذیبی، تاریخی اور معاشرتی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔
خاکہ نگاری بھی رسالہ ’جامعہ‘ کے صفحات میں نظر آتی ہے۔ خاکوں کے ساتھ ساتھ انشائی تحریریں بھی شامل ہیں جن میں پروفیسر مجیب کا  انشائیہ’تنہائی‘ اور جیلانی بانو کا انشائیہ’غلطی کا احساس‘ قابل ذکر ہیں۔ رسالہ جامعہ کے صفحات میں سفر ناموں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن میں چودھری مختار سنگھ کا ’جرمنی کا سفر نامہ‘ قاضی عبد الغفار کا ’رومۃ الکبریٰ‘ اور مولانا سورتی کا’سفرحجاز‘ وغیرہ ہیں۔ اس رسالہ میں طنز و مزاح و مکتوب نگاری کا عنصر بھی گاہے گاہے نظر آتا ہے۔ ادب کا ایک بڑا حصہ شعری اصناف پر مشتمل ہے جس میں غزلیں، نظمیں، قطعات، رباعیات، اور مراثی شامل ہیں۔ اس رسالہ میں ’ادبیات‘ کے عنوان سے شعر و ادب کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت عظیم شعر ا کا کلام قارئین جامعہ کے لیے پیش کیا جاتا تھا نومبر1925سے نومبر1926 کے درمیان”دامن گلچیں‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت اردو کے مشہور شعرا کا کلام شائع کیا جاتا تھا۔ یہ غزل کے عروج کا دور تھا اور اس دور کی شاعری کے جو چار ستون سمجھے جاتے تھے، حسرت، اصغر، فانی، جگر وغیرہ کی غزلیں اس رسالے کے صفحات میں شائع ہو تی تھیں۔ اس کے علاوہ اس دورکے دیگر نمائندہ اورنوخیز شاعروں کو بھی اس رسالہ کے صفحات میں جگہ دی گئی ہے۔ ان نمائندہ شاعروں میں آل احمد سرور، اجمل خاں شیدہ، اسلم جیراجپوری، احمد ندیم قاسمی، اختر انصاری، بیدل، شاد عظیم آبادی، صفی لکھنوی، فانی بدایونی، فراق گورکھپوری، قائم چاند پوری وغیرہ  کاکلام بھی اس رسالہ میں شائع ہوا ہے۔
اس رسالہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ شروع سے ہی ایک مخصوص حلقہ تک محدود رہا اور اس حلقے کو ہم جامعہ برادری کا نام دے سکتے ہیں۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو یا تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نظریے سے اتفاق رکھتے ہیں یا جامعہ سے کسی نہ کشی شکل میں منسلک رہے ہیں یا پھر جامعہ کے لیے کسی طرح کی نظری اور فکری اہمیت کے حامل ہیں۔
اس کے محدود ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے مضامین ہمیشہ سنجیدہ اور فکر انگیز موضوعات سے متعلق ہوتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں ہلکی پھلکی یا عامیانہ قسم کی تخلیقات شامل نہیں ہوتی۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسالہ’جامعہ‘ کی ادبی و تعلیمی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس رسالہ نے ابتدا سے آج تک اپنا ایک معیار اور مزاج برقرار رکھا ہے اور اس میں ان ہی اہل علم و ادیبوں کو شامل کیا گیا ہے جو علم و ادب کا ایک گہوارہ ہیں۔ آج بھی ہمارے قاری اور ادیب اس میں شامل تخلیقات سے مستفید ہو رہے ہیں۔

Dr. Farzana Khalil 
F-148/1, Shaheen Bagh
Okhla, New Delhi-110025



ماہنامہ خواتین دنیا، دسمبر 2019
 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں