3/3/20

’ناموس‘ کا شاعر: معراج فیض آبادی مضمون نگار: شرافت حسین


’ناموس‘  کا شاعر: معراج فیض آبادی
شرافت حسین

معراج فیض آبادی کو میں نے مشاعروں میں دیکھا اور سنا تھا۔ سرسری سی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ میرے تعلقات  اس وقت گہرے ہوئے جب 2006 میں انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ’ناموس‘ بھیجا۔ میں نے مطالعہ کیا تو لگا یہ صرف مشاعرے کے شاعر نہیں۔ ان کے کلام میں ایک ایسے کردار کی روح جاری و ساری ہے جو زندگی بھر اوبڑ کھابڑ راستے طے کرتا رہا ہے۔ مشاعرے کے سامعین نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔ ان کی عظمتوں کے گیت گاتے تھے لیکن نئی نسل کے سامعین یہ بات جان ہی نہ سکے کہ کوئی معراج فیض آبادی بھی تھا جو مشاعرے لوٹ لیا کرتا تھا۔ ہاں، نصف صدی پیشتر کے سامعین جو باقی ہیں آج بھی ان کے کچھ اشعار پر سر دھنتے ہیں           ؎
ہماری نفرتوں کی آگ میں سب کچھ نہ جل جائے
کہ اس بستی میں ہم دونوں کو آئندہ بھی رہنا ہے

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

کچھ تو ہم خود ہی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
معراج فیض آبادی شاعری کی زبان میں معاشرتی اور تہذیبی اصلاح کی صلاحیت رکھتے تھے۔ تجربے کی نمو پزیری کے ساتھ اس کی مناسب لسانی تعمیر و تراش کرتے تھے۔ ان کے یہاں لہجے اور اسلوب کی شائستگی، نفاست اور لچک کے دل پزیر احساس کے ساتھ فنی بصیرت بھی ملتی ہے جو انھیں اپنے ہم عصر مشاعرے کے شعرا سے الگ کرتی ہے۔ ان کے اشعار آج کے منظرناموں سے مماثلت رکھتے ہیں         ؎
پہلے پاگل بھیڑ میں شعلہ بیانی بیچنا
اور پھر جلتے ہوئے شہروں میں پانی بیچنا

روشنی بانٹتے رہنے کی قسم کھائی تھی
کچھ چراغوں نے مگر آگ لگائی ہے بہت

لگی ہیں صبح پہ پابندیاں کہ اب کے برس
کہاں دکھائی دے سورج کہاں دکھائی نہ دے

یہ بزدلی کی سیاست ہے اس صدی کا کمال
کہ تیر چلتے رہیں اور کماں دکھائی نہ دے

مائیں بچوں کو اب اسکول بھی یوں بھیجتی ہیں
جیسے گھر سے کوئی مقتل کی طرف جاتا ہے

خود الجھ جاتے ہیں اربابِ سیاست کے دماغ
مسئلہ جب بھی کسی حل کی طرف جاتا ہے
معراج فیض آبادی حقیقی زندگی کے جانے پہچانے واقعات کی صورت گری میں استعاروں کے سہارے پہلودار جواہر پارے تراشتے ہیں اور فضا کو روشن کرتے ہیں۔ اس طرح سے ان کے وجود کی آگہی صرف مفکرانہ ہوکر نہیں رہ جاتی بلکہ جبلی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے یہاں کئی لفظ کلیدی علامتوں کا کام کرتے ہیں۔ جیسے کاسہ، جنگل، جزیرہ، پانی، گاؤں، پاگل، تماشہ، دھواں، الاؤ، آنچ وغیرہ انسانی قدروں کے زوال کا انھیں شدید احساس تھا۔ اس لیے ان کا رنگِ سخن کچھ زیادہ ہی تیکھا اور تابناک ہے۔ وہ ایسی صورتِ حال کو خلق کرنے سے گریز کرتے تھے جو غیرمانوس، ان دیکھی اور پراسرار ہو۔ ان کے عہد کے مشاعروں میں جمالیاتی شاعری کا بول بالا تھا لیکن انھوں نے اپنے سامعین کے ذہن کو نئی سمت کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور انھیں اپنے اشعار سے گرویدہ بنا لیا تھا   ؎
بڑھ گیا تھا پیاس کا احساس دریا دیکھ کر
ہم پلٹ آئے مگر پانی کو پیاسا دیکھ کر

جس کی جتنی حیثیت ہے اس کے نام اتنا خلوص
بھیک دیتے ہیں یہاں کے لوگ کاسہ دیکھ کر

ہم بھی ہیں شاید کسی بھٹکی ہوئی کشتی کے لوگ
چیخنے لگتے ہیں خوابوں میں جزیرہ دیکھ کر

زندہ تھا وہ غریب تو جینے نہیں دیا
جس کی شکستہ قبر سے لپٹے ہوئے ہیں لوگ

آج اک سہمے ہوئے کل کی طرف جاتا ہے
شہر پھر لوٹ کے جنگل کی طرف جاتا ہے

بھیڑ کے جھوٹ سے لڑنے کا جو اعلان کرے
سنگِ الزام اسی پاگل کی طرف جاتا ہے

یہ خوف کی فضا یہ اذیت پسند لوگ
جانے کہاں چلے گئے وہ دردمند لوگ

نفرت کی آگ پھیل رہی ہے گلی گلی
سائے سے ڈر رہے ہیں مکانوں میں بند لوگ
عمر کی آخری منزل میں معراج فیض آبادی نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا تھا، ماضی کو سینے سے لگائے جی رہے تھے اور بند آنکھوں سے اپنے اسلاف کے قدموں کے نشاں ڈھونڈھ رہے تھے جس پر چل کر ان کی شخصیت اور فکر کی تشکیل ہوتی تھی۔ خاکساری طبیعت میںاتنی تھی کہ تحریری طور پر لکھا ’’میں مانتا ہوں کہ مجھے وراثت میں گونگے الفاظ ملے ہیں جنھیں برتنے کا ہنر مجھے نہیں آتا۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ شعر کی اصل قدر و قیمت کا تعین عام قاری ہی کرتا ہے کہ اجتماعی پسندیدگی ہی کسی شعر کے زندہ رہنے کی ضمانت ہوتی ہے۔‘‘
معراج فیض آبادی کی نثر بھی اچھی تھی۔ جو ’ناموس‘ کے ابتدائی پندرہ بیس صفحات پر پھیل کر بطور آپ بیتی ان کے بچپن اور جوانی کی کچھ جھلکیاں پیش کررہی ہے۔ اس نے مجھے اس قدر متاثر کیا تھا کہ مارچ 2013 کے شمارے میں مستقل کالم ’خودنوشت‘ میں شریک اشاعت کرلیا تھا۔ میں ان کی نثری زبان پر بات کرنے کے بجائے ان کے اشعار پر گفتگو کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جس میں ان کی ذہنی بالیدگی اور شعوری بیداریاں موجود ہیں         ؎

لہجہ لہجہ یہ سلگتے ہوئے ماحول کی آنچ
چیختے ہیں جو مرے لفظ خطا کس کی ہے

میں تو خود اپنی ذات کے صحرا میں کھوگیا
دیوانہ کہہ رہے تھے مجھے ہوشمند لوگ

کل یہی لوگ مرے حلقۂ احباب میں تھے
آج جو دیکھنے نکلے ہیں تماشہ میرا

اسے جو سجدہ نہ کہہ پاؤ، کفر بھی نہ کہو
وہ پائے جبر پہ مجبوریوں کا سر رکھنا

ہمارے ساتھ سفر کررہا تھا ایک ہجوم
مگر شریکِ سفر کو ترس گئے ہم لوگ
معراج فیض آبادی کی شعری کائنات میں تذبذب، خوف اور محرومی کی فضا ملتی ہے جو غیرمعمولی جاذبیت اور تاثیر کی بنا پر قاری کے دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان کے کلام میں جمالیات کا گزر بہت کم کم ہے، موجودہ دور کا انتشار، جدید انسان کا عدم تحفظ، بھیڑ میں اکیلے پن کی کیفیت، شعلوں میں گھِری سیاست، غیرانسانی قوتوں کی بالادستی، تشدد پرستی، اور سچائی کے اقدار کی پامالی کی مصوری کا اہتمام زیادہ ملتا ہے۔ بلاشبہ ایسی شاعری مدتوں تازہ بہ تازہ رہتی ہے:
ہوشمندوں کی قیادت میں تباہی ہے بہت
رہنمائی کے لیے اب کوئی پاگل بھیج دے

جن کے سینوں میں دہک اٹھے ہیں نفرت کے الاؤ
ان کی خاطر پیار کا تھوڑا سا صندل بھیج دے

دکھ سکھ کی دھوپ چھاؤں سے آگے نکل گئے
آندھی میں ہم ہواؤں سے آگے نکل گئے

دیوار پر سجا تو دیے باغیوں کے سر
اب یہ بھی دیکھ لو پسِ دیوار کون ہے

یہ فیصلہ تو وقت بھی شاید نہ کرسکے
سچ کون بولتا ہے، اداکار کون ہے

ستم کرو تو ستم کا نشاں دکھائی نہ دے
کچھ ایسے آگ لگاؤ دھواں دکھائی نہ دے

سانس روکے ہوئے چوراہے پہ ٹھہرا ہے سماج
جو بھی رستہ ہے وہ جنگل کی طرف جاتا ہے

یہاں ہر سمت شعلوں کی سیاست رقص کرتی ہے
یتیمی چیختی پھرتی ہے وحشت رقص کرتی ہے

محبت اور یک جہتی کے میٹھے گیت کیا گاؤں
یہاں ہر لفظ میں صدیوں کی نفرت رقص کرتی ہے
غزل کے شاعر معراج فیض آبادی کو شاید بہت پہلے احساس ہوگیا تھا کہ غزل نئے لب و لہجہ کے ساتھ نئے موضوعات اور نئی لسانی تجسیم کاری کا تقاضا کررہی ہے۔ اس کے سحر کو تبھی زندہ رکھا جاسکتا ہے جب اسے آسان زبان کے ساتھ حالات کی رفتار سے جوڑا جائے۔ اسی لیے وہ صرف مشاعروں کے ہوکر نہیں رہے بلکہ بالغ نظر قاری کی تشفی کے لیے حقیقی زندگی کے کچھ نئے تجربوں کو بھی متشکل کرتے رہے۔ یہ روش ان کے قد کو بہرحال اونچا کرنے میں معاون رہی اور ملک و بیرون ملک نے ان کی آواز کا خیرمقدم کیا لیکن المیہ یہ رہا کہ ان کی غزلیں رسائل و اخبارات کی دنیا سے دور رہیں جس کے باعث نقادوں کی نظر ان پر نہیں پڑی۔ ’ناموس‘ کی اشاعت کے بعد وہ اپنے قارئین کے ردعمل کا انتظار کرتے رہے۔ آخر موت کے فرشتے نے وقت سے قبل انھیں ہم سے چھین لیا۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی زندگی میں ان کی شاعری پر کچھ نہیں لکھا جاسکا۔

Sharafat Husain
Qazipura, P.O: Tanda
Ambedkar Nagar - 224190
Mob.: 9415910605


ماہنامہ اردو دنیا، فروری 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں