28/2/20

’جدید تر غزل‘ نئی غزل کی تنقید کا نقش اول مضمون نگار: عبد السمیع




’جدید تر  غزل‘ نئی غزل کی تنقید کا نقش اول
عبد السمیع
خلیل الرحمن اعظمی کا مضمون ’’جدیدترغزل‘‘ ان چند تحریروں میں ہے جس نے نئی غزل کی تفہیم اور تجزیے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔بعد کے زیادہ تر مضامین اسی مضمون کا پرتو معلوم ہوتے ہیں۔جن اشعار کو خلیل الرحمن اعظمی نے بطور مثال درج کیا تھا وہ آج تک حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی ادب کے نہایت ذمے دار قاری اور نقاد تھے، لیکن ایسا کیا ہے کہ بعد کے بیشتر لکھنے والوں نے نئی غزل کے انتخاب میں اس ذمے داری ،ذہانت اور بصیرت کا ثبوت پیش نہیں کیا۔خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل پر کوئی کتاب نہیں لکھی مگر ان کا یہ مضمون مستقل ایک مکالمے کی حیثیت رکھتا ہے اور آج بھی اسے پڑھتے ہوئے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔معاصر ادب کے خط وخال اور صورت حال پر کچھ لکھنا ایک دشوار عمل ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے بھی اس دشواری کا اعتراف کیا ہے۔اپنے مضمون ’’جدیدترغزل‘‘کی ابتدا میں لکھتے ہیں:
’’جن شعری اور ادبی تخلیقات کا تعلق خود ہمارے زمانے، ہماری زندگی اور ہماری اپنی ذات سے بہت گہرا ہو اور جو رجحانات اپنی تشکیل و تعمیر کی ابتدائی یا درمیانی منزل میں ہوں ان کا معروضی مطالعہ اور ان کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے‘‘
 خلیل الرحمن اعظمی کا یہ رویہ نقاد کی نارسائی یا خوداعتمادی کی کمی کا اشاریہ نہیں ہے بلکہ ایک امکان کی طرف اشارہ ہے۔ ان کا یہ خیال درست ہے کہ معاصر منظرنامے پر قطعیت سے گفتگو کرنا بہت سی دشواریاںپیداکردیتا ہے۔ ایک زمانے کی حقیقتیں دوسرے وقتوں میں بدل جاتی ہیں اور اگر یکسر نہیں بدلتی ہیں تو ان کے تئیں تصورات میں تبدیلی ضرور آجاتی ہے۔میر، نظیراورغالب کی مثالیں سامنے کی ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی کا یہ مضمون ان کی تنقیدی خوداعتمادی کو پیش کرتا ہے۔جس زمانے میں جدیدترغزل یا نئی غزل کو صرف اینٹی غزل جیسی چیز قرار دے کر عام طور سے نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی ۔خلیل الرحمن اعظمی کے اس مضمون سے اس کا ایک اعتبار قائم ہوا۔ خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کے فکری و فنی امتیازات کو جس طرح واضح کرنے کی کوشش کی ہے اس میں ذہانت کے ساتھ ساتھ خلوص بھی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو نئی غزل کے اہم مباحث کئی دہائیوں تک ادبی منظرنامے کا حصہ نہ بن پاتے۔ نئی غزل پر گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمن اعظمی کسی بھی لمحے تعصب یا کسی قسم کے تحفظ کے شکار نہیں ہوئے۔مضمون کی ابتدا میں انھوں نے جس معذوری کا اظہار کیا ہے وہ اعتذار برائے اعتذار ہے۔ انھوں نے بہت توازن اور اعتدال کے ساتھ اپنے عہد کی غزلیہ شاعری کا محاکمہ کیا ہے۔نئی غزل کے امتیازات کی نشاندہی کرتے ہوئے وہ غزل کی روایت کو نگاہ میں رکھتے ہیں۔ انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ غزل اپنے ماضی قریب سے دور اور ماضی بعید سے نزدیک آگئی ہے:
’’نیا شاعر جس ذہنی کیفیت سے گزررہا ہے اور تہذیب کے جس دوراہے پر کھڑا ہے اس نے احساسات کے اعتبار سے اسے ماضی قریب کے شعرا سے دور اور ماضی بعید کے شعرا سے نسبتاً قریب کردیا ہے۔اس کیفیت میں اب اسے حالی، چکبست اور تلوک چندمحروم کی اصلاحی اور قومی شاعری ظفرعلی خاں اور اقبال کی ملّت پرستی، جوش کا نعرہ انقلاب، اخترشیرانی کی رومانیت، احسان دانش کی مزدور دوستی اور سردارجعفری کی اشتراکیت خاصی حدتک باسی اور پرانی لگتی ہے اور اس کے مقابلے میں میرکی دردمندی اور انسان دوستی، غالب کی تشکیک اور احساس شکست اور یگانہ اور فراق کی نفسیاتی پیچیدگی اور دھندلکے کی کیفیت زیادہ نئی اورحقیقی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
 نئی غزل کے شعرا  کے جس تخلیقی رویے کی طرف خلیل الرحمن اعظمی نے اشارہ کیااس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ سچ ہے کہ نئی نسل نے میر اور غالب کی اتباع کی ہے مگر کیا صرف اتباع اور پیروی کرنے سے کسی نئے اسلوب کی دریافت ممکن ہے۔نئی غزل کے نقادوں نے عام طور پر ناصر کاظمی کا رشتہ میر سے قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور دوسرے شعرا کو غالب اور آتش سے قریب بتایا ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی نئی غزل کے ذیل میں بار بار مسلک ، نصب العین اورتصور پرستی جیسی تراکیب استعمال کرتے ہیں۔وہ مسلک یا نصب العین کے منکر نہیں نظریاتی جبرکے خلاف ہیں۔ ان کا خیال  ہے کہ نظریاتی وابستگی نظر کو محدود کر دیتی ہے۔ایک تخلیق کار کی حیثیت سے انھیں یہ بھی احساس ہے کہ نظریاتی وابستگی اکثراوقات مصلحت اور سہل پسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
’’واقعہ یہ ہے کہ نظریے یانصب العین کا تصور انسان کے لیے ایک ایساسہاراہے جس نے اس کی دشواریوں کو بہت کچھ آسان بنائے رکھا ہے۔ کسی چیز کو رد یا قبول کرنے کے لیے ہمیں ایک بنا بنایا پیمانہ یا کسوٹی مل جاتی ہے اور ہم بہت سی زحمتوں سے بچ جاتے ہیں لیکن تخلیقی فن کار کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی لگی ہوئی ہے کہ ہرفنکار اپنی انفرادیت بھی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی اپنی عقل، اس کا اپناحواس اور اس کا اپنا ادراک بھی کام کرتا رہتا ہے۔ اگر فنکار اپنی عقل کو استعمال نہ کرے اور اپنے حواس یا ادراک کو کسی خارجی نظام کے تابع کردے تو اس سے زیادہ محفوظ راستہ اور کوئی نہیںہے ‘‘
یہ درست ہے کہ نظریاتی وابستگی فن کو محدود اور وقتی بنادیتی ہے۔ ادب کا رشتہ سماج سے تو ہوتا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جدیدتر ادب کے مقابلے میں افادی اور مقصدی ادب کو قاری زیادہ ملے۔   خلیل الرحمن اعظمی کایہ رویہ ترقی پسند وں کی ادعائیت کے خلاف احتجاج کی حیثیت رکھتاہے۔انھیں نظریاتی منصوبہ بندی کے مقابلے میںتخلیق کار کی آزادی اوراس کی انفرادیت زیادہ عزیز ہے۔ادیب و شاعر کے لیے وہ کسی بھی قسم کی فارمولہ بندی کو مہلک تصور کرتے ہیں۔جدیدترغزل انھیں اس لیے بھی عزیز ہے کہ اس عہد کے اکثر شعرا فارمولہ بندی سے بلند نظرآتے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
’’جدیدترشاعر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے اس نے مقررہ نظریوں، خانوں، فارمولوں اور نعروں سے اپنا دامن چھڑا لیا ہے اور کسی وقتی یاہنگامی مسلک یا نصب العین سے وابستگی کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ نہیں کرپاتا۔اس نے ان لکیروںاورپلوں کو توڑ دیا ہے اور زندگی کے ناپیداکنار سمندر میں داخل ہوگیا ہے۔وہ زندگی کی وحدت کو اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ دیکھنا ،برتنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ ‘‘
 خلیل الرحمن اعظمی نے اس مضمون میں کئی جگہوں پرجدیدترغزل کی انفرادیت کی طرف اشارے کیے ہیں۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے کے اکثر شعرا و ادبا نظریاتی ادعائیت کے قائل نہیں تھے اور اس لیے ترقی پسند تحریک کے خلاف تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک طرح کی ادعائیت ہی تھی۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس عہد کے تقریبا تمام اہم فنکارذات اور کائنات کی دوئی کو ختم کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔اصل معاملہ شعور کی بیداری اور آگہی کا ہے۔آزادی اور تقسیم ہند نے ترقی پسند تحریک کے تمام بلندوبانگ دعوے کی قلعی کھول دی۔آزادی اور تقسیم کے بعد کا عرصہ برصغیر کے باضمیرادیبوں کے لیے ذات کی شکست وریخت اور تقسیم ذات سے پیدا شدہ کرب اور تنہائی کا زمانہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کا شاعر میر کے دردمند لہجے میں بات کرنے لگا ۔ خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کی خصوصیات کا ذکر کرنے سے پہلے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ نئی غزل کے امتیازات صرف اسی عہد سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اس کے نمونے مل جاتے ہیں۔ مگر اس کی مقدار بہت کم ہے اور یہ خصوصیات انفرادی طور پر اہم کلاسیکی شعرا کے یہاں موجود ہیں مگر انھیں رجحان کی شکل میں نئی نسل نے پیش کیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کا رشتہ ماضی قریب اور ماضی بعید دونوں سے قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے میر، غالب، یگانہ،شادعارفی اور فراق کو خاص طور پر یاد کیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی جدیدترغزل کو اردو کی غزلیہ روایت میں کوئی انوکھی اور بالکل نئی چیز نہیں سمجھتے۔لیکن وہ اسے علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک کے زیراثر لکھی گئی غزل سے منفرد ضرور قرار دیتے ہیں۔انھیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ فارمولہ بندی اور سکہ بند تصورات و نظریات کی شاعری تادیر قائم نہیں رہتی۔نظریاتی جبر سے فنکار کی ذاتی اور شخصی صلاحیتیں دم توڑدیتی ہیں اور آگہی کی آنچ معدوم ہوجاتی ہے۔فنکار نظریے کے ہاتھ میں روبوٹ بن کر رہ جاتا ہے۔خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے کہ فنکار کو ٹولیوں اور طبقوں میں بٹ کر نہیں رہنا چاہیے۔ انسانیت اور اقدار آدم کا پاس ضروری ہے۔خلیل الرحمن اعظمی جس عہد سے تعلق رکھتے ہیں اس میں طبقاتی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی سب سے زیادہ کوشش ہوئی۔ نتیجے میں ایک خاص طبقے کو طعن وتشنیع کا ہدف بنایا گیا۔ کرشن چندر نے اپنے افسانہ مہالکشمی کا پل میںتو وضاحت بھی کردی کہ زندگی پل کے ایک طرف ہے اور اسی کی طرف دھیان دینا چاہیے۔لیکن نئی نسل کے شعرا کے یہاں یہ لکیر مٹ گئی ہے اسے زندگی پل کے دونوں طرف نظر آتی ہے۔نئی نسل نے جب خود پر اور اپنے پیش روئوں پر تنقیدی نظر ڈالی تو اسے احساس ہوا کہ طبقاتی کشمکش میں فرد کی انفرادیت اور ذات کا تشخص معدوم ہوگیا ہے۔ اسے مختلف طبقوں میں منقسم افراد تو نظر آئے مگر ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو اپنی جڑوں سے کٹ چکے تھے۔نئی نسل کو اپنی ذات اور اپنی شناخت کی تشکیل کے لیے اپنے پیش روئوں سے کوئی مدد نہیں ملی۔    نئی نسل نے اپنی جڑوں کو پھر سے تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس عمل میں اس نے اپنا رشتہ کسی طبقے سے نہیں بلکہ انسانیت سے جوڑدیا۔خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
’’نئے شاعر نے واعظ ہی نہیںعاشق، رند، رومانی،باغی، مبلغ، مجاہد، انقلابی اور اشتراکی سب کے نسب نامے کو پھر سے ایک بار آدم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے اور آدمی کے چہرے سے اوپری خول اتار کر اس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جدیدترشاعروں کی ایک نسل ایسی پیدا ہوچکی ہے جو انکار واثبات کے دوراہے پر اپنی شخصیت اور اپنے ذہن کو پارہ پارہ ہوتے دیکھ رہی ہے۔ یہ نسل جو نہ کافر ہے نہ مومن۔ زندگی، زمانہ، انسان، تہذیب، اور کائنات کی ہر آن بدلتی ہوئی متحرک اور تغیر پذیر حقیقت کو سمجھنا چاہتی ہے۔ وہ انسان اور فطرت، جماعت اور فرد، محبت اور نفرت، ظاہر اور باطن، غم اور مسرت، زندگی اور موت، کفر اور ایمان کے ناگزیر لیکن بدلتے ہوئے رشتوں کو سمجھ کر زندگی کے آہنگ کو دریافت کرنا چاہتی ہے۔‘‘
خلیل الرحمن اعظمی نے نئی نسل کوباشعور اور بیدار ذہن قرار دیا ہے۔ انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ نئی نسل اپنے پیش روئوں سے زیادہ حساس اور ذی شعور ہے۔ یہ آنکھ بندکرکے آمنا و صدقنا کہنے والی نسل نہیں بلکہ اس میں انکار کی جرأت بھی موجود ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کے سات واضح امتیازات کی طرف اشارے کیے ہیں۔ انھوں  نے نئی غزل کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی غزل کسی بھی قسم کے لیبل کو قبول نہیں کرتی۔ انھوں نے نئی غزل کی اس خصوصیت کا ذکر بار بار کیا ہے۔ اس کا ذکرکبھی شاعر کے حوالے سے کرتے ہیں تو کبھی فن پارہ کے حوالے سے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’جدیدترغزل کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس غزل پر آپ کسی قسم کا لیبل نہیں لگاسکتے۔ نہ کسی ایک صفت یا کیفیت کے دائرے میں اس کو مقید کرسکتے ہیں۔ اس لیے گزشتہ دور کے غزل گویوں کی طرح اس دور کے غزل کہنے والوں کو آپ ان اصطلاحوں کی مدد سے نہیں سمجھ سکتے  جیسے صوفی شاعر،رندشاعر، خمریات کا شاعر، عشق حقیقی کا شاعر، عشق مجازی کا شاعر، ہوس ناکی اور معاملہ بندی کا شاعر، سیاسی شاعر، غم جاناں کا شاعر، غم دوراں کا شاعر، قنوطی شاعر، رجائی شاعر، زبان و محاورے کا شاعروغیرہ کہہ کر پہلے ہم خود سمجھتے اور دوسروں کو سمجھایا کرتے تھے۔‘‘
کلاسیکی غزل پڑھتے ہوئے مذکورہ اصطلاحیں یاد آتی ہیں بلکہ بعض شاعروں کا نام لیتے ہی ان سے منسوب تراکیب ذہن میں آجاتی ہیں۔کلاس روم اور تشریح و تفہیم کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔وہاں بعض اوقات اصطلاحوں کے بغیر کام نہیں چلتا مگر جدیدتر غزل کے مطالعے اور تفہیم میں مذکورہ اصطلاحیں ہماری مدد نہیں کرتیں۔ خلیل الرحمن اعظمی کے اس اقتباس میں اردو شاعری اور شعرا سے منسوب تقریبا تمام اصطلاحیں سمٹ آئی ہیں۔ انھیں کو اس بات کا احساس ہے کہ اردو میں رائج اصطلاحیں نئی غزل کی تفہیم اور تجزیے کے لیے کافی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نئی غزل کی تفہیم کے لیے نئی اصطلاحوں کی ضرورت ہے ۔خلیل الرحمن اعظمی نے ایک طرح سے نئی غزل کے نقاد اور قاری کو چیلنج کیا ہے کہ اب پرانی اصطلاحوں سے کام نہیں چلے گا۔ان کے اس نکتے کی وضاحت ان کے اس اقتباس سے ہوتی ہے:
’’آج کی شاعری کا مطالعہ اور رائے زنی کے لیے زبان وبیان کے بندھے ٹکے اصولوں سے نصابی قسم کی واقفیت یا چند نظریوں کا کتابی اور اخباری علم ہی کافی نہیں، خود قاری اور نقاد کے لیے زندگی اور زندگی کے لاتعداد تجربوں میں شمولیت اور ادراک و احساس بہت ضروری ہوگیاہے۔ اس لیے اب کتابی اور نظریاتی تنقید کی نارسائی کا احساس عام ہوتا جارہا ہے۔ مخلص، دردمند، حساس اور باذوق اور زندگی کا پارکھ ہونا پہلے صرف شاعروں کے لیے ضروری سمجھاجاتا تھا لیکن اب شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے یا اس کا محاکمہ یا تبصرہ کرنے کے لیے قاری و ناقد کو بھی اپنے اندر یہ خصوصیتیں پیدا کرنی پڑیں گی۔ شاعر اور قاری یا شاعر اورنقاد کا رشتہ اب زیادہ فطری اور حقیقی ہوگا اور ہونا چاہیے۔ ‘‘
نئی غزل کی تفہیم و تحسین کے لیے قاری اور نقاد کو بھی زندگی کے ان تجربوں کا علم ضروری ہے جن سے شاعر گزرا ہے۔نئی غزل کاقاری اس نکتے سے بہت بعد میں واقف ہوا۔ جس زمانے میں نئی غزل شروع ہوئی اسے ترسیل کی ناکامی کا عہد بھی کہا جاتا رہا ہے۔اس عہد کے اکثر شعرا سے یہ شکایت رہی کہ ان کی شاعری سمجھ میںنہیں آتی۔ خلیل الرحمن اعظمی نے یہاں جس نکتے کی جانب توجہ دلائی ہے وہ بہت اہم ہے۔نئی غزل کا شاعر اپنے قاری اور نقاد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی زندگی کے مختلف تجربوں میں اس کا ہمسفر بنے اور اس کی تخلیقات کو ماضی کی فرسودہ کسوٹی پر پرکھنے کی زحمت نہ کرے ورنہ ترسیل کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔اس میں شک نہیں کہ اکثر اوقات ترسیل کا مسئلہ تخلیق کار خود پیدا کرتا ہے مگر کبھی قاری کی ذہنی سطح بھی اسے مسئلہ بنادیتی ہے۔ اسی لیے خلیل الرحمن اعظمی نقاد اور قاری دونوں کے لیے شاعر کے تجربوں کا حصہ بننا ضروری قرار دیتے ہیں ۔
 خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کی دوسری اہم خصوصیت یہ بتائی ہے کہ نئی غزل میںعشق کو پہلی سی مرکزیت حاصل نہیں ہے۔ نئی نسل کے مسائل عشق کے سوا اور بھی بہت کچھ ہیں۔ اس سلسلے میںوہ لکھتے ہیں:
’’اگر ہم جدیدتر غزل میں صرف ان جذبات و محسوسات کو دیکھنے کی کوشش کریں جن کا تعلق عشق و محبت سے ہے تو ہمیں یہاں نئے شاعر کا رویہ خاصا بدلا ہوا نظر آئے گا۔ زندگی میں عشق کی مرکزیت اور اولیت سے انکار کی روایت تو ہمیں غالب کے یہاں ملتی ہے اور یگانہ و فراق نے بھی اس تصور پر خاصی ضرب لگائی ہے لیکن جدیدترغزل میں یہ تصوراور بھی سیال ہوگیا ہے اور زندگی کے لاتعداد مسائل میں یہ لفظ کبھی تو نظرآتا ہے اور کبھی خودشاعر کو اس کے موہوم ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ‘‘
 ابتدا سے ہی عشق اردو غزل کا مرکزی موضوع رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے کلاسیکی شعرا نے عشق کو زندگی کا حاوی جز تسلیم کیا تھا بلکہ انھیں عشق ہی میں کائنات کے اسرار ورموز پنہاں نظر آتے تھے۔ رفتار زمانہ کے ساتھ عشق کے تصور میں بھی تبدیلی آئی۔اگر جدیدترنسل عشق کی مرکزیت سے انکاری ہے تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔انھیں یہ انکار ورثے میں ملاہے۔ پہلے پہل غالب پھر یگانہ اور فراق عشق کی مرکزیت اور انفعالیت سے انکار کی جرأت کر چکے تھے۔نئی نسل نے اسے اپنی غزل کا حاوی رجحان بنادیا۔نئی نسل غزل میں عشق سے یکسر منحرف یا انکاری تو نہیں ہے مگر اسے یہاںپہلی سی مرکزیت بھی نہیںرہی۔ خلیل الرحمن اعظمی نئی نسل کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’وہ محض انسان ہے، ایسا انسان جو متضاد عناصر سے مل کر بناہے اور متضاد کیفیتوںسے گزرنا اس کا مقدر ہے وہ ایک ایسا مسافرہے جسے کسی منزل پر قرار نہیں، اندھیرے، اجالے، محبت، نفرت، غم و مسرت،ہجرووصال، قربت ودوری کی بدلتی ہوئی نسبتوں کی وجہ سے ہر آن اسے زندگی کی پیچیدگیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس لیے اس کے یہاں ایک غباراور دھندلکے کی سی کیفیت ہے۔ اس کیفیت نے جدیدترشاعری کو چند جہتوں سے آشنا کیا ہے۔‘‘
 خلیل الرحمن اعظمی نئی نسل کے لیے انسان اور آدم جیسے الفاظ بار بار استعمال کرتے ہیں۔ نئی نسل کی شاعری میں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جس کے لیے وہ انسانیت اور آدمیت جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔اصل میں علی گڑھ تحریک اور جدید شاعری(افادی شاعری)کے بعد تقریبا سو برس تک ایک جیسے افکار و خیالات شعروادب میں حاوی رہے۔ آزادی کے بعد جب افکار ونظریات کا طلسم ٹوٹا تو انسان اپنی فریب نظر سے آشناہوا۔جب اسے زیاں کااحساس ہواتو اس نے اپنی ذات کے نہاں خانوں میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اسے کامیابی بھی ملی اور ناکامی بھی۔ لیکن یہ ناکامی ابتدائی تجربے کی حیثیت رکھتی ہے جس پر ایک ہے رجحان کی بنیاد پڑی۔اسی لیے خلیل الرحمن اعظمی کو نئی غزل میں انسان اور آدم نظرآتاہے کہ یہاں انسان اپنی فطری صورت میں جلوہ گر ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ناصر کاظمی، شاذتمکنت، وحیداختر، عزیزحامدبرنی،سلیم احمد، حسن نعیم، شہریاراور بشیربدر کے اشعار نقل کیے ہیں۔اشعار درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہ اشعارنہ وفاداری سے تعلق رکھتے ہیں نہ بے وفائی سے، پھر بھی حقیقی معلوم ہوتے ہیں اور ان میں محبت کی کسک ملتی ہے نہ صرف حسن و عشق بلکہ زندگی اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ آج کے شاعر کے ہاتھ میں ایک الجھے ہوئے دھاگے کی طرح ہے جسے وہ سلجھانا چاہتا ہے۔وہ ذات اور کائنات کے رشتے کو سمجھ کر اس کے حدود کا تعین کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے آج کی غزل میں ماحول، فطرت اور اس کے مظاہر علامت بن کر سامنے آتے ہیں۔ ‘‘
 خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کی ایک خصوصیت یہ بھی بتائی ہے کہ یہ غزل انسانی زندگی اور اس کے ماحول کے رشتوں اور رابطوں کو بالکل نئے انداز میں دیکھتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے انھوں نے نئی غزل کے 18 شعرا کے مختلف اشعار درج کیے ہیں۔جن میں زندگی اور کائنات کو نئی حسیت کے ساتھ دیکھنے اور برتنے کی کوشش نظر آتی ہے۔اشعار نقل کرنے کے بعد  خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
’’یہ غزل انسانی زندگی اور اس کے ماحول کے رشتوں اور رابطوں کو بالکل نئے انداز میں دیکھتی ہے۔ اس غزل میں داخلیت اور خارجیت کی حدیں ختم ہوگئی ہیں اور شعر میں معنی کی کئی سطحیں ابھرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ان اشعار میں قافیوں کی رعایت سے پرانے مضامین یا عشق و عاشقی کی کیفیات کو لفظی الٹ پھیر کے ساتھ دہرانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ان میں وہی کیفیتیں ہیں جن سے آج کا شاعر دوچار ہے اور ان کے اندر سایوں اور دھندلکوں کی وہی آویزش ہے جو آج کے انسان کا مقدر ہے‘‘
 خلیل الرحمن اعظمی کو نئی غزل میں موجود انسان اور اس کے رابطوں کی گہرائی اور پیچیدگیوں کا گہرا احساس ہے۔ انھیں یہ بھی احساس ہے کہ انسان اب تک مختلف خانوں میں بٹا رہا ہے۔ترقی پسندتحریک نے جس ادب کی پرورش کی اس سے انسانوں کے دو واضح طبقے سامنے آتے ہیں۔ دونوں طبقے ایک دوسرے سے بر سرپیکار تو ہیں لیکن دونوں کے درمیان کوئی اشتراک کا پہلو نظر نہیں آتا۔نئی غزل نے دونوں کی انفرادیت کو قبول کرتے ہوئے دونوں میں خود آگہی  پیدا کرنے کی کوشش کی۔ نئی غزل کا شاعر دراصل انسان کی انفرادیت اور اس کے ذاتی مسائل کا نہ صرف ترجمان ہے بلکہ وہ خود ان مسائل سے دوچاربھی ہے۔نئی غزل نے فرد کے اندر شعور اور ذمے داری کا احساس عام کیا ہے۔ اس نے فرد کو داخلی طور پر خودکفیل اور خودمختار بنانے کی کوشش کی۔نئی غزل نے انسان میں انسانیت اور فرد میں انفرادیت قائم رکھنے کے رجحان کو فروغ دیا۔اس نے صرف رویے اور موضوع کی سطح پر انفرادیت کا تقاضا نہیں کیا بلکہ اسلوب میں بھی اپناانفراد قائم کرنے کی کوشش کی۔ خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے:
’’اس غزل میں ہمیں ایک فضا اور ایک نیا ذائقہ ملتا ہے۔ اس غزل میں پرانی علامتوں کی تکراراور گھسے پٹے تلازموں کے بجائے تازہ تر علامتیں اور الفاظ کے نئی تلازمے ملتے ہیں۔یہ الفاظ اور علامتیں ہمیں ہر جگہ زندہ اور محسوس شکل میںدکھائی دیتی ہیں۔ دن، رات، اندھیرا، اجالا، سورج، چاند، شام، سناٹا، تنہائی، چراغ، ہوا، دھوپ، آواز، گھر، دریچہ، کمرہ،  دروازہ، دستک، سڑک، راستہ، دھند، دھواں، چہرہ، سایہ، پرچھائیں، درخت، پتا، ٹہنی، فصیل، حصار، سمندر، بادبان، جزیرہ، ابر، پتھر،خاک، ریت، راکھ اور اس طرح کے بہت سے الفاظ غزل میں ایک نئی معنویت کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس طرح کہ غزل کی لفظیات اور اس کی مخصوص فضا بالکل بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘
نئی غزل کے شاعروں نے جس طرح کی لفظیات کا سہارا لیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ غزل کے موضوع کی طرح غزل کے کچھ الفاظ مخصوص تھے انہی کے سہارے غزل کی تعمیر وتشکیل ہوتی رہی ہے۔نئے الفاظ اور علائم کا ستعمال بھی بہت کم ہواکرتا تھا۔ جدیدترغزل نے پرانی علامتوں سے بھی استفادہ کیا ہے مگر انھیں اپنی الجھنوں کے اظہار کے لیے نئے الفاظ اور علامتوں کی ضرورت تھی۔انھوں نے نئی علامتوں کو اختیار کرنے کے لیے تقلیدی روش کے بجائے اجتہادی طریقۂ کار کو اختیار کیا۔ خلیل الرحمن اعظمی نئی نسل کے اس اجتہادی رویے سے متعلق لکھتے ہیں:
’’جدیدترشاعر نے پرانی علامتوں کو اپنی ذہنی کیفیات کے اظہار کے لیے ناکافی سمجھ کر خود اپنے ماحول اور زندگی سے علامتیں وضع کی ہیں اور اس نے اس سلسلے میں خود اپنے حواس خمسہ کو اپنا رہنمابنایاہے۔اس عمل میں اردو غزل اپنی دھرتی سے بہت قریب آگئی ہے۔ اس کی عجمیت، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ فارسی غزل کا چربہ سمجھی جاتی تھی اب قریب قریب ختم ہوگئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اردو غزل کی تاریخ میں یہ ایک اگلا قدم ہے۔‘‘
یہ درست ہے کہ اردو غزل پر فارسی کا اثر زیادہ رہاہے اور اردو غزل لفظیات کی سطح پر عام طور سے ہندوستانی زمین سے بامعنی رشتہ قائم کرنے میں بہت کامیاب نہیں رہی ہے۔ لیکن موضوع اور فکر کی سطح پر وہ ہمیشہ سے اپنی مٹی اور تہذیب میں پیوست رہی ہے۔ جدیدترغزل کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اردو غزل کو اسلوب اور موضوع کی دوئی کو مٹاکر ایک اکائی میں تبدیل کر دیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کو اردو غزل کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ بتایا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نئی غزل نے اردو کی غزلیہ روایت میں قابل قدر اضافے کیے ہیں لیکن نئی غزل بعض اوقات فیشن اور فارمولہ بھی بن کر گئی ہے۔
نئی غزل کا ایک اہم واقعہ اینٹی غزل بھی ہے۔ اسے عام طور سے ظفراقبال اور سلیم احمد سے منسوب کیا جاتاہے۔ظفراقبال اور سلیم احمد نے تو اینٹی غزل کے کچھ اچھے نمونے بھی پیش کیے مگر تتبع میں دوسرے شعرا نے نئی غزل کو بدنام بھی کیا۔خلیل الرحمن اعظمی نے اپنے مضمون ’’جدیدترغزل‘‘ میں نئی غزل کے مثبت پہلوئوں پر زیادہ زور دیا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نئی غزل کی خامیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مثبت پہلوئوں پر زور دینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اس زمانے میں      نئی غزل کے منفی پہلوئوں پر گفتگو عام ہوچکی تھی اور سنجیدگی سے نئی غزل کو پڑھنے یا سمجھنے کی کوشش بہت کم ہوئی تھی۔خلیل الرحمن اعظمی نے منفی غزل پر بہت اچھی گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ہم نے جدیدترغزل کے خدوخال ابھارنے میں جس پہلوپر زیادہ توجہ صرف کی ہے وہ اس کا مثبت پہلو ہے۔جدیدتر غزل کایہ لہجہ اور یہ ذائقہ اس نئے طرزاحساس کی پیداوارہے جس سے آج کا شاعر دوچار ہے مگر جدیدترغزل کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کی طرف مختصرطورپراشارہ کردیناضروری ہے۔ یہ میلان دراصل ایک طرح کی منفی غزل(Anti Ghazal)کو رواج دینے کا ہے۔منفی غزل میرے نزدیک وہ غزل ہے جو غزل کے اندرونی اور باطنی آہنگ اور اس کے مخصوص رمزیاتی اور ایمائی طریق کار کو چھوڑ کر خارجی اور غیررمزیاتی انداز بلکہ ایک نوع کی برہنہ گفتاری کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ایسی غزلوں میں ایسا بیانیہ پیرایہ ملتا ہے جو اسے اکہری شاعری بنا دیتا ہے اور غزل کی پہلوداری اور تہہ داری کو جو اس صنف کا ایک نمایاں اور قابل قدروصف ہے صدمہ پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے اس طرح کی غزل نے انشا کے ہاتھوں اپنے رنگ و روپ کو نمایاں کیا۔ بعد میں چل کر یہی خارجیت اور لکھنؤ کی خارجی غزل میں تبدیل ہوئی۔‘‘
خلیل الرحمن اعظمی نئی غزل کے ایک اہم اور بدنام اسلوب’ منفی غزل‘ کو اردو کی غزلیہ روایت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ان کے مطابق منفی غزل اصلا لکھنؤ کی خارجیت اور انشا و جرأت کی روایت کی تجدید ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی اسے ٹھوس لہجہ اور صلابت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں  اور توازن کے ساتھ اس غزل کے امکان سے انکار نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں انھوں نے یگانہ اور شادعارفی کی مثال پیش کی ہے۔ مگر وہ غزل کے لیے اس کے رمزیاتی اور ایمائی اسلوب کو ہی زیادہ بامعنی قرار دیتے ہیں۔انھیں یہ بھی لگتا ہے کہ ظفر اقبال اور سلیم احمد نے منفی غزل یگانہ اور شاد عارفی کی تقلید میں شروع کی تھی۔ لکھتے ہیں:
’’بعض شعرا کا خیال تھا کہ غزل ضرورت سے زیادہ داخلی ہونے کی وجہ سے انفعالیت کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اسے مردانہ لہجہ اور صلابت عطا کرنے کے لیے اس خارجیت کو بھی ایک حد تک اپناناچاہیے۔ یگانہ اور شادعارفی نے اس عنصر کو اپنی غزل میں ایک بار پھر جگہ دی جدیدغزل گویوں میں سلیم احمد اور ظفراقبال نے یگانہ اور شاد کی اس خصوصیت کو اپنانے کی کوشش کی۔معلوم نہیں شعوری طور پر یا غیرشعوری طور پر، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ شعوری طور پر، اس لیے کہ اس شعرا کو خالص خارجیت نے کچھ زیادہ فائدہ نہیں پہنچایاہے۔ البتہ وہ داخلیت اور خارجیت کے امتزاج اور غزل کے مخصوص رمزیاتی پیرائے کو برقرار رکھتے ہیں تو ان کی غزل کے اشعار کندن کی طرح دمکتے ہیں۔ ‘‘
خلیل الرحمن اعظمی منفی غزل کو اردو غزل کی روایت کا حصہ تو کہتے ہیں مگر اس کے لیے وہ زبان و فن پر کامل قدرت کی شرط بھی لگاتے ہیں ورنہ اشعار تک بندی ہوجائیں گے ۔ اس سلسلے میں وہ اس رجحان کو بھی غلط قرار دیتے ہیں جس کا تعلق تخلیقی جبر کے بغیر انگریزی الفاظ کی پیشکش سے ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نئی غزل صرف انگریزی کے الفاظ باندھ دینے سے نہیں بنتی بلکہ اس کے لیے نئی آگہی اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔نئی غزل کے شعرا کا میلان منفی غزل کی طرف بہت زیادہ تھا۔ لیکن اس رجحان سے اردو غزل کا کوئی بڑا فائدہ ممکن نہیں تھا۔ اسی لیے خلیل الرحمن اعظمی نے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا ہے جس کا تعلق منفی غزل کے رجحان سے ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ظفراقبال اور سلیم احمد دونوں ذہین شاعر ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ وہ بہت جلد اس منزل سے گزر جائیں گے مگر اندیشہ دراصل ان بے چارے نئے شعرا کی طرف سے ہے جنھوں نے اپنی سادگی سے اسی طرز کو جدیدترغزل کا نسخہ سمجھ لیا اور نہ صرف اس کے چربے اڑارہے ہیں بلکہ انھوں نے اس طرز کو مکمل طور پر اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے اور اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بڑی نئی غزل لکھ رہے ہیں۔‘‘
  خلیل الرحمن اعظمی نے بہت ہی توازن کے ساتھ منفی غزل پر اپنی رائے دی ہے۔وہ اسے اردو کی غزلیہ روایت کا ایک اسلوب تو کہتے ہیں مگر اس نئی غزل میں اس کی جوپامالی ہوئی ہے اس سے وہ برہم بھی ہیں۔خلیل الرحمن اعظمی نے اپنے اس مضمون میں سینتالیس نئے شعرا کے اشعار درج کیے ہیں۔ ان اشعار کی مدد سے انھوں نے نئی غزل کے خد وخال ابھارنے کی کوشش کی ہے۔اس سلسلے میں ایک بات بہت دلچسپ یہ ہے کہ نئی غزل کے تعلق سے بعد میں جتنی تحریریں سامنے آئیں ان میں حوالے کے طور پر زیادہ تر انھی اشعار کو پیش کیا گیا جنھیںخلیل الرحمن اعظمی اپنے اس مضمون میں پیش کر چکے تھے۔
خلیل الرحمن اعظمی مختلف شعرا کے اشعار نقل کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’میرے ناچیز خیال میں نئی غزل کا حقیقی لہجہ یہی ہے اور اسی راستے سے ہمارے شعرا اپنی تخلیقی منزل کو پاسکتے ہیں۔معیاری غزل کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی روح سے ہم آہنگ ہونے کے سبب ایک نوع کی تازگی رکھتی ہو مگر اپنے زمانے کے حصار میں اس قدر محصور نہ ہو کہ آنے والا کل اسے پرانی بنادے۔کلاسیکی غزل سے اس کی وابستگی کسی نہ کسی حد تک ضروری ہے۔اس کا باطن اس دائمی اور آفاقی روح سے ہم آہنگ ہو جو شاعری کو دیرپا اور مستقل حیثیت کا حامل بناتا ہے تو نئی غزل کی حیثیت سے بھی وہ معتبر سمجھی جائے گی۔‘‘
 خلیل الرحمن اعظمی نے مضمون کے آخر میں جس اہم نکتے کی طرف نئی نسل کی توجہ مبذول کرائی ہے وہ نکتہ ہر عہد کی نسل کے لیے اہم ہے۔ کوئی بھی فن پارہ اس وقت تک بامعنی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس میں روح عصر موجود نہ ہو۔ لیکن صرف روح عصر کی عکاسی فن پارے کو وقتی اور ہنگامی بھی بناسکتی ہے۔ اس لیے اس میں کلاسیکی اقدار کی ضرورت بھی ہے۔خلیل الرحمن اعظمی کو یہ احساس ہے کہ جب تک کوئی شعر زمان و مکان کے حدود کومسمار نہ کردے اس کی اہمیت مسلم نہیں ہو سکتی۔ نئی غزل اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ یہاں زمان ومکان کی حدیں معدوم ہوجاتی ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی نے اپنے مضمون میں نئی غزل کو جس طرح سے پیش کیا ہے اس سے معاصر تنقیدبہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ نئی غزل کی کوئی گفتگو ان کے اس مضمون کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ نئی غزل کی تنقید کے تعلق سے اعظمی صاحب کے اس مضمون کی حیثیت نقش اول کی ہے اور کئی اعتبار سے نقش آخر بھی۔

Mr. Abdus Sami
 Research Scholar
Jawaharlal Nehru University, Delhi-67

Note:   (Now he is an assistant Professor in BHU)

سہ ماہی فکر و تحقیق
 جنوری تا مارچ 2013 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں