31/1/20

ترکی میں اردوزبان و ادب مضمون نگار: امتیاز رومی


ترکی میں اردوزبان و ادب



 امتیاز رومی

اردو زبان کی انفرادیت یہ ہے کہ متعدد لسانی عوامل کی شمولیت اور مختلف تہذیبی عناصر کی یکجائیت نے اس کے تانے بانے بنے۔ عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور انگریزی الفاظ کی مشارکت نے قوت گویائی بخشی اور ’ریختہ‘ بولی کی سطح سے بلند ہو کر زبان اور پھر ادبی زبان بن گئی۔ ایک ایسی زبان جس کی خوشبو عالمی افق کو مہکا رہی ہے۔ اپنی جائے پیدائش سے ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی اپنا وجود نہ صرف قائم کر چکی ہے بلکہ مستحکم بھی، جو بر صغیر سے نکل کر دنیا کے مختلف براعظموں میں اپنی لسانی اور تہذیبی شناخت رکھتی ہے۔ چونکہ اردو زبان محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیبی سنگم ہے جس کی بنیاد رواداری اور ہم آہنگی پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کے مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے لیے اردو باعث کشش ہے۔
عالمی منظرنامے پر ترکی ایک ایسا ملک ہے جس سے اردو زبان و تہذیب کے قدیم ترین مراسم ہیں۔ جس کا آغاز ہندوستان میں ترکوں کی آمد سے ہوتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی اور لسانی دھارے میں خود کو شامل کرکے ایک نیا رنگ دیا۔ اردو زبان کی لفظیات میں ترکی الفاظ کا اضافہ کیا۔ نیز حدود سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا دائرہ بھی وسیع کیا۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمان جب ترکی گئے تو اپنے ساتھ یہ زبان بھی لے گئے۔ 1453 میں سلطان محمدفاتح نے جب قسطنطنیہ (استنبول) فتح کیا تو اس سلسلے میں اور تیزی آئی۔ بہت سے ہندوستانی مسلمان استنبول میں آبادہوگئے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی آتے آتے اس تعداد میں کافی اضافہ ہوا اور یہ تعداد اتنی ہوگئی کہ انیسویں صدی کے آواخر میں استنبول سے اردو اخبارات نکلنے لگے۔ ظاہر ہے کوئی بھی اخبار نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قارئین کی خاطر خواہ تعداد موجود ہو۔ خلیل طوقار کی تحقیق کے مطابق 1880 میں اردو کا پہلا اخبار ’پیک اسلام‘ کے نام سے نکلا۔ اس کے بعد دو اور اخبارات نکلے۔ اس حوالے سے خلیل طوقار رقم طراز ہیں:
استنبول میں نکلنے والے اردو اخبارات کے سلسلے میں ہمارا تین ناموں سے سابقہ پڑتاہے: ’پیک اسلام‘، ’جہان اسلام‘ اور ’الدستور‘ علاوہ بریں ان اخباروں میں ’اخوت‘ کے نام کا بھی اضافہ کیا جا سکتاہے۔ جو فارسی زبان میں شائع ہونے کے باوجود ہندوستانی صحافیوں کی جانب سے نکلنے کے اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ ہماری تحقیقات کے دوران یہ دیکھنے میں آیاہے کہ استنبول کی لائبریریوں میں ان چاروں میں سے صرف تین اخبارات کے نسخے موجود ہیں اور وہ اخبارات ہیں: ’جہان اسلام‘، ’الدستور‘ اور ’اخوت‘، لیکن اب تک ’پیک اسلام‘ کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔
اردو اخبارات میں پہلے نمبر پر ہونے کا شرف پیک اسلام کو حاصل ہے۔ 1880 میں نکلنے والے اس اخبار کے ساتھ استنبول میں اردو صحافت کا آغاز ہوتا ہے۔ ’پیک اسلام‘ اردو اور ترکی دونوں زبانوں میں شائع ہورہا تھا۔ اس کے مدیر مسؤل نصرت علی خان تھے جو انگریزوں کے خلاف سرگرمیوں میں شرکت کرنے کی وجہ سے ہندوستان سے جلا وطن کردیے گئے تھے۔ مئی1880 میں ’پیک اسلام‘ کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا۔
(ڈاکٹر خلیل طوقار، جہان اسلام، مغربی پاکستان اردو اکادمی لاہور، 2011 ص 36)
اس تحقیق کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ 1880 میں ہی استنبول میں اردو صحافت کا آغاز ہوگیا اور پے در پے تین اخبارات نکلے۔ ترکی میں اردو کا یہی نقطہ آغاز ہے۔ اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ اس زمانے میں استنبول اور اس کے گرد و نواح میں اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی تعداد اس قابل ہوگئی تھی کہ اخبار نکالنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی اردو کے اولین دور کا خاتمہ ہوگیا۔
تعلیم و تدریس
ترکی میں اردو تدریس کا آغاز تو 1915 میں ہی خیری برادران کی کوششوں سے ہوچکا تھا۔ عبدالجبار خیری اور عبدالستار خیری 1904 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ وہاں سے قاہرہ، بیروت اور پھر حجازکے راستے استنبول پہنچے اور یہاں ان دونوں نے مختلف تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ خیری برادران نے عثمانی سلطنت میں اردو کی اہمیت و ضرورت محسوس کرتے ہوئے دارالفنون استنبول میں اردو تعلیم کا آغاز کیا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خلیل طوقار لکھتے ہیں:
ان کی سیاسی سرگرمیاں بے شک تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہیں مگر ان کے علاوہ ان کا ایک اور بڑا اور ناقابل فراموش کارنامہ ترکی میں یونیورسٹی کی سطح پر اردو زبان کی تعلیم کا افتتاح ہے۔ انھوں نے دارالفنون میں کس تاریخ میں اردو کی تعلیم شروع کرائی اس کے بارے میں ہمارے پاس قطعی معلومات موجود نہیں لیکن اگر ان کی استنبول آمد کو 1914 کے اواخر اور 1915 کی شرعات ٹھہرائیں گے (کیونکہ انھوں نے اگست1915میں ’ہنداخوت اسلام انجمنی مرکزعمومیسی‘ (انجمن ہنداخوت اسلام کا مرکزی ادارہ) کے قیام میں حصہ لیا اور 1915 میں اخوت نامی اخبار کی اشاعت میں اول اول تھے) اور دارالفنون کی حیثیت سے ایک کمیشن میں ان کی پیش کردہ تجویز کی تاریخ جو کہ فروری 1917 ہے، کو دیکھیں گے تو ہم بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا دارالفنون میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے تقرر فروری 1917 سے پہلے 1915 میں یا 1916 میں ہوا ہوگا لیکن یونیورسٹی کی مجلسوں میں شرکت کرکے تجاویز دینے اور ان تجاویزات کو منوانے کی حد تک دارالفنون کے اراکین پر ان کے اثر و رسوخ کو دیکھیں گے (کیونکہ بالخصوص یونیورسٹی کے اساتذہ پر اثر و رسوخ مرتب کرنے میں بھی کچھ وقت لگتا ہے) تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ استنبول یونیورسٹی میں اردو کی درس و تدریس کا سلسلہ 1916 سے بھی پہلے1915 میں شروع ہوا تھا۔
(ڈاکٹر خلیل طوقار، ترکی میں اردو تعلیم و تدریس کی صدی اور آئندہ امکانات، مشمولہ ترکی میں اردو زبان و ادب کا صدسالہ سفر، ص 26)
اس طرح ترکی میں اردو تعلیم کا آغاز تو 1915 میں ہی خیری برادران کی کوششوں سے ہوگیا تھا اور اردو اخبارات بھی نکلنے لگے تھے۔ تاہم باقاعدہ طورپر ترکی میں اردو کے دوسرے دور کا آغاز 1950 کے بعد پاکستان اور ترکی کی دوستی سے ہوتاہے۔ 1956 میں انقرہ یونیورسٹی میں اردو تدریس کا آغاز ہوا اور حکومت پاکستان نے ڈاکٹر داؤد رہبر کو ”اردو اور مطالعہ پاکستان“ چیئر کے لیے منتخب کیا۔ انھوں نے ترکی میں اپنے تین سالہ قیام کے دوران یہاں کی مختلف جامعات میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا اور اس کی تہذیبی و لسانی اور تاریخی پس منظرپر لیکچرز دیے۔ ان کے بعد طارق فاروقی، حنیف فوق، عبادت بریلوی، احمدبختیاراشرف، انواراحمد اور سعادت سعید جیسے اسکالرس کا تقرر ی کے بعد دیگرے انقرہ یونیورسٹی میں ہوا۔ ان اساتذہ نے ترکی میں اردو کی بنیاد کو استحکام بخشا۔ ڈاکٹر سعادت سعید لکھتے ہیں:
ان اساتذہ کی شبانہ روز محنتوں کا ثمر یہ ہے کہ آج تک ہزاروں ترک طالب علم اردو شاعری کی مشہور ہستیوں ملاوجہی، ولی گجراتی، خان آرزو، میرتقی میر، محمدرفیع سودا، خواجہ میردرد، نظیر اکبرآبادی، غلام ہمدانی مصحفی، انشاء اللہ انشا، سعادت یار خان رنگین، استاد ابراہیم ذوق، اسداللہ خان غالب، مومن خان مومن، بہادر شاہ ظفر، داغ دہلوی، مولانا الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، فیض احمدفیض، ن م راشد، صوفی غلام مصطفی تبسم، ابن انشا، حفیظ جالندھری، مجیدامجد، احمدندیم قاسمی، ناصرکاظمی، جمیل الدین عالی، احمدفراز، پروین شاکر، منصورہ احمد، جیلانی کامران، افتخارجالب، ظفراقبال، افتخارعارف وغیرہ کے ناموں اور کارناموں سے روشناس ہوچکے ہیں۔ ان شاعروں میں سے بیشتر کے کلام کو ترک محققوں اور مترجموں نے وسیع تر ترک قارئین کے لیے ترکی زبان میں خوش اسلوبی سے منتقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں عظیم اردو نثر نگاروں کی تحریروں کے ترکی ترجموں سے شعبہ اردو انقرہ یونیورسٹی انقرہ، سلجوق یونیورسٹی قونیہ اورشعبہ اردو استنبول یونیورسٹی کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔
(پروفیسر سعادت سعید، ترکی میں اردو ایک مختصرجائزہ، مشمولہ ترکی میں اردو زبان و ادب کا صدسالہ سفر، مرتبین ڈاکٹر خلیل طوقار و علی معین، اردو گھربہاول پور، 2015، ص 36-37)
انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پہلے ترک استاذ کے طور پر ڈاکٹر شوکت بولو کا تقرر ہوا۔ انھوں نے پانچ سال پاکستان میں رہ کر اردو کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ عربی اور انگریزی پر بھی انھیں قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے تقریباچار دہائی تک اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دیں۔
ڈاکٹر شوکت بولو نے اردو کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ترکی زبان میں کیے۔ ان میں علامہ اقبال کامجموعہ کلام بال جبریل، رام بابو سکسینہ کی تاریخ ادب اردو، حامد حسن قادری کی داستان نثر اردو اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی کتاب آج کا اردو ادب خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ نیز ترکی میں اقبالیات کے حوالے سے بھی شوکت بولو نے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ ڈاکٹر شوکت بولو کے ریٹائر منٹ کے بعد ڈاکٹر سلمی بینلی نے انقرہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کا عہدہ سنبھالا۔ سلمی بینلی کو ادبی تحقیق اور اردو قواعد میں مہارت حاصل تھی۔ ’جدید اردو شاعری 1850-1900‘ کے موضوع پر انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اردو غزل کا مجتہد حالی، منصورہ احمدکی شاعری، سعادت حسن منٹو اور حسرت موہانی اور ان کی غزل جیسے موضوعات پر ان کے مضامین شائع ہوکر داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی تحقیقی کام ان کی نگرانی میں انجام پاچکے ہیں۔
ڈاکٹر گلسرین ہالی جی اوز کان انقرہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے استاذ ہیں۔ انھوں نے جنوبی ایشیامیں مغلوں کے علمی و ثقافتی ورثے پر اپنا تحقیقی مقالہ اور تزک جہاں گیری پر ایم اے کا مقالہ لکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی تحقیقی مقالوں کی نگرانی بھی کی ہے۔ فیض احمدفیض، سجاد حیدر یلدرم اور منصورہ احمد پر بھی تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر آسمان بیلن اوز جان بھی انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے پروین شاکر کی شاعری پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اورینٹل کالج لاہور میں بھی زیر تعلیم رہی۔ انھوں نے آغاحشر کاشمیری اور حسینہ معین کے ڈرامے اور اقبال اور پروین شاکر کی نظموں کا ترجمہ ترکی زبان میں کیاہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے راماینا کا ہندی سے ترکی میں ترجمہ کیاہے۔ ان کے علاوہ ایمیل سیلیم، آئے قوت کشمر اور داؤد شہباز ریسرچ اسسٹنٹ کے طورپر انقرہ یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سلجوق یونیورسٹی
انقرہ یونیورسٹی کے بعدسلجوق یونیورسٹی قونیہ میں 1985 میں ڈاکٹر ایرکن ترکمان کی کوششوں سے شعبہ اردو کا قیام عمل میں آیا۔ اس کوشش میں پروفیسر غلام حسین ذوالفقار بھی ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ ایرکن ترکمان کی ولادت پاکستان میں ہوئی۔ وہیں سے تعلیم حاصل کی پھر ترکی آکر استنبول یونیورسٹی شعبہ فارسی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی۔ انھوں نے ترکی میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مختلف یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے بعد انھوں نے سلجوق یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی بنیاد ڈالی۔ یہاں کا شعبہ اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ تمدن ہند و پاک کے سلسلے میں بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس شعبے سے متعلق محقق اور دانشور اردو زبان کو جتنا برصغیر کا اثاثہ سمجھتے ہیں اتنا ہی خود ترکوں کا بھی سمجھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ برصغیر ہند و پاک کی اردو زبان ترک و راثت کا ہی حصہ اور ترک تمدن کا اس میں بہت کچھ عمل دخل ہے۔ چوں کہ برصغیر میں غزنویوں، غوریوں اور مغلوں کی قائم کردہ حکومتیں ترک تاریخ و ثقافت کو اپنے جلو میں لیے ہوئے تھیں اور فنون تعمیر، فنون حرب اور فنون لطیفہ سے مالا مال تھیں، اس لیے ترک انھیں دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ اردو زبان بھی انھیں میں سے ایک ہے جس میں مغلوں کے خون پسینے کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کے الفاظ بھی شامل ہیں۔(ایضاً، ص 42)
سلجوق یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو ڈاکٹر نوریے بلک ہیں۔ انھوں نے ایم اے اور پی ایچ ڈی انقرہ یونیورسٹی سے کرنے کے بعد پاکستان کا علمی و ادبی دورہ بھی کیا۔ نوریے بلک نے سجاد حیدر یلدرم حیات اور کارنامے کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس کے علاوہ اردو اور ترک گرامر کی مشابہتیں، سجاد حیدر یلدرم  کے ترکی ادب سے تراجم، اردو کے اولین اخبار اور اردو زبان کی تاریخ اور ترکیات وغیرہ ان کے تحقیقی مضامین ہیں۔
ڈاکٹر درمش بلغور بھی سلجوق یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے انقرہ یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف موڈرن لینگویجزاسلام آباد سے اردو ڈپلوما کیا۔مولانا الطاف حسین حالی حیات و تصنیفات، اقبال اور بانگ درا، 1850 سے 1900 کے دوران ہنداسلامی فکری تحریکات اور شاہ ولی اللہ اردو اور ترکیات وغیرہ ان کے تحقیقی موضوعات ہیں۔ ڈاکٹر خاقان قیومجو اس شعبے کے ایک اور ترک استاذ ہیں۔  انھوں نے اردو ناول نگاری کے موضوع پرپی ایچ ڈی کی۔ اس کے علاوہ اردو ڈرامے کا ارتقا اور آغاحشر اور غالب کی شاعری پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ ڈاکٹر رجب درگن، نورائی اوز ترک اور نورائی اوزنچ بھی اس شعبے سے وابستہ استاذہیں۔ ان کے علاوہ ایک پاکستانی استاذ احمد نواز نے بھی اس شعبے میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
استنبول یونیورسٹی
ترکی میں اردو کا تیسرا اور سب سے بڑا شعبہ استنبول یونیورسٹی میں قائم ہے۔ 1974 سے شعبہ اردوکے قیام کے لیے مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ اس دوران انقرہ یونیورسٹی سے پاکستانی پروفیسر یہاں آتے رہے۔ اکتوبر 1985 میں پروفیسر غلام حسین ذوالفقار کا تقرر استنبول یونیورسٹی کے اردو چیئر پر ہوا۔ اس وقت یہاں شعبہ اردو کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ انھوں نے بڑی جد و جہد کرکے اردو کو اختیاری مضمون کا درجہ دلایا اور طلبامیں دل چسپی پیدا کرکے اردوسیکھنے کی طرف مائل کیا۔ تاہم 1990 میں انھیں پاکستان واپس بلا لیا گیا۔ اس دوران پروفیسر غلام حسین ذوالفقار نے خلیل طوقار کو دریافت کرلیا تھا۔ چناں چہ ان کے جانے کے بعدشعبے کی تمام تر ذمے داری خلیل طوقار کے سر آگئی۔ 1994 سے اس شعبے میں باقاعدہ داخلہ شروع ہوگیا۔ اس وقت وہ اردوکے اکیلے استاذتھے۔ اسی درمیان پاکستان سے سید بخاری کو بھیجا گیا مگر انھوں نے اس چیئر کو فضول سمجھ کر پاکستانی وزارت تعلیم کو خط لکھا اور اسے بند کردینے کا مشورہ دیا۔ اس طرح پاکستانی حکومت نے استاذ بھیجنے کا سلسلہ بندکردیا 1996 میں ایک اور ترک استاذ احمد ایریوکسل کا تقرر ہوا۔ 1997 میں پاکستانی حکومت نے منصور اکبر کنڈی کو بطور استاذ بھیجا۔ تاہم تین سال بعدوہ بھی پاکستان لوٹ گئے اور پاکستانی حکومت نے یہ چیئربند کردیا۔ اس کے باوجود استنبول یونیورسٹی کا شعبہ اردو برقرار رہا۔ بلکہ آج ترکی میں اردو کا سب سے بڑا شعبہ استنبول یونیورسٹی کا ہے۔ خلیل طوقار کی سربراہی میں یہ شعبہ اردو زبان و ادب اور ہند و پاک اور ترکی دوستی کے فروغ میں کوشاں ہے۔
جلال سوئیدان استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردوسے وابستہ استاذ ہیں۔ انھوں نے ایم اے کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی لاہورسے حاصل کی۔ غالب اور اقبال کے حوالے سے انھوں نے کئی مضامین لکھے۔اس کے علاوہ اردو کے شاہ کار افسانے، سفرنامے اور مزاحیہ تخلیقات کو ترکی زبان میں انھوں نے منتقل کیا۔ نیز اردو ادبیات پر ترکی زبان میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کے علاوہ زکائی قارداش، آرزو چفت سورین، محمد راشد، خدیجہ گورگون اور اونور قلیچ ایرر اسی شعبے سے وابستہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے علاوہ انقرہ میں پاکستانی اسکول بھی قائم ہے جہاں اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ تاہم ان میں صرف پاکستانی طلباہوتے ہیں۔
خلیل طوقار کے مطابق ترکی میں اردو زبان و ادب کی تعلیم کا مقصداہل اردو اور ترکی کے مابین قدیم ترین اخوت و محبت اور تہذیبی و لسانی یکسانیت کو نئی سمت پر گامزن کرنا اور ریسرچ اسکالرز کی علمی و ادبی سطح پر تربیت کرنا ہے تاکہ وہ اپنی قدیم ترین وراثت سے بخوبی آشناہوسکیں۔ ترک طالب علموں میں اردو سیکھنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم برصغیرکی زبان و تہذیب سے ترکوں کی قلبی وابستگی ہے۔ اس کے پس منظر میں ترک اور اہل ہندکی صدیوں پر محیط داستان محبت و عقیدت ہے۔ پہلے پہل ترکوں نے اپنے عہد حکومت میں ہندوستان کو خوب سینچا اور فن تعمیر کا اعلی نمونہ بنادیا۔ انھوں نے یہاں کی زبان و تہذیب میں خود کو ضم کرکے مشترکہ تہذیب کو فروغ دیا۔ پھرجب خلافت کے زمانے میں ترکوں پر مصیبت آن پڑی تو ہندوستانی مسلمانوں نے خلافت تحریک کے ذریعے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کردیا۔ اسی ایثار کا نتیجہ ہے کہ ترک اردو زبان و تہذیب کو دل و جان سے عزیزسمجھتے ہیں اور اسے سیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ ترکی کی یونیورسٹیز میں اردو میں داخلے کے لیے دوسرے سبجیکٹ کی بہ نسبت کم نمبر در کار ہے۔ چناں چہ بعض طلبا اسی بنیاد پر اردو میں داخلہ لے لیتے ہیں۔بعض طلبا ہندوستانی فلموں سے متاثرہوکر یہاں کی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ تینوں یونیورسٹیز کے شعبہ اردو میں طلبا کی کمی نہیں ہے۔
ترکی میں بی اے کی تعلیم چار سال پر مشتمل ہے۔ پھر ایم اے دو سال جس میں کسی خاص موضوع پر مقالہ لکھنا ہوتاہے۔ پھر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھنا ہوتا۔ اس طرح ایم اے اور پی ایچ ڈی ملا کر ترکی میں اب تک اردو کے تقریبا پچاس مقالے مختلف موضوعات پر لکھے جاچکے ہیں۔ سودا، غالب، اقبال، فیض، پروین شاکر، جدید اردو شاعری، نذیراحمد، سجاد حیدر یلدرم، پریم چند، منٹو، محمدحسین آزاد، ابوالکلام آزاد، اردو افسانہ، اردو ناول، اردوسفرنامے، تزک جہانگیری، دربار اکبری، تزک بابری اور برصغیر پاک و ہند اور ترکی کی تہذیبی و لسانی مماثلتیں وغیرہ موضوعات پر کام ہوچکے ہیں۔ بیشتر موضوعات میں کسی نہ کسی نہج سے ہند و ترک تہذیب کی ہم آہنگی اور جذبہ دوستی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلا ’ہندوستان میں ترک تہذیب کے نشان‘، ’سجاد حیدر یلدرم کی افسانہ نگاری‘، ’1850-1900 میں برصغیر میں رونماہونے والی فکری تحریکیں‘، ’مولانا ابوالکلام آزاد اور الہلال کے تناظر میں ترکی اور ترک‘اور ’برصغیر پاک و ہند کی اردو فارسی شاعری میں ترکی اور ترک‘ وغیرہ۔
مذکورہ موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں اردو کی جملہ اصناف پر تحقیقی کام ہورہے ہیں۔
غرض کہ ترکی میں اردو زبان و ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ سو سال سے زائد عرصے سے اردو کی تعلیم و تدریسی ترکی کی یونیورسٹیوں میں دی جارہی ہے اور اخبارات بھی نکالے گئے۔ ترکی میں اردو کی تعلیم محض ایک زبان کی حیثیت سے نہیں دی جاتی بلکہ اس کے پس منظرمیں قدیم ترین دوستی اور جذبہ ایثار کی پوری تاریخ ہے جسے ترک کبھی فراموش نہیں کرنا چاہتے۔ چوں کہ تاریخی، تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے ترک اور اہل ہند و پاک ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور لسانی اعتبار سے اردو اور ترکی زبانیں ایک دوسرے کے مماثل، نیز رسم الخط کی تبدیلی کے باوجود بے شمار الفاظ، ضرب الامثال اور محاورے مشترک ہیں۔ اسی لیے ترک برصغیر کو اپنا وطن ثانی اور اردو زبان کو اپنا قدیم اور قیمتی اثاثہ مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں اردوزبان و ادب کے فروغ و امکان میں ترک دانشور کوشاں ہیں۔


Imteyaz Roomi
Room No: 17, Mahi Hostel, JNU
New Delhi - 110025
Mob.: 9810945177
Email: imteyazrumi@gmail.com


ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں