3/3/20

معاصر اردو غزل میں عشق کا تصور مضمون نگار: راشد انور راشد



معاصر اردو غزل میں عشق کا تصور
راشد انور راشد
اس موضوع پر اظہار خیال سے قبل یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ معاصرِ اردو غزل سے یہاں میری مراد1980 کے آس پاس منظر عام پر آنے والی شاعری ہے ۔ لہٰذا اس گفتگو میں اس نسل کے عشقیہ اشعار موضوع بحث ہوں گے ، جس نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے بعد اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ اس نسل کے شعرا کا تخلیقی سفر80 کے پہلے بھی جاری تھا، لیکن کہنا چاہیے کہ انھوں نے80 کے بعد ہی ادب کے سنجیدہ پارکھوں کواپنی جانب متوجہ کرنا شروع کیا ۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ معاصر غزل کے ذیل میں عشق کا مجازی تصور ہی زیر بحث ہوگا، کیونکہ نہ صرف معاصرِ شاعری بلکہ بیسویں صدی کے نصف دوم میں وجود میں آنے والی تمام اردو شاعری، تصوف کی مستحکم روایت کے باوجود ، عشقِ حقیقی کے تصور سے حیرت انگیز طور پر محروم ہوتی چلی گئی۔ ایسا کیوں ہوا، یہ ایک الگ بحث کاموضوع ہے ، جس کا فی الحال یہاں موقع نہیں۔
معاصرِ اردو شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ انتشار کو شعرا نے پوری شدت کے ساتھ نظم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے کہ ایسے عہد میں کیا انسان کے دیرینہ جذبات کی اہمیت اسی طرح مسلّم ہے ، یا رہ سکتی ہے، جیسی ماضی قریب یا گزشتہ عہد میں تھی؟ کیا زندگی کے نت نئے مسائل کے مابین عشق اور محبت کاتصور اپنی بقا کا جواز فراہم کرسکتا ہے ؟ کیادوڑتی بھاگتی زندگی میں انسان کے لیے رشتوں کی نازک ڈور کو تھامے رکھنا ممکن ہے ؟ کیا اس مصنوعی زندگی میں دل کی آواز پر لبیک کہنے کا رجحان ذہن و دل کو طمانیت کے جذبوں سے سرشار کرسکتا ہے ؟ یہ اور اس جیسے کئی دوسرے سوالات ہیں جنھیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاصر اردو غزل کو ذہن میں رکھتے ہوئے تصورِ عشق کی بات کی جائے تو لاشعوری طور پر یہ تمام باتیں ذہن کے نہاںخانوں میں اجاگر ہونے لگتی ہیں اور تشفی بخش جواب کے لیے ہمیں اندر سے کریدتی بھی ہیں۔
اس خیال سے انکار ممکن نہیں کہ سماج اور معاشرہ خواہ کتنا ہی تبدیل ہوجائے اور مشینی و صارفی  عہد ذہنوں کو کتنا ہی آلودہ کردے، تصور عشق کی اہمیت ہر زمانے میں برقرار رہے گی۔ مادّیت اور مصنوعیت کا رجحان عشق کے لافانی تصور پر کبھی غالب نہیں آسکتا۔ ہر زمانے میں دلوں پر محبت کی حکمرانی رہی ہے اور بلا شبہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ تصور عشق کے استحکام میں وقت اور زمانے کی بندشیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ صارفی عہد میں محبت کی اشد ضرورت ہے، کیوںکہ رفتہ رفتہ انسان خوشیوں سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے چہرے پر تادیر قائم رہنے والی مسکراہٹ کی کرنیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ اداسی ، بے چینی اور بیزاری کی کیفیت اس کے پورے وجود کو اپنے شکنجے میں کسنے لگی ہے۔ ایسے میں وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ محبت کے سریلے بول فضاؤں میں مسلسل گونجتے رہیںاور کانوں میں رس گھولیں تاکہ ذہنی انتشار کے کرب سے کچھ حد تک نجات حاصل کی جائے ۔ اس تناظر میں معاصرِ اردو غزل کامطالعہ ہمیں مایوس نہیں کرتا اور عشق کا درد ، محبت کی کسک ، اس کی ٹیس ہمیں عصری کرب کا ناگزیر حصہ معلوم ہوتی ہے۔
تصور عشق کے حوالے سے معاصر اردو غزل کا مطالعہ کیا جائے تو عشق کے تین مختلف رنگوں پر ہماری نگاہ مرکوز ہوتی ہے ۔ عشق کا پہلا رنگ خالص عشق کے تصور پر مبنی ہے، جس میں عاشق اور معشوق کا رشتہ جسمانی سرحدوں سے ماورا دکھائی دیتا ہے ۔ پاکیزہ عشق کا یہ سلسلہ خیال و خواب کے دائروں میں گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے اور محسوسات کے انوکھے زاویوں کو بھر پور تاثر کے ساتھ نمایاں کرتا ہے ۔ معاصر غزل میں عشق کا دوسرا رنگ، عشق کے جنسی رجحان کو نمایان کرتا ہے ۔ عشق کے اس رنگ میں پاکیزگی کا دخل تو نہیں، لیکن محض سطحی جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے عناصر سے بھی یہ رنگ تقریباً محفوظ ہے۔ تیسرا رنگ عشق کے امتزاجی رنگ سے عبارت ہے، جسے خالص عشق، اور عشق کے جنسی رجحان کاخوبصورت امتزاج کہا جاسکتا ہے ۔ اس رنگ کے تحت متوازن لہجے میں محسوسات کی ہمہ گیری ایک نئے تناظر میں جلوہ گرہوتی ہے ۔
اب ذرا وضاحت کے ساتھ عشق کے ان تین رنگوں سے لطف اندوز ہوتے چلیں۔
پہلا رنگ، یعنی خالص عشق کے اظہار میں معاصر شعرا نے سادگی سے کام تو لیا ہے ، لیکن یہ سادگی، فن کی زیبائش پر حاوی دکھائی دیتی ہے ۔ خالص عشق کا یہ رنگ ، بہت حد تک عشق کی پاکیزگی اور عظمت کی نمائندگی کرتا ہے جس میں جذبات کی نیرنگیاں اپنا خاص جادو جگاتی ہیں۔ اس رنگ کی نمائندگی کرنے والے شعرا کے یہاں سچے عاشق کا ایک ایسا تصور اُبھر تا ہے جو محبوب سے جسمانی قرب کا طلبگار نہیں ہوتا، بلکہ مہذب انداز میں محبوب کے حضور وہ اپنے دیرینہ جذبات کااظہار کرتا ہے۔ وہ اپنے سچے عشق کی بدولت فراق و وصل کے معنی تبدیل کرنے کا خواہاں دکھائی دیتا ہے اور اس کے لیے وہ کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھاتا، بلکہ محض خیال کی نیرنگیوں کو بنیادی وسیلہ گردانتا ہے اور اپنے مقصد کی تکمیل چاہتا ہے ۔ اس کے ذہن میں محبوب کے خیالوں کا سلسلہ، دھند میں روشن چاند سی صورت کا مترادف قرار پاتا ہے ۔ اس کے پاس محبوب کی یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یادیں ہی اس کی زندگی کا اصل سرمایہ ہیں، جنھیں گنوانے کاخیال بھی اسے حد درجہ پریشان کردیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ محبوب کی تمنا کے بغیر اسے چاہا جائے اور سچے عشق کا سلیقہ دنیا والے اس کے منفرد انداز سے سیکھیں۔ نا مساعد حالات کے باوجود محبوب سے اس کی دیرینہ اور جذباتی وابستگی میں کوئی کمی نہیں آتی اور وہ ہر قیمت پر اپنے وجود کو محبوب کے لیے وقف کرنے کا خواہاں دکھائی دیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ آخری وقت میں بھی محبوب اس کا ہاتھ پکڑلے تاکہ وہ دنیا کے میلے میں کھو نہ جائے۔ چونکہ وہ بہت سوچ سمجھ کر محبوب کی راہوں میں نچھاور ہونے کے لیے تیار ہواہے ، لہٰذا محبوب کے علاوہ، محفل میں کسی اور کا تذکرہ اسے گوارہ نہیں۔ ان کیفیات کی ترجمانی جب اشعار کی صورت میں ہوتی ہے تو صحیح معنوں میں معاصر اردو غزل، ادبی منظر نامے پر اپنے ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔:
فراق و وصل کے معنی بدل کے رکھ دے گا
 ترے خیال کا ہونا مرے خیال کے پاس
 (شہپر رسول)

سلسلہ آج بھی قائم ہے خیالوں کا وہی
 ٹوٹ کے آئینہ اس دل کا بکھر تا بھی نہیں
 (اظفر جمیل)

ہمارے پاس تری یاد کے سوا کیا ہے
 اسے بھی دیکھیے آخر کہاں گنواتے ہیں
 (مہتاب حیدر نقوی)

عشق کرنے کا سلیقہ کوئی ہم سے سیکھے
 ہم نے چاہا ہے اسے ، اس کی تمنا کے بغیر
 (شہاب الدین ثاقب)

کیوں زمانے کو ہے اصرار کہ سوچیں پھر سے
 ہم بہت سوچ سمجھ کر ہی تمھارے ہوئے ہیں

ہاتھ پکڑلے اب بھی تیرا ہوسکتا ہوں میں
 بھیڑ بہت ہے اس میلے میں کھوسکتا ہوں میں
 (عالم خورشید)

کہاں کسی کو تھی فرصت فضول باتوں کی
 تمام رات وہاں ذکر بس تمھارا تھا
 (احمد محفوظ)
ان اشعار کے مطالعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ معاصر غزل گو شاعروں نے خالص عشقیہ تصور کی پیش کش میں اپنی بساط بھر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ۔ خالص عشق کا یہ رنگ اپنے ماحول سے آشنا ہوتے ہوئے ہمہ گیر اثرات کا حامل قرار پاتا ہے ۔
معاصر اردو غزل میں عشق کا دوسرا رنگ جنس سے عبارت ہے ۔ اس رنگ کو فروغ دینے والے شاعروں نے عشق کے ـمخصوص تصور میں جنس کی فنکارانہ آمیزش کی ہے ۔ ان کے عشقیہ اشعار میں جنس کا بیان تو ہے ، لیکن یہ بیان غالب رجحان کی صورت اختیار نہیں کرتا ہے۔ غزل کے مخصوص انداز کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھوں نے اشعار میں جس سلیقے سے اپنے عشق کی ترجمانی کی ہے ، ان میں جنسی تلذذ کا احساس تو موجود ہے ، لیکن تلذذ کی یہ کیفیت تہذیب کی سرحدوں کو عبور نہیں کرتی، کیوںکہ یہاں جنس کے اظہار میں تقدس کا جذبہ زیریں لہروں کی طرح کار فرما دکھائی دیتا ہے ۔ یہ اشعار شہوانی جذبات کو نہیں ابھارتے ۔ ان میں فحاشی اور سطحیت کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ ان معنوں میں معاصر اردو غزل میں عشق کا دوسرا رنگ جنس زدہ ہوتے ہوئے بھی ذہن و دل پر اپنے نقوش ثبت کرنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے ۔ عشق کے اس دوسرے رنگ سے اشعار کی صورت میں لطف اندوز ہوتے چلیں:

اک اکیلی کشتی ٔ جاں سر پھری موجوں کے بیچ
 سانس کے گہرے سمندر کو کنارہ چاہیے
 شمیم طارق

کبھی تو فصل آئے گی جہاں میں میرے ہونے کی
 تری خاکِ بدن میں خود کو بونا چاہتا ہوںمیں
 فرحت احساس

گزر چکے ہیں بدن سے آگے ، نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں
محیط سانسوں کے پار جاکر بہت ہی نایاب ہم ہوئے ہیں
 ریاض لطیف

میں اس کی روح کی تہہ میں اتر گیا آخر
 مگر وہ ساتھ مرے جانے کس ہوس میں رہا
 فاروق انجینئر

یہی نہیں کہ پہنچنا ہے آسمانوں پر
 دعائے وصل تجھے اب اثر بھی کرنا ہے
 ارشد عبد الحمید

قریب آکہ ارادے لہو کے دیکھتے ہیں
 دہکتی آگ کو ہونٹوں سے چھوکے دیکھتے ہیں
 نعمان شوق

اسے گئے ہوئے دو چار دن ہوئے ہوں گے
 مگر بدن کے تقاضوں نے مار ڈالا ہے
 شکیل جمالی

سمندروں کا سفر تو بس اک بہانہ ہے
 ہوس ہے عشق اگر اک نیا جہان ملے
 خالد عبادی
پہلے شعر میں سر پھری موجوں کے بیچ سانس کے گہرے سمندر کا تلازمہ جنسی اظہار کو فن کاری کے ساتھ نمایاں کر رہا ہے ۔ دوسرے شعر میں محبوب کی خاکِ بدن میں خود کو بونے کی خواہش اور پھر اپنے وجود کی فصل کی نشو ونمااور اس کا بے باک اظہار قاری کو متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح بقیہ اشعار میں بدن سے آگے گزرنے اور محیط سانسوں کے پار جانے کو نجات سے تعبیر کرنا، روح کی تہہ میں اترنے کے باوجود ہوس کی کیفیت کا باقی رہ جانا، محبوب کی غیر موجودگی میں بدن کے تقاضوں کاجاگنا، اپنی سانسوں کے سیلاب میں لاپتہ ہونا، لہو کے ارادے کو آزمانا اور دہکتی آگ کو ہونٹوں سے چھونے کا حوصلہ رکھنا، دعائے وصل کا اثر کرنا اور ابھرتی موجوں کے درمیان جسم کا ساحل ہونے کی بات محض جذبات کی ہیجان انگیزی، شہوانیت اور ہوس سے تعبیر نہیں کی جاسکتی، کیونکہ یہاں جنس کے اظہار میں معاصر شعرا نے ایک خاص نوع کی شائستگی کاخیال رکھا ہے ۔ اس طرح معاصر غزل میں عشق کا دوسرا رنگ جنس زدہ ہوتے ہوئے بھی اینٹی غزل کے دائرے میں شامل نہیں ہوتا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ غزل کی مستحکم روایت سے شعراء نے خاطر خواہ فیض اٹھایا ہے اور وہ فکری سطح پر لاسمتیت کا شکار ہونے سے محفوظ رہے ہیں۔
معاصر غزل کا تیسرا رنگ، عشق کے امتزاجی رنگ کو ظاہر کرتا ہے ۔ عشق کا یہ مخصوص رنگ متوازن لہجے کی بنا پر ہمیں تاثرات کے انوکھے ذائقوں سے آشنا کراتا ہے۔ عشق کے اس رنگ میں شوخی کے ساتھ شائستگی کا بھی دخل ہے، جس کی بنا پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس امتزاجی رنگ میں بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہوئی محسوسات کی آمیزش بھی ہے۔ عشق کے اس امتزاجی رنگ کو ندرت بخشتے ہوئے معاصر شعرا نے عشق کے نازک جذبات کو تمام تر پہلوؤں اور ابعاد کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس کی بنا پر عشق اور جنس کے امتزاج سے مفاہیم کی عقبی زمین نہ صرف تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، بلکہ مفاہیم کی توسیع کا اندازہ بھی ہوتا ہے ۔ اس رنگ کو فروغ دینے والے شعراء نے تصور عشق کو نسبتاً وسیع تناظر میں برتنے کی سعی کی ہے۔ عشق کے اس رنگ میں عاشق جہاں ایک طرف بے حد حساس دکھائی دیتا ہے ، وہیں دوسری جانب اس کے مزاج کی شوخی بھی اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہے ۔ ایسے اشعار میں انا پرست عاشق کے جذبات ایک خاص طمطراق کے ساتھ اجاگر ہوتے ہیں، جن کے مطالعے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ عاشق، محبوب سے قربت کا خواہاں تو ہے ، لیکن ساتھ ہی اپنی شرطوں پرزندگی گزارنے کی خواہش بھی رکھتا ہے ۔ اس نوع کے اشعار میں عاشق ، خود احتسابی کے عمل سے گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ تصورعشق سے متعلق کئی سوالات بہ یک وقت اس کے ذہن میں ابھرتے ہیں جن پر سنجیدگی سے غورو خوض کے لیے وہ اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے ۔ زندگی کا بدلتا ہوا منظر نامہ اس کے پیشِ نگاہ ہے۔ ساتھ ہی عشق کی اہمیت کو بھی وہ دل سے تسلیم کر رہا ہے ۔ ایسے میں غم روزگار کی دلفریبی اور عشق کی سحر انگیزی مشترکہ طور پر اسے اپنے حصار میں لیتی ہے اور سنجیدگی و شوخی کے اختلاط سے عشق کاامتزاجی رنگ تشکیل پاتا ہے ۔ اس ضمن میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ دل کسی کو مگر کیوں تلاش کرتا ہے
 سفر کے دشت میں گھر کیوں تلاش کرتا ہے
 (عبد الاحد ساز)

آج پھر روحِ تمنا میں حرارت جاگی
 آج پھر اس کے تبسم کا شرارا چمکا
 (سجاد سید)

اس کی آغوش ہی ہر درد کا درماں ہے طراز
 رات پھر آئی ہے اک عکسِ منیری لے کر
 (راشد طراز)

قربتوں کی رات یوں بھی کاذبانہ کاٹ لیں
 عمر بھر اندر سسکتا فاصلہ زندہ رہے
 (خورشید اکبر)

دل نیلام میں بکنے والی ایک بڑی جاگیر
 اس جاگیر کا اک اک گوشہ اس چہرے کے نام
 (محسن رضا رضوی)

وہ تعلق جس کو دونوں ہی سمجھتے تھے مذاق
 اس قدر باقاعدہ ہوجائے گا سوچا نہ تھا
 (سراج اجملی)

بس ایک بار ترا عکس جھلملایا تھا
 پھر اس کے بعد مرا جسم تھا ، نہ سایہ تھا
 (راشد انور راشد)

کتابِ عشق کے ہر باب سے انجان رہتا تھا
 مگر چہرے نئے دیکھے تو دل حیران رہتا تھا
  (عاصم شہنواز شبلی)
ان اشعار میں عشق کی مخصوص کیفیات کے پیشِ نظر عاشق کے خود احتسابی رویّے کو آسانی کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ دشت کے سفر میں گھر کی تلاش بظاہر ممکن نہیں، اس کے باوجود حصولِ منزل کی امید، دل کے کسی گوشے میں سر ابھارتی ہے اور یہی امید نامساعد حالات میں بھی محبوب سے قربت پر اصرار کرتی ہے ۔ یہی قربت روح تمنا میں حرارت کی بنیاد ثابت ہوتی ہے ، جس کی بنا پر محبوب سے غیر سنجیدہ تعلق بھی رفتہ رفتہ باقاعدہ ہونے لگتا ہے۔
اس طرح تصورعشق کے حوالے سے ، معاصر اردو غزل کا جائزہ لینے پر اس بات سے آگاہی ہوتی ہے کہ یہ شاعری ماقبل کی غزلیہ شاعری سے خاصی مختلف ہے، کیونکہ زندگی سے متعلق احتساب کا جو رویہ اب ہمارے پیش نگاہ ہے ، وہ گزشتہ عہد میں اس حد تک قابل قبول نہ تھا۔ ماقبل کا تہذیبی اور ثقافتی منظر نامہ مختلف تھا۔ اس عہد کے تقاضے مختلف تھے، جن میں عشق کے روایتی تصور کا غلبہ تھا۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ عہد کی غزلوں کے حوالے سے زندگی کے تئیں جو کچھ بھی احتسابی کاوشیں منظر عام پر آئیں، ان میں ایک مخصوص عہد کے میلانات سے آشنائی عام تھی۔ عشق کا تصور بھی انھیں میلانات کاتابع تھا۔ آج جس نوع کی غزلیں کہی جارہی ہیں، ان میں نئے زاویۂ نگاہ کے سہارے زندگی، معاشرہ، تہذیب، ثقافت اور کائنات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ہی عشق کی متنوع کیفیات کو انوکھے زاویوں سے پیش کرنے کی روش عام ہوتی جارہی ہے۔ تصور عشق کے حوالے سے معاصر اردو غزل کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ اس شاعری میں روایت کی پاسداری تو جھلکتی ہے ، لیکن یہ پاسداری ،روایت کی اندھی تقلید ہر گزقرار نہیں دی جاسکتی۔ اس کے سلسلے حال کے ساتھ ہی ساتھ ماضی سے بھی منسلک ہیں جس کی بنا پر زندگی سے اس کے انسلاکات مزید گہرے ہوجاتے ہیں۔  

Rashid Anwar Rashid
Department of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh, (U.P.)
سہ ماہی فکر و تحقیق جنوری تا مارچ 2013 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں