20/2/20

اقبال اور ٹیگور: ایک مختصر جائزہ مضمون نگار: محمد عارف



اقبال اور ٹیگور: ایک مختصر جائزہ
محمد عارف
ٹیگور اور اقبال ایک ہی عہد کے دو بڑے شاعر اور مفکر ہیں جن کے  اثرات نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی سطح پر پوری دنیا  میں  نمایاں ہوئے۔ دونوں بیک وقت شاعر بھی تھے اور فلسفی بھی دونوں فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے۔ ان کا مقصد علوم و فنون کو فروغ دینا تھا جس کے ذریعے انسان کی فلاح و بہبود ممکن ہوسکے۔ ادیبوں کی ہی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ تڑپتی ہوئی انسانیت کے قلب و نظر کو اطمینان و سکون بخشیں۔ ان کی سرشت میں ہے کہ وہ اپنے عہد سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ ایک نئے عہد کی تعمیر میں مسلسل جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔عمر کے ساتھ ساتھ ان کے تخیلات میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں مختلف علوم و فنون کے ذریعے انسانیت کے درد و غم اور ان کے مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرتے ہیں، کچھ اصول و ضوابط مرتب کرتے ہیں، جس میں زندگی کے تئیں امید کی کرن نظر آتی ہے۔ اس عہد میں نہ جانے کتنے شعرا و ادبا اپنی تخلیقات میں مستغرق رہے ہوں گے۔ اپنے خیالات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں لگے ہوں گے۔ انھیں اپنے زمانے میں بہت شہرت بھی ملی ہوگی۔ آخر وہ کون سے افکار و نظریات ہوں گے، وہ کون سے مضامین ہوں گے، آخر کس اسلوبِ نگارش نے اقبال کو علامہ اقبال اور ٹیگور کو رابندرناتھ ٹیگور بنا دیاآخر ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“
ٹیگور اور اقبال کا وطن تقریباً ایک ہی تھا فرق صرف مشرق و مغرب کا تھا۔ عمر میں تھوڑا سا فرق ضرور تھا، مگر فن کسی عمر کا محتاج نہیں ہوتا فنکار کو اس کے افکار و خیالات اسے اعلیٰ و ارفع بناتے ہیں۔ خیالات کی بلندی انسان کو اس کے ماحول اور مطالعہ کائنات سے نصیب ہوتی ہے۔ جس ماحول میں اس کی تربیت ہوگی اسی اعتبار سے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا۔ جغرافیائی، تاریخی اور تہذیبی ماحول کا بھی اس کی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ کم و بیش یہی معاملہ اقبال اور ٹیگور کا بھی رہا ہوگا ”دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک“
اقبال اور ٹیگور کی شاعری کی ابتدا میں تقریباً یکسانیت ہے۔ انھوں نے عشق حقیقی کا سفر عشق مجازی کے راستے طے کیا ہے۔ ٹیگور کی ’گارڈنر‘ (باغبان) نظموں کا مجموعہ جو نوجوانی میں لکھا گیا عشق مجازی کی داستان بیان کرتا ہے۔ یہ حسن و عشق کا بہترین و دلکش مرقع ہے۔ بالکل یہی معاملہ اقبال کا بھی ہے۔ ان کی شاعری ارتقائی انداز کی معلوم ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ذہن اپنی بلندی پر پہنچتا ہے اسی طرح ان کے افکار و خیالات بلند سے بلند تر ہوتے جاتے ہیں۔ اقبال کی ابتدائی شاعری میں اردو شاعری کا عکس نظر آتا ہے جو اس زمانے میں رائج تھا۔ یعنی گل و بلبل کی باتیں، عشق و محبت کا اظہار، رومانیت، وطن پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ بھرپور انداز میں نمایاں طور پر موجود ہیں:
تجھ کو دُزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغازِ محبت کی بتا دی کس نے
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
جان دے کر تمھیں جینے کی دعا دیتے ہیں
پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ  اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
اسی عہد میں ٹیگور اور اقبال نے بچوں سے متعلق بہت سی نظمیں لکھیں مثلاً ٹیگور کی ’کرسنٹ مون (ماہِ نو)‘ میں بچے کی مختلف حیثیتوں کو دکھایا گیا ہے کہ بچہ ہماری زندگی پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، اس کی بھولی صورت اور معصومانہ انداز سب کو بھاتا ہے۔ عہدِ طفلی کا اندازہ عہدِ جوانی میں ہوتا ہے۔ اقبال نے بچوں پر بہت سی نظمیں لکھی ہیں مثلاً عہد طفلی، بچہ اور شمع، طفل شیر خوار، ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، ہمدردی، ماں کا خواب، پرندے کی فریاد، بچے کی دعا، ایک پرندہ اور جگنو، اقبال کو بچپن سے کس قدر لگاؤ تھا اس کا اندازہ ان نظموں سے ہوجاتا ہے۔
ٹیگور اور اقبال نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر یورپ کا رخ کیا، جہاں مطالعہئ کائنات کی ابتدا ہوئی، تخیل کی پرواز میں بلندی آئی، ذہن و دل نے بڑے بڑے قلعے سر کیے، انسانو ں کی انسانیت اور ان کی روح کے اوراق الٹے، زندگی کے فلسفے سے واقفیت حاصل ہوئی، قدرتی نوادرات سے باخبر ہوئے، در و غم سے نجات کا راستہ تلاش کیا، قوم و ملت کی احیا کے راز سے آشنا ہوئے، فنون لطیفہ سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس کا اظہار اقبال نے اشعار کے ذریعے کیا تو ٹیگور نے اپنے فن کو شاعری، ناول، افسانہ، کہانی، موسیقی، مصوری کے ذریعے پیش کیا۔ ٹیگور اور اقبال دونوں اپنے فکر و خیال کے بلندی پر ہیں۔
رابندرناتھ ٹیگور جہاں بہت سارے علوم و فنون میں مہارت رکھتے ہیں وہیں وہ اپنے آپ کو ایک شاعر کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ ان کا شاعرانہ مزاج عام شاعروں کی طرح ہی تھا۔ ٹیگور نے تین ہزار سے زیادہ نظمیں کہی ہیں۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی مناظر، قدیم ہندوستانی تصورات، ہندو دیومالا اور معنی خیز کتھاؤں کا عکس ملتا ہے۔ بنگالی زبان میں نکلنے والا رسالہ ’گیانکر‘ میں ان کی زیادہ تر نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی جیو نندراناتھ نے ’بھارتی‘ نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا اس میں ٹیگور کی نظمیں مستقل شائع ہوتی تھیں۔ ٹیگور آہستہ، آہستہ فطرت سے قریب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کے متعلق فراق گورکھپوری لکھتے ہیں:
”ان کی نظموں میں ہندوستان کے کھیتوں کی لہلہاہٹ، یہاں کے دریاؤں کا ساز روانی ہے۔ یہاں کے شبنمستان میں کھنک ہے۔ یہاں کے موسموں کے جلوے ہیں، یہاں کے دن و رات کی آئینہ بندی ہے۔ یہاں کے پہاڑوں کی حشمت و ہیبت ہے۔ یہاں کے رنگارنگ مناظر کی ایسی جھلک جو ان سے ایک ہزار برس پہلے تک کی شاعری میں ہمیں نہیں ملتی۔ کالی داس کے بعد مناظر فطرت کا اتنا عظیم عکاس ایشیا میں پیدا نہیں ہوا تھا۔“ (رابندرناتھ ٹیگور کی شاعری پر طائرانہ نظر: فراق گورکھپوری، ص 319)
ٹیگور نے اپنی شاعری کے ذریعے قدیم ہندوستانی تہذیب کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی داخلی اور خارجی زندگی پر ویدوں اور اپنشدوں کا اثر دکھائی دیتا ہے جس نے ہندو مذہب کے رسم و رواج کو شعور سے لاشعور تک پہنچا دیا ہے۔ ٹیگور سنسکرت کے علوم سے باخبر تھے اس کے باوجود ان کی شاعری میں مظاہر فطرت کی حسین بولتی تصویر نظر آتی ہے۔ جو انسانی روح کو وحدت کا احساس دلاتی ہے۔ گویا فطرت کے جلوؤں میں انسانی روح کو تلاش کررہے ہوں۔ ان کی شاعری میں ایک ماورائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ٹیگو رکے متصوفانہ خیالات قدرت کے حسن کے ذریعے اپنے مالک حقیقی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ ٹیگور نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانی زندگی کے خارجی و داخلی مسائل کے دکھ درد کو سمجھنے اور اسے حل کرنے کی کوشش میں ہم  آہنگی پیدا کردی ہے۔ مرد اور عورت کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ طبقہئ نسواں کی حقیقت بیانی، اس کی ماہیت کی جانب اشارہ کرنا، اس کے ہر روپ کو ٹیگور نے اپنی نظموں میں بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں فراق گورکھپوری رقمطراز ہیں:
”رابندرناتھ کی نظموں میں بچپن سے بڑھاپے تک عورتوں اور مردوں کے کردار ملتے ہیں اور ہر طبقے کے مردوں اور عورتوں کے کردار شاعر ہمیں کامیابی سے محسوس کرادیتا ہے کہ آج کی عورتوں میں بھی ظاہری رسم و رواج اور لباس میں تبدیلی کے باوجود سیتا، رادھا، درگا، اروشی، اہلیا، دامینتی، گارگی اور ساوتری رچی اور بسی ہوئی ہیں۔ اسی طرح لڑکوں، جوانوں، بڑی عمر کے مردو ں کی کردار نگاری بھی اس انداز سے کی گئی ہے کہ ہم ان کرداروں کو بھول نہیں سکتے۔“ رابندرناتھ ٹیگور کی شاعری میں طائرانہ نظر: فراق گورکھپوری، ص 323
ٹیگور نے انسانیت کے ساتھ ساتھ انسانی عظمت کو برقرار رکھا ہے۔ زندگی قدرت کا بہترین عطیہ ہے جو انسان کی افضلیت ثابت کرتی ہے۔ ٹیگور کو زندگی سے محبت ہے اور زندگی کو سب سے بڑا راز تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے بڑی حقیقت اور کچھ نہیں ہوسکتی ہے کہ ان کی نظمیں انسان کے انداز زندگی کا احساس پیدا کراتی ہیں۔ زندگی کا مقصد بتاتی ہیں۔ جینے کے نئے نئے روپ دکھاتی ہیں۔
اقبال 1905 میں انگلینڈ گئے تو ان کے اندر ایک انقلاب پیدا ہوگیا۔ یورپ کی تہذیب کا مطالعہ کیا ان کی زندگی اور نظام حکومت کا جائزہ لیا۔ انگلینڈ میں اقبال پر بہت سارے رازافشاں ہوئے۔ ان تمام سوالوں کے جواب انھیں ملنے لگے جو ان کے ذہن میں گردش کررہے تھے۔ انگلینڈ ہی میں انھیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ”فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے“ یہاں پر اقبال کی قلبِ ماہیت ہوئی اب وہ اقبال نہیں تھے جو حب الوطنی کا گیت الاپتے تھے۔ اب ان پر یہ راز افشا ں ہوا کہ ”مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے“ اب اقبال ایک نئی دنیا سے متعارف ہورہے تھے ایک نئی تہذیب، ایک نیا تمدن، نئے لوگ نظر آئے جہاں مادہ پرستی کے علاوہ اور کچھ تھا ہی نہیں۔ اب اقبال نے اپنے اشہبِ قلم کی باگیں موڑنی شروع کردیں اور کائنات کی گونا گوں خوبیوں سے لطف اندوز ہونے اور باریکی سے ان کا مطالعہ کرنے کی کوشش شروع کردی۔ وہ مسلسل غور و فکر کرتے ہیں حتی کہ اپنے من میں ڈوب جاتے ہیں تب انھیں زندگی کا سراغ نصیب ہوتا ہے۔ کائنات کی حقیقت عیا ں ہوتی ہے۔ انھیں فلسفہ خودی کا عطیہ نصیب ہوتا ہے۔ یورپ میں ہی اقبال خودی و بے خودی، عقل و عشق، جبریل و ابلیس، خیر و شر، فنا و بقا، حیات و موت، زمان و مکاں کی اصطلاحیں وضع کرتے ہیں۔
ادیب اور شاعر اپنی ذات کے نہاخانوں میں اپنے تخلیقی فن کی پیکر تراشی کرتے ہیں۔ انسان اور اس کا وجود ہی ان کا موضوع ہوتا ہے۔ اقبال نے خودی کے  ذریعے انسان کے اندر ایک نئی روح پھونکی۔ ماضی سے رشتہ استوار کرایا۔ ذوقِ حیات کو ماضی کی ان عظمتوں سے باخبر کرایا جو وہ بھول چکی تھی۔ ماضی سے جذباتی تعلق پیدا کرایا۔
”اقبال نے تعقل کی نارسائیوں کو بھی سمجھا اور انسانی عروج و زوال کے معمے کو جذباتی، روحانی اور نفسیاتی سطح پر بھی حل کرنے کی سعی کی۔“ نئی شعری روایت: شمیم حنفی، ص 25
اقبال نے ہر فلسفیانہ فکر کے انجام کو اپنی ذات کے تجربے سے تعبیر کیا۔ فنا کے تناظر میں بقا  کی معنویت کا سراغ  لگایا، اس لیے وہ انا کے عاشق ہیں۔ انسان کی ذات میں خیر اور شر دونوں ہیں۔ اقبال اپنے عہد کے نظام زندگی کو پھونک کر اپنے خاکستر سے اپنا جہاں تعمیر کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وجود کو متحرک اور سکون و ثبات کو فریب سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی تخلیق کرتا رہتا ہے۔ وہ مادی دنیا کے جبر کا پابند نہیں ہوتا۔ ہمہ وقت وہ حیات کے طلسمی حصار سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے:
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
خودی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز
خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
ٹیگور نے انسانیت کا درس صرف مذہب تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اس دائرے سے باہر نکل کر خالق کی تخلیق کی ہوئی کائنات کو آگے بڑھانے اور خالق نے اسے جو خوبی عطا کی ہے اسے استعمال میں لاتے ہوئے دنیا میں مالک حقیقی کی ندرت کو اہل دنیا سے روشناس کرائے تاکہ وہ مالک کی قربت حاصل کرسکے۔ خاکی عبادت گاہ جو فراق گورکھپوری کا ترجمہ کردہ ہے، میں لکھتے ہیں:
بھجن، پوجا، سادھنا، دعا سب کچھ پڑا رہے
بند دروازے والے مندر کے کونے میں کوئی بیٹھا
تاریکی میں چھپ کر اپنے دل سے
کس کی تو پوجا کرتا ہے پوشیدہ جذبات کے ساتھ
آنکھیں کھول دھیان سے دیکھ تو-دیوتا گھر میں نہیں ہے
وہ وہاں گئے ہیں جہاں مٹی توڑ کر کسان کھیتی کرتا ہے
جہاں پتھر توڑ کر مز دور راستہ بنا رہا ہے بارہو مہینے محنت کرتا ہے
دھوپ اور بارش میں (وہ) ہے سب کے ساتھ
خاک دھول ان کے دونوں ہاتھوں میں لگی ہے
ان کی طرح صاف کپڑے اتار کر آجا دھول میں
نجات؟ ارے نجات کہاں پائے گا تو، نجات ہے کہاں
بھگوان خود سنسار کے بندھن میں سب کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں
ٹیگور کا بھگوان انسان کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے وہ جہاں چاہے اس کو محسوس کرسکتا ہے۔ نجات تو اسی دنیا میں ہے جو اپنے عمل کے مطابق حاصل کرے گا۔ ٹیگور کی داخلی اور خارجی زندگی سے قدیم ہندوستانی تہذیب کی تعمیر نو ہوئی۔ مذہبی اقدار جو مغلوں اور زیادہ تر انگریزی حکمراں کی چابک دستی سے معدوم ہوتے جارہے تھے، ایک بار پھر ٹیگور نے اس میں مذہبی روح پھونکی۔ فکر و نظر کی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔ اس سلسلے میں شمیم طارق اپنی کتاب ٹیگور شناسی میں رقمطراز ہیں:
”ٹیگور کی مذہبی  فکر اور عقیدہ میں بڑی وسعت تھی اس کے باوجود بنیادی طور پر وہ ہندو مذہب، خاص طور سے، قدیم ویشنوی شاعروں کے حال و قال سے متاثر جو تصور پرست واقع ہوئے تھے۔“ ٹیگور شناسی: شمیم طارق، ص 146
ٹیگور نے انسان کو اس دنیا میں جینے کی ترغیب دلائی ہے، نہ کہ مرنے کی۔ زندگی کو نئے ڈھنگ سے دیکھا ہے۔ جس سے زندگی کی وسعت عیاں ہوگئی ہے۔ دنیائے فانی میں انسانی وجود کو لافانی بنانے کی کوشش کی ہے یعنی روح کو خوب سے خوب تر بنا ڈالا:
میں نہیں ہوں گا تپسوی تمھاری قسم
اگر اس تپسیا کے بل سے
کوئی نئی دنیا نہ بنا سکوں
کسی کے دل میں
اگر جگا کے بینا کے تاروں کو
کسی کے حقیقی راز کے دروازے توڑ کر
کسی نئی آنکھ کے اشارے کو نہ پہچان لوں
میں نہیں ہوں گا تپسوی، نہیں ہوں گا، نہیں ہوں گا
بغیر تپسوی کے پائے              ٹیگور شناسی: شمیم طارق، ص 148
ٹیگور کے یہاں ماورائی ادراک کثرت کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ انسان اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا مستحق ہوگا۔ دنیا میں ہی اس کا حساب و کتاب ہوگا۔ اسی اعتبار سے اگلے جنم میں اچھی و بری روح کا سزاوار ہوگا۔ انسان اپنی روح کو بہتر بنانا چاہتا ہے  تو اسے مذہب کے سائے میں پناہ لینی پڑے گی انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہوگا۔
اقبال نے اسلام  کا سفر خودی کے راستے طے کیا ہے۔ انسانی حقیقت کو مالک حقیقی سے روشناس کرایا ہے۔ اقبال نے اس طریقے سے اسلام نہیں پیش کیا جس طرح ملاؤں یا فقیہوں نے پیش کیا تھا کچھ نام نہاد مولویوں نے اسلام کو محدود اور تنگ نظر بنا دیا تھا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں مشاہدات و تجربات ناقابل یقین حد تک ہیں ان کے تجربات صرف کتابی ابواب تک ہی محدود ہیں۔ اقبال نے اسلام کی وسعت پر نظر ڈالی اور امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونکی۔ اقبال کا یہی انداز انھیں منفرد بنا دیا۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان  ہوں میں
کاروانِ حیات و کائنات ہنوز رواں دواں ہے۔  ارتقائے حیات کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ رواں دواں رہتا ہے۔ زندگی کے کامل ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسانی حیات مکمل ہوگئی یا اس کی کوئی آخری صورت معین ہوگئی ہے۔ اس میں ہر لمحے کن فیکون کی صدا آرہی ہے۔ اقبال نے یہ آفاقی تصور دیا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
زندگی حرکت و عمل کا نام ہے۔ انسان کے اندر جب حرکت و عمل کا فقدان ہوتا ہے تو وہ جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔ جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے۔ اقبال ایک ایسے عمل کے جانب ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جس کی جزا کچھ اور ہے۔ دنیا و آخرت کی نعمتیں مومن کا حق ہیں۔ ایک سچے مومن کو خدا نے اپنی ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کے لیے دنیا کو مسخر کردیا۔ اسی لیے اقبال ان قوموں پو رشک کرتے ہیں۔ جو خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
جواب شکوہ میں اقبال نے ان تمام سوالوں کا جواب دیا ہے جس کا کبھی وہ شکوہ کیا کرتے تھے۔ یعنی خدا کی رحمتیں صرف اغیار کے کاشانوں پر ہیں اور برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔ اقبال نے ان کے اندر خودی کی روح پھونکی اور یہ احساس پیدا کرایا کہ ”بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے، اسلام ترا  دین ہے تو مصطفوی ہے“ اقبال نے یہ بھی جواب دیا کہ علوم و فنون کی حصول یابی کے ذریعے ہی ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اقبال نے ملت اسلامیہ کے احیا کے لیے جدوجہد کی امت مسلمہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ اقبال نے 1930 میں الہ آباد مسلم لیگ کے اجلاس کے صدارتی خطبے میں مسلمانانِ ہند کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ اب وہ وقت قریب آرہا ہے کہ یہ ملک آزاد ہوگا۔ اور جلد ہی شمال مغرب میں ایک ملک تعمیر ہوگا جہاں ہمیں موقع مل جائے گا کہ اسلام پر عہد ملوکیت میں جو بدنما داغ لگ گئے تھے ہم اسے مٹا سکیں گے۔
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
بے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا
عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کم دنیا کی امامت کا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
کہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
پہلی عالمی جنگ کے بعد جو نتائج برآمد ہوئے تھے اقبال اس سے اچھی طرح واقف تھے۔ 1922 میں ’خضرِراہ‘ اور ’1924 میں طلوع اسلام‘ کے ذریعے اسلامی فلسفے کا تصور پیش کیا، تشکیل جدید الٰہیات کی بنا ڈالی۔ ایک ولولہئ تازہ دیا ایک خوش خبری سنائی۔
ٹیگور بنیادی طور پر شاعر تھے اگر شاعری میں موسیقیت داخل ہوجائے تو اس میں نغمگی پیدا ہوجاتی ہے۔ ٹیگور شاعری اور فکشن کے علاوہ موسیقی اور مصوری کا بھی شغف رکھتے ہیں۔ ہندو مذہب میں مصوری اور موسیقی کو زبردست اہمیت حاصل ہے۔ اس کے ذریعے ٹیگور نے ہندو مذہب کی ماورائی قدروں کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے جس میں روحانیت کا پہلو داخل ہوگیا ہے۔
اروند گھوش اور بال گنگادھر تلک کی قومیت سے ان کو تقویت ملی اور اپنی موسیقی سے قومیت کا جو راگ چھیڑا  تھا اس نے تحریک آزادی کو مزید قوت بخشی۔ قومی شعور کی بیداری کا عمل تیزی سے بڑھنے لگا۔ ٹیگور نے قومیت کا جو تصور بیان کیا ہے وہ تلک اور گھوش سے علیحدہ تھا اس لیے جو مزاج کے مطابق تھا اسے اختیار کرلیا۔
”اقبال اور ٹیگور جیسا کہ عرض کیا گیا دونوں قومیت کے اس تصور کو سرے سے رد کرتے ہیں۔ اقبال نے یہ موقف عقیدہ توحید کی سربلندی کے حق میں اختیار کیا جبکہ ٹیگور نے یونیورسل ہیومنزم کے حق میں کیا۔ یوں اقبال صرف کسی حد تک، تو ٹیگور پوری طرح قومیت کے جدید دبستان کے فکر کے آواں گارد و پیش رو کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں جس کی رو سے یہ تصور اپنی اصل کے اعتبار سے جمہور  دشمن اور جمہوریت مخالف ہے۔“ قومیت کا تصور اور ٹیگور: معین الدین جینابڑے، ص 274
ٹیگور پر اپنشدوں کے ساتھ بھگتی تحریک اور قدیم ہندوستانی فلسفے کا گہرا اثر تھا اس کے ذریعے ٹیگور عہد حاضر سے ہم آہنگی پیدا کرانا چاہتے تھے۔ دونوں کو وجود کی وحدت کا روپ دینے کی کوشش کی ہے۔
ٹیگور اور اقبال نے فنونِ لطیفہ کے ذریعے جو سازچھیڑ  ا تھا اس کی بازگشت عالمی سطح پر پوری دنیا میں سنائی دیتی ہیں۔ انھوں نے علوم و فنون میں جدت و شدت پیدا کی، علومِ جدید کی تشکیل نو کی۔ ان کے پیش نظر نفس انسانی اور زمانے کی رفتار کو ہم آہنگ کرنا تھا تاکہ انسان کو یہ قدرت حاصل ہو کہ وہ کائنات طلسمی حصار سے آزاد ہوسکے۔ ان کا مقصد انسان کے روحانی تجربے اور تاریخ میں ربط پیدا کرانا تھا۔ ٹیگور نے روحانی گوشے کو فطری حسن سے پرنور کردیا، مادّہ کو ماورائی پیکر میں ڈھال دیا تو اقبال نے عملی زندگی میں وجودِ انسانی کو بلند و بالا کردیا، انسانِ خاکی کو نوری و ناری کے تصور سے پرے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم کے بندھن میں باندھ دیا ہے۔
Mohd Arif,
 Research Scholar, 
Dept of Urdu, 
Jamia Millia Islamia,

 New Delhi - 110025
ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2014

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں