7/1/20

صوفی یوگ گرو: شیخ محمد غوث گوالیاریؒ مضمون نگار: سید محمد نیر رضوی



صوفی یوگ گرو: شیخ محمد غوث گوالیاریؒ

 سید محمد نیر رضوی
محققین نے ابتدائے تصوف اور اس کے ارتقائی مدارج پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے غور و فکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ’تصوف‘ دراصل مخصوص سیاسی، سماجی، تہذیبی، اخلاقی اور فکری تقاضوں کی وجہ سے بطور ’راہ نجات‘ معرض وجود میں آیا۔ پہلی صدی ہجری تک تو ’تصوف‘ کی کوئی واضح شکل یا بطور کوئی اصطلاح متعین ہوتی نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی اس کے خدوخال بطور مسلک و مشرب واضح ہو تے دکھائی دیتے ہیں مگردور اُمیہ میں متصوفانہ رجحانات و میلانات صاف طور پر نمایاں ہونے لگے اور یہی رجحانات و میلانات رفتہ رفتہ ارتقائی مدارج طے کر تے ہوئے خلافت عباسیہ کے دور میں منظم اور مرتب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ لہٰذا  بصرہ اور کوفہ کے علاقوں میں تقریباً 661 عیسوی میں تصوف بطور تحریک شروع ہوا اور دنیا کے مختلف خطوں میں وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا۔ چنانچہ اہل حق، اہل دل اور محققین کی نظر میں حضرت اویس قرنی، ابو ہاشم بن شارک، جابر بن حیان، حسن بصری، مالک دینار، محمد واسع، خواجہ فضیل بن ایاض، ابراہیم بن ادہم و غیرہ(661 سے 850 عیسوی تک) تصوف کے ابتدائی دور کے صوفیائے کرام کہے جا سکتے ہیں۔ ہندوستان میں صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ آٹھویں صدی عیسویں میں اس وقت سے شروع ہوتا ہوا نظر آتا ہے جب ہندوستان میں سندھ کے علاقے میں شیخ ابو علی السندھی تشریف لائے اور لاہور میں شیخ اسماعیل لاہوری تشریف لائے۔ پھر پنجاب کے علاقے میں شیخ علی ہجویری (داتا گنج بخش) تشریف لائے۔ یہ دور ہندوستان میں محمود غزنوی کا دور تھا۔پھر یہاں صوفیاکے ساتھ ساتھ علماکی بھی آمد کا سلسلہ بڑھتا گیا اور تصوف کی تبلیغ واشاعت زور پکڑنے لگی۔ تصوف کے فر وغ کے لیے کتابیں تحریر کی جانے لگیں۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اجمیر میں تصوف کو منظم طور پر دلائل و براہین کے ساتھ استحکام بخشا اور نہایت کامیابی کے ساتھ تبلیغ و اشاعت جاری ر کھا۔ اُنہوں نے سلسلہ چشتیہ کی بنیاد رکھی پھر خانقاہ میں تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا گیا۔ آپ کے کردار، اخلاق، طرزاحسان،اسلامی طریق پر عبادت و ریاضت، حسن عمل، انسان دوستی اور تعلیم وتربیت کے علاوہ مساوات جیسے انسانی اور اسلامی خصائل اعلیٰ پر مبنی رشدو ہدایت کی وجہ سے لوگ جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ پھر ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کے ساتھ دیگر سلسلے بھی قائم ہونے لگے اور یہاں قادریہ، سہروردیہ، نقشبندیہ اور شطاریہ وغیرہ سلسلے وجود میں آئے۔ انہی صوفیائے کرام کی طویل فہرست میں شیخ محی الدین ابن عربی (1165-1240) اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (1144-1234) کاذکر اُ ن کی مایہ ناز خدمات کی وجہ سے بطور خاص کیا جاتا ہے۔ ابن عربیؒ نے ’فصوص الحکم‘ اور شیخ شہاب الدین سہروردی نے ’عوارف المعارف‘ تحریر کی۔ تصوف کی اشاعت میں ان تصنیفات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔  شیخ شہاب الدین سہروردی ؒنے یہاں سہروردیہ سلسلے کی بنیاد ڈالی جسے خلیفہ شیخ بہاء الدین زکریا نے وسعت عطاکی۔ آگے چل کر قاضی حمید الدین ناگوری خلیفہ ہوئے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کے صاحبزادگان میں ایک بزرگ شاہ عبد اللہ شطاری (1572) نے ہندوستان میں ’شطاریہ‘ سلسلے کی بنیاد رکھی۔ شیخ وجیہ الدین علویؒ اور صوفی یوگ گروشیخ محمد غوث گوالیریؒ نے اس سلسلہ شطاریہ کو یہاں کافی فروغ دیا۔
شیخ محمد غوث گوالیاری کے والد کا نام سید خطیر الدین   تھا۔آپ کے پردادا معین الدین قتالؒ نے جونپور (اترپردیش) میں سکونت اختیار کی اور یہیں مدفون بھی ہوئے۔ آپ کے والد سید خطیر الدین نے اتر پردیش کے ضلع غازی پور کے کھیڑہ میں قیام کیا اور یہیں مدفون ہوئے۔ شیخ محمد غوث گوالیاری کا سلسلۂ نسب خواجہ فرید الدین عطار نیشاپوری (1230) سے ملتا ہے جو آپ کے چھٹے جد ہیں۔ چنانچہ آپ کا شجرہ ٔ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الشریف پر اس طرح منتہی ہے:
شیخ محمد غوث بن سید خطیر الدین ثانی، بن سید عبداللطیف، بن سید معین الدین قتال، بن خطیرالدین آتشی، بن سید با یزید پارسا، بن سید فرید الدین عطار نیشا پوری، بن سید ابو اسماعیل ثانی، بن احمد صادق ثانی، بن سید نجم الدین، بن سید تقی الدین،  بن سید نور الدین، بن سید ابا بکر، بن سید عبداللہ، بن سید اسماعیل،  بن امام جعفرصادق بن سید امام باقر، بن امام زین العابدین،  بن امام حسین، بن امام علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہؓ بن ابی طالب“    
شیخ محمد غوث گوالیاری کی معرکتہ الارا تصنیف ’اوراد غوثیہ‘ میں اپنی ولادت اور دیگر حالات زندگی کے متعلق ان کے خود کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی پیدائش 7رجب المرجب، بروز جمعہ  907ھ کو ہوئی۔ آپ نے محض سات سال کی عمر میں ہی راہ طریقت میں قدم رکھ دیا تھا۔ نو سال کی عمر میں معرفت حاصل ہوئی اور پندرہ سال کی عمر میں رہنمائی شروع کر دی۔ تینتیس سال کی عمر  میں مرجع خاص و عام بن گئے۔ چالیس سال کی عمر میں حکمران وقت سے اختلاف کی بنیاد پر ہجرت کرکے گجرات چلے گئے۔ اس طرح آپ کی   زندگی کا روحانی سفر محض سات سال کی عمر سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ غلبۂ شوق کا یہ عالم تھا کہ آپ اکثر و بیشتر اپنے پرداداکے مزار مبارک  پر جاتے اور وہیں شب بیداری کرتے۔ ایک بار یہاں دوران قیام اللیل آپ کو بشارت ہوئی اوربشارت کے مطابق انھوں نے صوبہ بہار کا  رخ کیا اور شاہ ابوالفتح  ہدیۃ اللہ سرمست کی خدمت میں پہنچے۔ یہاں سے فیضیاب ہو کر کوہستان۔ چنار میں عبادت وریاضت کا سلسلہ جاری رکھا۔ تقریباً بارہ سال کی مشقت کے بعد پھر شاہ ابوالفتح ہدیۃ اللہ سرمست کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کے دست مبارک پر بیعت کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر شاہ صاحب نے بیعت سے انکار کیا اور شیخ محمد غوث گوالیاری کو شیخ حاجی حمید الدین حصور کی خدمت میں بھیج دیا جو شاہ صاحب کے خلیفہ تھے اور شطاریہ سلسلے سے وابستہ اپنے وقت کے غوث اور بزرگان عصر میں سے تھے۔ 
ہندوستان میں صوفیائے کرام کے مختلف سلسلوں کے آمد کی طرح سلسلہئ شطاریہ کی بھی آمد ہوئی۔ یہ سلسلہ ایران میں ’عشقیہ‘ اور روم میں ’بسطامیہ‘ کہلاتا ہے جس کے پیشوا شیخ ابو یزید طیفور ابن عیسیٰ ابن آدم بسطامی (260ھ) ہیں۔ ہندوستان میں اس عظیم سلسلہ  ئ شطاریہ کے بانی شاہ عبداللہ شطاری (متوفی 980ھ)ہیں جو ایران سے ہندوستان تشریف لائے۔یہ پانچ واسطوں سے شیخ شہاب الدین سہروردی کی اولاد میں تھے اورسات واسطوں میں حضرت بایزید بسطامی سے بیعت تھے۔ یہاں اس سلسلے کو فروغ حاصل ہو نے لگا۔ چنانچہ رئیس المئورخین اورصاحب اعیان وطن مولانا سید محمد حکیم شعیب رضوی نیر پھلواروی کی تحقیق کے مطابق خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف میں بھی اس سلسلے کی اجازت پہنچی۔بلکہ طیفوریہ سلسلہ، حضرت تاج العارفین پیر مجیب کو ان کے پیر و مرشد خواجہ عماد ا لدین قلندر کی معرفت پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ اس ضمن میں حکیم شعیب رضوی نیر صاحب اپنی شہرہئ آفاق تصنیف ’اعیان وطن‘ میں فرماتے ہیں:
یہ سلسلہ تاج العارفین کو اپنے پیر و مرشد خواجہ عماد الدین قلندر سے پہنچا ہے، تاج العارفین کو خواجہ عماد الدین قلندرسے، ان کو شیخ عبدالقدوس جونپوری سے، ان کو شیخ عبدالسلام علن جونپوری سے، ان کو شیخ محمد قطب سے، ان کو شیخ قطب الدین بینا دل سے، ان کو نجم الدین غوث الدہر سے،  ان کو سید خضر رومی شعلہ قلندر سے، ان کو جمال مجرد ساؤ جی سے، ان کو بایزید بسطامی سے، ان کو امام جعفر ثانی سے، ان کو امام موسیٰ کاظم سے، ان کو امام جعفر صادق سے، ان کو امام محمد باقر سے، ان کو امام زین العابدین سے، ان کو امام حسین علیہ السلام سے، ان کو امیر المومنین علی  کرم اللہ وجہ الشریف سے، ان کو حضرت رسول ؐ سے۔
حضرت بایزید بسطامی نے سلسلہ طیفوریہ۔ شطاریہ کو ہندوستان میں کافی پھیلایا۔آپ کا مزار مبارک مانڈو میں ہے۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ شیخ محمد ابوالفتح بموسوم قاضن شطاری ہوئے جنھوں نے صوبہ بہار کے ضلع مظفر پور کو اپنا مرکز بنایا۔ علامہ حکیم شاہ شعیب رضوی نیر پھلواروی  کی تحقیق کے مطابق: 
حضرت امام محمد تاج فقیہ کی اولاد امجاد کا دور اولین  صوبہ بہار میں انوار سہروردیہ اور قادریہ سے جگمگا رہاہے اور ہر بزم طریقت میں اس کی روشنی پھیلی ہوئی تھی مگر اس خاندان کا ایک مقدس فرد جس نے قادریہ سہروردیہ، نقشبندیہ، مداریہ و فردوسیہ کے مجموعہ چراغاں میں چشتیہ کی شمع روشن کر کے بزم طریقت کو اور بھی زیادہ منوراور روشن کر دیا۔ وہ حضرت مخدوم اسمعیل بن محمدتاج فقیہ کے چشم وچراغ حضرت ابوالفیض محمد علاء قاضن شطاری ہیں جو بن علاء الدین بن شیخ عالم بن شیخ جمال بن شیخ علی بن، شیخ سلیمان بن شیخ صلاح الدین بن شیخ اسمٰعیل بن امام محمد تاج فقیہ۔صاحب گلزار نے آپ کو محمد علا بنگالی لکھا ہے۔ محمد علا بنگالی آپ شیخ قاضن شطاری کر کے مشہور  ہیں اور حضرت شاہ عبد اللہ شطاری کے خلیفہ ہیں۔ ریاضات و مجاہدات اور مراقبہ و مشاہدات میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ انسانی کمالات اور وجدانی حالات آپ میں عیاں تھے۔ علمائے باللہ میں سر گروہ اور سالکان سیر فی اللہ میں آپ سردار تھے۔ نویں صدی کے اولین نصف حصہ میں جب شاہ شطار عبد اللہ شطاری ہندوستان میں آئے، تو گذر بنگالہ کی طرف بھی ہوا۔ اور مشائخ بنگالہ کی طرف بھی گئے
عظیم محقق علامہ حکیم شاہ شعیب رضوی نیر پھلواروی  فرماتے ہیں کہ حضرت قاضن کی وفات 24 شوال  901 ہجری میں، سو سال سے کچھ زیادہ ہی عمر پا کر ہوئی اور بہار میں حا جی پور کے بعد دوسرے ریلوے اسٹیشن بھگوان پور سے پچھم جو لعل گنج سنکھا کو ایک سڑک گئی ہے، اسی کے نزیک ایک بستی بنیا بساڑھ ہے وہیں،ان کا مزار مبارک ہے۔ حضرت قاضن شطاری کی وفات کے بعد اُن کے فرزند اکبر شیخ ابوالفتح ہدیۃ اللہ سرمست نے سلسلہئ شطاریہ کی خوب خوب اشاعت کی۔ حضرت سید ابوالفتح  ہد یۃاللہ سرمست حاجی پور علاقہ ترہت، موضع سکول جو حاجی پور کا ایک گاوں گنڈک ندی کے کنارے واقع تھا، مدفون ہوئے۔ ان کا انتقال948ھ  میں ہوا۔ اب آپ کے مزار کا پتہ نہیں ہے۔ شیخ حاجی حمید الدین حصور (متوفی 930ھ)،  شیخ ابوالفتح ہدیۃ اللہ سرمست  کے خلیفہ تھے جنھوں نے اپنے پیر کے وصال کے بعد اس سلسلے کی اشاعت کی۔ ان کا مزار صوبہ بہار کے ضلع سارن میں واقع ہے۔
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری نے اپنے تمام بھائیوں یعنی شیخ پھول، شاہ ابوالخیر سرمست، شاہ ابوالفتح، شاہ قطب الدین محمد احمد، سید شاہ، اور شیخ قاضن کے ساتھ شیخ حاجی حمید الدین حصور کے دست شفقت پر بیعت کی۔ شیخ طریقت نے راہ سلوک کی منازل طے کرائی اور خرقہ خلافت عطا کیا۔
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاریؒ نے بیعت کے بعد اپنے شیخ طریقت سے مستقل سکونت کے سلسلے میں مشورہ کیا۔ شیخ نے اجازت  دی ”جہاں مزاج چاہے، رہو، اس میں تم کو اختیار دیا گیا ہے۔“ چنانچہ  صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری، مدھیہ پردیش کے ضلع گوالیار تشریف لے آئے اور یہاں رشدو ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔ حالانکہ صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری کی مشہور تصنیف ’جواہر خمسہ‘ میں یہ اشارہ واضح طور پر موجود ہے کہ کوہستان۔ چنار میں عبادت و ریاضت کے دوران ہی انھیں قلعہ گوالیار میں قیام کی بشارت ہو چکی تھی۔ بہرحال اُنھوں نے گوالیار میں سکونت اختیار کی۔ صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری نے یہاں بطور خلیفہ، سلسلہئ شطاریہ کی اشاعت کی ذمے داری سنبھالی اور بہت جلد خاص وعام میں مقبول ہو نے لگے۔
      حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری  دوسرے سلسلے جیسے چشتیہ، فردوسیہ، سہروردیہ، قادریہ اور مداریہ کے بھی مجاز تھے۔ اپنے کر دار و گفتار، علم وفن اور عبادت و ریاضت کی وجہ سے ہندوستان کے زیادہ تر مقامات جیسے دہلی، راجستھان، گجرات، آگرہ، سرہند، سنبھل اور بہار وغیرہ میں آپ کے خلفا اور مریدین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔مزید بر آں صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گو ا لیاری کے مرید و خلیفہ شاہ وجیہ الدین علوی اور دیگر مریدین و معتقدین کی مدد سے یہ سلسلہ شطاریہ،بیرون ممالک جیسے انڈونیشیا، جاوا اور سماٹرا میں بھی مسلسل پھیلتا رہا۔ در ایں اثناء شیخ محمد غوث گوالیاری بیمار ہوگئے اور تقریباً چھ مہینے تک ذی فراش رہے۔بفضلہ تعالیٰ جب صحت نصیب ہوئی تو قاضی رکن الدین اور قاضی خدا بخش کو اپنے پیر طریقت شاہ حاجی حمید الدین حصورؒ کی خدمت میں عریضہ ارسال کیا۔ یہ دونوں حضرات جب پیر طریقت کی خدمت میں پہنچے تو اُنہوں نے جبّہ و دستار طلب کی اور اسے خود اپنے دست مبارک سے شیخ  محمد غوث گوالیاری کے لیے ان دونوں حضرات کو سپرد کیا اور ایک فرمان لکھوا کر دستخط کیا اور اسے بھی اُنہیں سپرد کرکے روانہ کیا۔ در اصل اس مکتوب میں پیر طریقت نے تعلیمات سلوک اور چند نصیحتیں فرمائی تھیں۔ساتھ ساتھ دارالفنا سے دارالبقا کی جانب اپنی وفات کے سلسلے میں واضح اشارہ بھی کر دیا تھا۔ بہرحال پیر طریقت حاجی حمید الدین حصور کی وفات کے بعد حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری مسند سجادگی پر متمکن ہو ئے اور درجہ ’غوثیت‘ کو پہنچے۔آپ نے گوالیار ہی سے رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا  اور یہیں سے ہر خاص و عام کے لیے فیض رساں ثابت ہوئے۔ آپ کی شان غوثیت کا بیان کرتے ہوئے ’مناقب غوثیہ‘ کے مصنف شیخ فضل اللہ شطاری فرماتے ہیں کہ بہت تشہیر ہونے کی وجہ سے تحفظ کے نقطہ نظر سے شیخ محمد غوث گوالیاری کے حجرہ کے پاس ایک نگہبان مقرر کیا گیا تھاجس کے پاس تلوار اور نیزہ رہتا تھا۔  ایک دن شیخ محمد غوث گوالیاری کے مرید شیخ احمد دانا نے اس تلوار اور نیزہ کو دریائے گنگا میں پھینک دیا جس پرشیخ محمد غوث گوالیاریؒ کو بہت غصہ آگیا۔فوراً ہی شیخ احمد دانا نے عرض کیا: 
اگر حکم ہو تو تمام اشیا لا کر حاضر کر دوں“ ارشاد ہوا: ”ہاں: ابھی لے کر آؤ، اور بہت جلد آؤ“۔ مناقب غوثیہ کا بیان ہے کہ شیخ احمد دانا ’یا غوث‘ کہتے دریا میں کود گئے اور چند لمحوں میں ’یا غوث‘ کہتے  تمام اشیابجنسہٖ اپنے ساتھ لے کر باہر آگئے۔ ’غوث وقت‘  شیخ محمد غوث گوالیاری کے مریدین، معتقدین اور خلفاکی تعداد میں ملک اور بیرون ملک روزافزوں اضافہ ہوتا گیا۔ گیارہویں صدی ہجری کی شہرت یافتہ  تصنیف ’تکمیل الایمان‘ اور ’مناقب غوثیہ‘ میں ان کے مریدین و خلفا کی لمبی فہرست موجود ہے۔ ان خلفا و مریدین میں شیخ وجیہ الدین علوی، شیخ لشکر محمد عارف،شیخ عیسیٰ جند ا للہ، شیخ علی شیر بنگالی، شیخ صدرالدین ذاکر، شیخ شمس الدین شیرازی، شیخ ودوداللہ شطاری، شاہ منجھن، شیخ  احمدی اور شیخ عبدالحئی جیوہ وغیرہ کے نام نامی قابل ذکر ہیں۔
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری نے چار شادیاں کی تھیں جن سے بالترتیب 9 صاحبزادگان اور پانچ  صاحبزادیاں تھیں۔ پہلی بیوی سے تین صاحبزادے، شاہ عبداللہ، میر شاہد اور میر ہادی شریف تھے اور دو صاحبزادیاں بی بی زاہدہ اور بی بی مالحہ تھیں۔ دوسری بیوی  سے دو صاحبزادے میر علی اور مرزا مبارک تھے۔ اور دو صاحبزادیاں بی بی کریمہ اور اور بی بی رحیمہ تھیں۔ تیسری بیوی سے ایک صاحبزادہ شاہ نور الدین اور ایک صاحبزادی بی بی حفیظہ تھیں۔ چوتھی بیوی سے صرف تین صاحبزادے سید اسماعیل،  سید مظفر اور سید اویس تھے۔ آپ کی اولاد میں شیخ عبداللہ، شیخ نورالدین ضیا، شیخ اویس اور شیخ اسماعیل باکمال اولیا گزرے ہیں۔ آپ کے فرزند اکبر شیخ عبد اللہ کی ولادت بروز جمعہ ماہ ربیع الاول 938ھ  ہوئی۔ شیخ وجیہ الدین علوی اور مولانا مبارک دانشمند گوالیاری سے درس وتدریس حاصل کی۔والد بزرگوار سے شرف بیعت اور خرقہ خلافت حاصل کیا اور 970ھ میں والد کے انتقال کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ شہنشاہ اکبر نے شیخ محمد غوث گوالیاری کے مقبر ے کے تعمیر کی ذمے داری شیخ عبداللہ کو تفویض کی تھی جسے شاہ عبداللہ نے بخوبی  انجام دی۔ صوفی یوگ گروشیخ محمد غوث گوالیاری کے مقبرے کا شمار شہنشاہ اکبر کے عہد کی اہم  یادگار تعمیرات میں شامل ہے۔ یہ  شاہکار مقبرہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کا نہایت ہی حسین امتزاج ہے۔ اس مقبرہ کے احاطے میں دربار شہنشاہ اکبر کے 9 رتنوں میں ایک رتن اور مشہور مطرب ہند،تان سین کا مزار بھی ہے جو شیخ محمد غوث گوالیاری کے معتقد و مرید تھے۔شیخ محمد غوث گوالیاری کے وصال کے بعد آپ کے فرزند شیخ عبد اللہ گوالیار میں مسند نشیں ہوئے جہاں شیخ بدیع الزماں سمرقندی اور شیخ مبارک بھی موجود تھے۔آپ کے دوسرے فرزند شیخ نور الدین ضیاء اللہ اکبرآباد یعنی موجودہ آگرہ میں مسند نشیں ہوئے جہاں شیخ عبداللہ صوفی موجود تھے۔ احمدآباد میں آپ کے دو صاحبزادگان شیخ اویس اور شیخ اسماعیل فیض رساں ہوئے۔ اسی طرح بڑودہ میں شیخ صدرالدین محمد شمس ذاکر اور شیخ حبیب شطاری،سنبھل میں شیخ محمد عاشق، اجمیر میں مولانا عبدالفتاح ناگوری، بیجاپور میں شیخ شمس الدین شیرازی، برہان پور میں شیخ  لشکرمحمد عارف، شیخ عیسیٰ جند اللہ اور شیخ اکمل الدین برہان اور اجین میں شیخ احمد متوکل اور شیخ عالم سلسلہ شطاریہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف  ہوئے۔ شاہ وجیہ الدین کے خلیفہ شیخ صبغت اللہ تو مدینہ منوّرہ میں مقیم ہو گئے او ر انھوں نے یہیں حجاز کے علاقوں میں اس سلسلہ شطاریہ کو وسعت دی۔ اس طرح آپ کے خلفا، مریدین اور وابستگان ہر چہار جانب موجود تھے یہاں تک کہ بر صغیر ایشیا کے علاوہ عرب و عجم میں بھی پھیلے۔    
شیخ محمدغوث گوالیاری صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کی روز وشب کی سعی خاص کی وجہ سے ایک طرف سلسلہ شطاریہ کو فروغ حاصل ہوا تودوسری جانب آپ کے ملفوظات و مکتوبات اور تصانیف سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی سعی سے زبان و ادب کی اشاعت میں بھی   کافی اضافہ ہوا۔ معتبر تحقیق کے مطابق آپ کی سات تصانیف کا ذکر ملتا ہے جو اس طرح ہیں:جواہر خمسہ، اوراد غوثیہ، معراج نامہ،ضمائراور بصائر، بحرالحیات، کلید مخازن،  اور کنزالوحدہ۔ یہ سبھی تصانیف عربی یا فارسی میں تحریر کی گئی ہیں اور عالم تصوف کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا کی نگاہوں میں بھی قابل قدر ہیں۔ ’جواہر خمسہ‘ علم تصوف پر فارسی میں لکھی گئی ایک ضخیم کتاب ہے۔’اوراد غوثیہ‘ بھی فارسی میں لکھی گئی ہے جس کے دیباچہ کا بیانیہ ’جواہر خمسہ‘ کے مشمولات کی جانب راغب کرتا ہے۔ صوفی یوگ گروشیخ محمد غوث گوالیاری نے اس کتاب کے آغاز میں راہ سلوک پر گامزن سالک کے لیے چند اہم وصیتیں تحریر کی ہیں۔ انہی وصیتوں میں ایک وصیت یہ بھی ہے کہ:
اگر مرشد حاضرنہ باشد مکتوبات شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری مطالعہ کند تا فریب، نفس و وسواس خناس دریابد
اوراد غوثیہ‘ میں سالک کے لیے نو درجات متعین کیے گئے ہیں۔’معراج نامہ‘  آپ کی بڑی معرکتہ الارا تصنیف ہے جس میں آسمانوں اور سیاروں کی سیر کا ذکر ہے۔ صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری ؒ کو اس کتاب کی وجہ سے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کفر کا فتویٰ بھی لگا اور ترک وطن کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ ’ضمائر‘ اور’بصائر‘  ان کے تحریر کردہ رسا لوں کا نام ہے جس میں صوفی یوگ گروشیخ محمد غوث گوالیاری  نے علم تصوف کے مختلف موضوعات، راہ سلوک کے مسائل، فنا، بقا اور مقصد حقیقی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آپ کا تحریر کردہ رسالہ’کلید مخازن‘، علوم باطن اور واردات قلب جیسے موضوعات پر بہت قیمتی رسالہ تسلیم کیا  جاتاہے۔ اس  رسالے میں صوفیائے کرام کے مشرب بالخصوص فنا، بقا اور کشف سے متعلق اہم نکات پر بحث کرتے ہوئے چند بامعنی اُصول وضع کیے گئے ہیں۔ صاحب معرفت کے لیے یہ رسالہ علم سفینہ سے زیادہ علم سینہ پر مشتمل ہے۔ ’کنزالوحدہ‘ آپ کی وہ تصنیف ہے اور شاید آپ کی آخری تصنیف ہے جس میں انھوں نے شریعت و طریقت اورتصوف کی روشنی میں توحید اورایمان حقیقی پرعالمانہ بحث کی ہے۔
 شیخ محمد غوث گوالیاری کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اُنہوں نے شریعت و طریقت کی روشنی میں باطنی علوم یعنی ریاضت، تذکیہ نفس اور تصفیہ قلب وغیرہ پر بہت زور دیا اور اس کے حصول کے لیے ہندو فلسفہ ’یوگ‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ صوفی یوگ گروشیخ محمد غوث گوالیاری عربی فارسی کے ساتھ ساتھ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ انھوں نے ’یوگ‘ پر مستند کتاب ’امرت کنڈ‘ کا فارسی میں ترجمہ کیاجس میں ہندو سادھو سنتوں اور ان کے اشغال کا بیان ہے۔ اس میں اُن طریقہ ہا ئے کار پر زور دیا گیا ہے جن کے توسط سے اعصاب پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔انھوں نے اس کتاب میں مجاہدہ اور ریاضت کے حوالے سے ’یوگ‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری ؒنے ’یوگ‘ کی تفصیلات پر مبنی اس کتاب کا نام ’بحرالحیات‘ رکھا۔ آپ کی مشہور تصنیف ’جواہر خمسہ‘  میں بھی آپ کی اس کتاب ’بحرالحیات‘ کا تذکرہ بطور خاص موجود ہے۔ اسی طرح سلسلہئ شطاریہ کے بلند پایہ عالم اور صاحب تصنیف بزرگ مولانا محمد غوثی اپنی شہرت یافتہ کتاب ’گلزار ابرار‘ میں ’بحر الحیات‘ کا تعارف کراتے  ہوئے باطنی اعمال کے واسطے یوگ کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
جریدہ دستور العمل طائفہ جوگی و سنیاسی کا ترجمہ، اس میں باطنی اعمال، تصوری اشغال، پاس انفاس کا ذکر  اور نیز ان امور کے سوا اور بھی اقسام ریاضت بیان کیے گئے ہیں، جن کی بدولت روحی لشکر کو جسمانی سپاہ پر فتح ملتی ہے۔ جوگیوں اور سنیاسیوں کی دو جماعتیں، ہنود کے ریاضت مندوں، گوشہ نشینوں، اور رہبانوں کی سر گروہ ہیں، اور انھیں اشغال و اذکار کی برکات سے استد راج اور خرق عادات کے درجہ کو پہنچ کر، سائلوں کے ضمیروں کی چیستاں پر اطلاع حاصل کرتی ہیں، آپ نے ان تمام معانی کو سنسکرت عبارت سے جو کتب ہنود کی زبان ہے، اخذ کرکے فارسی لباس پہنایا ہے، اس کتاب کے مفہومات سے زنار توڑ کر بجائے اس کے توحید اور اسلام کی تسبیح گردن میں ڈال دی ہے، نیز حقیقی ایمان کی قوت سے ان مفہومات کو تقلید کی قید سے نکال کر صاحب تحقیق صوفیوں کے اذکار و اشغال سے تطبیق دی ہے
چنانچہ میں نے یہاں ’یوگ‘ سے وابسطہ اُن پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جن کا تعلق شیخ محمد غوث گوالیاری کے  توسط سے شطاریہ سلسلے کے اس ارتباط سے ہے جسے صوفی یوگ گرو حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری نے ’یوگ‘ سے اخذ کیا  ہے۔ ان کی تصنیف’بحرالحیات‘ دس ابواب پر مشتمل ہے جس کے چوتھے باب بعنوان  ’در معرفت ریاضت‘ میں صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری نے ’یوگ‘ کی تفصیلات کو عقلی دلائل کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ بحرالحیات میں یوگ کے مختلف آسنوں جیسے ذکر ہنس، ذکر الکہ، ذکر کہکتی، ذکر نرنجن، ذکر چکری، ذکر نبولی، ذکر گورکہی، ذکر اکوجن، ذکر انہد سبد،ذکر نصبد، ذکر ستیلی، ذکر بہونکم، ذکر بورکہ، ذکر تراوت اور ذکر کنجری وغیرہ کا تفصیلی بیان تصاویر کے ساتھ موجود ہے۔
شیخ محمد غوث گوالیاری وہ’صوفی یوگ گرو‘ ہیں جو یوگ سے آدھیاتم کی جانب بڑھے اور فضل ایزدی، رضائے مصطفےٰؐ، حب اہل بیت اور پیران طریقت کے عقیدہ و احترام کی بدولت اپنی عبادت و ریاضت، ریاضات و مجاہدات اور اذکار و اشغال کی وجہ سے ان باکمال اولیا اور برگذیدہ مشائخ کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں جو نہ صرف خود سالک بنے بلکہ سیکڑوں طالبین حق کو بھی سالکین بنا دیا           ؎
گر قدمت شد بہ یقین استوار
گرد د ز دریا، نم از آتش برآر
 صوفی یوگ گرو شیخ محمد غوث گوالیاری 929ھ میں گوالیار تشریف لائے مگر947ھ میں نا مساعد صورت حال کی وجہ سے ہجرت کی اور گجرات تشریف لے گئے۔ آپ  نے دیگر صعوبتوں کے ساتھ ساتھ سفر کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ یہاں شیخ وجیہ الدین علوی آپ کے معتقد تھے۔ انھوں نے آپ سے شرف بیعت حاصل کی اورآپ کے ساتھ ہی رہے۔ آپ نے احمدآباد میں مسجد اور خانقاہ تعمیر کرائی۔ حلقہ ارادت تو یہاں بھی وسیع ہوتا گیا مگر حالات یہاں بھی ساز گار نہیں تھے۔ چنانچہ گجرات  اور گردو نواح میں تقریباً انیس سال قیام کے بعد 966ھ  میں اکبرآباد (آگرہ) تشریف لے  گئے۔ مگر افسوس کہ یہاں بیرم خان کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پھرگوالیار واپس آنا پڑا۔ بیرم خان کی موت کے بعد دوبارہ آگر ہ تشریف لائے اور یہیں 63 سال کی عمر میں 14 رمضان المبارک 970ھ کو داعی اجل کو لبیک کہا۔مگرتد فین گوالیار ہی میں عمل میں آئی۔ افسوس!صد افسوس!معرفت کا سورج غروب ہوگیا۔ صوفی یوگ گرو حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری ؒ کی وفات پر’مخبرالواصلین‘میں کہی گئی قطعہ تاریخ اس طرح درج ہے:
آں شیخ  محمد  المخاطب
 بالغوث بہ لطف معبود
  تاریخ وصال او ملائک
گفتند کہ  شیخ اولا  بود
  مراجع و مصادر:
(1)      حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری (حالات و آثار):  پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
(2)      مکتوبات صدی: مرتبہ: پروفیسر ڈاکٹر سید شاہ محمد نعیم ندوی
(3)      النسبۃ الاویسیہ: مولانا شاہ قمرالدین قادری پھلواروی
(4)      اعیان وطن: حکیم مولانا شاہ شعیب رضوی نیر پھلواروی
(5)      تجلیات انوار: ذکر شیوخ بہار:حکیم مولانا شاہ شعیب رضوی نیر پھلواروی
(6)      جواہر خمسہ:  شیخ محمد غوث گوالیری
(7)      اوراد غوثیہ:  شیخ محمد غوث گوالیری
(8)      بحر الحیات: شیخ محمد غوث گوالیری
(9)      تصوف اور صوفیا کی تاریخ(عرب سے ہندوستان تک): ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن
(10)    سیرت پیر مجیب:  مولانا شاہ ہلال احمد قادری
S M N Rizvi
Deputy Director
ROB, Govt. of India
Ranchi - 834002
Mob.: 08987582814


ماہنامہ اردو دنیا،دسمبر 2019

 

1 تبصرہ:

  1. حضرت شاہ حاجی حمیدالدین حصور رحمت اللہ علیہ کا مزار مبارک مالکانہ رتن سراۓ،برولی،ضلع گوپال گنج میں موجود ہے
    جو مخدوم پاک کے نام سے مشہور ہے

    جواب دیںحذف کریں