12/2/20

نظمِ جدید میں نظیر کا پرتو مضمون نگار: علیم صبا نویدی


 نظمِ جدید میں نظیر کا پرتو

علیم صبا نویدی
نظیر کو ایک زمانے تک تذکرہ نویسوں نے اوسط درجے کے شعرا میں شمار کیا تھا مگر دورِ حاضر میں ناقدین نے اسے بلند مقام بخشا ہے۔ بعض مبصرین نے تو اسے شیخ سعدی اور شیکسپیئر کا ہم پلہ بھی قرار دیا ہے چونکہ نظیر ہی اپنے دور کا ایک ایسا منفرد شاعر گزرا ہے جس کے ترقی یافتہ شعور نے اپنے عہد کی مروجہ شاعری سے بے نیاز ہوکر اردو نظم گویوں کے لیے ایک نیا راستہ کھول دیا۔ نظم جدید کی جو موجودہ صورت ہے اس کی تشکیل اور تعمیر میں آج بھی نظیر ہی کا دبدبہ ہے۔ نظیر کی علمی حیثیت اور عوامی رجحانات کے پیش نظر یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس متنوع شعور رکھنے والے کو کس نام سے یاد کریں۔ نظیر ہی اردو شاعری میں ایک مکمل اکائی رکھتا ہے جس نے اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے کے باوجود اپنی شخصی زندگی کے اظہار کو ادب سے گریز ہونے نہیں دیا اس نے اپنے ماحول سے، اپنی عوام سے اور ان کی مختلف زبانوں سے پورا پورا انصاف کیا۔ نظیر کی زندگی عوامی زندگی اور اس کی شاعری میں کوئی بے ربطی یا بے سروپائی نہیں ہے۔ تبھی تو ان تمام لوازمات سے بحث کرتے ہوئے اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔  اس پر جو کچھ بھی سوال اٹھایا جائے اس کا جواب گھوم پھر کر ایک ہی مرکز پر آکر ختم ہوجاتا ہے اور وہ ہے نظیر کی عوامی اور خالص ہندوستانی شاعری!
نظیر کو صرف اردو شاعر کہنا بڑی غلطی ہے۔ چونکہ اس نے پنجابی، پوربی، برج بھاشا اودھی، فارسی اور ہندی زبانوں کے اَن گنت لفظوں اور عبارتوں سے اپنی نظموں کے سنگھاسن پر درخشاں ست رنگ مور پر کی طرح پھیلا دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نظیر کا تعلق بولیوں کے متوالوں سے بہت گہرا تھا۔ اس نے نہ صرف ان زبانوں کے الفاظ کا صحیح استعمال کیا ہے بلکہ ان زبانوں کے بولنے والوں کی طرز زندگی، ان کی تہذیب و کلچر، ان کی شخصیت اور کردار کا گہرا مطالعہ بھی کیا ہے۔ نظیر کی شاعری میں دوسرے شعرا کی طرح غیرملکی ماحول اور غیرملکی الفاظ اور عناصر نہیں ملتے بلکہ اس کی شاعری خالص ہندوستانی شاعری ہے جس میں ہندوستان کے کلچر اور اس کی آب و ہوا کا مدھ بھرا درشن ہے۔ دنیا کے ساتھ گہرا تعلق پیدا کرکے جتنا تجربہ نظیر کو حاصل ہوا تھا اس سے خود اس کے کئی دوسرے ہم عصر شعرا محروم تھے۔ موسم جس طرح بدلتا رہتا ہے اسی انداز میں نظیر کا شعور بھی بدلتا رہتا ہے۔ موسمی کیفیات کا اثر اس نے براہِ راست فطرت سے حاصل کیا ہے۔ کتابوں اور رسالوں کے ذریعے نہیں! اس کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر شعبہ زندگی کے انسانوں کے میل ملاپ کی وجہ سے اس میں ہمدردی اور دلچسپی کا مواد جمع ہے۔ نظیر نے بچپن اور لڑکپن کے مزے خوب لوٹے ہیں۔ ہر تہوار اور عید میں تماشائی بن کر اور خود تماشا بن کر زندگی اور زمانے کا لطف اٹھایا ہے۔ جوانی میں جوانی کی پوری بہاریں لوٹی ہیں۔ غرض اس کی نظروں نے لب و رخسار سے لے کر گھر آنگن تک، زمین سے لے کر افق تک سفر کیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں چھوٹی موٹی خوشیوں سے مسرور ہوجانا، اور ہر دکھ درد پر رو دینا اور ہر طبقے کے عوام سے بے لوث تعلق و ربط پیدا کرلینا اور خصوصاً سطحی عوام میں مست مگن ہوکر اپنے فکر و فن کو درشاتے رہنا اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ  وہ موجودہ دور کے شعرا کی طرح صرف اپنی پوزیشن کا قائل نہ تھا، اسے نہ صرف مسلمانوں میں مقبولیت حاصل تھی بلکہ ہندوؤں نے بھی اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ شاید اسی کی پیروی کرتے ہوئے ساحر لدھیانوی نے یوں کہا ہے       ؎
فن جو نادار تک نہیں پہنچا
ابھی معیار تک نہیں پہنچا
اس سے قطع نظر اگر اس کی کبر سنی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ  اس نے عیسائیوں او رپسماندوں پر اپنے تمام تجربوں کو مختلف کرداروں کی صورت میں مثلِ مینارہئ نور اپنی شاعری کے درمیان ایستادہ کردیا جس کی روشنی دور دور تک پہنچتی گئی۔ بڑھاپے میں یا تو شاعر دین کا ہوجاتا ہے یا دنیا کا مگر نظیر کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔ غالب اور مومن کی طرح بند کمرے میں رہ کر وہ پیامِ انسانیت دینا نہیں چاہتا تھا بلکہ کھلی فضا میں رہ کر زمیں تو زمین مابعدالطبیعیاتی ماحول پر بھی کھری کھری باتیں کہہ جاتا تھا۔ اس کا تعلق دین اور دنیا سے ہم پلہ تھا۔ کسی ایک رئیسِ شہر کا ہوکر اسے رہنا پسند نہیں تھا۔ اسے کاشی بھی پسند ہے اور کعبہ بھی۔ برہمن بھی اسے مرغوب تھے اور مومن بھی وہ پیغمبر اور اولیا کے آستانوں کا بھی جاروب کش اور دیوی دیوتاؤں کا پجاری تبھی تو کھل کر اسے دیوالی اور ہولی بھی اتنی ہی دلکش لگتی تھی جتنی عید اور تہوار بھی۔ وہ اقبال کی طرح اپنے ہندی نغموں کو حجازی لے میں نہیں گاتا، اس کی نظموں میں دورازکار علائم اور ابہام کی بھرمار نہیں ہے۔ جو موجودہ نظم جدید کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔ اس نے سمجھ میں آنے والی مانوس شاعری کی ہے۔ نظیر نے نہ صرف بانگِ درا کے اقبال کا رول ادا کیا ہے بلکہ خود ہنس کر اور دوسروں کو ہنسا کر اکبر الہ آبادی اور کبیر کا پارٹ بھی ادا کیا ہے۔ اس نے انشا کی طرح بسیار گوئی بھی کی ہے مگر غالب اور ذوق کی طرح کسی کی قصیدہ خوانی نہیں کی۔ وہ اپنے قلیل ذریعہ معاش پر قانع تھا۔ اس نے تاعمر کسی امیر کی مدح سرائی کرکے کوئی وظیفہ یا تحفہ حاصل نہیں کیا۔ اس نے خانقاہوں، درویشی آستانوں، سنتوں اور سادھوؤں کے  ماحول میں اپنے فکر  وفن کی چلہ کشی (کشف) کرتے ہوئے جوگ اور سنجوگ کے مراتب حاصل کرتے ہوئے خودغرضیوں او خودساختہ سماجوں کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ وہ ہمیشہ فقیروں کی دنیا کے سیر تماشوں سے حظ اٹھاتا رہا۔ جس طرح لوگ عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرکے مولویانہ اردو لکھ جاتے ہیں۔ اس نے گنواری اردو ریختی لہجے سے لکھ کر اپنے دور کے اسلوب اور طرزِ زبان کا تحفظ کیا ہے۔ بعض نقاد معترض ہیں کہ اس نے گنواری اردو لکھ کر اپنی بے علمی اور نااہلی کا ثبوت دیا ہے مگر جہاں تک میرا خیال ہے کہ ناقدین کا یہ نظریہ بالکل غلط ہے چونکہ نظیر پڑھا لکھا نہ سہی زمانہ ساز آدمی ضرور تھا۔ وہ چاہتا تو اپنے دور کے اساتذہئ فن (غالب اور مومن) کی زبان بھی لکھ سکتا تھا مگر وہ مروجہ غزل کی زبان کو نظرانداز کرکے نظم گوئی کے وسیع موضوعات کے لیے وہی زبان اور لب و لہجہ کو اختیار کیا، جو عوام میں معتبر تھا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اسے نظم میں مجتہد کا درجہ نصیب نہ ہوتا۔ نظیر نے جان بوجھ کر عوام کی زبان میں شاعری کی ہے۔ جو آگے چل کر ترقی پسند فنکاروں نے عوامی زبان کے استحکام اور اس کی تبلیغ کے لیے بیڑا اٹھایا تھا۔
جس طرح غالب خواص کے شاعر ہیں اسی طرح نظیر عوام کے شاعر ہیں۔ نظیر کو ہم غالب، میر، مومن، انیس وغیرہ کا ہم رتبہ سمجھنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ یہ شعرا اپنے اپنے فن میں طاق تھے۔ غزل کے میدان میں میر و غالب اور مومن استاد مانے جاتے ہیں تو رزمیہ اور عوامی شاعری میں بھی انھیں استاد کا درجہ حاصل ہے۔
اردو شعری دنیا میں نظیر ہی ایسا واحد شاعر ہے جو بڑی جسارت کے ساتھ اپنی لاابالیوں اور فنی آوارگی کے ساتھ پیش ہوا۔ اگر غالب کے شاگردوں کی طرح نظیر کے بھی شاگرد ہوتے اور غالب کے دیوان کی طرح نظیر کی کلیات کا بھی تجزیاتی انتخاب ہوتا تو نظیر کی کئی لافانی نظمیں قطع و برید کی نذر ہوچکی ہوتیں۔ اس امر سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ شاعر کے کلام کا انتخاب نہ ہو۔ غالب کے ساتھ ان کے شاگردوں نے بڑا اچھا سلوک کیا  تھا اور بڑی فراخ دلی سے مولانا فضل حق خیرآبادی نے ان کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ یہ بات غالب تک روا ہے مگر نظیر کے ساتھ یہ بات نہ کل روا تھی نہ آج روا ہے کیونکہ  نظیر کو شاہوں کی قصیدہ گوئی اور خوش آمد پرستی اور جبہ سائی سے سخت نفرت تھی اور وہ ہمیشہ پسماندہ طبقے کا ہم نوا رہا۔
نظیر کو بعض ترقی پسندوں نے باغی شاعر کہا ہے۔ یہ ان کی سراسر نادانی ہے۔ نظیر کسی ’ازم‘کا قائل نہ تھا۔ اس نے اقتضائے وقت کے اندازِ نظر سے روٹی، کپڑا اور مکان پر بھی کئی خوبصورت عوام پسند نظمیں کہی ہیں۔ مگر ان میں سے کسی موضوع کو اس نے اپنا مقصد نہیں بنایا۔ اس نے ہندو مذہب و دین اسلام کی تمام روایات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ موسموں کی تبدیلی، تیراکی، موت و حیات، اخلاق بلکہ یہاں تک کہ ہر چرند پرند، ہر پھول پھل پر بھی اپنے مشاہدات کا ثبوت دیا ہے۔ جس کا آغاز اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ  نے کیا تھا۔ اخلافیات پر اور زمانے کے نشیب و فراز پر اس کی جو نظمیں ہیں وہ شاہکار سمجھی جاتی ہیں۔ ان نظموں میں خارجی عناصر کے ساتھ ساتھ داخلی جذبات و جزئیات کی آمیزش بڑی خوبصورتی سے ہوئی ہے۔
نظیر داخلی نظریے سے زیادہ خارجی نظریات کا حامل تھا۔ ہر درد بھرے مناظر اور حالات سے بھی اس دلچسپی کا مواد فراہم کیا ہے۔ نظیر کی شاعری میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا کلام اثرانگیز ہے۔ عنوان چاہے کچھ ہو مگر شاعری کو دلچسپ اور دلکش ہونا چاہیے تاکہ قاری کے جذبات میں ہلچل اور روح میں بیداری و بالیدگی پیدا ہوسکے۔ اس معیار پر جو شاعری پوری اترتی ہے وہی حقیقی شاعری ہوتی ہے۔ گو نظیر نے کہیں کہیں فحش گوئی سے بھی کام لیا ہے مگر جعفر زٹلی کی حد تک نہیں۔
مقامی عناصر کو فروغ دینے کے سلسلے میں آج کے شعرا بے نیاز اور بے ضرر ہیں۔ ایک حد تک نظیر کا یہ عوامی رنگ اسمٰعیل میرٹھی، سرور جہان آبادی، حالی، اقبال سے لے کر جوش و مجاز تک سفر کرتا ہوا نظیر آتا ہے۔ غزل میں فراق نے ہندوستانی تہذیب و کلچر کو سمونے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ اشک امرتسری نے بھی ایک حد تک نظیر کی طرح اپنی شاعری کو مرغوب بنانے کی سعی کی تھی مگر افسوس کہ وہ کینسر کے مہلک مرض میں دم توڑ گیا۔
آج ہندوستان کے ہر فنکار کا یہ فرض ہے کہ وہ نظیر کی طرح اپنے آرٹ میں مقامی ماحول کو جگہ دیں اور اپنی مقامی بولیوں کو نہ صرف نظموں میں بلکہ غزلوں میں بھی اجاگر کرتے ہوئے کھوکھلے محاوروں، پسی ہوئی پامال تشبیہات اور بیمار روایات سے دامن بچا کر صحت مند اقدار کو توازن اور توانائی کے ساتھ پیش کریں۔ ورنہ شاعری صرف مشاعروں کے اسٹیج تک اپنی بہاریں دکھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ دے گی۔

Aleem Saba Naveedi
No: 266, Triplicane High Road
Chennai- 600005
Cell: 9176137462

ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں