24/1/20

مسرور جہاں: تہذیبی اقدار کے آئینے میں مضمون نگار: رضیہ خاتون


مسرور جہاں:
تہذیبی اقدار کے آئینے میں 


 رضیہ خاتون



”گھر کی چہار دیواری میں رہ کر اپنی محنت اپنی لگن،اپنی ریاضت سے مسرور جہاں نے اس منزل کو پا لیا۔جسے پانے کے لیے سب ادیبوں کے دل مچلتے رہتے ہیں“(خواب در خواب سفر، ص10)  رتن سنگھ کا یہ قول مسرور جہاں کی شخصیت کی عقدہ کشائی کے لیے کافی ہے جنھوں نے اپنی مسلسل جہد و کاوش سے واقعی وہ مقام حاصل کر لیا جس تک رسائی ہر کس و ناکس کے لیے نا ممکن ہے۔مسرور جہاں نے 500 سے زائد افسانے اور تقریباً 65 ناول قلم بند کیے جو ان کی زود نویسی کے ساتھ ان کے اعلی ذوق کی گوا ہی دیتے ہیں۔وہ مستورات جن کے لیے سماج میں موجود کٹر لوگوں نے تعلیمی شعبوں کو مقفل کر دیا تھا اور ان کی حیات فقط گھریلو زندگی کو سنوارنے اور گھریلو مسائل میں جکڑ کر رہ جاتی تھی اسی صنف نازک نے جب تعلیمی میدان میں قدم بڑھایا تو اپنی محنت و لگن سے فتح کے ہر اس مقام کو حاصل کر لیا جس کا تصور کرنابھی ناممکن تھا۔ عورت کی ذہنی بیداری اور عصری حسیت نے مسرور جہاں کو فکشن کے اس چمکتے ستارے کی مانند بنا دیا جو ہمیشہ اپنی تابناکی بکھیرتا رہے گا۔
مسرورجہاں نے سماج کی دم توڑتی اقدار حیات اور مٹتی تہذیب کا کرب بہت قریب سے محسوس کیا انیسویں اور بیسویں صدی کے لٹتے سرمایے میں جو قیمت مسلم اور خاص کر متوسط طبقے کو ادا کرنی پڑی اس کا احساس مسرور جہاں کو فکشن کی اس دنیا میں لے آیا جہاں انھوں نے تہذیبی زوال اور اخلاقی اقدار کی تصویر سادگی اور حقیقی رنگ میں پیش کی کیونکہ یہی زوال سماجی زندگی سے گزر کر رفتہ رفتہ گھروں کے اندر اس طرح داخل ہو گیا تھا کہ آج سرِ عام اس کے برہنہ مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اپنی جڑوں سے بے رغبتی اور نئی تہذیب کی جانب عوام کی اندھی دوڑنے مسرور جہاں کے درد کومزید گرمایا اور ہر کامیاب ادیب کی مانند انھوں نے اپنی تحریروں میں اپنے دل میں امڈ رہے طوفان پر قابو رکھ کر نہایت سادگی کے ساتھ اخلاقی زوال اور دم توڑتی تہذیبی اقدار کوصفحئہ قرطاس پر اتار دیا۔
”برسوں بعد وہ اپنے شہر آیا تھا۔اسے اپنا ملک چھوڑے نہ جانے کتنے ماہ و سال بیتے تھے۔بس اتنا یاد تھاکہ جب وہ گیا تھا تو بیس،اکیس سال کا نو جوان تھا اور یہ شہر بھی پوری طرح جوان نہیں ہوا تھا۔ عمارتیں، سڑکیں، گلیاں آج کی طرح خوبصورت نہیں تھیں۔یہ اونچی اونچی عمارتیں، جگ  مگ کرتے بازار، پختہ اور ہموار سڑکیں، سرسبزپارک گویا ایک نیا شہر وجود میں آگیا تھا۔ اوبڑ کھابڑ گلیاں کھڑنجہ لگا کر سنواری گئی تھیں۔انھیں گلیوں میں اس کا مکان تھا۔لیکن اب یہ گلیاں  اجنبی ہو گئی تھیں۔اور اس کا گھر کہیں کھو گیا تھا ساری نشانیاں غائب تھیں۔“        1
مسرور جہاں نے چونکہ پرانی متاع حیات کو مٹتے دیکھا اسی لیے ان کے یہاں بدلتے ہوئے کلچر کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔پرانی عمارتوں کے انہدام کا کرب، رسم و رواج کی فنا کا ماتم، اخلاقی قدروں کے زوال کا احساس، پرانی تہذیب کی جگہ نئی تہذیب کا غلبہ، زندگی کے بدلتے آداب و اطوار کا نقشہ ان کی سطروں میں اس لاوے کی مانند موجود ہے جو اندر ہی اندر انسانیت کا گلا گھونٹ رہا تھا۔ خاص طور پر لکھنؤ کی عظمت پارینہ جو لکھنوی طرز معاشرت کا اقبال بلند کرنے کے بعد رفتہ رفتہ محلات، حویلیوں، بالا خانوں، عشرت گاہوں، شہزادیوں کے آنگن، بارونق بازار، ناز و ادا کی محفلوں کو تابناکی عطا کرنے کے بعد مادی اور مشینی عہد کی نذر ہوگئیں تھیں جس کابرملااظہاران کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔
”دونوں فرقے کے بزرگ اس نئی صورت حال سے سخت پریشان تھے۔انھیں ان سر پھرے نوجوانوں کے ہاتھوں اس شہر کی پرانی تہذیب اور بھائی چارے کی روایت کا خون ہوتے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔لیکن نیا خون اتنا گرم تھا کہ بزرگوں کے سمجھانے بجھانے سے اس کا ٹھنڈا ہونا مشکل ہی نظر آتا تھا۔“2
”آپس میں بھائی چارہ اور محبت ایسی کہ شادی بیاہ میں باورچی اور حلوائی آمنے سامنے بیٹھ کر پلاؤ، متنجن، شیرمال،کباب قورمہ بریانی پوری کچوری اور مٹھائی بناتے تھے مگر دیکھنے والوں کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ اصل میزبان کون ہے۔ہولی، دیوالی اور بقر عید کی رونق دونوں فرقوں کے دم سے تھی۔لیکن زمانے کی رفتار بدلی تو سب کچھ بدل گیا۔پھر ایک وقت ایسا آیا،جوصدیوں کے ہمسایے ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے“3
تہذیب کی اسی بدلی ہوئی صورت حال نے ان کو متاثرکیاکیونکہ انھوں نے نہ صرف سماج کو بہت قریب سے دیکھا تھابلکہ اس میں سانس لیتی ہوئی زندگی کا بغور مطالعہ بھی کیا جس کی عکاسی ان کے افسانوں اور ناولوں ”دھوپ دھوپ سایہ، پل صراط، کہاں ہو تم،خواب در خواب سفر، گردشیں، ہمیں جینے دو، کل کی سیتا، آج کی سیتا، چراغ پھولوں کے، تیرے میرے دکھ، اللہ تیری قدرت، جینے کے لیے، دھوپ چھاؤں، سمندر سیپ اور ساحل، مہکتا آنچل، راستے اور منزل، پرندے کا سفر، میں ساحلوں کی صدا، پاکیزہ آنچل، نا محرم، ناگ پھنی، لیلیٰ مجنوں، سچ کے سوا، پچھلا دروازہ، بوڑھا یوکلپٹس، نئی بستی، درد کے الاؤ، گردشیں، پیار کی خوشبو،  دھوپ چھاؤں،  آواز نہ دو، آشیانہ، نئی امنگیں وغیرہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ مسرور جہاں نے بڑی ہی سادگی اور دیدہ ریزی سے سماج میں بکھرے ان مسائل کو چنا جن سے معاشرہ جوجھ رہا تھا۔ ان کے فکشن کا مواد عام زندگی میں درپیش مسائل پر منحصر ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت جلد شہرت کا تاج ان کو نصیب ہوا۔ بے جوڑ شادی،جہیز کی بڑھتی ہوئی خواہش اور اس کے منفی اثرات،نئی تعلیم کے مثبت اورمنفی پہلو، اپنی اصل سے جدا ہونے کا غم، لاوارث اور نچلے طبقوں میں پل رہے بچوں کے مسائل،شہوت پرستی،شراب نوشی،سود خوری، مسلم سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش، ضمیر کی موت،انسانیت کا قتل، رشتوں کا خون،غیر محرم سے نہ صرف کنواری لڑکیوں کی بے راہ روی کے قصے بلکہ شادی شدہ افراد کی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز رشتوں کا سہارا لینا،غرض سوسائٹی میں پھیل رہے وہ تمام منفی تصورات جو اخلاق کو پستی کی منزل کا راستہ دکھا چکے ہیں ان پر انگشت نمائی کی ہے چند سطریں ملاحظہ ہوں:
”سنا ہے کہ تم بہت پڑھی لکھی ہو۔لیکن تمھاری پڑھائی کا گھمنڈ یہاں نہیں چلے گا۔تمہارا کام تو میری اور میرے گھر والوں کی  سیوا کرنا ہے۔سواس میں کمی نہ آئے۔ورنہ۔آگے تم خود سمجھ دار ہو۔“
”دوسری بار میرا پاؤں بھاری ہوا تو سا س نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر اس بار لڑکی ہوئی تو اچھا نہ ہوگا۔میری نظروں میں مٹی کے تیل کا وہ کنستر ناچ گیا جو رسوئی گھر کے ایک گوشے میں لبالب بھرا رکھا رہتا تھا۔مجھے اپنا انجام صاف نظرآنے لگا“4
”ڈارلنگ!  کچھ نہیں ہوگا۔سب ہی عورتیں ماں بنتی ہیں۔تھوڑے دنوں کی تو بات ہے۔اس کے بعد تم پہلے سے زیادہ   حسین ہو جاؤگی۔
میرے فیگر کا ستیا ناس ہو جائے گا۔مجھے تو یہ سوچ کر ہول آنے لگتا ہے۔کرن نے جھر جھری لی۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم فی الحال بچے کا خیال چھوڑ دیں۔
میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔اب خیال چھوڑنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تم آدھی ماں بن چکی ہو۔
میرا مطلب ہے کہ میں ابارشن کرا لوں۔
وہاٹ۔تمھارا دماغ تو درست ہے؟۔وجے چیخ اٹھا۔“5
سماج میں پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل کو ان کی تحریروں کے ذریعے بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔مشترکہ خاندان جو کسی عہد میں خوشی و غم میں برابر شریک ہوتا تھا آج وہ ایک مکان یا فلیٹ میں اس طرح تبدیل ہو گیا کہ خود مکان مالک کی آواز بھی اسی کے اندر سمٹ کر رہ گئی ہے،تنہائی کے بڑھتے ہوئے احساس کو بھی مسرور جہاں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے خود عوام نے مغربی چمک کو قبول کیا اور دیرینہ قدروں کا اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور نہایت افسوس ہے کہ آج ہم ان قدروں کو دفن کر رہے ہیں اور آئندہ آنے والی جماعت کو احساس بھی نہ ہوگا کہ اس ملک میں کبھی کوئی تہذیب موجود بھی تھی یا نہیں۔مسرور جہاں کا یہ قول حقیقت بر مبنی ہے کہ:
”وقت کتنا تیز گام ہے کہ ایک پل نہیں ٹھہرتا اور ظالم ایسا کہ کسی کے دکھ سکھ کا بھی خیال نہیں کرتا۔    بس آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے،خوشیوں کو روندتا،دکھوں کو سمیٹتا،نہ پیچھے چھوٹنے والوں کی فکر،نہ ساتھ چلنے والوں کالحاظ،ایک دن پھول بیگم نے حساب کتاب کیا تو پتہ چلا آغاصاحب کو جدا ہوئے برسوں بیت گئے“6
 وقت کی تغیر پذیری کا احساس ان کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے اور خاص طور پر یہ تبدیلی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ دنیا کس برق رفتاری سے بدل رہی ہے اور ہم غفلت کی چادر اوڑھے پڑے ہیں اسی ا حساس نے مسرور جہاں کو بے چین کر دیا وہ خود کہتی ہیں ”کیا ہمارا زوال پزیر معاشرہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ رفتہ رفتہ ہماری پرانی تہذیب،رسم ورواج،زبان،رہن سہن، اقدار، حد ہے کہ امکانات تک معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔اگر ہم مڑ کر پچاس ساٹھ سال پہلے کے دور پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ فرق نمایاں طور پر نظر آئے گا“(چہار سو:راولپنڈی میں شائع انٹرویو)
تہذیبی زوال ظاہری عناصر کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ داخلی و اندرونی احساسات کابھی خون کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا فقط بازار مکان اورسازوسامان کا نقشہ ہی تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی قدیم محلات کی دیواروں کو گرا کر نئی عمارتوں کی تعمیر ہوئی بلکہ انسانی زندگی کی وہ اخلاقی اقدار جو تہذیب کا پیش خیمہ تھیں جن میں تہذیبی جڑیں پیوست تھیں اخلاق و تہذیب کی وہ امر بیل جو پورے سماج میں زندگی کی روح پھونک رہی تھی اس کو بھی نئے اور پیچیدہ مسائل اور بدلتی ہوئی اقدار نے کھوکھلا کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر نامہ بدل گیا اسی متبدل سماج میں دن بہ دن پیدا ہوتے مسائل کو مسرورجہاں نے کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے جو ان کی گہری بصیرت کی غمازی کرتا ہے۔بقول وقار ناصری:
”ان کے افسانوں میں گمشدہ تہذیبی رشتوں سے لے کر عہد حاضر کے مسائل تک ایسے بہت سے موضوعات ہیں جو اس معاشرے میں موجود ہیں بیانیہ کی کسی پیچیدگی کے بغیر وہ اپنے افسانوں میں زندگی کے وہ رنگ بھرتی رہیں جن سے ان کے افسانے تخلیقی فکر، افسانویت، حقیقت اور وحدت تاثر کا نمونہ بن جاتے ہیں۔انہوں نے عہد زوال کی کہانیاں بھی لکھی ہیں اور اس سماج کی بھی جو تقسیم اور اس کے بعد کی صورت حال کا زائیدہ ہے“۔7
مسرورجہاں کا انداز بیان بھی ان کی شخصیت کو تابناک بنا دیتا ہے ان کی خوبی یہ ہے کہ بغیر کسی انقلاب و تیکھے انداز کے اپنی کہانیوں کا تانا بانا نہایت سادگی سے بنتی ہیں جس نے ذہنی احتجاج پیدا کرنے کے بجائے دلوں کو مسحور کر لیا ان کی کہانیاں دل کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایک کسک بھی پیدا کر دیتی ہیں۔ماضی کی سادگی اور موجودہ زمانے کے پر پیچ حیاتی مسائل نرم و سبک انداز سے بیان کرنا انہی کا حصہ ہے۔مسرور جہاں کی شخصیت روایتوں سے پیوست نظر آتی ہے وہ قدروں کو عزیز رکھتی ہیں بقول مسرور جہاں روایت پسندی تو ہمارے خمیر میں شامل ہے کیونکہ روایت ایک زندہ جاوید حقیقت ہے۔انھیں روایتوں نے ہمیں قلم پکڑنا سکھایا۔نئی راہوں کی نشان دہی کی اور انھیں روایتوں کی روشنی میں ہمارا قلمی سفر جاری رہا۔روایتوں سے انحراف دراصل سچائی سے انحراف کرنے کے مترادف ہے۔ (چہار سو: راولپنڈی میں شامل شائع انٹرویو)
ایک بڑے افسانہ نگار کی شناخت اس کی بصیرت کی ان سطروں سے ہوتی ہے جو وہ سماجی زندگی اور افراد کے بیچ سے چن کر اپنی بصارت اور فن کے موتی پرو کر قاری کو حقائق سے دوچارکرواتا ہے مسرور جہاں کی تحریریں حقائق کو بغیر کسی بناؤ سنگار کے پیش کرتی ہیں انھوں نے نسوانی مسائل پر بھی نظر رکھی ہے اس کی وجہ غالباًیہ ہے کہ وہ خود ایک عورت ہیں اس لیے خواتین کی زندگی کے مدوجزر کو بخوبی جانتی ہیں انھوں نے صرف مرد سماج کو ہدف تنقید نہیں بنایا بلکہ عورت کے اخلاق کو زک پہنچانے والے عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو بھی اصلاح کی جانب مدعو کیا ہے۔مسرور جہاں نے جس عورت کو اپنے فکشن کا کردار بنایا ہے اس کے متعلق عائشہ صدیقی کے الفاظ بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
”ان کے افسانوں کا محور عورت ہے انھوں نے اس کے کردار پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔اس کے مسائل،الجھنیں اور سکھ دکھ کا بیان ان کے کافی افسانوں میں ملتا ہے ایک خاتون افسانہ نگار ہونے کے ناطے وہ اس کی  نفسیات سمجھنے کی کوشش بھی کرتی ہیں اور اس کے گھر سنسار پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں ان کے افسانوں میں زیادہ تر عورت کی پروقارشبیہیں نظر آتی ہیں ساتھ ہی اس وقار اور انا کو مجروح کرتی ہوئی تصویریں بھی پیش کی ہیں لیکن ان کا قلم کہیں بہکا نہیں ہے اورزبان و بیان میں اخلاقی قدروں سے تجاوز نہیں کیا ہے“۔8
عائشہ صدیقی کا یہ قول بالکل صائب ہے کیونکہ مسرور جہاں نے عورتوں کے مسائل اور کرب کواپنے فن میں اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ وہ واقعی قابل تعریف ہے۔یہاں چنداقتباسات سے عورتوں کے جذباتی اتار چڑھاؤ اورسماج میں ان کے ساتھ ہونے والے نا روا سلوک کا بخوبی اندازہ ہوتاہے اور ساتھ ہی ان کے قلم اور افکار کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
”یہ بھی سماج کا ایک المیہ ہے کہ ایک کنواری لڑکی کو بڑی آسانی سے پلے پلائے بچوں کی ماں بنا دیا جاتا ہے۔لیکن مردغیر کے بچے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔کیونکہ وہ مجبور نہیں ہوتا۔اور عورت مجبور ہوتی ہے یا بنا دی جاتی ہے۔“9
”پتی ہونے کا مطلب یہ بھی تو نہیں ہے کہ وہ اس کی کوکھ میں پلنے والے اپنے بچے کا بھی خیال نہ کرے۔ جسے اس کے نام کے ساتھ اس دنیا میں آنا ہے۔اور آج اس نام اور حق کو بنائے رکھنے کے لیے ایک ڈاکو کا دل پسیج گیا۔وہ چاہتا تو اس کو لوٹ سکتا تھا۔لٹیرا وہ نہیں۔پرکاش ہے۔اس کا پتی۔جو اس کا ریپ کر رہا تھا۔“10
”کیا پتہ تھا کہ مرد کا وعدہ اتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے۔یہ کہ مرد اتنا ناقابل اعتبار ہوتا ہے کہ سب کچھ بھولنے میں چند لمحوں کی دیر نہیں کرتا۔ایسے ناقابل اعتبار مرد کو وہ کیوں اپنی زندگی کی باگ دوڑ سونپے۔اپنے ڈھنگ سے جینا کیا برا ہے“۔11
غرض مسرور جہاں کی شخصیت قابل مبارک ہے جنھوں نے اپنے سادگی بھرے قلم سے تہذیبی و اخلاقی اقدار اور سماج میں درپیش مسائل کے دلدوز قصے حقیقی انداز میں اس طرح بیان کیے ہیں جو اعلی ادبی مقا م رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں شارب ردولوی کا یہ قول بھی ان کے قلم اور درجئہ عزت کے تعارف کے عین مطابق ہے۔
”مسرور جہاں کے افسانوں کا حسن ان کی سادگی میں پوشیدہ ہے ان کی زبان مثالی طور پر سادہ اور پرکشش ہے وہ بڑی معصومیت کے ساتھ کہانی کہتے کہتے ایک ایسا جملہ لکھ جاتی ہیں جو کہانی کو ایک نیا موڑ دے دیتا ہے اور افسانے کو واقعہ نگاری بننے سے بچا لیتا ہے۔“12
 حواشی:
.1        انتظار کی صدی مجموعہ خواب در خواب سفر، ص15
.2         اندھیارے میں ایک کرن مجموعہ خواب در خواب سفر،ص 187
.3         اندھیارے میں ایک کرن مجموعہ خواب در خواب سفر، ص188
.4         کل کی سیتا، آج کی سیتامجموعہ تیرے میرے دکھ 1987، ص104
.5         ساتھ ساتھ مجموعہ خواب در خواب سفر2016،ص97
.6         ایک شجر ایسا مجموعہ ہمیں جینے دو  ص27
.7         وقار ناصری۔مسرور جہاں کے افسانے،خصوصی اشاعت اودھ نامہ9مارچ2014
.8         عائشہ صدیقی۔مسرورجہاں۔ایک منفرد قلم کار،ایک صاحب طرز افسانہ نگار،اودھ نامہ8فروری 2016
.9         ٹکڑوں میں بٹی عورت مجموعہ خواب در خواب سفر2016،ص۔
.10      لٹیرامجموعہ خواب در خواب سفر2016، ص52
.11      واپسی مجموعہ خواب در خواب سفر2016 ص91
.12      شارب ردولوی،مسرور جہاں کی افسانہ نگاری
Raazia Khatoon
Research Scholar
Department of Urdu
A.M.U Aligarh 202002
raazia7860@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں