4/2/20

برج دیش کا سچا عاشق: نظیر اکبرآبادی مضمون نگار: نعیمہ جعفری پاشا


برج دیش کا سچا عاشق: نظیر اکبرآبادی


کھیتوں میں سرسوں پھولی اور شاہراہوں پر بسنتی چندریاں لہرانے لگیں۔ بسنت آگئی۔ بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو ہمارے ملک کے عوام میں بلا تفریق مذہب و ملت منایا جاتا ہے۔ اگر ایک طرف مندروں میں بسنت پنچمی کی پوجا کی جاتی ہے تو دوسری طرف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ پر اجمیر میں اور حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر دہلی میں بسنت چڑھائی جاتی ہے اور یہی بسنت ہمارے دلوں میں ایک ایسے شاعر کی یاد تازہ کرتی ہے جو اس تہوار ہی کی طرح بلا تفریق سب کا شاعر تھا، جو عوام کا شاعر تھا، جو انسانیت کا شاعر تھا، جس کے دل میں ہندو، مسلمان،سکھ، عیسائی، جین، پارسی سب  کے لیے یکساں احترام تھا، یکساں خلوص تھا اور اپنے وطن کے لیے محبت تھی۔ یہ شاعرہے نظیر اکبرآبادی۔ ولی محمد جو عرف عام میں ’میاں جی‘ اور میاں نظیر کہلاتا تھا، کل کے نقاد جسے شاعروں میں ہی شمار کرنے سے گریز کرتے تھے اور آج کے ناقد جسے کلاسیکی شعری آفاق کا عظیم شاعر مانتے ہیں۔ منفرد، بے مثل اور یکتا۔
بسنت پنچمی کے موقع پر آگرے میں نظیر کے مزار پر ایک شاندار اور باوقار میلہ لگتا ہے جس میں ہر طبقے اور ہر مکتب فکر کے لوگ بلا تفریق مذہب و ملت شریک ہوتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں نظیر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، اس نظیر کو جو اردو کا عظیم ترین شاعر ہو یا نہ ہو ہندوستان کا عظیم شاعر ضرور تھا۔ برج دیش کا سچا عاشق، آگرے کا دیوانہ جس کے اپنے وطن کی خامیوں سے بھی پیار تھا، ایسا وطن پرست جس پر      ؎
خارِ وطن از سنبل  و ریحاں خوشتر
کی مثال صادق آتی ہے۔ اسے وطن اور وطن کی ہر شے سے بے اندازہ محبت ہے       ؎
عاشق کہو اسیر کہو آگرے کا ہے
ملا کہو دبیر کہو، آگرے کا ہے
مفلس کہو فقیر کہو آگرے کا ہے
شاعر کہو نظیر کہو آگرے کا ہے
1934 میں جب نظیر کی صد سالہ برسی منائی گئی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ آگرے کے عاشق، اس عوامی شاعر کی قبر ایک کھلے میدان میں نہایت ہی کسمپرسی کی حالت میں ہے جہاں مویشی چرتے ہیں او راس شاعر کی اہمیت سے ناواقف لوگ قبر کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آگرے کے باذوق اور حساس لوگوں نے اس ناقدری کو محسوس کیا اور کچھ کر گزرنے کے جذبے کا اظہار اور کوشش وقتاً فوقتاً ہوتی رہی۔
نتیجے کے طور پر 1934 میں آگرے کے چند ادیبوں، شاعروں اور معزز حضرات کی ایک نشست علامہ میکش اکبرآبادی کے دولت کدے واقع میوہ کٹرا منعقد ہوئی جس میں اس وقت آگرے میں موجود اردو اور ہندی کے قلم کاروں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ نظیر اکبرآبادی آگرے کے ایک ایسے مقبول و معروف عوامی شاعر تھے جن پر آگرہ اور آگرے والوں کوجتنا بھی فخر ہو کم ہے نیز آگرے والوں کا یہ فرض ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے اس منظرنامے میں نظیر اور ان کے کلام کو محفوظ اور سدا بہار بنائے رکھنے کے لیے کچھ ایسا انتظام کیا جائے کہ آنے والی نسلیں بھی اس عظیم عوامی شاعر کو یاد رکھیں جو نہ صرف آگرے کا بلکہ پورے ہندوستان کا قومی شاعر کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اس نشست میں علامہ میکش اکبرآبادی کے علاوہ ل احمد (لطیف الدین احمد اکبر آبادی) ڈاکٹر گرومکھ رام ٹنڈن، مغیث الدین فریدی اور بہت سے ہندی کے کوی اور محقق شامل ہوئے۔ اس نشست میں یہ طے کیا گیا کہ ایک بزم نظیر قائم کی جائے جو ہر سال بسنت پنچمی کے موقعے پر میاں نظیر کے مزار پر ایک عوامی میلے کا انعقاد کرے۔ بسنت پنچمی کا دن اس لیے چنا گیا کہ نظیر کو اس تہوار سے خاص رغبت تھی نیز یہ تہوار بلا تفریق مذہب آگرے کے واسی ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ چنانچہ بزم نظیر قائم ہوئی۔ میکش اکبرآبادی کو بالاتفاق رائے اس کا صدر منتخب کیا گیا اور میوہ کٹرے میں واقع ان کی حویلی کو بزم کا صدر دفتر بنایا گیا۔ جنرل سکریٹری کے عہدے کے لیے غالباً ڈاکٹر گرومکھ رام ٹنڈن مقرر ہوئے۔ ممبران میں ل احمد کے علاوہ ہندی کے کئی نامور شاعر اور محقق شامل تھے جو اس وقت آگرے میں موجود تھے۔ انھیں حضرات کی کوششوں سے اگلے سال بسنت پنچمی کے موقعے پر پہلا نظیر میلہ نظیر کے مزار کے گرد پھیلے ہوئے میدان میں منعقد کیا گیا اور اس وقت سے لے کر آج تک پابندی سے اس میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ممبران کی تعداد بڑھتی گئی۔ نئے لوگ شامل ہوتے گئے۔ عہدے داران کی ذمے داریاں بھی بدلتی رہیں لیکن علامہ میکش اکبر آبادی 1989 تک اس بزم کے صدر کے عہدے سے منسلک رہے یعنی اپنے انتقال سے صرف دو سال پہلے تک جب تک کہ وہ جسمانی طور پر فعال رہے، ان  کے علاوہ دیوی پرساد شرما، راجندر رگھوونشی، جتندر رگھوونشی، معین فریدی، شمیم مرزا، رام بالو سنگھ راٹھور وغیرہ کی فہرست بہت طویل ہے۔ 1976-77 تک بزم نظیر کا صدر دفتر بھی میوہ کٹرہ ہی رہا پھر تبدیل ہوگیا۔ پرانے لوگ رخصت ہوئے نئے ادب دوست جواں مرد شامل ہوئے۔ بحمداللہ بزم نظیر اب بھی قائم ہے اور بسنت کے موقعے پر نظیر میلے کا انعقاد بھی پورے جوش و خروش سے ہوتا ہے۔ لوگ بسنتی پگڑیاں، ٹوپیاں اور پٹکے پہن کر میلے میں شرکت کرتے ہیں۔ نظیر کے مزار پر نظیر کے کلام کے حافظ اور مداح اپنے خاص انداز میں ان کا کلام گاکر اور تحت میں پڑھ کر عوام کو سناتے ہیں۔ راگ رنگ کی محفلیں سجتی ہیں۔ عمائدین شہر نظیرکے مزار کی گل پوشی کرتے ہیں اور طرح طرح کے پھیری والے میلے کی رونق بڑھاتے ہیں۔
اس تمام قدر و منزلت کے باوجود نظیر کی قبر کسمپرسی کی حالت میں تھی۔ میلے کے ایام کے علاوہ باقی سال اس کی دیکھ بھال یا صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا، کیونکہ میونسپلٹی کا کام تھا اور سرکاری زمین پر دخل اندازی کا جوکھم عوام اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے، حالانکہ بزم نظیر کے ارکان نے کئی مرتبہ انتظامیہ کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ آخر 1978 میں آگرے کے سابق منتظم اعلیٰ (پرشاسک) شری جیوتی سروپ گپتا کی کوششوں سے نظیر کے مزار کی تعمیر نو عمل میں آئی۔ میدان کو چہار دیواری سے گھیر کر پارک کی شکل دی گئی جو نظیر پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہیمنت لوانیہ اپنے ایک مضمون (لیکھ) میں اس میلے کی اہمیت کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
جن کوی نظیر کا آج نہ تو جنم دوس ہے اور نہ ہی ان کی پینہ تتھی۔ اس کے باوجود آج بسنت پنچمی، تاج گنج میں استھت ان کے مزار پر میلا لگتا ہے۔ صحیح معنی میں آج کا دن سا مپرادایک ایکتا اور اکھنڈتا کا دوس ہے جس کے لیے میاں نظیر جیون بھر کوشش کرتے رہے۔“  (حوالہ 1972) کا ہندی ایک مقامی اخبار(
آلوک شرما اپنے ایک لیکھ میں لکھتے ہیں:
نظیر صحیح معنوں میں ساماجک چیتنا کے اگر دوت جن کوی تھے۔ آگرے کا جن جیون، جمنا میا، میلے ٹھیلے، عید، دیوالی، دشہرہ، ہولی، ان کی جن کویتا کاوشے ہیں۔ ہراستھانیہ گھٹنا اور پروانہیں الاس سے بھرا قلم چلانے پر مجبور کردیتا ہے۔
یہ تھیں بزم نظیر کے چند ممبران کی آرا جن کا اظہار نظیر میلے کے موقعے پر وقتاً فوقتاً تقاریر اور مضامین کے ذریعے کیا گیا۔
اردو کی کلاسیکی شاعری کا جو قابل لحاظ سرمایہ ہے وہ عموماً غیرملکی امثال سے بھرا ہوا ہے۔ ہر صفحے پر دجلہ و فرات، نیل لہریں مارتا نظر آتا ہے، ہر باغ میں سر و صنوبر کے سائے ملیں گے اور ان پر بلبلیں اور قمریاں نغمہ خواں سنائی دیں گی۔ قیس و لیلیٰ اور شیریں و فرہاد کی داستانِ عشق کا بیان اور حوالے ملیں گے، سمرقند و بخارا کے تذکرے ملیں گے لیکن نظیر اس ساری بھیڑ سے بالکل الگ اور منفرد نظر آتے ہیں۔ ان کا ذہن سمرقند و بخارا کے بجائے متھرا، برج اور بنارس کی سیر کرتا ہے۔ ان کی آنکھیں دجلہ و  جیحوں کی جگہ گنگا اور جمنا کے نرمل جل سے سیراب ہوتی ہیں۔ ان کے باغات میں غیرملکی درختوں کے بجائے:
پیلو، پاکھر، نرما، سنبھل، کچنا، سنبھالو، بڑ، پیپل“ کے سائے نظر آتے ہیں۔ ان کے گلشن کی کیاریاں لالہ و گل کے رنگ و بو سے ہی مزین نہیں ہیں بلکہ دیسی پھولوں کی مہک سے بھی معطر ہیں           ؎
رابیل، نگیر اور مولسری، مد مالت، بیلا اور سمن
دوپہری، گیندا، گل لالہ، نافرماں، کرنا، بان مدن
جائی، جوہی، شبو، نرگس، سنگار، چنبیلی، سیم بدن
کیا پھول گلابی گل طرہ، کیا ڈیلا، بانسا، سکھ درسن
گرمی کا موسم، پھر آگرے کی جھلسا دینے والی گرمی، کہ ہر شخص پریشان ہے۔ کسی جا، کسی کل چین نہیں ہے۔
نظیر کے الفاظ میں         ؎
ایدھر تو پسینوں سے پڑی بھیگنے کھاٹیں
گرمی سے ادھر میل کی کچھ چیونٹیاں کاٹیں
ننگا جو بدن رکھیے تو پھر مکھیاں چاٹیں
کپڑا جو پہنیے تو پسینے اسے آٹیں
ایسے جاں کاہ موسم میں ’ککڑی لو ککڑی‘ آج کے برف، ریفری جیٹر اور آئس کریم کے دور میں بھی خوش آئند لگتی ہے نہ کہ آج سے پونے دو سو سال پہلے جب کہ عوام کے لیے برف کا حصول بھی آسان نہ تھا، کتنی دلکش لگتی ہوگی اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنھوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی ہو اور اسے قریب سے دیکھا اور برتا ہو۔ پھر نظیر سے زیادہ اس کا مزہ کون جان سکتا ہے   ؎ 
نظم:
نے چین کے پرے کی اور نے ورے کی ککڑی
دکھن کی اور نہ ہرگز اس سے پرے کی ککڑی
کیا خوب نرم و نازک اس آگرے کی ککڑی
اور جس میں خاص کافر اسکندرے کی ککڑی
کیا پیاری پیاری میٹھی اور پتلی پتلیاں ہیں
گنے کی پوریاں ہیں، ریشم کی تکلیاں ہیں
فرہاد کی نگاہیں شیریں کی ہنسلیاں ہیں
مجنوں کی سرد آہیں لیلیٰ کی انگلیاں ہیں
***
کوئی ہے زرد مائل کوئی ہری بھری ہے
پکھراج منفعل ہے پنے کو تھرتھری ہے
ٹیڑھی ہے سو تو چوڑی وہ ہیر کی ہری ہے
سیدھی ہے سو وہ یارو رانجھے کی بانسری ہے
اس نظم میں دیسی تشبیہات دیکھنے کے قابل ہیں۔ لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد کے ساتھ ہیر اور رانجھا بھی موجود ہیں۔ زمرد و الماس کے بجائے پکھراج اور پنے سے تشبیہ دی گئی ہے، کیونکہ یہ اسی دیس کی پیداوار اور نام ہیں جس میں نظیر سانس لیتے ہیں۔ ہیر کی ہندوستانیت کے ساتھ ہری چوڑی کا تصور اتنا ہی حقیقت پسندانہ ہے جتنا رانجھے کے ساتھ بانسری کا تصور اور پھر تشبیہات کی ندرت دیکھیے، تازگی سادگی اور بے ساختگی کے ساتھ اپنے دیش کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو بھی ہے۔ عرصے تک آگرے کی ککڑی فروشوں کی زبان پر، مجنوں کی سرد آہیں، لیلیٰ کی انگلیاں ہیں کا ورد رہا کرتا تھا۔
محلہ تاج گنج سے میاں نظیر اپنے ٹٹو پر بیٹھ کر لڑکے پڑھانے شہر آگرہ جایا کرتے تھے۔ راہ میں مختلف پیشے والے اور خوانچے فروش اپنی اپنی صدائیں لکھوا کے لے جاتے۔  (شہباز، زندگانیِ بے نظیر) تل کے لڈو کے خوانچے والا آیا ”میاں جی سب کو نظمیں کہہ کہہ کر دیتے ہو۔ ہمیں بھی کچھ کہہ کے دو تو مانیں“ اور نظیر نے فی البدیہہ نظم کہہ کے دے دی:
رکھ خوانچے کو سر پر پیکار یوں پکارا
بادام بھونا چابو یا کرکرا چھوہارا
جاڑا لگے تو اس کا کرتا ہوں میں اجارا
جس کا کلیجہ یارو سردی نے ہوے مارا
نودام کے وہ مجھ سے لے جائے تل کے لڈو
نظیر کی سب سے بڑی خصویت یہی ہے کہ خواص نے انھیں صف اوّل کے شاعروں میں جگہ دینے میں کتنا ہی تامل کیا ہو لیکن عوام نے انھیں ہمیشہ سر چڑھا کے لیا اور نہ صرف خود ان کے دور میں ’میاں نظیر‘ عوام کے ہر دلعزیز شاعر تھے بلکہ آج بھی ان کی مقبولیت نہ صرف مسلم ہے بلکہ آج کے دور میں جب مذہبی رواداری اور سیکولرزم کے نفاذ کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے، نظیر کی اہمیت اور ان کی شاعری کی قدر و قیمت میں روزافزوں اضافہ  ہورہا ہے۔چاہے عید، شب برات ہو، ہولی، دیوالی ہو، جنم اشٹمی ہو، راکھی ہو، بسنت پنچمی ہو، بلدیو جی کا میلہ ہویا شیو اور درگادیوی سے متعلق تہوار ہوں، گرمی ہو، سردی ہو، برسات ہو، امس ہو، بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے تاثرات ہوں، ہر موقع پر ہر تقریب میں ہر کیفیت میں نظیر ہمیں یاد آتے ہیں، ان کی نظمیں یاد آتی ہیں کیونکہ ان سارے میلوں، تہواروں اور موقعوں پر نظیر کی حیثیت محض ساحل سے تماشا دیکھنے والے کی نہیں بلکہ تیراک کی ہوتی ہے۔ وہ خود اس طوفانِ رنگ و بو میں شریک ہیں۔ خوشیوں کا لطف بھی اٹھا رہے ہیں اور مصیبتوں کو بھی جھیل رہے ہیں۔ ان کی نظر ہر باریک سے باریک اور چھوٹی سے چھوٹی شے پر پڑتی ہے اور ان کا قوی مشاہدہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ نظیر پیشے سے معلم تھے۔ ان کے شاگردوں میں مسلم امرا اور ہندوساہو کاروں کے لڑکے بھی تھے لیکن جب وہ اپنے گھرکے باہر نیم کے پیڑ کے نیچے درس دیتے نظر آتے ہیں تو ان کے شاگردوں میں معاشی طور پر کمزور لڑکوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہوگی کیونکہ اپنی ایک نظم مفلسی میں وہ کہتے ہیں          ؎
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی
اس شعر سے واضح ہوتا ہے کہ نظیر کا تعلق بھی اسی طبقے سے تھا جس میں ہندوستان کی اکثریتی آبادی سانس لیتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سردی کے موسم میں ٹھنڈ کیسی تکلیف دہ ہوتی ہے جب عیش و عشرت کے سامان مہیا نہیں ہوتے۔ جب ’تھرتھر کا اکھاڑا‘ ہوتا ہے اور ’بتیسی بجتی ہے‘ انھیں معلوم ہے کہ برسات کا موسم صرف حسن و دلکشی کے خزانے ہی نہیں لٹاتا جہاں امیر اپنے اونچے محلوں میں برسات کا نظارہ کرتے ہیں وہیں متوسط اور غریب طبقے کے لیے کیسا جان لیوا ہوتا ہے جن کے مکان پرانے ہوچکے ہیں یا ناپختہ ہیں۔ بارش کی ہر بوند انھیں بہاروں کی پیامبر نظر آنے کے بجائے اپنی تباہی کی قاصد نظر آتی ہے۔ ملاحظہ ہو       ؎؎
نظم:
جھڑیوں کا اس طرح کا دیا آکے جھڑ لگا
سنیے جدھر اُدھر کو دھڑاکے کی ہے صدا
کوئی پکارے ہے مرا دروازہ گر چلا
کوئی کہے ہے ہائے کہوں تم سے اب میں کیا
تم در کو جھینکتے ہو مرا گھر پھسل پڑا
***
باراں جب آکے پختہ مکاں کے تئیں ہلائے
کچا مکاں پھر اس کی بھلا کیونکہ تاب لائے
ہر جھونپڑے میں شور ہے ہر گھر میں وائے وائے
کہتے ہیں یارو دوڑیو جلدی سے ہائے ہائے
پاکھے پچھیت سو گئے چھپر پھسل پڑا
ایک اور نظم میں یہی مضمون ان الفاظ میں باندھا ہے:
کوئی پکارتا ہے لو یہ مکان ٹپکا
گرتی ہے چھت کی مٹی اور سائبان ٹپکا
چھلنی ہوئی اٹاری، کوٹھا ندان ٹپکا
باقی تھا اک اسارا سو وہ بھی آن ٹپکا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
اپنے دیس کی محبت ان کی رگ رگ میں بسی ہے اور یہاں کے ماحول کا وہ خود ایک حصہ ہیں۔ ہر جگہ، ہر قدم پر انھیں اپنی شاعری کے لیے موضوعات بکھرے نظر آتے ہیں جن کے بیان کے لیے زبان اور الفاظ کی ان کے یہاں کبھی کمی نہیں ہوتی۔ میلے ٹھیلے اور تہواروں پر ان کی رونق اور چہل پہل کے وہ دل سے شیدائی ہیں۔ عید اور شب برات پر ان کی ایک ایک نظم ہے جب کہ ہولی پر ان کی نو نظمیں ہیں۔ ہولی کا رنگین تہوار، اس کی رنگ فشانی، رقص وسرود، چہلیں اور شوخیاں انھیں سب سے زیادہ لبھاتی ہیں اور ان کی توجہ کھینچ کر ان کے قلم کو کاغذ پر رنگینیاں بکھیرنے پر مجبور کردیتی ہیں              ؎
نظم
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں،تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں،تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، ششے، جام چھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں چھکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
ایک اور مخمس میں ہولی کا بیان کچھ اس طرح ہے        ؎
ہر جاگہ تھالی گلالوں کے خوش رنگت کی گلکاری ہے
اور ڈھیر عبیروں کے لاگے اور عشرت کی تیاری ہے
ہیں راگ بہاریں دکھلاتے اور رنگ بھری پچکاری ہے
منہ سرخی سے گلنار ہوئے تن کیسر کی سی کیاری ہے
یہ روپ جھمکتا دکھلایا یہ رنگ دکھایا ہولی نے
بحر اور قافیوں کی نغمگی اور الفاظ کا انتخاب اپنی انتہائی حدوں کو چھورہا ہے جس کی مدد سے ہولی میں ناچنے والوں کے کچلتے جسم اور گلنار چہرے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔ صوتی اثرات ایسے کہ ہولی کے ڈھول اور تاشے بجتے سنائی دیتے ہیں۔ دیوالی کے دیوں کی جگمگاہٹیں ہیں۔ ہر گھر خوشی سے معمور ہے۔ دوکانیں سجی ہوئی ہیں، حلوائی آواز لگا لگا کر مٹھائیاں بیچ رہے ہیں۔ کھلونے والے کی دوکان پر اس سے زیادہ ہنگامہ ہے اور سب سے زیادہ دھوم جوئے بازوں کی ہے۔ یہ سارا ہنگامہ صرف کاغذ تک محدود نہیں رہتا بلکہ نظیر کی جزئیات نگاری ان کے زور تخیل اور زور بیان کے سہارے ان مناظر کو ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ یہ تماشے ہم تصور کی نظر سے زندہ ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، یہ صدا ئیں ہمیں اپنے کانوں سے سنائی دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں         ؎
مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی
پکارتے ہیں کہ لالہ دیوالی ہے آئی
بتاشے لے کوئی برفی کسی نے تلوالی
کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی
کہ گویا ان کے واں راج آگیا دیوالی کا
جوئے بازوں کا نقشہ ملاحظہ ہو         ؎
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
جو کچھ تھی جنس میسر بنابتا ہاری
کسی نے چیز کسی کی چرا چھپا ہاری
کسی نے گٹھری پڑوسی کی اپنی لا ہاری
یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دیوالی کا
ہولی اور دیوالی کی دھوم دیکھنے کے بعد لگے ہاتھ ’بلدیوجی کے میلے‘ کی بھی سیر کرلی جائے۔شہری، قصباتی اور گنواروں کا ہجوم ہے اور ہجوم بھی ایسا کہ تھالی پھینکو تو سروں پر گرے۔ میلے کی رونق طرح طرح کی دوکانوں اور سودے والوں نے دوبالا کررکھی ہے۔ ایک طرف بساطی اپنی دوکان لگائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف زیورات کی خریداری ہے۔ ایک طرف خورد و نوش اور چاٹ کے خوانچے ہیں تو کسی طرح کھلونوں کے ڈھیر ہیں، کوئی کمہارن سے بھاؤ تاؤ کررہا ہے تو کوئی پھل والی کنجڑل سے لڑریا ہے۔ غرض ایک ہنگامہ برپا ہے۔ سچ مچ کا جیتا جاگتا میلا جس میں مندر کی گھنٹیوں کی آواز بھی ہے اور اشلوکوں کے بول بھی کان میں پڑرہے ہیں۔ حسن والوں کا بھی جمگھٹاہے، راز و نیاز، عہد وپیمان ہیں۔ ایسی بھیڑ میں کسی کی پگڑی اترجاتی ہے اور کسی کی جیب کٹ جاتی ہے، کسی کی دوکان لٹ جاتی ہے او رکوئی اچکا کسی کی گٹھری چراکر بھاگ جاتا ہے         ؎
خلق آتی ہے سب جڑی جبڑی
چیز رکھے ہیں باندھ کر گٹھری
کوئی دوڑے ہے ہاتھ لے لکڑی
دوڑیو چور لے چلا گٹھری
جیب کتری کہیں گئی پکڑی
کہیں موٹی دوکان اور ہٹری
چور کی تاک سے کہیں پکڑی
سو تماشے ہنسی، خوشی پھکڑی
رنگ ہے، روپ ہے، جھمیلا ہے
زور بلدیو جی کا میلہ ہے
حسن والوں کا رنگ سب سے الگ او رنرالا ہے       ؎
کوئی چنچل چلے ہے ٹھمکی چال
کچھ وہ پتلی کمر وہ لمبے بال
آنکھوں میں حسن کے نشے وہ لال
مصری ماکھن کا ہاتھوں اوپر تھال
کچھ وہ پوشاک کچھ وہ حسن و جمال
مالنوں سے زیادہ ان کا کمال
ڈال دیں ہار کا گلے میں جال
بدّھی ہوکر لیں صاف دل کو نکال
ایک طرف اردو غزل میں سراپا نگاری میں مبالغہ آرائی حد سے بڑھی ہوئی ہے وہاں نظیر کی یہ سادگی اور حقیقت پسندی قابل لحاظ ہے کمر کو بال سے تشبیہ دینے یا کالعدم ثابت کرنے کے بجائے صرف پتلی کمر کہنے پر اکتفا کرتے ہیں اور بالوں کو درازیِ شبِ ہجراں کا استعارہ دینے کے بجائے صرف لمبے بال کہہ دیا لیکن اس سادگی میں جو حسن ہے وہ اس تصنع اور مبالغے میں کہاں!
نظیر کی وہ نظمیں جو ’جنم کنہیاجی‘، درگا درشن، ہر کی تعریف اور مہادیو جی کے بیاہ کی روایتوں پر مشتمل ہیں، ہمارے ادب کا ایسا سرمایہ ہیں جس کا اطلاق اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے شعری ادب پر ہوتا ہے اگر وہ قواعد کی رو سے اردو سے متعلق ہیں تو ہندی اور برج بھاشا کے الفاظ کی کثرت اور موضوع کے اعتبار سے ہندی سے قریب ہیں۔ نظیر شاید وہ واحد کلاسیکی شاعر ہیں جن کے یہاں ہمیں اردو اور ہندی کے بیچ کھڑی دیوار گرتی نظرآتی ہے اور دونوں زبانیں شیر و شکر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں کیونکہ یہاں عربی وفارسی کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے بھی یہ منظومات محض کسی کی خوشنودی یادل دہی کے لیے کہی ہوئی نہیں ہیں اور نہ ہی ہندی الفاظ کے استعمال سے ان میں ہندوانہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ ان کے جذبے میں خلوص ہے، یگانگت ہے۔ اپنے موضوع کے تئیں نظیر پوری طرح مخلص نظر آتے ہیں اور ہر موضوع کو انھوں نے ڈوب کے برتا ہے جو نہ صرف ان کے دور کے ہندو مسلم اتحاد کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ آج کے دور کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ کرشن جی جو نظیر کو بہت ہی محبوب ہیں، ان کی شان میں نظیر کے جذبات قابل لحاظ ہیں نیز کرشن جی کے جتنے ناموں کا ذکر نظیر کے اس ایک بند میں ملتا ہے اس کی مثال غالباً ہندی ادب میں بھی نظیر سے پہلے کسی کوی کے ہاں ملنی مشکل ہے       ؎
نظم کا بند
تعریف کروں میں اب کیا کیا اس مرلی دھرن بجیّا کی
نت سیوا کنج پھریّا کی اور بن بن گوؤ چریّا کی
گوپال، بہاری، بنواری، دکھ بھرنا، مہر کریا کی
گردھاری، سندو، شیا، برن اور پنڈر جوگی بھیّا کی
یہ لیلا ہے اس نند لالن، من موہن، جسمت چھیا کی
رکھ دھیان سنو، ڈنڈوت کرو، جے بولو کرشن کنھیا کی
ایک طرف نظیر کا شہر آشوب پڑھیے جہاں چھتیس پیشے والوں کا کاروبار بند ہوچکا ہے۔ زوال پذیر معیشت کا دردناک نقشہ پیش کیا گیا ہے، جہاں امیر اور غریب یکساں طور پر متاثر اور بدحال نظرآتے ہیں اور دوسری طرف یہ تہوار میلے ٹھیلے، تیراکی، پتنگ بازی، کبوتر بازی، مرغ وبٹیر بازی، ریچھ کے بچے اور گلہری کے بچے کے تماشے ہیں۔ نظیر نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ عام آدمی سخت مشکلات کے دور میں بھی کس طرح زندہ رہنا سیکھ لیتا ہے اور پل بھر کو مسکرا کے سارے دکھ بھول جاتا ہے۔ نظیر کی شاعری اپنے عہد کے زوال پذیر معاشرے کے عیب اور ثواب کا ایسا اظہار ہے کہ جس کا بیان شاید کسی تاریخ کی کتاب میں بھی نہ ملے۔ تہذیب کے زوال کے ساتھ معاشرے میں جو عیوب پیدا ہوجاتے ہیں مثلاً طوائف گردی، بے شرمی، گالی گلوج کا زبان زد ہونا، شریفوں کی بدحالی اور زدیلوں کا عروج، غرض کون سا نکتہ ہے جو نظیر کے قلم کی گرفت سے چھوٹا ہو۔ لیکن اس کے باوجود نظیرکو آگرہ بہت عزیز ہے اور وہ اس کی بقا اور خوش حالی کے لیے دعا گو ہیں           ؎
شہر سخن میں اب تو ملا ہے مجھے مکان
کیونکہ نہ اپنے شہر کی خوبی کروں بیان
دیکھی ہیں آگرے میں بہت ہم نے خوبیاں
ہر وقت اس میں شاد رہے ہیں جہاں تہاں
رکھیو الٰہی اس کو تو آباد جاوداں
Dr. Nayeem Jafri Pasha
141, Ground Floor
Pocket 2, Jasola
New Delhi - 110025
Mob.: 9911802189
 ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں