7/2/20

ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اردو سفرنامہ (آزادی کے بعد) مضمون نگار: الطاف احمد


ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اردو سفرنامہ
(آزادی کے بعد)


الطاف احمد
تہذیب سے ہر وہ شے مراد ہے جس کے مختلف عناصر دورانِ حیات انسان اپنی ذات میں جذب کر لیتا  ہے اور جس کا وہ خود  ایک مجموعہ ہے۔تہذیب کا ارتقا انسانی ارتقا کے مترادف ہے یہی وہ میزان ہے جس کی پرکھ سے انسان دیگر حیوانات سے جدا ہو جاتا ہے۔اس کی موجودگی انسانی عظمت کی دلیل ہے اسی کی وجہ سے اسے مہذب کہا گیا اور اس کی غیر موجودگی انسان کو بہت حد تک حیوانات سے قریب کر لیتی ہے اور اسے غیر مہذب کہا جاتا ہے۔تہذیب کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ زندگی کا ہر پہلو اس میں سمٹ آتا ہے۔اس کے عناصر کی کوئی حد نہیں اس لیے کہ یہ عناصر مادی اور غیر مادی دونوں علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کی تہذیب بہت قدیم ہے جس کی ابتداء کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن تاریخی شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی قدیم تہذیبی تاریخ کا آغاز آریاؤں کے ہندوستان میں داخلے سے شروع ہو جاتا ہے۔ آریا ہندوستان میں 1500ق۔م میں داخل ہوئے تھے۔پہلے پہلے وہ شمالی مغربی علاقوں تک محدود رہے لیکن آہستہ آہستہ وہ پورے شمال اور شمالی مشرق اور وسطیٰ ہندوستان میں پھیل گئے۔آریاؤں سے پہلے ان علاقوں میں دراوڑ آباد تھے وہ آریاؤں کے مقابلے کسی قدر مہذب تھے لیکن آریا ان سے زیادہ طاقتور تھے اس لیے انھوں نے دراوڑوں کو زیر کر کے شمالی ہندوستان سے جنوب کی طرف دھکیل دیااور خود ان علاقوں میں آباد ہو گئے۔یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی تہذیب اپنی ابتدا کے انتہائی نازک مراحل سے گزر رہی تھی۔آریا اپنے آپ کو یہاں کے مقامی لوگوں سے زیادہ شدھ(پاک) اور مہذب مانتے تھے اس لیے یہاں کے مقامی لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔اسی زمانے میں آریاؤں اور یہاں کے بعض لوگوں کے آپسی تال میل سے نئی زبان وجود میں آنے لگی اور آہستہ آہستہ یہ زبان کافی ترقی کر گئی۔یہ زبان سنسکرت تھی اس زبان کے قدیم ترین نمونے ہمیں ریگ وید میں ملتے ہیں جو لگ بھگ 1500ق۔م کی تصنیف سمجھی جاتی ہے۔اس کے علاوہ دوسرے وید بھی ہیں جس میں سنسکرت کا قدیم ادب موجود ہے۔ہندوستان کا سارا ادب اسی زبان میں موجود ہے اس لیے اس زبان کو تقدس بھی حاصل ہے۔آریا چوں کہ یہاں کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور خود کو اعلیٰ اور مہذب سمجھتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ سماج ذات پات اور چھوت چھات کے نام پر تقسیم ہو گیا۔چھواچھوت کا مسئلہ اس قدر قوی اور پر اثر تھا کہ آج تک ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی یہ اثر کسی طرح زائل نہیں ہوا۔چھوا چھوت کا مسئلہ جب شدت اختیار کرنے لگا تو نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے خلاف ردِ عمل شروع ہوگیا۔یہ ردِعمل مذہبی نوعیت کا تھا اس لیے کافی پر زور رہا۔مہاتما بدھ اور مہاویر جین اس ردِ عمل کو پیش کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ مہاتما بدھ کی تعلیم کا اثراس قدر پر زور تھا کہ ایک وقت ایسا لگا کہ سارے کا سارا ہندوستان اس کی لپیٹ میں آجائے گا لیکن اشوک کی وفات کے بعد اس کا اثر کم ہوتا گیا اوربدھ مت وہ سب کچھ نہ کر سکا جو یہ کر سکنے کا اہل تھالیکن اتنا ضرور ہوا کہ اس نے قدیم ہندو اور آریائی تہذیب پر خراش ڈالی اور اس کی کسی حد تک اصلاح بھی کی۔بدھ مت کے اثرات ہندوستانی تہذیب پر بہت گہرے ہیں یہ اثرات قدیم رسوم و روایات میں اس قدر مدغم ہو گئے کہ یہ ہندوستانی طرز ِ حیات و اعتقادات کا جزو لازم بن گئے۔اس کے بعد مسلمان ہندوستان میں داخل ہوئے اور یہاں کے اس وقت کے بادشاہوں کو ہرا کر خود حکمران بن جاتے ہیں۔مسلمان بحیثیت حکمراں ہندوستان میں کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے۔مسلمانوں کے اعتقادات و طرز ِ زندگی یہاں کے لوگوں سے بالکل مختلف تھے۔مسلمان یہاں اپنے دینی اعتقادات،اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبانیں بھی ساتھ لائے تھے۔مسلمانوں کے اس ایک ہزار سال کے عرصے میں جس میں انھوں نے یہاں حکمرانی کی یہاں کی قدیم روایات اور مسلمانوں کی مخصوص تہذیبی اقدار کے آپسی تال میل اور سنگم سے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جسے آج ہم مشترکہ تہذیب کا نام دیتے ہیں اور ہماری زبان اردو اس نئے سنگم اور نئی تہذیب کی نمائندہ ہے۔
 ہماری موجودہ تہذیب بڑی حد تک پیچیدہ ہے۔ اس تہذیب کی بنیاد کسی ایک مذہب و قوم تک محدود نہیں بلکہ سلسلہ وار طور پر مختلف زمانوں میں مختلف طبقے کے لوگ یہاں آتے گئے اور یہاں کی مقامی تہذیب و تمدن کو متاثر کرتے رہے اور خود بھی یہاں کے تہذیبی اثرات قبول کرتے گئے۔گوپی چند نارنگ اپنی کتاب میں اس کے متعلق لکھتے ہیں:۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مزاج نے ہندوستان میں آنے والی مختلف نسلوں،قوموں،فرقوں اور مذہبوں سے ہمیشہ رواداری سے کام لیا اور تاریخ کے خاموش عمل کے تحت ان سب کو ہندوستانی تہذیبی سانچے میں ایسا کھپایا کہ ان نوواردوں میں اور ہندوستان میں رہنے والوں میں کوئی بڑا فرق نہ رہا۔
(اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب،گوپی چند نارنگ،ص29)
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج ہندوستان میں جس تہذیب کا سکہ رائج ہے یہ مشترکہ تہذیب ہے جسے بنانے اور ارتقاء بخشنے میں باہر سے آنے والی ہر قوم نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ہماری تہذیب کو تقدم حاصل ہے لیکن قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے نئے دور کے نئے تقاضوں کو ہر زمانے میں اپنے اندر سمیٹا ہے اس طرح اس تہذیب کے اندر نئے دور کے گو نا گوں اقدار داخل ہو تے گئے اور اسے خوبصورتی بخشتے گئے۔کثرت میں وحدت ہی دراصل ہماری قومی تہذیب کی اصل شناخت ہے۔
اردو میں سفر نامے کی روایت فارسی کے زیر اثر وجود میں آئی۔میگیستھینز،فاہین،مارکو پولو، البیرونی، ابنِ بطوطہ وغیرہ کے سفر نامے دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تخلیقات میں اس دور کے تہذیبی و سماجی،معاشی و معاشرتی حالات و واقعات کو دیکھا جا سکتاہے جس دور میں وہ لکھی گئی ہیں۔
جب ہم اردو سفر ناموں کی بات کرتے ہیں توان میں ہمیں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس کی وجہ ہے کہ سفر نامہ ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں مصنف اپنی زبان میں اس ملک کی تہذیب کو پیش کرتاہے جس کا وہ سفر کر رہا ہوتاہے۔ظاہر سی بات ہے وہ موازنے سے بھی کام لیتا ہے۔وہ متعلقہ ملک کی تہذیب کا موازنہ اپنے ملک کی تہذیب کے ساتھ کرتاہے جس سے بالواسطہ طور پر اس کے اپنے ملک کی تہذیب کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اردو زبان میں دو طرح کے سفرنامے ہیں جن میں مشترکہ ہندوستانی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک وہ سفر نامے ہیں جو بیرون ِ ملک کے متعلق ہیں اور دوسرے وہ جن میں مصنفین نے اندرونِ ملک کے سفری احوال کو بیان کیا ہے۔ان دونوں طرح کے سفر ناموں میں سفر نامہ نگاروں نے مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ سید قمر صدیقی لکھتے ہیں:
سفر نامے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنے کو مل جاتی ہے۔سفر ناموں میں چوں کہ آنکھوں دیکھا حال بیان کیا جاتاہے۔لہٰذا وہ معتبر تو ہوتا ہی ہے دلچسپ بھی ہوتا ہے اور ہماری معلومات میں بے حد اضافہ بھی کرتاہے۔غرض سفرناموں کی حیثیت تہذیبی و ثقافتی دستاویز کی ہے اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مطالعے کے لیے نہایت مفید بھی۔
(سفر ناموں میں ہندوستانی سماج و تاریخ مشمولہ اردو سفرناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت،مرتب خواجہ اکرام الدین،ص23)
محبت کا پاک جذبہ مشترکہ تہذیب کا ایک اہم جُز ہے۔یہ جذبہ ہماری تہذیبی روایت کی روح ہے۔شام بارک پوری اردو زبان کے اہم ادیب ہیں۔انھوں نے بینکاک کا سفر اختیار کیا تو سفر کی واردات کو ’رنگ و بو کی سر زمین‘ کے عنوان سے شائع کیا۔یوں تو ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے لیکن ان کے سفر نامے کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ہندوستان سے رہا ہو گا۔دورانِ سفر انھیں بینکاک میں ایک چنا فروش سے ملاقات ہوتی ہے۔ یہ چنا فروش ہندوستانی ہے اور اس کے لہجے،زبان،طرزِ بیان اور برتاؤ میں ہندوستانیت کی ایک گہری چھاپ ہے جو سفرنامہ نگار کو بہت متاثر کرتی ہے۔چنا فروش کو بھی شام بارک پوری کے اندر اپنائیت نظر آتی ہے جب وہ چنا فروش سے چنا خریدتا ہے تو چنا فروش اس کی زبان سے اسے پہچان جاتا ہے اور قیمت ادا کرتے وقت وہ اس سے پیسے لینے سے انکار کردیتا ہے۔ محبت کا یہ جذبہ ہماری تہذیبی روایت کی روح ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس جہاں چنا فروش اور سفرنامہ نگارآپس میں محوِ گفتگو ہیں:
بینکاک میں چنے کب سے بچت ہو؟
ہمرا باپ بہت دن سے اینہاں ہیں۔ان کا دیہانت ہو گوا۔تبھی سے چنا بچت ہیں۔
توہار بال بچے کہاں رہت ہیں؟
سب ملوک میں ہیں۔ہم ایہااکیلا ہیں۔
  (رنگ و بو کی سر زمین،شام بارک پوری،ص 111)
مصنف اور چنا فروش کی اس گفتگو سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ گفتگو بینکاک میں نہیں بلکہ یو۔پی یا اس کے اطراف میں ہو رہی ہے۔
ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے یہاں کئی نسلوں اور کم و بیش تمام تر مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں بے شمار زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔یہاں جغرافیائی طور پر بھی علاقائی تفریق ہے لیکن اس کے باوجود وحدت و ہم آہنگی ہے۔کثرت میں وحدت کا یہ رحجان ہماری قومی تہذیب کی سب سے بڑی خصوصیت ہے جس نے اس ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنا رکھا ہے۔مختلف نسلی و مذہبی امتیازات کے باوجود یہاں عوام میں ایک دوسرے کے لیے محبت و ہمدردی کا جذبہ موجود رہتاہے۔یہاں ہر مذہب وملت کے لوگ آئے لیکن ہندوستان کی مٹی میں آکر جذب ہو گئے۔ممتاز مفتی اپنے سفرنامے میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں:
صاحبو! ہندو قوم ایک عظیم قوم ہے۔اس میں اپنا لینے کی اتنی قوت موجود ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ہندوستان میں بڑی بڑی قومیں آئیں،بڑے بڑے مذاہب آئے لیکن ہند نے سب کو اپنا لیا،جذب کر لیا۔
(ہند یاترا،ممتاز مفتی،ص 62)
شاید اسی آپسی محبت و ہمدردی کا اثر ہے کہ یہاں ایک سیکولر کلچر نے فروغ پایا۔بعض اوقات ہمدردی و محبت اور خلوص کا یہ رحجان تمام تر بندھنوں کو مٹا دیتا ہے اور لوگ آپس میں اس قدر گھل مل جاتے ہیں کہ مذہبی روایات تہذیبی روایات کے تابع آجاتی ہیں۔لوگ مذاہب کو بھول کر ایک دوسرے کے گھر اور آستانوں اور زیارتوں پر بے تکلف جاتے ہیں اور کسی طرح کی کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتے۔
ہندوستان زمانہ قدیم سے ہی رشیوں،منیوں، سادھو، سنتوں، صوفیوں اور بزرگوں کی سر زمین ہے۔بے شمار رشیوں اور منیوں نے یہاں جنم لیا اور ہزاروں کی تعداد میں باہر سے یہاں صوفی حضرات آئے اور یہاں کی مٹی کا پیوند بنے۔جس کااثر اب تک لوگوں کے اذہان میں موجود ہے۔یہاں بہت سے اعتقادات اور توہمات نے جنم لیا ہے۔یہ اعتقادات اور توہمات صدیاں گزرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر چھائے ہوئے ہیں۔بعض اوقات توہم پرستی کی انتہا ہو جاتی ہے اور دقیانوسی خیالات اور توہم کی آڑ میں آکر بڑے بڑے جرم کر لیے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ انسانی قربانی کو شرطِ قبولیت کا درجہ دیا گیا اور خوشی خوشی انسانوں کو دیوتاؤں کی بلی چڑھا یا گیا۔ اس لیے نہ صرف اندرونی ملک کے سیاح بلکہ  بیروں ممالک کے بے شمار سیاح جنہوں نے یہاں کا سفر کیا ان اعتقادات کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ پائے اور اپنے سفر ناموں میں اس کا اظہار کر دیا۔اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں لوگ قطب مینار کے پاس کھڑا ایک قدیم ستون سے اپنی پیٹھ کر کے پیچھے کی طرف سے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں،لوگوں کے اذہان میں اس سے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ جس شخص کے ایسا کرنے سے  ہاتھ آپس میں مل جاتے ہیں وہ اپنے اندر زیادہ مردانہ قوت رکھتا ہے۔اسی لیے ہر کوئی اس کو جانچنے کے لیے ایساکر رہا ہے اور نہ صرف ہندوستانی بلکہ بیرونی ممالک کے لوگ بھی یہ عمل کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ملاحظہ ہو جمیل زبیری کے سفر نامہ ’موسموں کا عکس‘ میں سے ایک اقتباس:
لوگ ستون سے پیٹھ جوڑ کر دونوں ہاتھ پیچھے کی جانب لے جا کر ایک ہاتھ سے دوسرے کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کہاوت مشہور ہے کہ جس کے ہاتھ مل جائیں اس میں قوتِ مردمی زیادہ ہوتی ہے۔میں نے دیکھا بہت سے لوگ اس طرح اپنے آپ کو آزما رہے تھے جن میں کچھ لوگ یورپی ممالک سے آئے سیاح بھی شامل تھے۔“  (موسموں کا عکس،جمیل زبیری،ص24)
یہاں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمیشہ گھروں یا دکانوں کے دروازوں پر لوگ طرح طرح کی چیزیں لٹکا کے رکھتے ہیں تاکہ ان کے گھر اور وہاں بسنے والے انسان محفوظ رہیں سید احتشام حسین نے اپنے سفر نامے ’ساحل اور سمندر‘ میں اس کا یوں اظہار کیا ہے:
اکثر بڑی بڑی دکانوں پر بڑا سا میٹھے کا پھل رسیوں میں لٹکا ہو انظر آتا ہے جس پر کاجل اور سندور سے ناک،آنکھ،منہ بنائے گئے ہیں،بعض دکانوں میں رسی میں باندھی ہوئی اشوک کی پتیارے لٹکتے دکھائی دیتی ہے۔
(ساحل اور سمندر،سید احتشام حسین،ص51(
یہ اعتقادات مشترکہ ہندوستانی تہذیب کا ایک لازمی حصہ ہیں اور آئے دن یہاں کے لوگوں کا واسطہ ان چیزوں سے پڑتا رہتا ہے۔یہ اعقادات یہاں کی قدیم روایات کا حصہ اور دین ہیں اور لوگ انھیں مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔اس لیے ان کا احترام اور تعظیم بھی کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز اٹھانے کی کسی میں جرأت نہیں۔یہ توہمات و اعتقادات یہاں کی عوام کی رگ و پے میں سرایت کر چکے ہیں اور ان سے پوری طرح اپنا دامن چھڑانا ہر گز ممکن نہیں۔
ہمارے یہاں قدیم زمانے سے ہی فنِ تعمیر،موسیقی اور ادب و فنون سے متعلق  لوگوں نے اپنی وابستگی اور دلچسپی کا ثبوت دیا ہے۔قدیم زمانے سے ہی یہاں طرح طرح کی عمارت تعمیر کی گئی  جن میں بیشتر مذہبی عبادت گاہیں، شاہی محل اور قلعے وغیرہ شامل ہیں۔ہندوستان کے کسی بھی شہر یا قصبے کی سیر کر لیجیے تو ہمیں اندازہ ہو جاتاہے کہ قدیم زمانے میں یہ لوگ فنِ تعمیر،فنِ موسیقی اور بت تراشی میں کس حد تک کمال رکھتے تھے۔اجنتا اور الورا کی مورتیوں اور مصوری سے کون متاثر نہ ہو۔اتر پردیش کے مختلف مقامات بالخصوس سارناتھ میں اشوک کے تعمیر کردہ ستون آج بھی کمال ِ فن کا ثبوت دیتے ہیں۔قطب مینار کے پاس لوہے کا ایک ستون ایک شاندار ماضی کی دلیل کو پیش کرتاہے۔موہنجوداڑو اور ہڑپا کی دریافت اس پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔جہاں ایک اندازے کے مطابق قدیم زمانے میں ہی ایک ایسی تہذیب تھی جن کی طرز ِ زندگی آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور کے لوگوں کی طرزِ زندگی سے ملتی جلتی تھی۔یہاں کئی ایسے آثار ملتے ہیں جن کا پتا چلتاہے کہ وہ فنِ تعمیر میں کافی ماہر تھے۔کونارک میں سن مندر،پوری میں جگن ناتھ مندر اور بھبنیشور میں لنگا راجا مندر قدیم فنِ تعمیر کی مثالیں ہیں۔فنِ تعمیر کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ مسلمان ہندوستان میں وارد ہوئے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے داخلے سے فنِ تعمیر نے ایک نئی اور بے نظیر صورت اختیار کی۔ہندو مسلم ماہر فن کے سنگم سے فن ِ تعمیر میں ایک نیاحسن پیداہوا اور اس نے اپنا ظہورتاج محل،قطب مینار،لال قلعہ،شاہی مسجد، بلند دروازہ،چار مینار،بی بی کا مقبرہ،بادشاہ مسجد  اور کئی بے شمار صورتوں میں پایا۔امرتسر کا گولڈن ٹیمپل فنِ تعمیر کے اسی نئے امتزاج کا ثمرہ ہے۔تاج محل جو شاہجہاں نے تعمیر کرایا عجائبات ِ عالم میں شامل ہے اور لوگ اسے ایک شاہکار فن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔لال قلعہ بھی اپنی نظیر آپ ہے اور آج بھی پوری پوری شان سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے۔قطب مینار جو آج سے کم و بیش ساڑھے آٹھ سو سال قبل تعمیر کیا گیا تھا آج بھی دنیا کا بلند ترین مینار خیال کیا جاتاہے۔یہ سب ان لوگوں کے کمال ِ فن کا نتیجہ ہے۔ یہاں جب بھی کوئی سیاح آتا ہے تو کمال فن کی داد دیے بغیر نہیں رہتا ہے۔تاج کی کشش انھیں آگرہ کا سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے تو قطب مینار، لال قلعہ اور شاہی مسجد کا حسن انھیں دہلی پہنچا دیتا ہے۔ چار مینار اور گول گنبد انھیں جنوب کا سفر کرنے پر آمادہ کرتاہے۔اجنتا کی مصوری انھیں جنوب مغرب کو روانہ کر ا دیتی ہے تو سرناتھ اور بھبنیشور کے مندریں انھیں جنوب مشرق کا حکمِ سفر دیتے ہیں۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جن کا بیان کم و بیش اردو کے سفر نامہ نگاروں نے اپنے سفری تجربات کو پیش کرتے ہوئے اپنے سفرناموں میں پیش کر دیا ہے۔تاج محل محبت کی ایک لازوال نشانی ہے جس نے ہندوستان کو پوری دنیا میں شہرت دلائی اور ہر کوئی سیاح جو ہندوستان میں داخل ہوتاہے تاج محل کو دیکھنے کی چاہ اپنے اندر ضرور رکھے ہوئے ہوتا ہے یہاں تک کہ سیاسی غرض سے آئے ہوئے سیاست دان بھی تاج محل کو دیکھنے کا موقع نہیں گنوانا چاہتے۔محبت کی اس لازوال اور  بے نظیر نشانی پر اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے ثریا خورشید اپنے سفر نامے ’بانیال کے اس پار‘ میں لکھتی ہیں:
آج ہم آگرہ گئے جو دہلی سے دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔یہ اتر پردیش کے صوبے میں ہے۔آگرہ شہر کی اہمیت ایسے آج چمڑے کے کار خانوں کی وجہ سے ہے مگر آگرہ کی اصل شہرت کا سبب تاج محل ہے۔ شاہجہاں کی چہیتی ملکہ ممتاز محل کا سنگ مرمر سے بنا ہوا یہ روضہ دریائے جمنا کے کنارے محبت کی لازوال نشانی ہے۔“  (بانیال کے اس پار،ثریا خورشید،ص 108)
غرض یہ فنِ تعمیر ہمارے یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں او رقدیم زمانے سے ہی یہ ہماری مشترکہ تہذیب کو امتیاز بخشتے ہیں۔خواہ وہ گندارا آرٹ ہو یا اشوک کے زمانے کے ستون یا پتھر یا پھر تاج محل و لال قلعہ ہوں۔ ہمارے سلاطین و بادشاہوں نے اس طرف ہمیشہ توجہ دی اور اپنے اپنے زمانے اور اپنے عہد میں آرٹ  اور فن کا بہترین نمونے پیش کر کے ہماری تہذیب و ثقافت کو رعنائی عطا کی اور اپنا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ کر دیا اور جس کا بیان اور نقشہ سفرنامہ نگاروں اور مصنّفین نے اپنی اپنی تخلیقات میں پوری طرح کیا ہے۔
ہندوستانی قوم صدیوں سے مہمان نواز رہی ہے۔ مہمان نوازی یہاں کی مشترکہ تہذیبی اقدار کی ایک علامت ہے۔مہمان نوازی کا یہ جذبہ ہمارے یہاں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے ہی مہمان نوازی کے اس جذبے کی روایت ہماری تہذیب سے عبارت ہے۔آج بھی جب کہ خود غرضی،لالچ اور انفرادیت پسندی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور محبت و ہمدردی جیسے اعلیٰ اقدار سے دوری پیدا ہو رہی ہے۔  لیکن پھر بھی ہمارے یہاں مہمان نوازی کا جذبہ پوری طرح موجود ہے اور جس کا اظہار کم و بیش تمام سیاحوں نے کیا ہے جنہوں نے ہندوستان کا سفر اختیار کیاہے۔حسن رضوی اپنے سفرنامے ’دیکھا ہندوستان‘ میں لکھتے ہیں:
بھارت کی ادبی تقریبات میں یہ عام رواج ہے کہ خاص مہمانوں کا استقبال تقریب میں موجود تقریباََتمام ممتاز ادیب اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کے گلوں میں باری باری ہار ڈال کر کرتے ہیں۔سو اس تقریب میں پہلی مرتبہ ہمیں اس خلوص،محبت بھرے روایتی انداز کو دیکھنے کا موقع ملا۔
(دیکھا ہندوستان،حسن رضوی،ص 104)
ہندوستان ایک وسیع ملک ہے۔یہاں ہر مذہب و نسل کے لوگ آباد ہیں۔یہاں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہر علاقے اور ہر شہر کے ساتھ کھانوں کی الگ الگ اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔غرض ہمارا ملکاشیا ئے خور د و نوش کے لحاظ سے ایک انفرادیت رکھتا ہے۔بے شمار قسم کے لذیذ اور خوش ذائقہ کھانے یہاں بنائے اور پکائے جاتے ہیں۔کشمیر کا  وازوان پوری دنیا میں مشہور ہے جس میں گوشت کی کئی اقسام کی لذیذ اور بے حد مزے دار چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔پنجاب کی لسی،مکی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ پنجاب کی علاقائی پہچان ہے۔گجراتی اور راجستھانی کھانے بھی کافی مشہور ہیں۔اس کے علاوہ جنوبی ہند کا مزاج تو بالکل ہی مختلف ہے۔یہاں کی تقریباََ ہر چیز شمال سے پوری طرح الگ ہے۔یہاں کی اشیائے خورد و نوش یہاں کے مخصوص مزاج کی نشان دہی کرتی ہیں۔ بنارس کا پان وہاں کی شان ہے،جو پان کا عادی نہیں وہ بھی یہاں پہنچ کر کم از کم ایک مرتبہ پان کھاناپسند کرتاہے۔غرض یہ کہ جس قدر کثرت یہاں معاشرتی اور تہذیبی سطح پر ملتی ہے،یہاں کے کھانے پینے کی چیزوں میں بھی اسی قدر کثرت پائی جاتی ہے۔ہر علاقے کی کوئی مخصوص چیز ہے جو اس علاقے کو ایک انفرادی شناخت عطا کرتی ہے۔میٹھائیوں کی الگ الگ قسمیں،پان پوری، پان وغیرہ تو ایسی چیزیں ہیں جو یہاں کی ہی پیداور ہیں۔ جب بھی کوئی سیاح بغرض سیاحت ہندوستان آتاہے  یا کہیں بیروں ملک کی سیاحت کے لیے یہاں سے جاتا ہے تو ضرور ’انڈین فوڈ‘ کا ذکر اور تعریف کرہی دیتا ہے۔ اردو کے سفر نامہ نگاروں نے بھی اس طرف توجہ دی  ہے اور یہاں کی اشیائے خورد و نوش کو اپنے سفر ناموں میں جگہ دی۔ان سفر نامہ نگاروں نے اپنے سفرنامے میں جگہ جگہ کھانے پینے کی چیزوں کو بیان کیا ہے۔ڈاکٹر کیول دھیر اگر چہ پاکستان کے سفر پر ہیں لیکن انھیں وہاں کے کھانے ہندوستانی کھانوں کے مماثل نظر آتے ہیں۔انھوں نے ہر جگہ اپنے سفر نامے میں جب بھی کہیں کھانوں کا ذکر کیاہے تو ہندوستانی کھانوں کو فراموش نہیں کیاہے۔وہ ہندوستان اور پاکستان کے معاشرے میں مکمل طور پر یکسانیت پاتے ہیں۔ وہاں کی عوام، ان کے عادات و اطوار، ان کے مزاج و اعتقادات کو وہ مماثل پاتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی تہذیب ایک ہے اور تہذیبی ارتقاء اور ارتقائی مدارج بھی ایک۔اس لیے تہذیب کے خارجی عناصر سے لے کر باطنی عناصر مماثل اور یکساں ہیں۔ڈاکٹر صاحب وہاں کے کھانوں میں ہندوستانی کھانوں کی لذت محسوس کرتے ہیں۔ملاحظہ ہو ان کے سفر نامے ’خوشبو کا سفر‘ سے ایک اقتباس:
بڑے ڈائننگ ٹیبل کے گرد ہم لوگوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ان پکوانوں کی تعداد تھی جو گھر میں ہی بنائے گئے تھے۔کئی طرح کا گوشت تھا،سبزیاں تھیں، دال، دہی بڑے اور خاص بات یہ کہ آلو وڑی کی ترکاری بھی تھی  اور ہر پکوان ایک سے زیادہ لذیز  بھی۔دہی بڑے کو بھارتی پنجاب میں ’دہی بھلے‘ کہتے ہیں اور آلو وڑی پنجاب بلکہ خصوصاََ امرتسر کے لوگوں کا من بھاتا کھانا ہے،پاکستان میں کم ہی ملتاہے۔
)خوشبو کا سفر،ڈاکٹر کیول دھیر،ص44(
ہندوستان چاول کی پیداوار میں صفِ اول کے ممالک میں آتاہے۔چاول یہاں کی من پسند غذا ہے۔ تقریباً تمام لوگ دن میں ایک یا دو مرتبہ چاول کھاتے ہیں۔ غرض پورے ملک میں چاول کا عام استعمال ہوتا ہے۔ ہر خطے میں چاول یکساں طور پر مشہور  اور من پسند کھانا ہے۔کشمیر ہو یا بنگال  یا پھر جنوبی ہندوستان چاول سارے ہندوستانیوں کی پہلی پسند ہے۔برج پریمی اپنے سفرنامے ’بمبئی سے بمبئی تک‘ میں گوا کے لوگوں پر متوجہ ہو کر لکھتے ہیں:
یہاں کی خواراک چاول ہے۔اپنے کشمیر کی طرح۔لیکن چاول کے معاملے میں گوا خود کفیل نہیں۔غلہ دوسری ریاستوں سے آتاہے۔دھان کی سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں اور کھیتوں میں آب رسائی جیل کے پانی سے ہوتی ہے۔“ (چند تحریریں،مرتب پریمی رومانی،ص 80(
قاضی مشتاق احمد اپنے سفر نامے میں بنگال کے لوگوں کے کھانوں کی عادت کے متعلق لکھتے ہیں:
بنگالی لوگوں کے لیے مچھلی ہوا کی طرح ضروری ہے اس کے کھانے میں مچھلی کا ایک ٹکڑا نہ ہو تو اس کا پیٹ نہیں بھرے گا۔“ (آٹھ سفر نامے،قاضی مشتاق احمد،ص 18(
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
منالی میں امرتسر رسوئی گھر نامی ایک ڈھابہ نما ہوٹل بہت مشہور ہے جہاں لوگ بطور خاص سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی کھانے جاتے ہیں۔اس ہوٹل میں آلو،گوبھی اور پیاز کے پراٹھے بھی ملتے ہیں۔
)آٹھ سفرنامے،قاضی مشتاق احمد،ص47(
خوردو نوش یا کھانوں کے اس مختصرسے جائزے کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے سفرنامہ نگاروں نے موقع بہ موقع اپنے سفری تجربات کوپیش کرتے ہوئے ہندوستانی اشیائے خورد و نوش کا تذکرہ کیا ہے جس سے قاری کو ہندوستانی مزاج اور پسند و ناپسند سے آگاہی ہو تی ہے۔ان اشیائے خورد و نوش کی خوشبوؤں میں ہندوستان کی مہک اور لذت ملتی ہے اور تہذیبی عناصر کو باریکی سے جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔
تہذیب کا ایک اہم جز ملبوسات و پوشاک یا لباس اور زیورات ہیں۔ہر ملک وقوم کا اپنا لباس اور زیورات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پہچان ہوتی ہے  اور اسی لباس کی وجہ سے دنیا میں ان کی انفرادیت بھی قائم رہتی ہے۔جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے یہاں لباس و زیورات کا استعمال بھی یہاں کی زبانوں کی طرح ہر علاقے میں مختلف ہے لیکن بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو آج بھی بلا مذہب و ملت کی تفریق کے ہر جگہ یکساں ہیں۔گھونگھٹ ہندوستان میں ایک قدیم روایت رہی ہے۔یہاں اکژدیکھا گیا ہے کہ عورت اپنے بزرگوں کے سامنے گھونگھٹ کا استعمال کرتی ہے۔جو ایک طرح سے ان کی اپنے بزرگوں کی تعظیم کی نشانی ہے۔ سفر نامہ ’موسموں کے عکس‘ میں جمیل زبیری اس حوالے سے لکھتے ہیں:
یہاں کی عورت اب بھی اس طرح اپنے مردوں کے سامنے گھونگٹ کاڑھتی ہیں اور پاؤں کی انگلیوں میں بچھوئے پہنتی ہے۔“ (موسموں کا عکس،جمیل زبیری،ص122)
دوسری جگہ ایک عورت کے لباس اور زیورات میں ملبوس ہونے کا نقشہ یوں بیان کیا ہے کہ وہ عورت سچی اسی تصویر میں ہمیں دکھائی دیتی ہے۔پیش ہے یہ اقتباس:
وہ چاندی کا زیور اور پھول دار انگیا پہنے ہوئے تھی اور ہلکے نیلے رنگ کی ساڑھی باندھے تھی،پاؤں میں چھانگل تھے۔“  (موسموں کا عکس،جمیل زبیری،ص107)
ثریا خورشید نے اپنے سفرنامے ’بانیال کے اس پار‘  میں راجستھانی عورت کے لباس اور زیورات کا یوں ذکرکیا ہے:
راجستھا ن کی عورت شوخ رنگوں کے لہنگے پہنے ناک اور کان میں چمکدار لونگ لٹکائے،گلے اور ہاتھوں میں موتی اور منکے پہنے ادھر ادھر نظر آرہی تھی۔
(بانیال کے اس پار،ثریا خورشید،ص86)
اردو سفرناموں میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت کے جائزے کی روشنی میں یہ کہنا حق بہ جانب ہے کہ اردو کے سفرناموں میں سفرنامہ نگاروں نے ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی بہترین عکاسی کی ہے۔مشترکہ تہذیب کے عناصر کو ایک ایک کر کے انھوں نے اپنی سفری تخلیقات میں سمویا ہے۔وہ اپنے تجربات کو بیان کرتے ہوئے تعصب و تنگ نظری سے بالا تر ہو کر اپنی وسعتِ نظر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔انھوں نے ہندوستانی تہذیب کے مثبت و منفی دونوں طرح کے عناصر کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی ہے۔ انھوں نے جہاں معاشرے کی خوبیوں کا بیان کیا ہے وہیں خامیوں کو بھی منظرِ عام پر لایا گیا  ہے تاکہ قاری خود کو اور معاشرے کو دیکھ کر اس کی اصلاح کی کوئی تدبیر ڈھونڈ سکے۔ محبت و ہمدردی، جذبہئ یکتائی، ایثار و قربانی، قوتِ ضبط،کثرت میں وحدت،ادب اور فن سے لوگوں کی دلچسپی،باہمی تال میل،اخلاص و سادگی،سادھو و سنتوں اور درویشوں سے عقیدت و ہمدردی،مزاروں سے عقیدت، مذہبیت و روحانیت،روز بہ روز سماج میں بڑھتے ہوئے مسائل  وغیرہ ہر چیز کو ان سفرنامہ نگاروں نے اپنے سفرناموں میں پیش کر دیا ہے۔
القصہ یہ کہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب بہت سارے مثبت اور خوبصورت عناصر سے عبارت ہے لیکن تہذیب کے ارتقائی سفر میں اس نے اپنے اندر کچھ منفی پہلوؤں کو بھی جگہ دی لیکن جو بھی ہو اردو کے سفرنامہ نگاروں نے ان تمام منفی و مثبت عناصرِ تہذیب و معاشرت کو اپنے سفری تجربات میں لکھا اور جوں کا توں اپنی نگارشات و تخلیقات میں اتار دیا۔اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ان سفری تخلیقات کی ورق گردانی کرتے ہوئے قاری کو اپنی مشترکہ تہذیب کو اس کے پسِ منظر میں جاننے کا موقع ملتا ہے اور اس کے لیے اہلِ زبان اردو کے ان سفر نامہ نگاروں کی تخلیقات کو سراہنے پر مجبورہیں اور ان کی کاوشوں کے لیے ان کے شکر گزار بھی، جس کے باعث ہمارے ادب میں بیش قیمت اضافہ ہوا۔


Dr. Altaf Ahmad
Lecturer Urdu
Govt Higher Secondary School Sazan
Doda - 182202 (J&K)
ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں