21/2/20

میرا جی کے تراجم مضمون نگار: حقانی القاسمی



میرا جی کے تراجم
حقانی القاسمی

تلخیص
میراجی ایک عظیم تخلیق کار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مترجم بھی تھے۔ انھوں نے عالمی ادبیات کے علاوہ سنسکرت شاعری کے بھی عمدہ ترجمے کےے ہیں۔ ترجمہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت مسلم ہے۔ انھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے مشرقی تہذیبی روایات سے اپنے ذہنی انسلاکات کا ثبوت دیا ہے اور زیادہ تر ترجموں میں تہذیبی مقامیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے ترجمے کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ انھوں نے اصل خیال کو مکرر تخلیق کیا ہے۔میراجی کے ترجمے کا ایک خاص مقصد تہذیبی اور ثقافتی مجادلے کو مکالمے میں بدلنا اور غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا سدباب کرنا تھا۔ میراجی کے تراجم کے حوالے سے تنقیدی حلقے میں گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن ان کے تمام تراجم کے تعلق سے ایک مبسوط گفتگو کی ضرورت تھی۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ میراجی کے تراجم کے مجموعے ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ ،’خیمے کے آس پاس‘، ’نگار خانہ‘ کی روشنی میں میراجی کے تراجم کا مجموعی جائزہ لیا جائے ۔

کلیدی الفاظ: 
میراجی، مشرق، مغرب، علامت پسندی، ہندو اساطیر، سنسکرت شاعری، چنڈی داس، امارو، ودّیاپتی، نگارخانہ، دامودرگپت، خیام، بھرتری ہری، تہذیبی مقامیت، ہندوستانی ثقافت،لسانی امتزاجیت،تصرف،آزادی،کٹنی متم، جمالیاتی متن، روحانیت، جنسیت، شرنگار شتک،فرانسا ولاں، طامس مور، بادلیر، میلارمے۔
——————
ترجمہ دیواروں کو توڑ کر نئے در بنانے کا عمل ہے اور یہی کائنات کی فکری وحدت اور مشترکہ انسانی وراثت کی تفہیم و تعبیر کا سب سے مضبوط وسیلہ ہے۔ ترجمہ ہی کے ذریعے تہذیبی مغائرت اور ثقافتی اجنبیت،یگانگت اور قربت میں بدل جاتی ہے اور عالمی احساس کی وحدت کا امکان بھی پیدا ہوتا ہے۔ ترجمہ ذہن و فکر کی تبدیلی کا بھی محرک ہوتا ہے اورتہذیبی اور ثقافتی تصادم کوتفاہم اور ترابط میں بدلنے کا ذریعہ بھی۔ شاید اسی وجہ سے زمانہ قدیم سے ترجمے کی ایک مربوط اور مستحکم روایت رہی ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوںمیں ترجمے ہوتے رہے ہیں۔ 1


دوسری اقوام و ملل کے افکار و اقدار سے آگہی کے لیے ترجمے ہی کو ایک زینہ بنایاگیا ہے۔ جیساکہ مغل شہزادہ داراشکوہ2 نے ’سر اکبر‘ کی صورت مےں 52اپنشدوں کا ترجمہ کیا اور اسلام وہندومت کے مشترکہ عناصر کی جستجوکی۔بیت الحکمت بغداد میں ترجمے کا سب سے عمدہ تجربہ کیا گیا اوردنیا کی مختلف زبانوں کی اہم کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے بغداد میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کرنے والوں کی کثیر تعداد تھی جن میں سے تقریباًسترہ مترجمین کا تعلق ہندوستان سے تھا۔3بیت الحکمت سے ہی منکہ،کنکہ،گودرہندی،ابن دہن ہندی،کلب رائے وغیرہ کا تعلق تھااورشاید سنسکرت کی کتابوں کے ترجموں کا اثر تھا کہ عربی شاعری میں نہ صرف ہندی کے الفاظ بلکہ افکار بھی شامل ہوگئے۔ ابوالعلا معری4 جیسا شاعر بھی ہندوستانی فکر سے اتنا متاثر ہواکہ اپنے اوپر گوشت خوری کو حرام کر لیا۔ جس کی طرف علامہ اقبال نے بھی اشارہ کیا ہے 
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات
یہ خوان تر و تازہ معری نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحب غفران و لزومات
اے مرغ بیچارہ ذرا یہ تو بتا تو
تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟5
اس طرح کی معاشرتی روشن خیالی اور علمی خرد افروزی ترجمے کے بغیرممکن ہی نہیں۔ترجمہ ہی سے کشادگیِ قلب و نظر پیدا ہوتی ہے۔اسی سے احساس کو افلاک اور تخیل کو نئی زمینیں ملتی ہیں۔
محمد ثناءاللہ ڈار6 المعروف بہ میراجی (1912-1949)کو اس حقیقت کا ادراک تھا اسی لیے انھوں نے تخلیق کے ساتھ ساتھ ترجمے سے بھی اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔اسی سے ان اجنبی اور نامانوس جزیروں تک پہنچ گئے جہاں تک رسائی شاید آسان نہ ہوتی اور شاید ترجموں کی وجہ سے ہی ان کے تخیل اور تخلیق کو ایسے نئے آفاق ملے کہ دانشوروں کے لیے بھی میرا جی کے ذہن کا سراغ پانا مشکل ہو گیا۔ انھیں بھی سادیت پسند جنس زدہ،مجلوق اور اباحی شاعر کہا گیا۔ ان کی حقیقی ذات کو سمجھنے کی صحیح طور پرکوشش نہیں کی گئی۔انگریزی میں گیتا پٹیل نے میراجی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔میراجی پر ان کی وقیع کتاب
Lyrical Movements, Historical Hauntings on gender, colonialism and desire in Miraji's Urdu Poetry 
کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔
جس طرح میرتقی میر نے کہا تھاکہ 
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا ایک مقام سے ہے
یہی بات میرا جی کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے کہ سہل ہے میرا جی کا سمجھنا کیا۔میرا جی کی تخلیق کو سمجھنا مشکل سہی مگر ان کے ترجمے کی تفہیم بالکل دشوار نہیں ہے۔ ان کی تخلیق میں جتنی رمزیت،ابہام اوراشاریت ہے ان کے ترجمے میں اتنی ہی سلاست،سادگی اور شفافیت ہے۔
میرا جی کا ذہن منتشر تھا اور وہ بہت سی الجھنوں کا شکار تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے ترجموں کے ذریعے تہذیبی انتشار کو دور کرنے کی کوشش کی اور اپنے الجھے ہوئے ذہن سے دنیا کو ایک مربوط اور منظم نظامِ فکر دیا۔ ان کے ترجموں کا مقصد ثقافتی اور تہذیبی مغائرت کو دور کرنا اور متناقض بیانیے میں مفاہمت کی ایک راہ تلاش کرنا تھا۔ ان کی ذات کئی ٹکڑوں اور خانوں میں منقسم تھی مگر انھوں نے مختلف تہذیبوں اور قوموں کے درمیان تقسیم اور تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مشترکہ انسانی احساس کی شمع روشن کی۔ گلوبل گڈ ول اور بین تہذیبی یگانگت پر زور دیا اور تمام تہذیبی روایتوں اور بیانیوں کے امتزاج سے ایک مشترکہ انسانی کائنات کاتصوربھی پیش کیا۔ انگریزی ناول نگار اور شاعر Joseph Rudyard Kipling (30 دسمبر 1865۔ 18 جنوری 1936)کے اس خیال کواپنے ترجمے کے ذریعے مسترد کیاکہEast is east and west is west. and never the twain shall meet.۔میرا جی نے مشرق و مغرب کے تہذیبی اور تخلیقی بیانیے میں مشارکت کو تلاش کرکے مشرق ومغرب کے تخلیقی احساس کی یکسانیت سے بھی روشناس کرایا۔
میرا جی نے ترجموں کی کتاب ’مشرق و مغرب کے نغمے ‘(اکادمی پنجاب لاہور،1958)میں اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس مجموعے میں امریکہ، روس، فرانس، انگلستان، چین، کوریا، روم، جرمنی، جاپان، یونان اورہندوستان کے تخلیق کاروں کے ترجمے کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان شاعروں کا تنقیدی تعارف بھی کرایا ہے۔اس کتاب میں مشرق و مغرب کے ان حساس اور درّاک ذہنوں کا اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ بہت سی متضاد اور متناقض چیزیں تخلیقی سطح پرایک ہو سکتی ہیں۔ احساس کی سطح پر ہم آہنگی یا اتحاد مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ مشرق و مغرب میں بعد القطبین کے باوجود جذبات اور خیالات کی سطح پر یکسانیت کا امکان ہے۔ایس اے مہدی نے اپنی کتاب Parallelism in english and urdu poemsمیں انگریزی اور اردو کے شعرا کے خیالات کی یکسانیت اور یکرنگی کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو کی ہے۔7میرا جی نے جن شعرا کا انتخاب کیا ہے ان میں گو کہ جغرافیائی اور لسانی یکسانیت نہیں ہے مگر کہیں کہیں ایک نقطۂ اشتراک ضرور نظر آتا ہے۔ کلی یکسانیت تو ایک زبان کے شاعروں میں بھی نہیں مل سکتی مگر عمومی انسانی جذبات میں یکسانیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر عذاب اور خواب میں بڑی یکسانیت ملتی ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کے خواب اور دکھ درد ایک جیسے ہوتے ہیں اور شاعری بنیادی طور پر انسانی خوابوں اور دکھوں کاہی ترجمان ہوتی ہے۔
’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں میراجی نے جن شاعروں کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بیشتر عالمی ادبیات میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔امریکہ کا ملک الشعرا والٹ وٹمن، روس کا ملک الشعرا پشکن، پندرہویں صدی کا عظیم فرانسیسی شاعر فرانساولاں، مغرب کا ایک مشرقی شاعر طامس مُور، انگلستان کا ملک الشعرا جان مینس فلڈ، انیسویں صدی کا عظیم فرانسیسی شاعر چارلس بادلیر، چنڈی داس، ایڈ گرایلن پو، لی پو، سیفو، سٹیفا نے میلارمے، امارو، کیٹولس، ڈویچ ایس لارنس، ہائینے اور دی برانٹی سسٹرس وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ میراجی نے کوریا کی قدیم شاعری کے تراجم بھی کےے ہیں جن میں لی چونگ، لی ان لو، پوئے پونگ، کواک کو، لی چان یون، پی وہانگ، پی کیو یو، لی سونگ ان، یول کوک وغیرہ شامل ہیں۔ میراجی نے بارہویں عیسوی کے جہاں گرد اورخانہ بدوش یوروپی طلبا کے لاطینی گیت کے ترجمے بھی کیے ہیں۔
 میرا جی نے مشرقی اور مغربی طرزِ احساس کو سمجھنے کی پوری کوشش کی اور وہ صرف ایک ہی تہذیبی وفکری محور و مرکز میں محصور نہیں رہے۔ انھوں نے تنوع میں اس وحدت کی تلاش کی جو ان کا ذہنی مقصود و مطلوب تھا۔انھوں نے جہاں ملارمے، بودلیر اور پو سے اپنا ذہنی رشتہ جوڑا وہیں چنڈی داس، امارو، بھرتری ہری اور میرا بائی سے بھی۔ جہاں فرانسیسی علامت پسندی کوسراہاوہیں ہندو اساطیر و علامات پر بھی ان کی نظر رہی۔
 ترجمے کے باب میں میرا جی نان کنفرمسٹ تھے، کسی نظریہ یاروشِ خاص کے اسیر نہیں رہے۔ میراجی نے جن مغربی شاعروں کے ترجمے کیے ہیں ان میں سے بیشتر کے ترجمے اردو میں بھی ہو چکے ہیں کہ اردو میں انگریزی سے ترجموں کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ غلام مولا بخش قلق میرٹھی کے جواہر منظوم سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور پھر مترجمین کی ایک بڑی تعداد سامنے آتی ہے جن میں بانکے بہاری لال (منتخب انگریزی نظموں کے منظوم تراجم، 1869)، نظم طباطبائی، ضامن کنتوری (ارمغان فرنگ)، دھرم سروپ (صدائے بازگشت)، عباس کاظمی (بہارِ انگلستان)، امیرچند بہار (نسیم مغرب)، سید شاکر علی جعفری (جام بہ جام)، شبنم گورکھپوری (بادۂ مغرب) کے نام بھی ہیں۔ڈاکٹر حسن الدین احمد نے ’ساز مغرب‘ کے سات حصوں میں681منظوم ترجمے شامل کیے ہیں جو مختلف رسائل وجرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے۔ عالمی ادبیات وغیرہ کے ترجمے بہ کثرت ہوئے ہیں۔ بیشتر شہکار اردو میں ترجمہ ہو چکے ہیں خاص طور پر والٹ وِٹ مین، پشکن، بودلیئر— میں یہاں صرف میرا جی کے ان ترجموں پر زیادہ زور دینا چاہوں گا جو انھوں نے سنسکرت سے کیے ہیں خاص طور پر امارو۔ چنڈی داس اور ودیا پتی کے ترجمے اردو میں کم ہوئے ہیں اور ان سے اردو کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو میں سنسکرت سے ترجمے کی ایک مستحکم روایت رہی ہے۔ رامائن اور بھگوت گیتا کے سب سے زیادہ ترجمے اردو میں ہی ہوئے ہیں۔8 ویدوں اور اپنشدوں کے ترجموں کے علاوہ کوٹلیہ کی ارتھ شاستر،ہتوپدیش، کالی داس کی شکنتلا، کمارسنبھو، رگھوونش، مالویکا، بھبھوتی کی مالتی مدھو اور گیت گوبند وغیرہ کے بھی ترجمے ہو چکے ہیں۔ میرا جی نے ہند آریائی مزاج ہونے کی وجہ سے سنسکرت کے ان شاعروں کا انتخاب کیا اور ان اہم شعرا کا تعارف اردو حلقے سے کرایا اور ہماری قدیم تہذیبی اور ثقافتی حسیت سے بھی روشناس کرایا۔ دراصل سنسکرت کے ان ترجموں کے پیچھے میرا جی کا ایک خاص ذہن کار فرماتھا۔ وہ مشرقی تہذیبی روایات سے اپنے ذہنی انسلاکات کا ثبوت دینا چاہتے تھے اور ان میں وہ اپنے مابعد الطبعیاتی عشق اور جنسیت کا بھی جواز تلاش کر رہے تھے۔
 قدیم سنسکرت ادب میں عشقیہ شاعری کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ امارو بھی عشقیہ شاعری کا ایک بڑا نام رہا ہے۔Erotic love کے حوالے سے اس کی ایک الگ شناخت ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگریزی میںAndrew Schellingنے ’امارو شتک‘ کاترجمہ Erotic love poems from india کے نام سے کیا ہے۔امارو کی پوری شاعری شرنگار رس سے بھری ہوئی ہے اس میں برہ اور ملن کی بڑی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔ آنند وردھن نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے۔میراجی لکھتے ہیں:
”امارو شتک۔ امارو کی سو نظموں کو ہندوستان بلکہ دنیا کی عشقیہ شاعری میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ امارو کی شاعری نے سنسکرت ادب میں پہلی بار اس حقیقت کو منوایا کہ صرف محبت ہی کو شاعری کا بنیادی موضوع بنا کر گونا گوں نغمے چھیڑے جاسکتے ہیں۔“9
امارو کی کچھ نظموں کے ترجمے ملاحظہ ہوں 
جب سے تم چلی گئی ہو کسی نے مجھ سے تمہاری بات نہیں کی
لیکن ہوا جب گزر رہی تھی تو میں نے تمہارا نام کہا
اور ایک شخص مر رہا تھاتو اس کے سامنے بھی میں نے تمہارا نام لیا
میری پیاری!اگر تم زندہ ہو تو کسی دن ہوا کا گزر تمہارے پاس سے ہوگا
 اور اگر تم مر چکی ہو تو اس شخص کی روح تمہیں بتا دے گی کہ مجھے تم اب بھی یاد ہو¡
”میں کوئی نادان نہیں،
میرے سامنے جھوٹ کہنا بیکار ہے،
مجھے تمھارے سینے پر بیرن کے بوسوں کے نشان دکھائی دے رہے ہیں۔“
لیکن میں بہت زور سے اُسے اپنے سینے سے بھینچتا ہوں
تاکہ وہ نااندیشانہ نشان مٹ جائیں!
اور وہ انھیں بھول جائے¡
جب سے میں نے اس کے ہونٹوں کو پہلی بار چوما ہے، میری پیاس دُگنے زور
سے بھڑک اٹھی ہے،
لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں،
اُن بوسوں میں ایک سلونا پن تھا!¡
محبت کی خوشبوو!
 محبت کی مسکراہٹو!
اے سورج کے جلال! اور اے تاروں بھری رات کی شوکت!
موت کے مقابلے میں تم مجھے ہیچ نظر آتے ہو!
لنکا کی لڑکیو! سارتھ کے تاڑ کے درختو! مار کی ندیو! کمل میں شاہدانے کے
درختوں میں ہوا کے گیتو- میں تمھیں الوداع کہتا ہوں!10
اسی طرح انھوں نے میتھلی کے عظیم وشنو شاعر ودیا پتی11 کاترجمہ کےا ہے جس میں انھوں نے کرشن اور رادھا کی محبت کا احوال لکھا ہے۔ اس میں بھی ہجر و وصال کا بیان ہے۔ترجمے کے نمونے ملاحظہ ہوں 
کیسے سکھ پائے رادھا کا دکھیا،زرد شریر
کام دیو کے چنچل ہاتھوں نے چھوڑے تھے تیر
دورکسی بستی میں پہنچی، سپنوں کا تھا ساتھ
اور پہلو میں کاہن تھے،ہاتھوں میں تھامے ہاتھ
کالے پھولوں والے بھنورے، ان سے کہیو جائے
رات دنا کا درد تمہارا اب تو سہا نہ جائے
راجہ شیو جو لکشمی دیوی کا سرتاج کہائے
میرے دکھ کو بس وہ جانے۔ودّیا پتی سنائے“¡
رُک رُک کر وہ بول رہی تھی،
شرم سے اس کی آنکھ جھکی تھی!
لاج سے بات ہوئی کب پوری،
لب پر آئی بات ادھوری!
آج تھی اس کی چال انوکھی،
اک پل مانی، اک پل روٹھی!

بات سنی جب رنگ بھاؤ کی،
زور سے موندیں آنکھیں اپنی!
ایک جھلک میں اُس نے دیکھا،
پریم کا ساگر آنکھوں میں تھا!

جب دیکھا منہ چوم ہی لے گا،
رُخ بدلا رادھا نے اپنا!
چاند کنول کو گود میں لے کر،
ڈوب گیا مستی میں یکسر!

ہاتھ کمر پر دیکھا اپنی،
ڈر کر چونکی، جھجکی، سمٹی!
دھیان اچانک جی میں آیا،
مال مدن کا چھن جائے گا!
جب پوشاک پریشاں دیکھی،
دونوں ہاتھ سے گات چھپائی!
سب سنگار دکھائی دیتے،

ہیرے موتی، ہار اور گجرے،
اس پر بھی پوشاک سنبھالے!
سیج سے سندر ڈر کر بھاگے،
سن کے کوئی کیا جانے، سمجھے؟12
میرا جی نے سہجیہ فرقے کے ترجمان اور رادھے شیام کے نغمہ خوان چنڈی داس13 کے گیتوں کا بھی ترجمہ کیا جس کا عقیدہ تھا کہ جنسی محبت ہی سے خدا کی طرف دھیان لگایا جا سکتا ہے۔ چنڈی داس کواپنی محبوبہ رامی دھوبن ( رامونی)سے بڑی محبت تھی۔چنڈی داس مندر کا پروہت تھا اور برہمن بھی۔ایک دھوبن سے محبت کرنے کے جرم میں کفارہ ادا کرنے کے لیے اسے برادری سے نکال دیا گیا۔ لیکن رامی کی محبت اس کے دل میں اور بڑھتی گئی۔اس نے رامی کو ساتھ لے کر وطن چھوڑ دیا۔ وہ رامی کے لیے عشقیہ گیت لکھتا تھا،اس لیے رادھا کرشن کے استعارہ سے اپنے ذاتی تجربہ کو گیتوں میں ڈھالتا تھا۔ بنگالی چنڈی داس سے میراجی کی دل چسپی کی ایک وجہ شایدبنگال کی لڑکی، ایف سی کالج لاہور کی طالبہ میرا سین سے محبت رہی ہوگی اسی وجہ سے میرا جی نے چنڈی داس کا انتخاب کیا ہے کہ دونوں کے عشق کی داستان تقریباً ایک جیسی ہے۔ چنڈی داس کے گیت کے ترجموں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
اُس کی آنکھوں میں ہے بس شیام کی موہن مورت
اس کی آنکھوں میں نہیں اور کوئی بھی صورت
کان میں نام اگر ہے تو وہ اک شام کا ہے
دل میں بھی دھیان اگر ہے تو اسی نام کا ہے
اس نے پہنا ہے لباس اپنے بدن پر کالا
نیلے پھولوں سے بنائی ہے اک اچھی مالا!
اس کے سینے کی سجاوٹ کے لیے ہے نیلم!
اور وہ کہتی ہے مری سانولی، سجنی، پیتم!
”آ! بس آجا، مرے آغوش میں آجا سجنی!
انگ سے اپنے مرا انگ لگا جا سجنی!“
وہ تو اک اونچے گھرانے کی ہے سندر بیٹی
ہر گھڑی دل ہے اور اس دل میں ہے اک بے چینی!
اُس کا دل موہ لیا تم نے، تم ہی نے مادھو!
یاد کرتی ہے وہ ہر وقت، ہمیشہ تم کو
دور ہوتا ہی نہیں دھیان تمھارا موہن!
دل میں ہے دھیان ہر اک آن تمھارا موہن!
دیکھو، دیکھو، وہ جو صورت تھی کنول کی صورت
اب وہ سنولا گئی، مرجھاگئی موہن مورت
اس کی آنکھوں سے بہی آتی ہے انسون دھارا
اور ان آنسوؤں سے بہہ گیا کاجل سارا
اُس کے بس ہی میں نہیں کیسے بھلائے تم کو؟
رحم کی بات ہے، رحم آئے تو آئے تم کو
نیند سے خالی ہیں اب، خالی ہیں اس کی راتیں
دکھ سے بھرپور ہیں، دکھ والی ہیں اُس کی راتیں
شیام سندر! ارے ہاں شام! ذرا سچ کہنا
بس میں ہے، بس میں تمھارے ہی تو دارو اُس کا
اور اب سن لو کہ یوں کہتا ہے چنڈی داسا
اس طرح چین نہ پائے گا جو دل ہے پیاسا
چند ہی دن میں بس اب ہوگا تمھارا بندھن
پاس آجائیں گے اور تم سے ملیں گے موہن!14

ایک نثری ترجمہ بھی دیکھیے:

”اے میری محبوب! میں نے تیرے قدموں میں آکر پناہ لی ہے، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے جلتے ہوئے دل کو ٹھنڈک پہنچائیں گے۔ میں تیرے اس حسن کا پجاری ہوں جس سے مقدس دوشیزگی ابل رہی ہے اور جو کسی نفسانی خواہش کو برانگیختہ نہیں کرتا۔
جب میں تجھے نہیں دیکھتا تو میرا دل بے چین رہتا ہے اور جب میں تجھے دیکھ لیتا ہوں تو میرے دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ اے دھوبن! اے میری محبوبہ تو تو میرے لیے ایسے ہے جیسے بے بس بچوں کے لیے ان کے ماں باپ!
برہمن دن میں تین بار پوجا کرتا ہے، اسی طرح میں تجھے پوجتا ہوں۔ تو میرے لیے اس گائتری کے مانند مقدس ہے جس سے ویدوں کی تخلیق ہوئی۔ میں تجھے سرسوتی دیوی سمجھتا ہوں جو گیتوں کو تحریک دیتی ہے۔ تو تو میرے لیے پاربتی دیوی ہے— تو میرے گلے کا ہار ہے— تو میرے لیے آکاش بھی ہے اور دھرتی بھی۔ تو ہی میری پاتال ہے اور تو ہی میرا پربت— نہیں نہیں تو تو میری کائنات ہے۔ تو میری آنکھوں کی پتلی ہے۔ تیرے بغیر میرے لیے ہر چیز تاریکی کے مانند ہے— میری آنکھیں تو تجھے دیکھنے ہی سے تسکین پاتی ہیں۔ جس روز تیرا چاند سا چہرہ نہیں دیکھتا میں ایک بے جان انسان کی مانند ہوتا ہوں۔ میں تو ایک پل کے لیے بھی تیرے حسن و رعنائی کو نہیں بھول سکتا۔ مجھے بتا دے کہ میں کس طرح تیری نظرِ کرم کا مستحق بنوں۔تو ہی میرا منتر ہے اور تو ہی میری پرارتھناؤں کا نچوڑ۔ تیرے دوشیزہ حسن کے لیے میرے دل میں جو چاہت ہے اس میں جسمانی خواہش کا کوئی بھی عنصر نہیں ہے۔ چنڈی داس کہتا ہے کہ دھوبن کی محبت پارس پتھر سے پرکھا ہوا سچا سونا ہے۔“15
 مشرقیت سے میرا جی کا لگا انہی شاعروں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ انھوں نے اپنے ہند آریائی مزاج اور ہندو اساطیر اور علامات سے شیفتگی کا ثبوت دامودر گپت کی کتاب’کٹنی متم“ سے بھی دیا ہے جسے شمبھلی مٹم بھی کہا جاتاہے۔یہ’ نگار خانہ‘16کے عنوان سے مکتبہ جدید لاہور سے 1905میں شائع ہوا۔یہ کلاسکی سنسکرت ادب کا ایک شہکار ہے۔ واتسائن کے کاما سوتر کی طرح ایک Erotic Text ہے۔ اس کا مصنف دامودر گپت ہے جس کے بارے میں کلہن نے ’راج ترنگنی‘ میں لکھا ہے کہ نویں صدی میں کشمیر کے راجا جیاپیداونیا یادتیاکے دربار میں ایک اعلا منصب پر فائز تھا۔ کشمیر کے اس راجا نے 31سال تک حکومت کی۔اس کتاب میں دامودر نے اپنے ذاتی مشاہدات پیش کیے ہیں اور شاہی دربار کی زندگی کی برہنگی کوبے نقاب کیاہے۔
بنیادی طور پر اس کتاب کا تعلق Art of seductionسے ہے۔ اس کا مرکزی کردار مالتی ہے جو سرو گن سمپن ہے مگر دولت مند نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔اس لیے ایک تجربہ کار کٹنی وکرالا کے پاس جاتی ہے اور اس سے مردوں کے رجھا نے کا گر سیکھتی ہے۔ وکرالا اپنے تجربے کی روشنی میں مالتی کودام الفت میں پھنسانے اور مردوں کے شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے سارے حربے بتاتی ہے۔اس کتاب میں انگ ودیا بھی ہے اور شریر وگیان بھی، رتی چکر بھی ہے اور سم رت بھی۔ مردوں کو اپنے دامِ حسن میں پھنسانے کے سارے حربے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔لیکن یہ کتاب صرف شہوانی جذبات کو بر انگیختہ یا رجھانے کے طریقوں پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ نویں صدی کے ہندوستان کی سماجی، سیاسی، ثقافتی دستاویز بھی ہے۔ اس میں اعلا سوسائٹی کے اخلاقی زوال اور انحطاط Moral Depravity کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اسے زیادہ تر لوگوں نے ایک شہوانی متن کے طور پر دیکھا ہے مگر حقیقت میں ایک طوائف کے ذریعے اس وقت کے ہندوستانی سماج کی مکمل تصویر پیش کی گئی ہے۔ اے ایم شاستری نے اپنی کتاب
Seen in the Kuttanimata of Damodara Gupta India as
میں اس کتاب کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے اس وقت کی پولیٹکل تھیوری، وشنو ازم،عبادات، اعتقادات، خاندان، شادی،عورت کی حیثیت، رتبہ، قحبگی، بدکاری، ملبوسات، زیورات، آرائشِ جمال، مشروبات،مقامات غرض کہ معاشرے کے ہر پہلو کا ذکرکیا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ دامودر گپت نے اس وقت کے سماج کی عکاسی کرتے ہوئے بہو جنیPolygamyیعنی کثرت ازدواج کا بھی ذکر کیا ہے۔اس کہانی کا کردار مالتی کہتی ہے کہ برسات کی رات میں اپنے محبوب سے مل نہیں پائی کہ وہ اپنی بیبیوں میں مصروف تھا اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت کی ہزاروں عورتیں ایک ہی شخص میں دل چسپی رکھتی تھیں۔ دامودر گپت نے اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا کہ اس وقت کے کشمیر میں Meat  Dite رائج تھی، وشنو کے پیروکار بھی ممسا رس پیتے تھے۔ مرد وں اور عورتوں میں شراب نوشی عام تھی، طوائفیں جنسی عمل کے بعد تھکان دور کرنے کے لیے اس وقت کا لحمینہ استعمال کرتی تھیں۔اس کتاب میں کئی ٹوپوگرافکل ریفرینس بھی ہیں۔بنارس،پاٹلی پترا اور راجستھان کے ابو کا اس کتاب میں خاص طور سے ذکر آیا ہے۔ اس کہانی کا لوکیشن یا محل وقوع بنارس ہے جو مقدس و متبرک اسطوری شہر کہلاتا ہے جہاں انسانوں کو مکتی ملتی ہے۔ دامودر نے اس نگری کابہت خوبصورت منظر کھینچا ہے۔ جس کا ترجمہ بہت ہی خوب صورت اور سلیس انداز میں میرا جی نے کیا ہے:
”کاشی نگری دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہے، بھلے دنوں کی کون سی بات ہے جو یہاں نہیں، یہاں کے ہر باسی کی آنکھیں اپنی مکتی کی طرف لگی ہوئی ہیں پھر اس نگری میں وہ لوگ بھی رہتے ہیں جن کے دل کامنا سے بھرپور ہیں اور جن کی روحوں پر جسموں کا پھندا پڑا ہوا ہے اور جنھیں جسمانی خوشیوں کی کھوج ہے اور اس نگری کی ہر منگلا مکھی یوں سمجھو جیسے شیو کا روپ دھارے ہوئے ہے۔یہاں کی ہوا پھولوں بھری چوٹیوں سے بھری ہوئی ہے،مالتی اسی کاشی نگری کی رہنے والی ہے۔جب یہ نوخیز نو عمر طوائف جہاں دیدہ طوائف وکرالا کے گھر جاتی ہے تو وکرالا اسے مردوں کورجھانے کے گر سکھاتے ہوئے بتاتی ہے : ”دیوتاں کی آگیا سے اب بھی تیری کمر نازک ہوتے ہوئے بھی بوجھل سے بوجھل مردوں کو پریم کے دسویں دوار تک پہنچا سکتی ہے جہاں موت کی دیوی براجمان ہے۔ اب بھی تیری ناف کے نیچے بالوں کی ہر لکیر کام دیو کی کمان کی چلے کی طرح جھکا کھائے ہوئے اچوک تیر چلا رہی ہے۔ اب بھی تیرے بڑے بڑے چوڑے چکلے کولہوں کی من موہنی وادی گھلے ملے رنگوں کے روپہلے اور سنہرے چری ہار کی طرح مردوں کے دلوں کو لبھا تی ہے۔“17
”اس دھرتی پر کوئی ایسا ہے جس کے دل میں تنوں کی سی سنہری رانوں کی کامنا نہ جاگ پائے کس کے من میں اس پیڑ کی چاہ جنم نہ لے گی، یہ پیڑ تو جوانی کی چاہت کے پھل ہی کے لیے بنایا گیا تھا۔ تیری رانیں ہاتھی کی سونڈ کی طرح ہیں میری پیاری، میری سندری۔اب بھی تیری رانیں دہرے ڈنٹھلوں کے ایسی ہیں اورہر کسی کے دل کو موہ لیتی ہیں۔کون ایسا ماں کا جایا ہے جو ایسے استھان پر پیاس بجھانے نہ آئے “18
کٹنی مٹم میں جمالیاتی پیکر تراشی بھی ہے۔ جسمانی اعضا ومفاتن کا بیان بھی ہے۔ میرا جی نے اس کتاب کے جمالیاتی متن میں ڈوب کر ترجمہ کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ نہیں بلکہ مکرر تخلیق ہے۔ ایک قدیم سنسکرت شہکار کو اتنے خوبصورت انداز میں اردو کا پیرہن عطا کرنا یقینا ان کا کمال ہے۔ میرا جی نے شاید اپنے جنسیاتی ذوق و شوق کی وجہ سے اس متن کا انتخاب کیا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ میرا جی نے اس کی وضاحت کی ہے کہ” اس کا مقصد لذت کوشی نہیں بلکہ قدیم ہندوستان کے گھنانے چہرے کی نقاب کشائی ہے۔“19
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
”دامودر گپت کی پیروی میں آج ہم ایسی چیزیں ہر گز نہ لکھیں گے لیکن ایسی چیزیں پڑھیں گے ضرور تا کہ ہماری دنیا میں وہ ماحول ہی نہ رہنے پائے جو محض لذت کو حیات بنا دیتا ہے۔“
 دامودر گپت نے اس کتاب میں جس طرح روحانیت اور جنسیت کے امتزاج کے ذریعے معاشرتی تضادات (Contradictions) کو واضح کیا ہے وہ آج بھی ایک معاشرتی حقیقت ہے۔ آج کے عہد میں Art of seductionپر کتابیں لکھی جا رہی ہیں Robert Greeneکی کتاب The Art of Seductionبیسٹ سیلر مانی جاتی ہے اور نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس موضوع پر کتابیں تحریر کر رہی ہیں۔ سیما آنند کی کتاب Art of Seductionاس باب میں قابل ذکر ہے۔برطانیہ کی خاتون ناول نگار Erika Leonardجو اپنے قلمی نام E.L.Jamesسے مشہور ہے۔اس نے Fifty shades of greyجیسا اروٹک ناول لکھاہے جو بیسٹ سیلر میں شمار کیاجاتاہے۔ دامودر گپت نے جس موضوع کا انتخاب کیا تھا وہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ اسی لیے میراجی کی ترجمہ کردہ کتاب ”نگار خانہ “پر سعادت حسن منٹو نے لکھتے ہوئے کہا تھا :
 ”چکلوں کا لین دین بنیادی طور پر ایک ساہی رہتا ہے۔اس میں دوسری منڈیوں کے لین دین کی سی تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں مرد کی فطرت میں آج ہم کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں کوئی بھی نہیں۔ اس کا لباس بدل گیا ہے، اس کی وضع قطع بدل گئی ہے مگر جب وہ عورت کے پاس جاتا ہے تو وہ وہی مرد ہوتا ہے جو آج سے صدیوں پہلے تھا۔ عورت کو حاصل کرنے کے طریقے بھی اس کے وہی پرانے ہیں۔مرد نے جنسی لحاظ سے کوئی انقلاب انگیز ترقی نہیں کی معدے اور جنس کے معاملے میں جیسا وہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ “20
منٹو نے یہ بھی لکھا :
”عورت خواہ بازاری ہو یا گھریلو خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا“21
اور حقیقت یہی ہے کہ دامودر گپت نے اپنی کتاب ”کٹنی متم“ میں عورتوں سے متعلق نئے انکشافات کیے ہیں جو آج بھی اتنے ہی سچ ہیں جو صدیوں پہلے تھے۔
 میرا جی نے دو ہزار سال پرانی اتنی اہم کتاب کا ترجمہ انگریزی سے کیا ہے۔ اگر انھوں نے اردو میں ترجمہ نہ کیا ہوتا تو اردو طبقہ ایک شہکار فن پارے سے محروم ہوجاتا۔ دامودر گپت کی یہ کتاب شانتی نتھ مندر بھنڈار میں تھی اس کو از سر نو ایک مغربی اسکالر ڈاکٹر پٹرسن (Peterson) نے 1883 میں دریافت کیا۔ جے پور کے پنڈت درگا پرساد جی نے اس کے دو نسخے دریافت کر کے اسے 1887 میں شائع کروایا۔ اردو حلقے کے لیے یہ بیش قیمتی تحفہ تھا اردو میں نیاز فتح پوری نے ترغیباتِ جنسی کے نام سے ہیولاک ایلس کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے مگر دامودر گپت کی بات ہی الگ ہے۔یہ کتاب مشرق کی رومانی اور جنسی ذہنیت کی پوری تصویر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ میرا جی نے کس انگریزی کتاب سے اس کا ترجمہ کیا ہے تو ڈاکٹر رشید امجد کا خیال ہے کہ یہ ایک انگریزی انتھولوجی میں شامل تھی جس کا نام تھا Romances of the eastجب کہ ناصر عباس نیر کا کہنا ہے کہ یہ پی پی ماتھرس کے ترجمے کا ترجمہ ہے۔بہر حال اس بحث سے قطع نظر یہ ایک اچھا ترجمہ ہے جس سے اس وقت کی خواتین کی حالتِ زار کاپتہ چلتا ہے اوریہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اس عہد میں بیویوں سے زیادہ طوائفوں کی اہمیت تھی۔ جو معاشرے میں ایک آدرش بن گئی تھی۔ یہ کتاب ہدایت نامۂ جنس ہے جس کے تعلق سے بہت سی کتابیں ہر زبان میں لکھی جا چکی ہیں۔خاص طورپر ’لذت النسا‘ جیسی کتابیں اب عام ہیں۔ارتھ شاستر کی طرح کام شاستر ہمارے معاشرے کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قدیم زمانے میں مذہب،عشق اور جنس میں کوئی تضاد نہیں تھا۔یہ کتاب اس کا بھی مظہرہے۔
میرا جی نے مشرقی شعریات اور جمالیات سے اپنی گہری دل چسپی کا ثبوت دیتے ہوئے بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ بھی کیاہے۔ جو یوگیوں کے سر تاج تھے اور جنھیں سنسکرت کے تمام شاستروں پر عبور تھا۔یہ وہی بھرتری ہری ہیں جن کے ایک شعر کا ترجمہ علامہ اقبال کے ”بالِ جبریل “کے سر نامے پر ہے 
”پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
 علامہ اقبال نے فلک زحل پر ان سے ملاقات کی اور رومی نے ان کا یوں تعارف کرایا
آں نوا پردازِ ہندی را نگر
شبنم از فیضِ نگاہ او گہر
بھرتری ہری کا نیتی شتک بھی ہے اور شرنگار شتک بھی، ویراگیہ شتک بھی۔ بھرتری ہری سنسکرت کا اتنا اہم شاعر ہے کہ ڈسکن اسکارٹ، جان بوغ، شری اربندو گھوش اور باربرا اسٹولر ملر نے انگریزی میں ان کاترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ ریاضی کے پروفیسر ڈی ڈی کوشمبی نے بھی سنسکرت کا سارا کلام انگریزی میں منتقل کر دیا ہے۔اردو میں ’جذبات بھرتری ہری‘ کے عنوان سے راجستھان کے اسسٹنٹ کمشنر جے کرشن چودھری ایم اے ایل ایل بی نے تقریباً 85 قطعات کا ترجمہ کیا ہے۔ یوسف ناظم نے ’ارمغانِ سنسکرت بھرتری ہری اردو میں‘ کے عنوان سے منظوم ترجمہ کیا ہے اور امتیاز الدین نے بھرتری ہری کاترجمہ ’شاعر اعظم: بھرتری ہری‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ کتاب اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ سے 1983 میں شائع ہوئی۔ عبدالستار دلوی نے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اثر لکھنوی نے 5 اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے تو تلوک چند محروم نے 10 اشلوکوں کا ترجمہ کیا ہے۔ ساحر سنامی نے شرنگار شتک اور ویراگ شتک کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے جو ’گل صد رنگ‘ حصہ دوم میں شامل ہے۔ پروفیسر صادق نے بھرتری ہری کے پہلے اردو مترجم بابو گوری شنکر لال اختر، رگھوویندر راؤ جذب، اوررگھوناتھ گھئی کا بھی ذکر کیا ہے۔22 اس طرح دیکھا جائے تو بھر تری ہری اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔میرا جی نے بھی بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ کیا ہے اس ترجمے کی وجہ بھرتری ہری سے میرا جی کی ذہنی مناسبت بھی ہو سکتی ہے کہ بھرتری نے بھی محبت میں دھوکے کھائے، معشوق فریبی کے شکار ہوئے اور اسی لیے راج پاٹ چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ بھرتری کو لگا کہ اس دنیا مےں ہر شخص خلوت کا سودائی اور لذت کا شےدائی ہے یہ۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ بھرتری ہری کو رانی پِنگلا سے عشق تھا۔ اس نے رانی پنگلا کو امرپھل دیا تو رانی نے سیناپتی کو دے دیا جس پر وہ فریفتہ تھی۔ سیناپتی نے اپنی معشوقہ راج نرتکی کو وہ امر پھل دے دیا۔ راج نرتکی سیناپتی کے سائیس سے پیارکرتی تھی، اس نے وہ امر پھل سائیس کو دے دیا۔ سائیس نے سوچا کہ یہ امر پھل میرے کس کام کا۔ اس نے راجہ بھرتری ہری کو دے دیا۔ یہ دیکھ کر راجہ کا دماغ چکرا گیا اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ یہ عشق و محبت کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے دھوکہ ہے۔ تبھی سے اس نے جنگل کی راہ لے لی۔

مےراجی نے بھرتری ہری کے حوالے سے دنیا کو محبت کی شاعری کا اہم نمونہ دیا ہے۔ بھرتری ہری واقعی رومان اور محبت کے شاعر ہیں۔ شرنگار شتک ان کی عشقیہ شاعری کا خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں 
دیدنی ہے بدن کا حسن و جمال
اس کا مکھڑا ہے چندرما کی مثال
بھونروں کی طرح بال گال کمل
چھاتیوں میں ہے ہاتھیوں کا جلال

زندگی کا لطف ہے گر زندگی کا جوش ہو
یہ تقاضائے جوانی ہے تو مدہوش ہو
یا اکیلے میں بہت کم سن سے ہم آغوش ہو
یا کسی جنگل میں جاکر بربط خاموش ہو

پہلے تو نہیں نہیں سے تھوڑا اٹھلائے
پھر سست بدن گود میں آنے سے لجائے
پھر خواہش وصل سے وہ ہوکر سرشار
دریائے محبت میں مزے لے کے نہائے
(ترجمہ: امتیاز الدین)
میراجی کے ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
”یہ نازنین کون ہے جس سے مزے لوٹ کر اسے پھر چھوڑ دیا گیا ہے اور جو بدن کے پسینے سے چمٹے ہوئے کپڑوں اور ڈانواں ڈول نگاہوں کو لیے صبح سویرے کسی ڈری ہوئی بد گمان ہرنی کی طرح ادھر ادھر پھرتی ہے۔ “ میراجی نے ترجمے میں سادگی اور سلاست کا خیال رکھا ہے اور مفہوم کی بڑی خوبصورت ادائیگی کی ہے۔
عمر خیام23 سے بھی شایدمیرا جی کی ایک ذہنی مناسبت تھی کہ خیام کو مے اور معشوق کا شاعر سمجھا جاتا ہے جب کہ خیام ایک مہندس اور ہیئت داں تھا۔ ماہر فلکیات مگر اہل مغر ب نے خمریات کی وجہ سے اس کی خوب پذیرائی کی۔ ڈاکٹر تھا مس ہائڈ، مسٹر وان ہےمر، ولفرڈ ہاکسن اور فٹز جرالڈ (Edward J. Fitzerald) 24نے اس کے اتنے خوب صورت ترجمے کیے کہ مغرب میں وہ عوام و خواص کا مقبول شاعربن گےا۔اس کی رباعیات کے مصور ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس کے نام پربرطانیہ مےں لٹریری سوسائٹی قائم کی گئی۔ اہل مغرب کی قدر دانی کے بعد اہل مشرق نے بھی ان پر توجہ کی۔ رباعیاتِ خیام کے ترجمے: جرمن، فرانسیسی، روسی اور دیگر زبانوں میں ہوئے۔ ضیاءاحمد لکھتے ہیں:
”ممالک فرنگ میں جن بے شمار مستشرقین نے خیام کی شاعری پر قلم اٹھایا، مبسوط شرحیں اور مقالے لکھے اور تذکرہ و تنقید کا فرض انجام دیا ان میں ٹامس ہائڈ، پروفیسر کریشٹن زن، ایم ایچ بیسٹسن، موسیو والن ٹن زوکوفکی، مسٹر راس ڈاکٹر فریڈرک روزن، این ایچ، این ایچ ڈول اور مسز کیڈل کے نام خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔“25
 اردو میں خیام کی رباعیات کے بہت سے ترجمے ہوئے۔ سب سے پہلا ترجمہ راجہ مکھن لال26 شاہجہاںپوری حیدر آباد کا ’نذر خیام‘ کے نام سے 1958 مےںشائع ہو ا۔ حضرت افسر الشعراءآغا شاعر قزلباش دہلوی نے ”خم کدہ خیام “ (شیخ مبارک علی تاجر کتب لاہور، 1927) کے نام سے ترجمہ کیا۔ ان کے علاوہ سید کاظم علی شوکت بلگرامی نے ”مئے دو آتشہ“27 (1932)۔ علامہ اسرار حسن خان شاہجہاں پوری نے ’بادہ

¿ خیامِ ‘، میر ولی اللہ بی اے، ایل ایل بی نے ’کاس الکرام‘ اور عادل اسیر دہلوی نے ”نغمہ

¿ خیام “ کے نام سے ترجمے کیے۔ان کے علاوہ مولوی سید محمد لائق حسین قوی امروہوی مالک و ایڈیٹر سوز و ساز دہلی کا تاج الکلام (1924) مولوی حافظ جلال الدین جعفری زین الدین مدرس اوّل عربی و فارسی گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج الہ آباد کا رباعیاتِ حکیم عمر خیام ،( مطبع انوارِ احمدی الہ آباد)، خیام الہند پروفیسر واقف لےکچردےال سنگھ کالج دلی وغیرہ نے اس کے ترجمے کےے۔ڈاکٹر عبدالرشید اعظمی (قومی اردو کونسل) نے سنہ 2007 میں فٹرز جیرالڈ کے انگریزی متن کو بنیاد بنا کر خیام کی 110 رباعیوں کا نثری نظم میں ترجمہ کیا جس کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو

¿س دلی نے کی۔ اس کے متوازی فٹز جیرالڈ کا اصل انگریزی متن بھی درج ہے۔

ہندی میں ہری ونش رائے بچن نے ’مدھوشالا‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ کیا تو انگریزی میں سوامی گووند تیرتھ نے 'The Nector of Grace' کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔بیدار بخت نے اپنے مضمون ’خیام کے ترجموں پر ایک نظر‘28میں تمام تراجم کا جائزہ لیا ہے جن میں فٹز جرالڈ، پرم ہنس یوگانند اور رابرٹ گلیوز، ایڈورڈ ہنری ون فیلڈ، رچرڈ لہ گالی این، جان چارلس ایڈورڈ بُو اِن، پیٹرایوری، جان ہیتھ سٹبز وغیرہ کے انگریزی ترجموں کا جہاں ذکر کیا ہے وہیں اردو ترجموں کے حوالے سے انھوں نے راجہ مکھن لال، قزلباش دہلوی، سید یعقوب الحسن واقف مراد آبادی، خواجہ محمد امیر صبا اکبرآبادی، عبدالحمید عدم، غلام دستگیر شہاب، عصمت جاوید، عادل اسیر دہلوی، محشر نقوی کے علاوہ میراجی کے ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ :
”میراجی اپنے کچھ مسودے اخترالایمان کے پاس چھوڑ گئے تھے جن میں سے ایک خیام کی رباعیوں کے ترجمے کا تھا۔ اس مسودے کے لیے میراجی نے فٹز جرالڈ کے ترجموں کے پیپر کتاب کا استعمال کیا تھا جس کے ایک صفحے پر انگریزی ترجمہ تھا اور سامنے والے صفحے پر اوپر کی طرف خیام کی فارسی رباعی اور پرچے پر میراجی نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر چپکائی ہوئی تھی اور نیچے اپنا ترجمہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا۔ یہ مسودہ اخترالایمان سے مغنی تبسم لے گئے تھے اب خدا جانے یہ اصل مسودہ کہاں ہے؟ مگر میں نے اخترالایمان کی اجازت سے اس کا ایک عکس اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا— اپنے دستور کے مطابق میرا جی نے اپنی تحریر کے ہر صفحے کی پیشانی پر سنسکرت میں اوم لکھ دیا ہے۔ میراجی کے خیام کی بتیس رباعیوں کے ترجمے کتابی شکل میں ’خیمے کے آس پاس‘ کے عنوان سے فٹز جرالڈ کے ترجموں اور جیلانی کامران (1926-2003) کے تعارف کے ساتھ 1964 میں شائع ہوئے۔ یہی ترجمے جمیل جالبی (1929-2019) کے مرتب کردہ کلیاتِ میرا جی میں بھی شامل ہےں۔ میراجی نے اپنے ترجمے فٹز جیرالڈ کے ترجموں سے کےے ہیں جیسا کہ ’خیمے کے آس پاس‘ میں ان کے خود نوشتہ مختصر دیباچے سے ظاہر ہے۔“
 خیمہ اس لیے کہ خیام کاکلام ہے نیز خیمے سے زندگی کے قافلے کے اس چل چلاو

¿ کا تلازمہ

¿ خیال بھی ہے جو عمر خیام کی شاعرانہ ذہانت کی نمایاں خصوصیت ہے اور آس پاس ترجمے کی رعایت ہے۔ “29

بیدار بخت لکھتے ہیں کہ:
”میرے پاس جس قلمی مسودے کا عکس ہے اس میں 46 رباعیوں کے ترجمے ہیں جن میں صرف 17 ترجمے ’خیمے کے آس پاس‘ میں شامل ہیں۔ اس حساب سے میرا جی کے 29 ترجمے ایسے ہیں جو ابھی تک کہیں شائع نہیں ہوئے۔“ 30
 میراجی نے عمر خیام کی رباعیات کاترجمہ ’خیمے کے آس پاس ‘کے عنوان سے کیا جو 1964مےں کتابی صورت مےں شائع ہوا۔ انھوں نے فٹزجرالڈ کے انگریزی ترجمے کو بنیاد بنا کر 32رباعیوں کا ترجمہ قطعے کی ہیئت میں کیا ہے اور اس ترجمے کی خوبی یا خرابی کہیے کہ بقول شافع قدوائی”اس ترجمے میں ہندوستانی ثقافت کی آمیزش ہے“۔31
اس مےں اردو فارسی کے بجائے ہندی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے خیام کی شاعری کی اصل روح سے آشنائی نہیں ہو پاتی۔ خیام کے مزاج سے ان کا ترجمہ ہم آہنگ نہیں ہو پاتا۔ کچھ ایسی ہی بات بیدار بخت نے بھی کہی ہے کہ:
”میراجی نے خیام کی رباعیوں کو چولی لہنگا پہنا کر ہندوستان میں لاکھڑا کردیا ہے۔“
ترجمے کے نمونے ملاحظہ فرمائیں 
بھور کابھوت جو بھاگا میرے کان بجے یوں بھور بھئے
میں تو جانوں مئے خانے میں کوئی پکارا‘ رام ہرے!
جگمگ جگمگ مندر اپنے من کے اندرہے تیار
باہر بیٹھا جھومے پجاری‘ اس مورکھ سے کون کہے
¡
داتاکے ہر کارے تھے وہ آگ میں جن کو لوگ جلائیں
سادھ اور گیانی سوچ سوچ کر جو بھی ہم کو بات بتائیں
نیند سے اٹھ کر کہی کہانی ‘ ساتھی ان کے سنیں سنائیں
کہہ کر اپنی اپنی بانی سب کے سب پھر سو جائیں
¡
سچ اور جھوٹ میں مان لے منوا بال برابر ہیرا پھیری
ایک بول میں چھپا خزانا جان سکی کب بِدیا تیری!
تو اپنی سی جوکھوں کرلے پہنچ پائے تو اسی کھوج میں
اسی بول سے ہوجائیں گے ناتھ کے درشن سانجھ سویری32
میرا جی کے اس ترجمے کی خرابی یہ ہے کہ انھوں نے خیام کے اصل متن کے بجائے ایک متبادل متنی اظہار کو ترجمے کی اساس بنایا جس نے خود ہی بہت سے مقامات پر حسبِ ضرورت تحریف اور تصرف سے کام لیا ہے۔ اس کے برعکس جن مترجمین نے خیام کے فارسی متن کو پیشِ نظر رکھا ہے ان کے ترجموں میں ادائے خیال کے ساتھ ساتھ لطفِ سخن بھی ہے۔مثلاً عمر خیام کی یہ رباعی دیکھےے 

گر بادہ خوری تو باخرد منداںخور
یا باصنمے لالہ رخ و خنداں خور
 بسیار مخور درد مکن فاش مساز
اندک خوردگہہ گہہ پنہا ںخور
اس کے بہت ترجمے کیے گئے ہیں مگر سید عبد الحمید عدم نے بہت ہی خوبصورت ترجمہ کیا ہے 
پھولوں کے ساتھ ناچ ستاروں کے ساتھ پی
یا سادگی پسند نگاروں کے ساتھ پی
افزوں نہ پی خراب نہ ہو ہوش مت گوا
تھم تھم کے چھپ چھپ کے سہاروں کے ساتھ پی
میرا جی کے ترجمے میں وہ جمالیاتی حظ نہیں ہے جو دوسرے ترجموں میں ملتا ہے۔بہر حال عمر خیام سے میرا جی کی ذہنی وابستگی ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے خیام کا انتخاب کیا۔
 مےراجی نے مشرق و مغرب سے ہر اس شاعر کا انتخاب کیا جو ان کے ذہن اور مزاج سے میل کھاتا تھا۔شاید انھیں مشرق ومغرب کے شاعروں میں اپنے جیسے ذہن اور مزاج کی جستجو تھی اور اسی جستجو کے سفر میں ان کی ذہنی ملاقاتیں ایسے شاعروں سے ہوئیں جن سے ان کی زندگی اور ذہن کی مناسبت اور مماثلت رہی ہے۔ میرا جی ان شاعروں کی زندگی اور تخلیق میں اپنے جذبے اورخیال کا عکس تلاش کرتے تھے۔میرا جی نے اپنے 37برس 5مہینے9دن کی مختصر سی زندگی میں23مختلف زبانوں کے شعرا کی تقرےباًڈھائی سونظموں کے نثری معریٰ اور آزاد ترجمے کیے اور ان ترجموں میں اپنی تخلیقی ہنر مندی اور لسانی و ترسیلی مہارت کا بھی ثبوت دیا۔ انھوں نے بیشتر ترجموں میں اپنی لفظیات اور تلازمات کے ذریعے تصورِ ہندوستانیت اور آرےائی روح اور مزاج کو زندہ رکھااور اردو کے مخصوص تہذیبی لسانی مزاج سے مغرب کے شعری افکار کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ترجمے میں آزادہ روی سے کام لیا۔اجنبی تشبیہات، استعارات اور علامات کو مانوس رنگ عطا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مرکزی خیال اور مفہوم کو باقی رکھا مگر لفظیات،استعارات کو تبدیل کر دیا،کہیں کہیں اسمائے معرفہ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ شاعری کے ترجمے میں بہت ساری دشواریاں حائل ہوتی ہیںاور کبھی کبھی ترجمے کی وجہ سے تخلیق کا جمالیاتی حسن بھی مجروح ہوتا ہے۔ تخلیق کی اصل کیفیت بھی قائم نہیں رہ پاتی اس کے باوجود میرا جی کے تراجم کی اہمیت اور معنویت کو تسلیم کرنا پڑے کا کہ انھوں نے آزاد ترجمے میں بھی تخلیقیت کے جوہر دکھلائے ہیں اور نفسِ خیال کو کہیں بھی مرنے نہیں دیا۔ اظہار مطالب اور ادائے خیال کے لحاظ سے ان کے ترجمے کامیاب کہے جا سکتے ہیں۔
میرا جی کے ترجمے کی سب سے بڑی خوبی لسانی امتزاجیت ہے۔ ہندی اور اردو الفاظ کی آمیزش کا ایک خوب صورت تجربہ جو ہندی اور اردو کے لسانی تنازع کے عہد میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اسی زبان میں ترجمہ کیا جسے ہندوستانی کہاجا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے اس تنازعے کا سد باب کر دیا جو اردو اور ہندی کے نام پر جاری ہے۔ میرا جی نے خود ”کٹنی متم “کے اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ ”اسے اس زبان میں ترجمہ کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد کل ہند زبان کے تنازعے کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔“ 33
میرا جی کا یہ بیان آج کے عہد کے لیے ایک میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اسی روش کو اختیار کیا جائے توشاید ہندی اردو تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے کیونکہ ہندی اور اردو دونوں ایک دوسرے کو خوب صورت اور سندر بناتی ہیں اور میراجی کے ترجمے کی خوبصورتی کا راز بھی یہی ہے۔ ان کے ترجمے کی ایک اور خو بی تہذیبی مقامیت بھی ہے، جسے شافع قدوائی Cultural Domesticationکہتے ہیں۔ مگر حد سے زیادہ مقامیت پر اصرار اور اس کا اظہار غلط ہے۔ اس لیے شافع قدوائی کا یہ خیال اور سوال بہت اہم ہے کہ” روانی اور سلاست وغیرہ اچھی خوبیاں ہیں مگر ترجمہ پڑھ کر یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ ہم کسی غیر زبان کا فن پارہ جواس کی مخصوص ثقافت اور نظریۂ حیات کا زائےدہ ہے پڑھ رہے ہیں۔“34
فرانسا ولاں عظیم فرانسیسی شاعر کا یہ ترجمہ دیکھیے اور محسوس کیجیے کہ میراجی نے کس درجہ تصرف سے کام لیا ہے۔ سارے کردار اور اسما ہی بدل دیے۔آخر ایک فرانسیسی شاعر کو رادھا، کنہیا، میرا اور میواڑ سے کیا سروکار ہوسکتا ہے 
کہاں ہیں کنہیا کی سب اب گوپیاں؟
برندا کے بن کی ہری ڈالیاں؟
ہواؤں سے ہل ہل کے ہیں نوحہ خواں!
یہی کررہی ہیں وہ ہر دم فغاں،
کہاں وہ زمانے، کہاں اب وہ دور!
ہے بن کا سماں اور اب رنگ اور!
کہاں ہے مراری کی رادھا کہاں؟
کہاں ہے وہ جنگل کی شاما، کہاں؟
کہاں رام چندر کی سیتا، کہاں؟
وہ میواڑ بستی کی میرا کہاں؟
وہ جلوے نگاہوں سے اب کھوگئے!
کہیں دور جاکر سبھی سوگئے!
کہاں ہیں وہ اِندر کی پریاں کہاں؟
کہ جن سے بنا راگ سارا جہاں؟
جوانی سے ان کی جہاں تھا جواں؟
جوانی گئی، اب، جوانی کہاں؟
ہیں تاریکیاں ذہن پر چھا گئی!
اُداسی سے ہے روح گھبرا گئی!
کہاں ہے وہ اوما؟ کہاں ہے ستی؟
کہاں بھگوتی اور پاروتی...؟
کہاں ہے بہادر کی روپامتی؟
ہوئی عشق کی آگ میں جو ستی!
نہیں، آہ دنیا میں اب رانیاں!
یہ دنیا ہے رہنے کی بستی کہاں؟
سوئمبر کی سنجوگتا ہے کہاں؟
بتائے کوئی آج اس کا نشاں؟
برندا کے بن میں جو تھیں نغمہ خواں،
کہاں ہیں کنھیا کی سب گوپیاں؟
ہوا عشق کا نام، بیتی سی بات!
عدم ہوگئی زندگی کی وہ رات!
پرانا عروجِ شہانہ گیا،
جوانی کا رنگیں فسانہ گیا،
وہ اندازِ روز و شبانہ گیا!
زمانہ گیا، وہ زمانہ گیا!
گیا حسن خوبانِ دل خواہ کا!
ہمیشہ رہے نام اللہ کا...!35
نظموں کے ترجمے میں آزادی اورتصرف سے سبھی نے کام لیا ہے اور شاید یہ مجبوری بھی ہے کیونکہ بقول جوش ملیح آبادی شاعری ایک ایسا جادو ہے جس کا ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ شاعری آبگینہ ہے اور ترجمہ گہن، شاعری شیشہ ہے اور ترجمہ پتھر اور کچھ ایسی ہی رائے ممتاز ناقد قمر جمیل کی بھی ہے:
”مشہور ہے کہ شاعری کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ جب شاعری کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو جو چیز ترجمے میں رہ جاتی ہے وہ خود شاعری ہوتی ہے۔ “ رابرٹ فراسٹ کا خیال ہے کہ ”شاعری وہی تو چیز ہے جو ترجمے میں رہ جاتی ہے۔ شیلے خود اچھا مترجم تھا مگر کہتا تھا کہ اصل متن اور ترجمے میں مطابقت ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ شاعری دراصل الفاظ میں نہیں بلکہ الفاظ کے تلازمات میں ہوتی ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اصل زبان کے الفاظ نہیں آتے اس لیے شاعری ان الفاظ کے ساتھ اصل زبان میں رہ جاتی ہے۔ شاعری میں اس زبان اور کلچر کی روح ہوتی ہے جس زبان میں شاعری کی جاتی ہے اس کا دوسری زبان میں ترجمہ اس لیے ناممکن ہوتا ہے کہ اس کا تعلق دوسرے کلچر سے ہوتا ہے۔“36
یہی وجہ ہے جو انگریزی سے کامیاب ترجمے کیے گئے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں تصرف سے کام لیاگیا ہے۔ نظم طبا طبائی کی’ گورغریباںکو شہکار سمجھاجاتا ہے مگر اس میں بھی کہیں نہ کہیں آزادہ روی سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے آزادہ روی اور تصرف ترجمہ نگاروں کی ایک مجبوری ہے۔ میرا جی نے اپنے ترجموں میں مجموعی تاثر اور مرکزی خیال کو قائم رکھا ہے اور یقیناً یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
ترجمے کے حوالے سے میرا جی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کینن کو توڑا ہے جو انگریزوں نے مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا ترجمہ بنیادی طور پر میکانکی نہیں تخلیقی ہے۔ جسے مکرر تخلیق کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر رشید امجد کا بھی یہی خیال ہے کہ ”میراجی کے تراجم زبان کی سلاست وروانی اور مفہوم وفضائے ابلاغ کی وجہ سے ترجمے محسوس نہیں ہوتے۔یوں لگتاہے جیسے انھوں نے اصل خیال کو مکرر تخلیق کیاہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ترجمہ اردو زبان کا نہ صرف ایک حصہ بن جائے بلکہ اس کے سماجی اور ثقافتی رویوں میں بھی اس طرح ڈھل جائے کہ اس میں کسی طرح کی اجنبی بو باس باقی نہ رہے۔“37
فیض احمد فیض کی رائے ہے کہ:
”میراجی کے ترجمے ایک گراں قدر تخلیقی کارنامہ ہیں۔ میراجی نے جس انداز سے ادب عالم کے حسین نمونے ہم تک پہنچائے وہ محض ترجمہ نہیں ایجاد ہے۔“38
میرا جی اپنے تراجم میں انتخاب،ابلاغ اور ترسیل تینوں مرحلوں سے بخوبی گزرے ہیں، انتخاب میں جہاں اپنی ذہنی مناسبت کا ثبوت دیا ہے وہیں ابلاغ میں تفہیمی و ادراکی ذکاوت اور ترسیل میں لسانی مہارت کا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے میراجی کے ترجموں کے حوالے سے بہت معتدل رائے دی ہے کہ :
”میراجی کے تراجم کی سب سے دلآویزخصوصیت یہ ہے کہ وہ موضوع کے اعتبار سے اپنی زبان بدل لیتے ہیں اگر چہ اسلوبِ بیان نہیں بدلتے۔ آپ ان کے دو مختلف پاروں میں بالکل مختلف المزاج الفاظ پائیں گے لیکن جس انداز سے وہ بیان کے رشتے میں پروتے ہیں ایک شدید انفرادی کیفیت رکھتا ہے اور آپ ہزار مختلف پاروں میں بھی ان کے پارۂ فن کو علاحدہ کرسکتے ہیں۔“ 39
تخلیق کے حوالے سے مےرا جی کو یاد کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن ترجمے کے حوالے سے انھےںضرور یاد کیا جائے گا کہ انھوں نے ترجموں کی صورت مےںوہ عالمی دریچہ کھول دیا ہے جس سے تازہ ہوائیں آتی ہیں جو ذہن اور احساس کو منور اور معطر کر جاتی ہیں۔ اور شاید یہی کھلی ہوئی کھڑ کیاں ان غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کا سد باب کرسکتی ہیں جو ایک دوسرے کی تہذیب اور معاشرت سے عدم واقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور مذہبی وتہذیبی مجادلہ کو مکالمہ میں بدل سکتی ہیں اور ترجمے کے ذریعے ہی بقول ناصر عباس نیر” مشترکہ انسانی تہذیب کا خواب پورا کیا جاسکتاہے۔“40
حواشی اور حوالے
1          ترجمے کی وجہ سے ہی ہمارے علمی اور تہذیبی سرمایہ میں اضافہ ہوا۔ پہلے ترجمے ثقافتی اور علمی تبادلے کے لیے ہوا کرتے تھے مگر اب ترجمہ دنیا کی ضرورت ہے۔ عالمی تجارت کا سارا انحصار ترجمے پر ہے۔ اس لیے اب ترجمے کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور اس کے تعلق سے نئے نئے مطالعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ترجمہ کے نظری اور عملی مباحث کے تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے: مرزا حامد بیگ کی کتابیں، مغرب سے نثری تراجم (مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد)، کتابیاتِ تراجم، ترجمے کا فن۔قمر رئیس، ترجمہ کا فن اور روایت (تاج پبلشنگ ہاؤس، جامع مسجد دہلی 1976)، خلیق انجم، فن ترجمہ نگاری (انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی 1996)، پروفیسر ظہورالدین فن ترجمہ نگاری (سیمانت پرکاشن دریاگنج نئی دہلی 2006)، فہیم الدین احمد، علم ترجمہ نظری اور عملی مباحث (اردو ٹرانسلیشن اکیڈمی حیدرآباد 2017)
2          محمد داراشکوہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کا بڑا بیٹا جس کی ولادت 20 مارچ 1615کو اجمیر شہر کے قریب ساگر تال جھیل میں ہوئی۔ یہ باغِ شاہی کا پہلا پھول تھا جو بہت منتوں کے بعد پیدا ہواتھا۔ داراشکوہ صاحب سیف و قلم تھا مگر تصوف سے زیادہ لگاؤ تھا۔ سکینة الاولیا، سفینة الاولیا، حسنات العارفین، رسالہ حق نما، مجمع البحرین ان کی اہم تصانیف ہیں۔ داراشکوہ کا سب سے بڑا کارنامہ ہندو مسلم اعتقادات، تصورات، روحانی روایات اور تصوف اور ویدانت میں ہم آہنگی کی جستجو ہے۔ مجمع البحرین اسی نوع کی کتاب ہے۔ داراشکوہ نے ہی سب سے پہلے 52 اپنشدوں کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں کرایا جو سرِّ اکبر یا سرِّ الاسرار کے نام سے شائع ہوا اور اسی فارسی ترجمے کی بنیاد پر دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ اپنشد کو مغربی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا دارشکوہ کے سر ہے۔ داراشکوہ کی بیشتر کتابوں کے ترجمے اردو میں ہوچکے ہیں۔ ’سفینة الاولیا‘ شہزادہ محمد داراشکوہ قادری کی ایک بہت اہم کتاب ہے جس میں انھوں نے حضور، خلفائے راشدین، ائمہ کرام، ازواج مطہرات اور نیک خواتین اور اولیائے کرام کے جامع حالات درج کیے ہیں۔ اس فارسی کتاب کا ترجمہ محمد علی لطفی نے کیا تھا جو نفیس اکادمی کراچی سے شائع ہوچکا ہے جس کے بہت سے ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں۔ ’سکینة الاولیا‘ داراشکوہ کے پیر حضرت میاں میر اور ان کے خلفا کے احوال پر مشتمل ہے۔ اس کا ترجمہ پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی نے کیا ہے جو ناز پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا۔ رسالہ ’حق نما‘ بھی ایک اہم کتاب ہے جس کا ترجمہ عادل اسیر دہلوی نے کیا اور یہ کتاب ملک بک ڈپو دہلی سے 2013 میں شائع ہوئی۔ ان کی اہم کتاب ’مجمع البحرین‘ ہے جو سنسکرت میں ’سمدر سنگم‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ روما چودھری نے کیا تھا۔ ہندی میں اچاریہ بابو لال شاستری اور جگن ناتھ پاٹھک نے کیا۔ اردو میں ’مجمع البحرین‘ کا ترجمہ 1872 میں ’نورعین‘ کے عنوان سے گوکل پرساد رسا نے کیا تھا۔ یہ ترجمہ لکھنؤ میں چھپا۔ پروفیسر ایم محفوظ الحق جنھوں نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا ہے انھوں نے بھی اس کے اردو ترجمے کا ذکر یوں کیا ہے:
            An Urdu Translation of Majma-ul-Bahrain' entitled Nur-i-Ain by one Gocul Prasad was Lithographes at Lucknow (1872) but unfortunatily i could not secure a copy of that اور Amalendu De جنرل سکریٹری ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ نے بھی اس اردو ترجمے کا ذکر کیا ہے۔ عادل اسیر دہلوی نے اس ترجمے کے علاوہ اردو میں سجاد علی میکش تھانوی، یونس شاہ گیلانی، محمد عمر اور تنویر احمد علوی کے ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ حال میں ’مجمع البحرین‘ کا ترجمہ پروفیسر طلحہ رضوی برق نے کیا ہے جو قومی اردو کونسل سے شائع ہوا ہے۔ داراشکوہ شاعر بھی تھا اس لیے ان کی رباعیات کا ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس کے مترجم عادل اسیر دہلوی ہیں اور یہ کتاب ملک بک ڈپو دہلی سے 2011میں شائع ہوئی ہے۔ محمد دارا شکوہ کی شخصیت کے حوالے سے انگریزی اور دیگر زبانوں میں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: پروفیسر شکیل الرحمن، محمد داراشکوہ (نرالی دنیا پبلی کیشنز، نئی دہلی 2012)، محمد سلیم، داراشکوہ: احوال و افکار (مکتبہ کارواں لاہور)، محمود علی: داراشکوہ (شفیق میموریل اسکول، دہلی 1999) داراشکوہ کی شخصیت پر قاضی عبدالستار کا ایک ناول داراشکوہ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
3          تفصیل کے لیے دیکھیے: اورنگ زیب اعظمی، عہد عباسی میں ترجمہ نگاری: تاریخ و تحقیق (مرکزی پبلی کیشنز، نئی دہلی 2019)،عربی سے ترجمہ، نایاب حسن قاسمی۔
4          ابوالعلا معری عباسی دور کا معرو ف شاعر و فلسفی تھا۔ دیوان سقط الزند، لزوم ما لا یلزم، رسالة الغفران ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ بچپن میں چیچک کی وجہ سے ان کی آنکھ جاتی رہی۔ معری اپنے نظریات و تصورات کی وجہ سے معتوب بھی رہے۔ وہ آدم بیزار تھے۔ ابوالعلا معری کوبہت سے لوگ برہمنیت کا ہمنوا اور ہندو فلسفے کا قائل سمجھتے ہیں، ملحد و زندیق قرار دیتے ہیں، وہ بنیادی طور پر (Anti natalist)تھے اسی لیے انھوں نے دنیوی آفات سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے شادی نہیں کی تھی۔ انھیں مسور کی دال پسند تھی اور وہ سبزی خور تھے۔ پال اسمتھ نے Al-Maarri, Life and Poems کے نام سے ان کا تعارف و ترجمہ دیا ہے۔ علامہ اقبال نے ان کی سبزی خوری کے حوالے سے اشعار لکھے تھے۔ اس تعلق سے کئی تحریریں شائع ہوچکی ہیں جن میں مکاتبہ فی ترک اکل اللحوم لابی العلا المعری قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ Journal of Royal Asiatic Society, 1902 میں ایک اہم تحریر بھی شائع ہوئی ہے: D.S. Margoliouth, Abul Ala- Ma'arris correspondence on Vegetarianism۔ ابوالعلا معری پر مزید تفصیل کے لیے دیکھےے: تاریخ ادب عربی استاد احمد حسن زیات، مترجم: ڈاکٹر سید طفیل مدنی (ایوان کمپنی نخاس کہنہ، الہ آباد 1985)
5          علامہ اقبال: کلیاتِ اقبال (اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1981) ص 448-449
6          میراجی کا اصل نام محمد ثناءاللہ ثانی ڈار ہے۔ ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین محکمہ ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ شریعت کے نہایت پابند اور پنج وقتہ نمازی اور والدہ کا نام زینب بیگم عرف سردار بیگم ہے۔ 25مئی 1912 کو پیدا ہوئے۔ وہ میٹرک پاس بھی نہیں تھے مگر شعر و ادب میں ان کو امتیاز حاصل ہے۔ وہ ادبی دنیا لاہور سے بحیثیت نائب مدیر وابستہ رہے۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں خدمات انجام دیں۔ ماہنامہ ’ساقی‘ میں ادبی کالم لکھے۔ ان کی تصانیف میں میراجی کے گیت (مکتبہ اردو لاہور، 1943)، میراجی کی نظمیں (ساقی بک ڈپو دہلی 1944)، گیت ہی گیت (ساقی بک ڈپو، دہلی 1944)، پابند نظمیں (کتاب نما راولپنڈی 1968)، تین رنگ (کتاب نما راولپنڈی 1964)، مشرق و مغرب کے نغمے (اکادمی پنجاب لاہور 1958)، اس نظم میں (ساقی بک ڈپو، دہلی 1944)، نگار خانہ (مکتبہ جدید، لاہور 1950)،خیمے کے آس پاس (مکتبہ جدید لاہور، 1964) قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’کلیات میراجی‘ نے عنوان سے پورا شعری انتخاب شائع کیا ہے جو اردو مرکز لندن سے 1988 میں شائع ہوا۔ 3 نومبر 1949 کو ممبئی میں میرا جی کا انتقال ہوا۔ میری لائن قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا۔ اخترالایمان نے لکھا ہے کہ ”ان کے جنازے میں صرف پانچ آدمی تھے۔میں، مدھوسودن، مہندرناتھ، نجم نقوی اور میرے ہم زلف آنند بھوشن۔“(میراجی کے آخری لمحے، مشمولہ نقوش لاہور، نومبر 1952) ، میراجی کی شخصیت اور فن پر کئی اہم کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں رشید امجد کی میراجی شخصیت اور فن (پاکستان)، شافع قدوائی کی ’میرا جی‘ (ساہتیہ اکادمی، دہلی 2001)، ڈاکٹر جمیل جالبی کی ’میراجی ایک مطالعہ‘ (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 1991)، کمار پاشی کی ’میراجی: شخصیت اور فن‘ (ماڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی، 1991)، شمیم حنفی کی میراجی اور ان کا نگارخانہ (دلی کتاب گھر،دہلی 2013)، محمد حمید شاہد کی ’راشد، میراجی، فیض‘ (مثال پبلشرز فیصل آباد، 2014)، ناصر عباس نیر کی ’اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں، میراجی کی نظم اور نثر کے مطالعات‘(اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی) قابل ذکر ہیں۔ ان کی نثری تحریروں کا ایک انتخاب شیما مجید نے ’باقیاتِ میراجی‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔کچھ رسالوں نے بھی میراجی پر خصوصی شمارے اور گوشے شائع کیے ہیں جن میں حیدر قریشی کے ’جدید ادب‘ جرمنی کا میراجی نمبر قابل ذکر ہے۔میراجی پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ہانی السعید کی اطلاع کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور، 2003میں تقدیس زہرہ نے ’مشرق و مغرب کے نغمے: حواشی و تعلیقات‘ کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا ہے تو جی سی یونیورسٹی لاہور سے سعدیہ جاوید نے ’میرا جی کے تراجم‘ پر تحقیقی کام کیا ہے۔
7          بحوالہ سید حسن الدین احمد،انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (ولا اکادمی، حیدرآباد 1984)
8          پروفیسر شارب ردولوی لکھتے ہیں کہ گیتا کے ترجمے اور تفسیریں دنیا کی بیشتر زبانوں میں مل جاتی ہیں لیکن اردو میں اس کے ترجمے جس تعداد میں ملتے ہیں اتنے شاید کسی دوسری زبان میں نہ ہوں۔ یہ ترجمے نظم و نثر دونوں میں ہیں اور ان ترجموں کے کرنے والے ہندو مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ ’بھگوت گیتا‘ کے جن ترجموں کی اب تک نشاندہی ہوچکی ہے ان کی تعداد 29ہے جن میں 13 نثری ترجمے ہیں اور 16 منظوم ہیں۔ ان میں چار ترجمے مسلمان مترجمین کے کےے ہوئے ہیں۔ مثلاً دل کی گیتا، ترجمہ: دل محمد، بھگوت گیتا، ترجمہ: خلیفہ عبدالحکیم، شریمد بھگوت گیتا، ترجمہ: حسن الدین احمد، بھگوت گیتا یا نغمہ خداوندی، ترجمہ: محمد اجمل خان (اردو میں جین بدھ سکھ اور ہندو مذاہب کی کتابیں، مشمولہ: نندکشور وکرم، عالمی اردو ادب دہلی، دھارمک نمبر2013، ص 18) اسی طرح رامائن کے سب سے زیادہ ترجمے اردو میں ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اجے مالوی کی تحقیق کے مطابق اردو زبان میں 101 رامائن شائع ہوچکی ہے جن میں پہلی اردو رامائن شنکر دیال فرحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: اجے مالوی ’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز‘۔
9          مشرق و مغرب کے نغمے، ص 64
10       جمیل جالبی: کلیات میراجی، ص 767-68
11       ودیاپتی میتھلی اور سنسکرت کے ایک عظیم شاعر تھے۔ ان کا تعلق دربھنگہ ضلع کے تھانہ بینی پٹی کے ایک گاؤں سے تھا۔ وہ راجہ کیشور اور کرتی سنگھ کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ سنسکرت زبان میں ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں ’کیرتی لتا‘ ، ’بھوپری کرما‘، ’پرس پرتیکشا‘ مشہور ہیں۔ ان کا شاہکار ’پداولی‘ ہے جو میتھلی زبان میں ہے۔ ان کے تعلق سے منظر شہاب (جمشیدپور) نے لکھا ہے کہ ”پداولی حسن وعشق کا مرقع ہے۔ ودیاپتی نے اپنے زورِ تخیل اور ندرتِ بیان سے اس میں ایک عجیب طلسم بھر دیا ہے۔ تصویرکشی میں ان کی مثال دنیائے ادب میں بہت کم ملے گی اور تشبیہوں کے تو وہ خود باشاہ ہیں۔“ پداولی میں کرشن اور رادھا کی محبت کا بیان ہے۔ ودیاپتی کے حوالے سے ساہتیہ اکادمی کی طرف سے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت انگریزی میں راماناتھ جھا کا مونوگراف 1973 میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ منظر شہاب نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’اور پھر بیاں اپنا‘ (نرالی دنیا پبلی کیشنز دریاگنج، نئی دہلی 2000) میں ودیاپتی میتھلی ادب کا عظیم فنکار کے عنوان سے بہت وقیع مضمون تحریر کیا ہے۔
12       جمیل جالبی: کلیات میراجی، گیت، ص 791-92
13       چنڈی داس ایک بنگالی شاعر جنھوں نے رادھا کی محبت کا نغمہ لکھا۔ یہ ایسا شاعر تھا جس کا ہیومنزم پر یقین کامل تھا۔ وہ انسانیت کو سب سے بلند سمجھتے تھے۔ ان کے بارے میں بہت سے تضادات ہیں جس کی تحقیق ہنوز نہیں ہوپائی ہے۔ ساہتیہ اکادمی نے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت سوکمار سین کا مونوگراف انگریزی میں شائع کیا ہے۔
14       جمیل جالبی: کلیاتِ میرا جی، گیت ص 809-10
15       جمیل جالبی: کلیاتِ میرا جی، ص 814-15
16       مبشر احمد میر نے ’میراجی کا نگارخانہ‘ کے عنوان سے وقیع مضمون تحریر کیا ہے جو ’جدید ادب‘ جرمنی کے میراجی نمبر میں شامل ہے۔
17       شمیم حنفی: میراجی اور ان کا نگارخانہ، دہلی کتاب گھر، دہلی، 2013، ص 87-88
18       ایضاً، ص 92
19       بحوالہ رشید امجد ’میراجی شخصیت اور فن‘ ص 237
20        شمیم حنفی: میراجی اور ان کا نگارخانہ، دہلی کتاب گھر، دہلی، 2013، ص 85
21       ایضاً، ص 86
22        پروفیسر صادق، بالِ جبریل کے سرنامے کا شعر مشمولہ ’تنقیدی اور تحقیقی مضامین‘ (کتابی دنیا، ترکمان گیٹ، دہلی 2014)، ص 127
23        عمر خیام کا پورا نام غیاث الدین ابوالفتح عمرو بن ابراہیم ہے۔ وہ ملک خراسان کے مردم خیز خطہ نیشاپور میں 18مئی 1048 میں پیدا ہوئے۔ نساجی ان کا آبائی پیشہ تھا مگر والد نے خیمہ دوزی کا پیشہ اختیار کیا ۔ علم ہیئت، فلکیات، الجبرا اور اقلیدس میں اسے کمال حاصل تھا۔ خیام خراسان کے بادشاہ ملک شاہ کی اس آٹھ رکنی کمیٹی کا ایک رکن تھا جس نے ’جلالی تقویم‘ تیار کی تھی جس پر آج کی ایرانی تقویم کا انحصار ہے۔ یہ گرے گورین کلینڈر سے قریب ہے۔ عمر خیام کو خمریات کا امام سمجھا جاتا ہے اور ان کی رباعیات پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ بہت کم ایشیائی شاعر کو یورپ میں اتنی شہرت، مقبولیت اور عزت نصیب ہوئی۔خیام کی وفات 4 دسمبر 1131 عیسوی کو ہوئی۔ ان کی تصانیف میں رسالہ مکعبات، رسالہ جبر و مقابلہ، رسالہ شرح ما اشکل من مصادرات اقلیدس، زیچ ملک شاہی، رسالہ مختصر در طبیعیات، میزان الحکم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عمر خیام کے حوالے سے اردو میں کتابیں اور مقالے شائع ہوتے رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی کتاب ’خیام‘ جو دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے شائع ہوئی ہے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ مولانا عبدالباری آسی نے رباعیاتِ عمر خیام پر ایک نظر کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے جو مکتبہ دین و ادب لکھنؤ سے 1966 میں شائع ہوئی ہے۔ عشرت رحمانی نے ان پر ایک تاریخی ناول لکھا ہے اور عزیز احمد نے ایک ڈراما تحریر کیا ہے۔
24        فٹز جرالڈ کو مغرب کا عمر خیام سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنے اسی ترجمے کی وجہ سے زندہ جاوید ہے۔ محمد اسحاق نے لکھا ہے کہ ”عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ فٹز جرالڈ نے سب سے پہلے Fraser Magazine میں چھپنے کے لیے بھیجا تھا لیکن جب دو سال تک نظمیں شائع نہ ہوئیں تو فٹز جرالڈ نے انھیں واپس لے لیا اور اس مجموعے کو خود اپنے خرچ سے شائع کیا لیکن کتاب فروخت نہ ہوئی اور کتب فروش کوآرچ نے کتب خانے کے باہر ایک پیسہ والے طاق میں رکھ دیا۔ خوش قسمتی سے اسے راسیٹی نے مول لیا اور اپنے دوستوں سے بھی اس کے خریدنے کی استدعا کی اور اس طرح اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔“ تفصیل کے لیے دیکھیے: محمد اسحاق ایم اے، مترجم خیام، ایڈورڈ فٹز جرالڈ، (مطبوعہ ماہنامہ ’زمانہ‘ کانپور، جولائی دسمبر 1935)، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن۔
25        ضیاءاحمد: خیام کی مقبولیت، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن۔
26        رباعیاتِ خیام کے اس پہلے اردو مترجم کے حوالے سے قیصر سرمست لکھتے ہیں ”راجہ مکھن لال نہ صرف فارسی کے جید عالم تھے بلکہ ہندو مسلم اتحاد کا بے مثل نمونہ بھی۔ انتہائی درجے کے بے تعصب، علومِ اسلامی اور تصوف سے انھیں بے حد لگاؤ تھا، زبانِ فارسی سے انھیں بے پناہ دلچسپی تھی اور اس زبان کے حصول کے لیے انھوں نے ایک ایرانی نژاد عورت سے شادی بھی کرلی تھی۔ فارسی شعرا میں عمر خیام ان کا سب سے پسندیدہ شاعر تھا۔ “
            دیکھیے: قیصر سرمست، عمر خیام کی رباعیات کا پہلا مترجم، مشمولہ خیام شناسی، مرتبہ: اخلاق احمد آہن، (ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2017 )۔
27        رباعیاتِ خیام کے اس ترجمے کے حوالے سے ضیاءاحمد لکھتے ہیں ”رباعیاتِ خیام کا ترجمہ جو شوکت بلگرامی نے کیا ہے وہ درحقیقت اردو کا شاہکار سمجھے جانے کا مستحق ہے۔ یہ اگر کوئی مستقل چیز ہوتی تو بھی قابل قدر تھی لیکن یہ خیال کرکے اس کی وقعت اور بڑھ جاتی ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ترجمہ کہیں کہیں خیام سے ٹکر کھاتا ہے۔“ (بحوالہ خیام شناسی)سید کاظم علی شوکت بلگرامی فرزند حاجی منشی سید علی حسن بلگرامی ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ ان کے اس ترجمے کی تعریف مہاراجہ سر کشن پرشاد، نواب عمادالملک بہادر، مولوی سید حسین بلگرامی،مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی اور شمس العلماءنواب سید امداد امام صاحب نے بھی کی ہے۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر نے لکھا کہ ”میں حضرت شوکت کو ایک مدت سے جانتا اور ان کی طباعی اور معجز طرازی کو مانتا ہوں لیکن اس ترجمے سے ان کی قادرالکلامی کا جیسا ثبوت مجھے ملا ہے اس سے پہلے نہ ملا تھا۔“ نواب عمادالملک نے لکھا کہ سید کاظم علی صاحب شوکت بلگرامی نے چند رباعیاتِ عمرخیام کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور قابل قدر ترجمہ کیا ہے اور لطف یہ ہے کہ رباعی کا ترجمہ رباعی میں کیا ہے۔“ یہ ترجمہ ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ اس کے ابتدائی صفحات میں ان عمائدین کے تاثرات بھی درج ہیں۔
28        تفصیل کے لیے دیکھیے : بیدار بخت:خیام کے ترجموں پر ایک نظر، رسالہ جامعہ، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ، اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جنوری -مارچ2019
29        ایضاً، ص 80-81              30        ایضاً، ص 81
31       شافع قدوائی: میرا جی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی2001، ص 109
32        جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی، ص ص760
33        بحوالہ رشید امجد، میراجی، ص 238
34        شافع قدوائی: میراجی، ص 103
35        جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی، ص ص 912-14
36        قمر جمیل، جدید ادب کی سرحدیں (جلد دوم)، مکتبہ دریافت کراچی، 2000، ص 112
37        رشید امجد، میراجی: فن اور شخصیت، ص 241
38        جمیل جالبی: کلیاتِ میراجی (فلیپ)
39        شافع قدوائی: میراجی، ص 106

40        ناصر عباس نیر: میراجی کے تراجم، مشمولہ تناظر شمارہ نمبر 2، ناصر عباس نیر نے اس مضمون میں ترجمے کی روا یت اور میراجی کے تراجم کے حوالے سے بہت اہم نکات کا احاطہ کیا ہے۔ ان کی یہ رائے بہت اہم ہے کہ ”میراجی کے تراجم کی فضا کثیر الثقافتی پس منظر اور ہمہ دیسی زاویے سے عبارت ہے۔“

Haqqani Al-Qasmi
B-145/8, Fourth Floor, Thokar No: 8
Shaheen Bagh, Jamia Nagar, Okhla
New Delhi - 110025
Cell: 9891726444

سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں