2/3/20

پروفیسر نورالحسن نقوی مضمون نگار: مصباح احمد صدیقی



پروفیسر نورالحسن نقوی

مصباح احمد صدیقی
بابائے ارود مولوی عبدالحق مرحوم (وفات: 16؍ اگست 1961) نے سید محمود ابن سرسید احمد خاں کی وفات پر لکھا تھا:
’’اس میں شک نہیں کہ موت اٹل ہے اور سب کو آنے والی ہے اور اس لیے کوئی ڈر کی چیز نہیں؛ لیکن ایسی موت جو بے وقت ہو، خصوصاً جب کہ اس کا وار ایسے شخص پر پڑے جو اپنی خوبیوں اور لیاقتوں میں عدیم النظیر ہو، اور خاص کر جب کہ یہ سانحہ ایسی قوم میں واقع ہو جہاں پہلے سے ہی قحط الرجال ہے تو ایسی موت غضب ہے اور قیامت ہے۔‘‘  (چند ہم عصر،ص 20)
بلاشبہ موت سے کس کو رستگاری ہے؛ لیکن اپنے جانے والوں کا صدمہ بھی انسانی فطرت ہے اور یہ صدمہ اس وقت اور بھی جاں گُسل ہوجاتا ہے جب کوئی جانے والا ایسا شخص ہو جس کی نظیر یا مثال مشکل ہو اور اس کا نعم البدل بھی نہ ہو تو اس کے چلے جانے کا غم کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔
محترم پروفیسر نورالحسن نقوی ایک طویل عرصہ سے بیمار تھے اور 25؍جنوری 2006 بروز بدھ، نئی دہلی کے گنگارام اسپتال میں اپنے تمام چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔
پروفیسر نورالحسن نقوی امروہہ کے ذی علم وجاہت گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اس گھرانے میں بہت سے نامور علما، اطبا اور شعرا ہوئے ہیں جن میں مولانا حکیم محمد حسن مفسر قرآن (وفات:19رمضان المبارک 1323ھ/ 1905 بروز جمعہ) اپنے وقت کے اکابر علماء کرام میں تھے اور بڑے کثیرالتصانیف تھے۔ مؤرخ امروہہ محمود احمد عباسی نے آپ کی سولہ تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ تصانیف میں غایۃ البرہان معروف بہ ’تفسیر شاہی‘ بڑی اہم و معرکۃ الآرا تصنیف ہے۔ دوسرے حکیم مولوی عبدالصمد بڑے حاذق اور نامور طبیب ہوئے جن کے لائق وفائق فرزند مولوی ابوالحسن ساکت امروہوی اردو کے مشاہیر اور قادرالکلام شعرا میں سے تھے۔ ان ہی میں حضرت مولانا حافظ زاہد حسن (وفات:1371ھ) حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکی (وفات:18؍ اکتوبر 1899) کے خاص و مقرب مریدین میں سے تھے۔ ان ہی کے لائق فرزند مولانا حامد حسن مرحوم (وفات 18؍دسمبر 2003) سابق صدر مہتمم مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ اور حضرت مولانا طاہر حسن (وفات: 11؍اگست 2004) شیخ الحدیث مدرسہ ہٰذ امروہہ کے اکابر علماء کرام میں سے تھے۔ مولانا حامد حسن صاحب مرحوم کے صاحب زادگان آج بھی علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خصوصاً استاذِ گرامی محترم پروفیسر سید محمدطارق حسن سابق صدر شعبۂ فارسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علم کا روشن منارہ ہیں۔ آپ ادبیات فارسی کی تفہیم و تدریس میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ آپ کے چھوٹے بھائی پروفیسر سید محمد ہاشم سابق چیئرمین شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی کی بھی معتد بہ علمی و ادبی خدمات ہیں۔
پروفیسر نورالحسن نقوی کا سلسلۂ نسب اپنے مؤرث اعلیٰ شیخ داؤد بڑپگہ سے اس طرح متصل ہوتا ہے:
’’نورالحسن بن عبدالحکیم بن حسین علی بن اکبر علی بن سید حسن بن رستم علی بن محمد حسن عرف میاں موتی بن فیض محمد بن مسعود بن حبیب اﷲ بن شیخ مکہن بن شیخ منجھو بن شیخ داؤد بڑپگہ۔‘‘ (بحوالہ تحقیق الانساب 318)
اسی نامور علما و فضلا کے گھرانے کی ایک شمع فروزاں تھے پروفیسر نورالحسن نقوی، اﷲ کے اس اٹل فیصلہ موت نے انھیں رہتی دنیا تک کے لیے خاموش کر دیا؛ لیکن اس روشن شمع کے ذریعے کیا گیا اجالا کبھی ختم نہیں ہوگا۔ پروفیسر نورالحسن نقوی ایک ذہین، ہوشیار، اچھی علمی نظر رکھنے والے، کثیرالمطالعہ، غیر جانب دار تنقیدنگار اور محقق تھے۔ استاد مکرم پروفیسر نثار احمد فاروقی مرحوم (وفات: 18؍نومبر 2004) نقاد کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
نقاد صحیح معنوں میں وہ شخص ہوسکتا ہے جو عام انسانوں سے، بلکہ فن کار سے بھی ذہنی سطح کے اعتبار سے بہت بلند ہو، علومِ حاضرہ میں پوری بصیرت رکھتا ہو، غیر جانب دار ہو، ذوق سلیم اور ذہنِ رسا کا مالک ہو۔ اصول و قواعد سے نہ صرف باخبر ہو بلکہ ان پر عامل بھی ہو، ماضی کے تمام سرمائے کا اسے اچھی طرح علم ہو، حال کی رفتار پر اس کی نظر ہو اور مستقبل کا صحیح خاکہ اس کے ذہن میں ہو، وہ نہ ادب کو کسی خانے میں بند کرے نہ خود کسی خانے میں بند ہو۔‘‘(دیدو دریافت167(
پروفیسر نورالحسن نقوی کی تمام تحریریں پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں کہ ان میں یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں اور وہ ان سے بھرپور کام بھی لیتے تھے۔ ان کی زیادہ تر تحریریں تحقیقی ذہن اور تنقیدی بصیرت کی غماز ہیں جس میں آپ نے پوری طرح حق گوئی و بیباکی سے کام لیا ہے۔ راقم الحروف نے ان کی چند کتابیں مثلاً: ’اقبال فن اور فلسفہ‘، ’فلسفۂ جمال اور اردو شاعری‘، ’فن تنقید اور اردو تنقیدنگاری‘، ’تصویریں اجالوں کی‘ (خاکوں کا مجموعہ) وغیرہ پڑھی ہیں، جس سے ان کی فن پر گرفت اور تنقیدی بصیرت نے پورے طور پر متاثر کیا۔ پروفیسر نورالحسن نقوی نثر اتنی سلیس اور سادہ لکھتے تھے کہ ایک ادنیٰ طالب علم بھی ان کے بیان کردہ رموز کو بخوبی سمجھ لیتا۔ وہ ایک اچھے، ماہر اور تجربہ کار استاد تھے۔ انھیں احساس تھا کہ میری گفتگو بھلے عالمانہ موضوعات پر ہے؛ لیکن میرے مخاطب عوام اور یونیورسٹی و کالجز کے طلبہ ہیں۔
پروفیسر نورالحسن نقوی کی ابتدائی گھریلو مالی حالت بہت نازک تھی انھوںنے بہت پاپڑ بیل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر اﷲ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ انھوںنے اپنی ابتدائی تعلیم ہائی اسکول کے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے، جو نہ صرف ان کی حقیقت نگاری پر مبنی ہے بلکہ ان کے حوصلہ کی بھی غمازی کرتا ہے کہ انھوںنے ان نامساعد حالات کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھی۔ آپ مؤرخِ امروہہ محمود احمد عباسی (وفات:14؍مارچ 1974)  کے خاکے میں لکھتے ہیں:
’’امام المدارس اسکول میں زیر تعلیم تھا کہ والد کا انتقال ہوگیا، ناچار فیس معافی کا خواست گار ہوا۔ درخواست پر تصدیق ضروری تھی، عباسی صاحب محلے کے معزز آدمی تھے اور شہر کے آنریری مجسٹریٹ بھی۔ ان کی سفارش کے ساتھ درخواست منیجر صاحب کی خدمت میں پیش کر دی۔ انھوںنے پوچھا:یہ تمھارے ہم محلہ ہیں یا رشتہ دار بھی۔ دس برس کی ناسمجھی کی عمر، کچھ نادانی،کچھ شیخی، میں نے رشتہ کے پھوپا کو سگا پھوپا بتایا، درخواست رد ہوگئی۔‘‘ (تصویریں اجالوں کی145-46(
پروفیسر نورالحسن نقوی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی محنت کرنے کی عادت سی ہوگئی تھی، وہ پوری طرح ایک ذہین و فطین انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کے محنتی بھی تھے۔ اس بات کا اندازہ ’’کلیات مصحفی‘‘ کی تدوین سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح انھوںنے یہ بھاری پتھر پوری توانائی سے اُٹھایا، چوما اور یہ جناتی کام کر دکھایا۔یعنی مصحفیؔ کے نوکے نو دیوان ایڈٹ کرکے چھپوا ڈالے اورساتھ ہی ’مصحفی حیات اور شاعری‘ پر بھی ایک مستند کتاب لکھی جو مجلس ترقی ادب لاہور سے 1998میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ’تاریخ ادب اردو‘ (1977)، ’تصویریں اجالوں کی‘(خاکوں کا مجموعہ مطبوعہ 1999) اور ’کلیات جرأت‘ وغیرہ تالیفات بھی ان کی ذہانت و محنت اور لگن کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ آپ نے پروفیسر سید محمد طارق حسن کی مدد و معاونت سے ایک اہم علمی کام یہ بھی کیا ہے کہ تذکرہ ’عیارالشعرا‘ ایڈٹ کردیا۔ آپ نے بہت سی انگریزی اور ہندی کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں  ’رام چرت مانس‘، ’راجہ رام موہن رائے‘، ’نہرو کے اندیکھے روپ‘، ’اشارات تعلیم‘، ’میرابائی اور اس کے گیت‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے علمی و تحقیقی مقالات ہیں جو ہندو پاک کے مختلف رسائل و جرائد میں بکھرے ہوئے ہیں۔ کچھ اہم کتابوں پر تبصرے اور پیش لفظ بھی ہیں جن کو یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا جاسکتا ہے اور یہ خدمت ان کے لیے بڑا خراجِ عقیدت ہوگی۔
پروفیسر نورالحسن نقوی مرحوم جہاں اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے وہاں ان کی ایک بڑی اور اہم خوبی یہ بھی تھی کہ وہ انتہا درجے کے خردنواز تھے۔ اپنے چھوٹوں بالخصوص شاگردوں کی ہر ممکنہ مدد کرنا وہ اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر اطہر پرویز کے خاکہ میں استاد کی خوبیاں گناتے ہوئے آخیر میں لکھتے ہیں:
’’آخری شرط ذاکر صاحب کے لفظوں میں یہ کہ استاد کی کتابِ زندگی کے سرورق پر لفظ محبت لکھا ہونا چاہیے۔ ‘‘(تصویریں اجالوں کی172(
نورالحسن نقوی صاحب کا میں باقاعدہ شاگرد تو نہیں رہا؛ لیکن ان کی صحبت فیض اثر سے بہت فیض پایا وہ مجھ سے بالکل اپنے شاگرد اور عزیزوں کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ ’نامورانِ علی گڑھ‘ کی طرح وہ امروہہ پر بھی کام کریں؛ لیکن اپنی علمی مصروفیات کے سبب کبھی اس طرف پوری توجہ نہیں کر سکے۔ مجھ سے ملاقات کے بعد میرے کاموں کو دیکھتے ہوئے انھیں اندازہ ہوا تھا کہ شاید ان کی یہ خواہش میرے ذریعے پوری ہوجائے گی، اس لیے انھوںنے میری پوری طرح مدد اور رہنمائی کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ اس سلسلے میں ان کے چند محبت ناموں کے اقتباسات یہاں پیش کرتا ہوں جس سے نہ صرف ان کی خردنوازی ظاہر ہوگی بلکہ اپنے وطن عزیز امروہہ سے انھیں کس درجہ لگاؤ تھا اس کا بھی بخوبی اندازہ ہوگا۔ ایک گرامی نامہ مؤرخہ 16؍فروری 1999 میں بہت سے القاب اور دعاؤں کے بعد لکھتے ہیں:
علی گڑھ آنے کے بعد آنکھوں کے علاج کے سلسلہ میں دو دن کے لیے دہلی گیا۔ پرسوں واپس آیا۔ کل طارق صاحب سے تمھارے سلسلے میں گفتگو کی۔ وہ خاصے مایوس اور خفانظر آئے۔ انھوںنے بتایا کہ ابھی کئی تقرر ہوئے ہیں۔ مصباح لائن میں ہوتے تو پہلا نمبر انہی کا ہوتا جو اساتذہ پہلے صرف مصباح کا ہی ذکر کرتے تھے انھیں بھولتے جاتے ہیں۔ خیر اب تک جو ہوا سو ہوا۔ اب میری بات غور سے سنو۔‘‘
اس گرامی نامہ میں مجھے کئی ہدایات دینے کے بعد لکھتے ہیں:
’’میرا یہ خط اپنی خوش دامن صاحبہ اور ہماری بہن برجیس کو پڑھوا دینا۔ دراصل میں تو تمھاری صلاحیت کا قائل تھا اس لیے تمھاری ترقی کا خواہاں تھا۔ یہ اب معلوم ہوا کہ تم سے رشتہ بھی ہے۔‘‘
اسی مکتوب میں چند سطور کے بعد شعراے امروہہ کی ترتیب و تدوین کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مقالہ (پی۔ایچ ڈی۔) سے فارغ ہونے کے بعد ’نامورانِ امروہہ‘ مرتب کرنے کا ارادہ کرنا، عربی، فارسی، اردو، ہندی کے جن شاعروں کی تفصیل موجود ہے، اسے مختصر کرکے ترتیب دے لو، یہ ایک یادگار کام اور وطن کی ناقابل فراموش خدمت ہوگی۔ تم نے اب تک جو علمی کام کیے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کام بھی بہ آسانی کرگزروگے۔‘‘
ایک دوسرے نوازش نامہ مؤرخہ 17؍اپریل 1998  میں لکھتے ہیں:
’’شعرائے امروہہ سے متعلق مواد کی فراہمی بہت مشکل کام ہے یوں کہ شعرا کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کتنی بھی محنت کر لی جائے بہت لوگ چھوٹ جائیں گے…  اب ہمہ تن اس کام میں مصروف ہوجائیے۔ محمود احمد عباسی صاحب نے بھی اس کام کا بیڑا اُٹھایا تھا مگر اس بھاری پتھر کو اب تک کوئی اُٹھا نہ سکا۔ انء شااﷲ آپ اٹھالیں گے۔  کام میں جان کھپا دینے والے چند لوگ ہی ہوتے ہیں، ان میں سے ایک ماشاء اﷲ آپ ہیں۔‘‘
اﷲ کا لاکھ لاکھ فضل و احسان اور محترم پروفیسر نورالحسن نقوی کی مشفقانہ دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ شعرائے امروہہ کی ایک جلد (ابتدا سے سنہ دو ہزار تک کے مرحوم شعرا پر مشتمل) رضا لائبریری رام پور سے 2004میں شائع ہوگئی۔ دوسری جلد کا کام تیزی سے جاری ہے جو ان شاء اﷲ موجودہ تمام شعرائے امروہہ پر مشتمل ہوگا۔ اس کا اسّی فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔
پروفیسر نورالحسن نقوی صاحب اگرچہ آخیر عمر میں بہت سخت بیمار رہے؛ لیکن اس ہوش ربا بیماری کے باوجود آخری سانس تک علمی کاموں میں مصروف رہتے اور اپنے وطن امروہہ کے مشاہیر کی نئی تاریخ مرتب کرنے میں کوشاں تھے، اس کا اندازہ ان کے مکتوب کے اس اقتباس سے ہوگا؛
آپ اپنی کتاب ’علمائے امروہہ‘ عنایت فرمانے غریب خانے (نظام الدین ایسٹ) آنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا؛ لیکن غالباً مصروفیت کے سبب نہ آسکے اور سیمینار کے درمیان کتاب عنایت فرما دی۔ میں سخت بیمار تھا، ڈاکٹروں نے خطرناک بیماری کا شک ظاہر کیا ہے۔ مایوسی کا غلبہ تھا پھر بھی آپ سے ضروری گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ لیٹا ہوا لکھ رہا ہوں۔ بہت بڑا آپریشن ہوا ہے، صاف نہیں لکھا جارہا، پڑھنے کی زحمت گوارا کر ہی لینا…… اس دوران یہ ہوا کہ ’نامورانِ علی گڑھ‘ کے بعد ’محمڈن کالج سے مسلم یونیورسٹی تک‘ شائع ہوئی، ساری دنیا کی علی گڑھ برادری نے دل چسپی لی اور یہ کتاب ہر ملک میں پہنچی اور فروخت ہوگئی۔ بہت لوگوں نے خریدی جو اردو نہیں جانتے تھے، بہت سے دوستوں نے مجھے لکھا کہ ایک کام اور کرو۔اسے مختصر کرکے انگریزی میں منتقل کر دو۔ یہ دونوں کام تو میں نے کر ہی دیے ہیں ایک کام اور کیا…… اسے پڑھنے سے زیادہ خوبصورت رنگین دیکھنے کی چیز بنا دیا مطلب یہ کہ رنگین تصویروں کی بھرمار کر دی۔ پریس میں ہے آنے پر آپ کو ضرور دکھاؤں گا…… کتاب نہ پڑھو صرف تصویریں دیکھ لو ہر تصویر کے سامنے یہ پڑھ لو۔ ان کا نام کیا ہے، زمانہ کیا ہے اور انھوںنے علی گڑھ کی کیا خدمت کی۔‘‘
یہ گرامی نامہ پورے فل اسکیپ کے سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ’نامورانِ امروہہ‘ پر کس طرح کام کرنا ہے، پورا خاکہ لکھا ہے، بیماری کے عالم میں اتنا طویل اور اہم خط لکھنا کتنا دشوار گزار کام ہے۔ جو شخص علمی کاموں میں دوسروں کو مخلصانہ طور پر ’جان کھپا دینے‘ کا مشورہ دے و ہی اس طرح کے علمی کام کر سکتا ہے۔ پروفیسر نورالحسن نقوی کی ایک ایک کاوش کو دیکھ کر جہاں ان کے علمی مرتبہ اور تحقیقی ذہن کا پتا چلتا ہے وہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام کس طرح محنت، لگن اور جان گھپا کر پِتّہ ماری کے ساتھ کرتے تھے۔ اگر وہ زندگی میں صرف کلیات مصحفی (نو جلدوں) میں مرتب کرنے کے بعد کچھ بھی نہ کرتے تو اردو دنیا ہمیشہ ان کی احسان مند رہتی؛ لیکن وہ امروہہ میں پروفیسر خلیق احمد نظامی، نثار احمد فاروقی اور منظور احمد افسر صدیقی (کراچی) کی طرح اس قبیلہ کے یگانہ فرد تھے، جنھوں نے اپنی زندگی علم و فن کی خدمت میں فنا کر دی تھی۔ یہ شخصیات اپنے اپنے میدانوں میں تازندگی تشنہ کامانِ ادب و تحقیق  کو سیراب کرتی رہی ہیں۔ ان لوگوں نے علم و ادب کی خدمت میں کبھی اپنی جان کی فکر نہیں کی۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی کی اہلیہ محترمہ نے ان کے چچا مفتی نسیم احمد فریدی (وفات: 18؍ اکتوبر 1988) کو ایک خط میں لکھا تھا کہ انھیں سمجھا یے یہ دن رات اس قدر محنت کرتے ہیں جس سے ان کی صحت خراب ہورہی ہے۔ یہ خط اس زمانہ کا ہے جب پروفیسر نثار احمد فاروقی امروہہ کے ایک معروف بزرگ حضرت شاہ عضدالدین محمد جعفری کی کتاب ’مقاصدالعارفین‘ ایڈٹ کررہے تھے۔ ’مقاصدالعارفین‘ کے مخطوطات راقم الحروف نے بھی دیکھے ہیں واقعی ان کا پڑھ لینا پروفیسر نثار احمد فاروقی جیسے ہی صاحب علم و فن کا کام تھا۔
افسوس کہ 25؍جنوری کے نامبارک دن امروہہ کا پروفیسر نورالحسن نقوی نامی ایک فرہاد جو نہر کھودتے کھودتے اپنی پیاری شیرین امروہہ تک پہنچنے والا تھا (نامورانِ امروہہ پر کام کرنے کے لیے) وہ کینسر نامی تیشے سے لہولہان اور گھائل ہوکر ابدی نیند سو گیا اور نامورانِ امروہہ کا کام شاید اِن کمزور و ناتواں کاندھوں پر چھوڑ دیا جس کی کئی برس تک بڑی مشفقانہ طور پر تربیت کی تھی۔
آخر میں انھیں کے ایک اقتباس سے مضمون کو مکمل کرتا ہوں جو انھوں نے اپنے ایک محسن کے بارے میں لکھا ہے
’’احسان کا بدلہ بھلا کون چکا سکتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ شکر گزاری کے ساتھ کسی محسن کا ذکر کرنے اور دعائے خیر میں اسے یاد رکھنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ ‘‘
راقم السطور بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے، علامہ اقبال کے اس مصرعہ کے ساتھ کہ
’’آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے‘‘

Dr. Misbah Ahmad Siddiqui
Mohalla: Gher Munaf
Amoroha - 244221 (UP)
ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں