23/1/20

اختر الایمان کی شاعری میں وقت کا حوالہ مضمون نگار: مظفر حسین سید


اخترالایمان کی شاعری میں وقت کا حوالہ
مظفر حسین سید


اس جہان کم نظراں میں اخترالایمان جیسے اہل نظر عنقا نہیں تو ان کا فقدان ضرور ہے۔وہ ہمارے عہد کے ایک روشن فکر، مگر محال الفہم اور پیچیدہ شاعر ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ غالب اور اقبال کے بعد، جن اردو شعرا کا کلام گنجینۂ معنی کے طلسم کے مماثل ہے، ان میں اخترالایمان سر فہرست ہیں، تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ ایک جانب ان کا ذہن جدید ہے، فکر جدید تر ہے، تکنیک نئی ہے، تو جانب دگر، ان کی زبان کلاسیکی ہے، ان کے یہاں مشکل سے مشکل تر فارسی و عربی تراکیب کا استعمال بے محابا نظر آتا ہے۔ عہد حاضر کے شعرا میں جوش اور فیض کے بعدشاید وہی ہیں، جن کے یہاں زور بیان اور قدرت برزبان کے مظاہر جابہ جا نظر آتے ہیں۔ اخترالایمان کے یہاں ایک جانب اساطیری و تاریخی تلمیحات کا عالمانہ وپر جمال استعمال ہے، تو دوسری جانب داستانوی حوالے بھی اور کہیں وہی انداز بھی۔
اخترالایمان،بیسویں نہیں اکیسویں صدی کے شاعر تھے، اوّلاً، وہ غالب کی مانند عندلیب گلشن نا آفریدہ تھے۔ خود ان کے قول کے مطابق، کوئی انھیں گردانتا نہ تھا،مگر کئی عدد عشرے گزر ے اور ہمارے فاضل نقادان ادب نے انھیں دریافت کیا، تو ان کی پذیر ائی شروع ہوئی۔  خاکسار نے ایک مرتبہ ان سے استفسار کیا تھا کہ،”آپ نے اپنے اکثر مجموعوں کے دیباچے خود کیوں لکھے ہیں، تو انھوں نے انکشاف کیا۔
بڑے بڑے پروفیسر مجھ سے کہتے تھے کہ آپ کی شاعری ہماری سمجھ میں نہیں آتی، آپ اس کی وضاحت و صراحت کا سروسامان کیجیے، ستم ظریفی کہ یہ اساتذہ وہ ہیں جنہوں نے میری نظمیں داخل نصاب کررکھی ہیں، تو میں نے اپنے ہر مجموعہ کا دیباچہ لکھنا شروع کیا اور یوں بھی کہ، جس سے کہتا کہ بھائی تقریظ لکھ دو، دیباچہ لکھ دو، وہ غچّہ دے جاتا۔ میراجی نے جیسے تیسے ایک بار لکھ دیا۔ پھر آمادہ نہ ہوئے، اس لیے صاحب! میں نے خود ہی شاعری بھی کی، مجموعے بھی ترتیب دیے اور ان کے دیباچے بھی لکھے۔ اب بھی لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے اشعار کا مطلب کچھ اور سمجھاتے ہیں، ہم کچھ اور سمجھتے ہیں، اور ہمارے شاگرد کچھ اور، تو بھائی میں کیا کر سکتا ہوں، میں کہتا ہوں کہ جناب، آپ چاہے جوسمجھیے، آپ کو اختیار ہے، مجھے شعر کہنے دیجیے، مطلب آپ نکالتے رہیے کیونکہ تخلیق تو عوامی ملکیت ہوتی ہے، ایک بار عام ہونے کے بعد، اس پر تخلیق کار کا حق ختم ہوجاتا ہے“۔
یہ باتیں علی گڑھ کی ایک نجی ملاقات کی ہیں، اس قسم کے خیالات کا اظہار انھوں نے اپنے کئی مصاحبات میں بھی کیا ہے، جو رسائل و جرائد کے صفحات میں محفوظ ہیں، نیز ان کے خود نوشت دیباچے، ان کی کلیات میں شامل ہیں۔
اخترالایمان کا ایک مصرع ہے۔ع۔ گردش ایام میں کس کی لگن پیہم رہی۔ راقم اپنی بات یہیں سے شروع کرتا ہے۔ اس مصرع میں قدرے تصرف کرکے اگر یوں کہیں کہ۔ع۔ گردش ایاّم میں میری لگن پیہم رہی۔ تو بات مزید واضح ہوجاتی ہے اور جیسے اختر الایمان کے وقت کے تصور کی کلید ہاتھ لگ جاتی ہے۔
ان کی شاعری میں زمان و مکاں،دونوں کا حوالہ بڑے وسیع تناظر میں نظر آتا ہے۔ خصوصاً وقت،جہاں جہاں ان کا موضوع بنا ہے۔ وہ ان کی فکر،  نیز مطالعہ کثیر کا پتہ دیتا ہے۔
اخترالایمان کے کل کلام کے اجمالی جائزے سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ان کی فکر اور ان کے تخیل میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔ انھوں نے براہ راست وقت کے موضوع پر، تین عدد نظمیں تخلیق کی ہیں، جن کے عنوانات ہیں، ’وقت کی کہانی، کال چکّر اور جیونی‘ مزید برآں، وقت کی اہمیت اور اس کے ہمہ گیر اثرات کی جانب، کہیں واضح، کہیں خفیف سے اشارے کرتی ان کی متعدد نظمیں موجودہیں، جن کے عنوانات ہیں،نئی صبح، پس منظر، جب اور اب، آخر شب، یہ دور، سحر،بنت لمحات، ساتویں دن کے بعد، زندگی کا وقفہ، دن کا سفر، جب گھڑی بند تھی اور شب و روز، وغیر ہم۔ علاوہ ازیں اور بھی چند نظمیں ہیں، جن پر وقت سایہ فگن ہوتا نظر آتا ہے، مگر ان میں وقت پر کوئی تبصرہ نہیں ہے اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔ یوں بھی یہ کوئی مکمل اور جامع فہرست نہیں، محض مثالیں ہیں۔
انھوں نے وقت کے ضمن میں اپنا نظریہ بہ نفس نفیس واضح کیا ہے۔
وہ یوں رقم طراز ہیں:
 میری نظموں میں وقت کا تصور اس طرح ملتا ہے، جیسے یہ بھی میری ذات کا ایک حصّہ ہے۔ اور یہ طرح طرح سے میری نظموں میں میرے ساتھ رہتا ہے۔ کبھی یہ گزرتے وقت کا علامیہ بن جاتا ہے، کبھی خدا بن جاتا ہے توکبھی نظم کا ایک کردار۔
اپنی بات کی تشریح مزید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”)میری نظم)’باز آمد میں رمضانی قصا ئی وقت ہے۔’بیداد‘ میں خدا وقت ہے‘۔ ’وقت کی کہانی‘ میں گرداب زیست وقت ہے اور کوزہ گر‘ میں سامری وقت ہے۔ وقت جبرئیل امیں ہے، جو زمیں سے تاحدّ نظر مسلّط ہے(اور) ہماری گزران حیات پر ہے،(اور) جس کے پاؤں تحت الثریٰ سے بھی نیچے ہیں اور سرعرش معلّی کے اوپر۔ ساتھ ہی یہ تصور نہ مایا کا تصور ہے، نہ فنا کا۔ یہ ایک ایسی زندہ و پائندہ ذات ہے، جو ’اننت‘ ہے، جو اگر وقت نہ ہوتی تو خداسے بڑی کوئی چیز ہوتی۔ اس لیے کہ اس کے ہاتھوں، خدا کی شکل وصورت اور تصور بھی بدلتا رہتا ہے۔
  )بحوالہ: دیباچہ بنت لمحات، 1949)
 اپنے مجموعے ’آب جو‘ (1989) کے دیباچے میں بھی انھوں نے وقت کے تئیں اپنے نظریے کے باب میں اشارتاً چند جملے رقم کیے ہیں۔ مثلاً:
”)میری نظم) ’مسجد میں جوندی مسجد کے قریب بہتی ہے، وہ وقت کا دھارا ہے“۔ ایک اور جملہ ہے۔ ”اسی طرح میری نظم ’موت‘ میں مسلسل دستک کی آواز، وقت کی وہ آواز ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتی، ہمیشہ زندگی کے دروازے کو کھٹکھٹاتی رہتی ہے“۔
اپنے مجموعے ’یادیں‘ کے دیباچے (1961) میں وہ یوں رقم طراز ہیں ”میری بیشتر شاعری میں ایک یاد کا سارنگ ہے۔ اب کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یاد کا تعلق ماضی سے ہے، اور ماضی وقت ہے“۔
اختر الایمان کی شہرہئ آفاق نظم،’ایک لڑکا‘ بھی کم و بیش موضوع وقت کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ نظم اتنی وقیع و بسیط ہے کہ اس پر ایک علاحدہ مضمون رقم کیا جانا چاہیے۔ اپنے مجموعے ’آب جو‘  (1959) کے دیباچے میں اخترالایمان نے اس نظم کی وجہ تخلیق، اس کے پس منظر اور محاکات پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے اس کے حوالے اور اس کا تجزیہ راقم کے اصل مضمون میں شامل ہے، یہاں اس عبارت، نیز اس طویل نظم کے اقتباسات کا محل نہیں۔
بغرض صراحت مزید، یہاں ان کی نظموں کے چند بند پیش کرنا بے محل نہ ہوگا۔ ان کی شہرہ آفاق نظم ’یادیں‘ کا اولین بند ملاحظہ فرمائیے       ؎
لو وہ چاہ شب سے نکلا پچھلے پہر پیلا مہتاب
ذہن نے کھولی رکتے رکتے ماضی کی پارینہ کتاب
یادوں کے بے معنی دفتر خوابوں کے افسردہ شِہاب
سب کے سب خاموش، زباں سے کہتے ہیں، اے خانہ خراب
گزری بات صدی یا پَل ہو، گزری بات ہے، نقش بر آب
یہ روداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
یہاں ماضی،پارینہ، یادوں کے دفتر، گزری بات، صدی، پل، روداد، سفر اور بسر، یہ تمام الفاظ وقت کے مظہر ہیں اور اسی پر مبنی ہیں۔
دو مصرعے اور،نظم، ’وقت کی کہانی‘ سے       ؎
وہ یار کھو گئے، گرداب زیست میں سب آج
ہمارے پہلو میں جو بیٹھے تھے، جیسے صنم!
ایک اور مثال، نظم ’مناجات‘ سے      ؎
ہر لمحہ قبر ہے گئے لمحے کی، ہر نَفس
پہلے نَفس کی گور ہے، افسردہ ہوگئے
اس میں الفاظ ’لمحہ‘،’لمحے، وقت کی علامت ہیں اور ’نَفس‘ بھی وقت کا علامیہ ہے، گرچہ قلیل العمر ہے۔
مذکورہ مصرعے سن کر، اگر فانی کا مشہور شعر یاد آجائے تو امر حیرت نہیں         ؎
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا
دو مثالیں، نظم ’جب گھڑی بند تھی‘ سے    ؎
وقت سے بے خبر بھی رہی ہو
صبح تو آئے گی
شام تو جائے گی
شام اور صبح کے بین جو رنج ہیں
اور خوشیاں ہیں جو
خود بخود ساتھ ہوجائیں گے۔
تین مصرعے اور اسی نظم سے     ؎
جب گھڑی بند ہوگی تو کیا بیتنے والے پل
چھاؤں پاکر، کہیں سب ٹھہر جائیں گے
وقت سے پہلے مر جائیں گے
یہاں گھڑی تو وقت کی میزان ہے، نیز وقت، صبح، اور شام، یہ تمام الفاظ وقت کے علامیے ہیں۔
اختر صاحب کی ایک بے عنوان نظم ہے، جو غالباً ’کلیات‘ سے قبل کسی مجموعے میں شائع نہیں ہوئی تھی، اور ان کے غیر مطبوعہ مسودوں میں گم تھی، اسے بیدار بخت نے تلاش کر کے اپنے مضمون:’کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ‘ میں درج کیا ہے۔ اس سہ سطری نظم میں بڑی معنی آفرینی ہے، ملاحظہ فرمائیے        ؎
ناظر ہوں میں، سب دیکھتا ہوں بنتے بگڑتے
رکھا ہے مرے سامنے آئینہئ ایام
آئے ہیں، علم لے کے گزر جاتے ہیں پل میں
یہاں اس بیان کی ضرورت نہیں کہ یہاں ’آئینہئ ایام‘، کی ترکیب اور پل کا لفظ دونوں،  وقت کی علامت ہیں۔
دیکھیے کتنی چھوٹی سی مگر بڑی بات ہے۔ ان کی ایک نامکمل نظم کا صرف ایک مصرعہ سنیے۔ع۔ میں تاریخ کی دھول میں کھو گیا۔ ظاہر ہے کہ تاریخ خود وقت کا بیانیہ ہے۔ پتہ نہیں شاعر کیا کہنا چاہتا تھا، جوکہہ نہ سکا۔
ایک نظم ’نئی صبح‘ ہے۔ اس کے آخری دو مصرعے، بڑے با معنیٰ ہیں، سماعت فرمائیے       ؎
دھوپ سی ڈھل کر بیت گئی ہے ساقی کی مجبور جوانی
کیا جانے کب سورج نکلے، بستی جاگے غم مٹ جائیں
یہاں ’ڈھل،بیت، جوانی اور کب، یہ تمام الفاظ وقت کے علامیے ہیں ویسے تو یہاں ’دھوپ سی‘ اور ’مجبور جوانی‘ جیسے اظہارات میں بڑے معنیٰ پوشیدہ ہیں، مگر، سر مضمون ہٰذا یہ موضوع گفتگو نہیں، لہٰذا اس بحث سے گریز۔
کسی کی یاد میں کہی گئی ایک نظم ’شفقی‘ ملاحظہ فرمائیے اس کا یہ ابتدائی بند       ؎
رنگوں کاچشمہ سا پھوٹا ماضی کے اندھے غاروں سے
سرگوشی کے گھنگرو کھنکے گرد و پیش کی دیواروں سے
یاد کے بوجھل پردے اٹھے، کانوں میں جانی انجانی
لوچ بھری آوازیں آئیں، جیسے کوئی ایک کہانی
اگرچہ یہاں وقت، موضوع نظم نہیں، یہ خالصتاً رومانی نظم ہے، تاہم اس میں بھی ’ماضی‘ یاد، جیسے الفاظ وقت کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں اور کہانی تو خود ہی کسی گزرے واقعے کا بیانیہ ہوتی ہے، جس کا منبع وقت ہی ہوتا ہے۔
ان کی ایک نظم ہے،’زندگی کا وقفہ‘، اس کے صرف دو مصرعے ملاحظہ فرمائیے،دیکھیے کیا معنی آفرینی ہے       ؎
خود کو سو ناموں سے بہلاتے رہو، چلتے رہو
سانس رک جائے جہاں، سمجھو وہیں منزل ہے
اب کیا یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’سانس‘ بہ معنیٰ خود وقت کا لمحے سے بھی صغیر تر جزو ہے۔ جس کا گزرنا وقت کا سفر ہے۔ یعنی ہر پل گزرتے ہی ماضی ہوجاتا ہے۔ دراصل، صرف دو زمانے ہیں، ماضی اور مستقبل۔ درمیانی وقفہ حال کا ہے، جس کی عمر محض ایک لمحہ بھی نہیں، ابھی حال تھا، ابھی ماضی ہوگیا، اور مستقبل سے جو لمحہ آیا،وہ بھی پلک جھپکتے، نفس آتے جاتے میں ماضی ہوگیا۔ اس فلسفیانہ موضوع پر گفتگو کی بڑی گنجائش ہے، مگر سردست مہلت نہیں۔ یہ تمام باتیں اخترالایمان نے نہیں کہی ہیں، کوئی شاعر، کوئی تخلیق کار پوری بات نہیں کہتا، وہ یہ فریضہ قاری کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ مگر قاری ہونا شرط ہے۔
یہاں بہت سے حوالے رہ گئے ہیں اس لیے شاید بات نامکمل لگے، ادھوری رہے، ترسیل کا المیہ وارد ہوجائے، مگر مجبوری ہے۔
 ایک بات یاد آتی ہے، کوئی تین، چار عشرے قبل ایک ملاقات میں اس بے فہم نے اخترالایمان سے یہ سوال کر لیا کہ آپ کی شاعری میں وقت کی بڑی اہمیت ہے، بلکہ تقریباً ہر جگہ وقت کے دھارے بہتے نظر آتے ہیں، یا محسوس ہوتے ہیں، تاہم آپ نے براہ راست وقت کے موضوع پر صرف ایک نظم کہی ہے، ’وقت کی کہانی، جبکہ اس موضوع کے بطن میں تو بڑی گنجائش ہے،پھر کیا وجہ رہی؟۔ انھوں نے جیسے چونک کر خاکسار کی جانب دیکھا اور بڑی آہستگی سے گویا ہوئے، ”ہاں، بات تو ٹھیک ہے، مگر شاید اس کی کوئی وجہ نہیں، خاص وجہ نہیں“۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ مگر اس بے سواد کے اشارے پر، یا، بہ حسن اتفاق،یا قصداً، انھوں نے اس گفتگو کے بعد چھوٹی بحر میں ایک قدرے طویل نظم ’کال چکّر‘ کہی، جو ان کے مجموعہ کلام ’سروسامان‘ میں شامل ہے۔ براہ راست وقت کے موضوع پر، بلکہ اک عرصے کا احاطہ کرتی ہے۔ مابعد، ان کی ایک اورنو حصص پر مشتمل طویل نظم’جیونی‘ منظر عام پر آئی۔جو خود ان کے بقول ہنوز نامکمل تھی، تاہم انھوں نے اپنی حیات میں ہی اسے اپنے مجموعہ کلام ’زمین زمین‘ میں شامل کرلیا۔ان کے معمول کے خلاف اس نظم پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔
آئیے اب ان دونوں نظموں کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے، جو براہ راست موضوع وقت کا احاطہ کرتے ہیں۔’کال چکّر‘ کے چند مصرعے ہیں۔
کس کے پاس وقت کا
اس قدر ذخیرہ تھا
بانٹتا رہے مگر
اس کی انتہا نہ ہو
جیونی‘ کے دو حصص سے منقول یہ دو مختلف اقتباسات بھی ملاحظہ کرلیجیے       ؎
پہلا  اقتباس:ذیلی عنوان،’کوہ ندا کا بلاوا‘ کے تحت
آج تک روز اوّل سے سنتا رہا
آج بھی میرے کانوں میں ہے یہ صدا
یا اخی! یا اخی! یا اخی! یا اخی!
آ بھی جا، آ بھی جا، آ بھی جا، آ بھی جا
دوسرا اقتباس:ذیلی عنوان، ’اتمام سفر سے پہلے کا پڑاؤ‘ کے تحت        ؎
کوئی ہے ہم سفر میرا، کوئی نہیں
اس مسافت میں رہ رہ کے لپٹی تھی جو
میں نے وہ خاک بھی پاؤں سے جھاڑ دی
بین طور پر اقتباس اوّل میں روز ازل، آغاز زمانہ کا حوالہ ہے  اور یہ اس امر کا غماز بھی ہے کہ وہی صدا، جسے شاعر نے ’کوہ ندا کا بلاوا‘ قرار دیا، آج بھی آرہی ہے، مسلسل آرہی ہے۔ اقتباس دوم میں سفر حیات کے اختتام کا اشارہ ہے۔ بلکہ بیان ہے، اس حصے کا ذیلی عنوان ہی  ’اتمام سفر سے پہلے کا پڑاؤ‘ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس کے دو مصرعے اختر صاحب کی لوح مرقد پر بھی کندہ ہیں۔
)بحوالہ:بیدار بخت(
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ شاعر موت کو اپنے سفر کی آخری منزل تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اس کے یقین کے مطابق، یہ اتمام سفر نہیں، بلکہ اتمام سفر سے پہلے کا پڑاؤ ہے۔
شاید یہاں، شاعر کے پیش خیال میرکا یہ شعر رہا ہو گا           ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اختر الایمان کی ایک اور طویل نظم ہے،’سب رنگ‘ اس کے تمام کردار حیوان ہیں، اور پس منظر جنگل کا ہے خود ان کے قول کے مطابق، تمام کردار کسی نہ کسی قدر کے مظہر ہیں کیونکہ یہ نظم تمام تر علامتی ہے۔ اگرچہ اس نظم کا موضوع وقت نہیں،بلکہ عصری نظام ہے، لیکن اس کا کم از کم ایک بند، موضوع وقت کا احاطہ کرتا ہے۔ اس بند کے صرف تین مصرعے بطور دلیل کافی ہیں        ؎
لیکن یہی کیوں ہے کہ ہمیں ملنے نہ پایا
اک لمحہ بھی فرصت کا، رہی جنگ برابر
آفات سماوی، کبھی ارضی سے ابھی تک
غالباً اس وضاحت کا تقاضا نہیں کہ ان مصرعوں میں الفاظ، لمحہ اور فرصت، وقت کا اشاریہ ہیں، اور لفظ ’ابھی تک‘ تو وقت کا ترجمان ہے ہی۔
عموماً عظیم شخصیات کے کردار، عمل و فکر کی فہم کے لیے ان کی تخلیقات، ان کے وضاحتی مضامین، یا ان کی خود نوشت سوانح کا مطالعہ کرنے کا رواج ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اختر صاحب نے یہ تمام سامان اپنے قاری، نا قد اور مداح کے لیے فراہم کرادیے ہیں۔ لیکن اگر کسی اہم شخص کا روزنامچہ زیردست آجائے تو فہم و ادراک کے کئی نئے غرفے واہوجاتے ہیں۔ بہ حسن اتفاق بیگم سلطانہ اخترالایمان اوراخترصاحب کے حبیب ورفیق،بیدار بخت کی عنایت کے طفیل ان کے روزنامچے کے کافی مندرجات منظر عام پر آسکے ہیں اور انھیں ’باقیات اخترالایمان‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ عمل قطعاً بے محل نہیں کہ ان کے خودنوشت روزنامچے کے چند اقتباسات کا بھی جائزہ لے لیا جائے، تاکہ ان کے تصور وقت اور فلسفۂ زماں کے کئی اور گوشے روشنی میں آسکیں۔ اسی مقصد کے تحت چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔
14اپریل 1946 کی ایک تحریر ہے:
زندگی کی رفتار ناپنے کا میرے پاس کوئی آلہ نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کائنات میں، اس سے زیادہ تیز رفتار اور کوئی چیز نہیں“۔
ملاحظہ کیجیے، کیا فلسفیانہ خیال ہے، اگر یہ بشکل شعر ڈھل جاتا تو اور لطف آتا۔
15 جنوری 1967، کو انھوں نے اپنے روز نامچے میں مرزا غالب کا ایک شعر نقل کیا ہے اور لکھا ہے:
انسان ماضی پرست ہے۔ اس لیے کہ ماضی ہی حقیقت ہے، باقی سب افسانہ ہے، حقیقت نہیں۔ مستقبل اور حال دونوں اس تیزی سے گزر جاتے ہیں کہ انسان پکڑتے پکڑتے، بے دم ہوجاتا ہے او ریہ پکڑ میں نہیں آتے۔ شاید اسی لیے غالب نے کہا تھا   ؎
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
اس ضمن میں، انھوں نے مزید لکھا ہے۔
”’رفت‘اور ’بود‘ کے سو اانسان کے پاس اور کچھ نہیں رہ جاتا۔ اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے پاس ’رفت‘ اور ’بود‘ بھی نہیں۔
)بحوالہ: ڈائری کے اقتباسات، مشمولہ،باقیات اخترالایمان(
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دامن میں ’رفت اور بود‘ کے سوا کچھ بھی نہیں، جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا گیا، حال کی عمر تو محض ایک لمحہ ہے، ایک نفس ہے، پلک جھپکی اور حال رفت ہوا، گزر گیا، اور بودہوگیا، یعنی ماضی،اور انسان کا دامن پھر خالی۔
 اخترالایمان کے دو مصرعے ہیں، اگرچہ ان کا براہ راست تعلق وقت سے نہیں، مگر اس کے وسیلے سے خدا کے تئیں ان کا تصور واضح ہوتا ہے۔اور ان کے فلسفہ کے مطابق خدا اور وقت میں بڑا اشتراک ہے          ؎
خدا کو ڈھونڈتا رہتا ہے، کیوں دنیا میں آکر بھی
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوگا تو خدا ہوگا
غیرارادی طور پر یہاں غالب کا ایک شعر یاد آجاتا ہے۔ یہ ان مصرعوں کا محرّک ہونہ ہو، مگر یہ شعر یقینا اخترالایمان کے ذہن میں رہا ہوگا         ؎
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
بہر کیف، فی الحال، اتمام گفتگو، اختر الایمان کے ان دو مصرعوں پر جو اُن کا پیغام بھی ہیں           ؎
مرے حق میں ابھی، کچھ فیصلہ صادر نہ فرمانا
میں جس دن آؤں گا، تازہ لغت ہمراہ لاؤں گا

Dr. Muzaffar Husain Syed
29/11, Sir Syed Road, Darya Ganj
New Delhi - 110002
Cell: 9818827853,  9211366940
E-mail:  syedmh92@yahoo.com, syedmh92@gmail.com



ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں