2/3/20

نئی غزل اور تانیثی حسیت مضمون نگار: شاذیہ عمیر



نئی غزل اور تانیثی حسیت
شاذیہ عمیر
نئی غزل سے مراد بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد کی غزل ہے۔ اس عہد میں جینے والوں کے مسائل اپنے پیش رو سے بالکل مختلف ہیں۔ آج پوری دنیا ایک چھوٹے سے کمپیوٹر چپس میں سمٹ گئی ہے۔سائنس اور ٹکنالوجی نے انسانی وجود کو اس طور بے وقعت وبے توقیر کردیا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب چہار سو گوشت پوست کے انسان کے بجائے دھاتوں سے بنے روبوٹ چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالس، ہائی ٹیک سیٹی اور ایسے دوسرے بے شمار جدید ادارے اور بلڈنگس سے نیچے اتر کر جیسے ہی زمین پر رہنے والی مخلوق سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا واقعی ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں اور تہذیب کی بلند وبالا چوٹی جس پر چڑھ کر ایک طویل عرصے سے مہذب ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟
اس کے لیے سب سے پہلے عورت کے حال واحوال کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ جس ملک میں عورت کی سماجی اور اقتصادی حالت بلند ہوگی وہی ملک ترقی یافتہ کہلانے کا مستحق ہے۔ آج جب تانیثیت کا اثربڑھ رہا ہے۔ ’عورت‘ کا بحیثیت صنف مطالعے کے رجحان میں بھی تیزی آرہی ہے۔ لہٰذا تانیثی تنقید کا پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ عورت ہی عورت کو سمجھ سکتی ہے گویا عورت کے بارے میں مردوں کے رائج تصورات، نظریات اور تحریریں ناقابل اعتبار ہیں۔ دوئم یہ کہ عورت اپنے سماج اور دنیا کے بارے میں ایسی بہت سی باتیں دیکھ  لیتی اور محسوس کرلیتی ہے جو مردوں کی نگاہوں سے او جھل ہوتی ہیں۔مزید ایک ہی وقت میں دونوں کے ذہنی رویے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ان نظریات وافکار کے زیر اثر اردو شاعری میں بھی تانیثی حسّیت روز بہ روز زور پکڑتی جارہی ہے اورنظموں کے ساتھ ساتھ اردو غزل نے بھی بڑی فراخ دلی سے ان تمام مسائل کو اپنے وجود میں سمویا ہے۔ جن شاعرات کے یہاں تانیثیت کی لَے اپنے پورے شدومد کے ساتھ ابھری ہے ان میں ادا جعفری، زہرہ نگاہ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، نسیم سید، شاہدہ حسن،عذرا پروین اور شہناز نبی کا نام خاص طورسے قابل ذکر ہے لیکن اس سے قبل اس پورے تناظر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جس نے ان شاعرات کو وہ جرأت رندانہ عطا کی کہ وہ برصغیر کے مرد اساس معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کے مطالبے پر آمادہ ہوئیں جن کے سامنے جھکی ہوئی گردن تک اٹھانا باعث تقصیر تھا۔
اردو غزل کی سات سو سالہ تاریخ میں عورت کی شمولیت پر نظر ڈالی جائے تو وہ ابتدا سے ہی بطور موضوع تو موجود رہی مگر بطورشاعرہ کم ہی نظر آتی ہے۔1798 میں دکن کی مشہور مغنیہ ماہ لقہ چندا بائی کا دیوان تو مرتب ہوا لیکن اشرافیہ طبقے کی عورتیں علم وادب کی دنیا سے دور دور ہی رہیں۔کیونکہ قلم وکتاب سے ناطہ رکھنا بازارِ حسن کی عورتوں کا شیوہ قرار دیا جاتا رہا ۔یہی وجہ ہے کہ قدیم تذکروں میںجن شاعرات کا ذکر ہے وہ سب زیادہ تر طوائف ہیں جب کہ اشرافیہ طبقے کی شاعرات کو نظر انداز کردیا گیا ۔
19ویں صدی کی ابتدا کے ساتھ مغربی تہذیب وتمدن نے برصغیر کے اس معاشرے پر قدغن لگانا شروع کردیا جہاں عورتیں ہزاروں برس سے مرد کردار کی محض پرچھائیں بن کر جیتی چلی جارہی تھیں۔نتیجہ عورت کے وجود میں جیسے ہی پہچان کاکوندا لپکا، یہ اپنی شناخت کی جدوجہد کے لیے نکل پڑیں۔ اور یہ صیغہ تذکیر کو بیک جنبش قلم مسترد کرتے ہوئے صیغۂ تانیثیت کا استعمال کرنے لگیں۔ بیسویں صدی میں یہ رجحان مزید پروان چڑھا۔ امتہ الرؤف، نجمہ تصدق، سعیدہ جہاں مخفی، رفیعہ بانو مضمر وغیرہ  نے نسائی لب ولہجے میں اظہار کرنے والی اولین شاعرات ہیں جن کے نقش ِپا نے آگے چل کر تانیثی حسیت کی علم بردار شاعرات کی ایک پوری کائنات مزین کردی۔
ان میں سب سے اول نام ادا جعفری کا ہے جنھوں نے آزادی کے فوراً بعد ادبی حلقے میں اپنی ایک الگ شناخت بنانے کی سعی کی اور اس میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ اگرچہ ان کی غزلیں روایت سے پوری طرح بغاوت کی طرف تو قدم بڑھاتی نظر نہیں آتیں لیکن مرد معاشرے میں ان کی آواز مروجہ رسم ورواج سے انحراف و احتجاج کی طرف مائل ضرور دکھائی دیتی ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
ادا میں نکہت گل بھی نہ تھی صبا بھی نہ تھی
کہ مہماں سی رہوں اور اپنے گھر میں رہوں
صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت انساں
میں جنت انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں
یہی خطا کہ پجارن تھی اور نہ دیوی تھی
بڑی خطا یہ تھی کہ خود کو میں نے چاہا تھا
(ادا جعفری)
یہ اور اس قبیل کے دوسرے اشعار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ادا کے یہاں احتجاج اور مزاحمت کی لَے مستقل نہ سہی لیکن وقفے وقفے سے جگنو کی طرح روشن ہوتی رہی ہے جو بعد ازاں ایک شعلۂ جوالہ میں تبدیل ہوگئی۔
زہرہ نگاہ کے ابتدائی دور کی غزلوں کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے نرم گلابی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بڑی ہی طمانیت وسرخوشی کے ساتھ وقت کے مرمریں ریگِ زار پرمحو خرام ہیں لیکن جب ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’ورق‘ شائع ہوا تو یوں لگتا ہے کہ اب وہ مردانہ سیاست کی ا یسی خاردار وکریہہ رزم گاہ میں جینے پر مجبور ہیں جس نے ان کے ہونٹوں کو تلخ وترش الفاظ سے لبریز کردیا ہے:
لبِ گویا تو مل گیا تھا ہمیں
حرف اظہار مدعا نہ ہوا
یہ ہے انعام آبلہ پائی
ساتھ چلنے کا حوصلہ نہ ہوا
ہمیں تو عادت زخم سفر ہے کیا کہیے
یہاںپہ راہ، وفا مختصر ہے کیا کہیے
کشور ناہید کی شناخت نہ صرف یہ کہ تانیثی حسیت کی سب سے بڑی علم بردار شاعرہ کے حوالے سے ہے بلکہ انھوں نے سمون د بورا کی کتاب 'Second Sex'کا ترجمہ ’عورت‘ کے نام سے کرکے برصغیر کے معاشرے کو احساس دلانے کی کاوش بھی کی ہے کہ پدری ضابطۂ حیات نے تہذیب تاریخ کے ہر موڑ پر ساری ڈکشن، لفظیات، شرم وحیاکا پیمانہ، مذہب کی بندش، قوانین ورسوم، لباس وطعام ، غرض شعبۂ حیات وممات کا پیمانہ ہی اس طور خلق کیا ہے کہ عورت خود اپنے طرز سے اپنی ذات وکائنات کے بارے میں کچھ سوچنے سمجھنے کے لائق ہی نہ رہ جائے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کلاسیکی ادب سے لے کر آج تک عورت کے بارے میں خواہ عورت نے یا مرد نے کچھ بھی لکھا پڑھا ہے اسے پھر سے Deconstructکیا جائے تاکہ اصل صورت حال واضح ہوسکے۔ انھیں حقائق کے پیش نظر گوپی چند نارنگ صاحب نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ
’’ہمارے یہاں سب سے حاوی صنف غزل ہے اور غزل میں جو معشوق کا کردار ہے وہ جفا کار اور بے وفا ہے۔ منفی طور پرہی اردو غزل میں محبوب کے کردار کی تصویر کشی کی جاتی ہے ۔کیا اس کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔زہر عشق کو دوبارہ دیکھیے۔ گلزار نسیم ،سحرالبیان اور داستانوں کا مطالعہ کریں ۔ خاص طور سے فسانہ عجائب کا اور گلزار نسیم میں جو قصہ ہے گل بکاؤلی کا اس میں جو ہندوستانی عناصر ہیں اور یہ سارا ادب آپ دوبارہ دیکھیں Deconstructکریں تو نہ صرف ہمارے ادب کی نئی معنویت سامنے آئے گی بلکہ ہمارے ادب کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئے گی۔‘‘[صدارتی تقریر:بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب، مرتب: پروفیسر عتیق اﷲ، ص32-33]
کشور ناہید کی تانیثی حسیت بھی اسی بات پر اصرار کرتی ہے کہ ادب ہو یا معاشرہ اسے ایک خاص عینک سے دیکھنے کے بجائے کھلے دماغ اور کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تاکہ برصغیر کے بنائے مرد اساس سماج میں عورت کو اس کا جائز حق مل سکے:
مردوں کو سب روا ہے پہ عورت کو ناروا
شرم وحیات کا شہرمیں چرچا بھی ہے عجب
یہ کیا آدھے چاند پہ رونق آدھے پہ تاریکی
یہ کیا صبح تمنا ان کی، شب القاب ہمارے
میرا آنگن میری کھیتی مجھ کم ذات سی اکھڑ
تم زندہ کہ ٹوٹ کہ بکھریں کب اعصاب ہمارے
صدا بدشت بنے گی نہ یہ لہو کی تپش
لہو کے چھینٹے مگر گاہ گاہ ہوں تو سہی
کشور کی شاعری پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں مرد بیزاری بلکہ مرد دشمنی کااظہار بہ بانگ دہل نظر آتا ہے جو فن کے لیے سم قاتل ہے ۔ یہ اعتراض اپنی جگہ، لیکن کشور کی شاعری پاکستانی معاشرے کے جس حبس زدہ ماحول میں پروان چڑھی ان تمام پس منظر کوجب تک مدنظر نہ رکھا جائے ایسا فیصلہ صادر کرنا ناانصافی ہے۔
پاکستان کا و ہ معاشرہ جہاں آج بھی مرضی کے خلاف عورت کی شادی قرآن شریف سے کرادی جاتی ہے۔ اس طرح عورت کو اخلاقی طور پر مجبور اور پابند کردیا جاتا ہے وہ کسی مرد کے متعلق سوچ بھی نہ سکے تاکہ حق وراثت کسی دوسرے کے ہاتھ نہ لگے۔ سندھ صوبے کے بعض خاندان جہاں ’اونٹنی‘ کی رسم کے تحت لڑکیوں کو سجا سنوار کر پیر صاحب کی حویلی بھیج دیا جاتا ہے کہ وہ جب چاہیں دل بہلائیں۔ ان سے ہونے والی اولاد کو حق وراثت نہیں ملتا۔ دو قبیلوں کی لڑائی میں عورت کو بطور قصاص پیش کرنے کا رواج،بھائی بہن کے بدلے کی شادی میںلڑکی چاہے بوڑھی کیوں نہ ہوجائے بھائی کے بڑے ہونے تک انتظار کی صلیب پر لٹکنا، مرضی کے خلاف اپنے باپ دادا کی عمر کے برابر مرد کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا جیسے سفاکانہ سلوک نے کشور ناہید کے دل ودماغ پر انتہائی گہرا اثر کیا ۔ ایسے نامساعد حالات میں دو طرح کے رویے کا اظہار ہونا لازمی تھا۔ ایک تو خود کو کمزور اور دوسرے درجے کی مخلوق جان کر سماج کے رحم وکرم پر سر تسلیم خم کرلیا جائے۔دوسرا زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حقوق کے لیے اعلان جنگ کرنا۔ کشور کی شخصیت چونکہ انتہائی توانا اور متحرک ہے لہٰذا انھوں نے دوسرے رویے کو حرزجاں بنالیا۔جس کا غزل میں تو کھل کراظہار سامنے نہیں آسکا کہ غزل کا چھوئی موئی انداز اور دو مصرعوں میں بات سمیٹنے کا ا نداز ایسے دلدوز سانحے کو ربط وتسلسل کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر ہے لیکن نظم میں ان تمام صورت حال کا نہایت ہی پرسوز بیان ملتا ہے۔’ نیلام گھر‘، ’جاروب کش‘،’میں کو ن ہوں‘ اور ’اینٹی کلاک وائز‘  جیسی نظمیں اس کا بین ثبوت ہیں۔ لیکن غزل کے یہ اشعار بھی ان واقعات کوہی نشان زد کرتے ہیں:
یہ رسم ہے دیوارِ درِ گریہ کی لیکن
دریوزہ گرِ خواب تو رونے نہیں دیتا
 آشوب ہے ایسا کہ سراسیمہ ہے وحشت
یہ عجزِ بیاں زخم بھی دھونے نہیں دیتا
آنگن میں لہو دیکھ کے روتی نہیں آنکھیں
یہ دل تو سلگتا ہے پہ جلنے نہیں دیتا
سنبھل ہی لیں گے مسلسل تباہ ہوں تو سہی
عذاب زیست میں رشکِ گناہ ہوں تو سہی
کشور کے لیے جہاں مرد دشمنی کا لفظ مخصوص کردیا گیا ہے وہاں فہمیدہ پر مغرب زدہ عورت کا لقب چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب کہ فہمیدہ کی شاعری کو بھی پاکستان کے اس پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جہاں بعض قبائل میںعورت کو اتنا سخت پردہ کرایا جاتا ہے کہ جب کبھی انتہائی ضرورت کے تحت بھی انھیں نکلنا ہوتا ہے تو راہ داریوں تک دونوں طرف مرید یا کسانوں کی بیویاں بڑی بڑی ردا پکڑ کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ اس طرح عورت جیپ تک پہنچتی ہے۔ بعض حویلی میں نومولود لڑکا تک نہیں جاسکتا۔ تمام عمر عورتیں کسی نامحرم کی شکل تک نہیں دیکھ سکتیں۔ ضرورتاً نکلنا پڑے تو جیپ کے شیشوں پر ملتانی مٹی لیپ دی جاتی ہے۔ کتنے ہی گھرانوں میں عورتوں کا جنازہ تک دن کے بجائے رات کو نکلتا ہے کہ بے پردگی نہ ہو ان کا قبرستان تک الگ ہے۔ ایسے زنگ آلود ذہن معاشرے میں فہمیدہ اس طرح کے اشعار کہتی ہیں:
کیوں کھوٹ ہے میری زندگی میں
میں اس کا جواب دے رہی ہوں
کیوں جھوٹے ہیں میرے شب و روز
میں ان کا جواز بن گئی ہوں
ہاں میرے خمیر میں کجی تھی
اب خوش ہوں کہ اب بھٹک رہی ہوں
اے چوب خشک صحرا وہ باد شوق کیا تھی
میری طرح برہنہ جس نے تجھے بنایا
وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اپنے معاشرے کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ شرم وحیا کا پیمانہ صرف عورت ذات کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ وہ بھی ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ان کی بھی اپنی ایک ہستی ہے، جس کے سینے میں ایک بے قرار دل اور خواہشات کا امنڈتا طوفان ہے۔ اس لیے وہ بھی کھلی فضا میں اڑان بھرنے اور فضائے بسیط کی پنہائیوں میں قلابازیاں لگانے کا حق رکھتی ہے۔ لہٰذا تخلیقی وجنسی تجربے پر مبنی نظمیں سماج کے مروج پیمانے کا منھ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ جن میں ’لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا‘، ’زبانوں کا بوسہ‘، ’زن ناپاک‘، ’باکرہ‘ ، ’ابد‘، ’میگھ دوت‘ وغیرہ خاص طور سے نمایاں ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ نظموں کی بہ نسبت غزلیں انھوں نے بہت کم کہی ہیں۔ ان کے دوسرے مجموعہ کلام ’بدن دریدہ‘ میں فقط سات(۷) غزلیں شامل ہیں جن میں ایک ایسی اکھڑ اور ضدی عورت کا امیج سامنے آتا ہے جو اپنے سماج سے کٹ کر اپنی اڑان خود بھرنے کی طرف مائل ہے۔
پروین اپنے ابتدائی دور کی شاعری میں ایک ایسی دوشیزہ کے رو پ میں سامنے آتی ہیں جو اپنے محبوب کی تسلیم ورضا کے آگے سر تسلیم خم کرنا عین سعادت متصور کرتی ہیں اور پل پل انھیں یہ احساس ستاتا ہے کہ اگر انھوں نے اپنے ساتھی ودم ساز کے خلاف انکار کی ہلکی سی جنبش بھی کی تو رنگوں، پھولوں، روشنیوں اور خوشبوؤں سے بسی ان کی زندگی خار دار کانٹوں کا بستر بن جائے گی۔
دھنک کے رنگ میں ساری  تو رنگ لی میں نے
اور اب یہ دکھ پہن کر کسے دکھانا ہوا
یوں تری شناخت مجھ میں اترے
پہچان تک اپنی بھول جاؤں

آج کی شب میں پریشاں ہوں تو یوں لگتا ہے
آج مہتاب کا چہرہ بھی ہے اترا اترا
خوشبو سے خود کلامی اور پھر انکار تک آتے آتے پروین کے لب ولہجے میں واضح تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کے یہاں مروج سماجی ڈھانچے سے بغاوت کی شدید آواز تونہیں ملتی لیکن ایک نوع کی سرشاری، والہانہ پن اور خود سپردگی کی جگہ بے اطمینانی، تلخی اور طنزیہ انداز اس بات کا اعلامیہ ہے کہ اب ’مرد‘ ان کی نگاہ میں ایک ایسی ہستی نہیں رہ گیا ہے جس کے گرد پروانہ وار رقص کرنا ہی عین سعادت ہے بلکہ اب وہ یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتیں کہ:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت
اختیار اپنا بس اتنا کہ خبر میں رہنا
خوشبو کہیں نہ جائے یہ اِصرار ہے بہت
اور یہ بھی آرزو ہے ذرا زلف کھولیے
پروین کے اس طرح کے اشعار مرد سماج کی ریاکاری اور دوہرے معیار زندگی پر گہرا طنز ہیں۔ ان سب کے باوجود مقبولیت وشہرت کی جو بلندی پروین کے حصے میں آئی دوسری شاعرات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کمسن لڑکیوں اور عورتوں نے پروین کو تو بطور خاص اپنے حافظے کا حصہ بنایا ہی بعض مرد حضرات بھی ان کی شاعری کا مطالعہ انتہائی ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔پروین کی شاعری کی ڈکشن جارحانہ الفاظ کے بجائے نرم و لطیف ہے۔ مرد حضرات کے لاشعور میں بھی  چوں کہ عورت بمعنی نرم ونازک ہے  (اردو غزل کی محبوبہ کو مدنظر رکھیے) اس لیے بھی پروین کی پذیرائی ہوئی ہے۔
مختلف مذاہب میں عورتوں کو گناہ کا منبع قرار دیا گیا ہے اور یہ روایت ہے کہ مرد کو خُلد سے نکالنے والی عورت ذات ہی ہے۔ نسیم سید نے مذہب کے اس رائج تصور کو نشانہ بنایا ہے۔ مزید عورت کو مرد کی کھیتی قرار دیناا ور عورت کی آدھی گواہی کا قانون بھی دراصل عورت کے استحصال کا ہی ایک زاویہ ہے۔ مذہب کے فرمان سے اختلاف کی جرأت اس بات کا اعلامیہ ہے کہ شاعرات کے اندر اجتماع کے مقابل فرد اب پوری طرح فعال ہوچکا ہے اور اب وہ معاشرے کی بنائی شاہراہ پر چلنے کے بجائے اپنی پگڈنڈی خود وضع کرنے کی طرف مائل ہے۔

نکل کے خلد سے ان کو ملی خلافت ارضی
نکالے جانے کی تہمت ہمارے سر آئی
تو ہے مختار تجھے حق ہے تصرف پہ مرے
میں ہوں کھیتی تری تو مجھ کو بھی جاگیر میں رکھ
اپنے احساس رفاقت کا بنا مجھ کو گواہ
اور پھر میری گواہی مری تقصیر میں رکھ
عورت ہونے کا مطلب ہی خاموشی اور بے زبانی ہے۔ بچپن سے ہی لڑکیوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اونچا بولنا باعث رسوائی ہے۔ اسی معاشرتی جبر کو عشرت آفریں نے اپنے کلام کا موضوع بنایا ہے۔ ذاتی تجربے کو شعری پیکر عطا کرنا عشرت کا خاص وصف ہے۔
بہت ہے یہ روایتوں کا زہر ساری عمر کو
جو تلخیاں ہمار ے آنچلوں میں باندھ دی گئیں
اتنا بولو گی تو کیا سوچیں گے لوگ
رسم یہاں کی یہ ہے لڑکی سِی لے ہونٹ
شاہدہ حسن عورتوں کی شناخت پر خاص زور دیتی ہیں۔ عورت جو تمام عمر مرد کی رضا پر سر جھکائے اپنا آپ کھوچکی ہے، اسی گمشدہ وجود کی تلاش ان کا موضوع ہے:
میں بسر کروں کسی اور کے شب وروز کو
کوئی میری عمر گزار دے کہیں یہ نہ ہو
یاسمین حمید کا شعر بھی اسی جبر کے خلاف ہے:
آئی اس کے مقابل تو نیا بھید کھلا
مجھ کو اندازہگ نہ تھا اپنی توانائی کا
میں ساتھ دیتی رہی کوئی فیض پاتا رہا
میری حیات کسی دوسرے کا بخت ہوئی
اب تک جن شاعرات کا ذکر ہوا وہ سبھی سرزمین پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستانی شاعرات کی کوئی قابل قدر تخلیق منصہ شہود پر نہیں آئی بلکہ ہمارے یہاں بلقیس ظفیرالحسن ، عذرا پروین اور شہناز نبی کی غزلیں بھی تانیثیت کی لَے سے مزین ہیں۔ جن کے یہاں فکری آگہی بھی ہے اور لہجے کی انفرادیت بھی۔ ان میں بلقیس کا اختصاص یہ ہے کہ انھیں اس بات کا ادراک تو ہے کہ بچے اور گھر کو سمیٹتے سنوارتے خود ان کا وجود اور ان کی شناخت بکھر کر پارہ پارہ ہوتی جارہی ہے لیکن اس سے باہر نکلنے کا انھیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہیـ۔
جو بھولے بھٹکے بھی ہم مل گئے ہیں خود سے کہیں
پلٹ گئے ہیں وہیں سے جھکا کے سر چپ چاپ
کبھی کبھی دل پر جبر کرکے وہ اس سے نکلنا بھی چاہتی ہیں تو برصغیر کی ہزاروں برس کی وہ عورت جس کے لیے گھر ہی اس کا مرکز دوعالم ہے، ان کے پیروں کو اس طور اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ وہ بے اختیاریہ کہہ اٹھتی ہیں کہ:
ہے میری کائنات مرا گھر نہ جاؤں میں
دیں عرش سے پرے بھی اگر دوسرا مکاں
اس کے برخلاف عذرا پروین نہ صرف یہ کہ اپنے چاروں طرف پھیلی حصار بندی سے گریزاں ہیں بلکہ یک گونہ بلند آہنگی کے ساتھ انھیں مسترد کرتی ہوئی ایک نئے معاشرے کی تشکیل کا خواب دیکھتی ہیں:
وہ میری راہوں میں آگ رکھ کر مجھے سفر سے ڈرا رہا تھا
اب آگ پر ننگے پاؤں چل کر میں اس کو ڈرنا سکھا رہی ہوں
میرے گھر کی چھت نے جب اپنے سائے کا بیوپار کیا
آندھی بن کر پھر خود میں نے توڑ دیا دروازہ بھی
ہندوستانی شاعرات میں عذرا کا یہی وہ انداز ہے جس نے انھیں تانیثیت کے باب میں ایک نمائندہ شاعرہ کا درجہ دے دیا ہے۔ شہناز نبی کے یہاں بھی اپنے معاشرے اور سماج سے بے اطمینانی کا اظہار تو ہے لیکن ایک نوع کا ضبط وامتناع ان کی غزلوں کا نمایاں وصف ہے:
وہ تو کہلایا ستارہ ٹوٹنے کے بعد بھی
میں کہ سورج جذب کرتی تھی مگر ذرہ رہی
اس کی پہچان کھو گئی آخر
اپنے ہی گھر میں وہ رہی تنہا
اس کے باوجود ہندوستانی شاعرات بنیادی طور پرمرد معاشرے کو اپنا دشمن ومخالفت سمجھنے کے بجائے مد مقابل (Competitor) زیادہ سمجھتی ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی معاشرے میں عورت کی آزادی پر اس طرح قدغن لگانے کی کوشش نہیں کی گئی جیسا کہ پاکستان کے بعض شدت پسند صوبوں میں رائج ہے۔یہی وجہ ہے کہ ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، شفیق فاطمہ شعریٰ، رفیعہ شبنم عابدی، نورجہاں ثروت ، شائستہ یوسف، سیدہ نسرین نقاش، شبنم عشائی وغیرہ شاعرات کے یہاں پہاڑی ندی کے شور کے بجائے آہستہ خرام دریا کی سی روانی نظر آتی ہے اور ان کے لب ولہجے میں کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ تنہائی کا کرب، ماضی کی خوشگوار یادیں، عصری مسائل، اپنی ذات کی جستجو اور ایسے جملہ موضوعات اپنے پورے فنی لوازمات کے ساتھ موجود ہیں،جسے نئی غزل نے بطور خاص اپنی ذات میں سمویا ہے اور جو اس بات پر دال ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہماری شاعرات ذات سے نکل کر آفاقی شعور کے حامل اس ان چھوئے دیار کی بھی سیاحت کریں گی جہاں پہنچ کر تخیل کے بھی پر جل اٹھتے ہیں۔
اب یہ عالم ہے کہ خود ہی دھوپ ہم سایہ بھی ہم
اب کہاں بھٹکائے گی دیوار و در کی جستجو

مصادر:
راگ راگ مٹی,عذرا پروین، ساہتیہ اکادمی، 2007
میں مٹی کی مورت ہوں ،فہمیدہ ریاض، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1988
شعلوں کے درمیاں، بلقیس ظفیر الحسن، معیار پبلی کیشنز، دہلی، 2004
نئے زمانے کی برہن،مرتب: اصغر ندیم سید، افضال احمد، نگ میل پبلی کیشنز، لاہور،1990
اپنی نگاہ، ترتیب: جویریہ خالد وثمینہ رحمان، اثر پبلی کیشنز، لاہور، 1995
بھیگی رتوں کی کتھا، شہناز نبی، سعید پریمی، کلکتہ، 1990
ماہ تمام، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس،دہلی،
ساز سخن، ادا جعفری، مکتبہ جامعہ ،نئی دہلی، 1988
چہار سو(ماہنامہ) راولپنڈی، جلد  21،شمارہ جولائی اگست2012
آزادی کے بعد اردو شاعری میں تانیثی حسّیت، وسیم بیگم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2011
بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب، مرتب: عتیق اﷲ، موڈرن پبلیشنگ ہاؤس، 2002
نئی غزل نئی آوازیں، اسعد بدایونی، علی گڑھ، 1987

Dr. Shazia Omair
N-131, Gali No.5,
 Near Qadri Masjid
Abul Fazal Enclave,
 P-1,Jamia Nagar, New Delhi-25



،سہ ماہی فکر و تحقیق
 جنوری تا مارچ 2013

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں