22/1/20

کیا مشینی ترجمہ انسانی ترجمہ کا متبادل ہوسکتا ہے؟ مضمون نگار: وسیم احمد علیمی



کیا مشینی ترجمہ انسانی ترجمہ کا متبادل ہوسکتا ہے؟


 وسیم احمد علیمی
اکیسویں صدی کی ایجادات نے انسانی زندگی کو ہر محاذ پر متاثر کیا ہے۔خصوصاََ مصنوعی شعور (Artificial intelligence) رفتہ رفتہ انسانی دماغ کے قائم مقام بننے کی طرف گامزن ہے۔کمپیوٹر انسان کی طرح باشعور ہو سکتا ہے یا ہو چکا ہے یہ الگ بحث ہے لیکن کمپیوٹر کی Chips میں برقی سگنلوں کے ذریعے بہم پہنچائی گئی معلومات کا ذخیرہ انسانی شعور کی نقالی کرنے میں کچھ حد تک کامیاب دکھائی دینے لگا ہے۔
ترجمہ لسانیات کی وہ شاخ ہے جو نہ صرف ادبی تناظر میں اہمیت کا حامل ہے بلکہ ترجمہ کی ہی بدولت دنیا کی مختلف تہذیبوں کا تعارف ایک دوسرے سے ممکن ہو سکا۔ یہاں تک کہ موہن جودڑو کی کھدائی میں دریافت ہونے والی ہڑپّا زبان کے تحریری آثار سے ہم اس لیے اب تک نا واقف ہیں کیوں کہ ہم اس زبان کاترجمہ کرنے سے قاصر ہیں۔
دنیا کی بڑی اور ثروت مند زبانوں میں تحریر شدہ ادب عالیہ سے دوسری زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کا متاثر ہونا بھی ترجمہ کی ہی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں صحافت اور ادب سے لے کر میڈیکل، قانون، ممالک کے باہمی رشتے،فلم، صنعت و حرفت، چیزوں کی درآمد و برآمد (Import-Export) غرض کہ ملکی اور عالمی سطح کے تقریبا تمام ضروری معاملات میں ترجمہ اور مترجمین کی ضرورت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
اب سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا مشینی ترجمے کو اس حد تک قابل (Advance) بنا دیا گیا ہے کہ وہ ان تمام یا ان میں سے بعض شعبوں میں انسانی ذہن کی جگہ لے سکے؟  مشینی ترجمہ سے اوپر اٹھ کر صرف کمپیوٹر کی پروان چڑھتی صلاحیتوں کی بات کریں تو ’آج کی سائنس‘ کے مصنف اظہار اثر کمپیوٹراور انسانی شعور کا  موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ بحث صرف خیالی نہیں،نہ ہی یہ بحث برائے بحث ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے سائنسداں یہ ماننے لگے ہیں کہ مستقبل میں ایسے کمپیوٹر بنائے جا سکتے ہیں جن میں انسانوں کی طرح شعور کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔اب سوال یہ پید اہو تاہے کہ اگر کبھی ایسا ہو گیا تو پھر کیا ہوگا؟کمپیوٹر میں غوروخوض کرنے کی قوت اور شعور پیدا ہو گیا تو کیا ہوگا؟ کیا نئی قسم کا یہ باشعور کمپیوٹر ’مشینی حیات‘ کا درجہ لے لے گا؟ )آج کی سائنس،اظہار اثر،ص 80، ناشر اردو اکادمی دہلی 2006(
کمپیوٹر یا مصنوعی شعور میں غوروخوض کی قوت پیدا ہونے  کے ان امکانات کے باوجود کیا اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ مشینی ترجمہ انسانی ترجمہ کا متبادل ہو سکے گا؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل آئیے نظر ڈالتے ہیں مشینی ترجمے کی مختصر تاریخ،طریقۂ کار اور (Soft wares) سافٹ ویئر س کے عملی نتائج پر۔
مشینی ترجمہ سے مراد ایسا عمل جس میں سافٹ ویئر کی مدد سے ایک زبان کے متن یا آوازکو دوسری زبان کے متن یا آواز میں منتقل کیا جائے۔سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا جب پہلی بار 7جنور ی 1954میں نیویارک شہر کے اندر IBM701  نام کے ایک کمپیوٹر نے ازخود ساٹھ روسی جملوں کو انگریزی میں منتقل کیا۔اس واقعہ کو جارج ٹاؤن ایکسپریمینٹ (Georgetown Experiment)کے طور پر بھی جانا جاتاہے۔پھر اس کے بعد 1966کے آس پاس مشینی ترجمہ کو غیر درست،ناقابل اعتماد اور مہنگا قرار دے کرمشینی ترجمہ کے بجائے لغت سازی پر مزید توجہ دینے کا رجحان پیدا ہوا جس سے مشینی ترجمہ پر تجربات تقریبا ایک دہائی تک کے لیے موقوف ہو گئے۔
(A history of machine translation from the Cold War to deep learning by IIya Pestov)
 لیکن انسان کی طبیعت فطری طور پر متجسس واقع ہوئی ہے۔تجسس اور نئی چیزیں دریافت کرنے کے اسی شوق نے دھیرے دھیرے کمپیوٹر اور مصنوعی شعور کے مائل بہ ارتقا سفر کو مشینی ترجمہ کی ایجاد سے ہمکنار کر ہی دیا۔یہ اور بات ہے کہ مشینیں کس حد تک کامیاب ترجمہ کر سکتی ہیں اس پر بحث کی بے پناہ گنجائش باقی ہے۔
آج درجنوں ایسے آن لائن سافٹ ویئرز موجود ہیں جو دنیا کی مختلف زبانوں کا ترجمہ کرسکتے ہیں۔جن میں گوگل ٹرانسلیٹ (Google Translate،ِسسٹران ٹرانسلیٹ (Systran Translate)، بیبل فش (Babelfish)، انٹر ٹران (Inter Tran)، ورلڈلنگو  (Word Lingo)، ایپرٹیم (Apertium)، انوساراکا (Anusaaraka)، نیو ٹرانس(Niu Trans)، بنگ ٹرانسلیٹر(Bing Translator)، یانڈیکس ٹرانسلیٹ (Yandex Translate)، بیبلون (Babylon) اور مائروسافٹ ٹرانسلیٹ (Microsoft Translate) قابل ذکر ہیں۔
گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے سو سے بھی زیادہ زبانوں کا مشینی ترجمہ کیا جا سکتاہے۔یہ اس صورت میں ہے جب زبان تحریر شدہ ہو۔ورنہ گوگل ٹرانسلیٹ ان میں سے 37زبانوں کے عکس،32زبانوں کی آواز اور 27زبانوں کے ویڈیو کاترجمہ بھی کرنے کے قابل ہے۔
واضح رہے کہ انسانی ذہن کو ترجمہ کرنے میں متن کی نوعیت اور ضخامت کے مطابق وقت درکار ہوتا ہے جب کہ مشینی ترجمہ کے عمل میں متن خواہ مشکل ہو یا آسان،کم ہو یا زیادہ، ترجمہ درست ہو یا غیر درست چند سکینڈ میں نتیجہ سامنے نکل آتا ہے۔اس کے باوجود مشینی ترجمہ انسانی ترجمہ کا متبادل نہیں بن سکتا۔ اس کے متعدد اسباب ہیں۔ مشینی ترجمہ سے لفظ یا مرکبات یا چھوٹے چھوٹے سادہ اور آسان جملوں کو تو باآسانی منتقل کیا جاسکتا ہے لیکن پیچیدہ اور طویل جملوں کو منتقل کرنے میں مشینی ترجمہ نحوی اور صرفی غلطیوں سے منزہ نہیں رہ سکتا۔
انسانی ترجمہ عموماًتین مراحل سے گزر کر تکمیل کی منزل میں قدم رکھتا ہے: (1)ترجمہ  (2)حذف و اضافہ (3) نظر ثانی۔ اس کے برعکس مشینی ترجمہ کو ان تین مراحل سے نہیں گزارا جا سکتا جس کی وجہ سے مشینی ترجمہ کو بھی مکمل ترجمہ کا درجہ حاصل کرنے کے لیے انسانی ذہن کی ضرورت پڑتی ہے۔مشینی ترجمہ سے محاورات، کہاوتوں، تخلیقی عناصر، جذبات و احساسات، مترادفات، زبان کی تہذیبی باریکیوں اور متن میں پوشیدہ پرت در پرت ادبی معنویت کو منتقل کرنا ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ ترجمہ کی مشین ایک ’رٹّو طوطا‘ کی طرح ہے یعنی جو پروگرام اس کی چِپ میں ڈال دیا گیا ہے اس سے پرے ایک بھی زائد لفظ تلاش کر لانا کمپیوٹر یا ترجمہ مشین کے لیے محال کا م ہے۔آج سیکڑوں آن لائن ترجمہ کرنے والے سافت ویئر کے زمروں میں میری اپنی تلاش و جستجو کے مطابق درج ذیل پانچ سافت ویئر ایسے ہیں جو اردو متحمل (Urdu Supportable) بھی ہیں۔
(1)گوگل ٹرانسلیٹ (2)بنگ مائکروسافٹ ٹرانسلیٹر  (3)یانڈیکس ٹرانسلیٹ (4)بیبلون  اور(5) سسٹران  ٹرانسلیٹ۔
اب میں فعل،فاعل اور مفعول پر مشتمل ایک سادہ ساانگریزی جملہ بنا کر ان پانچوں سافٹ ویئرس کی مدد سے اردو میں ترجمہ کروں گا اور ان میں سے جس کا ترجمہ سب سے زیادہ مکمل معلوم ہوگا اس کے ترجمہ کی مزید تقابلی تحقیق کی جائے گی۔
جملہ یہ ہے:Human brain maintains the beauty of text in translation.
(1)گوگل ٹرنسلیٹ:  انسانی دماغ ترجمہ میں متن کی خوبصورتی کو بر قرار رکھتا ہے۔
(2)بنگ مائکروسافٹ ٹرانسلیٹ:                انسانی دماغ ترجمہ میں  متن کی خوبصورتی کو بر قرار رکھتا ہے۔
(3)یانڈیکس ٹرانسلیٹ: انسانی دماغ کو بر قرار رکھتا خوبصورتی کے متن میں ترجمہ۔
(4)بیبلوں: متن میں انسانی دماغ کا موقف کی خوبصورتی ترجمہ۔
(5)سسٹران:  انسانی دماغ ترجمے میں متن کی خوبصورتی کو بر قرار رکھتا ہے۔
ان پانچ ترجموں میں سے تقریباََ تین میں یکسانیت ہے  اور ’سسٹران‘ کے ترجمہ میں لفظ ’ترجمے‘کو امالہ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اگر اسی جملہ کا ترجمہ پانچ الگ الگ ماہرین سے کرایا جائے تو بہت کم ممکن ہے کہ Maintain کا ترجمہ سب کے سب ’برقراررکھنا‘ ہی کریں یا لفظ ’Beauty‘ کا ترجمہ پانچوں مترجمین ’خوبصورتی‘ ہی کریں۔ یہ امکان باقی رہتاہے کہ ان میں سے کوئی ’Human Brain‘ کا ترجمہ ’بشری شعور‘  اور ’Beauty‘ کا  ’حسن‘ اور ’maintain‘ کا ’باقی رکھنا،پاس رکھنا،ثابت رکھنا یا لحاظ رکھنا‘  کرے۔ اور پورا ترجمہ یوں ہو کہ ”بشری شعور ترجمہ میں متن کے حسن کو باقی رکھتا ہے“۔خیر یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہوئی۔ تخلیقی متن اور شاعری کے انسانی ترجمہ میں ہی کتنے ادیب آج تک الجھے ہوئے ہیں کہ ان کا ترجمہ ممکن ہے یا نہیں چہ جائیکہ ان کے مشینی ترجمہ پر بحث کی جائے۔حسن عسکری لکھتے ہیں:
یو ں کرنے کو میں نے ’مادا م بواری‘ کا ترجمہ کیا ہے۔لیکن اس ناول میں ایک ٹکڑا ہے،جس میں ہیروئن کی چھتری پر برف گرنے کا منظر پیش کیا گیا ہے۔اگر اردو کے سارے ادیب مل کر ان آٹھ دس سطروں کو اس طرح ترجمہ کر دیں کہ اصل کا حسن ویسا کا ویسا ہی رہے تو اس دن سے میں اردو کے علاوہ کسی اور زبان کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔
(گر ترجمے سے فائدہ اخفائے حال ہے، مضمون،حسن عسکری، مشمولہ، ترجمہ کا فن اور روایت،ص 116، مرتب قمر رئیس، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،2013)
حسن عسکری کی بات کا پس منظر الگ ہے۔وہ ترجمہ کے حوالے سے اردو زبان کی وسعت و تنگ دامانی پر اظہار خیال کر رہے ہیں لیکن ان کے ان دہکتے ہوئے جملوں سے یہ نتیجہ بھی آسانی سے نکالا جا سکتاہے کہ تخلیقی متن کے ترجمہ پر جب ادیبوں کی پوری ٹیم کو چیلینج کیا جا سکتاہے تو مشینی ترجمہ کے لیے ہنوز دلی دور است۔
شاعری کا ترجمہ تو تقریبا تما م بڑے ادیبوں نے ناممکن ہی تسلیم کیا ہے۔میشنی ترجمہ کے حوالے سے مظفر علی سید رقم طراز ہیں:
جدید زبان شناسی کے ماہرین نے مختلف زبانوں کے اجزائے ترکیبی کا تقابلی مطالعہ کر کے واضح کر دیا ہے کہ مشینی ترجمہ بھی آسان کام نہیں۔چنانچہ اب یہ طے ہو چکا ہے کہ کمپیوٹر میں لسانیاتی پروگرام بھرنے کے بعد بھی لسانی ماہرین کی ضرورت بر قرار رہے گی اور وقت اور سرمایے کی بچت شاید پھر بھی نہ ہوسکے۔تاہم دنیا کے کئی ملکوں میں مزید تحقیق جاری ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ پوری طرح خود کار نہ سہی مشینی ترجمہ کسی قدر آسان ضرور ہو جائے گا تاہم اس کا دائر ۂ کار ایسی زبان تک محدود رہے گا جس میں زبان کو تہ در تہ معنویت کے ساتھ استعمال نہ کیا گیا ہو اس کے بر عکس تخلیقی ترجمہ تو ہوتا ہی ایسی تخلیقات کا ہے جو تہ در تہ معنویت کی حامل ہوں اور یہ ترجمے کی سب سے مشکل بلکہ تقریباًنا ممکن قسم ہے۔
(فن ترجمہ کے اصولی مباحث، مظفر علی سید، مضمون، مشمولہ اردو زبان میں ترجمے کے مسائل،ص 39,40 مرتبہ اعجاز راہی، اشاعت،       مقتدرہ قومی  زبان اسلام آباد، پاکستان،1986)
تخلیقی نثری اصناف مثلا افسانہ، ناول، انشائیہ، ڈراما  وغیرہ اور شاعری کا ترجمہ کرنا کس حد تک ممکن ہے یہ ابھی تک اہل نظر اور اہل علم کے درمیان موضوع بحث ہے کیوں کہ ان متون کے ترجمہ میں فقط معانی و مفاہیم کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے سے بات نہیں بنتی بلکہ اساسی متن(Source Language) کی روح یعنی اس متن میں موجود علاقائیت،تہذیب و ثقافت،متن کی شان نزول،ماحول و فضا،زمان و مکان، روزمرہ اور محاوروں کا  ہدفی زبان (Target Language) میں مناسب اور قریب ترین متبادل و مترادف پیش کرنے سے ہی ترجمہ کا حق ادا ہو سکتاہے جو کہ نہایت دشوار اور بے حد جاں فشانی کا کام ہے۔اس مرحلۂ  شوق کا طے کرنا جب باشعور قابل اور تجربہ کار انسان مترجم کے لیے چیلینج ہے تو مشین مترجم پھر بھی بے شعور ہی ہے۔اوپر ترجمہ کرنے والے جن پانچ سافٹ ویئرس کا میں نے محاسبہ کیا ہے ان میں سب سے بہتر ترجمہ ’سسٹران‘ (Systran) کے ذریعے کیا گیاتھا۔لیکن وہ ایک سادہ اور مختصرسا جملہ تھا پھر بھی اس سے کئی درجہ بہتر انسانی ترجمہ کی گنجائش باقی تھی جس کی مثال بھی میں نے پیش کر دی ہے۔اب آئیے ایک غیر تخلیقی نثر کے انسانی ترجمہ اور مشینی ترجمہ کا تقابل کیا جائے تاکہ مشینی ترجمہ کی تا حال اہلیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
عبارت:
"It is a proof of life and curiosity- curiosity on the part of the brotherhood of novelists, as well as on the part of their readers. Only a short time ago it might have been supposed that the English novel was not what the French call discutable. It had no air of having a theory, a conviction, a consciousness of itself behind it -of being the expression of and artistic faith, the result of choice and comparison.
(The Art of Fiction مضمون ہنری جیمس،شائع شدہ Longman's Magazine4,ستمبر 1884)
مترجم :  جمیل جالبی(انسان)
  یہ بات بذات خود زندگی اور شوق و تجسس کا ثبوت ہے -ناول نگاروں کی برادری کے شوق و تجسس کا بھی اور ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کا بھی۔کچھ ہی عرصے پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ انگریزی ناول کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قابل توجہ ہو۔اس کے پیچھے کوئی ایسا نظریہ،کوئی ایسا عقیدہ اور کوئی ایسا شعور نہیں جس سے کسی فنی عقیدے کا اظہار ہوتاہو یا یہ معلوم ہو سکے کہ انگریزی ناول کسی انتخاب اور موازنہ کا نتیجہ ہے۔
(ارسطو سے ایلیٹ تک،از جمیل جالبی،ص 401، ترجمہئ مضمون، ہینری جیمس،شائع شدہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، جون1977)
مترجم:سسٹران سافٹ ویئر (مشین):
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ناول نگار اور قارئین کے درمیان تجسس زندگی اور تجسس کا ایک ثبوت ہے۔کچھ ہی عرصہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ انگریزی کا ناول وہ نہیں ہے جسے فرانسیسی  نے مسترد کیا ہے۔ اس میں کوئی ایسا نظریہ، اعتقاد، اس کے پیچھے ذات خود کو ایک شعوری عقیدے،پسند اور تقابل کے اظہار کے پیچھے کوئی احساس نہیں تھا۔
یہ سافٹ ویئر ایک بار میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار حروف پر مشتمل باون زبانوں میں سے کسی بھی زبان کے متن کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن اس کے ترجمہ کی حالت آپ درج بالا مثال سے دیکھ ہی سکتے ہیں۔یہ تو فقط ایک مثال ہے۔میں نے درجنوں روز مرہ، کہاوت، محاورے اور تہذیبی الفاظ مثلا ہاتھ پیلے کر دینا،نو دو گیارہ ہوجانا،خوشی سے ہاتھ پاوں پھول جانا وغیرہ جیسے مشکل الفاظ سے جملے بناکر ان کا مشینی ترجمہ کر کے اندازہ لگانے کی کوشش کی جس  کے نتیجے میں مضحکہ خیزترجموں کے ٹکڑے ہی حاصل ہوسکے۔ یہاں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ مشینی ترجمہ انسانی ترجمہ کی جگہ لینے کے قابل ہوگیا ہے یا ہو سکتا ہے۔ہاں! جس رفتار سے ٹیکنالوجی ترقی کی راہ پر گامزن ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ مشینی ترجمہ ایک نہ ایک دن زندگی کے دوسرے امور کی طرح انسانوں کی جگہ لے لے گا یا قائم مقام ہو جائے گا۔مگر یہ سب ہونے میں اور کتنا عرصہ لگے گا معلوم نہیں۔
دلچسپ قصہ یہ ہے کہ اس صدی کے منفرد اردو فکشن نگار استاد محترم ڈاکٹر خالد جاوید نے اپنے مشہور ناول ’موت کی کتاب‘ پر جو طنزیہ فنتاسی مقدمہ تحریر کیا ہے اس میں انہوں نے تصور باندھا ہے کہ دوسو تین سو سال بعد اردو کی حالت کیا ہوگی،پاگل خانہ کے کھنڈرات میں اس کے اس ناول کا نسخہ کسی محققِ آثار قدیمہ کے ہاتھ لگے گا اور پھر اس زبان کے رسم الخط کو پڑھنے کی کوشش کی جائے گی۔وہ لکھتے ہیں:
یہ نسخہ ایک عجیب و غریب زبان میں لکھا ہوا تھا،جس کا ایک ایک حرف میرے لیے انجان اور مکمل طور پر ناقابل ِ فہم تھا...... میں نے جب اس زبان اور رسم الخط کے بارے میں چھان بین کی تو صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ زبان دوسو تین سو سال پہلے تک اس علاقے اور قرب و جوار میں لکھی پڑھی اور بولی جاتی تھی،لیکن اب ساری دنیا میں ڈھونڈنے سے شاید ہی کوئی اس زبان کو سمجھنے والا مل سکے“۔
(موت کی کتاب، مقدمہ،ص 28، عرشیہ پبلی کیشنز،طبع دوم،2012)
پھر اسی خیالی مقدمے میں انہوں نے خیالی محقق کے خیالی دوست ژاں ہیوگو کا ذکر کیا ہے جو ان کے تصور میں مشہور محقق اور مستشرق گارساں ژاتاثی کی نسل سے ہے۔چونکہ محقق نے اپنے دوست ہیوگو سے اس کے جد اعلیٰ گارساں ژا تاثی کا ذکر بارہا سن رکھا تھا اوریہ بھی سن رکھا تھا کہ دوست کے جد اعلیٰ کو چند مشرقی زبانوں کا علم تھا اس لیے محقق نے وہ دستیاب شدہ نسخہ اپنے دوست ہیوگو کو ارسال کر دیا تاکہ وہ اس کی قرأت کا کچھ انتظام کر سکے۔وہ لکھتے ہیں:
ایک دن اس کا خط ملا جس میں یہ اطلاع تھی کہ وہ اس متن کو تقریباََپورے کا پورا پڑھنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔اس کے کمپیوٹر میں اس رسم الخط کی چند پروگرام فائلیں موجود تھیں جو اس نے بڑی مشکل سے دریافت کیں۔ہیوگو نے مجھے اس نسخہ کا مشینی ترجمہ کر کے ارسال کر دیا۔یہ وہی ترجمہ ہے جسے میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔“(ایضاً،ص 29)
یہ پورا واقعہ یہاں درج کرنے سے میری منشا اپنے قاری کو مشینی ترجمہ کاامکانی مستقبل سمجھانا ہے۔نظریہئ امکانات (Theory of Probability) کی رو سے خالد جاوید کے یہ مفروضات(Assumptions)ہمیں مشینی ترجمہ کا آئندہ دکھا رہے ہیں یعنی دو سو تین سو سال بعد مشینی ترجمہ ممکن ہے اتنا Advanceہو جائے گا کہ اس ترجمہ شدہ متن کی زبان خالد جاوید کی جادوبیاں نثر کی طرح ہوگی۔



Waseem Ahmad Alimi
Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Email: wasimahmadalimi@gmail.com




ماہنامہ اردو دنیا،جنوری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں