30/12/19

اردو شاعری اور روزمرہ کی زندگی مضمون نگار: بدر محمدی



اردو شاعری اور روزمرہ کی زندگی
بدر محمدی

تلخیص
مقالہ ’اردو شاعری اور روزمرہ کی زندگی‘ میں شاعری اور بالخصوص اردو شاعری کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کی خصوصیت اور جاذبیت بیان کی گئی ہے۔ اردو اشعار کی پیش کش کے طریقہئ کار اور ان کے اثر و رسوخ سے روشناس کرایا گیا ہے۔ شعروادب کی وابستگی انسانی زندگی سے قائم کی گئی ہے۔ شاعری اور روزمرہ کی زندگی کے مابین رشتہ استوار کیا گیا ہے۔ شاعری کا علاقہ زندگی سے بھی ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگی سے بھی۔ اس مقالے میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاعری ہماری زندگی کو روانی اور تیزگامی بخشتی ہے۔ اس سے زندگی متحرک اور فعال رہتی ہے۔ آئے دن ہم اردو اشعار سے کس قدر استفادہ کرتے ہیں، اس کی وضاحت زیر نظر مقالے میں کی گئی ہے۔ ضرب المثل کا درجہ پائے اشعار کی تشریح بھی کی گئی ہے اور انہیں حسب موقع استعمال کا محل بھی بتایا گیا ہے۔ روزمرہ کی زندگی اور گفتگو کو کیف آگیں بنانے کی ترکیب سجھائی گئی ہے۔ اردو شاعری کو مختصر مگر جامع اظہار کا وسیلہ ٹھہرایا گیا ہے۔ روزمرہ کی زندگی کو روبروئے شاعری کھڑا دکھایا گیا ہے۔ زندگی کو شاعری اور شاعری کو زندگی ثابت کیا گیا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں کن کن ذرائع سے شاعری کا لطف اٹھایا جاتا ہے اور فرد کا فرد سے کیونکر رشتہ مستحکم ہوتا ہے، یہ بھی بتایا گیا ہے۔ اردو شاعری کی قدردانی دوسری زبانوں کے دانشوروں کے حوالے سے بھی واضح کی گئی ہے۔ اس مقالے میں اردو شاعری اور روزمرہ کی زندگی کے تعلقات کو مدلل اور مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اردو شاعری میں یہ سلیقہ ہے کہ کون سی بات کب، کہاں اور کیسے کہی جائے۔ اردو شاعری اور روزمرہ کی زندگی کے رشتے کے سلسلے میں تحقیق بھی کی گئی ہے اور اس رشتے کی تنقید بھی پیش کی گئی ہے۔

کلیدی الفاظ
شاعری، موزونیت، جدیدیت، مابعدجدیدیت، ایجاز، عشق ِ مجازی، عشقِ حقیقی، حسنِ بیاں، اشارہ، کنایہ، رمز، ایما، ضرب المثل، بندشِ الفاظ، ابہام، پیچیدگی، سلیس، نازک خیالی، تبلیغ، اصلاح، تفریح، نثری اظہار، برمحل اشعار
——————
ایجاز و اختصار کے باجود شعر جامع اور مکمل ہوتا ہے۔ لفظوں کی ترکیب با وزن ہونے کے باعث اس میں موزونیت اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ نغمگی کا ہی نتیجہ ہے کہ تنہائی میں جب کوئی مخاطب نہیں ہوتا، مترنم آواز نہ ہوتے ہوئے بھی ہم کسی شعر کو پڑھتے نہیں گنگناتے ہیں۔ اسی طرح جب مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا ہے اور سننے سنانے کی باضابطہ محفل آراستہ کی جاتی ہے تو شعر کو ترنم سے پڑھنے میں ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شعر چونکہ کلام موزوں کا نام ہے اس لیے ترنم سے پڑھنا ہی اس کی درست ادائیگی ہے۔ اس کی زندہ مثال ہماری روزمرہ کی زندگی ہے۔ جب ہم کسی سے محو کلام ہوتے ہیں تو تبادلہئ خیال کا ذریعہ نثری پیرایہئ بیان ہوتا ہے۔ دوران گفتگو اگر کوئی شعر پیش کرنے کی نوبت آجاتی ہے تو ایسے میں ہم مترنم آواز کا سہارا نہیں لیتے بلکہ تحت اللفظ میں ہی شعر پڑھتے ہیں اور اس وقت اس میں اتنی برجستگی اور موزونیت ہوتی ہے کہ ترنم کا وسیلہ اپنایا جائے تو شعر مذاق بن کر رہ جائے۔ واضح ہو کہ تحت اللفظ کوئی نثری لب و لہجہ نہیں بلکہ اس میں وزن کی کارفرمائی صاف جھلکتی ہے۔ یعنی اوزان کی نشست و برخاست کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ جس وجہ سے غیر مترنم وسیلہ ہوتے ہوئے بھی شعر کی پیش کش کا اپنا ایک طرز دکھائی دیتا ہے۔ بعض شعر کی تو ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ روزمرہ کے معمولات کیا، مشاعرہ اور دیگر تقریبات کے موقع سے تحت اللفظ میں پڑھنا ہی زیادہ مناسب ہوتا ہے۔چنانچہ اردو کی بہت ساری غزلیں ایسی ہیں جنہیں گایا نہیں جاسکتا۔ ترنم کا جادو دراصل سماعت کو محظوظ کرنے کے لیے جگایا جاتا ہے۔ اس سے ذہن میں تصورات کے گلشن آباد ہونے لگتے ہیں اور ہم خواب و خیال کی وادی میں کھو جاتے ہیں۔ چونکہ مشاعرہ یا شعری نشست کا انعقاد ایک منصوبے کے تحت ہوتا ہے اس لیے خود کو محظوظ کرنے کی چاہت رہتی ہے۔ شعری فنکاری کے ساتھ ساتھ صوتی ہم آہنگی کی بھی طلب ہوتی ہے۔ لہٰذا فنکار اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اثر انگیز ترنم میں کرتا ہے اور اس طرح مشاعرے کو تفریح کا وسیلہ بنایا جاتا ہے۔
ادب ہر زمانے میں زندگی سے وابستہ رہا ہے وہ ادب برائے ادب کا دور ہو یا ادب برائے زندگی کا عہد۔ ترقی پسند تحریک کا زمانہ ہو یا جدیدیت اور مابعد جدیدیت کاعرصہ۔ ادب کا شعری حصہ یعنی شاعری جو فنون لطیفہ کی اعلیٰ ترین قسم ہے، زندگی سے نسبتاً زیادہ منسلک رہی ہے۔ وہ یوں کہ زندگی احساس کا نام ہے اور شعرو ادب احساس کی ترجمانی ہے۔ شاعری الفاظ کو محض بروزن ترتیب دینے کا عمل نہیں بلکہ شاعری کے لیے شعریت ضروری ہے جو بات کہی گئی ہو اس کالہجہ شاعرانہ ہو اور ظاہراً جو مفہوم سمجھ میں آرہا ہو،حقیقی معنی اس سے بالا تر ہو۔ تک بندی اور شعر گوئی میں بڑا فرق ہے۔ شعر سمجھنے اور سمجھانے کی چیز نہیں بلکہ محسوس کرنے کی شے ہے، دوسری جانب یہ بات بھی ہے کہ شعر کی مقبولیت اس کی گہرائی و گیرائی یا داخلی معنویت کی بنیاد پر نہیں طے کی جاسکتی۔ بڑا شعر وہ نہیں کہ جس کی تشریح در تشریح ہو اور وہ تحقیق کا موضوع بنے بلکہ اچھا شعر وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ کوٹ کیا جائے اور یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں اردو کے اشعار جس قدر کوٹ کیے جاتے ہیں کسی اور زبان کے اشعار کو یہ اعزاز حاصل نہیں۔تحریر و تقریر اور عام بول چال میں اتنے اشعار کسی دوسری زبان میں مستعمل نہیں اور پھر ان اشعار کابدل بھی نہیں   ؎
زندگی کیا کسی مفلسی کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
شدت ضعف نے حالت یہ بنائی میری
نبض چلتی ہے تو دکھتی ہے کلائی میری
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
آرام کیا کہ جس سے ہو تکلیف اور کو
پھینکوں کبھی نہ پاؤں سے کانٹا نکال کے
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
جن کا اقبال جوانی میں چمک جاتا ہے
ان کو بچپن کے حبیبوں سے حجاب آتا ہے
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گذرا ہوں خریدار نہیں ہوں
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
طاعت ہو یا گناہ پس پردہ خوب ہے
دونوں کا جب مزہ ہے کہ تنہا کرے کوئی
الٰہی خیر مرے کارواں کی
جسے دیکھو امیر کارواں ہے
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
شاعری کی شروعات مختصر بیانی کے پس منظر میں ہوئی تھی۔ اس کا ایجاز و اختصار آج بھی ہماری ضرور ت ہے۔ فرق یہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں سماجی بندشوں کے پیش نظر عاشق و محبوب چوری چھپے ملتے تھے۔ ایسے میں اظہا ر خیال کے لیے اختصار درکار تھا۔ اشارے کنائے میں دل کی بات کرنے سے شعر گوئی بالخصوص غزل گوئی فروغ پائی۔ جو لوگ دل لگاتے تھے نتیجتاً شاعر ہو گئے اور ایسا بھی ہوا کہ شعر کہتے کہتے دل لگانے لگے۔ آج بھی ہمارے پاس وقت کی قلت ہے اور یہ قلت دوڑتی بھاگتی زندگی کے باعث ہے۔ لہٰذا آج کا آدمی مختصر ملاقات اور مختصر بات چاہتا ہے۔ یہ کہنے کا زمانہ جاتا رہا کہ   ؎
ابھی تو آئے ہو بیٹھو ذرا چلے جانا
لگے گی دیر تمھیں حال دل سنانے میں
عملاً ہم زندگی سے بتدریج دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری زندگی مصنوعی ہوتی جارہی ہے اور احساس مرتا جارہا ہے۔ اگر احساس کہیں زندہ ہے تو شاعر اور ادیب کے یہاں۔ شعرو ادب اس لحاظ سے بھی زندگی سے وابستہ ہیں۔ اردو شاعری روزمرہ کی زندگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہیں پھولتی پھلتی ہے۔ تعلیم و تعلم، تحریر و تقریر اور روزمرہ کے دیگر حالات و کوائف میں ہم انھیں لازماً استعمال کرتے ہیں۔ مختصر گفتگو اور مکمل اظہار کے لیے شاعری بالخصوص اردو شاعری اچھا وسیلہ ہے اور نسبتاً زیادہ اثرانگیز بھی۔ دوبدو گفتگو کے لیے اب ملاقات بھی ضروری نہیں اور نہ ملاقات کے لیے بات ضروری ہے   ؎
اب گفتگو میں بیچ سے غائب ہے آدمی
ہم تک تو آتے آتے روایت بدل گئی
——
کیسے کہدوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے
ملتے رہتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
عشق بازی کے شغل کو اردو شاعری نے بہتر بتایا ہے وہ عشق حقیقی ہو یا مجازی۔ محبت کی دنیا حسیں ہے اور محبت کی دنیا میں سب کچھ حسیں ہے۔ محبت ایک جاوداں زندگی ہے۔ محبت نہیں تو زندگی بھی نہیں۔محبت زندگی ہے اور زندگی کا تعلق روزمرہ سے ہے لہٰذا محبت کا رشتہ بھی روزمرہ سے ہے اور پھر اردو شاعری کا محبت سے۔ اردو شاعری میں ہر بات محبت کی زبان سے کہی جاتی ہے اور کانوں میں مصری گھولا جاتا ہے۔ شعرائے اردو معاملات محبت سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ”میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“ کے علمبردار ہوتے ہیں۔ شعرائے اردو محبت کریں یا نہ کریں مگر محبت کی بات ضرور کرتے ہیں اور اس محبت کے تناظر میں کیسی کیسی باتیں دل پسند انداز میں کہہ جاتے ہیں۔جنہیں سنتے رہنے کا جی چاہتا ہے   ؎
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا
کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا
کسی کی یاد قیامت سے کم نہیں لیکن
کسی کو بھولنا اس سے بڑی قیامت ہے
ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہے
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے پاس رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
کوئی آیا نہ آئے گا شاید
کیا کریں گر نہ انتظار کریں
الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق
آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ہم با وفا تھے اس لیے ٹھکرا دیے گئے
شاید انھیں تلاش کسی بے وفا کی تھی
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آوازِ پا کے ساتھ
انھیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے
اک روز تجھے مانگ کے دیکھیں گے خدا سے
ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے
اردو شاعری کا حسن اس کا حسن بیاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شعر پارلیمانی اور اسمبلی اجلاس، سمینار، سپوزیم، بیت بازی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اردو شاعری میں نالہئ بلبل شیدا بھی ہے، جسے ہنس ہنس کر سنا جاتا ہے اور وہ بیان بھی ہے جسے سننے کے لیے جگر تھام کے بیٹھنا پڑتا ہے۔اردو اشعارسے استفادہ شاعر و ادیب ہی نہیں استاد، عالم، طالب علم، افسر، رہنما، وکیل، اور دیگر شعبہ جات کے افراد بھی کرتے ہیں۔ ان سب کے ذریعے تلخ، شیریں، سنجیدہ، مزاحیہ، کلاسیکی اور جدید اشعارپیش کیے جاتے ہیں۔ الغرض مزاج پرسی اور خیریت کی آگاہی کے سلسلے میں اردو کے بے شمار اشعار زبان زد خاص و عام ہیں ان اشعار میں یہ خاصیت بھی ہے کہ انھیں حسب موقع استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا روئے سخن بدلتا بھی رہتا ہے    ؎
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
ہمیں جب نہ ہونگے تو کیا رنگ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
یہ کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
ہم اپنے حال پریشاں پہ مسکرائے تھے
زمانہ ہو گیا یوں بھی تو مسکرائے ہوئے
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیاٍ
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھے
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا
بخش دے داور محشر مرا اعمال نہ پوچھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
ہندی کے معروف شاعر و ادیب تری لوچن شاستری کا اعتراف ہے کہ اردو غزل میں جو زبان مستعمل ہے وہ گفتگو کے لہجے سے بہت قریب ہے اس لیے اردو شاعری میں زندگی کے عناصر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے معروف ماہر نفسیات پروفیسر جیمس نے ہر شخص کو کم سے کم دس منٹ اردو شاعری کے لیے وقف کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مارکنڈے کاٹجو کا ماننا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت والی کتاب اردو غزل کی ہے۔نامور صحافی خوشونت سنگھ نے بھی اردو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو میں ایسے ایسے الفاظ ہیں جو جذبات و احساسات دل کی سچی ترجمانی کرتے ہیں۔ داخلی کیفیات کی منھ بولتی تصویر کھینچ دیتے ہیں   ؎
آہ نے وہ گہرے نقشے کھینچے ہیں تاثیر کے
تم تو دل رکھتے ہو آنسو گر پڑے تصویر کے
چونکہ شاعری بالخصوص اردو شاعری احساسات و جذبات کی ترجمانی ہے اور احساس کی وضاحت ممکن نہیں کیونکہ یہ محسوس کرنے کی چیز ہے۔ اس لیے اشارہ کنایہ، رمز و ایما اور ایجاز و اختصار کی جلوہ گری اردو شاعری کا جزو لاینفک ہے۔ یہی خوبیاں نثری فقرے کو ضرب المثل بناتی ہیں تو پھر اردو اشعار کو کیونکر نہ ضرب المثل کا درجہ حاصل ہو۔ ان میں نغمگی اور موسیقیت بھی ہے جو نثری فقرے میں نہیں۔ اردو اشعار ہمارے روزمرہ کی زندگی میں ضرب المثل کی صورت مستعمل ہیں۔ برمحل ایک شعر کی بدولت اس کا شاعر زندہ ہے، شعروادب زندہ ہیں، روزمرہ کی گفتگو آباد ہے    ؎
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
سدا دار و دورہ دکھاتا نہیں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ایام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے
دن عیش کے گھڑیوں میں گذر جاتے ہیں کیسے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے کہ جو گھٹنوں کے بل چلے
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اب تو دھوپ آ پہنچی جھاڑیوں کے اندر بھی
اب پناہ لینے کو تیرگی کہاں جائے
کچھ سمجھ ہی کر ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے
نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
مگر پھر بھی مرے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
ساحل کو دیکھ دیکھ کے یوں مطمئن نہ ہو
کتنے سفینے ڈوبے ہیں ساحل کے پاس ہی
گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
آج بنگلے پہ مرے آئی تھی آواز اذاں
جی رہے ہیں ابھی کچھ اگلے زمانے والے
اپنے کعبہ کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
حباب بحر کو دیکھو کہ کیسے سر اٹھاتا ہے
تکبر وہ بری شئے ہے جو فوراً ٹوٹ جاتا ہے
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
کیا ٹھکانا ہے زندگانی کا
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
ہو مرض تو دوا کرے کوئی
مرنے والے کو کیا کرے کوئی
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
سیر کی خوب پھرے پھول چنے شاد رہے
باغباں جاتے ہیں گلشن ترا آباد رہے
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو اک خواب ہے دیوانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے مجھے لا کے یہاں
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مرجانے کا
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
موت اس کی  ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
ورنہ دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہئ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
یہ ایسے اشعار ہیں، جن کے بغیر ہماری بات چیت بے مزہ ہوجائے اور بات بے مزہ ہو جائے تو حرکت و حرارت بھی بے لطف ہو جائے۔ حرکت و حرارت کے بے لطف ہونے سے روزمرہ کی زندگی بھی بے معنی ہو جائے۔شعر آمیز گفتگو میں نہ صرف بولنے والوں کی رغبت ہوتی ہے بلکہ سننے والے بھی دلچسپی دکھلاتے ہیں۔کیونکہ ایسی گفتگو میں متوجہ کرنے کی پوری قوت ہوتی ہے۔ جو کام ہزاروں باتوں سے نہیں ہوتا ایک شعر سے ہوجاتا ہے۔ ایک شعر سے مکمل داستان سنائی جاسکتی ہے۔ شعر کے ذریعے کوئی مخاطب کے سراپا میں اترتا چلا جاتا ہے۔ اچھا شعر انسان کو ذہنی اور روحانی فرحت بخشتا ہے۔ ذہنی خلفشار اور جسمانی تساہل سے نجات دلاتا ہے۔ اردو اشعار کے ذریعے پیار کا بھی اظہار ہوتا ہے اور غصے کا بھی۔ ان میں سرور و انبساط ہی نہیں احتجاج کی بھی باتیں ہوتی ہیں۔ علاحدگی، مظاہرہ، ناراضگی، رضا مندی اور دیگر متضاد خیالات کی کارفرمائی ملتی ہے۔ اردو اشعار کا استعمال، مافی الضمیر کی ادائیگی، سرخروئی اور برتری حاصل کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ مد مقابل کو ایک شعر سنا کر پسپا بھی کیا جاتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں صرف سنجیدہ اشعار سے ہی کام نہیں لیا جاتا بلکہ طنز کے نشتر بھی چلائے جاتے ہیں اور مزاح سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ اردو مطالبے اور تقاضے کی زبان ہے۔ لہٰذا اردو شاعری میں بھی یہ رنگ نمایاں ہے۔ اردو نے روزمرہ کی زندگی کو بہت کچھ دیا ہے، جس میں انقلاب زندہ باد کا نعرہ بھی ہے۔ زبان اردو بے اعتنائی کی شکار ہے مگر اس کے اشعار کی مقبولیت اپنی جگہ آج بھی مسلم ہے۔ دوران گفتگو ہم کبھی میر کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں تو کبھی غالب کے اقوال سے اور کبھی اقبال اور اکبر کے پیام سے۔ بعض اوقات گمنام شاعر کا شعر بھی استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اس سے غرض نہیں کہ کس کا، کب کا اور کہاں کا شعر ہے بلکہ بحث اس سے ہے کہ شعر برمحل، موزوں اور برجستہ ہے یا نہیں۔ سامع یا قاری کو متاثر کرنے والے اشعار ضرب المثل بن جاتے ہیں اور ان کا اثر تا دیر قائم رہتا ہے۔ ضرب المثل اشعار شعوری کوشش کے متقاضی نہیں ہوتے، موقع محل سے یہ خود در آتے ہیں۔ ان سے روزمرہ کی گفتگو، تحریر و تقریر کو موثر، دلچسپ او ر بامزہ بنایا جاتا ہے۔ گفتگو میں شعر کی آمیزش کے لیے ضروری نہیں کہ متکلم شاعر ہی ہو، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ناموزوں مصرع بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر اس میں بھی موزونیت کی کوشش کارفرماہوتی ہے۔ دراصل اپنی بات کو جاندار بنانے کے لیے اس میں غنائیت اور جاذبیت بھرنے کے لیے اور گفتگو کو نپی تلی بنانے کے لیے شعر کی مدد لی جاتی ہے۔ مصرع کے اشتراک سے نثر شاعرانہ ہو جاتی ہے، بندش الفاظ میں چستی آ جاتی ہے،گفتگو کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ مکالمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے، جب شعر کا جواب شعر سے دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات دوران گفتگوشعر کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔ الغرض روزمرہ کی زندگی میں مستعمل اردو شاعری زندہ شاعری ہے، زندہ دلوں کی شاعری ہے، زندگی سے وابستہ شاعری ہے   ؎
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
وہ کون ہے جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
یہاں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
عمر بھر مصروف ہیں مرنے کی تیاری میں لوگ
ایک دن کے جشن کا ہے کتنا زیادہ اہتمام
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
دنیا کے جو مزے ہیں ہر گز وہ کم نہ ہونگے
چرچے یہی رہیں گے افسوس ہم نہ ہونگے
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے کل کی خبر نہیں
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہو جائے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست بن جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
ہو چکا عشق اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز
دنیا میں کوئی غم کے علاوہ خوشی نہیں
وہ بھی ہمیں نصیب کبھی ہے کبھی نہیں
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
کہ جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہوگا
کسی نے کچھ لکھا ہوگا کسی نے کچھ لکھا ہوگا
دوران تحریر و تقریر حوالے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ شعر پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں اور ان دونوں مصرعوں سے بات پوری ہو تی ہے مگر بہت سے مصرعے ایسے ہیں جنہیں تنہا مکمل شعر کی حیثیت حاصل ہے۔ انھیں دوسرے مصرعے کی ضرورت نہیں ہوتی اگر شعر کو مکمل کیا جائے تو بدمزگی پیدا ہو جائے۔ کسی کسی شعر کے دونوں مصرعے کو الگ الگ بھی حسب موقع پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا مصرع ابہام و پیچیدگی سے مبرّا، سادہ سلیس، رواں دواں، خوبصورت اور موثر ہوتا ہے۔ اس طرح کے مصرعے سے مضمون کی سرخی بھی بناتے ہیں۔ کتاب کا عنوان بھی دیتے ہیں۔ طرحی مشاعرے کے لیے ایسے ہی مصرع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس قبیل کا مصرع نپا تلا اور برجستہ ہوتا ہے۔ ایسا مصرع اس قدر جامع اور مکمل ہوتا ہے کہ وہ ضرب المثل بن جاتا ہے یعنی اسے بے پناہ مقبولیت ملتی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ایسے مصرعوں کو کوٹ کرنے سے مختصر وقت میں بڑی بات کہہ دی جاتی ہے۔ اس طرح کے چند مصرعے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں  ع
ہر حال میں ہے شکر خدا کچھ نہ پوچھیے
——
آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے
——
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
——
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
——
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
——
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
——
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
——
اللہ کرے مرحلہئ شوق نہ ہو طے
——
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہیں
——
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
——
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
——
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
——
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
——
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
——
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
——
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
——
کہاں کھولے ہیں گیسو یا ر نے خوشبو کہاں تک ہے
——
دیکھو مجھے جو دیدہئ عبرت نگاہ ہو
——
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
——
دلربائی کے تجھے کتنے ہنر آتے ہیں
——
کوئی معشوق ہے اس پردہئ زنگاری میں
——
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
——
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
——
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
——
ہمیں سے سنت منصور و قیس زندہ ہے
——
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
——
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
——
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
——
چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی
——
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سڑکتے جائیں
——
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
——
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
——
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
——
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
——
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
——
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
——
کون سنتا ہے فغان درویش
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
——
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
——
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
——
کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ
——
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
——
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
——
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
——
اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی
——
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
——
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
——
جب دئے رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
——
پاسباں مل گیا کعبے کو صنم خانے سے
——
ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
——
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
——
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
——
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
——
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
——
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
——
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
——
آدمی چند ملاقاتوں میں مرجاتا ہے
ہماری روزمرہ کی زندگی شاہد ہے کہ اردو شاعری کس طرح عوام سے منسلک ہے۔ روزنامہ اور ہفتہ وار اخباروں میں اس کی جلوہ نمائی ملتی ہے۔ ماہنامہ، دو ماہی اور سہ ماہی رسائل و جرائد کی دل کشی شعری مشمولات سے ہی متعین ہوتی ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی کا شعری مجموعہ منصہ شہود پر آتا رہتا ہے۔ریڈیو، ٹیلی ویژن پر شعری نشست اور اسٹوڈیو مشاعرہ کا انعقاد معمول کا حصہ ہے۔ اردو اشعار کو روزمرہ کی زندگی سے ہم آہنگ کرنے میں فیس بک اور واٹس ایپ کی کارکردگی بھی ناقابل فراموش ہے۔ اردو شاعری سیاست، صنعت، کھیل کود، فلم، صحت، کیریئر سازی سارے شعبہ ہائے حیات سے وابستہ ہے۔ اردو شاعری داخل نصاب ہے۔ اس کی جلوہ گری، مدرسہ، خانقاہ، ادبی اڈہ اور میخانے میں دیکھی جاتی ہے۔ اردو شاعری شکایت کا ذریعہ بھی ہے اور عبادت کا وسیلہ بھی۔ قرآن کا منظوم ترجمہ، حمد، مناجات، نعت، مرثیہ، منقبت، منظوم دعا اردو شاعری کی مقبولیت پر دال ہیں۔ پیدائش، موت، شادی بیاہ، آمد، رخصتی کے ذکر کو بھی قافیہ بند کیا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات منظوم دعوت نامہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ اردو شاعری میں افواہ بھی ہے اور سچائی بھی۔ پہیلی بھی ہے اور کھلا اظہار بھی۔ معافی بھی ہے اور شاباشی بھی۔ آہ بھی ہے، واہ بھی۔ افسوس بھی ہے، حوصلہ بھی۔ اس طرح اردو شاعری آئے دن کام آنے والا سرمایہ ہے۔ تلقین و ہدایت، صبر و تحمل، حلم و بردباری، عاجزی و انکساری، میل محبت، خودی وانا نیت، سربراہی و رہنمائی اور تعزیت و تہنیت جیسے سیکڑوں معاملات میں اردو شاعری پیغام رساں لگتی ہے    ؎
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
اس شعر میں غالب کی خیر خواہی، نازک خیالی کی انتہا سہی مگر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ مبارکباد کے لیے اس سے بڑی بات کسی زبان میں شاید ہی کہی گئی ہو۔ اس کے برعکس کسی شخص سے تو تومیں میں کی صورت میں غصہ انتہا کو پہنچ جائے اور اظہار ناراضگی کے لیے لفظ نہ ملے تو ایسے میں اردو کا شعر موثر آلہ ثابت ہوتا ہے جس سے دل کی آگ بجھ جاتی ہے، مخاطب کو ضرب کاری لگتی ہے اور لہجہ شاعرانہ ہونے کے باعث بات مزید بڑھنے سے رک جاتی ہے   ؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
شاعری سے معاشرے میں شائستہ روی آتی ہے۔ بالخصوص اردو شاعری کا معاشرہ مہذب و سنجیدہ ہوتا ہے اس میں خوش اخلاقی پائی جاتی ہے لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شاعری سے تبلیغ و اصلاح ممکن ہے یوں تو دامن اردو متعدد اصناف سخن سے بھرا پڑا ہے مگر غزل کی حیثیت ممتاز و منفرد ہے۔ غزل کی تہہ داری اس کی معنی آفرینی سے عبارت ہے۔ آزادغزل اگرچہ تجربہ تک محدود رہی لیکن آزاد شاعری اور نثری شاعری مقبول ہو رہی ہے۔ آج کی جدید اردو شاعری میں ہر طرح کے خیالات پیش کیے جارہے ہیں۔ ہر طرح کے خیالات کی پیش کش کا مطلب ہے کہ ہر طرح کے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ اردو شاعری ہمارے شب و روز کے معمولات پر اس طرح اثر انداز ہے کہ دوسری زبان والے بھی اردو کے اشعار کو یاد رکھنے پر مجبور ہیں   ؎
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
——
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
——
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اردو شاعری ہماری ذہنی تفریح کا سامان بیش بہا ہے۔ یہ اس زمانے سے تفریح طبع کے کام آرہی ہے جب اس کے لیے کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ آج کے سائنسی اور مشینی عہد میں مصروفیت کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اس لیے تفریح کے بھی طریقے بدل گئے ہیں لیکن اس عہد میں بھی شگفتہ شعر سننے سے ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے اور ہم تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی وقت کے عذاب سے چھٹکارا پا جاتے ہیں اور خود کو لطف اندوز ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ جس طرح کوئی شاعر کسی دن اگر شعر نہیں کہتا ہے تو اسے عجیب سا لگتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی با ذوق شخص کسی روز کوئی شعر نہیں سنتا یا پڑھتا ہے تو اسے بے لطفی کا احساس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی شاعر یا شعروشاعری سے دلچسپی رکھنے والے فر د سے جب ہماری ملاقات ہوتی ہے تو اس سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ کسی سے پسندیدہ شعر سنانے یا پسندیدہ شاعر کا نام بتانے کی گذارش کیے جانے کی روایت بھی رہی ہے۔ یعنی ہماری روزمرہ کی زندگی مختلف طرح سے رو بہ رو شاعری کے کھڑی لگتی ہے۔ حوصلہ دینے کے لیے،گھبرانے سے بچانے کے لیے، اردو اشعار ہتھیار کا کام کرتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی اگر اردو شاعری کے جسم میں روح پھونکتی ہے تو اردو شاعری بھی زندگی کی رگوں میں صالح خون دوڑاتی ہے۔ اردو شاعری روحانی غذا ہے۔ یہ انسان کو زندگی کا احساس دلاتی ہے۔ اسے اپنے آپ سے روشناس کراتی ہے۔ اردو شاعری حیات انگیز شاعری ہے۔جو روزمرہ کی زندگی میں فعال و متحرک نظر آتی ہے اور ہم اس کے بغیر حقیقتاً بے حس و حرکت دکھائی دیتے ہیں۔ تلفظ کی درست ادائیگی کے لیے، قواعد کا مسئلہ سلجھانے کے لیے، دوران گفتگو اردو اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ شاعری نثری اظہار کو پختگی بخشتی ہے۔ بعض اوقات شعر کی نثر یا اس کا مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔ برمحل اشعار کی نثر اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کے استعمال سے بات میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ اردو شاعری کون سی بات کب، کہاں، کیسے کہی جاتی ہے کا وہ سلیقہ دیتی ہے کہ ہر بات سنی جاتی ہے۔
Badr Mohammadi
AT - Chandpur Fatah
P.O. - Bariarpur - 843102
Distt - Vaishali (Bihar)
Cell - 9939311612
E-mail:badrmohammadi1963@gmail.com


سہ ماہی فکرو تحقیق، اکتوبر تا دسمبر 2019
 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


2 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ۔ بہت خوب ۔ نہایت عرق ریزی سے لکھا گیا عمدہ مضمون۔ فاضل مضمون نگار کو دلی مبارکباد

    جواب دیںحذف کریں