30/12/19

لئیق صلاح کی علمی و ادبی خدمات مضمون نگار: قمر النسا



لئیق صلاح کی علمی و ادبی خدمات


 قمر النسا

 پیش کردہ خاکوں سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔“علاقہ حیدرآباد کرناٹک کی خواتین قلمکاروں میں ایک ایسی قلمکارہ بھی شامل ہیں جن کو اگر اس علاقے کی خواتین قلمکاروں کی ملکہ عالیہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور یہ شاہانہ جاہ و جلال اور شان و شوکت ان کے نام اور کام میں بھی شامل تھی وہ ادب کی ایک ایسی ملکہ رہی ہیں جو اپنے فن کے ذریعے اس خطے کی ادبی دنیا میں آن بان اور شان سے پچھلے کئی سالوں سے ابھی کچھ وقت پہلے تک حکومت کرتی رہیں۔اپنے حسن سلوک،شائستہ مزاجی، خوش رو و نرم گفتاری،شفقت،محبت اور ہمدردانہ سلوک سے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔سرخ و سفید رنگت،پروقار چہرہ، شائستہ مزاج،خلوص و محبت کا پیکر،ہمدردی اور شفقت کا سمندر اور اردو کی فلاح کا دوسرا نام تھا پروفیسر لئیق صلاح۔
حیدرآباد کرناٹک کی یہ ملکہ عالیہ10 فروری 1938 کو حیدرآباد دکن کے القعیطی خاندان میں جلوہ افروز ہوئیں۔ آپ کے جد امجد عمر بن عوض القیعطی ناصرالدولہ نظام چہارم کے عہد میں عرب سے یہاں تشریف لاکر حیدرآباد دکن میں سکونت اختیار کی۔ وہ نظام سرکار کے عہد میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور ان کے کارناموں اور خدمات سے خوش ہوکر انھیں شمشیر الدولہ اور جنگ بہادر کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔ ’عصمت النساء بیگم‘  لئیق صلاح کی نانی خود ایک شاعرہ تھیں اور ان کا تخلص باقرہ تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم ان ہی کے زیر نگرانی ہوئی۔بچپن سے ہی علمی و ادبی ماحول میسر ہوا اور سات سال کی عمر میں اپنا پہلا مضمون لکھا۔ نامپلی  سے اسکول اور پی یو سی کی تکمیل کے بعد ویمنس ڈگری کالج سے بی اے، علی گڑھ سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔  اس وقت شعبہ اردو کے صدر  کے عہدے پر پروفیسر آل احمد سرور فائز تھے۔ جامعہ عثمانیہ سے ایم فل ’میر شمس الدین حیات اور کارنامے‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سیدہ جعفر کی زیر نگرانی  پر مغز مقالہ تحریر کیا اس مقالے کے بارے میں مسعود حسین خان کو یہ کہنا پڑا کہ:
یہ مقالہ ایم فل کے معیار سے بلند تر مقالہ ہے
اور سیدہ جعفرہی کی زیر نگرانی میں ڈاکٹر یٹ کا مقالہ بعنوان عہد ارسطو جاہ کی علمی وادبی خدمات تحریر کیا۔اور ان مقالوں کے ممتحن ڈاکٹر گیان چند جین اور ڈاکٹر محمد حسن جیسے نامور محققین اور نقاد تھے۔
وہ ایک مہذب معزز اور شائستہ مزاج خاتون تھیں۔ مشرقی اقدار کی پاسداری کرنے والی، اعلیٰ ذہن وفکر رکھنے والی، بلند پایہ محقق، بے مثل تنقیدی شعور رکھنے والی، کامیاب  طنز و مزاح نگار،عمدہ تبصرہ نگار، تجربہ کار اور ہر دلعزیز استاد اور اردو کی خا موش خدمت گزار تھیں۔لئیق صلاح کی شخصیت پر صغری عالم لکھتی ہیں۔
لئیق صلاح کی شخصیت پر اظہار کرنا تفصیل طلب امر ہے یعنی کہ ایک گلشن کے تمام احوال بیان کرنا ہے، فطری انداز گفتگو پر کیف لہجے میں شان افتخاری سے افہام وتفہیم کی مخلصانہ فضا پیدا کرتی ہیں ہر بات نپی تلی ہوتی، متوازن ہموار اور روشن انداز گفتگو،پھول بکھرتے ہوئے لب ولہجہ کی اپنی مثال آپ رہی ہیں۔
ڈاکٹر لئیق خدیجہ جو ادبی دنیا میں لئیق صلاح کے نا م سے مشہور ہیں پیشہئ تدریس سے وابستہ تھیں۔مختلف کالجس میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے پھر 1983 میں بحیثیت اردو لیکچرر شعبہ اردو گلبرگہ یونیورسٹی میں تقرر عمل میں آیا۔ریڈر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور 1995میں بحیثیت پروفیسر شعبہ اردوسے ایک نیا دور شروع ہوا۔1997 تک صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کرتی رہیں اور اپنے دور صدارت میں بہت سے کام انجام دیے، نئی نسل کو روزگار سے جوڑنے کے لیے صحافت اور کمپیوٹر کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کا سہرا آپ کے ہی سر جاتا ہے۔کئی سمینار، ادبی اجلاس منعقد کروائے اور اردو کے ریفریشر کورس کا انعقاد کیا۔ ارمغان نامی مجلے میں اس کورس کے لیکچرز اور ساری روداد کو شائع کرکے اسے دستاویزی شکل دی۔وہ صرف شعبہ اردو کی ہی صدر نہیں رہیں بلکہ کرناٹک اردو اکادمی  کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔وہ اکادمی کی پانچویں صدر تھیں ا ور کرناٹک اردو اکادمی کی خواتین صدور میں دوسری خاتون صدر ہیں۔ ایک خاتون ہوتے ہوئے بحیثیت صدر کے دو مختلف ذمے داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیتی رہیں۔ مختلف ادبی جلسوں کا انعقاد کروایا ریاست کے تقریباً تمام اضلاع تک اکادمی کی ساری سر گرمیوں کو پہنچایا۔فصیل کے چھ شمارے (1) مضامین وشاعری نمبر (2) ابولکلام آزاد نمبر (3) جنوبی ہند میں اردو کانفرنس (4) خبرنامہ (5) گلبرگہ ارد وسیمینار نمبر (6) توسیعی خطبات نمبر شائع کروائے۔ یہی نہیں انھوں نے مستحقین کو ایوارڈ سے نوازا ان کی تخلیقی اشاعت کو شائع کروایا اور ایسے ہی بے شمار علمی و ادبی سرگرمیوں کے ذریعے اکادمی کے ہر شعبے میں ایک نئی روح ایک نئی فضا ایک نئی سوچ ایک نئی فکر عطا کی۔ سمینار، ادبی مقابلے، کانفرنس اور تہذیبی پروگرام، مشاعرے، سمپوزیم، بحث ومباحثہ وغیرہ کاا نعقاد کروایا۔ انھیں اردو زبان سے بے پناہ محبت تھی اور ان کی کاوشیں ان کی اردو سے محبت اور اردو کی بقاء کی ضامن بن گئیں اور ان کی خدمات ناقابل فراموش بن گئیں۔
ڈاکٹر حمیرا جلیلی آپ کی صفات کے متعلق رقمطراز ہیں:
ڈاکٹر لئیق صلاح نہ صرف ایک نامور ادیبہ، بہترین استاد بلکہ ایک نہایت مہذب خاتون ہیں جہاں کہیں بھی ڈاکٹر لئیق صلاح کا ذکر آتا ہے وہاں کے ماحول میں سنجیدگی، شرافت، نفاست اور شائستگی کی رعنائیاں  جلوہ افروز رہا کرتی ہیں۔ آداب گفتگو،شرافت کی خوشبو،فکر وخیال کی روشنی اس بات کی غماز ہیں کہ وہ مہذب معاشرہ کی ایک معزز خاتون ہیں۔
بحیثیت صدر  جہاں ان کی خدمات لائق تحسین ہیں تو وہیں ان کی تصنیفات اردوزبان وادب کے لیے باعث افتخار ہیں۔ ادب میں آپ نے بحیثیت طنز ومزاح  نگار اپنی منفرد چھاپ چھوڑی ہے۔ حیدرآباد کرناٹک کے مزاحیہ ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ ڈاکٹر لئیق صلاح کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ سنی سنائی سے ہوتا ہے۔ جس میں مصنفہ اپنی طنز ومزاح نگاری کے متعلق بعنوان ’کوئی بتلاوٗ کہ‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں:
ہمارا اور مزاح کا تعلق پیدائشی ہے۔جیسے جیسے شعور پختہ ہوتا گیا اس کی نشوونما ہوتی رہی اور جب پڑھنے لکھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہوئی تو زیادہ تر وہی کردار پسند آیا کرتے تھے جن میں مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا۔پھر شوکت تھانوی،شفیق الرحمن،پطرس،رشید احمد صدیقی اور مجتبی حسین نے اپنی طرف متوجہ کیا۔لیکن ان سب سے زیادہ جس شخصیت نے متاثر کیا، وہ ہیں زینت آپا (ڈاکٹر زینت ساجدہ) اس لیے کہ وہ تمام فن کار ہم سے دور تھے آپا کا ہمارا ساتھ قدم قدم پر رہا کرتا تھا۔ پڑھاتیں تو پر لطف جملوں سے محفوظ کرتیں۔ اسی طرح قلم بھی جب رواں ہوتا تو مزاح کا طوفان امنڈ پڑتا اس تصنیف میں جو خاکے ہیں وہ ان ہی کے
 سنی سنائی 1981 میں شائع ہوئی۔ جس کا مقد مہ مجتبیٰ حسین نے لکھا ہے وہ ڈاکٹر لئیق صلاح کی طنز و مزاح نگاری کے متعلق رقمطراز ہیں:
لئیق صلاح کے مزاحیہ مضامین میں بلند بانگ قہقہوں کی گنجائش نہیں البتہ نیم زیر لب کی خوشگوار رو سارے مضامین میں جاری وساری ملے گی۔لئیق صلاح ایک باشعور مزاح نگار کی طرح سماج کے بے ہنگم پن اور  بے اعتدالیوں پر ہنسی ہنسی میں چوٹ کرتی ہو ئی گزر جاتی ہیں اور یہی مزاح نگار کا سب سے بڑا فرض منصبی ہے وہ ایک دردمند دل رکھتی ہیں اسی لیے ان مضامین میں ان کی ہمدردیاں سماج کے کچلے ہوئے انسانوں کے ساتھ ہیں جہاں وہ کسی کردار کا مضحکہ اڑاتی ہیں وہیں اس کے کردار سے ہمدردی بھی رکھتی ہیں۔
سنی سنائی میں کہیں مکالماتی انداز ہے تو کہیں بعض مضامین پر انشائیہ کا گمان ہوتا ہے جیسے’آجکا اخبار‘ اور ’سنے جاتے نہ تھے‘ وغیرہ یہ مضامین انشائیے کی صنف میں فٹ بیٹھتے ہیں بعض تحریریں دل کو چھو لیتی ہیں اور شروع سے آخر تک قاری کے لبوں پر تبسم جاری رکھتے ہیں اور یہی دراصل مزاح ہے۔
مضمون  ’آج کا اخبار‘سے ایک اقتباس:
بے چارے جئے پرکاش نارائن بے موت مارے گئے سمجھ میں نہیں آتا کہ بعد کی زندگی کو دوسرا جنم کہیں یا نہیں؟خیر جانے دیجیے ان کی والی بات تو بعد میں ہوگی پہلے اس خبر رساں ایجنسی کی خبر لینی چاہیے جس نے 22 مارچ 1978 کو ہی جئے پرکاش کو آنجہانی بنا دیا تھا اس کا خمیازہ بھی مہنگا پڑا۔دراصل بے موت جئے پرکاش جی مرے نہیں بلکہ وہ مرگیا
دیدہ و شنیدہ کے نام سے ڈاکٹر لئیق صلاح کے مضامن کا مجموعہ 2012 میں منصہ شہود پر آیا۔اس میں شامل مضامین سے آپ کی وسعت مشاہدہ کا اندازہ ہوتا ہے بحیثیت عورت کہیے یا بحیثیت مصنفہ اپنے ماحول اور معاشرے کو جس نگاہ سے دیکھا اس کو بیان کردیا۔
دیدہ و شنیدہ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
بس کے انتظار میں ٹھہرے ہوئے لوگوں میں بے تحاشا اسی طرح کا اضافہ ہوتا گیا جس رفتار سے ہندوستانی آبادی میں ہورہا ہے اس آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے فرقہ وارانہ فسادات یا سیلاب وغیرہ نہ ہوتے تو پتہ نہیں اور کیا حال ہوتا۔
طنز ومزاح کے ساتھ ساتھ نصاب پر بھی ان کی نگاہ گہری تھی۔ ’آؤ اردو سیکھیں‘ کے عنوان سے نصابی کتابوں کا سلسلہ پہلی تا چوتھی جماعت اپنے دیگر ساتھیوں کی مددسےSCERTگورنمنٹ آف کرناٹک بنگلور کے زیر اہتمام تالیف کر کے اردو زبان و ادب کی اہم خدمت انجام دی۔ دیوان  ولی کو بھی NCPUL کے زیر اہتمام اضافوں اور حوالوں کے ساتھ مرتب کیا۔ 2013 میں ’خدا لگتی‘ تبصروں پر مشتمل تصنیف منظر عام پر آئی۔
ڈاکٹر لئیق صلاح نے تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے جو مختلف اخبارات و رسائل میں اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔ 1992 میں آپ کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ’عکس در عکس‘شائع ہوا  اور 1994 میں ’نقد وجستجو‘ منظر عام پر آیا۔جو آپ کی تنقیدی فکر اور تحقیقی کاوشوں کا بین ثبوت ہے۔
تحقیق کے میدان میں پروفیسر لئیق صلاح کی دو کتابیں میر شمس الدین فیض:حیات اور کارنامے اور دوسری  عہد ارسطو جاہ کی علمی و ادبی خدمات مقبول عام ہوچکی ہیں انھوں نے تحقیق کے میدان میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے اگرچہ یہ دونوں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے ہیں جو کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔
آپ کے ایم فل کا مقالہ میر شمس الدین حیات اور  کارنامے میں مصنفہ نے شخصیت کا بھرپور جائزہ لیا ہے ان کے حالات زندگی،پیدائش،تعلیم وتربیت،درباروں سے وابستگی اور ان کی  شاعری کا مکمل احاطہ کیا ہے آپ کی اس تصنیف کے متعلق جناب مہدی عباس حسینی رقمطراز ہیں۔
لئیق صلاح نے اپنی کتاب میر شمس الدین فیض میں یہی خدمت انجام دی ہے انھوں نے ایک شخصیت  نہیں ایک دور کے رخ سے پردہ اٹھایا ہے..... انھوں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے اس کو مرتب کیا ہے اور فیض کے فن کاا س طرح  تنقیدی جائزہ لیا ہے کہ ادب میں ان کے مرتبے کا تعین ہوجاتا ہے اگرچہ یہ کتاب ایک تحقیقی مقالہ ہے جو ایم فل ڈگری کے لیے عثمانیہ یونیورسٹی میں پیش کیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصنفہ یہ مقالہ اتنی محنت اور سلیقے سے لکھا ہے اور ہر طرح کے تعصبات سے بلند ہو کر فیض اور ان کے معاصرین کے بارے میں غیر جانبدارانہ اور بے لاگ تبصرے کیے ہیں کہ مقالہ اردو کے بہترین تحقیقی کاموں کی فہرست میں شامل ہونا چاہیے۔
عہد ارسطو جاہ علمی وادبی خدمات آپ کی دوسری تصنیف ہے جس کو انھوں نے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے پہلا باب سیاسی وادبی پس منظر دوسرا غزل گوئی (جس میں عہد ارسطو جاہ کے غزل گو شعرا کا جامع تعارف مع نمونہ کلام)تیسرا باب قصیدہ نگاری (عہد ارسطو جاہ کے اہم قصیدہ گو شاعرہ)چوتھا باب مثنوی نگاری (پانچواں باب تاریخ نویسی (10 تاریخ نویسوں کی کتا بوں کا تجزیہ) چھٹا باب تذکرہ نویسی، ساتواں باب متفرقات نظم ونثر، آٹھواں باب لسانی جائزے سے متعلق ہے غرض انھوں نے اس کتاب میں عہد ارسطو جاہ کے علم وادب کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔آپ کی تحقیق کاوش کے متعلق پروفیسر سیدہ جعفر کے خیالات پیش ہیں:
ڈاکٹر لئیق صلاح نئی پود کی ان باشعور ادبی شخصیتوں میں سے ہیں جن میں تحقیق کا سچا ذوق موجود ہے۔وہ اس کے آداب سے بخوبی واقف ہیں... زیر نظر کتاب ڈاکٹر لئیق صلاح کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس میں انھوں نے ارسطو جاہ اور ان کے ہم عصر شعراء کی علمی وادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔         
ان دونوں تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے علاوہ سید تمکین کاظمی کے غیر مطبوعہ مقالے ’ارسطو جاہ‘کو بھی ڈاکٹر لئیق صلاح نے مرتب کیا ہے۔   جو کام سید تمکین کاظمی نے کیا تھا، ڈاکٹر لئیق صلاح نے اس کو ترمیم و اضافے کے ساتھ شائع کیا جس پر مرتبہ نے 71 صفحات کا طویل اور مفصل مقدمہ لکھ کر اس موضوع کے تئیں  اپنی دلچسپی کا ثبوت دیا ہے۔           
پروفیسرلئیق صلاح کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات پر یونیورسٹی آف حیدرآباد سے نشاط تہنیت (بیدری)نے پروفیسر انورالدین کی زیر نگرانی  ایم فل کا مقالہ تحریر کیا اور سندحاصل کی۔جبکہ گلبرگہ یو نیورسٹی سے ڈاکٹر حبیب تنویر نے ڈاکٹر جلیل تنویر کی نگرانی میں  پی ایچ ڈی کامقالہ تحریر کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
پروفیسر لئیق صلاح جب تک درس وتدریس سے وابستہ رہیں طلبہ کی رہبری اور ریسرچ اسکالر ز کی سرپرستی فرماتی رہیں۔اس کے ساتھ لکھنا، پڑھنا، مطالعہ، ادبی گفتگو  آپ کا وطیرہ رہا۔ وظیفہ حسن خدمت  سے سبکدوش ہونے کے بعد ادبی مشاغل جاری رہے اشاعتی سلسلہ تیز تر رہا اس طرح آپ کی بہت ساری تصانیف منظر عام پر آئیں۔
راقمۃ کو بھی پروفیسر لئیق صلاح سے ملاقات کا شرف حاصل ہواہے۔ پروفیسر لئیق صلاح میرے استاد محترم عبدالرب استاد کی استانی رہ چکی ہیں۔ سر کی اپنی استانی سے دلی و روحانی وابستگی تھی سر کی اکثر باتوں اور لیکچرز میں میڈم کا ذکر ہوتا تھا۔  اسی لیے ہمارے دل میں میڈم سے ملاقات کی چاہ جاگی اور صرف ایک ہی ملاقات میں پروفیسر لئیق صلاح نے محبت، اپنائیت، شفقت اور خوش گفتاری سے اپنا گرویدہ بنا لیا ہم نے اپنے استاد محترم سے ہمیشہ اپنی استانی کے لیے خلوص محبت اور تعظیم ہی دیکھی اس قدر خلوص اور تعظیم وتکریم دیکھ کر ہمارے دلوں میں اپنے اساتذہ کے ساتھ ساتھ پروفیسر لئیق صلاح کے لیے بھی عزت بڑھتی چلی گئی۔
پروفیسر لئیق صلاح نے بحیثیت استاد اپنے شاگردوں کے دلوں میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں تو دوسری طرف بحیثیت فنکار اردودنیا پر اپنی علمی وادبی و فنی خدمات کے دیرپا اثرات ثبت کیے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے غرض لئیق صلاح ایک شخصیت نہیں اس خطے کا ایک عہد ہیں ایک عورت کی اتنی خدمات ہم تمام اردوداں طبقے کے لیے باعث افتخار ہے اور حالیہ دنوں ان کی موت نے اردو طبقے میں ایک خلا سا پیدا کردیا ہے اردو کی فلاح کے لیے لڑنے والی دوسری لئیق صلاح ملنا مشکل ہے۔


Qamerunnisa (RS)
Dept of Urdu & Prsian
Gulbarga University - 585106 (Karnataka)
Mob: 7259673569


ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019


 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

2 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈاکٹر لیق صلاح یقینا ایک کہنامشق ادیبا رہی ہیں۔ محترمہ کا میدان گوکے طنزومزاح رہاہے۔ لیکن آپ نے تحقیق و تنقیدی میں بھی کافی جوہر دکھائے ہیں۔ قمرالنسا کا یہ مضمون لیق صلاح کی تقریباً جہات کو اجاگرکرتا ہے اور بھرپور روشنی ڈالتاہے۔ یقینا قمرالنسا مبارک باد کی مستحق ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں