12/2/20

ابوعثمان الجاحظ- شخصیت اور ادبی امتیاز مضمون نگار: نایاب حسن قاسمی


ابوعثمان الجاحظ- شخصیت اور ادبی امتیاز

 نایاب حسن قاسمی

عصرِ عباسی اپنی بے مثال علمی و ادبی اور فکری و فنی خوبیوں کی وجہ سے ممتاز سمجھاجاتاہے اوراس دور کی یہ خوبیاں اُن عظیم افراد کی وجہ سے ہیں، جنھوں نے اپنے نتائجِ فکر سے اسلامی و عربی ادب و فکر کومالامال کیا۔ ایسے ہی عظیم لوگوں میں سے ایک جاحظ بھی ہے،یہ ایک جلیل القدر ادیب، نثر نگار،دانشوراور صاحبِ اسلوب انشاپرداز تھا، اس کی کنیت ابوعثمان ہے اورنام عمروبن بحربن محبوب ہے،اس کا خاندان بنوکنانہ سے تعلق رکھتا تھا۔ جاحظ کی پیدائش بصرہ میں 160ھ (781)میں ہوئی۔جاحظ کا گھرانہ ایک معمولی گھرانہ تھا،اس کے والدین مفلوک الحال اور معاشرے کے حاشیائی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے، شاید اسی وجہ سے تاریخ میں اس کے ماں باپ کاکوئی تذکرہ نہیں ملتا،البتہ بعض مؤرخین نے اس کے داداکا ذکر کیاہے، جوبنو کنانہ کے یہاں اونٹ چراتا تھا۔ جاحظ کے والد کا انتقال اس کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا، پھر اس کی والدہ نے تمام تر عسرتوں کو جھیلتے ہوئے اس کی پرورش کی۔گھرکی خستہ حالی کی وجہ سے جاحظ کو بچپن سے ہی تلاشِ معاش میں لگنا پڑا؛ چنانچہ وہ بصرہ میں نہرِسیحان کے کنارے روٹیاں اور مچھلیاں بیچنے لگا، مگر چونکہ فطری طورپر وہ ایک ذہین اور حصولِ علم کا شوق رکھنے والا بچہ تھا؛اس لیے اس نے اپنا گھر چلانے کے ساتھ وقت نکال کر بعض تعلیم گاہوں میں بھی آمد ورفت شروع کردی اور اس طرح اس نے اپنے حصولِ علم کا سفر بھی جاری رکھا، حتی کہ مختلف اوقات میں اس نے اخفش، اصمعی، ابوعبیدہ، ابوزید انصاری، ابراہیم بن سیار وغیرہ جیسے اصحابِ فکر و ادب سے استفادہ کیااور رفتہ رفتہ خود ایک عظیم ادیب و نثر نگار کی حیثیت سے آسمانِ ادب پر چھا گیا۔ اس نے صرف اپنی مادری زبان عربی میں ہی دسترس حاصل نہیں کی؛بلکہ عربی کے علاوہ دیگر زبانوں کے آداب و علوم سے بھی آگاہی حاصل کی اور فارسی، یونانی و سنسکرت زبانوں کے لٹریچر کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا۔اس سلسلے میں اس نے ان زبانوں کے عربی تراجم کا سہارا لیا یاان کے مترجمین مثلاً سلمویہ اور حنین بن اسحاق وغیرہ سے اخذ و استفادہ اور مناقشہ و مذاکرہ کے ذریعے ان زبانوں کا علم حاصل کیا۔
حصولِ تعلیم کے بعد جاحظ نے بصرہ کو خیرباد کہہ کر بغداد کی طرف کوچ کیا،جواس کے لیے ایک وسیع میدانِ عمل ثابت ہوا اور وہاں پہنچنے کے بعد اس کی ادبی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں،بہت جلد وہ اربابِ ادب کے حلقوں میں مقبول و مشہور ہوگیا،اس کی مقبولیت دیکھتی آنکھوں اس حد تک پہنچ گئی کہ بہت سے پرانے اصحابِ ادب و قلم اس سے حسد کرنے لگے،کچھ لوگوں نے اپنی تحریروں میں اس کے اسلوب کی نقل کرنے کی کوشش کی، جبکہ بعض لوگوں نے اسے مختلف حیلوں سے بدنام کرنے کی سازش کی،مگر کسی کوکامیابی نہ ملی اور جاحظ روزبہ روز نئی بلندیوں کو چھوتا گیا۔اس نے امامت (خلافت) کے سلسلے میں ایک کتاب لکھی تھی،جواس وقت کے عباسی خلیفہ مامون رشید تک پہنچی، اس نے وہ کتاب پڑھی،تواسے بہت اچھی لگی، اس نے فوراً جاحظ کو دربارِ خلافت میں طلب کیا، انعامات سے نوازا اور اپنا کاتب (سکریٹری، منشی) مقرر کردیا،مگر جاحظ کی طبعِ آزاد کے لیے یہ عہدہ موزوں نہ تھا؛چنانچہ اس نے بہت جلد استعفا دے دیا، اس دوران کئی سرکاری اہل کاروں،وزیروں اور رئیسوں سے اس کے روابط مضبوط ہوگئے،انہی میں سے ایک محمد بن عبدالملک زیات تھا،جو خلیفہ معتصم کا وزیر تھا،جب جاحظ نے ’کتاب الحیوان‘ لکھی،تواسے بھی ہدیتاً پیش کی،یہ کتاب اسے اتنی اچھی لگی کہ اس نے جاحظ کو بہ طورانعام پانچ ہزار دینار سے نوازا۔ مرفہ الحال ہونے کے بعد جاحظ نے مختلف علاقوں کے دورے کیے اور دمشق، انطاکیہ و مصر کے چکر لگاتارہا۔جب متوکل نے خلافت سنبھالی توزیات پر مصیبت آپڑی،جس کا اثرجاحظ پر بھی پڑا، وہ ڈرکے مارے فرار ہوگیا،مگر پکڑاگیااور چونکہ متوکل کے قاضی محمد بن ابوداؤداس سے واقف تھے؛ چنانچہ انھوں نے خلیفہ کے سامنے اس کی علمی و ادبی صلاحیت کی تعریف کی؛اس لیے متوکل نے اسے اپنے پاس رکھ کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر لگادیا،مگر وہاں بھی زیادہ دن نہ رہ سکااور جلد ہی اس ذمے داری سے فارغ کردیاگیا۔
جاحظ نے اپنی بے مثال علمی صلاحیت اور ادبی ہنر مندی کے عوض نہ صرف شہرت حاصل کی؛بلکہ دنیابھی خوب کمائی جس امیر، رئیس یاخلیفہ سے ملتا، اس کی خدمت میں اپنی کوئی نئی تصنیف پیش کردیتا اور چوں کہ اس زمانے کے امراورؤسابھی علم دوست و ادب شناس ہوتے تھے؛ چنانچہ وہ جاحظ کو جی بھر کر نوازتے،اس طرح اپنے علم و قلم کی بہ دولت جاحظ نے دونوں ہاتھوں سے دولت و شہرت سمیٹی،ان تمام محرومیوں کا بدلہ نکالا،جواس نے بچپن میں جھیلی تھیں یاجن محرومیوں سے اس کے خاندان اور گھر والے گزرتے آرہے تھے۔
تمام تر علمی وجاہت،ادبی امتیاز اور فکری و ذہنی تفوق کے ساتھ جاحظ ظاہری اعتبار سے نہایت بدہیئت، بدصورت اور قبیح انسان تھا۔کہتے ہیں کہ اس کا لقب ’جاحظ‘  اس لیے پڑا کہ اس کی آنکھ کا ڈھیلا باہر کی طرف نکلا ہوا تھا اور عجیب بدہیئت لگتا تھا،اسی وجہ سے اسے ’حدقي‘ بھی کہا جاتا تھا، البتہ وہ جاحظ کے لقب سے زیادہ مشہور ہوا اور دوسرا لقب اتنا مشہور نہیں ہوسکا۔جب شروع شروع میں لوگ اسے جاحظ کہتے تھے،تو وہ ناراض ہوتا،مگر پھر رفتہ رفتہ اس کا عادی ہوتا گیا اور ایک زمانے کے بعد یہ لفظ عربی ادب میں عظمت و احترام کی علامت بن گیا۔ اس کی شکل و صورت کے بارے میں عجیب عجیب باتیں بیان کی جاتی ہیں،مثلاً یہ کہ وہ ٹھگنے قد کا تھا،نہایت سیاہ فام تھا، اس کا سرچھوٹا، کان چھوٹے اورگردن پتلی تھی، عربی ادب کی تاریخ میں اس کی بدصورتی سے متعلق بہت سے واقعات مذکورہیں۔اس کی بدہیئتی کی انتہایہ ہے کہ کسی شاعر نے کہا:
لو یمسخ الخنزیر مسخاثانیا
ماکان إلادون قبح الجاحظ
اگر خنزیر کوبھی دوبارہ مسخ کردیاجائے،تووہ بھی جاحظ سے کم ہی بد صورت ہوگا۔(شارل بلات،الجاحظ فی البصرۃ وبغداد وسامراء، ط: دارالیقظۃ العربیۃ، دمشق، ص:98-103)
جاحظ کو خود اپنی بد صورتی کا احساس تھا؛ چنانچہ اس کا اپنا بیان ہے کہ متوکل نے اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس لیے الگ کردیاکہ وہ بدشکل تھااور اس کے بچے اسے دیکھ کر ڈرجاتے تھے،اسی طرح ایک مشہور واقعہ ہے کہ جاحظ ایک جگہ کھڑاتھاکہ ایک عورت اس کے پاس آئی اوراس نے اس سے کہا کہ فلاں پینٹرکی دکان تک چلو، وہ اس کے ساتھ گیا، وہ عورت جاحظ کولے کراس پینٹر کے پاس پہنچی اوراس سے کہا کہ:اس کے جیسی۔جاحظ کو سمجھ نہیں آیاکہ اس کی بات کا مطلب کیا ہے؟ چنانچہ اس نے دکان دار سے پوچھاکہ بھئی اس عورت کے یہ کہنے کاکیامطلب تھا؟تواس نے کہاکہ دراصل وہ عورت مجھ سے شیطان کی پینٹنگ بنانے کاکہہ رہی تھی، تومیں نے اس سے کہاتھاکہ کوئی نمونہ ہونا چاہیے، جس کی روشنی میں میں وہ تصویر تیار کرسکوں،تووہ تمھیں لے کر آگئی اوراس کے کہنے کامطلب یہ تھاکہ میں اسے تم جیسی تصویربناکردوں۔
البتہ بدصورتی کے باوجود اس کے جسم کی ساخت سڈول اور بھلی تھی،باتیں اچھی کرتاتھا،مضبوط شخصیت کامالک تھا،دل کا صاف تھا، واقعیت پسند تھا، دلچسپ اوصاف کا مالک تھا، لوگوں سے خوش طبعی کے ساتھ ملتا اورخندہ پیشانی سے بات کرتا، ان سب کے ساتھ وہ ایک نہایت ذہین،دانش مند،قوتِ مشاہدہ سے ہم کنار اور باریک بیں قسم کاانسان تھا۔وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا تھا،نہ کسی کو مایوس دیکھ سکتا تھا، ہمیشہ پرامید رہتااور دوسروں کو بھی حوصلہ دیتا۔اس طرح اس کی ذات میں دومتضادقسم کی شخصیتیں جمع تھیں،ایک کو لوگ حددرجہ ناپسند کرتے تھے،جبکہ دوسری شخصیت کودل سے چاہتے اور پسند کرتے تھے۔ اس کے پسند کیے جانے کی ایک اہم ترین اور مسلم وجہ اس کی علمی و ادبی برتری تو تھی ہی۔
اخیر عمر میں اس کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہوگئی تھی،مختلف بیماریوں کاشکارہوگیاتھا،متوکل نے اس کی قدرشناسی کے جذبے سے اسے بلا بھیجا، تو اس نے جواب دیا:”امیرالمؤمنین ایک ایسے شخص کوکیوں یاد فرماتے ہیں،جواَزکاررفتہ ہوچکاہے،اس کے کندھے جھک گئے ہیں،اس کے منہ سے لعاب گرتا رہتاہے اور اس کا رنگ نہایت بھداہے“۔ مبرّد ایک بار اسی زمانے میں اس سے ملنے گئے اور حال دریافت کیا،تواس نے کہا:”وہ شخص کیسا ہوگا،جس کے جسم کا آدھاحصہ مفلوج ہوچکاہے،اگر اس پر آرابھی چلوادیاجائے،توکچھ اثر نہیں ہوگا اور دوسرا آدھا حصہ ایسا زخم آلودہے کہ اگر اس کے قریب سے بھی مکھی گزرے،توتکلیف ہوتی ہے“۔
اس کی تکلیف روزبروز بڑھتی گئی،مگراس حال میں بھی کتابوں سے اس کا عشق کم نہیں ہوا؛بلکہ مزید بڑھ گیا؛ چنانچہ وہ اپنے شب وروز کتابوں کے درمیان گزارتا،حتی کہ ایک دن وہ کتابوں کے نیچے دب کر ہی وفات پاگیا۔یہ سانحہ 255ھ(868) میں پیش آیا،اس وقت اس کی عمر تقریبا نوے سال تھی۔مطالعہ و کتب بینی سے اس کا عشق بے نظیر تھا،بچپن میں اس کی اس عادت کی وجہ سے اس کی والدہ پریشان رہاکرتی تھی،کتابوں سے اس کی محبت کا عالم یہ تھا کہ وہ صرف مطالعے کے لیے کتابوں کی دکانیں کرایے پر لیتا اور اکثر و بیشتر رات رات بھراس دکان میں رہ کر اپنے مطالعے کی شوق کی تکمیل کیا کرتا تھا۔
کہتے ہیں کہ جاحظ نے اپنی زندگی میں چھوٹی بڑی لگ بھگ ایک سو ستر کتابیں تصنیف کیں،بعض لوگوں نے اس کی تصانیف کی تعداد ساڑھے تین سو بتائی ہے،مگر ان میں سے زیادہ تر کتابیں دست بردِزمانہ کی نذر ہوگئیں۔ اس کی جوکتابیں عام طورپر دستیاب ہیں، ان میں البیان والتبیین، البخلاء اور کتاب الحیوان ہیں۔ البیان والتبیین اس کا سب سے بڑا تصنیفی کام سمجھا جاتا ہے،یہ اس کی زندگی کی آخری تصنیف بھی ہے۔اس کتاب میں اس نے عربی ادب کی مختلف اصناف مثلاً خطبات، قصائد، خطوط اورتبصروں کے اقتباسات جمع کیے ہیں،اس کے علاوہ بلاغت وبیان کے اصولی و فنی مباحث سے بھی گفتگو کی ہے، جس کی وجہ سے اس کی یہ کتاب علم بلاغت کی اساسیات اور فلسفہئ عربی زبان وادب کی تشریح و تنقید کے سلسلے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب البخلاء عربی زبان میں بخیلوں کے تعلق سے باضابطہ لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔اس کتاب میں ادب ہے،علم ہے، فکاہت ہے اور بھی بہت کچھ ہے،اس میں جاحظ نے بخیلوں کی نفسیات،ان کے رویوں،ان کی خواہشات و رجحانات اور عام زندگی کو دیکھنے اور برتنے کے ان کے نظریے پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔جاحظ نے اس کتاب میں بخیلوں سے متعلق مختلف دلچسپ واقعات،پر لطف کہانیاں بیان کی ہیں۔کہاجاتا ہے کہ جاحظ نے یہ کتاب دراصل کسی وزیر کی فرمائش پر لکھی تھی۔کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے اور تقریباً140مختلف عناوین کے تحت بخیلوں کے واقعات اور ان سے متعلق امور کوبیان کیاگیا ہے۔ اس کی تیسری مشہور ترین کتاب، کتاب الحیوان ہے اور یہ بھی عربی زبان میں حیوانات کے متعلق لکھی جانے والی پہلی مفصل کتاب ہے۔اس کتاب میں صرف حیوانات کی زندگی اور ان کی خصوصیات پر ہی گفتگو نہیں کی گئی ہے؛بلکہ اس میں مختلف علوم و معارف اور ان سے متعلق نکات و اسرار بیان کیے گئے ہیں،یہ کتاب دراصل بہت سے علوم کی انسائیکلو پیڈیا ہے،اس میں طبیعیات، فلسفہ، طب، جغرافیہ، ماحولیات،نباتات،تاریخ اور دیگر دسیوں علوم کے جواہر پارے بکھرے ہوئے ہیں،حالانکہ جاحظ سے پہلے اصمعی،ابوعبیدہ،ابن الکلبی،ابن الاعرابی اور سجستانی وغیرہ نے بھی حیوانات پر کتابیں لکھیں،مگر وہ جامع نہیں تھیں، انھوں نے کسی ایک حیوان کی لغوی تحقیق تک اپنے آپ کو منحصر رکھا،مگر جاحظ نے کتاب الحیوان میں جانوروں کی طبیعیات و احوال کے بیان کے علاوہ دیگر متذکرہ علوم پر بھی غیر معمولی مواد فراہم کردیا ہے۔ چونکہ جاحظ وسیع العلم انسان تھا؛اس لیے اس کتاب میں اس نے قرآن و حدیث کے علاوہ توریت و انجیل،اقوالِ حکما،یونانی علوم، فارسی لٹریچر، ہندوستانی حکمت و فلسفہ اور خود اپنے علمی تجربات و مشاہدات سے بھی کام لیا ہے۔ اس کتاب میں جاحظ کا اسلوب الف لیلوی ہے، جس طرح داستانِ الف لیلہ کی اساسی کردار شہرزاد شہریارسے ایک قصہ بیان کرتی ہے، پھر اس قصے کا کوئی کردار ایک ذیلی کہانی سناتا ہے، پھر اس قصے کے بیچ تیسرا،چوتھا قصہ آجاتا ہے،حتی کہ کہانی پھر اپنے مرکزی نقطے پر لوٹ جاتی ہے،ٹھیک اسی طرح جاحظ اس کتاب میں کسی جانور کے اوصاف و خصائص کو بیان کرتے ہوئے کسی دوسرے موضوع پر نکتہ آفرینی کرنے لگتا ہے، پھر اس کا قلم کسی تیسرے موضوع کی طرف منتقل ہوجاتا ہے،حتی کہ وہ پھر اصل موضوع کی طرف لوٹ آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جانوروں کی طبیعیات و خصائص پر لکھی گئی اس کتاب میں دیگر بہت سے علوم ومعارف بھی جمع ہوگئے ہیں اور ہر علم سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے یہ کتاب لائقِ مطالعہ و استفادہ ہوگئی ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ جاحظ کی مشہور و متداول کتابوں میں سحرالبیان، التاج، الاخبار، عصام المرید، امہات الاولاد،احدوثۃ العالم،دلائل النبوۃ اور الجد والہزل وغیرہ ہیں۔
 جاحظ کے بعض اساتذہ معتزلی الفکر تھے،جس کا جاحظ پر بھی خاصااثر پڑا اور وہ بھی نظریاتی طورپرمعتزلی ہوگیاتھا،اس کی اس فکر کا اثر اس کی کتابوں پر بھی واضح طورپر محسوس کیاجاسکتاہے۔اس نے اپنی زیادہ تر تصانیف میں فکرِ اعتزال کی تشریح و توضیح اور دفاع پر زور دیا ہے۔ حتی کہ وہ اپنے زمانے میں معتزلہ کا ترجمان اور نفسِ ناطقہ تھا، اس نے معتزلہ کی عقلیت پسندی کی توسیع کی اور ہر چیز میں عقل کو فیصل قراردیتے ہوئے ایسی ہر نقل و روایت کا سرے سے انکارکیا،جو عقل کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو،اس سلسلے میں اس نے نہ صرف بعض شرعی نصوص کو ماننے سے انکار کیا؛بلکہ خود منطق و تعقل پسندی کے بعض ائمہ کی خلافِ عقل باتوں کوبھی جھٹک دیا۔مثال کے طورپر ارسطو ایک ایسا مفکراورامام المنطق والفلسفہ ہے کہ جسے مشرق و مغرب والے یکساں طورپر مانتے اور اس کے نظریات و افکار کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں،مگرجاحظ ایک ایسا جری الفکر انسان تھا کہ اس نے کئی موقعوں پر ارسطو کی بعض باتوں کو نہ صرف مستردکیا؛بلکہ اس کی تضحیک و تحقیر بھی کی۔مثلاً کتاب الحیوان میں ایک جگہ ارسطوکا ذکر کرتے ہوئے اس کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرتا ہے اور لکھتاہے: ”صاحبِ منطق(ارسطو)کہتے ہیں کہ یونان میں ایک طبقون نامی بستی ہے،جہاں چھوٹے چھوٹے سخت زہریلے سانپ ہوتے ہیں،ان کے ڈنک کا علاج بعض قدیم بادشاہوں کی قبرکے پتھر سے ہی ممکن ہے“۔ جاحظ اسے بیان کرنے کے بعد لکھتاہے کہ: ”یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے،آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟“۔ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ:”صاحبِ منطق کا بیان ہے کہ انھوں نے دوسَروں والا سانپ دیکھا ہے،میں نے یہ پڑھنے کے بعد ایک دیہاتی سے پوچھا کہ کیاایسا سانپ واقعی پایاجاتا ہے؟تواس نے بھی اثبات میں جواب دیا، تومیں نے اس سے کہاکہ وہ رینگتا کس طرف سے ہے؟کھاتا اور کاٹتا کس طرف سے ہے؟تواس نے جواب دیاکہ وہ معروف معنوں میں رینگتا نہیں ہے،بچے کی طرح الٹ پلٹ کرتا ہے،جہاں تک کھانے کی بات ہے،تو وہ رات میں ایک منہ سے کھاتا ہے اور دن کو دوسرے منہ سے اور وہ دونوں سروں سے کاٹتا ہے“۔اس پر جاحظ نے اپنا ردعمل یہ لکھاہے کہ:”وہ ساری دنیامیں سب سے جھوٹا انسان ہے“۔ہوسکتاہے یہ بات اس اعرابی کے بارے میں کہی ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ ارسطو کے بارے میں کہی ہو؛کیوں کہ دوسروالے سانپ کی بات اولاً اسے ارسطو کے ذریعے ہی معلوم ہوئی تھی۔
بہرکیف جاحظ عربی ادب کے ان درخشندہ ستاروں میں سے ہے،جن کی روشنی رہتی دنیاتک عالمِ ادب کو منور کرتی رہے گی۔وہ عباسی دورکا نمائندہ نثر نگار ہے،اس نے اُس دور کی عربی نثر میں علمیت،واقعیت پسندی اور حقیقت بینی کے اوصاف کا اضافہ کیا،اس کی نثر میں سادگی اور بے ساختگی ہے، واقعات کو بیان کرنے کا اس کا انداز بڑا دلنشیں ہے،اس سلسلے میں اس کی کتاب البخلاء خاص طورپر قابل ذکر ہے۔البیان والتبیین تو اس کی معرکۃ الآرا کتاب ہے،اس میں اس نے عربی ادب کے اسالیبِ نثر و نظم پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے عربی تنقید کومضبوط اَساس فراہم کی ہے۔ابن خلدون نے عربی ادب کے تشکیلی عناصر پر گفتگو کرتے ہوئے لکھاہے کہ: ”ہم نے اپنے اساتذہ کی مجلسوں میں سناہے کہ عربی ادب وفن کے اصول و بنیادی ارکان پر چارکتابیں ہیں: ابن قتیبہ کی ادب الکاتب،مبرد کی الکامل،جاحظ کی البیان والتبیین اورابوعلی القالی کی کتاب النوادر،ان کے علاوہ جو کتابیں ہیں،وہ سب انہی سے مستفاد و ماخوذ ہیں یا ان کی اتباع میں لکھی گئی ہیں“۔

Md. Nayab Hasan
A/22, Seema Apartment (G.F)
Gali No 7, Batla House, Jamia Nagar
New Delhi - 110025

ماہنامہ اردو دنیا۔ فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں