31/1/20

شفیع جاوید: اوراقِ زندگی مضمون نگار: سید مسعود حسن



شفیع جاوید: اوراقِ زندگی

 سید مسعود حسن



شفیع جاوید صاحب سے میری ملاقات کب ہوئی یہ تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ ملاقات کا ذریعہ کتاب بنی تھی۔غالباًپندرہ سال قبل کی بات ہے میں ان دنوں اکیوزیشن سیکشن کا انچارج تھا۔شفیع صاحب کسی کتاب کی تلاش میں پہنچے  تھے۔میں نے وہ کتاب انھیں مہیا کرادی اور اس طرح انھیں اپنی کتاب اور مجھے ایک سنجیدہ قاری مل گیا۔شفیع صاحب کے مطالعے کا دائرہ بہت وسیع تھا۔وہ اردو ادب کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کے بھی قاری تھے۔عربی فکشن کے  تراجم کی تلاش میں رہتے اور میں انھیں لائبریری کے ذخائر سے مطلوبہ کتابیں مہیا کردیتا۔ کتاب کی تلاش کے دوران میں نے فلسطینی مصنف Mourid Barghouti کی کتابI Saw Ramallah جب انھیں پڑھنے کو دی تو اس کتاب نے انھیں بہت متاثر کیا جس کا ذکر وہ اکثر کرتے تھے۔وہ اکثر مجھے نئی نئی کتابوں کے بارے میں بتاتے اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرتے۔Nautej Sarna،Orhan Pamuk کی کتابوں کی طرف انھوں نے ہی توجہ دلائی تھی۔ہماری لائبریری میں ایسی کتابوں کے قاری خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ایسی صورت میں شفیع جاوید صاحب ہماری لائبریری کے  بہت اہم ممبرتھے۔یہاں ایک نام اور لینا چاہوں گا  اور وہ ہے معصوم عزیز کاظمی صاحب کا۔ کاظمی صاحب پٹنہ میں ہوں،گیا میں  یا پھر بنگلور میں، نئے کتب و رسائل کے بارے میں ضرور دریافت کرتے ہیں اور ساتھ ہی نئی کتابو ں کی طرف توجہ بھی دلاتے ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ایسے لوگوں کو یقینا کتابیں دعائیں دیتی ہوں گی۔ لائبریری میں اگر آپ کی انتخاب کی ہوئی کتاب کو ایسے قاری مل جاتے ہیں  تو یہ بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے۔ میں نے اسے محسوس کیاہے۔
جب تک شفیع صاحب کی صحت ٹھیک رہی تب تک وہ خود لائبریری آتے اور اپنی پسند کی کتابیں لے جاتے۔جب پیر کی تکلیف زیادہ بڑھی تو آنا کم ہوگیا۔ ایسے میں جاوید اختر ان کے مدد گار ثابت ہوئے اور  مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔
شفیع جاوید صاحب جہاں لائبریری کے لیے ایک معتبر قاری تھے وہیں میرے لیے ایک سر پرست کی حیثیت رکھتے تھے۔میری اور گھر والوں کی خیریت دریافت کرتے۔حسب ضرورت مفید مشورے دیتے  خاص کر اگر بیماری کی خبر ملتی تو طبی مشورے دیتے۔ ہومیوپیتھک دواؤں کی  انھیں اچھی معلومات تھی اور مرض کے لحاظ سے ہومیو دوا بھی تجویز کرتے۔
شفیع صاحب کو مطالعے کا ہی صرف شوق نہیں تھا بلکہ وہ  مطالعے کے بعداپنی نوٹ بک میں کثرت سے نوٹس تیا ر کرتے تھے۔ہارون نگر جب ملنے جاتا تو اکثر مجھے سناتے تھے اور پڑھنے کے لیے بھی دیتے تھے۔ان ڈائریوں میں شفیع جاوید صاحب کی الگ ہی دنیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالواحد ندوی  صاحب نے اپنے مضمون ’شفیع جاوید:افسانہ اور حقیقت‘ میں لکھا ہے کہ”اسی ڈائری میں اصلی شفیع جاوید ہے جو اپنے مختلف افسانے میں کبھی ظاہر ہوتا ہے اورکبھی خود کو چھپاتا ہے۔بغیر اس ڈائری کے دنیا نے ایک نامکمل شفیع جاوید کو جاناہے۔
(روزنامہ پندار(پٹنہ) 23دسمبر 2019)
 اکثر وہ اپنی گذری زندگی کے واقعات بتاتے اور کہتے میرے مرنے کے بعد یہ سب لکھیے گا۔ایک ذمے داری انھوں یہ  دے رکھی تھی کہ ان تحریروں کی نقل محفوظ رکھوں۔ ان پر قلم اٹھانے والا جب ان سے رجوع کرتا تو وہ میرا نمبر دے دیتے۔اور میں مطلوبہ چیزیں مہیا کر دیتا۔ اس کی خبر ملتے ہی ڈھیر ساری دعائیں دیتے۔
نوجوانی کے زمانے میں موسیقی کا شوق تھا۔ایک دن بتانے لگے کہ بسم اللہ خاں کی شہنائی اور کلاسکی گانا سننے ڈمراؤں جایا کرتے تھے۔بعد میں یہ شوق ریڈیو اور ٹی وی تک محدود ہوگیا اور بعد میں وہ بھی ختم ہوگیا۔ایک جگہ ڈائری میں لکھا ہے کہ ”وہاب اشرفی کے انتقال سے کچھ ہی دنوں قبل گانوں کے کسیٹ خریدنے کے سوال پر میں نے ان کے سوال پر کہا تھا۔ ”میں گانا کہاں میں تو وقت کو سنتا ہوں
شفیع صاحب بڑے اصول پسند اور مذہبی انسان تھے۔ ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا تھا کی پچھلے جالیس سالوں سے آیۃ الکرسی  روزانہ رات کو پڑھنے کا معمول ہے۔صحت کی خرابی کے باوجودنہ صرف نماز کے پابند تھے بلکہ تہجد گزاری بھی کرتے تھے۔
حکومت بہار میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گورنر کے پریس سکریٹری سے لے کر ڈائرکٹر محکمہ اطلاعات و تعلقات تک۔مگر اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ اکثر ملاقات میں کہتے”تنگ دست نہ رہا لیکن دست تہہ سنگ رہا۔
شفیع صاحب کی نوٹ بک میں ادبی، سیاسی، مذہبی ساری چیزیں ہوتی تھیں۔ کتاب کے مطالعے کے دوران  وہ طویل نوٹس لیتے تھے۔شفیع صاحب اپنی خود نوشت بھی لکھ رہے تھے۔ مشتاق احمد نوری صاحب نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”وہ اپنی جیون گاتھا”بھیگا ہوا شیشہ“ کے نام سے لکھ رہے تھے جس کا کچھ حصہ انھوں نے مجھے سنایا بھی تھا“(روزنامہ پندار(پٹنہ) 13 دسمبر 2019)۔مگروہ مکمل نہ کرسکے۔شفیع صاحب کے اب تک  پانچ افسانوی مجموعے”دائرے سے باہر(1979)،”کھلی جو آنکھ(1982)،”تعریف اس خدا کی (1984)، ’]وقت کے اسیر(1991) اور رات شہر اور میں (2004) شائع ہو چکے ہیں۔ اب جلد ہی ڈاکٹر صفدر امام قادری صاحب اسے کلیا ت کی شکل میں شائع کرنے والے ہیں۔ شفیع صاحب اپنے مضامیں بھی جمع کروارہے تھے۔ مجھے مجموعے کا عنوان  تجویز کرنے کے لیے کہا تھا۔ میں نے کچھ عنوان تجویز کیے جن میں ’]متاع لوح و قلم“انھیں پسند آیا تھا۔مضامین کا یہ مجموعہ بھی صفدر امام قادری صاحب مرتب کر رہے ہیں۔
 یہاں ان کی نوٹ بک کی اس تحریر کا ذکر مقصود ہے جو ان کی زندگی اور شخصیت سے متعلق ہے۔  ان کے گذر جانے کے بعد اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔بغیر کسی ترمیم و اضافہ کے  یہ خود نوشت درج ذیل ہے:
والد کا نام: ایس ایم رفیع الدین (مرحوم) ولد امیر الدین امیر گیاوی ولد جناب محمد بندہ علی، ایڈوکیٹ، گیا۔ والدہ کا نام:بی بی سعیدہ خاتون(مرحومہ) بنت خواجہ محمد عبدالجلیل مرحوم، موضع سونائی، ضلع جموئی(سابق مونگیر)
جو کچھ میں نے سنا ہے گھر میں بزرگوں سے وہ یوں ہے کہ میرے پڑ دادا محمد بندہ علی صاحب، شکراواں ضلع نالندہ سے گیا اپنے پیشے یعنی وکالت کی وجہ سے منتقل ہو گئے تھے، ان کی رہائش محلہ Delhaگیا میں اس مشہور زمانہ کوٹھی میں تھی جو ڈیلہا کوٹھی کے نام سے آج بھی مشہور ہے اور ان کی قبر آج بھی اس میں موجود ہے۔زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ یہ دوسروں کے قبضے میں چلی گئی۔مجھے میری اس آبائی کوٹھی کے واپس ملنے کے دو موقعے ملے لیکن میری بدقسمتی کہ دونوں بار ہم نے یہ موقع کھو دیا۔ میرے دادا،ضلع جج گیا کے دفتر میں Judgement writer  تھے۔یہ عہدہ انھیں کے لیے تھا جو بعد میں ختم ہوگیا۔ میرے دادا کے چھوٹے بھائی تھے جناب ضمیر الدین عرش گیاوی جو مومن کے شاگرد اور اردو کے سرکردہ شاعر تھے۔کلیات عرش 1922 میں کلکتہ سے شائع ہوئی تھی۔رام بابو سکسینہ نے اپنی تاریخ اردو ادب میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔میرے دادا کے ایک چھوٹے بھائی جناب نصیر الدین،جو ریلوے کے بڑے عہدے پر ان دنوں فائز تھے۔سنتے ہیں کہ ان کی تنزلی کی وجہ خواجہ غریب نواز کی شان میں گستاخی تھی۔واللہ عالم بالصواب۔میرے دادا بڑے مذہبی تھے۔میرے دادا کی شادی موضع ارول، جو پہلے گیا ضلع میں تھا،کے شاہ خاندان میں ہوئی تھی۔ میری دادی شرف النساء بیگم شاہ محمد عزالدین صاحب کی بیٹی تھیں اور اکلوتی تھیں اور پانچ بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ان کے بھائیوں میں بڑے تھے شاہ فرید الدین، دوسرے تھے شاہ مجید الدین، تیسرے تھے ڈاکٹر شاہ رشید الدین، چوتھے شاہ سعید الدین اور سب سے چھوٹے تھے شاہ توحید الدین جو شکیلہ اختر کے والد اور اختر اورینوی کے خسر تھے۔
میرے والد بہار کے محکمہ پولس میں داروغہ تھے اور جب وہ گیا کہ مفصل تھانہ کے انچارج بناکر پوسٹ کیے گئے تو وہیں ان کا انتقال ہوا،اس وقت ان کی عمر صرف 55 سال تھی،وہ گیا ہی میں کریم گنج کے قبرستان میں مدفون ہیں۔میری والدہ پٹنہ کے جنت القبور میں آسودہ خاک ہیں
میری صرف دو اولاد ہے ایک بیٹی رعنا تبسم اور بیٹا طارق احمد
میرا نام شفیع جاوید یوں ہوا کہ میرے ایک چچا زاد بھائی تھے صغیر جاوید۔بڑا بلند اور بے حد ستھرا ذوق ان کا تھا اور اردو ادب سے انھیں بڑی محبت تھی۔عین عالم جوانی  میں جب وہ بی اے کے فائنل ائیر میں تھے،ان کا انتقال ہوگیا۔ہم ان کے چہیتے تھے۔میرے ادبی ذوق کو انھوں نے ہی جنم دیا تھا اور سنوارا تھا۔اس لیے جب ان کا انتقال ہوگیا،اور ہم نے خود کو بالکل اکیلا محسوس کیا تو ہم نے ان کا نام جاوید اپنا لیا۔میرے والدین نے اس کی سخت مخالفت کی لیکن ہم نے جو طے کرلیا تھا وہ آج بھی قائم  اور میرے نام میں صغیر بھائی آج بھی زندہ ہیں
ہم اسکول میں کبھی نہ پڑھ سکے۔ابّا کا خیال تھا کہ اسکول جانے سے صحبت خراب ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہماری تعلیم پرائیویٹ طور پر ہوئی اور بے حد سخت ہوئی۔ تقریباً چار پانچ ماسٹر آیا کرتے تھے۔ان میں ایک مولوی صاحب بھی ہوا کرتے تھے۔اس طرح کی میری تعلیم مظفرپور، سمستی پور،ناتھ نگر اور گیا میں ہوئی۔گیا ہی کے ضلع اسکول سے ہم نے پرائیویٹ طور پر1950میں میٹریکولیشن کا امتحان سکنڈ ڈیویزن میں پاس کیا۔اس سے قبل مجھے امتحان دینے کا کوئی تجربہ نہ تھا“۔
اس کے بعد ابّا کا تبادلہ مظفرپور ہوگیا اور پروفیسر عبدالماجد صاحب جو ابّا کے بہت گہرے دوست تھے، ان کے کہنے سننے پر ابّا نے میرا داخلہ ایل ایس کالج مظفرپور میں کروایا۔وہاں ہم نے 1955 میں بی۔اے کیا۔ایک سال یعنی 1954 یوں ضائع ہوا کہ ہم Meningitis کے بہت خطرناک طور پر شکار ہو گئے تھے۔حیات تھی جو بچ گئے لیکن لگ بھگ ایک سال تک صحت بیحد خراب رہی۔ مظفر پورمیں کئی. Casesہوتے تھےMeningitis  کے، ہم واحد Survival بتائے جاتے ہیں۔شاید یہ میرے والد کی گریہ وزاری کا اثر تھا جو کچی سرائے  مظفرپورکی مسجد میں دوران نماز یا دعاؤں میں وہ کیا کرتے تھے۔لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ کچی سرائے کی مین روڈ تک ان کے رونے کی آواز جایا کرتے تھی“۔
ہم اپنے والد کی واحد اولاد ہیں نہ کوئی بھائی نہ کوئی بہن۔اس لیے ابا  Apprehensive بہت رہتے تھے۔ ایک سپاہی ہمیشہ میرے ساتھ خفیہ طور پر چلا کرتا تھا۔ چونکہ ہم اس بات پر خاصے بدکتے تھے اس لیے ابّا اس بات کو ہم سے پوشیدہ رکھتے تھے لیکن اتنی محبت کے باوجود سخت بہت تھے۔یوں کہیں کہ Strict disciplinarian تھے۔ میرے ادبی رجحان یا ذوق پر سخت برہم رہا کرتے تھے۔یہاں تک کہ ادبی چیز ہم ان سے چھپ کے پڑھا کرتے تھے۔ اگر دیکھ لیتے تو بہت ناراض ہوتے اور کہتے ”تمھارا حال بھی تمہارے دادا کی طرح ہو جائے گا کہ ہر وقت تخیلات میں گم رہا کروگے اور عملی طور پر صفر ہوجاؤ گے۔ جانتے ہو اس ادب اور شاعری کے چکر میں ہم لوگوں نے ڈیلہا کی کوٹھی کھو دیا۔زمین جائداد کی بربادی بھی اس مشاعرے،محفلیں اور ادب کے چکر میں ہوئی“۔ اور کبھی کہتے”اس لڑکے کا حال بھی اختر اورینوی والا ہوگا کہ خون تھوکنے لگے گا۔ایسے کڑے لمحات میں اماں میری مدافعت کرتیں اور ابّا پستول چلاتے چلاتے رہ جاتے“۔
”1955کے اواخر میں ہم ابّا کے ساتھ نرکٹیا گنج چلے گئے۔ 14 مارچ 1955 کو میری شادی ہوچکی تھی۔ میری بیوی بھی نرکٹیا گنج ساتھ گئیں۔میری بیوی ابّا کی اپنی ماموں زاد بہن شمسی بیگم کی بیٹی ہیں۔ نرکٹیا گنج کی کھلی دھلی فضا مجھے بہت راس آئی۔وہاں ایک چینی کا کارخانہ تھا۔ ابّا ایک دن ہم لوگوں کو وہ کارخانہ دکھانے کے لیے لے گئے۔ اس سے پہلے ہم نے کسی چینی کا کارخانہ دیکھا نہ تھا۔ اس کے جنرل مینیجر تھے مسٹر فتح لال واڈیا۔انھوں نے چائے کے دوران مجھ سے میری تفصیلات پوچھیں اور کچھ دیر خاموش رہ کر بولے تھے۔Why don’t you join us young man? میں نے حیرت سے پوچھا”کس طرح“؟ تو انھوں نے Yard officer کا آفر دے دیا۔ ہم بھی فارغ تھے،اس عہدہ پر جوائن کر لیا۔ڈیوٹی سخت تھی لیکن لطف آتا تھا۔تنخواہ اچھی خاصی تھی پھر ابّا کے ساتھ رہنا۔ اس لیے کوئی فکر ہی نہ تھی۔تقریباً 4 یا 5 مہینوں کے بعد ایک دن واڈیا صاحب سے میرے ادبی ذوق کی باتیں ہونے لگیں،اس کے بعد میں نے کہا کہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں لیکن ابّا تیار نہیں ہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ گریجویٹ ہوگئے کافی ہے۔،اب چلو تم کو پولس میں سرجنٹ کے عہدے پر بحال کروادیتے ہیں۔اماں نے زندگی بھر پولس محکمہ کی پریشانیاں دیکھی تھیں اور جھیلی بھی تھیں۔اس لیے وہ اور ہم اس کے سخت مخالف تھے۔
واڈیا صاحب نے کہا کہ آگے تو ضرور تم کو پڑھنا چاہیے اور اگر تم Labour  یاSociology  میں ایم۔اے کرلو تو ہم بہت کم وقت میں تم کو Labour officer بنالیں گے۔انھوں نے ابّا کو بہت سمجھایا،ابّا کسی طرح مان گئے۔اس سمجھانے اور منانے کے دوران کافی وقت نکل گیا۔ہم جب پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے پہنچے تو Labour میں کوئی جگہ نہ تھی۔مجبوراً Sociology میں داخلہ لینا پڑا۔لیکن یہ بھی اللہ کا ہی انتظام تھا کہ Sociology نے میرے ادبی ذاوق کو نکھارنے میں بڑی مدد کی۔اس طرح ہم58۔ 1956کے Session میں ایم۔اے سوشیولوجی کے لیکچر مکمل کیے لیکن پھر ابّا اور کچھ دوستوں نے کہا کہ بھائی تم کمیشن کا امتحان دے ڈالو تو ہم 1958 میں BPSC کے امتحان  میں بیٹھ گئے اور ایم اے کا امتحان چھوٹ گیا۔ 1959 سے ہم بہار سرکار کی نوکری میں آگئے اور ابا مطمئن ہوگئے کہ ہم سرکاری کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس کے کافی دنوں کے بعد میری بیوی نے ایم۔اے کی یاد دلائی،اس وقت ہم دربھنگہ میں محکمہ ماپ تول (Weights & Measures)  میں تھے۔ بڑی مشکل سے فرصت ملی کیونکہ محکمہ نیا نیا قائم ہوا تھا اور کمیشن سے بہت کم لوگ آپاتے تھے اور پھر weights & Measures کو Sociology سے کیا مناسبت لیکن خدا وندکریم کے معجزات کا کیا کہنا؟ امتحان کی اجازت بھی ایک معجزہ ہی سمجھیے۔1963 میں ایم اے سوشیولوجی اس طرح گرتے پڑتے سکنڈ کلاس سے کیا اور پھر1971 سے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں بہ حیثیت ڈپٹی ڈائرکٹر BPSC کے ذریعے آئے اور 1993 میں ڈائرکٹر Information & Public Relations Deptt., Bihar کے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور اس کے بعد بھی Indian Red Cross کے Bihar Chapter کے Administrator ایک سال تک رہے اور 1994 سے پوری طرح سبکدوش ہوگئے“۔
”1953 میں پہلا افسانہ’آرٹ اور تمباکو‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’اُفق‘دربھنگہ میں شائع ہوا جسے شمیم سیفی (مرحوم)  نکالتے تھے۔اس کے بعد سے مندرجہ ذیل رسالوں میں شائع ہوئے اور ہوتے رہے“۔  
(1) بیسویں صدی(دہلی)(2) چندن(دہلی)(3) تحریک(دہلی)(4) آزاد ایشیاء(دہلی) (5) پروین(الہ آباد) (6) نکہت(الہ آباد) (7) کتاب(لکھنؤ) (8) آہنگ(گیا) (9) ہفتہ وار آدرش(گیا)(10) شب خوں (الہ آباد) (11) صنم(پٹنہ)(12) الفاظ(علی گڑھ (13) مباحثہ(پٹنہ)(14) خرمن(پٹنہ)(15) مصور (پٹنہ)(16) پاکستان کے آئندہ/ بادبان/ صریر/ روشنائی/ خیال/سیپ/اوراق/فنون  اور ادب لطیف۔
شفیع صاحب نے حالات زندگی کے علاوہ اپنی افسانہ نگاری پر بھی روشنی ڈالی ہے۔یہ ان کی  افسانہ نگاری  اور ان کے افکارکی تفہیم کے لیے اہم مآخذہے۔
میں مواد کے اعتبار سے مختلف افسانوں میں مختلف ہو سکتا ہوں لیکن انداز بیان جسے آپ لوگ اسٹائل بھی کہتے ہیں، وہ تو بہر حال وہی ہوگا جو میرا ہے
میرے Creative process کے کچھ اجزائے خاص ہیں۔جن میں از خود یادنگاری اولین ترجیح پا جاتی ہے۔عصری گرد و پیش بھی آتا ہے لیکن یادیں   ہمیشہ ہمیشہ بھاری پڑ جاتی ہیں اور وہی اداسی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یادیں تو کھوئے ہوؤں کی جستجو ہے۔اس لیے شخصی طورپرDepressed رہتا ہوں اور فنی طور پر افسردہ۔اس میں میرےd Disillusioned کا بھی ہاتھ ہے۔
طویل کشاکش بھری زندگی گذارنے کے بعد یوں بھی بشاشت گم ہوجاتی ہے۔میرے پاس اب سوائے دل غمخوار کے کچھ اور نہیں ہے۔یہ Sense of Loss میری ہر چیز پر چھا یا ہوا ہے۔زندگی نے،زمانے نے،وقت نے، مقامات نے، لوگوں  نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہی تو ہم اپنے فن میں لپیٹ کر اپنے قارئین کو واپس لوٹا رہے ہیں۔
میرے یہاں کہانی کی تعمیر اور کلائمکس وغیرہ قسم کی چیز نہیں ہوا کرتی ہے۔نہ ہی میں قاری کو کسی موڑ پر اچانک چھوڑ کر اچنبھے میں ڈالتا ہوں، میرے یہاں تو فکر کا قوام ہے اور تفکر کی گہرائی ہے۔واقعات اور پلاٹ اور کردار وغیرہ کی حیثیت ثانوی ہے۔
ہر تخلیق کار کا اپنا طریقہ کار  ہوتا ہے۔مشاہدے اور تجربات کے اپنے زاویے ہوتے ہیں۔ Perceptions  کی اپنی سطح ہوتی ہے۔تخیل کا اپنا دائرہ اور اپنی وسعت ہوتی ہے۔اگر میرے قاری کے پاس فہم کی ثروت مندی نہیں  ہے تو وہ نہیں سمجھ سکتا کیونکہ میں وقت گذاری  والی نہیں بلکہ رات کے پچھلے پہر کو پڑھنے والی چیزیں لکھتا ہوں۔
زندگی سپاٹ شے نہیں ہے۔یہ متحرک بھی ہے اور ہشت پہلو بھی ہے۔کسی پہلو پر روشنی ہے،کوئی حصہ تاریکی میں ہے  اور کہیں سرمئی اُجالا بھی ہے۔زندگی کو اس طرح مختلف Shades میں دیکھتا ہوں،اگر ایسا نہ ہوگا تو میری تحریر اکہری ہو جائے گی۔اس کی تہہ داری مفقود ہو جائے گی۔ادب اور screenplay میں یہی فرق ہے کہ تخلیقی معنویت Transparent نہیں ہوتی۔
میرے یہاں Fusion کی تکنیک ہے جسے آپ Symphony کی تکنیک بھی کہہ سکتے ہیں۔ پروفیسر نرمدیشور پرساد نے میری تکنیک کو Thought processکی Mosaicتکنیک کہا تھا
”My message is always clear but veiled کیونکہ میں ”برہنہ حرف نہ گفتن“ کا قائل ہوں اسی لیے میری تحریر Tangent ہوتی ہے اور جو کچھ ہے وہ Strait from the heart ہے
پٹنہ نے مجھے موہ لیا اور یہاں کئی اعلی پائے کے دانشوروں کی صحبت نے میرے تخلیقی سفر میں بڑا مثبت رول ادا کیا۔میں شاید تادم آخر عبدالقیوم قائد،ڈاکٹر نرمدیشور پرساد اور ’شب خوں‘ کے اجراء کے بعد شمس الرحمن فاروقی سے جو تعلقات ہوئے انھیں کبھی بھول نہ پاؤں گا۔یہ تینوں میری ادبی زندگی کے اہم ستون رہے
ہر تاریخ ماضی ہے اور ہر ماضی تاریخ ہے جو وقت کی راکھ میں دب کر خاک ہو جاتا ہے اور کبھی میری طرح کوئی اس راکھ کو کرید کر، کسی بجھی ہوئی چنگاری کو اپنی یادوں کی ہوا دے کر تازہ کردیتا ہے اور رات کے سنّاٹے میں تاریخ بننے کے لیے بیٹھ جاتا ہے
ایسی ہی بے کراں تنہائی میں اور ایسے بے داغ سنّاٹے میں وہ آنکھ چاہیے جو اندر کھلتی ہے اور وہ کان چاہیے جو بازگشت سنتا ہے اور یادوں کی تاریخ کا تانا بانااپنا کام کرنے لگتا ہے،یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے اور دل کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ایک اور رات تاریخ بن جاتی ہے۔،وقت کی راکھ میں دب کر رہ جاتی ہے اور پھر کبھی میری طرح کا کوئی  اسے ہوا دینے کو پچھلی رات کو اٹھ کر بیٹھتا ہے اور داخل کو دیکھتا ہے اور بازگشتوں کو سنتا ہے اور تاریخ کو بُنتاہے۔اور خود آخر کار موت کے اُس دریچے سے زندگی کی دوسری طرف چلا جاتاہے۔جس سے اب تک کوئی واپس نہیں لوٹا
12 دسمبرکو شفیع صاحب بھی موت کے دریچے سے زندگی کی دوسری طرف چلے گئے۔کیا پتہ تھا کہ اس خاموشی سے چلے جائیں گے       ؎
ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوک گیاہ
مثال قطرہ شبنم رہے رہے نہ رہے
(نظیر اکبر آبادی)
Dr. Syed Masood Hasan
Khuda Bakhsh O.P.Library
Ashok Rajpath
Patna-800004
mailme.masoodhasan@rediffmail.com

ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں