24/1/20

قومی یکجہتی اور نذیر بنارسی مضمون نگار: نسیم بن آسی





 قومی یکجہتی اور نذیر بنارسی
نسیم بن آسی

بنارس بہت قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ اس کی جڑیں رواداری، تصوف، صلحِ کل، حکمت و فلسفہ کی زمین میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ اس تہذیب کو آگے بڑھانے میں غنی بنارسی، فائز بنارسی، محشر بنارسی، منشی بیتاب بنارسی اور مسلم حریری نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ اسی سرزمین میں فارسی کے معروف شاعر شیخ علی حزیں آسودہئ خاک ہیں۔ وہ ایران سے آکر یہاں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ ان کے نام سے بنارس جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
نذیر بنارسی 25 نومبر 1909 - 23 مارچ 1996 نے مدن پورہ کے پانڈے حویلی میں آنکھیں کھولیں — اُن کی تعلیم گھر پر ہوئی۔ بعد میں وہ مدرسہ میں داخل ہوئے۔ انھیں شعر و شاعری کا ذوق بچپن سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی حکیم محمد یٰسین مسیح پختہ کار اور قادرالکلام شاعر تھے۔ نذیر بنارسی نے منشی بیتاب بنارسی سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ وہ اپنی خاندانی وجاہت، انسان دوستی اور قومی خدمات کے باعث بنارس کی محبوب شخصیت تھے۔
نذیر بنارسی کا مکان پانڈے حویلی میں سڑک کے کنارے واقع ہے۔ اس کے اندر پارچون کی ایک دکان بھی ہے۔ اس میں گاہکوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ دکان نذیر صاحب کے بڑے بیٹے محمد ظہیر دیکھتے ہیں۔ کبھی نذیر صاحب بھی دکان میں بیٹھتے تھے اور گاہکوں کو سامان وغیرہ دیتے تھے۔ دکان سے ملحق ایک برآمدہ ہے جس کے دروازے باہر سڑک کی طرف کھلتے ہیں۔ فرصت کے اوقات میں کبھی کبھی نذیر صاحب برآمدہ میں کرسی لگا کر بیٹھا کرتے تھے۔
حب الوطنی اور قومی یکجہتی سے متعلق ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’گنگ و جمن‘ کے نام سے منظرِ عام پر آچکا تھا۔ اس پر فراق گورکھپوری کا فکرانگیز اور وقیع پیش لفظ بھی ہے۔ فراق جتنے بڑے شاعر تھے، اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی تھے۔
ان دنوں مشاعروں میں نذیر بنارسی کے نام کا بڑا شہرہ تھا۔ میرے والد آسی رام نگری کی سرپرستی میں مغل سرائے نگرپالکا انٹرکالج کے میدان میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں نذیر صاحب بھی مدعو تھے۔
مولانا ابومحمد امام الدین حافظ رام نگری کی صدارت میں مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ نظامت کی ذمے داری رشید بی اے کو سپرد کی گئی۔ وہ مدن پورہ میں رہتے تھے۔ لوگ انھیں رشید بی اے کے نام سے پکارتے تھے۔ بی اے ان کے نام کے ساتھ لازم و ملزوم ہوگیا تھا۔
سب سے پہلے راشد بنارسی کو اپنا کلام سنانے کے لیے بلایا گیا۔ انھوں نے اپنی مترنم آواز میں غزل کا مطلع پڑھا   ؎
ہے رات بھینی بھینی تاروں کا مسکرانا
اے کاش! کوئی کہہ دے ان سے میرا فسانہ
سامعین غزل کا مطالعہ سنتے ہی وجد میں آئے۔ داد کا سلسلہ غزل ختم ہونے تک چلتا رہا۔ حفیظ بنارسی نے ’صبحِ بنارس‘ نظم سنائی    ؎
بنارس کی صبح حسیں دیکھتا ہوں
انھوں نے صبح بنارس کی جو منظرکشی کی، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ترنم سے پڑھ رہے تھے اور سامعین انھیں داد سے نواز رہے تھے۔
شوکت  مجید حافظ قرآن کمیونسٹ شاعر تھے۔ انھوں نے تحت میں غزل پڑھی۔ ان کی غزل میں بھی، ترقی پسند خیالات کی ترجمانی تھی۔ ان کے پڑھنے کے انداز میں سادگی اور خلوص تھا۔ انھوں نے سامعین کو کافی متاثر کیا۔
اس کے بعد جوہر صدیقی کو دعوتِ سخن دی گئی۔ نوجوان او ر نومشق شاعر ان کے شاگرد تھے۔ مسلم حریری ان کے استاد تھے۔ انھوں نے تحت میں پڑھا۔ ان کے پڑھنے کے انداز میں بے حد خوداعتمادی تھی۔ انھوں نے دو تین رباعیاں اور ایک غزل سنائی۔ سامعین نے ان کے کلام کو بہت پسند کیا۔
انور مرزاپوری اپنے ترنم اور غنائی لب و لہجہ کے لیے جانے جاتے تھے۔ ناظمِ مشاعرہ نے انھیں زحمت سخن دی۔ گورا رنگ، سر پر سفید بال کی گول ٹوپی لگائے۔ وہ ترنم ریز ہوئے۔ انھوں نے سامعین کی فرمائش پر کئی غزلیں سنائیں۔ انھوں نے اپنی آواز کے سوز و گداز سے سامعین کا دل جیت لیا۔
سامعین کی تفریح طبع کے لیے سروش مچھلی شہری کو بلایا گیا۔ انھوں نے اپنا مزاحیہ کلام ایکٹنگ کے انداز میں پڑھ کر سنایا اور لوگوں کو لوٹ پوٹ کردیا۔ ان کے بعد کئی اور شاعروں نے اپنے کلام سے نوازا اور داد و تحسین حاصل کی۔
آخر میں نذیر بنارسی کو دعوتِ سخن دی گئی۔ پستہ قد، قدرے فربہ بدن، پتلی مہری کا سفید پاجامہ اور کالی شیروانی، پیشانی پر ساون کی گھٹا کی طرح جھکے کالے بال— نذیر صاحب اپنی مترنم آواز میں غزل سرا ہوئے۔ سامعین گوش برآواز ہوگئے       ؎
محبت اے نذیر اس دہر سے ناپید ہوجاتی
محبت کی وہ قسمت تھی کہ پیدا ہوگئے ہم تم
آواز میں شیرینی کے ساتھ گھن گرج تھی۔ ایک سماں بندھ گیا۔ نذیر صاحب غزل پڑھ رہے تھے اور سامعین داد و تحسین کی بارش کررہے تھے۔ بھور میں مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔
گنگ و جمن‘ کے بعد ان کا دوسرا غزلوں کا ضخیم مجموعہ ’کتاب غزل‘ شائع ہوا۔ ان سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میرا ان سے ملنے کا شوق فزوں تر ہوتا جارہا تھا۔ دوپہرکے بعد کا وقت تھا۔ ان کے صاحبزادے ظہیر گاہکوں کو سامان وغیرہ دینے میں مصروف تھے۔ میں موقع دیکھ کر ان کے پاس گیا۔
میں نذیر صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔
آپ کہاں سے آئے ہیں؟
میں نے انھیں اپنے بارے میں بتایا— ظہیر نے میرے آنے کی اطلاع اوپر کی منزل پر بھجوا دی۔ نوکر واپس آکر بولا  بھیج دیجیے۔
نوکر مجھے لے کر زینہ چڑھنے لگا۔ جہاں زینہ ختم ہوا، نذیر صاحب ایک گدے دار چوبی تخت پر تکیہ کا ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تخت پر دھلی ہوئی سفید چادر بچھی تھی۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا۔ پھر وہ مجھے لے کر پاس کے ایک کمرہ میں چلے گئے۔ کمرہ دیکھنے میں ڈرائنگ روم معلوم ہوتا تھا۔ اس کے تین طرف صوفے لگے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے صوفہ پر بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا اور خود سامنے کے صوفہ پر بیٹھ گئے۔ شیشے کی ایک الماری میں بند کتابیں باہر جھانک رہی تھیں جیسے باہر آنے کے  لیے بیتاب ہوں۔
نذیر صاحب نے الماری کھول کر ’کتاب غزل‘ کی ایک جلد نکالی اور مجھے مرحمت فرمائی۔ کچھ دیر میں چائے آگئی— میں چائے پینے کے ساتھ ’کتابِ غزل‘ کی ورق گردانی بھی کررہا تھا۔
نذیر صاحب! آپ کے ہاں اضافت کی شاعری نہیں ملتی ہے؟
سمپورنانند نے منع کردیا تھا۔
آپ نے ان کی بات کیوں مانی؟
وہ فارسی کے عالم تھے اور اردو میں شاعری کرتے تھے۔ آنند ان کا تخلص تھا۔
نذیر صاحب! ’گنگ وجمن‘ پر فراق صاحب کا پیش لفظ بہت خوب ہے۔
ہاں! لیکن ان کے ساتھ ایک واقعہ ہوگیا
کیا—؟
بنارس کے ایک مشاعرہ میں فراق آئے ہوئے تھے۔ حسبِ معمول ان کا میرے ہاں قیام ہوا۔ بادہ نوشی کا دور چل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد فراق شراب کے نشے میں آگئے اور انھوں نے حضرت محمدؐ صاحب کی شان میں گستاخی کردی۔ میرے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا۔ میں نے گلاس گھما کر فراق کے منہ پر دے مارا۔ وہ بال بال بچ گئے۔
اُس دن سے میں نے بادہ نوشی ترک کردی۔
کچھ دیر کے لیے میرے اوپر سکتہ طاری ہوگیا اور میں انھیں حیرت سے دیکھنے لگا۔
نذیر صاحب! آپ نے اپنی شاعری میں گنگا جل کی پاکیزگی، بنارس کے بت خانوں اور شنکرجی کی عظمت کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ آپ نے اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے   ؎
کاشی کے مسلماں ہیں نذیر آپ سے ملیے
بت خانے میں ہیں آپ بھی اور آپ کا گھر بھی
اس ضمن میں آپ کے یہ اشعار بھی قابل ذکر ہیں     ؎
شنکر کی جٹاؤں کی طرح سایہ فگن ہے
ہر سایہئ دیوار بنارس کی گلی میں
گر سورگ میں جانا ہے تو جی کھول کر خرچو
مکتی کا ہے بیوپار بنارس کی گلی میں
ہم نے تو نمازیں بھی پڑھی ہیں اکثر
گنگا تیرے پانی سے وضو کر کرکے
کیا اس سے آپ کے ایمان پر حرف نہیں آتا ہے؟
میں نے قومی یکجہتی کے تحت یہ سب لکھا ہے۔ میں موحد ہوں۔ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوں۔ میں نے حج بھی کرلیا ہے لیکن میری شاعری میں صرف گنگا جل اور بنارس کے بت خانوں ہی کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں بنارس کی مٹی کی سوندھی خوشبو بھی شامل ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں       ؎
نہیں نہیں یہ دیے نہیں ہیں جو بہتے پانی میں جل رہے ہیں
گگن سے تارے اتر اتر کر لہر ہر پر ٹہل رہے ہیں
گنگا کا ہے لڑکپن، گنگا کی ہے جوانی
اترا رہی ہیں لہریں، شرما رہا ہے پانی
بادل برس رہا ہے، بجلی چمک رہی ہے
کھلواڑ کر رہے ہیں، آپس میں آگ پانی
بہت  خوب! بہت خوب!
آپ کی شاعری کا خاص وصف حسنِ تغزل اور اس کا والہانہ پن ہے۔
نذیر صاحب! میں آپ سے آخری سوال کرنا چاہتا ہوں۔
پہلے آپ مشاعروں میں ترنم سے پڑھتے تھے لیکن اب آپ صرف تحت میں پڑھتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
نذیر صاحب مسکرانے لگے
ترنم سے پڑھنے والے بہت ہوگئے ہیں۔ مشاعروں میں شاعرات بھی آنے لگی ہیں۔ سامعین ان کے ترنم کو سنتے ہیں اور انھیں دیکھتے بھی ہیں لیکن ستم ظریفی دیکھیے۔ ایکٹر شاعر گلاباز شاعروں اور شاعرات سے زیادہ داد پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
میں ہنسنے لگا۔
چائے ختم ہوگئی تھی۔ ذکر چائے کا کپ اور بسکٹ کا پلیٹ لے کر چلا گیا تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا، شام کا سرمئی اندھیرا دھیرے دھیرے اپنا تعارف کرا رہا تھا۔ سڑک کی دکانوں میں بجلی کے بلب ٹمٹمانے لگے تھے۔
نذیر صاحب! اب میں اجازت چاہتا ہوں۔
آپ میرے ساتھ کھانا کھاکر جائیے گا۔
نہیں، بہت دیر ہوجائے گی۔
نہیں۔ نہیں۔ آپ کھانا کھاکر جائیں گے۔
میں ان کے اصرا رپر رک گیا۔
تبھی ان کی بہو قمیص شلوار میں ملبوس آگئی۔
ابو! آج آپ کیا کھائیں گے؟
کباب، بالائی اور اس کے ساتھ کوئی حلوہ بھی۔
ان کی بہو اندر چلی گئی۔ نذیر صاحب کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر بولے۔
میری بہو ہر دن میرے کھانے کے بارے میں پوچھتی ہے۔ میں جو پسند کرتا ہوں، وہ حاضر ہوجاتا ہے۔
آپ بہت خوش قسمت ہیں۔
مجھے اس دن معلوم ہوا نذیر صاحب خوش اخلاق، خوش لباس اور خوش لحن ہی نہیں، خوش خوراک بھی ہیں۔
کھانا کھانے کے بعد میں نے نذیر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مصافحہ کرکے جانے لگا۔
پھر آئیے گا؟
ضرور آئیں گے۔
میں زینہ سے دھیرے دھیرے نیچے اتر آیا۔
نذیر بنارسی اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کا یہ شعر آج بھی زندہ ہے     ؎
کوئی نذیر آواز تو دیتا
جاگنے والے سوگئے سب کیا
Nssim Bin Asi
C/o Koh-e-Noor General Store
Parmar Katra
Mughal Sarai - 232101 (UP)
Mob.: 7348075771
ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں