24/2/20

راشدالخیری کا نظریۂ تعلیم نسواں مضمون نگار: زیب النساء


راشدالخیری کا نظریۂ تعلیم نسواں
 زیب النساء 


ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور انقلاب1857کی ناکامی کے بعدہندوستان کی سماجی،سیاسی، تعلیمی اور تہذیبی زندگی میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انگریزوں کے تسلط اور غلبہ کی وجہ سے شکست خوردہ ہندوستانیوں خاص طور سے مسلم اقوام میں پست ہمتی پیدا ہوئی اور نفسیاتی طور پر وہ دن بہ دن کمزور ہوتے چلے گئے اور تنزلی کی انتہا کو پہنچ گئے۔مغربی تہذیب کے زیر اثر یہ قوم اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکی،نتیجتاً زندگی کے ہر شعبے پر اس کا گہرا اثرپڑا۔ ایسی سنگین صورت حال میں سرسید نے یہ محسوس کیا کہ اس بدلی ہوئی صورت حال میں وقت کے تقاضے اور مطالبے کے پیش نظر درپیش چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مسلمانوں کو تیار کرنا ہوگا۔ انھیں یہ اندازہ تھا کہ مسلمان تعلیمی اور معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ پستی میں ہیں۔لہٰذا تعلیم کے ذریعے ہی مسلمانوں کی پس ماندگی دور ہوسکتی ہے اور وہ احساس کمتری کے حصار سے باہر نکل سکتے ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ صرف جدید تعلیم حاصل کرنے کاہی نہیں تھا بلکہ تعلیم سے عام بیزاری کو بھی دور کرنا تھا،اس لیے انھوں نے عصری تعلیم کی طرف توجہ کرنے کے لیے علی گڑھ تحریک کی شروعات کی اور انہی منصوبوں نے ملک کی تعلیمی اور اصلاحی تحریکات میں اہم رول ادا کیا۔
سرسید احمد خاں نے ملک کی معاشرتی اورتعلیمی زندگی میں اہم کردار ادا کیا لیکن بد قسمتی سے ان کوششوں میں تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی۔جب کہ اصلاح معاشرہ کے لیے ”تعلیم مرداں“ کے ساتھ”تعلیم نسواں“کا ہونا از حد ضروری تھا،کیونکہ اس دور میں عورت کی اکثریت نہ صرف جاہل تھی بلکہ فرسودہ خیالات وعقائد اورجاہلانہ وباطلانہ رسم ورواج کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ سر سید کے رفقا میں سب سے پہلے نذیر احمد نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو محسوس کیا۔وہ عورتوں کو معاشرتی نظام کا ایک حصہ سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے اپنے ناولوں میں خواتین کی تعلیم وتربیت اور ان کی اصلاح کی طرف خاص توجہ دی۔ان کے بعد یہ سلسلہ حالی، سرشار،شرر اور رسواوغیرہ سے ہوتا ہوا اس دور کے دیگرمصنفین کے ذریعے آگے بڑھتا گیا۔راشدالخیری بھی انھیں چند لوگوں میں سے ایک ہیں۔انھوں نے نذیر احمد کے طرز تحریر کا تتبع کرتے ہوئے اسی روایت کی تقلید کی اور انھیں اپنا فکری وفنی رہنما بنایا۔
 راشدالخیری کثیرالتصانیف قلمکار تھے۔ انھوں نے اصلاحی، معاشرتی اور تاریخی ناول،افسانے اور مختلف نوعیت کے مزاحیہ اورمذہبی مضامین کے علاوہ تاریخ وسیرت اورشاعری میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے اوران کی تمام تر کوششوں کامحور طبقہئ اناث کی اصلاح و تربیت اور ان کے حقوق کی بازیافت تھا۔وہ انھیں پستی سے نکال کرسماج میں بلندمقام عطا کرنا چاہتے تھے۔ عورتوں کی مظلومیت،ان کے اندر تعلیم وتربیت کا فقدان، معاشرے اور کنبے میں ان کی بے وقعتی کے وہ خودشاہد تھے۔ راشدالخیری کو ان کی محرومیوں کا احساس تھا،انھوں نے نسوانی زندگی اوران کے مسائل کواپنا موضوع بنایا،ایک عورت کے دردو غم اور بے بسی کو ایک عورت کی نظر سے دیکھا،سمجھا،محسوس کیا اور اس کے مجموعی مسائل کو حل کرنے کے لیے تعلیم نسواں کو ضروری قرادیا۔کیونکہ نذیر احمد اور ان کے ہمعصروں کے زمانے میں جو تھوڑی بہت مشرقی تہذیب کی جان باقی تھی خواتین اس بچے ہوئے سرمائے کو لے کر اپنے اپنے گھروں تک مقید ہو گئیں اور بر خلاف مردوں کے کہیں زیادہ سکون کی زندگی گزارنے لگیں،لیکن انیسویں صدی کے اواخر میں معاشی حالت نے اس پرسکون زندگی کو درہم برہم کرڈالا۔مغربی تعلیم و تہذیب کی راہیں الگ الگ کرڈالیں۔عام مدرسے کھل جانے سے گھر کے مکتب بندہوگئے، جب کہ اس سے پہلے گھر کے مکتب ہی خواتین کی سب سے بڑی تعلیم گاہ ہوا کرتے تھے۔ گھر کے مکتب بند ہوجانے اور زمانے کی پابندیوں کی وجہ سے خواتین گھر سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہیں نیزمردوں کی غفلت اور سماجی رکاوٹوں کے علاوہ خود ان کی تعلیم سے بدظنی ان کی جہالت کی ذمے دار تھی۔راشدالخیری نے جب مسلمان گھرانوں کی عورتوں کی زبوں حالی کا نقشہ دیکھا توانھوں نے اپنی پوری توجہ عورتوں کی طرف کی اوران کی روحانی، مذہبی اوراخلاقی تعلیم و تربیت اور ان کے جائز حقوق کی بازیافت  اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔بقول ڈاکٹر مرزا حامد بیگ:
راشدالخیری نے توعلی گڑھ تحریک کے زیر اثر اردو افسانے میں معاشرتی اصلاح پسندی کی داغ بیل ڈالی تھی اور مسلم تعلیم یافتہ لڑکیوں کی اخلاقی زبوں حالی اور معاشرتی انحطاط کو اپنا موضوع بنایا تھا.....بہر طور راشدالخیری کا نام اصلاح معاشرت اور حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔راشدالخیری کے یہاں متوسط طبقے کی پیش کش میں عورت موضوع خاص ہے اور آزادی نسواں مقصد خاص،جس کے حصول کے لیے عورت کی مظلومیت کو انتہا ئی درد مندی کے ساتھ سامنے لائے۔
(اردو افسانے کی روایت،ص:34)
راشدالخیری معاشی اور سماجی تعطل کو سدھارنے کے لیے ایک عورت کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔کیوں کہ سماج کو سدھارنے کے لیے گھر سے زیادہ اہم جگہ کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔جس قوم کی مائیں بلند خیال، عالی ہمت،شائستہ و مہذب ہوں گی اس قوم کے بچے یقیناً اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔کیونکہ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے اور آئندہ نسل کے افراد کو صحت مند اور مہذب بنانے کی تعلیم کسی بھی اعلیٰ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں بلکہ ’آغوش  مادر میں ہے‘جہاں زندگی کے تمام پہلوؤں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ مثلاًتربیت اولاد، عورت اور مرد کی سماجی اہمیت، ان کی ذمہ داریاں اور فرائض، بے جا رسموں کا انسداد، کفایت شعاری، سادگی اور مروت وغیرہ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی مائیں تعلیم یافتہ ہوں۔بقول راشدالخیری:
بچوں کا سب سے پہلا مدرسہ سمجھو،اتالیق سمجھو جو کچھ بھی ہے ماں کی ہے۔
(صبح زندگی، ص:38)
لیکن تعلیم بغیر تربیت کے اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتی اور لڑکیاں مستقبل میں فرض شناس بیویاں اور ذی شعور مائیں نہیں بن سکتیں۔
راشدالخیری تربیت کے سلسلے میں اس بات پر خاص طور سے زور دیتے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں اور خاص طور سے لڑکیوں کو بد اخلاق اور پست خیال لوگوں کی صحبت سے محفوظ رکھیں۔
راشدالخیری نے جہاں ایک طرف اپنی تحریروتقریرکے ذریعہ عورتوں کی اصلاح وتربیت اور ان کے حقوق کی بازیافت کے لیے آواز اٹھائی،وہیں عورتوں کا ایک مثالی نمونہ بھی پیش کیا۔انھوں نے اسی آئیڈیل کو سامنے رکھتے ہوئے چھ سال سے گیارہ سال تک کی لڑکیوں کے لیے 21/فروری 1922 کو ”تربیت گاہ بنات“قائم کیا تاکہ جب یہ لڑکیاں یہاں سے نکل کر عملی زندگی کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہوں تو ایک مثالی عورت کا کردار ادا کر سکیں اور ساری زندگی عورتوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف قلمی جہاد بھی کریں۔ذیل میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
مسلمانوں کی بہت ساری خرابیوں کا انسداد صرف اس طرح ممکن ہے کہ بچیوں کو معقول تعلیم وتربیت دی جائے اور ایک ایسی درس گاہ قائم ہو جہاں جدت وقدامت دونوں سے استفادہ ہواور مدرسہ کا کوئی قدم دائرہ مذہب سے باہر نہ جانے پائے۔ اسی سلسلہ میں میں نے یہ عرض بھی کیا تھا کہ میں گذشتہ بیس سال کے تجربے کے بعد جس قسم کی لڑکیاں کتابوں میں پیش کررہا ہوں قوم میں ان کی کافی دھوم دھام ہو چکی اور اب کہ میری عمر کا بڑا حصہ ختم ہو گیا۔ چاہتا ہوں کہ ایسے مدرسہ کی بنیاد ڈال دوں جہاں سے میرے سامنے ہی اگر میں پانچ برس اور زندہ رہ جاؤں تو چند لڑکیاں ایسی نکل آئیں جن کو میں قوم کے واسطے مایہ ناز سمجھوں گا۔
(عصمت، دسمبر/1920)
 راشدالخیری نے خواتین کی اصلاح وتربیت کے لیے افسانوی تصانیف کی طرح غیر افسانوی تحریروں کو بھی ذریعہ بنایا۔ انھوں نے عصمت، سہیلی،جوہرنسواں اور تمدن وغیرہ جیسے اہم رسائل جاری کیے تاکہ عورتوں کی اصلاح وتربیت اورفکرو شعور میں مثبت اور تعمیری تبدیلی لائی جاسکے۔رسالہ عصمت کے جاری کرانے کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد عورتوں میں مضمون نگاری کا شوق پیدا کرنا تھا۔ کیونکہ اس وقت لکھنے والیاں گنتی کی تھیں۔ انھوں نے عام فہم زبان میں خانہ داری، بچوں کی پرورش، اور حفظان صحت وغیرہ پر ان میں مضمون نگاری کا رجحان پیدا کرنے کے لیے عورتوں کے فرضی نام سے چھوٹے چھوٹے مضامین لکھے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
خواتین کے واسطے عصمت میں دینی ودنیوی دونوں قسم کی فلاح وبہبود ملحوظ ہے۔ کنواری لڑکیوں کو عصمت بتائے گا کہ کنوار پنے کی زندگی ان کو کس طرح گزارنی ہے۔ ماں باپ کا ادب، بہن بھائیوں کی خدمت، بڑوں کی تعظیم، چھوٹوں سے محبت ان کا فرض منصبی ہے۔جس نئی دنیا میں ان کو شامل ہونا ہے اس کے لیے انھیں کیا تیاری کرنی ہے۔ جو جو دقتیں انھیں پیش آئیں گی ان کو کس طرح رفع کرنا ہے۔
(عصمت، علامہ راشدالخیری نمبر، 1936، ص:11)
 راشدالخیری نے اپنی تحریروں سے جہاں مردوں کو عورتوں کے حقوق کی طرف متوجہ کیااس سے کہیں زیادہ عورتوں کو اپنے فرض کی ادائیگی کی تلقین کی۔وہ خواتین کو صرف گھر کی چہار دیواری میں محصور رکھنا نہیں چاہتے تھے۔بلکہ پردے کے حدود کو برقرار رکھتے ہوئے معاشرے میں ان کو باوقار مقام دلاناچاہتے تھے اور اس کے لیے لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا از حد ضروری قراردیا۔ وہ ’علم‘ کو’عقل کی غذا‘قرار دیتے تھے۔ او ر ’جہل‘کی تاریکی کو ’علم‘کی روشنی سے دور کرنا چاہتے تھے۔کیونکہ ’علم‘ سے معلومات میں وسعت پیدا ہوگی اس سے ’عقل‘ بھی روشن ہوگی اور دماغ کے دریچے بھی وا ہوں گے،پھر حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور دنیا کی بہت سی باتیں اس کی بدولت ان کی سمجھ میں آنے لگیں گی۔ اس طرح راشدالخیری نے اپنی فہم وتدبر سے علم کی وہ شمع روشن کی جس سے معاشرے کی تاریکی میں کمی واقع ہوئی اور گھروں میں علم کے چراغ جلنے سے توہمات دور ہوئی، عورتوں میں سلیقہ اور فہم وفراست پیدا ہوئی۔
راشدالخیری چاہتے تھے کہ اسلام نے عورتوں کا جو مرتبہ مقرر کیا ہے وہ انھیں حاصل ہو۔وہ اپنی معاشرت سے ’جوہر قدامت‘ کونہ جانے دیں۔در اصل وہ چاہتے تھے کہ ہماری عورتیں مغرب کی خوبیوں سے ضرور فائدہ اٹھائیں لیکن اپنی انفرادیت اور مشرقیت نہ کھوئیں تاکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہو جس میں عورت کو باوقار حیثیت حاصل ہو۔ راشدالخیری مشرقی تہذیب کے پرستار تھے۔انھوں نے جو معیار زندگی ہندوستانی عورت کے لیے تجویز کی ہے وہ خیالی اورناقابل عمل نہیں بلکہ وہ مغرب کی خوبیوں کے ساتھ اسلامی اور خالص مشرقی معاشرت کو بھی برقرار رکھتی ہے اور اس وقت ہندوستانی قوم مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں اپنی تہذیب وتمدن کو گنوارہی تھی اور انھیں اس بات کا احساس تھا کہ جدید مغربی تہذیب کا یہ طوفان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس سے لڑکیوں کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ان کا خیال ہے کہ مغرب کی کورانہ تقلید سے گھریلو زندگی میں سخت انتشار برپا ہوگااس لیے وہ باربار عورتوں کو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مغرب کی خوبیاں لے لو لیکن اپنے جوہر نہ گنواؤ۔ خواتین اسلام کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ:
مغرب کی کورانہ تقلید مسلمان عورت کو تباہ کردے گی۔ہندوستانی عورت اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ مشرقی ہے اور مشرقی روایات زندہ رکھ کر ہی ترقی کر سکتی ہے۔
(عصمت،سالگرہ نمبر،1964)
راشدالخیری کااصل مقصد ’اصلاح نسواں،حقوق نسواں اور فرائض نسواں تھا۔ان کے نزدیک اسلامی نظام زندگی ہر مسلمان پر فرض ہے اور وہ خواتین میں حقیقی مذہبیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ:
کوئی شخص مذہب سے الگ ہو کر مشکل سے ترقی کر سکتا ہے اور صرف مذہب ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو برے کاموں سے روک سکتا ہے۔مذہب کی یہ لاپرواہی بڑھتے بڑھتے اس کو(عورتوں کو)اس قابل کردیتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کو ادا کرنے میں غفلت سے کام لیتی ہیں۔غرض کوئی لڑکی اس وقت تک اپنی زندگی اچھی طرح نہیں گزار سکتی جب تک کہ وہ مذہب کے احکام کی پابند نہ ہو۔
(علامہ راشدالخیری: زیوراسلام، عصمت بک ڈپو دہلی، طبع اول1938، ص:63)
اس وقت عورتوں کی تعلیم سے محرومی مردوں کی غفلت اور سماجی رکاوٹوں کے علاوہ خود ان کی تعلیم سے بدظنی ان کی جہالت کی ذمے دار تھی۔
عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ تعلیم کسب معاش کا ایک وسیلہ ہے اور صرف مردوں کے کام آسکتی ہے۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ لکھنا پڑھنا سیکھ کر عورتیں بے راہ روی کی طرف مائل ہو جائیں گی۔چنانچہ نسیمہ کی ماں اس کے لکھنے پڑھنے کی مخا لفت کرتے ہوئے کہتی ہے:
لکھنا سکھانے کی تو میری ہرگز صلاح نہیں۔کون سے دفتر لکھنے ہیں۔لکھنا آتا ہے تو جس کو جی چاہا لکھ بھیجا۔
(صبح زندگی۔ص:39)
اس قسم کی ناپسندیدہ باتیں شریفوں کی لڑکیاں عام طور سے نچلے طبقے کی عورتوں کی صحبت میں اختیار کرتی تھیں۔مائیں بے پروائی اور غفلت کے سبب لڑکیوں کو ایسی صحبت سے دور نہیں رکھتی تھیں۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ شرفا کی لڑکیاں عام طور سے پست اخلاق اور بری عادتوں کا شکار ہوئیں۔ تعلیم وتربیت کی بیگانگی نے شرفا کی عورتوں کو خانہ داری کے سلیقے سے بھی ناآشنا کردیا۔ اس سلسلے میں ان کی عدم توجہی سے ہر گھر میں جو انتشار ات بے ترتیبی نظر آتی تھی اس کا ذکر راشدالخیری نے ”صبح زندگی“اور”طوفان حیات“میں کیا ہے۔
راشدالخیری اپنی قوم میں بیدار مغز بیویاں،اور مائیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ان کے مطابق مسلمانوں کی ترقی کا تمام تر انحصار لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر ہے۔لیکن وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ قدامت پرستوں کا فرقہ تعلیم نسواں کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔چنانچہ اس معاملے میں اس کی وحشت دور کرنے کے خیال سے عورتوں کی تعلیم کا مذہبی جواز بھی پیش کیا ہے۔ ایک جگہ نقل کرتے ہیں:
ہمارے پیغمبرصاحب نے فرمایا ہے کہ علم ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔پیغمبر زادیاں اور پیغمبر صاحب کے زمانے کی عورتیں علم کا دریا تھیں۔یہ تو موٹی سی بات ہے کہ علم آدمی کو آدمی بناتا ہے۔“(صبح زندگی،ص:60)
دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: 
اگر تعلیم کا یہ منشا ہے کہ آدمی مذہب چھوڑ دے تو میں کہتاہوں تعلیم گناہ،سخت گناہ ہے۔
(جوہر قدامت،ص:184)
اس وقت جہالت کی سب سے بڑی دین ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی ہے جس میں اس عہد کی خواتین عام طور سے اس مرض میں مبتلا تھیں۔راشدالخیری نے عورتوں کی اس کمزوری پر کڑی تنقید کی ہے جو اس وہم میں گرفتار ہو کر ایسی حرکتوں کی مرتکب ہوتی تھیں جو عقل و شرع دونوں کی رو سے معیوب ہیں۔:
راشدالخیری کے یہاں ایک عورت کی سلیقہ شعاری کاتصور یہ ہے کہ سعادت منداورامور خانہ داری میں ماہرہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی بیوی ہونے کے لیے اس کا سب سے بڑافرض یہ ہونا چاہیے کہ شوہر کو اپنا ہم خیال کرے یا خود اس کی ہم خیال ہوجائے تاکہ کسی طرح خیال کے اختلافات کا خاتمہ ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کی پہلی شرط بیوی کے خلوص وایثاراور خدمت واطاعت کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے اکثر ناولوں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کے ظلم وجبر کے باوجود اس کی اطاعت سے منہ نہیں موڑتیں۔مثلاً”جوہر قدامت“کی”زاہدہ“اور ”طوفان حیات“کی’’ناصرہ“اس قسم کی بیویوں کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان کے ذریعے راشدالخیری امت مسلمہ کی مثالی بیویوں کو شوہر کی مکمل اطاعت شعار ی کا پیغام دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
میرادین، میری دنیا،میری جنت، میری دوذخ، میرا خدا، میرا رسول،میراعذاب، میرا ثواب جو کچھ ہے اس شخص کے ہاتھ میں اور اس کی صورت کے ساتھ ہے....میں مسلمان ہوں شوہر کی خدمت میرا فرض اور اس سے میری ہمدردی میری زندگی کا عین مقصد۔بچے کو روتی ہوں میر ی مامتا ہے کسی پر احسان نہیں۔مگر شوہر سے ہمدردی خدا کا حکم اور رسول کا ارشاد ہے۔
(طوفان حیات،ص:57)
راشدالخیری متوسط طبقے میں پیدا ہوئے۔اس طبقے کی زندگی اور طرز معاشرت کے ہر پہلو سے انھیں بخوبی واقفیت تھی۔ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربات نے انھیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ انیسویں صدی کے ابتدائی دور کی اصلاحی تحریکات کے باوجودسماج میں عورت کی کوئی وقعت نہیں۔انھوں نے عورتوں کی پستی، زبوں حالی اور ان کے مسائل کو اپنا دکھ درد سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی سعی کی اورنہ صرف اپنے ناولوں بلکہ تمام ادبی تخلیقات کا موضوع طبقہئ نسواں کی زندگی اور اس کے مسائل کو بنایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ:
مرے سامنے صرف مسلمان عورت ہے۔
(عصمت،سالگرہ نمبر،1964،ص:647)
راشدالخیری نے تلخ حقائق کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا تھا۔وہ خواتین کی مظلومیت پر دکھی تھے اورسماج میں انھیں ایک باوقار مقام دلانا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے مسلم قوم کو نظم وضبط، صبرو استقلال، خودداری، اخوت وہمدردی،علم وآگہی کی تعلیم اور انسانیت کا پیغام دیا۔ اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا۔مثلاًلڑکیوں کی پیدائش،طلاق، معاشرتی ناہمواریاں، تعصبات، خوشامدوغیرہ۔ان کے افسانوں کے ان اقتباسات سے ان کے رنگ ومزاج کا اظہار ہوتاہے:
میری رائے میں لڑکی کی ولادت ایک ناگہانی مصیبت ہے اور سو جھگڑوں کا جھگڑا صرف عورت ذات۔
(شرع کا خون، حور اور انسان،ص:32)
 عورت جو حیات انسانی کے فروغ کا وسیلہ بھی ہے اور بحیثیت ماں، بیوی،بیٹی اور بہن بھی اس کی پیدائش پر خوشی کے اظہار کے بجائے اس کی ذات کو تمام مصیبتوں کی جڑ کہا جاتا ہے۔ اصلاح رسوم کے نام پر جہیز سے محروم،غلط رواجوں کے نام پر ترکہئ پدری اور وراثت سے بے دخل، سسرال کی سازش کا شکارہو کر طلاق کی لعنت کو گلے کا طوق بنا کر، فطرت کی ستم ظریفی سے بیوہ ہوکر یہ بے اجرت خدمت کرتی ہے،    بے فیض محبت کرتی ہے۔راشدالخیری نے معاشرے میں پھیلی ہوئی اس طرح کے بے شمارریا کار یوں کو اپنا مقصد بنایا اور نسوانی زندگی کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے دردو غم میں ڈوبے ہوئے کئی افسانے اور کہانیاں تخلیق کیں جس کے سبب ان کو ’مصورغم’محسن نسواں‘ اور’عورتوں کے سرسید‘ کہا جاتا ہے۔سید احتشام حسین راشدالخیری کے اس اچھوتے انداز بیان اور ادبی خدمات کا اعتراف کچھ اس طرح کرتے ہیں:
راشدالخیری نے ڈپٹی نذیر احمد کی بنائی ہوئی راہ کی پیروی کو ہی مطمح نظر مانا اور نسوانی زندگی کی اصلاح کو اپنا مقصود بنا کے بہت سی درد انگیز کہانیاں لکھیں۔ ان کے یہاں رنج والم کا اتنا ذکر ہوتا تھا کہ ان کو مصور غم کہا جانے لگا تھا۔ ان کی نگاہ میں کوئی بھی خاص فلسفیانہ گہرائی نہ تھی، مگر وہ زندگی کے معمولی حادثات کا تذکرہ اس طرح کرتے تھے،جس سے درد مندی کی ایک غیر معمولی فضا تیار ہوجاتی تھی۔ان کی زبان دلی کی خالص پر کیف بول چال کی زبان تھی اور مسلمان متوسط طبقے کے کرب اور گھریلو زندگی کی آمیزش کو بڑی واقفیت کے ساتھ پیش کرکے وہ ایک ہر دل عزیز اہل قلم بن گئے۔
(سید احتشام حسین: اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان 1983،ص:206)
راشدالخیری پندو نصائح کے ذریعہ خواتین کو اس بات سے باور کرانا چاہتے ہیں کہ مغربی اثر پورے ہندوستانی ماحو ل کو تیزی سے اپنی گرفت میں لے جارہا ہے اور انسان مذہب سے بے گانہ ہوتا جارہا ہے اور وہ مسلم عورتوں کو مغربی تہذیب سے دور رکھنا چاہتے تھے،کیونکہ معاشرت کا عمل بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور ماں کی گود اس کا گہوارہ بنتی ہے،بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے ماں باپ اس کے مذہبی کردار کی صورت گری کرتے ہیں،اس اعتبار سے معاشرے میں مذہب کی سب سے بڑی محافظ’ماں‘ ہے۔وہی قوم کی معمارہے،اس لیے عورت کو صحیح مذہبی تعلیم دیناحیات طیبہ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
راشدالخیری کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز’’جذبہئ امومت“ میں ہے۔ وہ ایک عورت کی تعلیم کے ذریعے اس جذبہ کو زندہ جاوید دیکھنا چاہتے ہیں۔کیونکہ خاندانوں کی زندگی اسی’جذبہئ امومت‘سے وابستہ ہے۔جس قوم کی مائیں ’فرائض امومت‘ ادا کرنے سے کتراتی ہیں اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔اس کا عائلی نظام انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔لہٰذ اآپ ایک عورت کے لیے’زوجیت اورامومت‘کا یہی فطری اور حقیقی منصب متعین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک تعلیم یافتہ اور دیندار عورت اپنی انھیں دو حیثیتوں یعنی’بیوی اور ماں‘بن کر فطرت کے دو عظیم الشان مقاصد تسلسل نسل انسانی اور تشکیل تعمیرو معاشرہ و ملت کی تعمیل و تکمیل کرسکتی ہے۔
راشدالخیری عورت کو ایسی تعلیم دلانا چاہتے ہیں جو انھیں ”اسلامیت“  کا پابند اورفرائض”زوجیت وامومت“بحسن وخوبی ادا کرنے کا اہل بنائے۔ ان کا اصل مقصد ’اصلاح معاشرہ‘ اور ’اصلاح نسواں‘ تھااوربچہ کی پرورش، اس کی تعلیم و تربیت اور اس کے شعور کی تشکیل میں ماں کا بہت اہم رول ہوتا ہے،۔جب ہر گھر میں بچوں کی پرورش صحیح ڈھنگ سے ہوگی تو ایک اچھا خاندان بن سکتا ہے اور اسی طرح اچھے گھر اور اچھے خاندانوں سے اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا۔کیونکہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے توابتدائی زندگی میں تین چیزیں اس کے ساتھ چلتی ہیں،اس کی نشو نمااور تعلیم، اس کی ذہنی،جذباتی،نفسیاتی،معاشرتی،روحانی اور ثقافتی نشو نما بھی ہوتی ہے اوریہ سارے گوشے ایک چھوٹی سی اکائی میں پروان چڑھتے ہیں۔بچے کی تربیت کی ذمہ داریاں باپ سے زیادہ ماں پر عائد ہوتی ہیں۔بچے والدین سے سیکھتے ہیں اور گھریلو ماحول کا اثر لیتے ہیں۔والدین کے طرز عمل سے بچے کو اپنی زندگی کا رخ متعین کرنا ہوتا ہے جو کچھ والدین کرتے ہیں اس کا براہ راست اثر بچے کی عادات،نفسیات اورشخصیت پر پڑتا ہے۔لہٰذاجس طرح والدین بچے کی جسمانی خوراک کا خیال رکھتے ہیں۔ ا سی طرح روحانی نشونما کا بھی خیال رکھنا چاہیے،ان کے اندر دین اور شرم وحیا کی قدریں ڈالنی چاہئیں، کیونکہ بعد میں یہ قدریں نکھرتی رہتی ہیں۔والدین کی کاوش سے اچھا معاشرہ اچھی نسل کو پاتا ہے پس بچے ہی معاشرے، امت مسلمہ اور عالم انسانیت کا مستقبل ہوتے ہیں اگر بچے کی صحیح نشونما نہ ہوئی اوراس کی تربیت کو نظر انداز کیا گیاتو اس کا مطلب ہے کہ اگلی نسل کو تباہ کردیاگیا۔اس لیے راشدالخیری اصلاح معاشرہ کے لیے تعلیم واصلاح نسواں کو ضروری اور ہر مسلم عورت کو اسلام کی صحیح اسپرٹ سے واقف کرانااور اس کے بنیادی اصولوں پر عمل کرانا اہم سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس کے بغیر ایک عورت اپنی زندگی میں ترقی نہیں کر سکتی۔
الغرض! راشدالخیری نے خواتین کو پستی سے نکال کر معاشرتی سطح پر ایک بلند مقام عطا کیا۔ انھیں مشرقی ومغربی تہذیب وتمدن اور علم وہنر کی خوبیوں سے آراستہ کر کے ان کے اندر ایک نیا تصور حیات، ایک نیا انداز نظراورنئی بصیرت پیدا کی۔لہٰذاانھوں نے عورت کی اصلاح و بہتری کے لیے جتنی خدمات انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔

Zaibun Nesa
127-E, Mahanadi Hostel
Jawharlal Nehru University
New Delhi-110067
ماہنامہ خواتین دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں