14/2/20

ٹیگور اور اقبال کا مشترکہ المیہ مضمون نگار: محمد علم اللہ




ٹیگور اور اقبال کا مشترکہ المیہ

 محمد علم اللہ



ٹیگور اور اقبال دو ایسے فن کار ہیں جن سے بر صغیرمیں فن اور ادب کے دور جدید کا آغاز ہوتا ہے۔ ان دونوں نے محض شاعری ہی نہیں کی بلکہ  ان کا فکر و فلسفہ فن کے کئی جہات کا احاطہ کرتا ہے۔ شاید اسی بنا پر جہاں ایک طرف ٹیگور کو گرو دیوکہا گیا تو اقبال کو بھی علامہ کے لقب سے ملقب کیا گیا، دونوں کے معنی کم و بیش ایک ہی ہیں یعنی بہت زیادہ جاننے والا، ’محترم استاد، عالم فاضل اور دانشور وغیرہ۔
دونوں کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بات کا آغاز 1920 میں ای ایم فاسٹر (بیسویں صدی کے اہم ناول نگار) کے اس اقتباس سے کرتے ہیں:
یہ ہمارے شہنشاہانہ طرز حکومت کا ایک کرشمہ ہے کہ اقبال جیسا شاعر، جس کا نام گزشتہ دس برسوں سے اس کے وطن ہندوستان میں بچے بچے کی زبان پر ہے، اس کے کلام کا ترجمہ اس طویل مدت کے بعد جا کر ہماری زبان میں ہو سکا۔ ہندوؤں میں جو مرتبہ ٹیگور کو حاصل ہے، وہی مسلمانوں میں اقبال کو ہے اور زیادہ صحیح طور پر ہے، اس لیے کہ ٹیگور کو بنگال سے باہر اْس وقت تک کسی نے نہیں پوچھا جب تک وہ یورپ جا کر نوبل پرائز نہ حاصل کر لائے۔ برخلاف اس کے اقبال کی شہرت یورپ کی اعانت سے بالکل مستثنٰی ہے۔
یہ الفاظ ایڈورڈ مورگن فاسٹر (1879-1970) نے اے آر نکلسن کے ذریعے کیے گئے انگریزی ترجمہ اسرار خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھے، جو دسمبر 1920 کے  ادبی جریدہ Athanacumمیں شائع ہوا اور پھر بعد میں اسی کو رفعت حسین نے اپنی کتابThe Sword and Scepter میں شامل کیا۔یہ اقتباس وہیں سے ماخوذ ہے جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔
یہ تو ای ایم فاسٹر کا خیال ہے جو شاید اقبال سے بہت متاثر تھے، لیکن اس سے ٹیگور کی اہمیت کم نہیں ہوجا تی یا صرف ان کے کہنے کی وجہ سے اقبال کی اہمیت بڑھ نہیں جاتی۔ اس اقتباس کو پیش کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مشرق کی دو عبقری شخصیات کو مغرب کس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں نے تمام ہندوستان کو حد درجہ متاثر کیا۔ دونوں نے ادب اور شاعری کے علا وہ سماجی،تعلیمی، اورسیاسی فکر کے شعبوں میں جو خدمات انجام دی ہیں ان کی قدروقیمت بیش از اندازہ ہے۔ دونوں عمدہ انسانی صفات کا ایسا مظہر تھے جنھوں نے بعد کی نسلوں کے ذہنوں کو متاثر کیا اور ان کی صحیح سمتوں کی طرف رہنمائی کی، دونوں کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مشرق و مغرب، جدید اور قدیم، ملک میں جاری قومیت کی لہر اور بین الاقوامیت کے درمیان امتزاج پیدا کیا۔
ٹیگور اور اقبال دونوں ہم عصر تھے دونوں کا ہتھیار ان کا قلم تھا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں کے افکار و خیالات میں مطابقت کے ساتھ ساتھ اختلاف بھی ہے۔ اقبال بیسویں صدی کے شاعر، فلسفی اور حکیم الامت تھے۔ انھوں نے قوم مسلم کو ایک نیاانداز فکر دیا، ساتھ ہی بیداریِ نفس اور خودی کی شناخت کا وہ نظریہ دیا جس نے ضمیر کو زندہ کیا اور دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ علامہ اقبال ان احساسات کے نقیب تھے جنھیں اصطلاح کی زبان میں تکوینی اور باطنی آگاہی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایک ایسا احساس جس میں آدمی خود کو خدا کی معرفت کی خاطر گم کر دیتا ہے، فکر اقبال کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال خدا کے تصور میں اگر ایک طرف بے خود ہونے کی کوشش کرتے ہیں تودوسری طرف خودی کو اعتبار سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
 وہیں ٹیگور ایک دوسرے کینوس میں جلوہ گر نظر آتے ہیں، وہ شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، گیت کار، موسیقی ساز (میوزک کمپوزر)، مقالہ نویس، سیاستداں، ماہر تعلیم، فلسفی اور مصور کے علاوہ ایک اسٹیج اداکار کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں، انھوں نے ایک اچھے تاجر کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت بنائی۔ انھوں نے اپنے بھائی کی طرح زمینی حقائق سے منھ موڑنا پسند نہیں کیا۔ بلکہ اکثروبیشتر تو ایسا ہوا کہ وہ اپنی تلاش، جستجو اور جد و جہد میں کامیاب رہے اور اپنے تمام تر مقاصد کو پا لیا۔ یہاں تک کہ کبیر کے ’انہد ڈھول‘ سے بھی آگے بڑھ گئے جسے اس فن کا آخری شہ پارہ تصور کیا جاتا تھا۔ انھوں نے غم، مایوسی، امید، آنسو اور خوشی کے نغموں کو نہ صرف لکھنا جاری رکھا بلکہ ان ہی کی زبان میں ”انھوں نے جیسا سوچا ویسا ہی کیا، یعنی کلیوں کو پھول بنا دیا۔
دونوں کے نظریات کو سمجھنے کے لیے یہاں پر میں دو نظموں کے ایک ایک ٹکڑے نقل کر رہا ہوں، اس سے دونوں کے فکروفلسفے کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ پہلاٹکڑا علامہ اقبال کی نظم فلسفہ ئغم سے ماخوذ ہے، جبکہ دوسرا ٹیگور کی نظم ’سر تھاکتا‘ سے۔ دونوں میں محبوب کی موت سے ہونے والے غم اور احساس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہوں ’فلسفہئ غم‘ سے اقبال کے یہ چند اشعار:
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں
آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
نغمہئ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
شام جس کی آشنائے نالہئ ’یا رب‘ نہیں
جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں
ہاتھ جس گل چیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفتِ غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
ہے ابد کے نسخہئ دیرینہ کی تمہید عشق
عقلِ انسانی ہے فانی، زندہئ جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پایندہ ہے
اور اب ٹیگور کے چند اشعارکا ترجمہ ملاحظہ کریں جو انھوں نے اپنی جوان بیوی کی موت کے بعد لکھے (پھر انھوں نے دو بارہ شادی نہیں کی)۔ قارئین ٹیگور کو پڑھتے وقت ایک ذاتی تجربہ محسوس کریں گے کیوں کہ ٹیگور عام طور پر تجربے کو بنیاد بنا کر بات کرتے ہیں اس لیے اس میں اس کاعکس صاف جھلکتا ہے:
تم نے میری زندگی کو موت کی خوبصورت لذت سے آشنا کر دیا ہے۔ تم نے میرے قلب کو ابدی فراق کی روشنی سے معمور کر دیا ہے اور میرے خیالات کو آفتاب کی شعاعوں کی طرح رنگین اور روشن کر د یا ہے۔ زندگی کے افق کو ایسی عظمت بخشی ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اشکوں کی طرح شفاف آسمان پر جنت کے نشا ں واضح نظر آ رہے ہیں۔ تم نے میری زندگی کو موت کی خوبصورت لذت سے آشنا کر دیا ہے۔
تم نے اپنی بانہوں میں میری زندگی اور موت قبول کر لی ہے۔ تم نے موت پر اپنی روح کا انکشاف کر کے موت کو دائمی کر دیا ہے۔ تم نے موت کو زندگی کا محبوب بنا دیا ہے۔ تم نے دروازے کھول دیے ہیں اور ابدی پردہ داری کو ختم کر دیا ہے، تم زندگی اور موت کے بیچ میں خاموش کھڑی ہو۔ تم نے اپنی بانہوں میں میری زندگی اور موت قبول کر لی ہے۔“                                                 سمارا صفحہ 250
ٹیگور کے نظریہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا اس کے لیے کوئی بیرونی قوت نہیں ہے۔ گیتانجلی کی ایک نظم میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا اپنی تخلیقات کو شاعر کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے۔ اور وہ شاعر کے کانوں سے ابدی نغموں کوسنتا ہے۔ ایسی منظر کشی ان کی شاعری میں بیشتر مقامات پر ملتی ہے۔ زندگی کی محدودیت کو تسلیم کر کے وہ روح کو اسی زندگی میں آزاد کرانے کی جستجو کرتے ہیں۔ وہ زندگی اور موت دونوں کی حقیقت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ حقیقت میں، ایک نظم میں،جو 30 جولائی1941 کولکھی گئی، وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس میں قریب الوقوع موت کا سایہ دیکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ خوف محسوس نہیں کرتے۔ وہ اس کو سلیقے سے لفظوں کا روپ دیتے ہیں۔ اس کے چند ہی ماہ بعد واقعی ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔ان کی نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
میں آج اپنی پیدایش والے دن میں کھویا ہوا ہوں۔ دوستو! میرے قریب آؤ، آؤ مجھے مس کرو، مجھے اس دنیا کو آخری بار چھونے دو آخری بار چھونے دو، زندگی جو مجھے آخری بار دیتی ہے لینے دو، مجھے آخری آشیرواد دو، آج میری جھولی سب خالی ہے۔ جو کچھ مجھے دینا تھا، وہ سب کچھ میں نے دے دیا ہے۔ بدلے میں جو بھی مجھے ملے گا، کچھ پیار، کچھ معافی، وہ سب میں اپنے ساتھ لے چلوں گا۔ جب اس کشتی پہ پاؤں رکھوں گا، جو لے چلے گی مجھے، سب لفظوں کے میلوں کے پار۔
سگی، آر (2006)، گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور اے بایو گرافی، ڈائمنڈ کتب /اشاعت:1 اکتوبر / ISBN 978-81-89182-90-
 ۱قبال کے نزدیک زندگی اور موت دونوں اپنے اندر قوّتِ تسخیر رکھتی ہیں:
ہے لحد اس قوّتِ آشفتہ کی شیرازہ بند
ڈالتی ہے گردنِ گردوں میں جو اپنی کمند
بانگِ درا، نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘، صفحہ 871
آشکارا ہے یہ اپنی قوّتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
 بانگِ درا، نظم ’خضرِ راہ‘، صفحہ 991
اقبال اور ٹیگور کے نظریات میں بھی واضح فرق ہے۔ اقبال کے افکار بنیادی طور پر منطقی ہیں۔ اقبال جرمن فلسفی نطشے کے فلسفے سے بے حد متاثر ہیں۔ یہ بات اقبال کے کلام سے اس وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ زندگی کے ابدی حقائق سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں:
زمین و آسماں را بر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داوری کردہ
زبور عجم (اقبال)
(انسان زمین و آسماں کو اپنی مرضی کے مطابق کر نا چاہتا ہے۔ وہ اگرچہ غبارِ راہ ہے لیکن خدائی فیصلوں میں دخل اندازی کرنے چلا ہے۔)
اقبال ایک دوسرے ہی کردار کے حامل تھے۔ وہ کوئی صوفی سنت نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر ایک متنازعہ کردار کا انتخاب کیا۔ انھوں نے خوابیدہ مسلم قوم کو بیدار کرنے کی ٹھانی۔ انھوں نے دو معروف نظموں شکوہ اور جواب شکوہ میں خدا سے مباحثہ کیا۔ مگر اس میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے روایت پر مبنی اسلامی فکر سے ہٹ کر ایک الگ نظریہ پیش کیا، جس میں انھوں نے اس رول کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس میں اسلامی عقائد کو لے کر عجز پسندی کا رویہ اپنایا گیا ہے۔ اس چیز کو اگر گہرائی سے دیکھیں تو اس میں ایک سیاسی مشق یا تمرین بھی دکھائی دیتی ہے اور خدا کے الفاظ میں اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ مسلم قوم کے مسائل کیا ہیں۔ اس میں وہ اللہ، قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کعبہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان تو ان تمام چیزوں پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ بٹے ہوئے ہیں، پھر وہ انھیں غیرت دلاتے ہیں اور کہتے ہیں ”کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک۔
ٹیگور بھی سیاست کی اثر اندازی سے نا آشنا نہیں تھے، اگرچہ وہ بنگال کے بٹوارے کے خلاف احتجاج اور سودیشی تحریک کے لیے فعال بھی رہے، پھر بھی وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہی رہے، انھیں محسوس ہوا کہ سیاسی قوتوں سے نمٹنا آسان نہیں ہے، اس لیے سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا، تاہم صلح و مشاورت کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے۔ ٹیگور کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ سیاسی زندگی قومی زندگی کا محض ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ اگر نظام معیشت اور دانشورانہ صلاحیتوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو یہ تمام تحریکیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ان کی پوری زندگی ’اپنا کام آپ کرو‘کی مصداق نظرآتی ہے اور یوں وہ اپنے والد کی معیشت میں خود کو مصروف کرنے اور اولین فرصت میں ان تمام مسائل سے نجات کا راستہ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں، وہ اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لیے شانتی نکیتن کی بنیاد رکھتے ہیں اور کم و بیش اپنے مقصد میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں، جس کے نتیجے کے طور پر وشو بھارتی یونیورسٹی کا قیام اور کم از کم ان کی زندگی میں اس ادارے میں پوری دنیا سے طالبان علم کی اس علمی مرکز پر آمداس کی حیثیت اور اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
 اس تناظر میں دوسری طرف اقبال فعال مسلم لیگی سیاست میں اہم کردار بن کر ابھرے۔ اس کے لیے فارسی میں فلسفہ پر مبنی بہت سے علمی و تاریخی مقالہ جات تحریرکیے، محض اس امید پر کہ پوری دنیا میں قوم مسلم ایک ہو جائے۔ وہ انگریزی میں بھی لکھتے تھے اس کی بہترین مثال ’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ نامی کتاب ہے جو انھوں نے پہلے انگریزی میں لکھی تھی۔ اس کے برعکس ہندوستانی رہنماؤں کے اصل نظریاتی دانشور، مولانا ابوالکلام آزاد نے بطور زبان اردوکا انتخاب کیا۔ اردو کو کتنی ترقی نصیب ہوتی اگر اقبال بھی جاوید نامہ اردو میں لکھتے!
ٹیگور نے تجریدی موضوعات پرزیادہ لکھا۔ان کے اظہار خیال کی زبان بنگالی تھی اور اس وجہ سے اس کے ذریعے بنگالی زبان کو اعلیٰ معیار و وقار حاصل ہوا۔ اقبال نے اپنے نظریہ کو منطقی نتیجہ تک پہنچایا اور ایک عالمی مسلم قومیت کے نظریہ کے علم برداربن گئے۔
ٹیگور ایک عظیم کہانی کار، موسیقی نواز، مصور اور منتظم تھے۔ اقبال فلسفی شاعر اور کسی حد تک سیاست داں بھی تھے۔ لیکن دونوں کو ایک ہی زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں میں کافی تفاوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال اقتدار یا بندش کے خلاف سرگرم عمل شخص تھے۔وہ اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ انسان بطور خاص مسلم نوجوان کی سوچ نئے سرے سے ان کی اپنی سوچ کے مطابق ہو جائے۔ جبکہ ٹیگور کے یہاں ایسا کچھ نہیں پایا جاتا۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ازلی و ابدی شے کا حصہ ہے جسے دوسرے لفظوں میں لابدی عنصر بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ چیزذیل کے نمونہئ کلام سے واضح ہوتی ہے۔
اقبال:
اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی تِرا جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
بال جبریل

ٹیگور:
میں جا رہا ہوں، غروب ہوتے آفتاب نے کہا
کوئی ہے جو میری ذمہ داریاں اپنے سر لے؟
سارے عالم پر خاموشی چھائی رہی
لیکن ایک زمینی چراغ نے جواب دیا
میں ہوں نا، میں اپنی پوری کوشش کروں گا
http://www.gutenberg.org/files/33525/33525-h/33525-h.htm
 انھوں نے 1940 میں درج ذیل نظم لکھی اور اس کے ایک سال بعد ہی 1941 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
  ہر وہ شے جس کی میں نے شدت سے آرزو کی میری دسترس سے چھوٹ گئی اور کہیں غائب ہو گئی۔ میں ایک آزاد اور ہر ضابطہ سے آزاد شعور محسوس کرتا ہوں۔ صبح صادق مجھ پر اُس کی اصل حقیقت واضح ہوتی ہے، وہ صاف ہے پر خالی نہیں، تب مجھے اْپنشد کے ماہر ایک پنڈت کی بات کا احساس ہوا کہ”اگر آسماں بھی خوشیوں سے خالی ہوتا تو جسم و جاں میں زندگی کا کوئی ہیجان باقی نہ رہتا۔
Celebrating Tagore By Rama D. Datta, Clinton B. Seely  صفحہ نمبر 234
دونوں پر ان کی زندگی میں اور موت کے بعد تنقیدیں کی گئیں۔ دونوں ہی عملاً اپنی زندگی میں ہی اپنے اپنے نظریات کے نمائندہ سمجھے جانے لگے۔ کچھ نوجوانوں نے ان کے خلاف بغاوت بھی کی۔اس سلسلے میں ٹیگور کا ایک خط نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ نہ سہی لیکن بہر حال اس کا اندازہ ہو سکے گا کہ اُس وقت ان کے خلاف کیا کچھ کیا جا رہا تھا یا پھر ان کو بدنام کرنے والے کس طرح کا رویہ اپنا رہے تھے، واضح رہے کہ ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور نے یہ خط علی خان لمعہ حیدرآبادی کے نام لکھا تھا۔ ایک عظیم شاعر کا ایک عظیم شاعر کے بارے میں یہ مکتوب بے حد اہم ہے۔ چونکہ تنگ نظری سے ہٹ کر وسعت قلب کے ساتھ لکھا گیا تھا اس لیے ہر اقبال اور ٹیگور دوست کو عزیز رکھنا چاہیے۔ اصل خط انگریزی میں تھا اس کا ترجمہ پہلی بار نیرنگ خیال سالنامہ 1936 میں شائع ہوا تھا۔ملاحظہ ہو:
وشو بھارتی۔ شانتی نکیتن، بنگال
7 فروری   1933
محبی مسٹر خان
آپ کے خط اور نظم نے میرے دل پر خاص اثر کیا۔ یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ میری اور اپنے شاعر اعظم سر محمد اقبال کی نظموں کے درمیان ایک خاص اندرونی تعلق پاتے ہیں، چونکہ میں اُس زبان سے نا بلد ہوں جس میں وہ اپنا کلام فرماتے ہیں اس لیے میرے لیے ناممکن ہے کہ میں ان کی اپج کی گہرائی یا ان کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ لگا سکوں لیکن ان کی عالمگیر شہرت سے مجھے یقین ہوتا ہے کہ ان میں جاودانی علم و ادب کی عظمت ہے۔
بار ہا اس چیز نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے کہ نقادوں کی ایک جماعت میری اور سر محمد اقبال کی ادبی کوششوں کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کرتی ہے یہ رویہ اس ادب کے متعلق بالکل غلط ہے جو انسانی دل و دماغ کے عالمگیر پہلو سے بحث کرتا ہے اور اس طرح تمام ملکوں اور زبانوں کے شعرا اور اہل فن کو ایک برادری میں منسلک کرنے کا سامان پیدا کرتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ سر محمد اقبال اور میں ادب میں صداقت اورحسن کی خاطر کام کرنے والے دو دوست ہیں اور اس جگہ یک جا ہو جاتے ہیں جہاں انسانی دماغ اپنا بہترین ہدیہ ’جاودانی انسان‘ کے حضور پیش کرتا ہے۔
  خیر اندیش
رابندر ناتھ ٹیگور
ص 440۔ 4/اوراق گْم گشتہ (علا مہ اقبال کے بارے میں غیر مدون تحریریں)/بار اول جنوری 1983/مرتبہ: رحیم بخش شاہین ایم اے مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی
اس خط سے ایک تخلیق کار کے صرف کرب کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایک ہم عصر کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اوراس تناظر میں یہ علم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر علامہ اقبال کو دو وجوہ کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی بابت اول یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کیسے مسلم علیٰحدہ قومیت کے نظریہ کے بانی اور ہندوستان کے بٹوارے کی بات کرنے والے ہوسکتے ہیں جنھوں نے ایک زمانے میں ’سارے جہاں سے اچھا‘ جیسی نظم لکھی، اس بابت گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مشیر الحق مرحوم لکھتے ہیں:
جب اقبال کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ سارا جہان مسلمانوں کا وطن نہیں بن سکتا تو انھوں نے الٰہ باد کے خطبے میں کھل کر یہ بات کہہ دی کہ اسلامی تہذیب و روایات کو باقی رکھنے کے لیے جتنی سر زمین بھی مل سکے اس پر قناعت کر لینی چاہیے اور اسے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت سے استعمال کر کے دوسروں کو سوچنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے کہ کہیں اس نئی تجربہ گاہ سے فائدہ نہ اٹھا کروہ خود اپنا نقصان تو نہیں کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر مشیر الحق:اقبال ایک مسلم سیاسی مفکر،صفحہ 81.80،ناشر:مکتبہ جامعہ نئی دہلی،سنہ اشاعت 2012
 ایک جماعت نے ٹیگور پرنقدکرتے ہوئے کہا کہ وہ تجربات کی بنیاد پر کمزور اقدار کی بات کرتے ہیں، وہیں ایک دوسری جماعت ان کے اوپر اس لیے تنقید کرتی ہے کہ ٹیگور اپنے اثر کی وجہ سے دوسروں کے لیے رکاوٹ بن رہے تھے،منصفانہ طور پر دیکھا جائے تو دونوں نظریے اپنی جگہ پر درست ہیں، انھوں نے ایک نئی زبان کی تخلیق کی اور بول چال والی بنگالی زبان کو اس سے نکال کر ایک ادبی زبان کی حیثیت سے متعارف کرایا، جو سنسکرت اور اس جیسی دوسری زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ مگر 1930 کے بعد بنگال میں نئے لکھنے والوں کی جماعت آئی اور انھوں نے ایک نئے فن پارہ اور ادب کی بات کہی۔ مہیت لال مجومدار نے ان تمام کو مدعو کیا اور ایک راہ نکالنے کی کوشش کی جو زمینی حقائق سے قاری کے ذہن کو موڑنے کے ہتھکنڈے اپنا رہے تھے۔
جب نئے مقابل یا مدعی ان کی تحریر کو فرسودہ اور بے کار قرار دے رہے تھے، تب بھی ٹیگور نے اس کے رد عمل میں کسی قسم کی جھنجھلاہٹ یا بیزاری کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے کام میں پوری دلجمعی سے جٹے رہے۔ بقول ان کے ان کا وجود اپنشد کے روحانی نظریہ سے متاثر تھا، جسے کچھ تو انھوں نے اپنے وجدان اور وژن سے حاصل کیا تھا اور جوکچھ انھیں موروثی طور پر ملا تھا انھوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں:
وید، اپنشد اور گوتم کی تعلیمات سے میں نے روشنی پائی،میں نے ان خزانوں سے اپنی زندگی اور اپنی تعلیمات میں استفادہ کیا
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:شمیم طارق،ٹیگور شناسی، ناشر: ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم،شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سنہ اشاعت 2013
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شمیم طارق کہتے ہیں:
لیکن وید و اپنشد سے عقیدت کے باوجود انھوں نے روایتی ہندوستان کے ’افسانوی دیوتاؤں‘کو تسلیم نہیں کیا،’ادویت واد‘پر کامل یقین رکھتے تھے جو قدیم ہندو فلسفے کا بنیادی اصول تسلیم کیا گیا ہے۔وہ اسی ایک خدا کو مانتے تھے جو کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجود ہے۔
وہ خدا جو آگ میں ہے پانی میں ہے
اور جو تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے
میں اسی خدا کو پیہم سجدے کرتا ہوں
سندھیا (شام)سنگیت /بحوالہ:ٹیگور شناسی،صفحہ نمبر  123
ٹیگور خود کہتے ہیں:
مذہب کا لمس بھی اس اندیکھے بے نام و نشان راستے سے مجھ تک پہنچتا ہے جس راستے سے نظمیں لکھنے کی تحریک میرے پاس آئی ہے،میری مذہبی زندگی نے بھی اپنی نمو کے وہی پُر اسرار راستے اپنائے ہیں جن خطوط پر میری شاعرانہ زندگی چلتی ہے، ایک طرح سے یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں اور اگر چہ ان دونوں کا ملاپ بہت پہلے ہو چکا مگر بہت دنوں تک یہ راز مجھ پر نہیں کھل سکا۔
رابندر ناتھ ٹیگور،از ہیرن مئے بنر جی،صفحہ نمبر118/119
ٹیگور اور اقبال میں فرق ہے تو بس یہ کہ ٹیگور نے ہندو ہونے کے باوجود کسی جماعت یا نصب العین کے حوالے سے نہیں بلکہ صرف ہندوستانیت اور انسانیت کے حوالے سے رنگ و نسل کی رنگا رنگی میں وحدت کے جلوے دیکھے اور عقیدوں، رنگوں، نسلوں اور بولیوں کے باوجود ہندوستان کی دھرتی کی آغوش میں عہد بہ عہد سما جانے والے مختلف نسلی، لسانی ومذہبی گروہوں کو ہندوستانی تسلیم کیا ہے۔
وہیں اقبال ایک ملت یا جماعت کے حوالے سے ایک کلی تصور حیات پیش کرتے ہیں، ایک طرف اگر وہ ترانہئ ہندی سے ہندوستانیوں کا دل جیتتے ہیں تو دوسری جانب نیا شوالہ پیش کرکے برادران وطن کے جذبات کی عکاسی۔ان کی شاعری یا تحریروں میں ٹالسٹائی، شیکسپیئر، ہیگل، گوئٹے برگساں، بائرن لینن، آئنسٹائن کے علاوہ رام، گوتم بدھ، شیو، بھرتری ہری، شنکر اچاریہ اور گرونانک وغیرہ کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن اس کے باوجود اقبال کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اقبال تشدد پسند اور بنیاد پرست تھے جو ادب میں بھی ایک خاص فکر کو ملحوظ رکھتے تھے۔ اس بابت گفتگو کرتے ہوئے علی سردار جعفری کہتے ہیں:
اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں کشمیری بر ہمن کا دماغ، مسلمان کا دل، قران کریم کی تعلیمات، مغربی علوم، ہندو فلسفہ،جلال الدین رومی اور غالب کی شاعری اور مارکس و لینن کے انقلابی تصورات سب شامل ہیں:
خرد افزودمرا درس حکیمان فرنگ
سینہ افروخت مر اصحبت صاحب نظراں
(مغربی مفکروں کے پڑھائے ہوئے سبق نے میری عقل میں اضافے کیے لیکن میرے سینے کو عارفوں کی نگاہ نے روشن کیا ہے)
اقبال شناسی /علی سردار جعفری:مکتبہ جامعہ نئی دہلی۔صفحہ نمبر29
 علی سردار جعفری نے ٹیگور اور اقبال کی مخالفت کے حوالے سے بڑی عمدہ بات کہی ہے:
ہمارے عہد کے شاعر، ادیب اور قومی رہنما اکثر مختلف قسم کی تاویلوں کے شکار ہوتے رہتے ہیں، اس سے مہاتما گاندھی اور جواہر لال تک محفوظ نہیں ہیں۔ 1948-49 میں بنگال کے کمیونسٹ رہنما بھوانی سین نے اپنی انتہا پسندی میں ٹیگور کو رجعت پرست ثابت کر دیا تھا، اور ایک پورا گروہ اس پر ایمان لے آیا تھا، اسی طرح ہندوستان کے ایک گروہ نے سیاست کے نشے میں اقبال پر مسلم فرقہ پرستی کا الزام لگا کر انھیں قابل مذمت قرار دے دیا اور یہ بات پچیس سال تک مستند سمجھی جاتی رہی، اب اس کی تلافی کسی حد تک اندرکمار گجرال کی رہنمائی میں آل انڈیا ریڈیو نے کی ہے لیکن چند سال کے اندر اقبال کے جشن ولادت پر پورے ہندوستان کو اس نقصان کی تلافی کرنی چاہیے۔
علی سردار جعفری،اقبال شناسی،صفحہ نمبر 22-23مکتبہ جامعہ نئی دہلی سنہ اشاعت 2011
 ان دو شخصیتوں کو گزرے ہوئے نصف سے بھی زیادہ صدی گزر چکی ہے، تو اب ہم انھیں کس نظر سے دیکھیں یا کس زاویہ سے ناپیں، دونوں نے انسان کی روحانی آزادی کے لیے کام کیا، دونوں کے سوچنے کا نظریہ الگ تھا، ٹیگور جس قسم کی آزادی چاہ رہے تھے اور جیسی آزادی اقبال کو مقصود تھی دونوں میں کافی فرق تھا، ہوسکتا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ وہ لوگ اپنے معاصرین اور ان کے زمانے کے کامیاب لوگوں کے درمیان حائل رہے ہوں،لیکن ہم نے ٹیگور اور اقبال کا جو نظریہ تھا اسے پس پشت ڈال دیا تاکہ ہم اپنے طریقے سے نظریہ کو لاگو کر سکیں۔
مگر اس کی وجہ سے ان دونوں کی اہمیت ختم نہیں ہو جاتی۔ اقبال کے نظریات سے ہندوستان میں بہت سے لوگ اتفاق نہیں رکھتے ہیں اور ایک بڑا اردو داں طبقہ بھی ان سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے اور اسی طرح ٹیگور سے بھی لوگ بہت خوش نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں، اہل بنگال جن کو ان کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انھوں نے ان سے منسوب ایک نئی زبان کو متعارف کرایا ان کے ساتھ بھی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک جانب تو انھیں پوجتے تھے اور دوسری جانب رفتہ رفتہ انھیں بھول بھی گئے،مگر محض اہل بنگال پر ہی الزام کیوں عائد کیا جائے؟
 یہی حال پاکستان میں اقبال اور فیض کے ساتھ روا ہے، ان کی سال گرہوں پر میٹنگیں ہوتی ہیں، ان کی غزلیں بھی گنگنائی جاتی ہیں، بہت سارے قوال ان کے کلام پر قبضہ جما کر ’خودی کو کر...، ’خودی کو کر...‘ کی رٹ لگاتے ہیں مگر انھیں وہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
علامہ اقبال اور ٹیگور ہوش و حواس پر مبنی زندگی گزارتے تھے اور ویسا ہی رہنا چاہتے تھے اور اس ناگزیر حقیقت کو تسلیم کرتے تھے۔ دونوں ایک ایسا جہان آباد کرنا چاہتے تھے جہاں دلوں میں کوئی خوف و دہشت نہ ہو،ان کا ماننا تھا کہ انسانیت کے وجود کا راز احترام انسانیت میں مضمرہے۔ان کی عظمت عبارت تھی اس جذبے سے جو ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانے کے لیے اپنی فکرو نظر کی پوری سچائی کے ساتھ مصروف عمل رہے جہاں خیر وشر کی جنگ میں خیر کی فتح ہو۔
نوٹ: ٹیگور کے دستیاب ترجموں کو اصل سے ملانے پر ان میں کافی فرق نظر آتا ہے، اس لیے مضمون میں شامل تمام اشعار کا ترجمہ راقم نے انگریزی زبان سے خود کیا ہے۔


Mohd Alamullah,
 E-26, Abul Fazal Enclave,
 Jamia Nagar, Okhla,
 New Delhi - 110025
ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2014

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں