24/2/20

جموں و کشمیر میں ہم عصر اردو ڈراما اور تھیٹر کی صورتِ حال مضمون نگار: محی الدین زور کشمیری


جموں و کشمیر میں ہم عصر اردو ڈراما اور تھیٹر کی صورتِ حال
محی الدین زور کشمیری


ریاست جموں و کشمیر میں اردو تھیٹر کی باضابطہ طور پر شروعات پارسی تھیٹر یکل کمپنیوں نے کی، جنھیں پہلے ڈوگرہ مہاراجوں نے یہاں بلایا اور پھر وہ اپنے کاروباری اغراض کے تحت خود بھی آتے رہے۔ ان کے اثر سے یہاں مقامی سطح پر بھی اردو تھیٹر قائم کیے گئے۔ ترقی پسند تحریک کے تحت یہاں IPTA بھی قائم ہوا۔ اس دوران پورے ہندوستان میں عالمی ڈراما کی مختصرتاریخ ریاست کے دو مصنّفین محمد عمر نور الٰہی نے 1924 میں ’ناٹک ساگر‘ عنوان سے لکھی۔
اکتوبر 1947 کشمیر کی تاریخ کا ایک خاص Turning Point ہے۔ اُس وقت تک یہاں اُردو ڈراما اور تھیٹر پوری طرح سے جم چکا تھا۔ ایک طرف اسٹیج ریڈیو اور کتابی  صورت میں بھی ڈرامے شائع کیے جاتے تھے اور نئے نئے موضوعات کے ساتھ ٹکنیک کو بھی بروئے کار لایا جاتا تھا۔ پروفیسر محمود ہاشمی کا ڈراما ’کشمیر یہ ہے‘ مثال کے طو ر پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے بعد پردیسی، وجے سیمن سوسن، وید راہی، پران کشور، رام کمار ابرول، نریندر کھجوریہ، بنسی نردوش، پُشکر ناتھ، علی محمد لون،سجود سیلانی وغیرہ تک بہت سارے رائٹرس ایسے آگئے، جنھوں نے ریاست میں اردو ڈراما اور تھیٹر کو جِلا بخشی۔اس طرح ریڈیو ٹی وی اسٹیج ڈراما کا کافی مواد یہاں جمع ہوا، جس پر آج ہمیں تحقیق کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔
جہاں تک ریاست جموں و کشمیر میں معاصر اردو ڈراما اور تھیٹر کا تعلق ہے، اس ضمن میں میرے سامنے بہت سارے نام ہیں جن کی ڈراما نگاری پر الگ الگ تحقیقی و تنقیدی مقالے لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں ریاست جموں و کشمیر میں معاصر اردو ڈراما نگاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
1۔          وہ سینئرلوگ جو اپنی بزرگی میں بھی لکھ رہے ہیں یا اپنا لکھا ہوا مواد آج شائع کرتے رہتے ہیں۔
2۔           ایسے لوگ جنھوں نے اکیسویں صدی میں لکھنا اور شائع ہونا شروع کیا اور آج وہ اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ لکھ رہے ہیں یا تھیٹر کر رہے ہیں۔
آج ٹیکنالوجی کے دور میں جس قدر مقابلہ آرائی ہے،ٹھیک اسی قدر ایک فنکار کو اپنا فن ظاہر کرنے کے بہت سارے وسیلے بھی موجودہیں،جنھیں وہ ہر سطح پر بروئے کار لاسکتا ہے۔ ہمارے ڈراما نگار کو یہاں دو طرح کے چیلنجز در پیش ہیں:  ایک طرف مختلف وجوہات کی بنا پر ہم اپنی ثقافت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف مختلف ٹی وی چینلز، کیبل نٹ ورک ڈش اور انٹرنیٹ ایک سے بڑھ کر ایک فرحت کا سامان ہمیں فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہمارا فنکار زندہ ہے اور وہ اپنے محاذ پر لڑ رہا ہے۔ یہاں چند ڈراما نگاروں کو متعارف کیا جائے گا۔
عالی قدر نور شاہ تقریباً پچھلے ساٹھ برسوں سے خالص اردو میں لکھ رہے ہیں اور انھوں نے یہاں فکشن کے میدان کو خوب سنوارا اور سجایا۔ ساتھ ہی انھوں نے ریڈیو،ٹی وی اور تھیٹر کے لیے درجنوں ڈرامے بھی لکھے، جن میں کچھ شائع بھی ہوئے۔ ’سفر زندگی کا‘ ان کا ایک اہم ڈراما ہے، جس میں کشمیر کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہمارے روایتی  بھائی چارے کو فروغ دینے کی اچھی کوشش کی گئی۔وہ اپنے افسانوں کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی کشمیر کے موجودہ حالات کو کسی نہ کسی طرح چھیڑتے ہیں اور ہمیشہ نئی صبح کی تلاش میں نکلتے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔ ان کے ڈراموں کو معمولی ترمیم و اضافے کے بعد ہم کسی بھی میڈیا کے ذریعے پیش کرسکتے ہیں۔ ان کے ڈراموں کو ان کی کتاب ’کشمیر کی کہانی‘ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
وریندر پٹواری (1940) انجینئری پیشے سے تعلق رکھنے کے باوجودبھی ادب کے دیوانے ہیں اور انھوں نے بقول دیپک بدکی 13 ریڈیو ڈرامے، چھے اسٹیج ڈرامے، سات ٹیلی ویژن ڈرامے، چار ٹیلی فلمیں، چار ٹیلی سیریل اور کچھ ڈاکومینٹریز لکھیں۔ان کے مجموعے ’آخری دن‘ کے  ڈراموں کو معمولی ترمیم کے بعد ٹی وی ریڈیو کے ساتھ ساتھ اسٹیج بھی کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنا ڈراما ’گھر‘ ایپک تھیٹر کی تکنیک پر لکھا۔ اسی طرح ڈراما  ’آخری دن‘ علامتی طور پر لکھا گیا، جس میں ملکی اور بین الاقوامی حالات کو موضوع بنایا گیا۔پٹواری کے ڈراموں میں کہیں نہ کہیں ایبسرڈڈارمے کے عناصر ہمیں ملتے ہیں، جہاں زندگی کو بالکل عریاں دکھایا گیا۔  مثلاً ڈراما ’انسان‘ کا یہ مکالمہ دیکھیں:
تحصیلدار:               انسان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، خصلت نہیں بدلتی۔ یہ شخص جن کا Compensation مانگ رہا ہے، ان میں اس کی مقتولہ بیوی کے باپ کا نام بھی ہے۔
سنجے: واہ! بیوی کا انشورنس نہیں مل سکا، تو سسُر کی لاش کی قیمت ہی سہی۔
 جیلر: سوامی تم کیسے انسان ہو؟
پروفیسر ظہور الدین (1944) نے اپنی متعدد کتابوں کے ساتھ ساتھ ڈراما شناسی کے حوالے سے دو یادگار کتابیں اور کچھ مضامین رقم کیے۔علاوہ ازیں ان کے کچھ ڈرامے بھی شائع ہوئے۔ وہ دوسروں سے کچھ ہٹ کر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے ڈراموں میں موت کا جزیرہ،  لندن، عبرت خیز  ہے۔ تیرا افسانہ، بریف کیس، نئی دنیا  ہماری نظروں سے گزرے۔وہ اپنے ڈراموں میں دیو مالائی اور اسا طیری عناصر کو بھی پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی سائنس فکشن کے موضوع کو بھی چھیڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کا ڈراما ادب پارہ تو ضرور بنتا ہے، مگر تھیٹر یا ٹی وی کی دنیا سے وابستہ تماش بین کو وہ محظوظ نہیں کرسکتے ہیں۔ ڈارما’موت کا جزیرہ‘ کے مکالمے اس قدر طویل ہیں کہ موصوف کے تخلیق کردہ کردار انشائیہ سُناتے ہیں۔ جن کے لیے ہمیں صفحہ قرطاس ہی چاہیے نہ کہ یہ مکالمے ایکٹروں کی زبان سے کہلوائے جاسکتے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر میں شیام سندر آنند لہر ایک ادبی تحریک سے کچھ کم نہیں ہیں۔انھوں نے فکشن اور ڈراما نگاری میں ان مٹ نقوش چھوڑ دیے ہیں۔’نروان‘ کے بعد ان کا ایک اہم ڈراما’تپسوی کون‘ کے عنوان سے ہے۔ سماجی موضوع پر یہ ایک فُل لینگتھ پُلے ہے۔ یہ ڈراما غلط طریقے سے دولت حاصل کرنے اور سماج میں اعلا رتبہ پانے کے بارے میں ایک چونکا دینے والی اسٹوری بیان کرتا ہے۔ لہر نے امن، دوستی اور یکجہتی کے موضوع پر ’سرحد کے پیچھے‘ عنوان کا ایک ڈراما لکھا۔
 ڈاکٹر عزیز حاجنی کشمیری زبان و ادب کے لیے تیز دھاروں والی مہم چلا رہے ہیں۔کشمیری میں لکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو میں بھی ’وتستا کی سیر‘ کے عنوان سے اپنے ٹی وی سیریل کو کتابی صورت میں شائع کیا، جس میں کشمیری تہذیب کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کیا گیا۔
بلراج بخشی صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تخلیق کار بھی ہیں۔ وہ عام سماجی موضوعات پر بے باک طریقے سے ڈرامے بھی لکھتے ہیں اور ہمارے سیاسی نظام اور انتظامیہ پر باز کی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا ڈراما ’قانون شکن‘ نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جس میں انھوں نے ایک ڈرامے کے پلاٹ میں طرح طرح کے موضوعات کو گلدستے کی طرح سجایا ہے۔
محمد امین بٹ نے ڈراما ’روح کی آہٹ‘ میں بین المتونیت کی تکنیک پر عربی روایت کو عصر حاضر کے ایک اہم مسئلے کے ساتھ اس طرح مکس کیا کہ یہاں آکر بات یکدم صد فیصد ہمارے دل و دماغ میں اُتر جاتی ہے۔آج بیٹیوں کو جنم دینے سے پہلے ہی مارا جاتا ہے، جب کہ عرب والے انھیں جنم لینے کے بعد دفناتے تھے۔ میرا مطلب ہے کہFOETUS کی جانچ آج کل ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ بقول بٹ صاحب کے:
بچہ:        غلط فہمی تھی ان کی.......... مشینوں پر ایمان لائے ہیں............. یہ فیصلے تو کہیں اور ہوتے ہیں مما...........انسان کی بنائی ہوئی مشینوں میں نہیں............“
واقعی ہمارے ہاتھوں قتل ہوئے ان بے قصور روحوں کی آہٹ یہ ڈراما پڑھنے کے بعد ہمیں سُنائی دیتی ہیں۔ بٹ صاحب نے سحر ہونے تک، کرن کرن اُجالا، نئی صبح،تلاش وغیرہ جیسے ڈرامے بھی لکھے۔
اس وقت وادی کشمیر کا ایک اہم اردو ڈراما نگار اشرف عادل مانا جاسکتا ہے۔ ان کے ڈرامے باضابطہ طور پر نشر ہوتے رہتے ہیں۔ وہ کتابی صورت میں بھی  شائع ہوئے۔ ان کی خوبی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ عام موضوعات سے ہٹ کر لکھتے ہیں۔ وہ عالمی سطح کے مسائل اپنے ڈراموں میں اٹھاتے ہیں۔ جیسے بھوک، عالمی امن (ڈراما نفرت کی لکیر) ایڈس وغیرہ۔ ساتھ ہی وہ خالص تاریخی اور ادبی موضوعات کو بھی چھیڑتے ہیں۔ حضرت محل، حکم حاکم اور تمثیل داغ اس ضمن میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس طرح اپنے ڈراما کے مجموعے’چاند کا ہم شکل‘ میں وہ موضوع اور ٹکنیک کے حوالے سے بالکل نئے تجربے کرتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ ڈرامے ہر میڈیا کے لیے موزوں ہیں، البتہ ان میں گلیمر کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں منوج شیری بھی افسانوں کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹی وی اور اسٹیج کے لیے لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ڈراموں کا ایک مجموعہ”بکھرے بچھڑے“ کے عنوان سے 2016 میں منظر عام پر آیا۔ منوج شیری اپنے ڈراموں کے موضوعات کشمیر کی خوبصورتی اور یہاں کے روایتی  بھائی چارے سے لیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اساطیری اور دیو مالائی کرداروں کو بھی آج کے دور میں زندہ کرتے ہیں۔ اسٹیج کرافٹ کا ہر حال میں وہ لحاظ رکھتے ہیں۔ ان کے ڈرامے ہمارے سماج اور کلچر کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ کہیں وہ نفسیاتی طور پر ہماری ذہنی اُلجھنوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں۔ 
ڈاکٹر محمد مجید نے مشہور ڈراما نقاد اخلاق اثر پر Ph.D کیا اور وہ ڈراما شناسی کے ساتھ ساتھ خود بھی ڈرامے لکھتے ہیں۔ ’ادھورے خواب‘ ان کا ایک مکمل ریڈیو ڈراما ہے، جس کو انھوں نے 2009 میں کتابی صورت میں شائع بھی کیا۔ ریڈیو ڈراما کی تکنیک کے پیش نظر یہاں انھوں نے مختلف اصوات اور موسیقی کا خاص خیال رکھا ہے۔
ولی محمد خوشباش نے اپنے ٹی وی ڈرامے ’رشتہ‘ میں پہلے تجسس قائم کیا ہے، اس کے بعد اس کا انجام ایسے پیش کیا کہ ہم ضرور اس سے چونک جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ انسانی رشتوں کی بات اس طریقے سے کرتے ہیں کہ واقعی ہمارے اندر کا سویا ہوا انسان بیدار ہونے لگتا ہے۔
شوکت شہری (منٹو کا فارمولا) کی خوبی یہ ہے کہ وہ عصری موضوعات کو چھیڑتے ہیں اور کرداروں کو اپنی ہی زبان بخشتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اسٹیج کاری کے لوازمات کا پورا پورا خیال اپنے اسٹیج ڈراموں میں رکھتے ہیں۔ راجہ یوسف ٹی وی ڈراموں (پرایا آنگن) میں کشمیر کے روایتی گھریلو مسائل کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ جہاں ہماری بہو بیٹیوں اور بزرگوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
شوکت نسیم کے ڈرامے(سچ کی جیت) کا اندازبھی روایتی ہے، جہاں امیری غریبی کے بیچ میں تصادم ہوتا ہے۔ گاؤں کا لالہ یا ٹھاکر ان کی بیٹی، غریب کا بیٹا پڑھائی کرکے گاؤں کا نظام بدلتا ہے۔ وغیرہ۔یہاں فلمی انداز اپنایا گیا۔ البتہ اس ڈرامے میں نیا پن یہ ہے کہ اب کشمیری سماج کی عورت دبی ہوئی نہیں، بلکہ وہ ظلم کے سامنے چلینج بھی کرسکتی ہے۔
عارض ارشاد نے اپنے ریڈیائی ڈرامے ’آخری ثبوت‘ میں سائبر کرائم کے مسئلے کو اُجاگر کیا ہے۔ جو کہ آج پورے عالم کا  ایک خطرناک مسئلہ ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں اور بھی ایسے بہت سارے قلم کار ہیں،جو یا تو فکشن کے میدان میں طبع آزمائی کرتے ہیں یا اکثر وہ لوگ مقامی زبانوں میں ڈرامے لکھتے ہیں۔ مگر اپنے مُنہ کا مزہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار وہ اردو ڈراما بھی لکھتے ہیں۔ ان میں فی الحال مشتاق مہدی (خواب، کالے نگر) ریاض معصوم قریشی (وہ اجنبی اور کتا)، زاہد مختار (خوشبو)، نذیر جہانگیر (بہتے جسم)، غلام نبی شاہد (پچاس ہزار، خواب سراب)، مجید ارجمند (دوبہوئیں)، پرویز ملک (اونچے دروازے، وہ دروازہ کھل جائے گا) وغیرہ کا نام یہاں لیا جاسکتا ہے۔
خیر یہاں ہم نے ہم عصر کچھ ڈراما رائٹروں کا نام لیا ہے۔ مگر ڈراما ایک ایسا فن ہے،جو ایک Team work چاہتا ہے اور پھر اس کو ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی ڈراما اور تھیٹر کا وہی رشتہ ہے،جو خون اور جسم کا ہے۔ ڈراما ایک تھیٹر گروپ یا ادارے کی کوششوں سے ہی منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ تو اس ضمن میں یہاں ریاست کے کچھ اداروں اور گروپوں کا ذکر کرنا بھی  ہمارے لیے لازمی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں اُردو ڈراموں کو فروغ دینے کے سلسلے میں ریڈیو کشمیر سرینگر اور جموں کا بھی ہمیشہ خاص رول رہا ہے۔ دسمبر 1947 میں اس کی نشریات کا آغاز اس وقت اُردو کے مایہ ناز ادیب راجندر سنگھ بیدی کے ہاتھوں ہوا۔ اس کے بعد دو الگ الگ اسٹیشن قائم ہونے سے ایک سے بڑھ کر ایک ادیب ان اداروں کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں جڑ گئے۔ ان میں بیرون ریاست کے کچھ اردو ادیب بھی شامل تھے۔
مقامی ڈراما نگاروں میں وید راہی، پشکر ناتھ، قیصر قلندر، علی محمد لون، بنسی نردوش، موہن یاور، ٹھاکر پونچھی، ابرول، مہیش شرما، جتیندر شرما، سومناتھ زتشی، شبنم قیوم، ستار احمد شاہد، حامدی کاشمیری، بشیر شاہ، وجے سوری، سجود سیلانی، شوکت شہری، ہری کرشن کول، موہن لال کول، ہردے کول بھارتی، فاروق مسعودی، فاروق نازکی، اشوک جیل خانی، مکھن لال صراف، عرش صہبائی، پیارے لعل رازدان، بی پی شرما، اشرف ساحل، حسن ساہو،  عمر مجید، مسرور حسین، اشوک کاک وغیرہ کے ڈرامے وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہے۔ یہی لوگ دور درشن کیندر سرینگر اور جموں سے بھی و ابستہ رہے۔ سرینگر دور درشن کیندر سے اُردو ڈراما ٹیلی کاسٹ کرنے کی شروعات ظفر احمد نے کی۔ یہاں دُور درشن سے ہم لوگ، الف لیلیٰ، رامائن مہابھارت، جنون، فرماں جیسے بڑے اور یادگار سیریل بھی دکھائے  گئے۔ اسی طرح کئی دستاویزی فلمیں بھی دکھائی گئیں۔
جے اینڈ کے اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز 1958سے ریاست کے تینوں خطوں کی ثقافت کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے۔ اس میں حسب مقدور ڈراما کے حوالے سے بھی کام ہوا۔ 1963 سے ہر سال ٹیگور ہال سرینگر اور ابھینو تھیٹر جموں میں ڈراما فسٹول منعقد کیے جاتے ہیں، اس میں مختلف تھیٹر گروپس اُردو میں بھی ڈرامے کھیلتے ہیں۔ اس کے علاوہ تھیٹر ورک شاپس بھی کیے گئے۔ ان کے رسالے ’شیرازہ‘ اور ادبی مجلے ’ہمارا ادب‘ میں مختلف ڈرامے شائع کیے گئے۔
ہر سال مارچ کے مہینے میں عالمی تھیٹر ڈے کے موقع پر خصوصی طور پر ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ ہمارا ادب کے ہم عصر تھیٹر نمبر 2010-11 (صفحات 356) ہم عصر ڈراما نمبر2016-17 (صفحات 474) پورے اردو ادب میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
تھیٹر سرگرمیوں میں اگرچہ ہم دلی، ممبئی اور کلکتہ کے برابر تو نہیں، مگر اتنے پچھڑے بھی نہیں کہ یہاں کوئی نام لینے کے لائق نہیں ہے۔ بے شک ہم نے کوئی ابراہیم القاضی،حبیب تنویر، موہن راکیش، بادل سرکار، اُت پل دت پیدا نہیں کیا۔ مگر آغا حشر کاشمیری اصل میں کشمیری نسل سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ برصغیر میں عالمی ڈراما کی پہلی تاریخ ہم نے ہی لکھی۔ ہمارے پاس کوئی براڈوے تھیٹر یا پرتھوی تھیٹر نہیں ہے، مگر شام اودھ میں نوابوں اور مہاراجوں کی لافنگ تھرپی ہمارے ہی مسخرے کرتے تھے۔ہمارے پاس تھیٹر کے حوالے سے جو کچھ بھی ہے اُس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے اور اس وراثت کو بچانا، اس روایت کو آگے لے جانا ہمارا فرض ہے۔
بھوانی بشیر یاسر نے اپنے مضمون ’کشمیر میں تھیٹر سرگرمیاں۔ ایک جائزہ‘ (مشمولہ ہم عصر تھیٹر نمبر ہمارا ادب) میں کشمیر کے مختلف تھیٹر گروپوں کی نشاندہی ہے۔ جنھیں یہاں دہرا یا نہیں جاسکتا ہے۔ البتہ اتنا تو کہا جاسکتا ہے کہ ان تھیٹر گروپوں میں بہت سارے گروپس کبھی کبھار اردو ڈرامے بھی ریاست میں یا ریاست سے باہر کھیلتے رہتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے جو ڈراما ٹسٹ ریاست اور ریاست کے باہر اپنے ڈرامے دکھاتے ہیں، ان میں بھوانی بشیر یاسر (ایکتا) ایک ایسا فنکار ہے جس نے موتی لال کیمو کے ساتھ مل کر کشمیری بانڈھ پاتھر کو اُردو یا ہندوستانی کا جامہ پہنا کر ملک کے کونے کونے تک پہنچا دیا۔
مشتاق کاک (امیچورتھیٹر گروپ) بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس ریاست کی ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی بیٹی افراح کاک بھی شانہ بہ شانہ قدم ملا کر اپنے والد صاحب کا مشن آگے لے جاتی ہے۔
اسی طرح انڈین تھیٹر ایلائنس کے بینر تلے مشتاق علی احمد خان نے بھی چند یادگار اردو ڈرامے کھیلے۔ ان کے ڈرامے’ایک پوٹلی ارمانوں کی‘ کی پیش کش یادگار مانی جاتی ہے۔ نٹ رنگ بلونت ٹھاکر اور بوپندر سنگھ اگر اپنے ڈوگری ڈراموں کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی ڈرامے کرتے، تو اُردو ڈرامے کو ایک اور سمت مل جاتی،حالانکہ بلونت ٹھاکر نے اُردو میں بھی کچھ ایڈاپٹیشنز کیے خاص کر مولئیر کے۔
موجودہ دور میں ریاست جموں و کشمیر نے بالی ووڈ کو بھی مکیش رشی(کٹھوہ، 1956) ماسٹر ابرار (فلم فتور) مسرور (بجرنگی بھائی جان، پھینٹم) اور زائرہ وسیم خان (دنگل اور سکرٹ سپر اسٹار) حنا خان (ماڈل) جیسے اداکار دیے۔ اتنا ہی نہیں فلم چنائی ایکسپریس کی شوٹنگ کے دوران سپر اسٹار شاہ رُخ خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ پہلگام کے بچوں نے ممبئی کے بچوں سے اچھی Actingکی ہے۔ یا فلم حیدر میں وشال بھر دواج کو کشمیری تھیٹر والوں نے خوب مدد کی۔
ریاست میں ڈراما خاص کر اُردو تھیٹر کے درپیش دو بہت بڑے مسائل ہیں۔
1۔           زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح اس میں بھی Economy کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی میں کیسے ڈراما لکھوں گا۔ اس پر کتنا خرچہ آئے گا اور واپس مجھے کیاملے گا۔ یہ سوچ ہمارے رائٹر، پرڈیوسر، ڈائریکٹر، ایکٹر، ٹکنیشن اور متعلقہ ایجنسی (سرکاری یا غیر سرکاری) کی ہوتی ہے۔ ان حالات میں اچھّی کوالٹی کیسے سامنے آئے گی۔
2۔           جموں اور لداخ کو چھوڑ کر آج کل کشمیر میں ڈراما اور تھیٹر نہ پنپنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے تھیٹر کے مقاصد ابھی تک نہیں سمجھے ہیں۔ جیسے ہمارے کتنے تعلیمی اداروں میں اساتذہ مختلف فنون لطیفہ میں طلبہ کی تربیت کرپاتے ہیں۔ کیا ہم منٹو کے افسانوں کا ڈرامائی روپ یہاں پیش کرسکتے ہیں، جبکہ جموں میں ایسا ہوتا ہے۔ کیا ہم اُوما جُن جُن والالٹل تھسپئن کلکتہ(اظہر عالم) کا زبردست فمنسٹ ڈراما”رینگتی پر چھائیں“ یہاں کے عوام کے سامنے پیش کرسکتے ہیں؟ دراصل ڈراما کو زندگی یا سماج کا عکس کہا جاتا ہے۔ اگر ہمارے سماج میں درندہ صفت لوگ رہتے ہیں، تو ہم انھیں اسٹیج پر لاکر کیوں کھڑا نہیں کرسکتے ہیں، تاکہ لوگ یا تو عبرت حاصل کریں گے یا شر مسار ہوں گے۔ اس لیے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ تھیٹر کے مقاصد کو سمجھا جائے اور کھلے دل و دماغ سے تھیٹر کو دیکھا جائے۔
  کشمیر میں تھیٹر کے حوالے سے کیا کچھ ہونا چاہیے: ریاست سے باہر جانے کا ہمارے تھیٹر گروپوں کو موقع دیا جائے۔ بچوں کے لیے تھیٹر ورکشاپ اسکولوں اور کالجوں میں کیے جائیں۔ اور انھیں ڈاکٹری انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ NSD  جیسے اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ریاست اور قومی سطح کے Talent Hunt Show منعقد کیے جائیں، تاکہ اچھی کوالٹی کویہاں جگہ جگہ اُبھرنے کا موقع ملے۔ یہاں نکڑ تھیٹر کو فروغ دیا جائے۔
آج کل مابعد جدید دور میں یہاں تھیٹر کے نئے نئے تجربات کیے جائیں۔ جیسے’دس منٹ کا تھیٹر‘ یعنی یکبابی ڈراما یا کسی افسانے، کہانی کا ڈرامائی روپ۔ کہانی منچن Story Theatre، داستان گوئی کی واپسی نئے نئے مسائل یا موضوعات کو سامنے لایا جائے۔ مثلاً۔ مختلف بیماریاں، حاشیائی طبقوں کے مسائل، سیاست،  مذہبی استحصال، اجارہ داری،فیمی نزم، بیٹی بچاؤ۔ماحولیات، تعلیم، ٹکنالوجی، انسانی حقوق، نشہ سرحدوں کی جنگ، ہند و پاک کے مسئلے۔گروہی فسادات وغیرہ وغیرہ۔
گاؤں کے نمبردار، ٹھاکر، ساس بہو کا جھگڑا، گاؤں کا ماسٹر، بے جوڑ شادی اور فیملی پلانگ کا مسئلہ اب ہمارے تھیٹر میں بہت ہوا ہے۔ اس سے آگے بھی کچھ سوچیے ریاست کی کسی بھی یونیورسٹی میں ڈراما کے لیے کوئی بھی کورس یا ڈپلوما نہیں کروایا جاتا ہے۔ آج کے مقابلہ جاتی دور میں ایک ایکٹر کے لیے ڈراما کی تھیوری (بھرت منی ناٹیہ شاستر، نکول، اسلم قریشی، محمد سبحان بھگت)کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر عبور ضروری ہے۔غرضیکہ ان تمام باتوں کی طرف پوری توجہ دی جائے، تو ہمارا تھیٹر بھی سر اٹھا کر چلے گا۔
  
                                                                                             
Dr. Mohiudin Zore Kashmiri
Sr. Asstt. Prof. Urdu,
Govt. Degree College Magam Kashmir--193401
Mob: 9697393552
Email: drzoreurdu@gamil.com



ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں