12/2/20

افسر میرٹھی کی ادبی بصیرت اور قومی نصاب تعلیم مضمون نگار: ریاض احمد



افسر میرٹھی کی ادبی بصیرت اور قومی نصاب تعلیم

ریاض احمد

سرزمین میرٹھ کو کئی اعتبار سے اور کئی معاملوں میں سبقت حاصل ہے خواہ وہ جدو جہد آزادی کے آغاز کا دور ہو، علمائے دین کی تصنیفات کا ذکر ہویا پھر شعرا وادبا کی فہرست، سب میں میرٹھ سرفہرست ہے۔اس وقت ان ادبا وشعرا کا ذکر خیر موضوع بحث ہے جنھوں نے گنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ کلچر کی علمبردار زبان (اردو زبان)کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اردو زبان و ادب کی عمومی خدمت کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر تعلیمی نصابات اور ادبِ اطفال کی طرف پوری توجہ دی۔ان اکابرینِ زبان اور اساتذہ میں مولوی اسمٰعیل میرٹھی اور حامد اللہ افسر کا نام بطور خاص لیا جانا چاہیے۔ مولوی اسمٰعیل میرٹھی (جو صرف سولہ سال کی عمر میں محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے)کا سب سے بڑا کارنامہ ’اردو ریڈرس‘کی تیاری ہے۔یہ پہلی سے پانچویں تک کی کتابیں بچوں کی نفسیات اور ذہنی وجسمانی نشو ونما (Mental & Physical Development)کو پیشِ نظر رکھ کر لکھی گئیں۔واضح رہے کہ درسیات یا نصابات کے تحت اس وقت تک اردو میں کتابیں تیار کرنے کا رواج نہیں تھا۔اردو میں اس کے آغاز کا سہرا مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے سر ہی بندھتا ہے ان کی درسی کتابوں میں نظمیں اور مضامین اتنے دلچسپ ہیں کہ اکثر ان کتابوں سے بچپن میں استفادہ کرنے والوں کو وہ نظمیں اور کہانیاں تا عمر یاد ہیں۔ واضح رہے کہ ان میں سے کئی نظمیں تومعروف انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ ہیں۔دوسرا اہم نام حامد اللہ افسر میرٹھی کا ہے۔
افسر میرٹھی کا اصل نام حامد اللہ تھا جو میرٹھ میں محلہ مفتی صاحبان میں 29/ نومبر1895کو پیدا ہوئے۔عہدِ مغلیہ میں اُن کے بزرگوں کو میرٹھ میں معافی کے چند گاؤں عطا کیے گئے تھے۔ان کا خاندان مفتیوں کا معروف خاندان تھا۔ مفتی محمد عصمت اللہ جو خاندانی روایات اور انوارِ علم و فضل سے آراستہ تھے وہی حامد اللہ کے والد ماجد تھے۔مفتی محمد عصمت اللہ مقامی سرکاری اسکول میں اردو اور فارسی کے مدرس تھے۔چنانچہ انھوں نے اپنے بیٹے افسر کو خود ہی فارسی اور اردو کی تعلیم دی۔مفتی عصمت اللہ صاحب نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت بچوں کی نفسیات کے عین مطابق کیا۔ان کے پڑھانے اور اصلاح کرنے کا طریقہ نہایت اعلیٰ قسم کا اور منفرد تھا۔مفتی صاحب بیٹے کوعربی کا عالم بنانا چاہتے تھے لہٰذا مدرسہ عالیہ میرٹھ میں داخل کرایا۔سالانہ امتحان میں طے شدہ نمبرات یعنی Maximum.Marks. سے 5/نمبرات زیادہ حاصل کرنے کی پاداش میں بچے کو مدرسہ سے واپس بلایا اور تعلیم کے لیے ’دار العلوم دیوبند‘بھیج دیا۔افسروہاں بیمار پڑگئے میرٹھ واپس بلائے گئے اور پھرکسی مدرسہ میں نہ جا سکے۔مفتی صاحب نے فارسی کا نصاب انھیں کچھ اس طرح سے پڑھایا تھاکہ بچپن میں ہی وہ فارسی میں شاعری کرنے لگے تھے۔عربی کا عالم بنانے کی چاہت مفتی صاحب کو اب بھی تھی چنانچہ انھوں نے افسر کو ’الازہر‘ (مصر) بھیجنے کا ارادہ کیا۔بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی پاسپورٹ  بننے میں رخنہ پڑا اور وہ مصر نہ جاسکے۔
حامد اللہ افسر کاجدید علوم یعنی انگریزی اسکول میں داخلہ ایک ڈرامائی انداز سے ہوا۔1913میں گورنمنٹ ہائی اسکول میرٹھ میں داخل ہوئے۔ نویں درجہ کے جدید مضامین میں حامد اللہ کو بہت مشقت کرنی پڑی لیکن انھوں نے ان تعلیمی مشکلوں پر قابو پالیا۔حامد اللہ نے اسی ہائی اسکول سے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کے منازل طے کیے۔1920میں انھوں نے میرٹھ کالج سے بی۔اے پاس کیا مزید اعلیٰ تعلیم کی غرض سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔بیک وقت ایم۔اے اور ایل۔ایل۔بی میں داخلہ لیا۔لیکن نہ تو پوسٹ گریجویشن کی تعلیم مکمل کرپائے اور نہ وکالت کی۔علی گڑھ کا قیام حامد اللہ کے علمی کیریئر کے لیے سنگ میل ثابت ہوا۔حامد اللہ نے ہاسٹل میں رہنے کے بجائے شہر میں قیام کیا جہاں شعرا، علمااور ادباء کاتانتا بندھا رہتا،ان کا کمرہ علمی حلقے کی آماجگاہ بنا رہتا،متعدد بارجگراور فانی جیسی شخصیات بھی ان سے ملنے آئیں۔حامد اللہ افسر نے ایک رسالہ’نو بہار‘ کے نام سے جاری کیا جو علمی وادبی حلقے میں کافی مقبول ہوا۔ بیماری کی وجہ سے علی گڑھ سے میرٹھ واپس آئے۔ایک مقامی اخبار’الخلیل‘کی ادارت کی۔ والد کی سفارشی محنت کی وجہ سے حامد اللہ نائب تحصیلدار نامزد کیے گئے تھے۔لیکن حامد اللہ نے تعلیم کو سرکاری ملازمت پر ترجیح دی۔چالیس روپے مشاہرہ پر انگریز افسر نِکسَن کو اردو فارسی پڑھایا پھر ان سے انگریزی پڑھنے کی وجہ سے دونوں کا علمی تبادلہ ہوا۔حامد نے نِکسن کو فارسی زبان و ادب میں اس قدر ماہر کیا کہ ہندوستان سے واپس جانے پر نِکسن لیِڈس یونیورسٹی میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے،یہی نہیں انہوں نے حامد اللہ افسر کی کئی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔
متعددبار والد اور کئی بہی خواہوں نے ان کی سرکاری ملازمت کے لیے کامیاب کوششیں کیں،لیکن حامد اللہ کی ایک ہی ضد تھی کہ وہ یا تونشر و اشاعت کا کام کریں گے یا پھر درس وتدریس کا۔چنانچہ اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کی’گورنمنٹ جبلی کالج‘لکھنؤ میں دسمبر1927 میں بحیثیت  اردو استاد  مقرر ہوگئے اور 1950میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے درس وتدریس کے  فرائض کو اس ایمانداری سے انجام دیا کہ نور الحسن ہاشمی،عبادت بریلوی،حیات اللہ انصاری،علی جواد زیدی اور ولی الحق انصاری جیسے نامور ادبا وشعراء پیدا کیے۔ انہی میں سے ایک شاگرد ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے افسر صاحب کی شخصیت اور فن سے متعلق ایک کتاب ’بچوں کے افسر‘کے تصنیف کی۔ایک خوشگوار واقعہ کے تحت حامد اللہ افسر صاحب کی ملاقات رابندر ناتھ ٹیگور سے بھی ہوئی۔دراصل افسر نے قیامِ علی گڑھ کے دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیگور کی معروف نظم’کریسینٹ مون‘(Crescent Moon)کا’ماہِ نو‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔چونکہ انگریزی میں اس کی کاپی رائٹ میک ملن اینڈ کمپنی کے نام محفوظ تھی۔چنانچہ کمپنی نے افسر کے نام قانونی نوٹس بھیج دیا۔حامد اللہ افسر نے پریشانی کے عالم میں رابندر ناتھ ٹیگور سے ملنے کا فیصلہ کیا اور یوں نوبل انعام یافتہ شخصیت ٹیگور نے اپنی دانشمندانہ حکمت عملی سے افسر کا مسئلہ حل بھی کیا اور فائدہ بھی پہنچایا کہ انہوں نے افسر کو کہا کہ نوٹس کے جواب میں تم انھیں لکھ دو کہ میں نے ہندی ترجمہ’ شِشُو            سے اردو ترجمہ کیا ہے۔اور یوں عالمی شہرت یافتہ شخصیت سے افسر صاحب کا عمر بھر کا رشتہ استوار ہوگیا۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں دانشوروں،فن کاروں،ادیبوں اور شاعروں کے آخری ایام اکثر و بیشتر بہت ہی عسرت اور کسمپرسی میں گذرتے ہیں۔حامد اللہ افسرمیرٹھی بھی انھیں میں سے ایک تھے۔انھوں نے بھی مناسب اسبابِ معیشت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آخری ایام بہت ہی مشکل سے گزارے۔انھیں تپ دق لاحق ہوگیا۔لکھنؤ میڈیکل کالج کے ٹی۔بیT.B وارڈ میں داخل کرائے گئے، لیکن مرض معالجے کی حد سے آگے نکل گیا اور مریض اس دار فانی سے دورچلا گیا۔ 19/ اپریل 1974کو بہ وقت سہ پہر افسر میرٹھی کا انتقال ہوگیا اوراگلے دن  قدیم اطبا کے خاندانی قبرستان لکھنؤ میں مدفون ہوئے۔
حامد اللہ افسر نے اردو زبان و ادب کی ہر نقطہئ نظر سے آبیاری کی، تنقیدی نقطہئ نظر سے ان کی تین کتابیں بہت معروف ہیں جن میں اردو زبان کے شعر و ادب کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے اور اردو زبان و ادب کومغربی اور مشرقی دونوں طرز فکر سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تنقید پر ان کی پہلی کتاب ’نقد الادب‘ کے نام سے 1936میں نول کشور پریس لکھنؤ نے شائع کی،  دوسری کتاب ’نورس ‘ کے نام سے 1936میں ہی بھارگو اسکول بک ڈپو لکھنؤ نے شائع کی۔ افسر صاحب کی تنقیدی بصیرت کا پوری طرح احاطہ ان کی تیسری تنقیدی تصنیف ’تنقیدی اصول و نظریے‘ کرتی ہے  جس میں انھوں نے تنقید کے تمام تاریخی اور تدریجی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے اصول و نظریات پر کھل کر بحث کی ہے۔ بارہ ابواب میں منقسم یہ کتاب ادب اور فنون لطیفہ، تنقید یونان قدیم میں، تنقیدہند قدیم میں، تنقید زمانہ ما بعد میں، شاعری، بت تراشی اور مصوری، جمالیات اور فنون لطیفہ، اصول تنقید کی تشکیل، تنقید کا مقصد اور عمل، ادب کا مطالعہ، اردو کے چند اصناف سخن پر ایک نظر اور نیا ادب جیسے عنوانات کے تحت کھل کر بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب 1964 میں کوہ نور پبلشر لاہور نے شائع کیا۔ (اس کے علاوہ ایک اور تنقیدی کتاب ’کتابوں کی جنگ‘ کے نام سے بھارگو اسکول بک ڈپو لکھنؤ نے شائع کی تھی۔)
حامد اللہ افسر صاحب نے اردو زبان و ادب کی تقریباً ہر صنف میں کامیاب طبع آزمائی کی لیکن وہ بچوں کے ادب کے لیے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے مثلاً ’ڈالی کا جوگ‘ 1927میں انڈین پریس الٰہ باد نے شائع کیا، ’آنکھ کا نور‘ افسانوی مجموعہ 1931میں ہندوستانی پبلشنگ ہاؤس میرٹھ سے شائع ہوا ’پرچھائیاں‘ ان کا آخری افسانوی مجموعہ ہے۔ حامد اللہ صاحب کے ڈراموں کا مجموعہ ’ہفت منظر‘ کے نام سے نول کشور پریس لکھنؤ نے 1931میں شائع کیا۔ افسر صاحب کے کئی شعری مجموعے بھی یکے بعد دیگرے شائع ہوتے رہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پیام روح‘ کے نام سے 1927میں انڈین پریس لمیٹیڈ الہٰ باد نے شائع کیا جب کہ دوسرا شعری مجموعہ ’جوئے رواں‘ کے نام سے انوار بک ڈپو لکھنؤ سے 1954میں شائع ہوا۔
حامد اللہ افسر نے بچوں کے لیے اور ان کی درسیات کے لیے نظمیں اور کہانیاں اور معلوماتی مضامین بہت ہی دلچسپ انداز میں تحریر کیے ہیں۔ جن کی ایک لمبی فہرست ہے یہاں ان چند کتابوں کا خصوصی ذکر ہے جنھیں انھوں نے خاص طور سے بچوں کی درسیات کے لیے لکھا ہے مثلاً ’آسمان کا ہمسایہ‘ 1953، ’مکانوں کی کہانی‘1955، ’گاندھی جی کے ساتھ‘ 1960، ’حکایات گاندھی‘ 1960، ’جانوروں کی عقل مندی‘1961، ’15/ اگست‘، ’لوہے کی چیل‘، ’ترقی کی راہیں‘، ’چار چاند‘ یہ سبھی تصانیف بچوں کی معلومات میں اضافہ کرنے اور ان کی دلچسپی تعلیم میں قائم رکھنے کے لیے تھیں۔ اس کے علاوہ ’ہمارا جھنڈا‘، ’فرقہ وارانہ یکجہتی کا حصول کیسے ہو؟‘ اور ’ہندی اردو کے مسائل کا حل‘ ایسی تصانیف ہیں جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے استحکام کے لیے رہنمائی کا کام کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ تصانیف میں کئی ایسی ہیں جن کا سنہ اشاعت اور ناشر معلوم نہیں۔ حامد اللہ افسر صاحب نے مکتبہ جامعہ کے لیے’ادب سیریز‘ کے نام سے بچوں کی دلچسپی کو سامنے رکھ کر جاپانی، روسی، جرمنی، چینی اور فرانسسی کہانیاں لکھیں، لیکن ان کی وفات سے پہلے یہ شائع نہ ہو سکیں۔
افسر میرٹھی نے بنیادی طور پر نئی نسل خصوصاً بچوں کی درسیات کے لیے ان کی نفسیات اور دلچسپیوں کے پیش نظر کتابوں اور مضامین کی تصنیف و تالیف کی۔ ’آسمان کا ہمسایہ‘، ’ایوریسٹ کی کہانی‘، ’ترقی کی راہیں‘، ’عملی نفسیات (بچوں کے لیے)‘، ’جانوروں کی عقل مندی‘، ’گُلیور کا سفرنامہ‘ اور ’مکانوں کی کہانی‘ جیسی تصانیف میں بچوں کی نصابی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ ان کی درسی ضروریات پوری ہو سکیں اور دلچسپیاں بھی برقرار ہیں۔ افسر صاحب کی تصنیف کی ہوئی متعدد نصابی کتابیں برسوں تک اترپردیش کے اسکولوں اور مدرسوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔  انھوں نے ایک مسدس ’رزم آخر‘ اور مثنوی ’آدم نامہ‘ کے علاوہ ’ذوق ادب کی تربیت‘ بھی لکھی تھی۔ 1967میں انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی لیکن اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔
خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ نے ’مشاہیر ادب اردو‘ کے نام سے تحقیقی کتابیں شائع کی ہیں۔ اصل میں یہ کتابیں رسالہ ’زمانہ‘ میں  1903سے 1949تک شائع ہونے والے تحقیقی، علمی اور ادبی مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہیں۔ حامد اللہ افسر صاحب کے تین مضامین میں جو تحقیقی اور ادبی لحاظ سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں ’ادب الکاتب‘، ’مشاعروں کی اصلاح‘ اور ’مختارات‘ ان کے فکری اور تحقیقی استدلال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’ادب الکاتب‘ رسالہ ’ز مانہ‘ جنوری 1926 کے شمارہ میں مولانا طباطبائی کے ایک مضمون کا جواب ہے۔ مولانا طباطبائی نے کالجوں کے تعلیم یافتہ حضرات کی اردو دانی پر لعن و طعن کیا ہے، انھوں نے کچھ الفاظ، محاورات اور فقروں پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ افسر صاحب نے ان کے لسانی اور ادبی حقائق بتائے اور عوامی استعمال کی دلیلیں پیش کی ہیں۔ مختلف الفاظ کے استعمال سے بحث کرتے ہوئے حامد اللہ صاحب نے لکھا ہے:
مادری زبان پر بھی مولانا کو اعتراض ہے۔ فرماتے ہیں ’مدر ٹنگ‘ میں لفظ ’مدر‘ اور ہی معنی رکھتا ہے اور یہ نہیں بتاتے کہ کیا معنی رکھتا ہے۔ مولانا محترم! مادری زبان کا اردو بالکل وہی مفہوم ہے جو انگریزی میں ’مدر ٹنگ‘ کا ہے۔ خدا جانے آپ کو اس ترکیب سے متعلق کیا غلط فہمی پیدا ہو گئی؟ مادری زبان پرآپ کو ایک اعتراض یہ ہے، آخر باپ دادا کی، تمام بزرگوں کی، تمام خاندان کی وہی زبان ہے پھر مادری کہنا کیا معنی؟ یہ اعتراض تو ’مدر ٹنگ‘ پر بھی ہو سکتا ہے اور اس کا جواب بھی آسانی سے دیا جا سکتا ہے، یعنی وہ زبان جو ماں کے ورثے میں ملی ہو یا جو ماں کی زبان ہو، مادری زبان ہے۔
(مشاہیر ادب اردو، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ، صفحہ نمبر 84)
آزادی سے قبل اسکولی سطح پر باضابطہ نصاب کا خاکہ کم ہی نظر آتا ہے۔ انگریزی عہد کی بعض ریاستی حکومتوں  نے اس ضمن میں کچھ کام ضرورکیے لیکن وہ اکثر وبیشتر انگریزی زبان یا دوسری ہندوستانی علاقائی زبانوں مثلاً بنگلہ،تامل اور تیلگو وغیرہ میں تھیں۔ممبئی اور پنجاب کی ریاستوں نے کچھ ماہرین کی مدد سے اردو کی نصابی کتابوں پر کام کیا۔  بالخصوص صوبہ پنجاب لاہور میں کرنل ہال رائڈ کی رہنمائی میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کے ذریعہ ترتیب دی گئی نصابی کتابوں کو اہمیت حاصل ہے۔شخصی طور پر مولوی اسمعیل میرٹھی نے نصابی کتابیں ترتیب دیں۔ اور چند شعراء و ادباء نے بچوں کی نفسیات ان کی عمر،ذہنی پختگی ان کی دلچسپیاں اور سماجی ہم آہنگی کو سامنے رکھ کر نظمیں کہانیاں اور مضامین لکھے۔ا ن شخصیات میں حامداللہ افسر میرٹھی نے بہت اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے ایسی موضوعاتی نظمیں لکھیں جن کا تعلق بچوں کی ذہنی ہم آہنگی، اخلاقیات اور معاشرتی اقدار پر مبنی ہیں۔ یہی نہیں افسر نے نصابی ضرورتوں کے پیش نظر بہت سی کہانیاں، مضامین اور تمثیلیں لکھیں جو تعلیمی و تدریسی مقاصد کی تکمیل کرتی ہیں۔
افسر میرٹھی کی متعدد ایسی نظمیں اور مضامین ہیں جو آزادی سے قبل بھی درسیات میں شامل تھیں اور آزادی کے بعد بھی موجودہ درسی کتابوں میں شامل ہیں۔ این  سی ای آر ٹی، نئی دہلی اور ریاستی نصابی بورڈوں نے بھی ان مضامین اور نظموں کو اپنی درسی کتابوں میں بار بار شامل کیا ہے۔ان کی ایک نظم کئی ریاستوں میں ’خواہشیں‘ کے نام سے اور کئی ریاستوں کی درسی کتابوں میں ’خضر کا کام کروں‘ کے نام سے اب بھی شامل ہے۔یہ نظم بھلائی تیمارداری،اخوت و ہمدردی اور نیکی جیسے اقدار کے فروغ کے لیے واقعی نمونہ ہے۔(راقم نے بھی یہ نظم اپنی اسکولی تعلیم کے دوران چوتھی جماعت میں پڑھی تھی) اس کے چند بند ملاحظہ کریں            ؎
درد جس دل میں ہو اس دل کی دوا بن جاؤں
کوئی   بیمار  اگر  ہو تو  شفا بن    جاؤں
دکھ میں ہلتے ہوے لب کی میں دعا بن جاؤں

اُف وہ آنکھیں جو ہیں بینائی سے محروم کہیں
روشنی جن میں نہیں نور جن آنکھوں میں نہیں
میں اُن آنکھوں کے لیے نور و ضیا بن جاؤں
دور منزل سے اگر راہ میں تھک جائے کوئی
جب مسافر کہیں رستے سے بھٹک جائے کوئی
خضر کا  کام  کروں  راہ  نما  بن  جاؤں
عمر کے بوجھ سے جو لوگ دبے جاتے ہیں
ناتوانی سے جو ہر روزجھکے جاتے ہیں
اُن ضعیفوں کے سہارے کو عصا بن جاؤں
خدمت خلق کا  ہرسمت میں چرچا کردوں
مادر ہند کو  جنت  کا نمونہ کردوں
گھر کرے دل میں جو افسر وہ صدا بن جاؤں
دورِحاضر میں سماجی اوراخلاقی ضرورتوں کے تحت انسانی اقدار اور تعمیری قدروں پر مبنی کہانیاں، نظمیں، ڈرامے، مضامین اور تمثیلیں شاملِ نصاب کی جارہی ہیں۔ تعلیمی نصاب کو [Constructive Approach] یعنی تعمیری طرزِرسائی کے ذریعے طلبا کے ذہن میں فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بات کا بھی نصابی کتابوں میں خیال رکھا جاتا ہے کہ ہندوستان کی لسانی تکثیر یت اورتہذیبی اقدار کا عکس ابھر کر سامنے آئے اورقومی سطح کے تاریخی،تہذیبی، ثقافتی ورثے ا ور ماحولیات کی حفاظت نیز ہمارے آئین کے  مشترکہ مزاج اور جمہوری اقدار کی پاسداری ہو سکے۔جو ہندوستان جیسے ملک کی دائمی ترقی  (Sustainable Development) کے لیے نہایت ضروری ہے۔
آج سے ستر،اسی سال قبل اردو کے کئی شعراء اور ادباء نے دانستہ طور پر تعمیری طرزرسائی Constructive Approachاور مشترکہ اقدار کی پاسداری  کے لیے اپنی تخلیقات  پیش کیں ان شعرا و ادبا میں افسر میرٹھی کا نام سرفہرست ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں، مضامین اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کے دلوں میں مذکورہ فکر کو ذہن نشیں کرایا۔  اس ضمن میں افسر میرٹھی کی تمثیلی کہانی ’میں دولت  مند ہوں‘ جو ریاست مہاراشٹر کی نصابی کتاب میں شامل ہے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
 افسر میرٹھی کی بعض نظمیں موجودہ دور کے تعلیمی مسائل مثلا’بستے کے بوجھ‘ اور ذہنی تناؤ کو دور کرنے کاکام بھی کرتی ہیں۔ یہی نہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے مستقبل کو سنوارنے کی طرف بچوں کا ذہن مبذول کرتی ہیں۔ ایسی نظموں کو نصابی کتابوں میں شامل کرکے بچوں  میں بے وجہ ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی و تعمیری ذہانتوں کا فروغ کیاجا سکتا  ہے۔
ذیل کے اشعار اس کی تصدیق کرتے ہیں       ؎
  جو سب سے بد تر تھے اِس جہاں میں ہیں اَن کے وارث ہی سب سے بہتر
 رکاوٹیں جس قدر ہوں پیدااِسی قدر کامیاب ہوگے
یہ چھاؤں جس سے گزر رہے ہو ثبوت بین ہے دھوپ کا خود          ؎
شکست کا لطف پا چکے ہو تو ایک دن فتح یاب ہوگے 
یا یہ اشعار         ؎
               جو بے بسی میں گرے ہیں افسر وہی توگہرائی سے ہیں واقف
                جو دل سے نکلا ہے کوئی نالہ فلک پہ وہ با اثر رہا ہے
                بلندیوں پر وہی چڑھے گا نشیب میں جو اترسکے گا
                جو چوٹیوں پر گیا ہے رستہ وہ گھاٹیوں سے گزرہاہے“۔
حب  الوطنی ہمارے قومی نصاب کا اہم جز ہے خواہ وہ ابتدائی تعلیم کے  منازل ہوں یا پھر ثانوی یا اعلا تعلیم کے در جات،ہر تعلیمی منزل پر اس کی اشد ضرورت ہے تاکہ طلبا جب بڑے ہوکر ذمہ دار شہری بنیں تو ملک و قوم کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں۔اپنے بزرگوں اور اسلاف سے محبت کریں،وطن عزیز کی مٹی کی عظمت کو پہچانیں اور آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ پیش کریں۔ افسر نے اپنی نظموں اور مضامین میں ان ساری خوبیوں کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ہمارے اسلاف،یہاں کی مٹی،اس کی آب و ہواوطن عزیز کی امتیازی شان ہیں۔مذکورہ امتیازات کی مثال کے لیے یہ چند اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں                
ہمیں دیں نعمتیں کیا کیا الہ ا لعالمین تونے
کہ رہنے کو عطا کی ہند کی پیاری زمیں تونے
نہ کیوں ہو ناز خاک ہند پر ہم ہندوالوں کو
کیا اکسیر اس مٹی کو رب العالمیں تونے
کہاں یوں کھیلتی ہے چاندنی دریا کے دامن پر
کہ رونق چاند کو کب دی ہے دنیا میں کہیں تونے
وطن ہے ہند کا لیداس کا اور میرو غالب کا
کیا افسر کو اب اس دور میں پیدا یہیں تونے
بہرحال بچوں کے لیے لکھی گئیں نظمیں،مضامین، کہانیاں اور درسی کتابیں وغیرہ تو افسر میرٹھی کی ادبی بصیرت کا ایک حصہ محض ہیں۔ ان کا لسانی اور ادبی کینوس بہت وسیع ہے۔اہل علم و دانش کی توجہ سے اسے مزید اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
حوالے
اختریزداں محسن، حامدللہ افسر، حیات اور کارنامے،اردو سماج پبلی کیشنز،بوس روڈ لکھنؤ۔
حامدللہ افسر،تنقیدی اصول اور نظریے،کراچی۔
ڈاکٹر ریاض احمد،اردو تدریس جدید طریقے اور تقاضے،مکتبہ جامعہ لمٹیڈنئی دہلی۔
مالک رام،تذکرۂ معاصرین (حصہ سوم)،مکتبہ جامعہ لمٹیڈنئی دہلی۔
مالک رام،تذکرۂ ماہ و سال،مکتبہ جامعہ لمٹیڈنئی دہلی۔
مشاہیر ادب اردو،خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ۔

Dr. Reyaz Ahmed
Associate Professor
College of teacher education,
Sambhal,Pin Code-244302-UP
School of Education and Training
Maulana Azad National Urdu University,Hyderabad
E_mail-reyazahmed045@gmail.com
Mobile No.-9052112740

ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں