29/1/20

ترجمہ میں مداخلت اور ثقافت مضمون نگار: محمد طارق



ترجمہ میں مداخلت اور ثقافت

 محمد طارق

ترجمہ ذو لسانی تعامل ہے۔اصل اور ہدفی دونوں زبانوں کا اپنا مخصوص پس منظر ہوتا ہے۔ ہر زبان کسی نہ کسی مخصوص خطے کے ساتھ موسوم ہوتی ہے۔اس خطے میں بسنے والے افرادکو اس زبان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ہر خطہ اور علاقہ اور اس میں بسنے والے عوام یا قوم گوناگوں اوصاف، کیفیات، حالات کے باعث دوسری قوم سے ممتاز و متنوع ہوتی ہیں۔یہ امتیازی شناخت جغرافیائی محل وقوع، تاریخی کوائف، سماجی صورت حال، طرز معاشرت، تہذیب و تمدن  اور ثقافت سے قائم ہوتی ہے۔کسی بھی قوم کے علمی، فکری اور تہذیبی ارتقاء کو معلوم کرنے کاایک اہم وسیلہ وہاں کی رائج زبان ہوتی ہے کیونکہ اصلاًزبان ہی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
ہر دو زبانیں آپس میں مختلف و متنوع ہوتی ہیں۔ زبانوں میں اختلاف کا بنیادی عنصر تہذیب و ثقافت میں پیوست ہوتا ہے۔جن زبانوں میں ثقافتی بُعد زیادہ ہوگا ان میں لسانی تعامل زیادہ مشکل ہوگا اور جو زبانیں ثقافتی اعتبار سے جس قدر قریب ہوں گی ان میں ترجمہ کا عمل قدرے آسان ہوگا۔ ثقافتی اجنبیت کی وجہ سے مترجم کو دوران ترجمہ کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی مشکل کو حل کرتے ہوئے ترجمہ شدہ متن میں کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں۔
 ایک زبان کے متن کی دوسری زبان میں منتقلی کے دوران راہ پاجانے والے تغیر وتبدل اور انحرافات جسے علم ترجمہ میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے، نا گزیر ہیں۔ کوئی بھی ترجمہ مداخلت سے مبرا نہیں ہوسکتا ہے۔ قارئین کا وقوفی ماحول یعنی ان کے فہم و ادارک کی سطح، مروج ڈسکورس اور تسہیل متن وغیرہ کئی ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے قصداً یا بلا قصد، شعوری یا غیر شعوری طورپر ترجمے کے دوران مداخلت ہوجاتی ہے یا کرنی پڑتی ہے۔ ان اسباب میں ایک اہم سبب ثقافت ہے۔ ترجمے میں مداخلت کی سب سے بڑی وجہ ثقافتی اختلاف ہی ہوتا ہے۔ 
 ترجمہ میں جو کچھ مداخلتیں ہوتی ہیں ان میں ثقافت کا کیا رول ہے اس کو جاننے سے پہلے ہمارے لیے ثقافت کو سمجھنابایں معنی نہایت ضروری ہے،کہ اس کے بعد ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زبان میں اس کا اثر و نفوذ کس حد تک ہے؟  زبان اوراس کی ساخت میں ثقافتی عناصر کس قوت کے ساتھ پیوست ہیں۔کیوں کہ ترجمہ میں سارا کھیل زبان ہی کا تو ہے۔
ثقافت ایک ایسا لفظ یا ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا سامنا ہر شخص کو ہوتا رہتا ہے، اور تقریبا ہر کسی کے ذہن میں اس کا کچھ خاکہ ہوتا ہے لیکن اگر کسی سے ثقافت کی تعریف کرنے کی بابت سوال کیا جائے تو بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اس کو کماحقہ واضح کر سکیں۔ہیلن اسپنسر اوٹے لکھتے ہیں:
ثقافت ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تعریف انتہائی مشکل ہے۔ 1952میں امریکی ماہر بشریات کروبر اور کلے کون نے ثقافت کی تعریفات اور تصورات کا تنقیدی جائزہ لیا اور 164 مختلف تعریفات کی ایک فہرست تیار کی۔Apte (1994-2001)نے السنہ و لسانیات کی دس جلدوں میں شائع ہونے والی انسائیکلو پیڈیا لکھنے کے دوران مسئلے کا اختصار اس طرح کیا ہے: ثقافت کی مناسب تعریف کے لیے ایک صدی تک ہونے والی کوشش کے باوجود 1990 ء کی ابتدا تک ماہرین بشریات کے درمیان اس کی نوعیت کے متعلق کوئی اتفاق نہیں ہوسکاتھا۔  1
مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ثقافت کی بالکل متعین تعریف کرنا کتنا مشکل ہے۔ ثقافت کا تصور توبہت قدیم ہے لیکن ثقافت کا تصور تغیر پذیر ہے۔ وقفے وقفے سے اس کے عناصر یا مشمولات میں کمی،زیادتی یا تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ثقافت اردو زبان کا لفظ ہے جس کا انگریزی متبادل Culture ہے۔ عربی میں اس کے لیے الثقافۃ کی اصطلاح رائج ہے۔آئندہ لفظی و اصطلاحی دونوں بنیادوں پر اس کی توضیح کی کوشش کی جائے گی:
ثقافت کی لفظی تعریف:
Oxford Adcanced Learner's Dictionary میں "Culture" کے معنی ہیں۔
رسوم اور عقائد، فن، زندگی گزارنے کا طریقہ اور کسی خاص ملک یا گروپ کی سماجی تنظیم۔
کسی چیز کے متعلق ایسے عقائد اور رویے جو لوگ مخصوص گروپ یا تنظیم میں شیئر کرتے ہیں۔
فیروز اللغات کے مطابق ثقافت کے معنی ہیں:
عقلمند ہونا، نیک ہونا، تہذیب
انگریزی اردو لغت میں Culture کا معنی مذکور ہے:
تہذیب، تمدن، ثقافت،ذہنی تربیت
عربی لغت معجم المعانی میں معنی ہے:
العلوم و المعارف والفنون التی یطلب الحذق فیہا
ایسے علوم و معارف اور فنون جس میں مہارت کی ضرورت ہو۔
ثقافت کی اصطلاحی تعریف:
ثقافت کی بہت ساری تعریفیں کی گئیں ہیں جن کا نہ تو احاطہ ممکن ہے۔  برائے حاصل مقصود چند تعریفات ذکر کی جاتی ہیں جس سے ثقافت کے مفہوم کا ادراک سہل ہوسکتا ہے۔
برطانوی ماہر بشریات ٹیلر کا کہنا ہے کہ:
ثقافت یا تہذیب اپنے وسیع اخلاقی مفہوم کے اعتبارسے اس پورے مجموعے کا نام ہے جس میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق،قانون، رسم و رواج،اور سوسائٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے فرد کی حاصل کردہ صلاحیتیں اور عادات واطوار سب شامل ہیں۔ 2
ہافٹیڈ کے مطابق:
ثقافت ذہن کی اجتماعی پروگرامنگ ہے جو ایک گروپ یا طبقہ کے افراد کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔  3
ثقافت کے متعلق میٹ سومو کا کہنا ہے کہ:
(ثقافت) رویوں، اقدار،عقائد،اور سلوک کاایک سیٹ ہے جو ایک گروپ کے لوگوں کے درمیان مشترک ہوتا ہے، لیکن ہر فرد کے درمیان کچھ فرق ہوتا ہے، ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا ہے۔  4
اب اسی کے ساتھ ہم یہ غور کریں گے کہ عربی میں ثقافت کی اصطلاح میں کیا معانی پوشیدہ ہیں:
ثقافت ذہن میں زندہ خزانہ ہے۔یہ علوم، معارف، افکار، عقائد، فنون، ادب، اخلاق، قوانین،رسم و رواج، ذہنی و حسی ادراکات،لسانی و تاریخی ورثے،اور وہ ماحول جس میں انسان کا فکری سانچہ تیار ہوتا ہے، کے نتائج پر مشتمل ہوتا ہے، اور اس کو وہ سابقہ صفات و معاشرتی اقدار عطا ہوتی ہیں جس سے زندگی میں اس کا عملی رویہ وجود میں آتا ہے۔ 5
ان تمام تعریفات کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ثقافت وہ امتیازی وصف ہے جو کسی خاص گروپ، قوم یانسل میں موروثی طور پر پایا جاتا ہے۔ نیز یہ انفرادی امتیاز بدلتے وقت کے ساتھ تغیر پذیر بھی ہوتے رہتے ہیں۔ان کے اقدار و معیارات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں؛ لیکن یہ ان افراد کا مجموعی خاصہ ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے ہیں۔
زبان اور ثقافت کا رشتہ:
 زبان کے متعلق یہ مغالطہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ محض اپنے خیالات و احساسات اور اپنی ضروریات کے بیان کا ذریعہ ہے۔اصل احساس سے یا خیالات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف خیال کی ترسیل ہے۔ گویا زبان ایک ایسا ظرف ہے جو اپنے مظروف سے جدا ہے۔ اس سے نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی خطے یا علاقے میں مروج زبان کے بجائے کوئی دوسری زبان بولی جانے لگے تو وہاں کے علاقائی و ثقافتی اقدار و ہیئت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوگی ٹھیک اسی طرح جیسے پانی کو جس گلاس میں چاہیں منتقل کردیں پانی اور گلاس دونوں کی نوعیت و فطرت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن زبان کے تعلق سے یہ خیال بایں معنی درست نہیں ہے کہ ثقافت ہر انسان کے تحت الشعور میں پیوست ہوتی ہے۔ انسان کے پاس اسے ظاہر کرنے کا زبان کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ ہی نہیں ہے۔زبان سے الگ ہٹ کر ہماری قوت اظہار گونگی ہے۔ لہٰذا زبان اور ثقافت کو پانی اورگلاس کے بجائے، گوشت اور ناخن سے تعبیر کرنا زیادہ موزوں ہے۔ زبان ثقافت کے بغیر بے رنگ اور ثقافت زبان کے بغیربے نمو۔ماہر لسانیا ت چامسکی نے کہاتھا کہ:
زبان در اصل تہذیب سے مختص ہے“   6
یہ بات عام طور پر قبول کی جاتی ہے کہ زبا ن ثقافت کا ہی ایک حصہ ہے،اور یہ کہ ثقافت میں زبان کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔چند ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ زبان کے بغیر ثقافت کا وجود ہی ناممکن ہے۔زبان بیک وقت ثقافت کی عکاسی کرتی ہے، اس کو متاثر کرتی ہے اور زبان کے سہارے ہی ثقافت کی تشکیل ہوتی ہے۔ وسیع مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگوں کا علامتی اظہار ہے؛ کیوں کہ اس کے اندرتاریخی و ثقافتی پس منظر ہوتا ہے نیز یہ کہ وہ کس انداز میں زندگی گزارتے ہیں، زندگی کے متعلق ان کا نظریہ کیا ہے، ان کا طرز فکر کیا ہے۔براؤن نے ثقافت اور زبان کے رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ زبان ثقافت کا جز ہے اور ثقافت زبان کا، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیوست ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور اگر جبرا ً الگ کیا گیا تو دونوں میں کسی ایک کا امتیاز ختم ہو جائے۔مختصرا ً یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ناقابل تقسیم ہیں۔
زبان ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے کیونکہ زبان کے وسیلے سے ثقافت کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔زبان و ثقافت مشترکہ طورپر ایک زندہ جسم کے مانند ہیں، جس میں زبان کی حیثیت گوشت کی ہے اور ثقافت خون کا درجہ رکھتی ہے۔ثقافت کے بغیر زبان مردہ ہوجائے گی اور زبان کے بغیر ثقافت کا وجود ہی نہیں ہوگا۔ندا کا یہ نظریہ ہے کہ:
 زبان و ثقافت دو علامتی نظام ہیں۔جب ہم کوئی لفظ بولتے ہیں تو وہ اپنے اندر کچھ معنی رکھتا ہے،خواہ وہ معنی تعیین ہو یا معاشرتی،دلالتی ہو یامضمراتی۔ کوئی زبان ہم بولتے ہیں تو اس کا معنیاتی نظام ہوتا ہے اور ہر ایک کا معنی یکساں مفہوم نہیں رکھتا کیو نکہ اس کا رشتہ ثقافت سے جڑا ہوا ہے اور ثقافت زبان کے مقابلے میں زیادہ بسیط ہے۔ 7
یہ بات معلوم ہے کہ دو زبانوں کے یکساں معنی رکھنے والے لفظ بھی یکساں مفہوم نہیں رکھتے یا دونوں زبان بولنے والے اس سے یکساں مفہوم نہیں اخذ کرتے یا یکساں مفہوم میں نہیں استعمال کرتے۔ چناں چہ جب ایک انگریز Lunchبولتا ہے تو اس سے پزا یا برگر مراد ہوتا ہے لیکن جب ایک ہندوستانی Lunch بولتا ہے تو اس سے روٹی یا چاول جیسی غذا مراد ہوتی ہے۔انگریزی لفظ Dog اور اس کا اردو متبادل  ’کتا‘ دونوں علامیوں کا خارجی مظہر ایک ہی جانور ہے۔بہت سے انگریز وں کے نزدیک کتا بہترین دوست ہوتا ہے، یہ عام طورپر ان کا پالتو جانور ہے۔ان کے محاورے میں یہ لفظ انتہائی مثبت اور پیارے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مثلاًLucy dog،top dog، وغیرہ۔جب کہ ہندوستانی ثقافت میں کتا رکھوالی کرنے والا اوربھونکنے والاجانور مانا جاتا ہے۔اس جانور کو نہ صحیح(گو کہ مغربی ثقافت کے زیر اثر اس کی بھی حیثیت بدل رہی ہے)اس لفظ کو انتہائی مکروہ بلکہ مترادف گالی کے تصور کیا جاتا ہے۔
اسے غصے اور نفرت کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
زبانوں کے اندر الفاظ کی تشکیل و آمد بھی ثقافتی پس منظر میں ہوتی ہے۔جیسے عربی میں گھوڑے، اونٹ اور شراب کے لیے سیکڑوں سے زیادہ اسما ہیں جس کو وہ بہ آسانی سمجھتے ہیں اور ان الفاظ کے معنوی فرق سے آگاہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہماری زبان میں ان کے لیے بمشکل ہی چند الفاظ مل سکتے ہیں،کیوں کہ ہماری ثقافت میں ان کا وہ مقام یا حیثیت تھی یا ہے ہی نہیں جو عرب ثقافت میں تھی۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ زبان ملک اور کسی بھی طبقے کی ثقافت کی عظیم شناخت کا اہم جز ہے۔
اب دو چیزیں واضح ہو گئیں،ثقافت کا- لغوی و اصطلاحی- مفہوم،اور ثقافت و زبان کے درمیان تعلق۔یہ بات معلوم ہے کہ ترجمہ ایک لسانی تعامل ہے جس میں ایک زبان دوسری زبان کے پیکر میں ڈھلتی ہے۔ یہ پیکر ثقافت کے تانے بانے سے بنا ہوا ہے۔جو کہ اس کے وجود کو لازم ہے۔مترجم اسی رساکشی کا عمل انجام دیتا ہے، اڈھیڑ بن کرتا ہے۔لہٰذا اس کی ہیئت و نوعیت میں تبدیلی تو لازمی ہے۔آئندہ اسی عمل کا جائزہ لیاجائے گا۔
ثقافت اور مداخلت
یہ مسلمہ حقیقت ہر ماہر زبان پر عیاں ہے کہ زبان اور ثقافت کا ایک لازم و ملزوم گہرا،اٹوٹ رشتہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیوست ومربوط ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ایک دوسرے کے وجود کو نابود کرنے کے مترادف ہے۔ زبانوں کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہر زبان کا اپنا جو خاص امتیازی وصف یا شناخت ہوتی ہے وہ اس کی ثقافت سے جنم لیتی ہے۔ اگر زبانوں کا ثقافتی پس منظر ختم کر دیا جائے تو ان کی نیرنگی معدوم ہوجائے گی، ان کا متفرق مذاق و ٹیسٹ پھیکا ہو کر رہ جائے گا۔ چناں چہ اگر غور کیا جائے تو ہر زبان اسی خاص شناخت کی وجہ سے دوسری زبانوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دوسری خصوصیات بھی زبانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں جو ان کو علیحدہ شناخت عطا کرتی ہیں۔
ہر قوم اور ہر علاقے کی اپنی مخصوص ثقافت ہوتی ہے، وہ اس قوم یا علاقہ کی شناخت ہوتی ہے، ان کو انھیں ممتاز ثقافتی اوصاف کی بنا پر دوسری قوموں یا دوسرے علاقوں میں بسنے والے افراد سے الگ کیا جاتاہے۔یہ خصوصیات ان افراد یا افراد قوم کے لیے انتہائی عزیز ہوتی ہیں۔ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اور خود کو ان کا وارث و امین گردانتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں مختلف قوموں اور مذاہب کے لوگ بستے ہیں ان کے عقائد ان کے طور طریقے، رسومات، رہن سہن، سلوک و رویے الگ الگ ہیں۔ یہ تمام لوگ الگ الگ اکائی ہیں اور ان کے اپنے عقائد، رسومات ہیں، طور طریقے ہیں جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ مثلا ہندوستان کے جنوبی علاقے میں رہنے والے لوگوں کے عادات و اطور، رجحانات و میلانات،ترجیحات الگ ہیں جب کہ شمال میں بسنے والوں کی الگ۔ پھر یہ الگ الگ اکائیاں متحدہ اکائی بناتی ہیں اور ہندوستانی ثقافت جنم لیتی ہے۔ اسی طرح اکائی در اکائی اور اکائیوں میں اتحاد و افتراق کا یہ عمل جاری رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی اتحادو افتراق بھی سفر میں رہتے ہیں۔ ان کے درمیان قربت و بعد میں کمی و زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ جیساکہ میٹ سومو نے کہاتھاکہ (ثقافت)رویوں، اقدار، عقائد، اور سلوک کاایک سیٹ ہے جو ایک گروپ کے لوگوں کے درمیان مشترک ہوتا ہے، لیکن ہر فرد کے درمیان کچھ فرق ہوتا ہے
جس طرح جب دو ثقافت کے لوگوں کی ملاقات ہوتی ہے یا ان کے درمیان معاملات ہوتے ہیں توان کو سمجھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ ان کے درمیان ثقافتی افتراق حائل ہوتا ہے۔ اسی طرح جب دو ثقافتوں کی امین دوزبانوں کا آپسی تعامل ہوتا ہے تو ان کے درمیان مسائل و مشکلات کا پیدا ہونا ایک لازمی بات ہے کیونکہ اس بات کاپہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ زبان کا ثقافت سے بہت ہی گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ثقافتی افتراق یا بعد لسانی لین دین کے میدان کا ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ جس کا سامنا مترجم کو ہر وقت کرنا پڑتا ہے۔
مترجم کو ہر وقت اس دو طرفہ جنگ سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی زبان خواہ وہ علاقائی یا زمانی اعتبار سے کتنی ہی قریب نہ ہو اس میں ثقافتی فرق ہونا لازمی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی دوزبانوں، ہندی اور اردو کو ہی دیکھ لیجیے دونوں میں قدریں اس حد تک مشترک ہیں کہ ایک عام آدمی بھی بغیر مترجم کے بلا تکلف بآسانی بات کر سکتا ہے، اپنی بات پہونچا سکتا اور سامنے والے کی بات کما حقہ سمجھ سکتا ہے۔ منور رانا نے کہا ہے:
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے  ہندی اور  اردو  میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
 اس قربت کے باوجودآپ ہندی کا ایک پیرا گراف خصوصا ادبی ٹکڑا لیجیے اور اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کیجیے، دیکھیے کہ کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس وقت آپ کو اندازہ ہوگا کہ اتنی قریب کی دو زبانوں میں ثقافتی بُعد کا یہ حال ہے تو ایسی زبانوں میں جو آپس میں بہت بعد رکھتی ہیں ان کا کیا حال ہوگا۔اور ان کے ترجمے میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ثقافت سے دوری اور اس سے ناآشنائی مزاح پیدا کردیتی ہے۔ سارا لطف ضائع کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر ابھی قریب میں ایک فلم ریلیز ہوئی ’دیڑھ عشقیاں‘ جس میں مادھوری دیکشت نے ’بیگم ماہ پارہ‘ کا رول کیا ہے۔ جو ایک نواب مرحوم کی بیوہ ہیں۔فلم کی کہانی اور تقاضے اپنے جگہ لیکن ناقدین ادب کی نگاہ میں یہ ایک کمزور رول ہے، اور اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں ہوا۔اس کردار میں نوابی نزاکت و لطافت معدودم ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فلم کی ہیروئن جاگیردارانہ ثقافت سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔ جب ثقافت کو اسی زبان میں اور فلم کے پردے پر منتقل کرنے میں اس باریکی کی ضرورت ہے تو ادب کے اندر جہاں صر ف تحریر ی منظر نگاری ہوتی ہے اور قارئین کے ذہن سے آنکھ کا کام لینا ہوتا ہے، وہاں کتنی مشکل ہوگی۔اس ثقافت کی اثر انگیزی، اس کی لطافت، اس کی خوبی کو منتقل کرنا کتنا مشکل کام ہوگا۔
 آپ غور کریں اگر فلم مغل اعظم کو انگریزی میں تیار کیا جائے یا اس فلم کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو انگریزی ناظرین کے لیے فلم کو قابل قبول بنانے کے لیے مترجم کو کس قدر محنت کرنی ہوگی۔ فلم کے مکالموں میں کتنی تبدیلی کرنی ہوگی۔مترجم کو وہ فضا قائم کرنی ہوگی جس سے انگریزی ناظرین اس سے لطف اندوز ہوسکیں۔ فلم کی ابتدا میں الگ سے ایک مختصر ڈاکیو منٹری بنانی پڑے گی جو فلم کے پس منظر کے طورپر فضاسازی کا کام کرسکے۔
امراو جان ادا اردو کا شاہکار ناول ہے۔ اردو ادب میں خاص امتیاز کا حامل ہے۔اس میں اس وقت کے لکھنو ی مزاج کی پوری پوری عکاسی کی گئی۔ اس پورے ماحول کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس وقت لکھنؤ کا عام ماحول تھا۔ مشاعرے کی محفلیں ہوتی ہیں، مجرے ہوتے ہیں، نواب امرا، شرفا ان میں شریک ہوتے ہیں دادو تحسین سے نوازتے ہیں، طوائفوں پر اپنی جان چھڑکتے ہیں، طوائفوں کے مہذب و شائستہ ناز و نخرے ہیں، ان کی دلکش ادائیں، زبان وبیان کا جادو ہے، رسم و راہ کی داستانیں ہیں، تیتر و بٹیر بازی ہے، اجڑتے لکھنؤ کی پر کیف شامیں ہیں۔ کیا جس ثقافت میں یہ چیزیں ناپید ہوں وہاں کے قارئین و ناظرین کے لیے ان واقعات و کیفیات سے لطف اندوز ہونا، ان سے ثقافتی مذاق و مزاج سے حظ اٹھانااور درس عبرت لینا ممکن ہے؟ممکن تو کیا ہوگا ان کے لیے تو لا ینحل معمہ ہوگا۔
اردو میں ہندو مذہب کا ایک بڑا سرمایہ موجود ہے، صرف سرمایہ ہی نہیں اردو کے ہندو مذہب سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کے اساطیر، رسم و رواج، ہندو تشبیہات و تلمیحات بھی اردو کا حصہ ہیں اور بڑی آسانی سے سمجھی جاتی ہیں۔لیکن انھیں علاقوں میں جہاں ہندو اثر ہے۔جو علاقے ہندو ثقافت سے قدرے دور ہیں ان میں ان تشبیہات و تلمیحات کی تفہیمی سطح کم ہوتی چلی جائے گی گو کہ وہاں کے لوگ اردو سے واقف ہوں۔ خود وہ اردو داں جو ایک دو نسلوں سے مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں ان کے زبان و بیان اور خاص بر صغیر میں رہنے والے اردو داں حضرات کے زبان و بیان کا موازنہ کر کے دیکھ لیں تو اس کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ اگر ان میں کچھ فرق ہے تو وہ صرف اور صرف ثقافت کا۔
نیز یہ کہ کسی زبان کے الفاظ اس کے ثقافتی خمیر سے تیار ہوتے ہیں۔ اہل زبان کے مزاج، آب وہوا، سماجی و معاشی پس منظر، سیاسی صورت حال اور مذہبی وابستگی ہر ایک کا اثر ہوتا ہے۔ جیسے ہندی زبان کا لفظ ہے کلش، ظاہر ہے کہ یہ لفظ سراسر ہندومذہب اور ہندوستانی تہذیب کا عکاس ہے۔ اس لفظ کے ساتھ جو تہذیبی وابستگی ہے یا جو مذہبی عقیدت پوشیدہ ہے اسے ایک انگریزی زبان بولنے والا کس طرح سمجھے گا۔
ادب کا کوئی حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جس سے اہل زبان توخوب محظوظ ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے وہ چیزثقافتی بعد یا اجنبیت کی وجہ سے بے معنی ہوتی ہے۔ مثلاً امرء القیس کے معلقہ کا ایک شعر ہے:
تری الآرام فی عرصاتہا
و کیعانہا کانہ حب فلفل
اس کے صحن اور آنگن میں اونٹ کی مینگنیاں ایسے نظر آتی ہیں گویا کہ کالی مرچ کے دانے ہوں۔
مذکورہ بالا شعر میں بیان کردہ مضمون غیر عرب کے لیے توجہ کا باعث نہیں بن سکتا لیکن اہل عرب اور عربی زبان و ادب سے شغف رکھنے والے افراد اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
دنیا کی ہر زبان میں اس کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں جس میں اہل زبان کے لیے خاص آہنگ اور سرور، غنائیت اور نغمگی ہوتی ہے لیکن دوسری زبان بولنے والے افراد کے لیے وہ حظ موجود نہیں ہوتا ہے۔ جیسے یہ مصرع ’چلمن ہو یا نقاب سرکتی ضرورہے‘۔اس میں استعمال شدہ الفاظ مخصوص ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں جسے دوسروں کے لیے سمجھنا قدرے مشکل و دشوار ہے۔ اسی طرح میر تقی میر کا شعر ہے        ؎
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
اس شعر سے مترشح ہونے والے مفہوم کی بنیا د پر سودا نے اسے میر کی والدہ کا شعر قرار دے دیا تھا۔جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ میر کے چند مشہور زمانہ اشعار میں شامل ہے۔ شعرکے ترجمے سے کیا مقصد حاصل ہوگا نیز یہ کہ دوسری زبان میں میر کی یہ آہ کس حد تک سلامت رہے گی؟ کیا جو کیفیت و لطافت اردو ثقافت کے پروردہ کو اس سے حاصل ہوتی ہے وہ ایک انگریز کو حاصل ہو سکتی ہے۔
مذکورہ گفتگو سے یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ ثقافت کا تعلق صرف ادب سے ہی ہے اور ادبی ترجمہ میں ہی ثقافت کی بنیاد پر مداخلت کی ضرورت پیش آتی ہے۔بلکہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ ثقافت کی وسعت علوم، افکار،عقائد سب پر محیط ہے۔اور یہی صورت حال علمی، فلسفیانہ اور مذہبی تراجم میں بھی پیش آئے گی گو کہ کم۔
مثال کے طور پر قانونی ترجمہ کو ہی لیں، کسی بھی قوم یا ملک میں جو قوانین و ضع کیے جاتے ہیں وہ وہاں کے حالات و کیفیات کے مدنظر ہی وضع کیے جاتے ہیں،ان حالات کی تشکیل ثقافت کے زیر اثر ہی ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کے قانون کا ترجمہ بالکل اسی رنگ میں کر دیا جائے تو دوسری زبان کے لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا مشکل ہوگا۔ چناں چہ یا تو انھیں اس ثقافت سے روشناس ہونا پڑے گا یا ترجمہ میں وہ انداز اختیار کیا جائے گا جس سے ہدفی قارئین کا وقوفی ماحول ہم آہنگ ہو۔
یہی حال سائنسی تراجم کا بھی ہے۔جب ہم کسی غیر محتاط انداز میں کیے ہوئے ترجمے کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری طبیعت میں اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انداز ہمارے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ سائنسی و علمی تراجم کا بڑا مسئلہ اصطلاحات یا اصطلاحی الفاظ ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں ہمیں دوسری زبان کے الفاظ مستعار لینے پڑتے ہیں کیوں کہ ہماری ثقافت اس درجہ تک نہیں پہنچی ہوتی ہے جو اس مدنیت تک پہنچا سکے۔
یہی فرق ترجمہ میں کھل کر سامنے آتا ہے اور جب مترجم ترجمہ کرتا ہے تو اسے اس خلیج کو پاٹنا پڑتا ہے۔ وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ جس طرح اصل زبان کے قارئین اس تحریر سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ادبی چاشنی و لذت محسوس کرتے ہیں وہی لذت وہی چاشنی ہدفی زبان کے قارئین بھی محسوس کریں، اصل زبان کے اس فن پارے کی قدر و قیمت اصل زبان کے قارئین کی طرح ہدفی زبان کے قارئین کی نظر میں بھی قائم رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسے متن میں مختلف عمل انجام دینے پڑتے ہیں۔ وہ ہدفی زبان میں اصل کی مشابہتیں تلاش کرتا ہے۔ ثقافتی ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کرتاہے، اس خلیج کو ختم کرنے یا کم کرنے کے لیے ثقافتی یکسانیت کا ایک پل تعمیر کرتا ہے۔ اس بات کی از حد کوشش کرتا ہے کہ ہدفی قارئین کو اصل کے قریب سے قریب لے جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان کا اپنا مذاق بھی بر قرار رکھے۔گویا ایک کشتی تیار کرتا ہے جس میں ہدفی زبان کے قارئین کو سوار کر کے اصل زبان کے دریا کی سیر کراتا ہے۔ در حقیقت یہ پوری کوشش ہی ترجمہ میں ثقافتی پس منظر میں ہونے والی مداخلت سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔
حوالہ جات
1.            Helen Spencer-Oatey Compiled by A Compilation of Quotations What is Culture? (http://go.warwick.ac.uk/globalpadintercultural)
2.            Edward Burnett Tylor (1920), Primitive culture: researches into the development of mythology, philosophy, religion, language, art and custom. Pg. 1
3.            Hannah Slavik (2004), Intercultural communication and Diplomacy, Diplofoundation Malta and Geneva. Pg. 26
4.            H. Spencer-Oatey and Peter Franklin (2009). Intercultural Interaction: A Multidisciplinary Approach to Intercultural, Communication. Pg. 14
5.            http://www.startimes.com/f.aspx? t=30872875
.6            خلیق انجم، فن ترجمہ نگاری،ص123
7.            The relationship between culture and language wenying Jiang. ELT Journal Vol-54/4. October 2000. Oxford University Press.



 Mohd Tarique
H.No. 9-4-97/15,
Al Noor Residency, 3rd Floor,
Hakeem Shah Colony, Mini Brindavan Colony,
Tolichwoki, Hyderabad, 500008  (Telangana)




ماہنامہ اردو دنیا، جنوری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں