9/1/20

کلیم الدین احمد کا نظریہ (صنفِ غزل اور ترقی پسند مصنّفین کے حوالے سے) مضمون نگار: محمد سہیل انور



 کلیم الدین احمد کا نظریہ
(صنفِ غزل اور ترقی پسند مصنّفین کے حوالے سے)

محمد سہیل انور

اردو دنیا کی تنقید میں کلیم الدین احمد کا نام کسی تعار ف کا محتاج نہیں۔ البتہ شعبۂ تنقیدمیں انھوں نے نام کمایا، اس سے کہیں زیادہ  بدنامی اُن کے حصے میں آئی۔ اپنی شہرہ  آفاق کتاب  ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ میں اپنے نظریۂ نقد کی پرورش خود ہی کی اور کسی بھی قسم کے متضاد اور متنازعہ بیانات کی فکرنہ کرتے ہوئے اپنی بے باک رائے کا برملا اظہار کیا اورخود ہی اپنے مقدمے کی پیروی بھی کی۔ بالخصوص جب ہم اردو ادب کے سرمایے میں صنفِ غزل اور ترقی پسندمصنّفین،مثلاً ادبا، شعرا، تنقید نگار ومحققین کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں  تو اِن مشا  ہیرِ ادب پر کلیم الدین احمد نے اپنا نظریۂ نقد،جس بے تکلفانہ اور گاہے بہ گاہے متنازعہ فقرے کے پیرائے میں کیاہے اس کو نظر انداز اور چشم پوشی تو در کنار، فراموش بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ در اصل زیر نظر مضمون  ’صنفِ غزل اور ترقی پسند مصنّفین کے رجحانات پر کلیم الدین احمد کا نظریۂ نقد‘  کے حوالے سے تجزیہ پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی کاوش ہے۔
پروفیسر کلیم الدین احمد نے مقبول ترین صنف غزل اور تنقید کے حوالے سے جو مختلف فقرے چسپاں کیے ہیں۔مثلاً:
    الف:   ’غزل نیم وحشی صنفِ سخن‘  ہے
     ب:    ’تنقید’معشوق کی موہوم کمر ہے
     ج:    یا ’ اقلیدس کا خیالی نقطہ
 اِن فقروں پر آج کے ادبی ماحول میں خاطر خواہ بحث ہونی چاہیے۔نہ کہ صرف اس کو مخالفین کے ذریعے معترضہ جملے یا فقرے یا معترفین کے حوالے سے معترفہ جملے یا فقرے کہہ کراِن سے چشم پوشی کرنا یا دست بردار ہو جانا،راقم السطورکی نظر میں صحت مند رویہ نہیں ہو سکتا۔
در اصل زیر نظر مضمون میں راقم الحروف نے اِنہی پہلوؤں و نکات کو از سرِ نو اپنی علمی بساط بھر احاطۂ تحریرمیں لانے کی کوشش کی ہے۔میری نظرمیں ’غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن‘کہنا در اصل خالص مغربی شعریات یا صنف غزل کو مغربی عینک سے دیکھنے کی ایک سعی ہوسکتی ہے کیونکہ اس قول یا فقرے میں (جہاں تک میری دانست  میں ہے) کلیم الدین احمد نے کوئی اضافی یا مدلل بات نہیں کی ہے سوائے اس کے کہ مغربی ادب میں رائج Semi Barbary Poetryکا جو Conceptتھا،انہوں نے من و عن اُسی کا اردو ترجمہ پیش کر دیا۔اگر ہم بالفرض مان بھی لیں کہ جب انھوں نے اِس قول و فقرہ کو(خواہ وہ ترجمہ کی شکل میں ہی ہو) اپنی ذہنی اُپج کے طور پر پیش کیا  یا مطمحِ نظر بنایا تو عین ممکن ہے کہ مغرب میں بھی شعریات (Poetry)  کو اُسی سیاق و سباق میں دیکھا،پرکھا اور سمجھا جا رہا تھا اور ایسا کہنے کے پسِ پردہ اُن کا مغربی نظریہ حائل ہو۔ اس فقرے سے صنف غزل کی تضحیک کی بلکہ مشرقی ادب کی سب سے معتبر و مقبول صنف و شاعری پر بھی ایک کاری ضرب لگائی            ؎ 
صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے   
کہاں ہے؟کس طرف کوہے؟کدھر ہے؟
   زیرِ نظر شعر میں موصوف نے غزل کو صنم سے تشبیہ دی ہے۔ہر عاشق ومعشوق،کھُلی آنکھو ں سے اپنے جسم کے چند اعضاء کے علاوہ  ہر عضو کو دیکھ سکتا ہے توپھر کلیم الدین احمد نے مذکورہ شعر پیش کرکے ’تجاہلِ عارفانہ‘ سے کام کیوں لیا؟   حا لانکہ ان سے پیشتر ناقدوں نے بھی شاعری اور غزل کی رُو سے تمسخر اور معترضہ جملے پیش کیے ہیں۔ مثلاً بابائے اردو تنقید حالی نے اِس نوع کی شاعری اور غزل، جس میں نسوانی موضوعات،محبوب سے لگی لپٹی، حسن و عشق،  رومانس و جمالیات اورصرف چوٹی کنگھی کی ہی باتیں ہو ں یا خود بقول حالی: موضوع یا ہیئت کے اعتبار سے جس قسم کی شاعری میں جوش،اصلیت،سادگی اورصحتِ الفاظ کا بر محل استعمال نہ ہو تو الطاف حسین حالی ؔنے ایسی شاعری کو ’ناپاک دفتر‘سے تعبیر کیا اور اس قسم کی شاعری میں برتنے والے موضوعات مثلاً حُسن و رعنائیاں اوربے جا جمالیات کو ایک شعر میں اس طر ح  ہدفِ ِ تنقید بنایا ہے  ؎؎                        
یہ شعر و قصا  ید کا  نا پاک د  فتر      
عفونت میں سنڈاس سے بھی ہے بدتر
گنہگارواں چھوٹ جائیں گے سارے  
 جہنم کو  بھر دیں گے شا عر ہمارے
تو دوسری طرف نظم طبا طبائی نے ’غزل‘ سے بد ظن ہوکر یہ مشورہ دے دیا کہ’ اس کی گردن مار دو‘  ا ور اِس نوع کی  شاعری کو ’غزل‘ نہیں بلکہ ’ہزل‘ سے موسوم کیا۔طبا طبائی نے ایسا کہہ کے شیوہئ گفتار (میر کا شیوہئ گفتار) کو تنگہائے غزل کا شکار بنایا۔انھوں نے بھی غالباً ’غزل‘ کو  تنگ زاویۂ نگاہ سے دیکھا۔ غالباً ایسے ہی موقع کے لیے غالب نے بھی کہا تھا      ؎
کچھ  اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
 )لیکن مثبت انداز میں)
شاید انہی ادیبوں و ناقدوں (حالی  و طبا طبائی)کے پیشتر اقوال و فقروں کے پرتَو میں ہی’غزل‘ پر جب کلیم الدین احمد گویا ہوئے تو انھوں نے بھی غزل کی مناسبت سے بڑا ہی سخت گیر لہجہ اختیار کیا اور شاید اس کی وجہ میری نظر میں یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کلیم الدین احمد بھی اپنے پیش روؤں کے خیالات سے صنفِ غزل کے متعلق بد گماں ہوئے ہوں،دوسرے مغرب میں شاعری کے حوالے سے جو نظریہ پیش کیا جارہا تھا،ممکن ہے اُس سے بھی کبیدہ خاطر ہوئے ہوں یا مرعوب ہوئے ہوں،دونوں صورتیں ممکن ہیں۔اُنھیں غزل جیسی معتبر اور ہر دلعزیز صنف  پر ایسی ہی گاج(بجلی) گرانی مقصود تھی تو صحتِ الفاظ کے ساتھ مطعون کرتے نہ کہ بطور تضحیک و تمسخر سخت ترین فقرہ پیش کرکے اس صنف بلکہ اس کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی؟
لیکن اس کے بر خلاف ’غزل‘ کے حوالے سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کا یہ قول ”غزل اردو شاعری کی آبرو ہے
یقینا غزل کی صحت اور مقبولیت کے عین موافق تھا اور اُن کا یہ فقرہ  یا تمہید’غزل‘ کی تمثیل کے عین مطابق ہو گیا۔پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اگر غزل کی صحت اور اس کے موضوع و ہیئت کے اعتبار سے اپنے مطمحِ نظر کا برملا اظہار نہ کیا ہوتا تو یہ بھی امکان تھا کہ بعد کے نقاد (بشمول کلیم الدین احمد) غزل پر اُس کی ہئیت و ندرت ِ بیان کے لحاظ سے مزید کتنے سخت گیر حملے کرتے یا جملے چسپاں کرتے کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔حا لانکہ اردو ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے صنفِ غزل کا کینوس (Canvass) اس قدر وسیع و وقیع ہے کہ اس میں موضوعات کے اعتبار سے ہر طرح کے کلام کو اعتبار بخشنے کا ہنر مضمر ہے اور مستقبل میں بھی اس کے امکانات روشن و تابناک ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں مو ضوعات کے تنوع کے باعث ہی اس کی وسعت پذیری و ہمہ گیریت کا اعتراف ہردور کے صاحبِ نظر ادیب و شاعر نے کیا ہے۔
غزل میں جب حسن ِ بیان اور ندرتِ بیان کی خوبصورت آمیزش ہوتی ہے تو ایسی غزل کو ’تغزل‘ کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے اور اس کی یہی حُسن ورعنائیاں، مکمل غزل کو اعتبار بخشنے میں معاون ہوتی ہیں۔مثلاً سودا، میر،غالب اور مومن کا یہ شعر ملاحظہ کریں،جس کو تغزل  کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے   ؎
کیفیتِ چشم اُس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
اورخدائے سخن میر کا یہ کلام         ؎
شعر میرے ہیں سب خواص پسند       
پر مجھے گفتگو  عوام  سے  ہے
اس ضمن میں غالب کا کلام بھی ملاحظہ کریں جو تغزل کا خوبصورت نمونہ ہے       ؎   
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اور مومنؔ کا یہ شعر تو ضرب المثل ہی بن گیا       ؎ 
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب  کوئی  دوسر ا  نہیں  ہوتا
حالانکہ کلیم الدین احمد، اپنی کتاب ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کے پیش لفظ میں تنقید کے اصول و ضوابط سے بحث کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:
اگر آپ کاشت کاری کے اصول سے واقف نہیں ہیں تو آپ کسان نہیں بن سکتے  اُسی طرح اگر آپ اصولِ تنقید سے واقف نہیں ہیں تو آپ نقاد نہیں بن سکتے۔  اردومیں تنقید کی ترتیب و تشریح  ابھی تک نہیں ہوئی ہے
 لیکن یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ کلیم الدین احمد کے اقوال میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟ اول تو وہ ’اردو میں تنقید کی ترتیب و تشریح‘ کو نامکمل کہتے ہیں،پھر صنفِ غزل پر طعن و تشنیع کیوں؟اور اس معتبر صنف کو ہدفِ تنقید کیوں بنایا؟اس قسم کے کئی سوالات ذہن میں اُٹھتے ہیں!جب کہ وہ اس کے بر خلاف خود اپنی مذکورہ کتاب کی تمہید میں یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ ’اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے‘۔ایک طرف تو اردو میں تنقید کے وجود کو ہی سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور اس کو فرضی گردانتے ہیں، لیکن دوسری طرف اُسی صفحہ پر سرِ عبارت غزل کا ہی ایک شعر بطور نمونہ پیش کرتے ہیں،جو اُن کے تخئیل کی نہ صرف تردید کرتا ہے بلکہ صنفِ غزل میں جو عمدہ رعنائیاں اور ندرتِ بیان مضمر ہے اِس شعر میں اُس کی بھی بھر پور عکاّسی کی گئی ہے۔شعر ملاحظہ ہو     ؎
مشکل ہے کہ اک بندہئ حق بیں و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند
یہی تو در اصل غزل کی اپنی دلکشی و رعنائی اور  ندرت ہے کہ مصرعہ اول و مصرعہ ثانی میں تضاد کے باوجودبھی غزل کا شعر اپنی پوری تابناکی کے ساتھ سامعین و قارئین کے اذہان پر اثر پذیر ہو جاتا ہے اور مصرعہ اول و ثانی میں بے ربطگی کا گمُاں تک نہیں گذرتاہے۔یہ غزل کی ہی پرُکاری، خوبصورتی اور اثر پذیری ہے کہ اپنی سادگی اور اظہارِ بیان کی ندرت کے باعث بڑے سے بڑے نازک اور تاریخی موضوعات کو بھی آسانی سے اپنے کلام میں سمیٹتے ہوئے اپنی انوکھی غنائیت سے مترنم و مترشح بنا دیتی ہے۔
میرؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو        ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نا زک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہِ شیشہ گری کا
اب دیکھیں میر کے مذکورہ شعر میں غزل کی رعنائیاں جلوہ افروز ہیں تو اس میں انفرادیت کا عنصر بھی ہے اور عہدِ مغلیہ کی تاریخی و ثقافتی منظر نامے کی روداد بھی ہے۔لیکن میر کے اس شعر کو سیاق و سباق میں سمجھنے اور پرکھنے کی اہلیت وہی شخص یا ادیب کر سکتا ہے جو متعلقہ دور یعنی عہدِ مغلیہ کی تہذیب و ثقافت اور صناّعی و مصوری سے بخوبی واقف ہو،ورنہ متذکرہ شعر عام قاری کے لیے زندگی کے لائحہ عمل کی ایک عمدہ تمثیل کے بجائے  صرف مسرّت و انبساط بہم پہنچانے کا ذریعہ کے علاوہ کچھ نہیں ثابت ہوسکتا ہے۔اس یے غزل کے اشعار بظاہر پہلی قرأت میں خوبصورت محاکات و منظر نگاری کے ساتھ بھی جلوہ گر ہوں تو اس کی جمالیات و رعنائیوں سے آپ یکسر یہ کہہ کر دست بردار نہیں ہو سکتے کہ اس میں صرف حُسن و جمال کی بظاہر سطحی رعنائیوں یا دلکشی کا ہی ذکر ہے۔لہٰذا غزل کے سیاق و سباق کا بغائر مطالعہ کیے بغیر یااِس کی تفہیم وتعینِ قدر سے پوری طرح لطف اندوز ہوئے بغیر متعلقہ غزل یا شعر کے حسن و معیار کا بخوبی جائزہ نہیں لے سکتے اور نہ اس کے معیارِ اظہار اورمعاملہ بندی سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔حالانکہ کلیم الدین احمد بھی اِس کلیے سے بخوبی واقف تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اپنی کتاب’اردو تنقید پر ایک نظر میں‘  تمام اختلافات کے باوجوددانستہ یا نادانستہ طور پر یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ ’آرٹ براہِ راست حقیقت کا جلوہ گر ہے‘۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی بات ’بہر کیف‘ !سے شروع کرتے ہیں، جو اردو زبان و ادب میں ’جملے‘ کوممیز کرنے کا بطور سابقہ ایک خوبصورت حیلہ ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:
  ”...بہرکیف! آرٹ وہ مصوری ہو یا نقاشی، شاعری ہو یا موسیقی،آرٹ کا واحدمقصد افادی علامتوں، رسمی اور سماجی کلیوں غرض ہر اُن چیزوں کو جو حقیقت کو ہماری نگاہوں سے مخفی رکھتی ہیں، مٹاتا ہے اور ہمیں براہِ راست حقیقت کا جلوہ دکھاتا ہے۔شاعری ہمیشہ اندرونی کیفیتوں کی ترجمانی کرتی ہے... آرٹ کا مقصد انفرادیت کا حصول ہے،  جس شئے کی کوئی آرٹسٹ تصویر کھینچتا ہے،اس کو اُس نے کسی خاص جگہ،کسی خاص دن،خاص ساعت ایسے رنگ میں دیکھا ہے جو پھر کبھی نظر نہ آئے گا۔شاعر اپنے نغموں میں ایسی کیفیتوں کا اظہار کرتا ہے جوصرف اُس کی ہیں اور جو کبھی لوٹ کر نہ آئیں گی
)  اردو تنقید پر ایک نظر ازکلیم الدین احمد، ص177تا 179)
غرض کہ مذکورہ اقتباس میں کلیم الدین احمد نے آرٹ،ادب یا مصوری و شاعری کے حوالے سے جو کُلیے اور آرٹ یا شاعری کے متعلق اپنا جو نقطۂ نظر پیش کیا ہے،وہ اس بات کی ضامن ہے کہ کلیم الدین احمدغزل کے حوالے سے کہے گئے اپنے معروضات یا فقرے کی صحت سے رُو گردانی یا انحراف کرتے نظر آرہے ہیں۔اُن کے اقتباس کو بار بار پڑھنے پر ایسا گماں گذرتا ہے کہ موصوف اپنے ہی معروضات پر نا دانستہ ہی سہی  Anti Thesisکی مہر لگانے سے بھی گُریز نہیں کرتے۔گوکہ کسی بھی موضو ع پر اپنی Thesis تو پیش کرتے ہیں لیکن اُس کی Anti Thesisسے پیشتر ہی Synthesis تک پہنچنے کے لیے راستے ہموار کرتے ہوئے نتیجتاً درمیان میں ہی وہ  اپنے اس کلیے یا معروضے میں عدم تکمیل کے مرحلے سے گذرتے ہوئے مشکوک نظر آتے ہیں۔دیکھیں خود اُن کی اِس ذہنی کیفیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غزل کو اپنی تنقید کا ہدف بنانے سے پیشتر1956 میں ترقی پسند مصنّفین کے علمبرداروں پر بھی نشانۂ ہدف لگانے سے باز نہیں آئے۔ملاحظہ کریں مندرجہ ذیل اقتباس، جس میں ترقی پسندادیبوں اوراُن کے رجحانات سے کبیدہ خاطر ہو کر اُنھیں اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے:
”.....ترقی پسندوں کے علمبرداروں نے اِن باتوں کو مہمل سمجھ کر اُن کی تردیدکی ضرورت  نہیں سمجھی۔وہ زندگی کی حقیقتوں کی رٹ لگاتے رہے لیکن اس حقیقت کی طرف سے منھ موڑے رہے اور زور زور سے اپنا ایک راگ الاپتے رہے، شاید اس لیے کچھ نئی باتوں کی بھنک کان میں پڑ جاتی تو یہ راگ بے لطف ہو جاتا۔کبھی یہ بھی ہوا کہ اِن باتوں کی بھنک کان میں پہنچ ہی گئی لیکن ان کا مدلل جواب نہ بن پڑا تو گالیوں پر اُتر آئے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب دو بچے آپس میں لڑتے ہیں اور ایک کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ لڑنے کے بدلے گالیوں پر اُتر آتا ہے اور اُنہیں گالیوں سے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالتاہے اور اپنی تسلّی کر لیتا ہے..... ترقی پسند تنقید میں نئی نئی گالیاں ہیں،جسے ترقی پسند نقادعام طور سے استعمال کرتے ہیں، رجعت پسند، جمہوریت دشمن، عینیت پسند، خیال پرست، تصور پرست، بورژوا  اور اس قسم کی بہت سی گالیاں ہیں، اِن لفظوں کا کوئی خاص مفہوم نہیں یہ جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہیں اور بس۔اِن لفظوں سے ترقی پسند نقاد کی برہمی ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس  کی اس تنقید کا جواب گالی ہے۔
(اردو تنقید پر ایک نظر ازکلیم الدین احمد ص179 تا180)
مذکورہ اقتباس میں کلیم الدین احمد نے ترقی پسندوں کے علمبرداروں اور ترقی پسند مصنّفین کو بھی اپنی تنقید کا ہدف بنایا اور یہ کہہ کر اِن ترقی پسند علمبرداروں کو کم فہم و نافہم گردانا،کیونکہ ترقی پسندوں کے ذریعے جاری کردہ اصطلاحات کلیم الدین احمد کی نظر میں مہمل گوئی اور گالیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں اور یہاں بھی انہوں نے تشبیہ کے طور پر چند اصطلاحات کا سہارا لے کر رجعت پسندوں و ترقی پسندوں کو دو زُمرے میں تقسیم کرتے ہوئے دو بچوں کی طفلانہ حرکت (ایک بہادر اور دوسرا نسبتاًڈرپوک)سے موازنہ کیا ہے،جو میری دانست میں مختلف زاویے سے صحت مندرجحان نہیں ہو سکتے۔بچوں پر ہی کیا موقوف ہے بالغان بھی قضیہ و تکرار کی صورت میں گالی گلوج پر اُتر آتے ہیں لہٰذا یہ معروضہ پیش کرنا قرین از صحت نہیں ہے دوئم ترقی پسندوں یا اُن کے علمبرداروں کے پختہ اذہان (Maturity)کا مقابلہ بچوں کی طفلانہ شرارت یا نفسیات سے کرنا یوں بھی بعید از فہم معلوم ہوتا ہے۔ کلیم الدین احمد کی تنقیدی نگارشات و حملہ آور فقروں کا بغائر مطالعہ کرنے کے بعداس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ وہ بین السطور مغالطے اور کنفیوژن کے شکار بھی ہو جاتے ہیں،کیونکہ ایک طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:
ترقی پسند مصنّفین کے خیالات ’منطقی طرزِ ادا‘ کے باوجود (بمعنیِ دیگر با وصف)بھی منطق سے مبرّا ہوتے ہیں
(اردو تنقید پر ایک نظر ازکلیم الدین احمد، ص179 تا180(
دیکھیں کلیم الدین احمد کی مذکورہ سطر سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ گویا وہ دیہی باشندوں کی ٹھیٹھ دیہی کہاوتوں کے مصداق ہیں کہ ”گُڑ کھاؤلیکن گُلگُلہّ (گُڑ سے ہی تیار کردہ میٹھے پکوڑے) سے پرہیز کرو“۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر گُڑ کا Physical structureتبدیل ہو جائے تو کیا اُس کی افادیت و مضر اثرات بھی تبدیل ہوجائیں گے۔مثلاً وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ترقی پسند مصنّفین کے خیالات ’منطقی طرزِ ادا‘ کے باوجود یعنی با وصف بھی ہے اور منطق سے مبرّا بھی۔ اول تو آپ یہ تھیسس ہی نہ دیں کہ ان کے خیالات ’منطقی طرزِ ادا‘کے باوجود(بمعنی با وصف) متحرک ہیں اور اگر ہیں تو پھر اپنے ہی جملہ کی  اینٹی تھیسس یعنی ’منطق سے مبرا‘ کیسے ہوگئے؟ اس قسم کے ایسے کئی جملے و فقرے ہیں جو بین السطور،قاری کو ’مغالطے و کنفیوژن میں مبتلا کرتے ہیں۔اپنی ہی کتاب میں ایک مقام پرمولوی عبد الحق کے اقتباس کا حوالہ دے کر ترقی پسند مصنّفین کے تصورات و خیالات پر کس طرح قدغن لگانے کی کوشش کی ہے حالانکہ چند مقامات پر وہ اپنے معروضات پیش کرنے میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں لیکن بعد ازاں بین السطور ہی وہ اپنی ہی نگارشات و مفروضات کی نفی بھی کرتے ہیں۔ راقم نے گذشتہ سطور میں اُن کے ’منطقی طرزِ ادا‘کے با وجود او’ر منطق سے مبرّا‘اصطلاح پر گفتگو بھی کی،لیکن خود اُن کی تحریروں میں متضاد جملے بھی پائے جاتے ہیں۔کہیں وہ ترقی پسند مصنّفین کی تحریروں میں ’طرزِ ادا‘ کے وصف بھی تلاش کرتے ہیں تو کہیں یہ کہہ کر گذر جاتے ہیں کہ ترقی پسند ادب میں طرز ِ اد ا بھی ناقص ہے،گو کہ ترقی پسند مصنّفین کے تصورات و خیالات طرزِ ادا سے عاری ہیں۔پہلے کلیم الدین احمد کے اقوال ملاحظہ کریں کہ اُن کی باتوں میں کس قدر تضاد ہے اور کس شدّو مد سے ترقی پسندوں پر حملہ کرتے ہیں۔ پھر مولوی عبد الحق کے اقتباس سے کسبِ کمال حاصل کرتے ہیں۔اس دوران اقتباس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے قاری کو یہ احساس ضرور ہوتاہے کہ خود کلیم الدین احمدنے بھی اپنی آرا پیش کرنے میں کس حد تک مولوی عبد الحق صاحب کے خیالات مستعار لیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے۔پہلے کلیم الدین احمد کا  اقتباس ملاحظہ ہو:
 ترقی پسندمصنّفین کو غوروفکر کی ضرورت نہیں۔ خیالات ماخوذ ہیں،وہ دماغ سے صحیح مصرف نہیں لیتے ہیں اور مستعار خیالات کی صحت و عدم صحت کے متعلق کبھی نہیں سوچتے ہیں،غور وفکراُ ن کے بس کی بات نہیں اور غور و فکر کے بغیر کامیاب ادب ممکن نہیں۔اُن سے یہ بھی نہیں ہوتا،بنے بنائے خیالات کو اچھی طرح بیان کریں — ’ترقی پسند مصنّفین‘ خیالات کو اور یہ خیالات اپنے نہیں مانگے ہوئے ہیں بہت اہم سمجھتے ہیں اور الفاظ سے بے اعتنائی برتتے ہیں ۔
(اردو تنقید پر ایک نظر ازکلیم الدین احمد، ص 156-57(
لیکن اِس سے پیشتر یہ بھی لکھتے ہیں:
تصورات میں جدّت نہ سہی کم از کم   ’طرزِ ادا‘  میں حسنِ تکمیل اور انفرادی رنگ آمیزی تو ہولیکن ترقی پسند ادب میں ’طرزِ ادا‘ بھی ناقص ہے“  (ایضاً(
اور پھر دیکھیں کلیم الدین احمد، مولوی عبد الحق صاحب کے اقتباس سے کس طرح کسب ِ فیض کرتے ہیں، گو کہ ایسا گماں گذرتا ہے کہ کلیم صاحب’خود را فضیحت دیگر را نصیحت“ کے مصداق ہیں:عبد الحق صاحب کا اقتباس ملاحظہ ہو:
مجھے معاف فرمائیے گا میں دیکھتا ہوں کہ اکثر ترقی پسند نوجوان اپنے خیالات کو صحیح طور پر اداکرنے سے قاصر رہتے ہیں جو دل میں ہے وہ  بیان میں نہیں آتا ممکن ہے وہ یہ جواب دیں کہ ہمارے خیالات اس قدر اعلیٰ ہیں کہ عام فہم سے بالا تر ہیں۔میں اسے تسلیم نہیں کرتااور غالباًکوئی بھی اسے تسلیم نہیں کرے گا....زبان کیا ہے؟ خیال کے ادا کرنے کا آلہ ہے  اگر کسی کاریگر کا اوزار بھدّا ہے تو اس کا کام بھی بھدّا ہوگا۔یہ کہنا صحیح نہیں کہ ہماری زبان میں ہمارے خیالات سما نہیں سکتے۔کوئی زبان ایسی نہیں جس میں خیالات ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو بشرطیکہ کسی میں ادا کرنے کی صلاحیت بھی ہو...ظاہر ہے کہ ہر ادیب اپنی زبان کے صرف و نحو اور لغت سے واقف ہوتا ہے لیکن اس میں سب سے بڑی چیزلفظ کا صحیح استعمال ہے اسے معمولی  بات نہیں سمجھنا چاہئے،لکھنے والوں میں کم ایسے ہیں جو الفاظ کے صحیح استعمال سے واقف ہیں  لفظ ایک بڑی قوت ہے۔ اور اس کا بر محل استعمال خیال میں قوت پیدا کرتا ہے جو اس گُر سے  واقف نہیں اور لفظ کے صحیح اور بر محل استعمال کو نہیں جانتا اُس کا بیان اکثر ناقص، ادھورا  اوربے جان ہوتا ہے۔     
(اردو تنقید پر ایک نظر ازکلیم الدین احمد، ص 156-57)
طوالت کے خوف کے باعث مستند حوالہ جات اور توضیحات کی روشنی میں اتنی باتیں محتاط کے ساتھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ زیر بحث کتاب’اردو تنقید پر ایک نظر‘ اور اُس کتاب میں درج کلیم الدین احمد کے مختلف فقرے و جملے بالخصوص صنفِ غزل،ترقی پسند مصنّفین،نقاد، شہرہئ آفاق شاعروں وغیرہ کے فنِ شاعری بشمول خصائص و نقائص پر کلیم الدین احمد نے جو معروضات و مفروضات پیش کیے ہیں، وہ سب باتیں اپنے تما م تر اختلافات و اعتراضات کے باوجودمتذکرہ کتاب کے قارئین کو از سرِ نو غورو فکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔البتہ موصوف نے چند نکات ایسے بھی پیش کیے ہیں مثلاً  محمد حسین آزاد کو تذکرہ نگار تو تسلیم کرتے ہیں لیکن بحیثیت ناقد،اُن کو کوئی خاص مقام دینے سے گریز کرتے ہیں۔لیکن یہ بات بعید از فہم لگتی ہے کہ ایک تذکرہ نویس کی تحریروں کو وہ مقام نہیں دیتے جو اُس کا خاصہ ہے۔کیونکہ محمد حسین آزاد کی مبسوط کتاب ’آبِ حیات‘ کا یہ زبان زد جملہ ”انگریزی لالٹینوں سے روشنی آتی ہے“  اور اس قسم کی بیشتر سطور،جو اُس پُر آشوب دور میں کافی احتیاط کے ساتھ تذکرہ نویسی کے دوران رقم کی گئی ہیں،خود محمد حسین آزاد کی تنقیدی بصیرت کی غماّز ہیں۔ کلیم الدین احمد کے معروضات سے قدرے اختلاف و اتفاق کے ساتھ ساتھ حیرت تو تب ہوتی ہے جب وہ بابائے اردو تنقید الطاف حسین حالیؔکو بحیثیت ناقد و شاعرتسلیم تو کرتے ہیں لیکن اُن کی شہرہئ آفاق تنقیدی کتاب ’مقدمہ شعر و شاعری کو بہترین تنقیدی سرمایہ‘ کے زمرے میں رکھنے سے اختلاف کرتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کتاب کے متعلق توصیفی جملے کو یہ کہہ کر مسترد کر تے ہیں کہ ”مقدمہ شعرو شاعری کو تنقیدی سرمایہ کہنا ایک’حوصلہ شکن جملہ‘ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فلسفہئ مارکس اور مارکسزم کو تنقیدی ہدف کا نشانہ بناتے ہوئے ’دو دھاری تلوار‘سے موسوم کرتے ہیں  اور وہ ملٹن اور انگلز سے بھی قدرے اختلاف کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔غرض کہ کلیم الدین احمد کی تنقیدی بصیرت میں ہمیں استاد ذوق کے اس شعر       ؎
گلہائے رنگ  رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
کا  احساس موجزن نظر آنا ایک فطری بات ہے لیکن اُن کی تحریروں میں بین السطور یہ احساسات بھی کار فرما نظر آنے چاہیے کہ بقول شخصے       ؎
مذاق سب کا جدا ہے، سخن تو ایک ہے رِند
وہی سمجھتے ہیں جن کو شعور ہوتا ہے
تب جاکر ہم کسی تخلیقی فن پارے یا نگارشات کے محاسن و معائب کے ساتھ توازن، غیر جانب داری یا مفاہمت کا رویہ اختیار کرنے کے حامل ہو سکتے ہیں۔ 

Dr. Mohd Sohail Anwar
Ghalib Institute
New Delhi - 110002
Mob.: 9350572257
Email: anwersohail79@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں