22/1/20

علامہ شبلی کی شعری کائنات: درسیاتی تناظر میں مضمون نگار: سید یحییٰ نشیط



علامہ شبلی کی شعری کائنات: 
درسیاتی تناظر میں
سید یحییٰ نشیط 


شمس العلما اور رفقاءِ سر سید میں شبلی اگرچہ کم عمر رہے ہیں لیکن ان کی علمی و ادبی خدمات کا قد بلند دکھائی دیتا ہے۔ شبلی عالم ہیں، معلم ہیں،مصنف ہیں                                                                                                                                 
 منصف ہیں، مورخ ہیں، مفکر ہیں، سوانح نگار ہیں، ناقد ہیں،مشرقی شعریات  کے ماہر ہیں،مغربی ادب کے شناسا ہیں، علم الکلام سے آگاہ ہیں،حدیث و فقہ میں شغف رکھتے ہیں، اعلیٰ معتمد ہیں،بہترین منتظم ہیں اور عربی  فارسی میں ان کا ادراک اعلیٰ درجے کا ہے۔وہ سیاست و مدنیات کا شعور بھی رکھتے ہیں۔ان تمام اوصاف ِعلمیہ کے درمیان ان کی شاعرانہ  شخصیت بساط ادب پر بے اثر تو نہیں مگر نحیف و نزار ضرور دکھائی دیتی ہے۔انھوں نے اپنی اس کمزوری کو خود بھی محسوس کیا تھا چنانچہ سید عبدالحکیم دسنوی کو لکھے مکتوب میں وہ کہتے ہیں:
میں نظم پر باوجود ہزاروں شعر کہنے کے،بالکل قادر نہیں،یعنی بغیر کسی خاص  فوری تاثیر کے ایک حرف نہیں لکھ سکتا۔ احباب نے فرمائشیں کیں اور کئی کئی  دنوں تک طبیعت پر زور ڈالا لیکن کچھ کہہ نہ سکا۔
(خط بنام سید عبد الحکیم دسنوی: مکاتیب شبلی  جلد اول  1966، ص308)
اس کمزوری کے باوصف جب ان کی طبع رسا شاعری کی طرف التفات کرتی ہے تو کمانِ پیری میں بھی ان کا تیرِشباب اپنے اہداف تلاش کرہی لیتا ہے۔ چنانچہ ایم مہدی کو لکھتے ہیں:
  19 برس کے بعد غزل لکھنے کا اتفاق ہوا۔۔ ممبئی میں بڑی دلچسپیاں رہیں جو موزوں ہو کرقلم سے نکلیں۔ بعض غزلیں زیادہ شوخ ہو گئیں جو شاید ایک پنجاہ سالہ مصنف کے چہرے  پر نہ کھلیں،لیکن حافظ  تو کہتے ہیں       ؎
عشق در ہنگامِ پیری چوں بہ سرما آتش ا ست
(خط بنام ایم مہدی: مکاتیبِ شبلی  حصہ دوم  ص 207 اور 215)
 شبلی حادثہٗ پا کے فوراًبعد ہی اپنے ممبئی کے سفر میں کنارِآبِ چوپاٹی اور گلگشتِ اپالو سے اس  قدر متاثر ہوئے کہ شوخیانہ اور عاشقانہ فارسی غزلوں کے سولہ صفحات لکھ ڈالے۔ان غزلوں میں حافظ کا رنگ نمایاں ہے۔ بلکہ ایک غزل تو حافظ ہی کی زمین میں ہے۔شبلی نے حافظ کے مصر عے میں معمولی سا تصرف کرکے پوری غزل لکھ ڈالی      ؎
نثارِ بمبئی کن  ہر  متاعِ  کہنہ  و نو  را
کنارِ آبِ  چوپاٹی  و  گلگشتِ  اپالو را
 فغاں  از گرمیِ  ہنگامۂ  خوبانِ  ز رتشتی 
بہم آمیختہ از زلف و عارض ظلمت و ضو را
شبلی نے آخری شعر میں استعارے کو اس انداز میں استعمال کیا ہے کہ لفظی نسبت اسے مراعاۃ النظیر تک پہنچا دیتی ہے اور شبلی کی خیال آفرینی سے شعراسطو ری فکرکی جمالیات کا مظہر بن جاتا ہے۔ شبلی نے اپنے ایک خط میں اس کی وضاحت بھی کردی ہے۔چنانچہ کہتے ہیں،”پارسی  نور و ظلمت دو خدا مانتے ہیں۔
شبلی کی یہ غزلیں مؤقر جرائد میں شائع ہوئیں، ان کی زبان و طرز ادا کی بڑی تعریفیں ہوئیں اور معاصر شعراء نے ان غزلوں کی روشنی میں غزلیں کہیں۔ناقدین ادب نے اپنی طبیعت اور اپنے ادراک کے مطابق سراہا اور ان کا تجزیہ کیا۔چونکہ ان میں شوخیانہ پن زیادہ ہے اس لیے نصاب میں جگہ نہ پا سکیں۔ 
شبلی نے اپنی فارسی غزلوں کا دیوان بھی مرتب کیا تھا جو مطبع نامی کانپور سے شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ’دستۂ گل‘ اور ’بوئے گل‘ بھی ان کے شعری مجموعے ہیں۔ شبلی کے فارسی کلام کو اس دور کے فارسی شناس مولاناچریا کوٹی کی سندِ تحسین حاصل تھی۔ مگر جتنی پذیرائی  ان کے فارسی کلام کی ہوئی،اردو کلام اس سے تہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ خود اردو شاعری کی طرف بہت بعد میں متوجہ ہوئے۔  علی گڑھ جانے سے پہلے وہ اردو کی بجائے فارسی میں خط و کتابت کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ’سیرۃ النعمان‘ میں انھوں نے اس نکتے کی وضاحت کردی تھی۔ لیکن ملک کے سیاسی،سماجی اور مسلمانوں کے تہذیبی اور معاشرتی حالات نے ایسی کروٹ لی تھی کہ دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور مصلحین امت کو عوامی زبان میں اپنی تعمیری اور افادی خدمات انجام دینا ضروری ہوگیا تھا۔ حالی نے ’مسدس‘کے ذریعے سوئی ہوئی امت کو جگایا، ڈپٹی نذیر احمد اپنے ناولوں اور کہانیوں کے ذریعے اصلاح کرنے لگے، محمد حسین آزاد نے درسی کتابوں کے ذریعے نونہالان قوم کے علمی شوق کو پروان چڑھایا اور سر سید نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے ذریعے قوم کی اخلاقی تربیت کی۔ ان ساری سماجی، تہذیبی اور تعلیمی خدمات کو بروئے کار لانے کے لیے اردو زبان ہی وسیلہ بنی۔اردو کی اس اہمیت کے پیش نظر شبلی نے تخیلاتی دنیا کے موہوم محلات تعمیر کرنے کی بجائے حقیقی دنیا کی افسردہ اور مایوس زندگی کے خزاں رسیدہ چمنستاں کو سنوارنے کے لیے اردو شعر و ادب کا سہارا لیا۔اردو کی ایسی منظومات نصاب میں طلبہ کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں شبلی کی ان منظومات کو جگہ مل سکی۔درسیات کی رو سے نصاب کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اس میں طلبہ کی نفسیات، ذہنی استعداد، شوق، صلاحیتوں، دلچسپیوں، سماجی ماحول، روایتی قدرروں، تعلیمی فضا،ز بان کا معیار  اور سیاسی پالیسیوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ شبلی کی اکثر نظمیں ان تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔
شبلی کا اردو کلیات نہایت مختصر ہے۔اس میں اصلاحی رجحان غالب نظر آتا ہے۔ حالی کی طرح شبلی نے بجائے قنوطیت کے اپنی منظومات میں رجائی انداز اپنانے کی کوشش کی ہے۔ غدر کے بعد ملک کے سیاسی اور عوام الناس کے معاشرتی حالات میں اس قدر تبدیلی آگئی تھی کہ فلاح و بہبودی کے پرستار ادبا اور شعرا اصلاحی و افادیت کے حامل مضامین ہی اپنی تخلیقات میں پیش کرنے لگے تھے۔ یہ معاملہ صرف اردو ہی تک محدود نہیں تھا بھارت کی تمام زبانوں کے ادب میں یہ رجحان غالب نظر آتاہے۔ شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ اس زمانے کے ادبی موضوعات میں بڑی حد تک یکسانیت اور فکر کی وحدت نظر آتی ہے۔حریت اور غلامی جیسے موضوعات تو اس دور میں ادب کی پہچان بنے ہوئے تھے اور تعمیری ادب میں ان مضامین کو خاص مقام حاصل تھا۔ شبلی کے یہاں ان موضوعات کو تاریخی پس منظر میں پیش کرنے کا اہتمام ملتا ہے۔ مثلاً ’صبح امید‘ میں انھوں نے مسلمانوں کے علوم و فنون کی ترقی اور تنزل کے نشیب و فراز کو پیش کرنے کے بعد سر سید کی تعلیمی تحریک کو مسلمانوں کی’صبح امید‘،ا فسردہ دلوں کی ہمت،حوصلوں کی پرواز کو بلندی بخشنے والا’کہا ہے اور اس تحریک کی بقا کے لیے مسلمانوں کو جہد مسلسل کرتے رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔ شبلی کی اس دعوت میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب کا عنصر بھی شامل ہے۔اس کا موضوع پختہ ذہنوں کے لیے مفید ہے اس لیے اکثر ثانوی درجات میں یہ پڑھائی جاتی ہے۔
صبح امید‘، ’گلزار نسیم‘ کی بحر میں ہے لیکن مثنوی کی دیگر روایات سے شبلی نے انحراف برتا۔اس میں نہ حمد ہے نہ نعت و منقبت۔اس میں کوئی قصہ کہانی کا پلاٹ بھی نہیں۔ بس مسلمانوں کے علمی عروج وزوال کو اشاروں کنایوں میں پیش کرکے سر سید کی تحریک کو آگے بڑھانے اور دوبارہ کھوئے ہوئے ماضی کے وقار کو حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔شبلی کا یہ عمل مثنوی کی روایت میں ایک قسم کی جدت سے کم نہیں۔ اس مثنوی کو شبلی نے اپنی تخلیقات سے علاحدہ کر دیا تھا۔ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسی موضوع پر حالی کا نہایت مؤثر اور معروف مسدس اس وقت موجود تھا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شبلی کی مثنوی میں شعریت کی وہ چاشنی نہیں ہے جو تاریخ کے قشف کو طراوت بخشے۔ البتہ یہ مثنوی ہماری تاریخ کو ذہنوں میں پیوست کر دیتی ہے،اس لیے طلبہ کے لیے سبق آموز ہو سکتی ہے۔   
تماشاہائے عبرت‘ کے عنوان سے علی گڑھ کی سالانہ نمائش کے لیے شبلی نے ایک مسدس لکھا تھا۔ یہ مسدس مسلمانوں کی زبوں حالی کی روداد ہے۔ اس زبوں حالی کو پیش کرنے کے لیے سر سید نے ایک قومی تھیٹر کی بنیاد ڈالی تھی۔شرفا کے نزدیک یہ غیر سنجیدہ طریق خلاف تہذیب تھا مگر سر سید نے اپنے تعلیمی مشن کی تشہیر کے لیے اسے مستحسن جانا۔ 6 فروری 1894 میں اسٹیج کیے گئے اس ڈرامے میں بہت سارے ملکی روسا اور انگریز اساتذہ شریک تھے اور لباس بدل بدل کر تقریریں، مباحثے  اور مکالمے پیش کر رہے تھے۔ شبلی کو یہ ناٹک مطلق پسند نہیں تھا۔ وہ سبز عبا پہنے اور رنگین عمامہ باندھے اسٹیج پر آئے اور قوم کی زبوں حالی کو تماشہ بنا کر پیش کرنے کی نہ صرف یہ کہ مذمت کی بلکہ طنز و تضحیک کے کرارے وار بھی کیے۔ ان کی نظم خوانی ایسی مؤثر اور الم ناک تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہوگئی تھی۔یہ مسدس 14 بندوں پر مشتمل ہے، اس میں حالی کا انداز بھی ہے مگر خوبی اور عالمانہ فن کاری کے لحاظ سے یہ حالی کے مقابلے میں کمتر ہے۔ اس مسدس میں شبلی نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں            ؎ 
ہائے افسوس کہ ہو قوم تو یوں خستہ و زار
مرض الموت میں جس طرح سے کوئی بیمار
نہ  معالج ہو کوئی پاس نہ سر پر غم  خوار
نظر آتے ہوں دمِ نزع کے سارے آثار
واں تو یہ  حال کہ مرنے میں بھی کچھ دیر نہیں
آپ  ادھر سیر  تماشے سے  ابھی  سیر نہیں
اس مسدس کے بعض اشعار میں شبلی نے بیجا، بینا، تماشا جیسے ’اختلا ردف‘ کو روا رکھا ہے۔ اشعار میں بعض جگہ عربی اور انگریزی الفاظ ثقالت پیدا کردیتے ہیں    یہ نظم باوجود موثراور زود اثر ہونے کے نصاب کے تقاضے پر پوری نہیں اترتی۔اس میں یاسیت کا عنصر بھی غالب نظر آتا ہے جس سے طلبہ مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔    
مثنوی اور مسدس کے علاوہ شبلی نے قصائد لکھے، مطائبات کو جزو شاعری بنایا،مرثیہ اور شہر آشوب بھی لکھے۔ تاریخی واقعات منظوم کیے اور سیاسی حالات پر نظمیں لکھیں۔ غرض کہ شبلی کے مختصر کلیات میں بہت ساری اصنافِ شاعری پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ان کے کلیات میں چار قصیدے ہیں۔ پہلا قصیدہ 1893 کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں پڑھا گیا تھا۔ یہ ترکیب بند میں لکھا ہوا ہے۔ قصیدہ خطابیہ ہے اس لیے تشبیب و گریز سے عاری ہے۔ اس میں خطاب امتِ مسلمہ سے ہے مگرنسل آدم کی بجائے نسل عدنان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ عدنان کوئی معروف شخصیت نہیں۔خود آپ نے امت اسلامیہ کے لیے اولاد ابراہیم اور اسمعٰیل کی اصطلاح استعمال کی ہیں۔ عربوں کے علم الانساب کے مطابق حضورؐ کا سلسلۂ نسب عدنان تک 21 پشتوں میں تواتر کے ساتھ ملتاہے۔ بس اسی خصوصیت کی بنیاد پر شبلی نے ’عدنان‘ کا قافیہ باندھاہے۔ اس قصیدے میں تاریخی اسناد پیش کرکے مسلمانوں کے روبہ زوال ہونے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ یہ ایک طرح کی یاس آمیز حقیقت ہے اس لیے پر شکوہ تراکیب و لفظیات اس قصیدے میں نہیں ملتیں۔ اس کا اختتام بھی دعائیہ نہیں بلکہ اس میں انتباہ اور امتناع کی آمیزش کچھ زیادہ ہے۔یہ قصیدہ طلبہ کی ذہنی  و نفسیاتی سطح سے بالاتر ہے نیز اس میں بچوں کی دلچسپی کا کوئی سامان بھی نہیں ہے۔اس لیے بالعموم اسے نصاب سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔     
دوسرا قصیدہ تہنیتی ہے۔ شبلی نے اسے آنریبل جسٹس سید محمود کی شادی کے موقع پر لکھا تھا۔ اس قصیدے میں مدحت طرازیوں اور فرحت و نشاط کی تمام تر رنگینیوں کو شاعر نے بڑے فنکارانہ ڈھنگ سے شامل کیا اور خوشی کے موقع پر لکھے گئے اس قصیدے کو بہاریہ بنا دیا ہے۔ محسن کاکوری کے قصیدہ مدح خیر المرسلین کی طرح یہ بھی لامیہ ہے اور انشا کے قصیدے کی طرح اس میں نشاطیہ عنصر غالب ہے۔ اس میں قصیدے کی تمام فنی روایتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس کی تشبیب بہاریہ ہے تشبیب سے مدح کی طرف رجوع ہونے کے لیے جو گریز کا پہلو اختیار کیا گیا ہے وہ قصیدے کی جان ہے۔ شبلی نے گریز کے اس مرحلہ کو بڑی خوبصورتی اور فنی چابک دستی سے نبھایا ہے۔ تشبیب کا آخری شعر یہ ہے          ؎
مژدہ اے بادہ کشو! اب تمھیں ڈر کس کا ہے
ابر کا عالم ِ بالا پہ  بھی ہے اب تو عمل
 اور مدح اس اردو شعر سے شروع ہوتی ہے        ؎
قوم کو  ناز ہے  اے سید ِوالا  تجھ  پر
جمعِ اسلام کوہے آج تری ذات پہ بل
 ان دونوں مختلف الخیال موضوعات کو شبلی  نے بات سے بات نکالنے اور دونوں کے درمیان ربط قائم کرنے کے لیے گریز کے اس فارسی شعر کا سہارا لیا ہے        ؎ 
بادہ  بر  فرّخیِ  شادیِ  محمود  بہ  نوش
آں کہ در  انجمنِ  فضل  بود  صدرِ اجل
گریز کے اس شعر کے بعد دو اور فارسی اشعار مدحتِ محمود ہی میں ہیں۔مگر اردو میں اصل مدح ’قو م کو ناز ہے‘والے شعر سے شروع ہوتی ہے۔ شبلی نے سید محمود کی مدحت طرازی میں مبالغہ آرائی اور بیجا ستائش سے کام نہیں لیا اور جو خوبیاں ممدوح کی ذات میں پائی جاتی تھیں انھیں بر ملا پیش کر دیا۔ شبلی نے اس تہنیتی قصیدے میں حسنِ طلب کا عجیب انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے اپنے وقار اور تشخص کو قائم رکھتے ہوئے کہا ہے،”تو اگر محمود ہے تو میں عنصری ہوں۔ تو اگر فخر اول تو میں بھی اسلاف کا ناز ہوں۔ مجھے اپنی طبیعت پر اتنا غرور ہے کہ اگر مدح لکھنا بھی چاہوں تو اپنے ہی علم و عمل کا بیان کرتا ہوں۔“ شبلی کا قصیدے میں اس طرح کا اظہار ِ خودی اور تکبر و تفاخر فارسی قصیدہ گو شعرا کی تقلید کا نتیجہ ہے۔اس قصیدے کو نصاب میں شامل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں قصیدے کے کم وبیش تمام عناصر موجود ہیں اورانھیں واضح انداز میں پیش کیا ہے،کمزوری صرف اتنی ہے کہ اس میں گریز کا شعر فارسی میں درج ہے۔نصاب کے مرتبین کے لیے لازمی ہو جا تا ہے کہ اس کی تشریح اور وضاحت مشق کے ذیل میں کردی جائے۔کیونکہ سارے اساتذہ فارسی سے واقف ہوں یہ ممکن نہیں۔ 
مولانا کے دو قصائد ایسے ہیں جن کی وجہ سے انگریز انھیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے۔ روم کے سفر سے لوٹنے کے بعد یہ خبر پھیل گئی تھی کہ سلطان عبد الحمید والیِ ترکی کے سفیر بن کر شبلی ہندوستان آئے ہیں۔ مولانا نے والیِ ترکی کی مدح میں ایک قصیدہ بھی لکھا تھا۔ دوسرا قصیدہ علی گڑھ کے ایک جلسے کے لیے بھی قلم بند کیا تھا اس کے ایک شعر         ؎
نو جوانو! یہ حریفوں کو دکھا دینا ہے
اپنی قوت کو کیا قوم نے یکجاکیسا  
میں لفظ ’حریفوں‘ نے انگریزوں کو بے چین کر دیا تھا۔ اس لیے شبلی نے اپنی سیاسی نظمیں پہلے ’کشاف‘ کے نام سے لکھیں پھر وصاّف کے نام سے ’زمیندار‘، ’ہمدرد‘، ’مسلم گزیٹ‘ اور ’الہلال‘ میں لکھنے لگے۔
  شبلی نے مذہبی، اخلاقی اور سیاسی نظمیں بھی لکھیں۔ مذہبی و اخلاقی منظومات میں زیادہ تر تاریخِ اسلام کے واقعات ہی قلم بند ہوئے ہیں۔   واقعاتی سطح پر یہ منظومات مؤثر ضرور ہیں لیکن خود شبلی جسے ’شاعری کی جان‘ کہتے ہیں وہ ’قوتِ تخیئل‘ ان منظومات میں دکھائی نہیں دیتا۔ نیز واقعیت اور اصلیت جو تاریخ کے بنیادی عناصر ہیں، ان کے درمیان خیال آرائی اور معنی آفرینی نے ان منظومات میں اپنا وجود کھو دیا ہے۔ یہاں بطور مثال شبلی کی آخری نظم ’اہل بیتِ رسول کی زندگی‘ کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم اتنی مقبول ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی نصابوں میں  شامل ہے۔ اس میں حضورؐ سے حضرتِ فاطمہؓکا اپنے لیے ایک غلام مانگنے کا واقعہ درج ہے         ؎
افلاس  سے  تھا سیدہئ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا
گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا
اس لیے حضرت فاطمہ نے حضورؐ سے جنگ میں قید ہوئے غلاموں میں سے ایک غلام اپنے گھر کے کام کے لیے مانگا تو      ؎
ارشاد  یہ  ہوا کہ ’غریبانِ بے  وطن
جن کا کہ صفہئ نبوی میں  قیام  تھا
میں ان کے بندو بست سے فارغ نہیں ہنوز
ہر چند اس میں خا ص مجھے اہتمام تھا
  جو جو مصیبتیں کہ اب  ان پر گزرتی  ہیں
میں ان کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا
 کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم ہے ان کا حق
جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا
 خاموش  ہوکے سیدہئ  پاک  رہ گئیں
جرأ ت نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا
  یوں کی ہے اہلِ بیت  مطہر نے زندگی
یہ ماجرائے  دخترِ  خیر  الانام  تھا
لیکن شبلی نے حضور ؐ اور فاطمہ کے درمیان کی گفتگو زمانہئ ماضی میں بیان کردی ہے۔اس لیے اس نظم میں زمانے کے استعمال کی غلطی در آئی۔مذکورہ اشعار کی نثر اس میں موجود زمانے کے مطابق کی جائے تو وہ بڑی بے ربط اور Abrupt  دکھائی دے گی۔مثلاً:
ارشاد ہوا غریبان بے وطن جن کا قیام صفہئ نبوی میں تھا میں ان کے بندوبست سے ہنوزفارغ نہیں ہوں ہر چند مجھے اس کام میں خاص اہتمام تھا۔ان پر جو جو مصیبتیں گزرتی ہیں میں ان کا ذمہ دار ہوں اور  (انھیں دور کرنا) میرا ہی کام تھا۔ وہ لوگ جن کو بھوک  پیاس سے سونا حرام تھا ان کا حق تم سے زیادہ مقدم ہے۔اس مکالمہ میں فعلِ حال کے لیے صیغۂ ماضی کا استعمال کرنے کی وجہ سے یہ نثر بڑی بھدی محسوس ہو رہی ہے۔ اس غلطی کے باوجود یہ نظم بڑی مقبول ہے اور ہمیشہ درسی کتابوں میں شامل رہی ہے اور اس زمانی غلطی کو نظر انداز کیا جاتارہاہے۔
شبلی کی لکھی ہوئی سیاسی نظموں میں ’ہنگامۂ مسجد کانپور‘ اور اسی واقعہ کے متعلق دیگر منظومات نہایت درد انگیز تأثر کی حامل ہیں۔ اثر انگیزی اور معنی آفرینی میں اس نظم سے بڑھ کر سیاسی منظومات میں کوئی دوسری نظم نہیں ہے۔ شاعر نے نہایت اضطراری کیفیت میں یہ نظم لکھی ہے۔ گویا جذبات کا سیل صبر کے بند توڑ کر بہہ نکلا ہے۔ شبلی کے انداز بیان نے اس خونین سانحہ کو اور بھی الم ناک بنا دیا۔یہ منظومات سیاسی نوعیت کی ہیں اس لیے نصاب میں شامل کرنے سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ 
جہاں تک ان کی اردو غزلوں کا تعلق ہے تو وہ  دس بارہ سے زیادہ نہیں۔خود سید سلیمان ندوی کو بھی انھیں تلاش کرنے میں ناکامی ہوئی تھی۔   ان کی ابتدائی نظموں کا رنگ کچھ اس طرح تھا   ؎
 ضعف میں بھی یہ مرے تیرِ فغاں کو زور ہے
روک لے اس کو کہاں یہ آسماں میں زور ہے
 تیرِ قاتل کا  یہ  احساں  رہ  گیا
جاے  دل  سینے  میں  پیکاں  رہ  گیا
 شبِ فرقت میں دلِ غم زدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا  رات  تھی کیا عالمِ  تنہائی  تھا
تیس دن کے لیے ترکِ مے و ساقی کرلوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کرلوں
  یار کو  رغبتِ  اغیار  نہ  ہونے  پائے
گلِ تر کو  ہوسِ خار  نہ  ہونے پائے
ان غزلوں میں نیا پن کچھ بھی نہیں۔ بھرتی کے الفاظ (یہ، تو، بھی وغیرہ) نے ان اشعار کے حسن کو غارت کردیا ہے۔ آخری شعر میں ’یار کی اغیار سے رغبت‘اور ’گلِ تر کی خار سے ہوس‘ یہ نہایت پست خیالات ہیں۔ ہاں!البتہ حیدرآباد پہنچنے کے بعد داغ کی صحبت میں شبلی مشاعروں میں شعر پڑھنے لگے تو ان پر داغ کا رنگ چڑھنے لگا تھا۔ یوں بھی انھیں داغ سے کافی لگاؤ تھا اور ان کے کئی اشعار شبلی کو ازبر تھے۔ اس زمانے کی غزلوں میں تغزل نے کچھ اپنا اثر بھی چھوڑا تھا۔
اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے سراغ چھوڑا نہیں کہیں کا      
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہوں گی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا
 حیدرآباد کے قیام کے زمانے کی اس غزل میں شبلی داغ سے کافی متأثر نظر آتے ہیں۔ رجز مخبون جیسی طویل بحر میں داغ نے کئی غزلیں کہی ہیں۔ انھیں کی تقلید میں شبلی نے شاید اس بحر کو اپنایا ہے۔ غزل کی لفظیات، تراکیب، خیال کی پچی کاری میں بھی د اغ کا اثر غالب دکھائی دیتا ہے۔ یہ اردو غزلیں بھی نصاب کے ضابطوں پر پوری طرح نہیں اترتیں،کیونکہ ان میں عشق کی جنسی کیفیات کا اظہار شدو مد کے ساتھ کیا گیا ہے۔ 
مجموعی اعتبار سے شبلی نے شعر العجم جلد چہارم میں شاعری کی جن خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے،ان کی شاعری میں ان ہی اوصاف کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی منظومات میں تاریخ کے جگمگاتے واقعات تو ضرور بیان کر دیے ہیں مگر عوام الناس کے دلوں کو وہ روشن نہ کر سکے،گویا اثر انگیزی میں ان کی شاعری حالی کی شاعری سے بہت پیچھے نظر آتی ہے۔
Syed Yahya Nasheet
24, Kashana, Kalgaon
Talluqa: Gigras
Distt: Awatmal - 445203 (MS)
ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2020


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں