1/1/20

دہلی کالج، انگریزی تعلیم اور کشادہ ذہنی کی تشکیل (1824-1857) (مظہر مہدی) انگریزی سے ترجمہ: ڈاکٹر محمدرفیق


دہلی کالج، انگریزی تعلیم اور کشادہ ذہنی کی تشکیل
(1824-1857)

مظہر مہدی

انگریزی سے ترجمہ: ڈاکٹر محمدرفیق
تلخیص
1692میں قائم شدہ روایتی تعلیم کے ادارے مدرسہ غازی الدین کو انیسویں صدی کے اوائل میں انگریزی تعلیم کے اجراکے لیے منتخب کیا گیا۔ اس مدرسے کو اورنگ زیب کے درباری میر شہاب الدین غازی الدین نے قائم کیا تھا۔ روایت کی پاسداری کرنے والے طبقے کے افراد دہلی گورنمنٹ کالج کے نئے نام سے موسوم اس ادارے میں دی جانے والی انگریزی تعلیم کو مشرقی تہذیب و اقدارکے حق میں ضرر رساں اور خود اس کو جدید تہذیب اور اقدار کو فروغ دینے والا ایک اہم ادارہ تصور کرنے لگے۔ اس کالج کی انگریزی تعلیم، زائد از نصاب سرگرمیوں اور سائنسی اور تعقلی فضا کا طلبہ کے اندازِ فکر پر گہرا اثر مرتب ہوا۔ کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کے اختیار کردہ پیشے اور معاشرتی زندگی انگریزی تعلیم کے مخالفین کے خیال کو درست ثابت کر رہی تھی۔ اس لیے1857کی سامراج مخالف بغاوت عظیم کے دوران، جدید تعلیم کے مخالفین نے اس ادارے کو تباہ و برباد کردیا اوراس کے انگریز پرنسپل کو قتل کر دیا۔جبکہ جدید تعلیم یافتہ افراد یا اس تعلیم کے حامیوں نے ان اداروں، اقدار اور افراد کو بچانے کی مقدور بھر سعی کی روایت پسند طبقہ جن کی تباہی و بربادی کے درپے  اور خون کا پیاسا تھا۔ اس مضمون کی تسوید کے عمل میں چند سوالات پیش نظر رہے ہیں: کیا انگریزی تعلیم طلبہ کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے وہی کردارا دا کر رہی تھی جس کا تصور ابتدامیں اس کے محرکین اور پالیسی سازوں نے پیش کیا تھا؟ کیا حقیقت میں یہ ادارہ، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، جدید اقدار اور تہذیب کا ایک اہم آلہئ کار تھا؟کالج کے نصاب تعلیم میں شامل مضامین اور طلبہ پر انگریزی تعلیم کے اثرات کی نوعیت کیا تھی؟ اس کے فارغ التحصیل طلبہ کی معاشرتی زندگی کیسی تھی اور وہ کس قسم کے پیشے سے منسلک ہوئے؟
ان سوالات کے مد نظر اس مضمون میں انگریزی تعلیم کے پالیسی سازوں کے نظری مباحث کے محاکمہ کے ساتھ دہلی کالج کے قیام اور اس کے نشیب و فراز کی مختصر روداد بیان کی گئی ہے۔ نیز کالج کے جدید نصاب میں شامل مضامین،وہاں کی انگریزی تعلیم اور تعقلی فضا سے طلبہ پر مرتب ہونے والے اثرات کو روشن کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ طلبہ نے کالج سے فراغت کے بعد جس قسم کے پیشے کو اختیار کیا اور جس قسم کی معاشرتی زندگی انھوں نے گزاری وہ بھی اس مضمون کا اہم حصہ ہے۔اس مضمون کا بنیادی مقصد انگریزی تعلیم کی ان اقدار اور کردار کی تفہیم ہے جس کافروغ نوآبادیاتی برطانوی حکومت کا اصل منشا تھا۔

کلیدی الفاظ
دہلی کالج،  انگریزی تعلیم، برطانوی پالیسی، سائنسی علوم، مشرقی علوم، نصابِ تعلیم، ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی، رام چندر، محمد حسین آزاد، نذیر احمد، ذکاء اللہ، پیارے لال آشوب، سائنس وٹکنالوجی،جان  ایچ ٹیلر، بوٹروس، ولیم بینٹینک، مدرسہ غازی الدین، دہلی گورنمنٹ کالج
——————

ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا اجرا
اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ میں موجود اور ہندوستان میں مقیم برطانوی حکام نے آپس میں اس امر پر پرزور مباحثہ کیا کہ ان کی سلطنت کے ماتحت عوام کو کس قسم کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ عوام الناس کے لیے درکار تعلیم اور تعمیر حکومت کے لیے اس کی موزونیت اس مباحثے کا مرکزی نقطہ تھا۔ مباحثے میں شامل حکام کی رایوں میں اس پیچیدہ معاملے میں اختلاف پڑ گیا۔ ان کے اس نظری اختلاف کو وسیع تر مستشرقی (Orientalist)اورانگلیسیتی کے دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی موجودہ تعلیمی صورت حال میں تغیر و تبدل کے لیے برطانیہ میں انگلیسیتوں کا ابتدائی استدلال اور عوام الناس کی کثیر آبادی کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے مشنریوں کی طرف سے آئندہ ادا کیے جانے والے کردار کی بنیاد چند مفروضوں پر تھی۔ اس ملک میں چاروں طرف تاریکی پھیلی ہوئی ہے اور یہاں کے عوام غیر تعلیم یافتہ اور اوہام پرست ہیں۔ انھوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ انہی وجوہ سے وہ طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ تعلیمی اور تہذیبی صورت حال کی اس تفہیم نے چارلس گرانٹ (Charles Grant 1746-1823) کوروایت پسندی، مذہبی قدامت پسندی اور دیگر سماجی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ماقبل سرمایہ دارانہ ذرائع پیداوار پر علوم طبعی اور میکانیات کے نظری علم کا نسخہ آزمانے اور زراعتی مشینری کے استعمال پر آمادہ کیا۔انگریزی کو انتظامیہ، عدلیہ اور محکمہ محصولات کی زبان اور ذریعہئ تعلیم کے طور پر رائج کرنے کے خیال کی وکالت بھی اسی نسخے کا ایک حصہ تھی۔ سرکاری منشا سے پرے اگر اس ایجنڈہ منشور کی متوقع اثر پذیری پر غور کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستان کی زبانوں، تہذیبوں اور انتظامیہ پر اس کے دوررس نتائج مرتب ہونے والے تھے۔ علاوہ ازیں اس تجویز میں عیسائیت کی تعلیمات کو بھی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا مقصد ملک کے مذہب کی فلسفیانہ اساس، مذہبی ضابطہئ اخلاق اور مروجہ ضابطہئ عمل میں بنیادی تغیر تھا۔ اس نقطہئ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندستان میں مغربی ”روشنی اور علم“ یا انگریزی تعلیم کے اجرا کا خیال اس ملک کی روایتی تہذیب میں تبدل اور عوام الناس کی وہم پرست ذہنیت میں انقلاب برپا کرنے کا ایک ابتدائی خاکہ تھا۔1؎
قابل غور بات یہ ہے کہ اسی زمانے میں بنارس میں برطانوی حکومت کے نمائندہ جو نتھن ڈنکن (Jonathan Duncan 1756-1811) نے ہند و مذہب، فلسفہ، قوانین اور علوم و فنون کو گورنمنٹ سنسکرت کالج میں پڑھانے کی وکالت کی۔اس کالج کا قیام 1791 میں عمل میں آیا تھا۔2؎ اس امر کی وکالت و تائیدمیں وہ نہ صرف ہندوستان کے پہلے گورنر وارن ہیسٹنگس(Warren Hastings 1731-1818) کے تیار کیے ہوئے مشرقی علوم سے متعلق بر طانوی پالیسی یعنی نظریۂ استشراق  (Orientalism)کی پیروی کر رہا تھا بلکہ نوآبادیاتی سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر بنارس کو ہندو عقیدے کے محور کی حیثیت سے بھی دیکھ رہا تھا اور روایتی طور پر ممتاز طبقے یعنی برہمنوں کو ان علوم و فنون کی نشر و اشاعت کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ بہرحال روایتی اسلامی تعلیم کے ایک ادارے مدرسہ غازی الدین کی بنیاد بھی دہلی میں 1792 میں رکھی گئی۔
ہندوستان میں مقیم برطانوی حکام میں بھی یہ احساس پروان چڑھ رہا تھا کہ عوام الناس کی تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے۔ حالانکہ ان کے خیالات جداگانہ تھے۔ لارڈ منٹو(Lord Minto 1751-1814) اور لارڈ موئرا (Lord Moira 1754-1826)نے بھی اپنے اپنے دوران حکومت میں اس قضیے کو اٹھا یا جیساکہ یہ ان کی 1811 3؎ اور 1818کی رودادوں میں مذکور ہے۔4؎ موئرانے اس امر پر زور دیا کہ صرف اسکولوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیا جا ئے بلکہ جنرل سائنس سے متعلق درست افکار اور علم الاخلاق سے متعلق صحیح اصولوں کی تعلیم بھی دی جائے۔5؎  بہرحال ایسٹ انڈیا کمپنی اس تعلیم کے سلسلے میں اتنی بڑی ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھی کیوں کہ اس وقت تک انگلینڈمیں تعلیم کو حکومت کی ذمے داریوں میں شمار نہیں کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں تعلیم کی نشرواشاعت ہر شخص کی دلچسپی کا موضوع بنی رہی اور اس پر تقریباً دو دہائیوں تک زور و شور سے بحث و مباحثہ ہوتا رہاجو اس وقت ذراٹھہر گیا جب 1813میں چار ٹرایکٹ میں تجدید کا معاملہ پیش ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے تعلیم کو اپنی ذمے داری سمجھ کر چارٹر میں شامل کر لیا۔
ہاؤس آف کامنس (House of Commons) میں اس موضوع پر بحث و مباحثے کے دوران ولبر فورس (Wilberforce) 6؎نے جو چارلس گرانٹ کا دوست اور ہم مشرب تھا، ہندوستانی قلم رو کے عوام کو تعلیم یافتہ بنانے اور ان کے اندر بیداری لانے کی شدید ضرورت محسوس کی۔ اس کا یہ خیال تھا کہ تعلیم و تعلم، علم کی نشر و اشاعت اور سائنس کے فروغ سے، بالخصوص ان سب کے ساتھ ملکی زبانوں میں مقدس صحیفوں کی اشاعت سے ایسے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جن کی توقع مشنریوں کی راست محنت سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ 7؎
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سائنسی تعلیم ایک ایسا معاملہ تھا جس پر تقریباً تمام مشنریوں نے حد سے زیادہ توجہ دی۔ اس کا سبب ان کا یہ تصور تھا کہ لوگوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ توہم پرستانہ طور طریقے کو چھوڑ دیں گے اور برطانوی حکومت کے مداح ہو جائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دیگر امور کے علاوہ عیسائیت کی جانب مائل ہو جائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس نوع کی تعلیم میں اخلاقی اور سماجی بندشوں سے آزادی دلانے کی امکانی صلاحیتیں اور کچھ مثبت نتائج پیدا کرنے کی قوتیں ضرورموجود تھیں۔8؎ لیکن وہ لوگ جس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے وہ یہ کہ ایک سچے عقلیت پسند ذہن رکھنے والے انسان کے نزدیک تمام مذہبی عقائد توہم پرستی پرمبنی ہوتے ہیں اور یہ کہ اس کا ذہن مشرق اور مغرب کی بنیاد پر مذاہب کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتا۔
جو تحریک گرانٹ اور ولبر فورس نے ہندوستان میں انگریزی تعلیم کے اجرا کے لیے تقریباً دو دہائیوں تک چلائی تھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی جس کے نتیجے میں 1813 کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایکٹ میں 43نمبر کی شق کو شامل کیا گیا۔ اس کے مطابق گورنر جنرل بہ اجلاس کو”ادب کے احیا اور فروغ“، ہندستان کے تعلیم یافتہ طبقے کی حوصلہ افزائی اور اس ملک کے باشندگان کے درمیان سائنسی علوم کے اجرا اور فروغ کے لیے ایک لاکھ روپے کی رقم خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔ 9؎
اس ایکٹ کی شق نمبر 43بہت مشہور ہے یہ وہی شق ہے جس کی رو سے ہندستان میں پہلی بار قانونی طور پرتعلیم کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔10؎ کورٹ آف ڈائرکٹرس (Court of Directors) کی طرف سے اگلے سال گورنر جنرل بہ اجلاس کو جو پہلا تعلیمی مراسلہ (Dispatch)روانہ کیا گیا وہ زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے کیوں کہ اس میں متعدد قسم کے شکوک و شبہات منعکس ہو رہے تھے اور یہ جدید سائنسی علوم کی نشرو اشاعت کی غیر مشروط تا ئید سے عاری تھا۔11؎ ایک طور پر اس میں یہ بھی مذکور تھا کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کس قسم کی تعلیمی پالیسی اختیار کرے گی۔ اس معاملے میں جو امر اہمیت کا حامل ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ 1814کا مراسلہ کورٹ آف ڈائرکٹرس کی جانب سے جاری کیا گیا تھا جس سے ہندستان میں تعلیم کے باب میں اصلاح پسند موقف کی تائید نہیں ہوتی تھی۔
وارن ہیسٹنگس نے 1781میں کلکتہ مدرسہ قائم کیا تھا۔کمپنی کے عہدیداران اس قدیم پالیسی میں کسی قسم کے تغیر کے حق میں نہیں تھے جس پر وارن ہیسٹنگس کے زمانے سے عمل درآمد ہو رہا تھا۔ بہرحال ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندستان کے عوام یوروپی ادب اور سائنس کی قدر و قیمت سے بہت کم واقف ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں تربیت یافتہ اساتذہ اور درکار کتابوں کی غیر موجودگی کی صورت میں اس پالیسی کی کامیابی پر بھی شک تھا۔ ٹومس منرو(Thomas Munro)نے یہ اعتراف کیاکہ ہندوستان میں تعلیم کی مجموعی صورت حال فی الحال خراب ہوسکتی ہے لیکن یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ یہاں کی تعلیم کا معیار یوروپ کے اکثر ممالک کی تعلیم کے معیار سے یقینا اعلیٰ اور بہتر تھا۔12؎ عوام الناس کے لیے تعلیم کو دو وجوہ سے نا قابل عمل خیال کیا جا رہا تھا۔ اول، اگر انگریزی کو ذریعہئ تعلیم کے طور پر اختیار کیا گیاتو یہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگا۔ دوم، اگر دیسی زبانوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو’1813 کے ایکٹ کے تحت تعلیمی مقاصد کے لیے جو قلیل فنڈ مختص کیا گیا ہے 13؎وہ بہت کم پڑجائے گا اور خاطر خواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوگا۔ موجودہ صورت حال میں کورٹ آف ڈائرکٹرس نے ’بڑے شہروں میں اعلیٰ اور ”متوسط“ طبقوں کے لیے لبرل تعلیم‘کی حمایت کی جس سے وہ دو مقاصد کے حصول کی توقع کر رہی تھی۔ اول، انھیں سرکاری کاروبار چلانے کے لیے سستے عملے مل جانے کی امید تھی۔ اور دوم اس سے ایسے لوگوں کی ذہن سازی بھی متوقع تھی جن کا اپنی قوم میں بہت دور تک اثر و رسوخ تھا۔14؎ اس رویہ کو تسلیم کرانے میں کورٹ کو مشکل سے کامیابی ملی اور تقریباً ایک دہے کے پس و پیش کے بعد حکومت اس پر آمادہ ہو گئی۔15؎ نئے چار ٹر کی تعمیل میں گورنر جنرل بہ اجلاس کی ایک قرارداد کے ذریعے 1823 میں جنرل کمیٹی تعلیم عامہ کی تشکیل دی گئی۔ یہ عوامی تعلیمی نظام کے نئے دور کا آغاز تھا۔16
ولیم بینٹنک (Lord William Cavendish Bentinck 1774-1839) 4جولائی 1828کو گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے ایک سال کے اندر ہی انھوں نے اپنی ایک سرکاری یادداشت (Minute) میں یہ اعلان کیا کہ ہندستان میں انگریزی علوم و فنون کا اجرا اس ملک کے لیے از حد فائدہ مند ہوگا۔17؎ بروس میکولی کا بیان ہے کہ ’بینٹنک کے ساتھ ایک نئے عہد کا آغاز ہوا یعنی کہ مشرقی علوم کے لیے یوروپی خیالات اور علوم کے اتباع اور ہندستانی رسم و رواج میں شدید اصلاح کے دور کا آغاز۔30/ مئی 1829 کو جاری کردہ بینٹنک کی سرکاری یادداشت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے تعلیمی امور میں کس قدر دلچسپی تھی۔ انھوں نے کلکتہ شہر میں واقع ہندو کالج کا بار بار دورہ کیا۔ یہ ادارہ کلکتہ کے ہندوؤں میں یوروپی بیداری پھیلانے کے تعلق سے ان کا ایک قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔18؎
چارلس ٹریولین (Charles E. Trevelyen 1807-1886) 1826تا 1831دہلی میں معاون ریزیڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے اور 1833تا 1838 جنرل کمیٹی تعلیم عامہ کے رکن رہے۔انگریزی تعلیم ان کی حکومت سازی کے بڑے منصوبے کا ایک حصہ تھی جس کا مقصد ہندستان میں انگریزی زبان، یوروپی علوم اور آخرش عیسائی عقیدے کا قیام تھا۔ اپنی سامراجیت پسندی کے جوش میں وہ اس ملک کو ایشیا کے دیگر ممالک تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔19؎ انگلیسیتی رویے کے پرزور حامی ٹریولین نے بنٹینک کو لکھا:
اس بات کو پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا کہ ہندستان میں ایک عظیم اخلاقی تبدیلی کا آغاز ہو رہا ہے۔ ملک کے ہر گوشے میں اس بات کے اشارات نظر آ رہے ہیں۔ ہر جگہ اسی نظام کہنہ کا قطعی استرداد قابل مشاہدہ ہے، ہر جگہ تعلیم و تربیت کے ایک بہتر نظام کی آرزو کا اظہار ہو رہا ہے۔ وہ خصوصی رعایتیں جو فارسی زبان کو عدالتوں اور عدالتی امور میں حاصل ہیں ان کی منسوخی ایسی زبردست اچوک حکمت ہوگی جس سے ہندومت اور اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔“20؎
 بینٹنک کو بھی جنرل کمیٹی کے ان انگلیسیتی اراکین کے ساتھ ہمدردی تھی ’جو مشرقی علوم کی سرپرستی کے رواج کے شدید مخالف‘ تھے اور عربی، فارسی اور سنسکرت کے طلبا کے لیے مخصوص وظائف اور ان زبانوں میں طبع ہونے والی کتابوں کے لیے مختص مالی امداد میں تخفیف کے حامی تھے۔21؎ انگریزی اور ذریعہ تعلیم کے باب میں انگلیسیتوں کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے میکالے نے 2/فروری 1838 کو اپنی مشہور سرکاری یادداشت جاری کی22؎ جس کے فوراً بعد بینٹنک نے 7/مارچ 1838کو ایک قرارداد پاس کیا جس میں ہندستانی باشندوں کے درمیان یوروپی ادب و سائنس کے فروغ کو برطانوی حکومت کا عظیم مقصد قرار دیا گیا۔ قراردادمیں اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ تمام رقوم جو تعلیم کے مقصد کے لیے مختص ہیں ان کا استعمال صرف انگریزی تعلیم و تعلم کے لیے ہونا چاہیے۔ اس میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ ہندستان میں دیسی تعلیم کے اداروں کو منسوخ کرنے کا حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ’اس کمیٹی کی نگرانی میں چلنے والے تمام اداروں کے پروفیسران اور طلبہ کو ان کے وظائف ملتے رہیں گے۔‘ البتہ، اگر کوئی طالب علم اس کے بعد ’ان میں سے کسی ادارے میں داخل ہوتا ہے تو اس کو کوئی وظیفہ نہیں دیا جائے گا۔‘ جب مشرقی علوم کاکوئی پروفیسر اپنا منصب چھوڑ دے گا تو اس عہدے پر کسی کا تقرر کرنے یا نہ کرنے کا حکومت کو اختیار ہوگا۔ اس میں اس بات کی بھی ہدایت تھی کہ ’اس کے بعد سے فنڈ کا کوئی بھی حصہ‘ مشرقی علوم کی کتابوں کی طباعت پر خرچ نہیں کیا جائے گا اور ’ان اصلاحات کی وجہ سے صرف نہ ہونے والے مالی وسائل کا انگریزی ادب و سائنسی علوم کی تدریس پر استعمال کیا جائے گا اور انگریزی زبان اس تدریس کا ذریعہ ہوگی۔‘23؎ اس سرکاری فرمان کے ذریعے سے بینٹنک نے یہ ثابت کردیا کہ وہ انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ نوآبادیاتی ہندستان میں تعلیمی پالیسی پر اس فرمان کو سب سے زیادہ مؤثر دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس فرمان نے روایتی تعلیم کی جڑوں کو اپنے طور پر تقریباً اکھاڑ پھینکا۔ اس سے تعلیم کے میدان میں انگلیسیتی رجحان کو زبردست فروغ ہوا۔
دہلی میں کالج برائے انگریزی تعلیم کا قیام
 ستمبر 1823 میں جنرل کمیٹی تعلیم عامہ نے مقامی ایجنٹوں کو ایک گشتی مراسلہ ارسال کیا جس میں ان کو یہ ہدایت دی گئی کہ ہندوستان میں تعلیم کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور وقتاً فوقتاً ان اقدامات سے متعلق سفارشات بھیجی جائیں جن پر عمل درآمد کرنا تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے، مفید مطلب علوم و فنون کو متعارف کرانے اور عوام الناس کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے کے لیے ضروری نظر آتا ہو۔ساتھ ہی اس کمیٹی نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ مقامی ایجنٹ حضرات اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ کیا کوئی ایسا فنڈ ہے جو عوامی نوعیت کا ہو اور جس کا استعمال تعلیم عامہ کی نشر و اشاعت پر کیاجاسکے۔24؎ اس خط کے جواب میں مقامی ایجنسی کے سکریٹری جان ایچ۔ ٹیلر (John H. Taylor) نے دہلی میں تعلیمی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے حکومت کی اس تجویز کو گراں قدر سمجھا اور اسے شہر دہلی کے بالخصوص تباہ حال اشراف کے لیے ایک بہترین موقع جانا،25؎ کیونکہ یہ تعلیم ہی تھی جسے حاصل کر کے وہ اپنی قسمت سنوار سکتے تھے اور باوقار زندگی گزارسکتے تھے۔ خوش آئند توقعات کے مد نظر نہ صرف دہلی میں کالج کے قیام کو منظوری دی گئی بلکہ اس کے فوری قیام کی سفارش بھی کی گئی۔ ٹیلرنے مقامی ایجنٹوں کے مشورے کو حکام تک پہنچاتے ہوئے کہا کہ کشمیری مسجد میں جو مدرسہ ایجنسی کے ماتحت ہے اس مقصد کی تکمیل کے لیے مناسب ترین عمارت ہو سکتی ہے۔ اس میں برآمدے کے ساتھ 84/اپارٹمنٹ ہیں جو طلبہ اور اساتذہ کی رہائش کے کام آسکتے ہیں۔ مدرسہ کی مکمل طور پر مرمت کرائی جائے اور اس کا نام ”دہلی گو رنمنٹ کالج“ رکھا جائے۔ انہوں نے مدرسے کو دہلی کالج میں تبدیل کرنے کے لیے فنڈکی فراہمی کی بھی پیشکش کی، ساتھ ہی کمیٹی سے یہ دراخواست بھی کی کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی رقم کے علاوہ مزید مالی امداد منظور کی جائے۔ رپورٹ میں ٹیلر نے ایجنسی کے سر براہان کی اس خواہش کا بھی ذکر کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دہلی کالج کا سکریٹری ٹیلر کو بنایا جائے۔26؎
ٹیلرنے جو تجاویز پیش کی تھیں ان میں سے اکثر کو حکومت نے منظور کرلیا۔ جنرل کمیٹی تعلیم عامہ نے 1924 میں رقم مہیا کر ادی۔27؎ اس کے علاوہ اس ادارے کے لیے حکومت کی جانب سے بطور مالی امداد سات سو روپئے ماہانہ مختص کیے گئے۔28؎ٹیلر کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے دہلی کالج کے قیام کے لیے سات ہزار ایک سو پندرہ روپے کے صرفے سے مدرسہ غازی الدین کی مرمت کرائی گئی۔ اس کام کے لیے یہ روپے حکومت نے ٹاؤن ڈیوٹی فنڈ سے دیے۔ ٹیلر کو کالج کے سکریٹری کا عہدہ سونپنے کے علاوہ اس ادارہ کی نگرانی کی ذمے داری بھی تفویض کی گئی۔ 1925 میں کالج کے قیام سے قبل اس مدرسے میں صرف ایک مدرس تھے جن کا نام مولوی انعام اللہ تھا اور وہاں زیر تعلیم طلبہ کی کل تعداد نو تھی۔29؎ کالج کے قیام میں چونکہ بہت سے مسائل درپیش تھے اور دشواریاں حائل تھیں اس لیے حکومت نے آہستگی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دی۔
1828 میں کالج میں شعبہ انگریزی کا قیام عمل میں آیا۔ دہلی میں برطانوی ریزیڈنٹ کمشنرچارلس مٹکاف (Charles Theophilus Metcalf 1785-1846) اور ان کے معاون ریزیڈنٹ ٹریولین دہلی کالج کی مقامی کمیٹی میں شامل تھے اور ہندوستان میں انگلیسیتوں کے مقاصد کے پرزور حامی تھے۔ یہ دونوں اس تبدل کے بنیادی محرک سمجھے جاتے تھے جسے الٹرا ریڈیکل (Ultra-radical)تصور کیا جا رہاتھا۔ 1829 میں دہلی کالج میں ایک لاکھ ستر ہزار روپئے کے وقف سے مشرقی علوم کا سیکشن کھولا گیا۔ اس وقف کو اودھ کے نائب سلطان نواب اعتماد الدولہ میر فضل علی خاں نے قائم کیا تھا۔ان کے والد میر غلام حسین سلطنت مغلیہ کے زوال کو محسوس کرکے دہلی سے اس وقت ہجرت کر گئے تھے جب اس شہر کے رؤسا، اشرافیہ اور دانشور بہتر زندگی کی تلاش میں یہاں سے کوچ کررہے تھے۔30؎ ’انگریزی زبان کے ذریعے سے یو روپی علوم کی تعلیم اور انگریزی کے مطالعے کے لیے ایک علاحدہ کالج‘31؎ کے قیام کا جو منصوبہ بنایا جا رہا تھا وہ 1840 کی دہائی میں اس وقت پورا ہو گیا جب مستقل طور پر ایک پرنسپل کی تقرری عمل میں آگئی۔
ابتدا میں وہ تمام طلبہ جو مدرسہ میں مشرقی زبانیں سیکھ رہے تھے انہیں انگریزی کلاس میں شرکت کرنے کی اجازت دی گئی۔اس اقدام کاطلبہ نے جوش و خروش کے ساتھ خیر مقدم کیا اور  پچاس فیصد سے زائد طلبہ انگریزی کی کلاس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گئے لیکن اس سے مسائل پیدا ہونے لگے جس کا حل پندرہ اسکالر شپ کے ساتھ شعبہئ انگریزی کے قیام کی صورت میں نکلا۔ طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے جگہ مہیا کرانے اور انگریزی کے نئے کورس کے توسیعی منصوبے پر عمل کرنے کے لیے نواب اعتماد الدولہ فنڈ کا استعمال کرکے کالج کمیٹی نے ایک انگریزی کالج قائم کیا، جس کو دہلی انسٹی ٹیوٹ کا نام دیا گیا۔32؎ اعتماد الدولہ کے داماد سید حامد علی خاں نے فنڈ کے غیر مناسب استعمال پر احتجاج کیا۔ کچھ ان کے احتجاج کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ تمام مذاہب کے روایت پسندوں میں انگریزی تعلیم کے خلاف ایک جذبہ بیدار ہو رہا تھا،مشرقی اور مغربی دونوں سیکشن کو دو تین سال کے اندر علاحدہ کردیا گیا۔اگر طلبہ کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس مختصر مدت میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔ مشرقی علوم کے طلبہ اپنے شعبے کو چھوڑ کر انگریزی شعبے میں جانے لگے۔33؎ حال ہی میں قائم اس کالج نے جیسی ترقی کی تھی اس پر کورٹ آف ڈائرکٹرس نے کافی اطمینان کا اظہار کیا۔ساتھ ہی کورٹ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ ’اعلیٰ طبقات‘ کے ہندو اور مسلمان ’یوروپی تعلیم اور یوروپی سائنس و ادب‘ کی مزید تحصیل کے آرزومند ہیں۔34؎ آخرش انگلیسیتی موقف غالب آگیا۔ مدرسہ غازی الدین امپیریل دہلی شہر کا وہ ادارہ ہے جہاں بر طانوی حکومت کی مداخلت کے بعد جدید تعلیم کا آغاز ہوا۔
ولیم بینٹنک نے 1831 میں دہلی کالج کا دورہ کیا۔ وہاں ان کو اس ادارے کی تعلیمی صورت حال اطمینان بخش نہیں نظر آئی۔35؎ بینٹنک کے دورے کے چند برسوں کے اندر ٹریولین نے مستشرقی اور انگلیسیتی اراکین سے متشکل دہلی کی متوازن مقامی کمیٹی سے گورنر جنرل کو آگاہ کیا۔ یہ محدود اختیار کی حامل ایک انتظامی کمیٹی تھی جس کے اراکین کو ٹریولین نے ’تاریکی‘ اور ’روشنی‘ کے دو خانوں میں تقسیم کر کے جدید اور قدیم نظام کے حامیوں میں شمار کیا۔ بہرحال اس کا یہ گمان تھا کہ ’رائے عامہ مقبول عام تعلیم‘ کے حق میں ہے جس کی وجہ سے مخالفین کے لیے یہ ممکن نہیں رہاکہ وہ کمیٹی سے باہر اس کے خلاف کچھ کہہ سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ سنسکرت، عربی اور فارسی جیسی ’دم توڑ چکی مشرقی زبانیں‘ دہلی کالج میں بے توجہی کا شکار ہو گئیں۔36؎
مشرقی تہذیب و ثقافت اور مغلیہ حکومت کی یادگار فارسی زبان 1837 میں منسوخ کر دی گئی اور دہلی Residencyنے فیصلہ کیا کہ وہ ’ہندستان کی ان ریاستوں سے جن سے اس کا اتحاد ہے اب صرف اور صرف انگریزی زبان میں ہی خطوط و درخواستیں قبول کرے گی۔37؎  1835 میں بینٹنک کی بنائی ہوئی یہ فیصلہ کن پالیسی نہ صرف ہر اس چیز کے لیے موت کا اعلان تھی جس کا تعلق قرون وسطیٰ اور مشرق سے تھا بلکہ یہ مغربی تہذیب و علوم اور انگریزی زبان کے ایک نئے دور کے آغاز کا نقیب بھی ثابت ہوئی۔ دہلی کالج بھی اس بدلے ہوئے منظرنامہ سے متاثر ہوا۔ اس ادارے کی کلاسیکی زبانوں کے طلبہ کے لیے اس سے قبل جو وظیفے مختص تھے اس میں بھی تخفیف کر دی گئی۔ 1833 میں اس طرح کے وظائف جو طلبہ کو دیے جاتے تھے ان کی تعداد 243تھی جسے 1838 میں گھٹا کر نواسی کر دی گئی۔38؎ چند برسوں کے اندر طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی کمی درج کی گئی اور سرکاری روداد کے مطابق اسی کو کالج کے زوال کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ مزید انحطاط پر قابو پانے کے لیے کالج کے مشرقی علوم کے شعبے کے واسطے مجموعی طور پر ہر ماہ 452روپے کی رقم وظیفے کے لیے متعین کی گئی۔39؎ اس کے برعکس 1833 میں شعبہئ انگریزی میں 166طلبہ کو داخل کیا گیا تھا جن کی تعداد 1845میں بڑھ کر 245تک پہنچ گئی۔ شہر کے باشندوں میں جدید تعلیم کے بارے میں جو شک و شبہ تھا اس کا گویا ازالہ ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔40؎
1840 کے آس پاس کالج کی زندگی میں کچھ اہم واقعات پیش آئے۔جیمس ٹھامسن (James Thomason) کوگورنر جنرل بہ اجلاس (1836-1842) لارڈ آکلینڈ(Lord Auckland 1784-1849)  کی’قرار داد کے مکمل نفاذ کے لیے شمال مغربی صوبوں کے اورینٹل کالجوں کی نگرانی کے لیے‘ مقرر کیا گیا۔41؎ انھوں نے دہلی کالج کی صحیح صورت حال کاجائزہ لینے کی غرض سے 1841 میں دورہ کیا۔ اس کا مقصد مفید مشورہ دینا اور عملی تدابیر پیش کرنا بھی تھا تاکہ اس ادارے کی صورت حال بہتر اور قابل ستائش ہو سکے۔ 42؎ کالج کا دورہ کرنے کے بعد انھوں نے جنرل کمیٹی تعلیم عامہ کو یہاں کی صورت حال سے واقف کرایا اور ساتھ ہی انھوں نے ’کالج کے تعلیمی اور انتظامی ڈھانچے میں اہم تغیر و تبدل‘ کامشورہ دیا۔ یوروپی صدر مقام سے بہت دور واقع ہونے کی و جہ سے اس کالج کی منتقلی اور ’اورینٹل اور یوروپی تعلیم کی ایک ساتھ تحصیل‘ کے لیے کالج کے دونوں شعبوں کے انضمام کا بھی مشورہ دیا۔ اس مشورہ کے پس پشت یہ منشا کارفرما تھا کہ ایسا کرنے سے مشرقی علوم و فنون پر مفید اثر مرتب ہوگا۔43؎
کالج میں اصلاحات لانے کے لیے ٹھامسن کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کو حال ہی میں مقرر کیے گئے پرنسپل فلِکس بوٹر وس نے عملی جامہ پہنایا۔44؎ کالج کی اصلاح کی گئی اوراس کی از سر نو تنظیم کی گئی اور مدرسین وعملہ کی تنخواہ بڑھائی گئی جس کے بہت دوررس نتائج نکلے۔ فلِکس بوٹروس نے انگریزی اور مشرقی علوم کے شعبوں کوضم کر دیا۔اس کو ضم کرنے کا بظاہر مقصدمشرقی علوم کے شعبے کے معیارکو مغربی علوم کے شعبے کے معیار کے برابر لانا45؎اور دونوں شعبوں کے طلبہ کے درمیان ایک ہی طرح کے مفید مطلب علم کی نشرواشاعت تھا۔ کالج کے نصاب تعلیم میں شامل سائنسی علوم،علوم ریاضی، اخلاقیات، فلسفہئ قانون، سیاسی معیشت، تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ان کی تعلیم سے عصبیت اور تنگ ذہنی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔46؎ انضمام سے پہلے ان دونوں شعبوں کے طلبہ کا ایک ہی قسم کے مضامین میں امتحان لیا گیا اور اورینٹل شعبے کے طلبہ معیار کے معاملے میں شعبہئ انگریزی کے طلبہ کے برابر پائے گئے۔ بہرحال بوٹروس کے خیال میں اورینٹل سیکشن کے طلبہ انگریزی سیکشن کے طلبہ سے ’بہت زیادہ فائق‘ تھے۔47؎
دہلی کالج میں کیے گئے اصلاحی اقدام کی بالخصوص ’اردو زبان کے ذریعے سے یہاں کے باشندوں کو یوروپی ادب کی تعلیم دینے‘ کے عمل کی، لیفٹینینٹ گورنر کی طرف سے ازحد پذیرائی کی گئی۔ وہ اس حقیقت سے واقف تھا کہ یہ ’یوروپ کی معیاری کتابوں‘ کے مقامی زبان اردومیں ترجمہ سے ممکن ہوسکا۔بوٹروس نے ان کتابوں کے ترجمہ کی نگرانی اور اسی مقصد کے لیے کچھ کتابوں کی تالیف بھی کی تھی۔48؎ وہ کالج جو تقریباً سترہ برسوں سے غازی الدین مدرسہ کی عمارت میں چل رہا تھا اس کو کشمیری دروازے کے قریب مغل طرز کی ایک عمارت -دارا شکوہ لائبریری- میں منتقل کردیا گیا۔ اس عمل سے کالج ’ٹھیک برطانوی دفاتراور رہائش گاہوں کے درمیان پہونچ گیا‘49؎جہاں ایک بار سر ڈیوڈ اوکٹر لونی (Sir David Ochterlony 1758-1825) نے دہلی کے برطانوی ریزیڈنٹ کی حیثیت سے قیام کیا تھا۔
نصاب تعلیم، نصابی کتابیں اور ترجمہ
1823 میں جنرل کمیٹی تعلیم عامہ کی تشکیل کے دو ہفتہ کے اندر حکومت کی جانب سے اس کے مقرر کیے گئے اراکین کو ایک خط روانہ کیا گیا جس میں ان کی تقرری کی اطلاع دینے کے علاوہ اس کمیٹی کے اغراض ومقاصد بتائے گئے تھے۔50؎خط کے جوا ب میں، اراکین کمیٹی نے سائنسی مضامین کے تفوق و برتری اور سائنسی تحصیل علمی کی اثر پذیری میں اپنے یقین کی بنیاد پر میکانیات (Mechanics)، علم آب (Hydrostatics)، علم الہوا (Pneumatics)، بصریات (Optics)، برقیات (Electricity)، علم ہیئت (Astronomy) اور علم کیمیا(Chemistry) کی تعلیم کی پرزور سفارش کی۔  انھوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ سال کے مناسب ایام میں ان مضامین پر یا ان کی مخصوص شاخوں میں سے کسی ایک پر آیا شام کے وقت یا تعطیل کے دن عام لوگوں کے لیے خطبات علمی کا اہتمام کیا جائے اور ان خطبات میں اسکول اور کالج کے تمام منتظمین، اساتذہ اور طلبہ کو شرکت کی اجازت ہو۔ اس خط میں انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ معقول فیس لے کر عوام کو بھی ان خطبات میں شرکت کی اجازت دی جائے۔51؎ اگرچہ یہ مشورہ اور تجویز کلکتہ کے ہندو کالج کے لیے تھی لیکن تقریباً یہ تمام مضامین، جن کا مشورہ جنرل کمیٹی کے اراکین نے سائنس کے آئندہ طلبہ کے لیے دیا تھا،دہلی کالج کے نصاب تعلیم میں شامل کر لیے گئے۔ علاوہ ازیں علوم و فنون کی روایتی اور جدید شاخوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا تھا۔52؎ ہندستان میں اس طرح کی تعلیم کے اجرا اور عوام میں اس کی نشر و اشاعت کی غایت اصلی کیا تھی اس کا اظہار یقینا جنرل کمیٹی کی اس تجویز سے ہوجاتا ہے۔53؎ بعد میں سرکاری اداروں میں سائنسی موضوعات پرعوامی خطبات کا انعقاد معمول بن گیا۔ اس نوع کے خطبات دہلی کالج میں بھی اردو زبان میں منعقد کیے گئے۔
 کالج کا نصاب تعلیم بنیادی طور پر جدید مضامین پر مشتمل تھا۔ ان مضامین کی تحصیل کرنے والے دونوں جماعتوں کے طلبا پر ان کے حسب دلخواہ عقلیت پسندانہ اثرات مرتب ہوئے۔ دہلی کالج کے ایک استاد اور فارغ التحصیل طالب علم کے سوانح نگار ایڈون جیکب نے اس کے بارے میں ان الفاظ میں اپنا مشاہدہ پیش کیا ہے: ’جدید سائنس کے زیادہ عقلیت پسندانہ اور تجرباتی نظریات کے سامنے عربی زبان میں پڑھائے گئے قدیم فلسفہ کے تصورات کو ناقابل توجہ خیال کیا جانے لگا۔ ”فطرت خلاء سے نفرت کرتا ہے“اور ”زمین کائنات کا غیر متحرک مرکز ہے“،جیسے پرانے خیالات کا دہلی کالج کے اورینٹل شعبہ میں اعلیٰ درجہ کے طلبہ نیز انگریزی شعبہ کے طلبہ نے عام طور پر مذاق اڑایا۔‘54؎ یہاں کے نصاب تعلیم میں اسلامی قوانین (بشمول شیعہ اور سنی فقہ) کوشامل کیا گیا تھا لیکن مطالعہ مضمون کے طور پر دینیات کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بہرحال یہ تمام مضامین اردو اور انگریزی کے ذریعے سے پڑھائے جاتے تھے۔
بوٹروس نے انگریزی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرنے کی مجوزہ اسکیم کو نافذ کرنے کی سعی کی کیوں کہ وہ خود بھی ہندستان کی زبانوں کے ذریعے سے جدید تعلیم کی تدریس کے قائل تھے۔  سب سے پہلے اس نے طبیعیات (Physics)، معاشیات (Economics)، علم تاریخ (History)، فلسفہ (Philosophy) اور قانون (Law) پر دستیاب اہم کتابوں کا ترجمہ کرنے کے لیے بیس اسکالروں کی تقرری کی۔ علاوہ ازیں قانون میں وہ کتابیں بھی شامل تھیں جو برطانوی ہندستان میں اس وقت قانونی معاملات میں عملاً استعمال کی جاتی تھیں۔55؎ اس نے دہلی کالج کی طرف سے بیس کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرانے کی بھی ذمے داری لی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس صوبہ کا ہر اسکول اور کالج چند برسوں میں اسّی اسّی کتابوں کے ترجمہ کاکام انجام دے۔56؎ اپنے منصوبہ کو نافذ کرنے کے لیے اس نے ’مقامی اساتذہ، مولویوں، پنڈتوں‘ کو بھی ملازم رکھنے کا مشورہ دیا۔ اس امید کے بغیر کہ ’مقامی زبان میں پہلا ترجمہ ہر قسم کے نقص سے پاک ہوگا‘اس نے ترجمہ کے حقیقت پسندانہ منصوبے کا مشورہ بھی دیا۔ وہ دستیاب ذرائع کے ساتھ کام کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ چنانچہ اس نے ان افسروں کو جو انگریزی تعلیم کے اجرا کے ذمے دار تھے یہ ہدایت کی کہ وہ ’عمدہ معیاری تصانیف کا ترجمہ کریں اوراگر ]...[ خوش اسلوب ترجمہ نہ مل سکے تو محض صحیح ترجمے سے خوش ہو جانا چاہیے‘۔57؎ ایک سو ساٹھ عطیہ دہندگان کے مالی تعاون سے1843 میں ”انجمن اشاعت علوم بذریعہ السنہئ ملکی“(Society for the Promotion of Knowledge in India through the Medium of the Vernacular Languages) قائم کی گئی۔ ان عطیہ دہندگان میں باون یوروپی افراد اور اودھ اور حیدرآباد کے چند نوابین شامل تھے۔ سوسائٹی کی منتظمہ کمیٹی ایک ہندوستانی شخص کے علاوہ تمام تریوروپی افراد پرمشتمل تھی۔ ٹومس مٹکاف(Thomas Metcalfe)، چارلس گرانٹ، اے۔ سی۔ ریونشا(A. C. Ravenshaw)، فیلکس بوٹروس اور کلکتہ کے دوارکا ناتھ ٹیگور اس کمیٹی کے اراکین تھے۔58؎ یوں تو یہ سوسائٹی مختلف ناموں سے موسوم کی گئی لیکن ”دہلی کالج ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی“ کے نام ہی سے جانی گئی۔ اس دہلی ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی نے جو کارنامہ انجام دیا وہ اصلاح شدہ دہلی کالج میں مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔59؎بوٹروس کے جانشین ڈاکٹر الوئس اسپرنگر نے بھی کالج کے ترجمہ کی سرگرمیوں میں بہت گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے سوسائٹی کے فائدہ کے پیش نظر ترجمے کا بیڑا اٹھانے کے لیے چند اسکالروں کو ترغیب دی۔ ان میں سے ایک سر سید احمد خان (1817-1898)  تھے جنھوں نے دہلی کالج کے لیے علم ریاضی سے متعلق ایک فارسی مقالے کا ترجمہ کیا جو ان کے نانا خواجہ فریدالدین کی تالیف تھی۔60؎
سائنس کے مضامین سے متعلق نصابی کتابوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے علم نباتات (Botany)، علم تشریح الاعضا(Anatomy)، علم طب (Medicine)، علم جراحی (Surgery)، معدنیات (Mineralogy)، علم کیمیا (Chemistry)، طبیعیات (Physics)، جغرافیہ اور علوم ریاضی کی مختلف شاخوں کی دو درجن سے زائد کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے وینڈ کی انالائٹکل جیومیٹری، ینگ کی ڈائنامکس اوراسٹیٹکس، ویبسٹر کی ہائیڈرواسٹیٹکس، فیلپ کی اوپٹکس، ٹریل کی فزیکل جیوگریفی اور ہیٹ، ہائیڈرالکس اور ڈبل ریفریکشن اورپولرائیزیشن پر حال ہی میں لائبریری آف یوزفل نالج کے زیر اہتمام شائع کی گئی کتابیں شامل تھیں۔61؎ 1857 تک، جب لوگ استعماری تجدد کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، طلبہ کو اردو کے ذریعے سے پڑھانے کے لیے تمام مضامین پر تقریباًایک سو تیس کتابوں کا آیا ترجمہ ہو چکاتھا یا ان کو ضرورت کے مطابق ڈھال لیا گیا تھا یا ان کو تیار کر لیا گیا تھا۔62؎
اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں جدید سائنسی علوم پر کتابیں دستیاب نہیں تھیں یا چند کتابیں میسر تھیں۔ اس امر کو ذہن میں رکھنے سے کوئی بھی فی الفور یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس معاملے میں ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی نے جو کردار ادا کیا تھا وہ نہ صرف جدید خطوط پر کالج کے اسکالروں کی ذہن سازی کے لیے بلکہ مجموعی اعتبار سے معاشرہ کے تجدد کے لیے بھی انتہائی اہم تھا۔ چھاپہ خانے کے فروغ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ تیار کی گئیں اور ترجمہ شدہ کتابیں خاص کر مغربی سائنسی علوم کی کتابیں ادارہ کی چہاردیواری سے باہر چلی گئیں، یہ کتابیں بڑے پیمانے پر قارئین کو مناسب قیمت پر دستیاب کرائی گئیں۔
اس طرح دونوں شعبوں کو ضم کر کے مفید مطلب علم، بشمول یوروپ کے علوم اور فنون کو طلبا کے لیے قابل قبول بنایا گیاجو ان میں سے چند طلبہ کے لیے کسی وجہ سے 1840 سے پہلے دسترس سے باہر رہاہوگا۔اردو کو 1843 تک اس کالج میں ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کر لیا گیا تھا۔ اس اہم پالیسی کا عین مقصد روشن ضمیر اور آزاد خیال افراد پیدا کرنا تھا اور برطانوی حکومت کے لیے مددگاروں کی ایسی جماعت تیار کرنا تھا جو تعقلی میدانوں میں قیادت کی ذمے داری سنبھال سکیں۔
فارغ التحصیل طلباکے اشغال
دہلی کالج کے قیام کی پہلی تین دہائیوں میں شہر و اطراف کے بہت سارے طلبہ نے وہاں داخلہ لیا۔ موہن لال1877) (1812- ان پہلے طلبہ میں سے ایک تھے جو 1827 میں کالج میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ کالج میں داخل ہونے والوں میں رام کشن، شیو پرشاد، جواہر لال، شہامت علی اور ہادی حسین شامل تھے۔ ان کے پہلے تین ہم جماعت اپنے ہی ادارہ میں ماسٹر کے عہدے پر مقرر کیے گئے۔ موہن لال اور ان کے گہرے دوست شہامت علی نے بھی ایک مختصر مدت تک اس ادارہ میں تدریس کا کام انجام دیا۔ بعد میں وہ دونوں منشی کے عہدے پر مامور ہوئے۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے انگلینڈ کا سفر کیا اور انگریزی زبان میں کتابیں لکھیں۔ شہامت علی کپتان واڈے کی معیت میں بطور منشی کابل گئے اور بالآخر ریاست اندور کے وزیر اعظم مقررہوئے۔63؎ اپنی ملازمت کے زمانے میں موہن لال نے برطانوی افسران کے ساتھ سفارتی مشن میں شرکت کی اور سامراجی حکومت کے لیے ’ثقافتی اور سیاسی ثالث کے طور پر‘ اپنا کردار ادا کیا۔64؎
رام چندر (1880-1821) نے 1841 میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور 1844 میں کورس کی تکمیل کی۔ اس کے بعد اسی کالج میں سائنس اور ریاضی کے استاد کے طور پر ان کا انتخاب عمل میں آیا۔کالج کی ٹرانسلیشن سوسائٹی کے لیے ریاضی اور سائنس کی مختلف کتابوں کا ترجمہ کرنے کی ذمے داری بھی ان کو دی گئی۔ شروع میں انہوں نے ماہنامہ خیر خواہ ہندکے چند شمارے شائع کیے۔ اس رسالے کا نام بعد میں محب ہندہوگیا۔ ان مضامین کا کلیدی ہدف یہ تھا کہ کس طرح جدید افکار ونظریات کو اردو زبان کی وساطت سے مقبول عام بنایا جائے۔ وہ تعلیم نسواں کے بڑے حامیوں میں سے تھے اور اس کی پرزور حمایت کرتے تھے۔65؎ اسی طرح جدید سائنس اور تکنالوجی کے میدان میں جو نئی ایجادات اور دریافتیں سامنے آتی تھیں ان کو وہ اپنے ہفتہ وار اردو مجلہ قران السعدین میں شائع کرتے تھے۔ انھوں نے ریاضی اور سائنس سے متعلق اپنی مقبول عام تحریروں کو پندرہ روزہ اخبار فوائد الناظرین  میں بڑے اہتمام سے شائع کیا۔66؎ لیکن علوم ریاضی ہی کی کتابیں تھیں ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث ہوئیں اور ریاضی ہی کے میدان علمی میں وہ یکتا و یگانہ قرار دیے گئے۔67؎ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ ریاست پٹیالہ میں شعبہئ تعلیم کے صدر مقرر ہوئے۔68؎اسی طرح گورنر جنرل بہ اجلاس نے انھیں 1876میں کلکتہ یونیورسٹی کا فیلو (fellow) یعنی اس یونیورسٹی کے سینیٹ کا،رکن مقرر کیا۔69؎
وہ طلبہ جو1840 کی دہائی میں کالج سے وابستہ ہوئے شہرت کے بام عروج پر پہنچے اور اپنے اپنے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ان میں محمد حسین آزاد(1829-1910)، نذیراحمد (1913-1830)، ذکاء اللہ (1915-1832) اور پیارے لال آشوب (1916-1838) جیسے ممتاز طلبہ شامل تھے۔پیارے لال نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1958 میں بریلی سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور کا میابیوں کا سفر طے کرتے رہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد انہیں گڑگاؤں اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی ذمے داری ملی۔ وہ دہلی نارمل اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی مقررہوئے۔ بغاوت عظیم کے بعد مختلف انجمنوں اور سوسائٹیوں کا قیام عمل میں آیا اور ملک کے دانشوروں کے اندر زبردست منتھن شروع ہوا۔ انھیں خطوط پر شہر دہلی کے دانشوروں اور برطانوی افسروں نے 1865  میں دہلی سوسائٹی قائم کی۔پیارے لال کو اس کا سکریٹری بنایا گیا۔ اس کی ورکنگ کمیٹی کے اراکین میں دہلی کالج کے پرنسپل بھی شامل تھے۔ یہ امر کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کالج کے فارغ التحصیل طلبہ نے اس کے قیام میں بہت اہم رول ادا کیا تھا۔اس کا اہم ترین مقصد سماجی اصلاح اور ملک کی ترقی میں اپنا کردارادا کرناتھا۔ اس سوسائٹی کا دہلی کا لج اوراس کی تعلیمی سرگرمیوں سے بڑا گہرا تعلق رہا۔اس کے اراکین کی بصیرت اور دوراندیشی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کے کتب خانے اور دارالمطالعہ سے متعلق ضابطہ میں اس شق کو داخل کیا کہ یہ سوسائٹی کوئی مذہبی کتاب نہیں خریدے گی۔70؎
پیارے لال کا تبادلہ 1869 میں لاہور شہر میں واقع پنجاب بک ڈپو میں مترجم کی حیثیت سے ہو گیا۔71؎  علاوہ ازیں ان کو سرکاری اخبار اور بعد میں ایک رسالہ اتالیق پنجاب کے مدیر کی ذمے داری سونپی گئی۔ 1876 میں ان کو سرشتہ تعلیم میں کیوریٹر (Curator)کے عہدے پر مامور کیا گیا۔ یہاں انھوں نے اچھی کارگزاری کا مظاہرہ کیا جس کے صلے میں ان کو انسپکٹر مدارس کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ انھوں نے ا س حیثیت سے 1881 اور 1895 کے دوران دہلی اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں کام کیا۔ ان کو ریاست پٹیالہ کے سرشتہ تعلیم کے منیجر کے عہدے پر بھی مامور کیا گیا۔72؎  آشوب، پیارے لال کا تخلص تھا۔ ابتداء ً انھوں نے اردو میں شعر کہے لیکن وہ اپنے اس شوق کا بہت دور تک ساتھ نہ دے سکے۔ انھوں نے تعلیم سے متعلق مختلف موضوعات پر بڑی تعداد میں مضامین اپنے رسالے اتالیق پنجاب میں شائع کیے، ہندستان کی تاریخ قصص الہند لکھی، اور انگریزی کی کتابوں کا تاریخ انگلیشیہ اور تاریخ جلسہئ قیصری کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ ہندو کالج دہلی کے ٹرسٹی تھے۔73؎ حکومت نے 1892 میں ان کو رائے بہادر کے خطاب سے نوازا۔74؎
ذکاء اللہ نے 1845 میں محض بارہ سال کی عمر میں دہلی کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں انھوں نے مشرقی علوم کے شعبے میں تقریباً چھ سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انھیں حکومت سے وظیفہ بھی ملتا رہا۔ زمانہ طالب علمی ہی میں، جب ان کی عمر محض سترہ سال تھی، انہوں نے تحفت الاحباب کے نام سے علم ریاضی کی ایک کتاب شائع کی۔ اس باصلاحیت نوجوان کی یہ کاوش اس قدر مقبول ہوئی کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن محض چاردن میں فروخت ہوگیا۔755؎ ذکاء اللہ نے ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی کی سرگرمیوں میں بھی خوب حصہ لیا اور طالب علمی کے زمانے میں کئی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔76؎ انھیں کالج میں مختلف اعزاز ات، متعدد تمغے اور انعامات سے نوازا گیا۔76؎
انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی آغاز ریاضی کے مدرس کے طورپر 1851میں دہلی کالج سے کیا۔ پھر ان کی تعلیمی خدمات کا سلسلہ دراز تر ہوتا گیا۔ 1869 میں وہ دہلی میں گورنمنٹ نارمل اسکول کے ہیڈ ماسٹرمقررہوئے اور ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ اس کے تین سال کے بعد الہ آباد میں واقع میور سینٹرل کالج میں ورنا کولر سائنس اور ادب کے پروفیسر منتخب ہوئے اور ایک طویل عرصے تک اس منصب پر فائز ہے اور پھر 16/اپریل 1887 کو خودبخود سبکدوش ہوگئے۔78؎ وہ الہ آباد یونیورسٹی کے تاحیات پروفیسر بھی رہے اور اس کے سینیٹ کے ممبر بھی جسے اس زمانے میں فیلو کے نام سے جانا جاتا تھا۔79؎ اسی طرح انھیں مسلم اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ، کا بھی 6/جولائی 1887 کو ریاضی کا تاحیات اعزازی پروفیسر بنایاگیا۔80؎
ذکاء اللہ ایک بسیار نویس مصنف اور کہنہ مشق مترجم تھے۔ انھوں نے متعدد موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں جن میں تاریخ، سوانح حیات، علوم ریاضی، طبیعیات، جغرافیہ اور علم اخلاق جیسے موضوعات شامل ہیں۔ وہ اردو زبان کے پہلے جدید تاریخ نگارتھے۔ یہ امر زیادہ قابل لحاظ ہے کہ وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اردو زبان کے ذریعے سے جدید سائنس کی نشرو اشاعت کا کام کیا۔ جدید سائنس اور تکنالوجی کے نتائج کو انھوں نے کلاس روم کے لکچروں کی صورت میں، متعدد تصانیف کی اشاعتوں کے ذریعے سے اور اردو کے بہتیرے معتبر رسائل و مجلات میں اپنے مضامین شائع کرا کے جدید ہندستان کو نئے سرے سے آراستہ کرنے کی مہم چلائی۔ انھوں نے 1872میں پرائز نوٹیفکیشن کے تحت 23مقالے پیش کیے جس پر انھیں ڈیڑھ ہزار روپے کے نقد انعام سے نوازا گیا۔81؎ اسی طرح انہوں نے ڈپٹی انسپکٹر مدارس کی حیثیت سے تعلیم نسواں کے فروغ میں اہم کردار نبھایا جس کے اعتراف میں انھیں 1864 میں خلعت سے نوازا گیا۔82؎ حکومت برطانیہ نے سبکدوشی کے دو ماہ قبل جشن جوبلی کے دوران 18/فروری 1887کو انھیں شمس العلماء اور خان بہادرکے لقب سے سرفراز کیا۔83؎
نذیر احمد جو 1842 میں ضلع بجنور کے ایک گاؤں سے دہلی آئے تھے،جنوری 1846میں دہلی کالج میں داخلہ سے پہلے مولوی عبد الخالق کے یہاں تقریباً ساڑھے تین سال تک زانوئے تلمذ تہہ کیا۔84؎ وہ اصغری،اکبری،ابن الوقت اور مبتلا جیسے ناقابل فراموش افسانوی کرداروں کی تخلیق کرنے، اردو کے پہلے ناول نگار کی حیثیت سے اور نوآبادیاتی حکومت میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پرفائز ہونے کی بنا پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی علمی،ادبی اور انتظامی زندگی کے کئی اور پہلو ہیں۔ یقیناوہ کثیرالجہات شخصیت کے مالک تھے۔ وہ برطانوی حکومت میں ایجوکیشن آفیسر تھے اور نظام کی حکومت میں ممتاز مقام پر بھی فائز رہے۔انھوں نے جوش و خروش کے ساتھ انگریزی تعلیم کی حمایت کی اور مسلمانوں میں اس کی نشر و اشاعت کی غرض سے لمبی لمبی تقریریں کیں، طویل تحریکی نظمیں پڑھیں اور سر سید کے قائم کردہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس/ کانگریس کے پلیٹ فارم کا بھی استعمال کیا۔ ان کی تقریر کی فصاحت و بلاغت اور منفرد لب ولہجہ کا سامعین پر مسحورکن اثر مرتب ہوتا تھا۔ مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کو مقبول کرنے کی غرض سے انھوں نے وہ تمام کوششیں کیں جن پر وہ قادر تھے۔ انھوں نے اپنی اصلاحی شاعری کو یکجا کر کے مجموعہ نظم بے نظیر کے عنوان سے مرتب کیا، اور خطبات کی دوجلدیں لکچروں کا مجموعہ کے نام سے شائع کیں اورسات ناصحانہ ناول لکھے۔ دراصل وہ جدید ذہن کے مالک اور صاحب بصیرت اسلامی عالم تھے۔ ان کی وسیع علمی لیاقت،بصیرت اور جدید ذہنیت کا اندازہ ضابطہئ اخلاق کے موضوع پر ان کی کتاب الحقوق و الفرائض کی تین جلدوں اور اجتہاد اور امہات الامہ جیسی دیگرکتابوں سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ اجتہاد کا موضوع یہ ہے کہ مذہبی کتب میں واضح ہدایات کی غیر موجودگی میں کس طرح رہنمائی حاصل کی جائے اور کسی مناسب نتیجے پر پہنچا جائے۔ امہات الامہ میں انھوں نے ازواج مطہرات کو عام انسانوں کے طور پر پیش کیا۔85؎ ان کی قرآن کی نامکمل تفسیر -مطالب القرآن -بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ ان کے علاوہ وہ کئی اور کتابوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے چند کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔ ان کے تراجم کی معاصر ہندستانیوں اور برطانوی عہدیداروں نے خوب خوب پذیرائی کی۔انھوں نے ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر رہتے ہوئے انکم ٹیکس ایکٹ اور انڈین پینل کوڈ کو اردو میں منتقل کیا۔ ان کی ماہرانہ ترجمہ نگاری نے ڈائریکٹر تعلیم عامہ ایچ۔ ایس۔ ریڈ (H. S. Reid) کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ انجام کارریڈ نے نذیر احمد کو ترقی دے کر ڈپٹی کلکٹرکے عہدے پر مامور کرنے کی سفارش کی۔86؎ ایک بار پھر اردو میں شاندار ترجمے کی بنیاد پر انھیں حیدرآباد میں اپریل 1877 میں صدر تعلقہ دار کا اعلیٰ ترین عہدہ ملا اور سب سے زیادہ تنخواہ ملی۔ انھوں نے ایمیڈی گیئیمیں (Amedee Guillemin) کی علم نجوم پر ایک اہم کتاب The Heavensکاترجمہ -سماوات-کے نام سے کیاتھا۔ انھیں جون 1897 میں شمس العلماء کے لقب اور خلعت سے نوازا گیا۔ ان کے وسیع علمی کارناموں کے مد نظر یو نیورسٹی آف اڈنبرانے 1902 میں ڈاکٹر آف لاز (L.L.D.) کی اعزازی ڈگری اور یونیورسٹی آف پنجاب نے1910 میں ڈاکٹر آف اورینٹل لرننگ (D.O.L.) کی ڈگری عطا کی۔87؎
انگریزی تعلیم اور کشادہ ذہنی کی تشکیل
دہلی کالج کی انگریزی تعلیم اور وہاں کی مجموعی تعقلی فضا نے طالب علموں کی ذہنیت کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔ اس تعلیم اور اس فضا نے طلبہ کی کشادہ ذہنی کی جو تشکیل کی وہ ادارے کا سب سے اہم پہلو ہے اور سب سے بڑا کارنامہ بھی۔ رام چندر نے کالج میں اپنی تعلیمی زندگی کو یاد کرتے ہوئے کالج کے طلبہ پر سائنس کے اثر کا ذکریوں کیا ہے:
]...[ میں 1833 میں دہلی انگریزی کالج میں داخل ہوا اور پوری محنت سے تعلیم حاصل کی۔ جب میں نے کچھ انگریزی سائنس کی تحصیل کر لی تو مجھے بتوں اور بے شمار دیوی دیوتاؤں کی پوجانا معقول نظر آنے لگی۔ ]...[جوں جوں میں اپنے انگریزی کے علم میں ترقی کرتا گیا، مذہبی اہمیت کے حامل تمام خیالات میرے ذہن سے دور ہوتے گئے۔ مجھے مذہبی بات سے زیادہ بیہودہ اور بیکار کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ کتابی مذہب کو میں نے بالکل غلط تصور کیا]...[۔
مجھے حرکت زمین جیسے سائنسی مضامین اور ان موضوعات پر بحث و مباحثہ میں مزہ آنے لگا جو ہندومت اور اسلامی فلسفہ کے بالکل برخلاف تھے۔8؎8
کالج میں سائنس کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ذکاء اللہ کا اپناتجربہ بھی بہت دلچسپ تھا۔ ان کے لیے یہ کوئی ایسی ’جادوئی اور سحر زدہ زمین میں داخل ہونے کے مترادف تھا‘ جہاں یہ خبر نہیں ہوتی کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے سی۔ ایف۔ انڈریوز کے سامنے اپنے دور طالب علمی کو یادکیا۔ کالج میں ’ذوق و شوق سے سائنسی لکچروں کو سنا جاتا تھا۔ یہ انسانی دماغ کے مکمل مخفی حصے میں داخل ہونے کے مشابہ تھا۔ نوجوان طلبہ بھی پرجوش اساتذہ سے پڑھتے تھے۔ انہیں وہاں نامعلوم کیمیائی گیسوں سے حیرتناک تجربہ کرنے کی اجازت تھی۔ انہیں کالج میں مقناطیسیات کے راز ہائے سربستہ میں غوطہ لگانے کے لیے مدعو کیا گیا جو اس وقت تازہ تفتیش شدہ سائنس کے طور پر ابھر رہی تھی۔ ابھی بہت کچھ آگے آنا باقی تھا لیکن ان چیزوں نے ان کے سامنے بالکل ایک نئی دنیا پیش کردی تھی۔‘89؎
ذکاء اللہ کے تجربہ کی روشنی میں انڈریوز نے چند باتوں پرزور دیا۔ ’سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سائنسی تجربات نے ان کے خیالات کو اپنے بس میں کر لیا تھا۔ وہ ہمیشہ تازہ انکشاف کی توقع کرتے رہتے تھے۔ وہ اپنے ملک میں خود کو اس معاملے میں پیش رو سمجھتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے خواب دیکھے‘ اور سائنسی تصورات کی حسین و جمیل دنیا آباد کی۔90؎ انڈریوز نے واضح کیا کہ ’قدیم دہلی کالج میں دی گئی تعلیم کا سب سے مشہور پہلو وہ تھا جس کا تعلق سائنس سے تھا‘۔ کالج میں سائنس کا ’شوق سب سے مقدم تھا اور یہ بہت جلد شہر کے اندر طلبہ کے گھروں میں بھی پھیل گیا جہاں والدین کی موجودگی میں جہاں تک ممکن ہوسکا نئے نئے تجربے کیے گئے۔ 91؎
ذکاء اللہ یقینا ایک آزاد خیال اور صلح پسند شخص تھے۔ محض ان کے اخلاق کی قوت سے تمام مذاہب کے لوگ ان کے گرویدہ تھے۔ ان کے متعدد ہندو اور عیسائی دوست تھے۔ انہوں نے ہندوؤں کے فلسفہ، ادب، موسیقی اور حکمت کی خوب تعریف کی۔ وہ ان کی ’کفایت شعاری، ان کی معتدل زندگی، ان کی تجارتی عادتیں، معیاری صنعت کاری اور ان کی دوراندیشی‘ کی بھی تعریف کرتے تھے۔ اس کا صلہ ان کو یہ ملا کہ ہندوؤں نے پوجا کرنے کی حد تک ان کا احترام کیا۔ ہندوؤں کوبھی ان میں اپنی قوم کا سب سے مخلص مسلمان دوست نظر آتا تھا۔ ذکاء اللہ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے رشتہ کو اتنا قریبی بتایا جیسا چولی دامن کا ساتھ۔ یعنی وہ قدرتی طور پر ایسے جزوِلاینفک تھے کہ نوآبادیاتی صورت حال میں ان دونوں کے مفاد ایک اور یکساں تھے۔92؎ انھوں نے آپسی رشتوں کو مزید استوار کرنے کی نصیحت کی کیونکہ ناموافقت ان کے مشترکہ مفاد کے حق میں نہیں تھا۔ 93؎ ذکاء اللہ کے کچھ روایت پسند مسلم دوستوں نے انہیں نیچری کہاجوکہ نیم عقلیت پسندی کے لیے ایک ذلت آمیز اصطلاح تھی جو عام طورپر سرسید احمد اور ان کے حامیوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی کیوں کہ وہ  سائنس، مذہب اور فطرت کے درمیان ایک طرح کی مصالحت کے متمنی تھے۔ اس کی وجہ سے ذکاء اللہ کا ایمان مشکوک ٹھہرااور ان کے دوست ان کے گھر پانی پینے سے بھی گریز کرنے لگے۔ 94؎
نذیراحمد سے زیادہ دہلی کالج کا کوئی اور فارغ التحصیل یوروپ کے سائنسی اور تکنیکی کارنامے کو سراہنے والا نہ تھا۔ وہ کالج کے دوسرے فارغین بطور خاص موہن لال اور پیارے لال95؎کی طرح بار بار ریل،اسٹیمر،تار برقی اور متعدد قسم کی مشینوں کا حوالہ یوروپی بالادستی کی مثال کے طور پر دیا کرتے تھے۔ ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ کسی بھی قوم کی دنیاوی ترقی اور فلاح و بہبود کا زیادہ تر انحصارسائنس اور تکنالوجی کی ترقی پر ہوتا ہے۔ اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان پر برطانیہ کی حکمرانی کی اصل وجہ یہاں ان چیزوں کی کمی ہی تھی۔96؎سائنسی ایجادات کی وجہ سے جنگی اسلحے میں روز بروز بہتری پیدا ہو رہی تھی۔ اس میدان میں صرف یوروپی ممالک ہی ایک دوسرے کا مقابلہ کر سکتے تھے۔انہوں نے ایک نکتہ یہ بیان کیا کہ کسی بھی حکومت کا تسلسل اور دوام زیادہ تر ’سائنسی برتری‘ پر منحصر ہوتاہے۔ 97؎
انگریزوں ہی کی ]ملکی[ فتوحات کو دیکھو۔ ]...[ ہر چند یہ فتوحات بھی بجائے خود معظمات الامور ہیں۔ مگر ان سے معظم تر انگریزوں کی سائنٹفک (علمی) فتوحات ہیں۔ ملکی فتوحات کے ذریعے سے انگریز ہم کو اسی قدر مطیع کر سکتے تھے]...[ کہ طوعاً کرہاً ہم ان کو خراج دیں۔ لیکن سائنٹفک فتوحات کے ذریعے سے انھوں نے ]ہر معاملے میں [ ہم کو اپنے بس میں کر لیا۔ ]...[ یہ ہے سائنٹفک حکومت جس نے تمام رعایا کو جکڑ بند کر رکھا ہے۔98؎
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طالب علم کی حیثیت سے نذیراحمد کو سائنس سے فطری بے رغبتی تھی۔ گرچہ انہوں نے کالج میں ماسٹر رام چندر سے سائنس کا درس ضرور لیا تھا۔ یہ وہی رام چندر تھے جنہوں نے نذیر احمد کی طالب علمی کے دوران عیسائیت کو قبول کرلیا تھا اور ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ مزید یہ کہ سائنس کالج کے تعقلی ماحول میں اس حدتک سرایت کر گیا تھا کہ تنگ ذہن اور کٹر مذہب پرست کے علاوہ کوئی اوراس کے اثر سے بچ نہیں سکتا تھا۔ نذیر احمد تاحیات سائنس کی اہمیت پر اصرار کرتے رہے اور اس مضمون کے تعلق سے اپنے علم کا اظہار بھی کرتے رہے جس کی تحصیل انہوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں کی تھی۔ان کی ذہنیت کے تبدل میں کس طرح اس تعلیم نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں نذیر احمد کا یہ بیان دیکھیے:
معلومات کی وسعت، رائے کی آزادی، ٹالریشن (تعدیل)، گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی، اجتہادی اعلیٰ بصیرت یہ چیزیں جو تعلیم کے عمدہ نتائج ہیں اور جو حقیقت میں شرط زندگی ہیں ان کو میں نے کالج ہی میں سیکھا اور حاصل کیا۔ اور اگر میں نے کالج میں نہ پڑھا ہوتا تو میں ]...[ مولوی ہوتا تنگ خیال، متعصب، اکھل کھڑا، اپنے نفس کے احتساب سے فارغ، دوسروں کے عیب کا متجسس، برخود غلط ]...[ مسلمانوں کا نادان دوست، تقاضائے وقت کی طرف سے اندھابہرا۔ ]...[ مجھ کو دینی دنیاوی جو فائدہ پہنچا کالج کی بدولت۔99؎
ادارے کی تعلیمی زندگی پر سائنس کے جاری و ساری اثر کا مزید بیان کالج کے زمانے کی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا عمل تھا کہ اس ادارے کے احاطے میں مسلسل ٹکراتی ہوئی سائنس کی لہرداراورپرزور گونجوں کو اَن سنا کرنا خارج از امکان تھا۔ سائنسی ماحول کی نفوذ پذیری کی ناگزیریت نے مذہب اسلام میں ان کے یقین کو زبردست طریقے سے جھنجھوڑ دیا۔100؎ادارے کی پہلی پیڑھی کے طالب علم موہن لال نے غیر عقلیت اور رسوم پرستی میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہندوؤں کی مذمت کی۔101؎
سائنس کا علم ہندو اورمسلم طلبہ کے تسلیم شدہ نظریہئ کائنات سے بلا واسطہ متصادم ہو گیا۔اس صورت حال کی برطانوی عہدیداروں اور مشنریوں کی ایک بڑی تعداد نے پیش بینی کردی تھی۔ ڈاکٹر چمن لال نے اپنے دوست رام چندر کے ساتھ جولائی 1952 میں عیسائیت کوقبول کر لیا تھا۔102؎ چمن لال جدید ادویات کے مشہور حاذق اور دہلی میں معاون سرجن تھے۔103؎ نذیر احمد کو بھی اسلام کو ترک کرنے اور عیسائیت کو قبول کرنے کے Dilemma سے گزرنا ہی پڑا تھا۔ کالج کی تعلیم ہی ان کے غیرمقلدانہ مذہبی رجحان کے فروغ اور عالمی مذہب سے ان کی قربت کا آلہ کار بنی۔ اسی طرح ان کے عمر بھر کے دوست ذکاء اللہ کے بارے میں بھی یہ افواہ اڑی کہ انھوں نے عیسائیت سے متاثر ہوکر اس کو اختیارکر لیا ہے کیونکہ ان کی رام چندر سے بہت زیادہ قرابت تھی۔104؎ ان کے متعلق دہلی کے باشندوں کی قیاس آرائیوں میں ذرہ برابر بھی سچائی نہیں رہی ہوگی اور غالب گمان ہے کہ شاید ایسا کوئی معاملہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اس سے اس سچ کا یقیناانکشاف ہو جاتا ہے کہ کالج میں دی گئی تعلیم مذہبی شدت میں تخفیف کا سبب بن رہی تھی اور اس کالج کے طلبہ اپنے مذہب کے دائروں سے پرے سوچنے لگے تھے۔ پیارے لال کی مسلمانوں کے نزدیک ایک ولی کی حیثیت سے اور ہندوؤں کے نزدیک ایک دیوتا کی حیثیت سے شناخت105؎ بھی اس کالج کے ایک فارغ التحصیل کی خیرخواہی اور فیض رسانی کی گواہی دیتی ہے کہ ان کے نزدیک معاشرتی معا ملات میں مذہبی رُورعایت سے بلند وبالا ہونا اصل بات تھی۔
ابھی تک کالج کے نصاب تعلیم پر مبنی علم کی سائنٹفک نوعیت کی نشر و اشاعت کو اس ادارے کے اہم پہلو کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے، لیکن در حقیقت طلبہ کی سیاسی ذہن سازی کے معاملے میں زائد از نصاب سرگرمیوں نے جو یکساں اہمیت کا حامل رول ادا کیا، خواہ بہ مشکل محسوس ہونے والا ہی سہی، اس پر اسکالروں نے غور نہیں کیا۔ اس وقت کی اخباری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ کالج کے ممتاز طلبہ کو نہ صرف امتحان میں اچھی کارگزاری پر بلکہ مضمون نگاری کے مقابلے میں شرکت کرنے پر بھی انعامات اور تمغے عطا کیے جاتے تھے۔ اس طرح کے تقسیم انعامات کے مواقع پر کارروائی کا مشاہدہ اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے شہر کے بڑے بڑے برطانوی عہدیدار موجود ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ مضمون نگاری کے مقابلے کا موضوع یہ تھا کہ حکومت کے دو نظاموں -شخصی اور اجتماعی -میں سے کسے ترجیح دی جانی چاہیے۔ ایک طالب علم خواجہ ضیاء الدین نے، جس کے مضمون کو سب سے اچھا قرار دیا گیاتھا، دونوں قسم کی حکومتوں کا موازنہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسی حکومت جس میں سارے اختیارات کسی ایک ہاتھ میں دے دیے جائیں وہ عقل کے پیمانے پر کھری نہیں اتر سکتی۔ اس لیے اس نے حکومت شخصی کو مسترد کر دیااور اجتماعی حکومت کو قابل ترجیح سمجھا۔106؎ان دنوں رام چندر کے اخبار فوائد الناظرین میں ’یوروپ میں شخصی حکومتوں کے خلاف برپا ہونے والے انقلابات‘ کی خبریں شائع ہو رہی تھیں۔ 107؎ سیاسی نظام کے بارے میں طلبا کا یہ تجزیہ قدیم بادشاہت کی ناپسندیدگی اور قدرے جدید طرز حکومت کی بالواسطہ حمایت تھی۔ کالج میں طلبہ کی اس طرح کی سوچ کو موہن لال، رام چندر، پیارے لال آشوب108؎، نذیر احمد109؎، ذکاء اللہ110؎ اور دہلی کالج کے اکثر فارغ التحصیل طلبہ میں بعد میں نمایاں ہونے والے وفادارانہ رجحانات کا پیش خیمہ سمجھنا چاہیے۔
انگریزی تعلیم کا تخالف
کالج کی پہلی پیڑھی کے طلبہ کو اپنی اپنی قوم کے لوگوں کی جانب سے سماجی مقاطعہ کا سامنا کرنا پڑاجس کا چند طلبہ نے اپنے طور پر مقابلہ کیا۔ لیکن ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے اس مقاطعے کی تاب نہ لا کر جھک جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ طلبہ کے مقابلے کے مدنظر تخالف نے مفاہمت کے رویہ کو راہ دی۔ اس طرح دونوں رویوں کے بیچ مجادلہ بھی ہوا اور مفاہمت بھی ہوئی۔ ان طالب علموں میں سے ایک طالب علم شہامت علی نے اپنی اور اپنی جماعت کے دیگر طلبہ کی داستان بیان کی ہے:
مولویوں نے یا تو حسد کی بنا پر یا ازحدتعصب کی وجہ سے یہ اعلان کیا کہ انگریزی تعلیم کی تحصیل کی ابتدا کر کے ہم نے اپنے دین کو کھو دیا ہے۔ اور تمام مسلمانوں نے ہمیں بے دین سمجھ لیا ہے اور ہمارے ساتھ کھانے پینے سے احتراز کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہادی حسین، میں بذات خود اور ایک یا دو اور دوسرے طالب علموں کے علاوہ مسلم لڑکے انگریزی تعلیم کو ترک کرکے فارسی اسکولوں میں واپس ہو گئے اور فوراً اپنے مذہب کے لوگوں میں شامل کر لیے گئے، جب کہ ]...[ ہم مسلسل کافر سمجھے جاتے رہے۔ آخر کار ایک دن مسٹر ٹریولین نے مولویوں سے مسلم طلبہ کو اس کے مذہب سے خارج کیے جانے کا سبب پوچھا۔ انھوں نے اس کا کوئی مناسب سبب نہیں بیان کیا اور یہ اقرار کیا کہ مذہب اسلام انگریزی تعلیم کے حصول سے منع نہیں کرتا، جس پر مسٹر ٹریولین نے مشورہ دیا کہ ہمیں بھی دوبارہ مذہب اسلام میں داخل کر لیا جائے۔ اس پر وہ لوگ بغیر کسی اعتراض کے راضی ہوگئے اور ہم مولویوں کے توہم پرستانہ اور خودساختہ خیال میں دوبارہ مسلمان ہو گئے۔ 111؎
مائکل ایچ۔ فشر کہتے ہیں کہ’اس پہلی انگریزی کلاس میں موہن لال اور تین دوسرے ہند و طلبہ کو بھی اسی طرح کے سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔‘112؎یہاں تک کہ دو دہائی گزر جانے کے بعد بھی بڑی حد تک وہی حالت برقراررہی۔ نذیر احمد نے اس کی تائید کی ہے۔ انہوں نے کالج میں ذریعہئ تعلیم کے طور پر انگریزی کے بجائے اُردو اور خصوصی مطالعہ کے مضمون کے طور پر عربی کو اختیار کیا۔ چند عوامل میں سے ایک جو انگریزی کو ذریعہئ تعلیم کے طور پر منتخب کرنے سے مانع آیا وہ مسلم معاشرے میں اس زبان کے خلاف پھیلا ہوا زبردست تعصب تھا۔بہر حال ٹیلر کے ترغیب دلانے پر نذیر احمد انگریزی سیکھنے کی طرف مائل ہوئے۔113؎ اس صورت حال کا نذیر احمد کے ایک شعر میں بہت مناسب اظہار ہواہے    ؎
نام انگریزی کے پڑھنے کا اگر لیتا کوئی
مولوی دیتے تھے فتویٰ کفر کا الحاد کا 114؎
اپنے مشہور و معروف ناول ابن الوقت کے ابتدائی پیراگراف میں بھی انھوں نے اس رویے کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اس ناول کے ہیرو ابن الوقت نے ’ایسے وقت میں انگریزی اختیار کی جبکہ انگریزی پڑھنا کفر اور انگریزی چیزوں کا استعمال ارتداد سمجھا جاتا تھا۔‘ کالج میں کس حد تک تعصب پھیلا ہوا تھا اور اس وجہ سے وہاں انگریزی تعلیم کے خلاف کیسا ماحول تھااس کا احساس نذیر احمد یوں دلاتے ہیں:
دہلی کالج ان دنوں بڑے زوروں پر تھا۔ ]...[ لاٹ آئے اور تمام درس گاہوں کو دیکھتے بھالتے پھرے۔ ]...[ جس جماعت میں جاتے مدرس سے ہاتھ ملاتے۔ بڑے مولوی صاحب نے طوعاً کرہاً بادل ناخواستہ آدھا مصافحہ کیا تو سہی مگر اس ہاتھ کو عضوِ نجس کی طرح الگ تھلگ لیے رہے۔ لاٹ صاحب کا منھ موڑنا تھا کہ بہت مبالغے کے ساتھ (انگریزی صابون سے نہیں بلکہ) مٹی سے رگڑ رگڑ کر اس ہاتھ کو دھو ڈالا۔ ]...[ خال خال اور بھی چند مسلمان تھے جن کے لڑکے اکا دکا دہلی کالج میں انگریزی پڑھتے تھے۔ ان لڑکوں میں سے اگر کوئی عربی فارسی جماعتوں میں آ نکلتا اور آنکھ بچا کر پانی پی لیتا تو مولوی لوگ مٹکے تڑوا ڈالتے۔ ہر چند تعصبات لغو کی کوئی حد نہ تھی۔115؎
انگریزی تعلیمی ادارے کو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جہالت کا گڑھ خیال کرتی تھی۔ مولوی حضرات ان اداروں کے اساتذہ کو جاہل اور ان کے ذریعے دی گئی تعلیم کو گناہ اور بدعت سمجھتے تھے۔ اس طرح کی تعلیم کے تعلق سے ایک منفی رویہ یہ بھی تھا کہ اسے صرف سرکاری نوکریوں کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔116؎
اس وجہ سے کہ کالج نے ایک جدت پسند کردار اختیار کر لیا تھا اور شہر کے باشندوں کی روزمرہ کی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوا تھا، یہ ادارہ اور اس نے جو جدید سائنٹفک اور سیاسی تعلیم دی، خواہ وہ نصاب کا حصہ ہو یا زائد از نصاب ہو، دونوں میں زبردست شک آگیااور بعد میں جدت کے مخالفین کی پرتشددمخالفت اور بربادی کا سبب بنے۔ اسی لیے دہلی میں بغاوت پھوٹنے کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد باغیوں نے کالج کو منہدم کردیا، انگریزی کتابوں کو تہس نہس کر دیا اور دیگر کتابیں لوٹ لیں اور وہاں نصب بڑے ٹیلی اسکوپ کو بری طرح  تو ڑڈالااور اس کے پرنسپل ٹیلر،ہیڈ ماسٹر رابرٹ،ان کی دو لڑکیوں، سکینڈماسٹر اسٹوارٹ او رپانچ عیسائی طلباکو قتل کر دیا۔117؎انھوں نے ہر اس چیز کے ساتھ تشدد روا رکھا جو سامراجیت کی نشانی تھی یا جسے اس کا نمائندہ یا ذریعہ سمجھا جا رہا تھا۔ اس کے برعکس جدید تعلیم کے وکلا اور انگریزی تعلیم سے آراستہ ذکاء اللہ اور نذیر احمد جیسے کشادہ ذہن لوگ ایسے افراد، اقدار اور نظریات کے تحفظ کی خاطر سرگرداں تھے۔ باغیوں نے موہن لال اور رام چندر کا بڑی شدت کے ساتھ تعاقب کیا۔ موہن لال نے کمال ہوشیاری اور دانشمندی سے اپنے اوپر ہونے والے کئی ایک جان لیوا حملوں سے خود کو محفوظ رکھا لیکن آر۔ حاجیز(R. Hodges) جن کی بیوی اپنی ’سوتیلی مسلم ماں‘ کی لڑکی تھی، اس معاملہ میں بدنصیب ٹھہرے اور جب وہ بھیس بدل کر شہر چھوڑنے کے لیے کوشاں تھے مارے گئے۔118؎ رام چندر کی جان بھی بغاوت کے دنوں میں بڑے خطرہ میں تھی۔ وہ بھی ڈاکٹر چمن لال کی طرح بغاوت کے پہلے ہی دن مارے جاتے مگر وہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔119؎ ڈاکٹر چمن لال اور رام چندر کا بپتسمہ کرنے والے دہلی کے گرجا میں متعین پادری M. J. Jennings کو باغیوں نے قتل کر دیا اور اپنی دانست میں سمجھا کہ انھوں نے اس سے بدلہ لے لیا۔
دہلی کالج میں جو دور بین لگائی گئی تھی اس کی بغاوت کے دوران میں تباہی سے نذیر احمد کافی دل برداشتہ ہوئے۔ انھوں نے اس واقعہ پر سب سے زیادہ تاسف کیا۔ ان کا خیال تھاکہ ’دین، دین‘کا نعرہ بلند کرنے والے ناعاقبت اندیش باغی سپاہیوں کے ہاتھوں اس کی توڑ پھوڑ ملک کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔120؎ یہ باغی سپاہی ان لوگوں میں شامل تھے جو ہر اس چیز سے متنفر تھے جو جدید ہو یا اس پر برطانوی مہر لگی ہوئی ہو۔ ان کے گھروں میں کھانے پکانے کے لیے تانبے کے کچھ برتن، نماز پڑھنے کے لیے ایک بوریا اور وضو کرنے کے لیے ایک بدھنا ہو تا تھا۔121؎یہی ان کی کل کائنات تھی۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال تھی۔ ملک کے عام باشندوں میں انگریزی تعلیم کے تئیں جو حقارت تھی اس میں بغاوت عظیم کی تقریباً تین دہائیوں کے اندر کمی محسوس کی جانے لگی۔ تاہم نذیر احمد کو اس امر کا بھی احساس تھا کہ مسلمان احمقانہ تعصب کی بنا پر انگریزی تعلیم سے بے پروائی برتتے ہیں اور بدلتی ہوئی صورت حال کے ہم قدم نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود انھیں یقین تھا کہ یہ ماحول تبدیل ہوگا اور لوگوں کی اس ذہنیت میں تغیر ہوگا۔122؎ انھوں نے تادم آخر اپنی امید کی شمع کو روشن رکھا۔
ماحصل
انگلیسیتی اور مستشرقی دونوں نسخے ہندستان میں حکومت سازی کے تعلیمی وتہذیبی تصورات کے مجموعے تھے۔ ان دونوں کا مقصد ہندستان میں نوآبادیاتی حکومت کے قیام کو حق بجانب ثابت کرنا تھا۔ انگلیسیتی کا منشا تھا کہ ہندستانی رعایا انگریزی تعلیم، برطانوی تہذیب و تمدن، عیسائیت اور نوآبادیاتی حکومت کی برتری کو محسوس کریں اور تسلیم کریں جبکہ مستشرقی کا مقصد ہندستانیوں کی تہذیب، ان کے مذاہب اور روایات کی تعریف و توصیف کر کے، ان کو علمی اور ادارہ جاتی شکل عطا کر کے اور ان کو ہر طرح سے فروغ دے کررعایا کی خاموش رضامندی کا حصول تھا۔ دونوں نسخوں میں اشتراک کا پہلو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کو استحکام عطا کرنے اور تہذیب اور تعلیم کے ذریعے سے صدیوں تک اس کو دوام بخشنے کا مشترک سامراجی عزم تھا۔ جدید ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ کی سیاسی آئیڈیالوجی، مذہبی میلان، پیشے کے انتخاب اور معاشرتی زندگی کو دیکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انگلیسیتی تہذیبی و تعلیمی حکمت عملی بڑی حد تک کارگر اور درست ثابت ہوئی۔ جدید تعلیم یافتہ یا ملازمت پیشہ طبقہ یابرطانوی نظام حکومت سے فیضیاب لوگ مجموعی اعتبار سے 1857کی بغاوت عظیم کے دوران میں انگریزوں کے حامی تھے یا ان کی حمایت کرنے پر آمادہ تھے۔ اس کے برعکس مستشرقی تہذیبی و تعلیمی اسکیم ہندستان میں حکومت سازی کے لیے عموماً بے معنی اور غیر موافق ثابت ہوئی۔ اس کا بہترین مظاہرہ اسی بغاوت عظیم کے دنوں میں ہوا جب ناخواندہ اور روایت پسند قوتیں برطانوی اقتدار، ان کی تہذیبی برتری اور ان تمام چیزوں کے خلاف بڑے جوش و خروش کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں جو نوآبادیاتی جدت کی علامت سمجھی جا رہی تھیں۔
درحقیقت انگریزی تعلیم کے اس ادارے کو لوگوں کی بہت بڑی تعداد جدید اقدار اور تہذیب کی نشر و اشاعت کا ایک اہم آلہئ کار خیال کرتی تھی۔ اس کا اظہار روایت پسندوں کے معاندانہ رویے سے ہوا اور بغاوت عظیم کے زمانے میں باغی قوتوں کی حرکات کی صورت میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ تاہم اس انگلیسیتی نسخے کا اہم ترین پہلو روایت پرستی، مذہبی قدامت پسندی اور توہم پرست ذہنیت میں اس کی اثر پذیری اور جدید کشادہ ذہن انسان کی تشکیل تھا۔ جدید سائنس کی حیرت انگیز بالکل اَن دیکھی دنیا کی سیر کرا کے آزاد کوش اور عقلیت پسند نوآبادیاتی مہم نے خواہ اپنے طریقے اور اپنے سامراجی مقصد ہی سے سہی طلبہ کے لیے نئے آفاق ڈھونڈلیے۔
حوالے اور حواشی:
1.        "Extract from C. Grant's Observations on the State of Society among the Asiatic subjects of Great Britain, particularly with respect to morals; and on the means of improving it. Written chiefly in the year 1792: dated August 16, 1797" in H. Sharp (ed.), Selections from Educational Records, Part I: 1781-1839, Calcutta; Superintendent Government Printing, 1920 [SER, I], pp. 81-86; Ainslie Thomas Embree, Charles Grant and British Rule in India, London: George Allen & Unwin Ltd., 1962, chapter VII; Penelope Carson, "Charles Grant," in H.C.G. Matthew and Brian Harrison (eds.), Oxford Dictionary of National Biography, Vol. 23, Oxford: Oxford University Press, 2004, pp. 290-293.
2.         "Extract from the Proceedings of the Resident at Benares dated 1st December 1791", Bengal Past and Present, Vol. 8, Nos. 15-16 (January-June 1914), pp. 133-137. Vasudha Dalmia, "Sanskrit Scholars and Pandits of the Old School: the Benares Sanskrit College and the Constitution of Authority in the late Nineteenth Century" in her Orienting India: European Knowledge Formation in the Eighteenth and Nineteenth Centuries, New Delhi: Three Essays Collective, 2003, pp. 29-52; V.A. Narain, Jonathan Duncan and Varanasi, Calcutta: Firma K.L. Mukhopadhyay, 1959, pp. 170-73; Pamela Nightingale, "Jonathan Duncan" in H.C.G. Matthew and Brian Harrison (eds.), Oxford Dictionary of National Biography, Vol. 17, Oxford: Oxford University Press, 2004, pp. 242-244. 
3.         Minute by Lord Minto, March 6, 1811, Appendix (I), Appendix to the Report from Select Committee on the Affairs of the East India Company, (I.-Public.), Minutes of Evidence taken before the Select Committee on the Affairs of the East India Company, No. 735-I, [Reports from Committees: eighteen volumes,] Session 6 December 1831-16 August 1832, VOL. 1X, 1831-32 [Minutes of Evidence], pp. 484-486. British Library, London [BL].
4.         Extract from a minute by Lord Moira, on the Judicial administration of the Presidency of Fort William, dated the 2nd October 1815, SER, I, pp. 24-29.
5.         SER, I, p. 17.
6.         R. Coupland, Wilberforce: A Narrative, Oxford: Clarendon Press/New York: Oxford University Press, 1923. 
7.         The Parliamentary Debates, Vol. XXVI, London: T. C. Hansard for Longman [and others], 1813, p. 832.
8.         Dhruv Raina and S. Irfan Habib, Domesticating Modern Science: A Social History of Science and Culture in Colonial India, New Delhi: Tulika Books, 2004, p. 13.
9.         The Law relating to India, and the East-India Company, fifth edition, London: Wm. H. Allen & Co. 1855, p. 165.
10.      SER, I, p. 18.
11.      Extract of Letter, in the Public Department, from the Court of Directors to the Governor-General in Council of Bengal; dated 3[r]d June 1814, Appendix (I), Appendix to the Report from Select Committee on the Affairs of the East India Company, (I.-Public.), Minutes of Evidence, pp. 486-487. BL.
12.      MINUTE of Sir Thomas Munro, March 10, 1826, Ibid., p. 506. BL.
13.      The Law relating to India, and the East-India Company, p. 165.
14.      Minute by the Governor-General, Warren Hastings, dated the 17th April 1781 and Minute, dated the 10th March, 1826, by Sir Thomas Munro, SER, I, pp. 7-10, 73; Bruce Tiebout McCully, English Education and the Origins of Indian Nationalism, New York: Columbia University Press, 1940, pp. 19-20.
15.      McCully, English Education and the Origins of Indian Nationalism, p. 20.
16۔  یہ کمیٹی مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل تھی:
            J.H. Harington, J.T. Larkins, W.B. Martin, W.B. Bayley, H. Shakespeare, Holt Mackenzie, Henry Prinsep, A. Sterling, J.C.C. Sutherland, and H. H. Wilson. Minutes of Evidence, VOL. 1X, 1831-32, p. 408. BL.
17.      Bentinck's minute on European settlement, 30 May 1829, in C. H. Philips (ed.), The Correspondence of Lord William Cavendish Bentinck, Vol. I: 1828-1831, Oxford: Oxford University Press, 1971, [CCB, I] pp. 201.
18.      McCully, English Education and the Origins of Indian Nationalism, p. 66.
19.      C. E. Trevelyan to Bentinck, dated Calcutta, 9 April 1834, in C. H. Philips (ed.), The Correspondence of Lord William Cavendish Bentinck, Vol. II: 1832-1835, Oxford: Oxford University Press, 1971 [CCB, II], pp. 1238.
20.      Ibid.
21.      McCully, English Education and the Origins of Indian Nationalism, pp. 66-67.
22.      T. B. Macaulay's minute on education, 2 February 1835, CCB, II, pp. 1403-1413.
23.      Draft on educational policy [February 1835], CCB, II, pp. 1413-1414; McCully, English Education and the Origins of Indian Nationalism, p. 66.
24.      H. H. Wilson, the Secretary to the Committee of Public Instruction, to local Agents, dated Calcutta, Sep. 1823, Proceedings relating to the public education of the natives and to the Institutions for its promotion. IOR/F/4/909. BL.
25.      Margrit Pernau, "Middle Class and Secularization: The Muslims of Delhi in the Nineteenth Century", in Imtiaz Ahmad and Helmut Reifeld (eds.), Middle Class Values in India and West Europe, New Delhi: Social Science Press, 2001, pp. 21-41.
26.      J.H. Taylor, Secretary to the Delhi Local Agency, to H.H. Wilson Secretary and Junior Member of the Committee of Public Instruction, Fort William, dated Delhi Local Agency Office, the 17th January 1824, Proceedings relating to the public education of the natives and to the Institutions for its promotion. IOR/F/4/909. BL.
27.      Minutes of Evidence, VOL. 1X, 1831-32, pp. 408-409. BL.
28.      Ibid.
29.      Statement of all the Public and Private Schools and Colleges in the City of Dehli with particulars of their means of support. Prepared by J.H. Taylor, Secretary to the Agency Delhi Territory, the 8th January 1824, Proceedings relating to the public education of the natives and to the Institutions for its promotion. IOR/F/4/909. BL.
30.      Minutes of Evidence, p. 435, BL. See also: S. C. Sanial, 'The 'Itimad-ud-Daulah Institution at Delhi', Islamic Culture, Vol. IV, [No. 2], April 1930, pp. 311-313;
سیدکمال الدین حیدر، سوانح سلاطین اودھ، جلد اول، کانپور: نول کشور، 1907، ص ص، 291، 294-295،؛ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، دہلی: انجمن ترقی اردو (ہند)، 1945، ص ص، 8-10۔
31.      Court of directors to the Bengal government on the education of Indians, dated 29 September 1830, CCB, II, p. 521.
32.      Michael H. Fisher, 'Mohan Lal Kashmiri (1812-77): An Initial Student of Delhi English College', in Margrit Pernau, (ed.), The Delhi College: Traditional Elites, the Colonial State, and Education before 1857, New Delhi: Oxford University Press, 2006, p. 236.
 33۔ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 7، 11، 28۔
34.      Court of directors to the Bengal government on the education of Indians, dated 29 September 1830, CCB, II, p. 519.
 35۔ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص، 28۔
36.      C. E. Trevelyan to Bentinck, dated Calcutta, 9 April 1834, CCB, II, pp. 1238.
37.      Introduction by Pernau, The Delhi College, p. 14.
 38۔ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 96-97۔
39.      Extracts from Mr. Thomason's minutes dated the 8th April 1841 and the 8th November 1841, Selections from Educational Records, Part II: 1840-1859, J. A. Richey (ed.), Calcutta: Superintendent Government Printing, 1922 [SER, II], pp. 253, 254.
40.      [Report of proceedings for the year 1838/39 by] Members of the General Committee of Public Instruction to the Right Honble George Earl of Auckland, Governor General of India in Council, dated Fort William, the 24th May 1840/8th July 1840, Proceeding No. 26, Letter No. 529. Home Public Proceedings July-September 1840. National Archives of India, New Delhi [NAI].
41.      General Committee on Public Instruction to Governor General in Council, George Earl of Auckland, dated Fort William, 30th October 1840, No. 1035. Home Consultation A (Public) 16 December 1840, No. 24. NAI.
 42.      Ibid. 
43.      Extracts from Thomason's minutes of various dates, in SER, II, pp. 252-254.  
44.      General Committee on Public Instruction to Governor General in Council, George Earl of Auckland, dated Fort William, 30th October 1840, No. 1035. Home Consultation A (Public) 16 December 1840, No. 24. NAI. 
45.      General Report on Public Instruction, in the North Western Provinces, of the Bengal Presidency. For 1844-45. Agra: The Secundra Orphan Press, 1846, p. 1. [Microfilm V/24/905.] BL. 
 46۔ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 36-37۔
47.      Minute By Boutros. General Report on Public Instruction in the North Western Provinces of the Bengal Presidency, for 1843-44, Agra: The Agra Ukhbar Press, [n.d], Appendix N. [microfilm V/24/905.] BL. 
48.      J. Thornton, Secretary to the Government of N.W.P, to F. Boutros, Secretary to the Local Committee of Education at Delhi, and Principal of the Delhie College, letter No. 336, dated Agra, the 13th April, 1844, General Report on Public Instruction in the North Western Provinces of the Bengal Presidency, for 1843-44, Agra: The Agra Ukhbar Press, [n.d.], Appendix R. [microfilm V/24/905.] BL.  
49.      Introduction by Pernau, The Delhi College, p. 18. 
50.      A. Sterling, Acting Deputy Persian Secretary to Government, to [the members of Committee of Public Instruction], dated Fort William, 31st July 1823, Proceedings relating to the public education of the natives and to the Institutions for its promotion. IOR/F/4/909. BL.
51.      Letter, dated 6th October 1823, from the General Committee of Public Instruction, SER, I, p. 88.
52۔ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 73-94۔
53.      F. Boutros, An Inquiry into the System of Education Most likely to be generally Popular and Beneficial in Behar and Upper Provinces, [Serampore?]: Serampore Press, 1842, p. 29.
54.      Edwin Jacob, A Memoir of Professor Yesudas Ramchandra of Delhi, Vol. I, Cawnpore: Christ Church Mission Press, 1902, p. 11.
55۔       ’بوٹروس کا خط گارساں دتاسی کے نام، دہلی19/ دسمبر1841‘، جو جرنل ایشیاٹک (فروری 1842)، سے اردو میں ترجمہ کر کے عبدالحق نے اپنی کتاب، مرحوم دہلی کالج، کے صفحہ 1سے پہلے اور ’فہرست‘ کے بعد شائع کیا۔ 
56. Boutros, An Inquiry into the System of Education Most likely to be generally Popular and Beneficial in Behar and Upper Provinces,  p. 20 n. 
57. Ibid., p. 15. 
58۔ مالک رام، قدیم دلی کالج، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ، 1975، ص ص، 32-33؛ عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 134-137، 143۔ 
59.      Introduction by Pernau, The Delhi College, p.18.
60۔       فوائد الافکار فی اعمال الفرجار، دہلی: سیدالاخبار پریس، 1846۔ 
61۔     عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 138-139۔ حاشیہ نمبر 1۔ 
62۔      کتابوں کی فہرست کے لیے دیکھیے: عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 149-155، اور مالک رام،  قدیم دلی کالج، ”ضمیمہ“، ص ص، 64-78۔
63.      Hari Ram Gupta, Life and Work of Mohan Lal Kashmiri 1812-1877, Lahore: Minerva Book Shop, 1943, p. 7 fn 1, 8, fn 3; C.A. Bayly, Empire and Information: Intelligence gathering and social communication in India, 1780-1870, Cambridge: Cambridge University Press, 1996, pp. 230-34. 
64.      Michael H. Fisher, "Mohan Lal Kashmiri (1812-77): An Initial Student of Delhi English College," in Pernau (ed.), The Delhi College, pp. 232-260; Bayly, Empire and Information, pp. 233-34.  
65.      K. Sajun Lal, 'Professor Ramchandar as an Urdu Journalist', Islamic Culture, Vol. XXIII, No. 1 & 2, p. 25, January & April 1949.
تعلیم نسواں کی حمایت میں رام چندر کا لیکچر دیکھیے، رسالہئ دہلی سوسائٹی، نمبر۔ 2(1866)، ص ص، 74-80۔
66۔      سائنس پر رام چندر کی مقبول عام تحریروں اورنیز ان کی کتابوں اور ترجموں کی فہرست کے لیے دیکھیے:
            Raina and Habib, Domesticating Modern Science, pp. 16-19, 23, note 52.
67.      A Treatise on Problems of Maxima and Minima, Solved by Algebra, London: WM. H. Allen & Co., 1859.
68        Jacob, A Memoir of Professor Yesudas Ramchandra of Delhi, pp. 145-149; A. De Morgan, "Editor's Preface" in Ramchundra, A Treatise on Problems of Maxima and Minima, Solved by Algebra, London: WM. H. Allen & Co., 1859, pp. iii-xxiii;
سیدہ جعفر، ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقا میں ان کا حصہ، حیدرآباد: ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 1960، ص ص، 1-90؛  صدیق الرحمن قدوائی، ماسٹر رام چندر، دہلی: شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، 1961۔
69.      Arthur Howell, Offg. Secretary to the Government of India, to Munshi Ram Chundra, Nos. 97-122, dated Fort William, the 12th April 1876, Prog. No. 23. Home Department Proceedings, Education, April 1876. [NAI.]
70۔      رسالہئ دہلی سوسائٹی، نمبر۔ 2(1866)، ص، 25۔ مزید دیکھیے، امداد صابری، حیات آشوب، دہلی: یونین پریس، 1957، ص، 75۔
71۔     صابری، حیات آشوب، ص ص، 83-90؛ برج موہن دتاتریہ کیفی، ”ماسٹر پیارے لال آشوب“، دلی کالج اردو میگزین، قدیم دلی کالج نمبر، جلد 4، شمارہ نمبر 1 (1953)، ص، 29۔ 
72۔      پیارے لال، ”علمی ضمیمہ“، زمانہ، مارچ 1911، ص ص، 229-231؛ محمد یحییٰ تنہا، سیرالمصنفین، دہلی: مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، 1928، 161-162حواشی؛ صابری، حیات آشوب، ص ص، 132-134، 160؛ 
            W.R.M. Holroyd, Report on Popular Education in the Panjab and its Dependencies, for the year 1873-74, Lahore: W.E. Ball, 1874, p. 111. 
73.      Kavita A. Sharma and W. D. Mathur, Hindu College Delhi: A People's Movement, New Delhi: Niyogi Books, 2014, p. 61.
74۔  صابری، حیات آشوب، ص، 136۔ 
75.      C. F. Andrews, Zaka Ullah of Delhi, New Delhi: Oxford University Press, 2003, p. 60.
76.      S. Irfan Habib, "Munshi Zakaullah and the Vernacularisation of Science in Nineteenth Century India" in Uncharted Terrain: Essays on Science Popularisation in Pre-Independence India, Narendra K. Sehgal, Satpal Sangwan and Subodh Mahanti, (eds.) New Delhi: Vigyan Prasar, 2000, pp. 140-41. 
77.      The Aligarh Institute Gazette, 8 March 1887, p. 271.
78.      Amaranatha Jha, A History of the Muir Central College, 1872-1922. Allahabad: Allahabad  University, 1938,  p. 382. 
79.      Act XVIII of 1887, Appendix M. Government of India. Proceedings of the Legislative Department for October 1887. No. 43. Allahabad University Act, 1887.  NAI.
80.      The Aligarh Institute Gazette, 12 July 1887, pp. 771-772; Shan Muhammad, Sir Syed Ahmad Khan: A Political Biography, Meerut; Meenakshi Prakashan, 1969, p. 98; Javed Ali Khan, Early Urdu Historiography, Patna: Khuda Bakhsh Oriental Public Library, [2005], pp.198, 200.
81.      Appendix, III, Art XIII, in Mushirul Hasan, A Moral Reckoning: Muslim Intellectuals in Nineteenth-century Delhi, reprint, New Delhi: Oxford University Press, 2007, pp. 266-67; The Aligarh Institute Gazette, 8 March 1887, pp. 271-72.
82.      Khan, Early Urdu Historiography, p.198;
            قدیر احمد، ”شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ خان“، دلی کالج اردو میگزین، قدیم دلی کالج نمبر، جلد 4، شمارہ1(1953)، ص، 149۔
83.      Manual of Titles, North-Western Provinces, Allahabad: North-Western Provinces and Oudh Government Press, 1889, p. 125; The Aligarh Institute Gazette, 8 March 1887, p. 271.
84۔ افتخار احمد صدیقی، مولوی نذیر احمد دہلوی: احوال و آثار، لاہور: مجلس ترقی ادب، 1971، ص ص، 35، 37، 41، 48۔ 
85. Ralph Russell, The Pursuit of Urdu Literature: A Select History, London and New Jersey: Zed Books, 1992, p. 118.
86۔       نذیر احمد، درباری لیکچر، دہلی: مطبع صدیقی، ]1903[، ص ص، 15، 21-22؛  افتخار عالم بلگرامی، حیات النذیر، دہلی: شمسی پریس، 1912، ص ص، 39، 56-61۔ 
87.      C. M. Naim, "William Muir & M. Kempson," in The Repentance of Nussooh, M. Kempson (tr.), C. M. Naim (ed.), Ed. New Delhi: Permanent Black, 2004, p. 114;
بلگرامی، حیات النذیر، ص، 573؛  مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی، ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی، (مرتبہ) رشید حسن خاں، نئی دہلی: انجمن ترقی اردو (ہند)، 1992، ص، 65۔ 
88.      Jacob, A Memoir of Professor Yesudas Ramchandra of Delhi, pp. 71-72.
89.      Andrews, Zaka Ullah of Delhi, pp. 59-60.
90.      Ibid.  
91.      Ibid., p. 46.
92۔  نذیر احمد، موعظہ حسنہ، لاہور: مجلس ترقی ادب، 1963، ص ص، 203-204۔
93۔  نذیر احمد، اجتہاد، دہلی: افضل المطابع، 1908، ص، 180۔ 
94.      Andrews, Zaka Ullah of Delhi, pp. 107-108;
عنایت اللہ دہلوی، نقوش، آپ بیتی نمبر (حصہ دوم)، 100، (جون 1964)، ص، 1403۔
95.      Michael H. Fisher, "Mohan Lal Kashmiri (1812-77): An Initial Student of Delhi English College," in Pernau (ed.), The Delhi College, p. 252;
            پیارے لال، ”در باب راہ و رسم صاحبان انگریزی و ہندستانی“، صابری، حیات آشوب، ص، 169۔ یہی مضمون /22مئی 1866 کو دہلی سوسائٹی کے ایک جلسے میں پڑھا گیا تھا، رسالہئ دہلی سوسائٹی، نمبر 2 (1866)، ص ص، 23-25۔
96۔      نذیر احمد، لیکچروں کا مجموعہ، جلددوم، آگرہ: مفید عام پریس، 1918،  ص ص، 402-403۔ 
97۔      نذیر احمد،لیکچر... مسلمانوں کی حالت تعلیم پر،محمڈن ایجوکیشنل کانگریس، لاہور، 28/دسمبر 1888، آگرہ: مفید عام پریس، 1889، ص ص، 11-13۔
98۔      ایضاً، ص ص، 11-12۔ انھوں نے اپنے ناول ابن الوقت میں بھی بہت ہی واضح طور پر اپنے اس موقف کا اظہار کیا۔ ”یورپ کی تمام تر ترقی کا اصلی اور حقیقی سبب علوم جدید ہیں اور اس زمانے میں تعلیم وہی مفید ہو سکتی ہے جس سے یہاں کے لوگ ان علوم سے آگہی بہم پہنچائیں اور ان کی طبیعتوں میں اس بات کا شوق پیدا  ہو کہ واقعات کو سوچیں اور موجودات میں غور کریں۔“ نذیر احمد، ابن الوقت، دہلی: مطبع انصاری، 1306ھ/ 1888ء، ص، 88۔
99۔      احمد،درباری لیکچر،ص،11۔
100۔   نذیر احمد، ”مسلمانوں کا تنزل اور اس کا اصلی سبب“،معارف،جلد 3، شمارہ 2 (اگست 1900)، ص ص، 48-49، نذیر احمد، درباری لیکچر، ص ص، 14-15۔ 
 101. Quoted by Fisher, "Mohan Lal Kashmiri", in Pernau  (ed.), The Delhi College, p. 248. 
102۔   قدوائی، ماسٹر رام چندر، ص ص، 34-35، 44، حاشیہ نمبر 2، اور ص، 51، حاشیہ نمبر 1۔ 
103. A. De Morgan, "Editor's Preface," in Ramchundra, A Treatise on Problems of Maxima and Minima,  pp. xxi-xxii; See one of the many unnumbered pages of photographs between pp. 340-341 in P. J. O. Taylor (ed.), A Companion to the 'Indian Mutiny' of 1857, Delhi: Oxford University Press, 1996.
104۔   نذیر احمد، درباری لیکچر، ص ص، 14-15؛ قدوائی، ماسٹر رام چندر، 1961، ص ص، 39-44، 49-50؛  
            Habib, "Munshi Zakaullah and the Vernacularisation of Science" in Sehgal et al (eds.), Uncharted Terrain, p. 140.
105۔   صابری، حیات آشوب، ص، 139۔ 
106۔    قران السعدین، 23/ دسمبر1854، قاسم علی سجن لال، ”قدیم دہلی کالج کے کچھ حالات: ہم عصر اخباروں کی زبانی“، دلی کالج اردو میگزین، (قدیم دلی کالج نمبر)، جلد 4، شمارہ 1(1953)، ص، 38۔ قاسم علی کا خیال ہے کہ یہ حکومت کا حامی اخبار تھا اور نوجوان پیڑھیوں کے مقاصد کے حصول کی وکالت کرتا تھا۔
            K. Sajan Lal, "A Few News-papers of pre-Mutiny Period", Indian Historical Records Commission, Proceedings of Meeting, Nineteenth Meeting held at Trivandrum, Vol. XIX, (December 1942): 128-132, especially p. 131. 
107۔     قدوائی، ماسٹر رام چندر، ص، 66۔ 
108۔ پیارے لال، ”در باب راہ و رسم صاحبان انگریزی و ہندستانی“، صابری، حیات آشوب، ص ص، 169-171۔ 
109۔   نذیر احمد، رسالہ چند پند، لکھنؤ: مطبع منشی نول کشور، 1886، ص، 45؛ نذیر احمد، ابن الوقت، ص ص، 73، 91۔
110۔   ذکاء اللہ، تاریخ عروج عہد انگلیشیہ ہند بعہدشہنشاہی حضرت عالیہ ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر ہند بہ القابہا، جلد دوم، دہلی: شمس المطابع، 1904، ص، 305؛ 
             Andrews, Zaka Ullah of Delhi, p. 31.
111. Shahamat Ali, The Sikhs and Afghans, in connexion with India and Persia, immediately before and After the Death of Ranjeet Singh: from the Journal of an Expedition to Kabul, through the Panjab and the Khaibar Pass, London: John Murray, 1847, pp. viii-ix.
112. Fisher, Mohan Lal, p. 241.
113۔ قاری عباس حسین، ”شمس العلما مولوی نذیر احمد“، نقوش، شخصیات نمبر، 47، 48(جنوری 1955)،  ص، 566۔ 
114۔   نذیر احمد، مجموعہ نظم بے نظیر، (مرتبہ) سید افتخار عالم بلگرامی مارہروی، ایٹہ: کاٹن پریس، 1909، ص، 118۔
115۔   نذیر احمد، ابن الوقت، ص، 2-3۔
116۔    ”ترجمہئ حالی“، کلیات نظم حالی، جلد اول، (مرتبہ) افتخار احمد صدیقی، لاہور: مجلس ترقی اردو، 1968، ص ص، 5-7؛ صالحہ عابد حسین، یادگارِ حالی: تذکرہ خواجہ الطاف حسین حالی، تیسرا ایڈیشن، علی گڑھ: انجمن ترقی اردو (ہند)، 1995، ص، 28۔ 
117۔ بیگ، ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی، ص ص، 53-54؛  مزید دیکھیے، عبدالحق، مرحوم دہلی کالج، ص ص، 69-73؛ مالک رام، قدیم دلی کالج، ص ص، 56-57۔ 
118. Gupta, Life and Work of Mohan Lal Kashmiri, pp. 322- 327.
119. A. De Morgan, "Editor's Preface", in Ramchundra, A Treatise on Problems of Maxima and Minima, pp. xxi-xxii; See one of the many unnumbered pages of photographs between pp. 340-341 in P. J. O. Taylor (ed.), A Companion to the 'Indian Mutiny' of 1857, Delhi: Oxford University Press, 1996.
120۔   بیگ، ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی، ص ص، 53-54۔
121۔   نذیر احمد،مسلمانوں کی حالت تعلیم، ص، 12۔ 
122۔   نذیر احمد، ابن الوقت، ص، 88۔ 

Prof. Mazhar Mehdi
School of Language, Literature and Culture Studies, 
Jawaharlal Nehru University
New Delhi - 110067
Email: mazharmehdi@gmail.com
Mob.: 9868666749

سہ ماہی فکرو تحقیق، اکتوبر تا دسمبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں