4/3/20

غزل میں کفر و الحاد کا تصور مضمون نگار: حقانی القاسمی





غزل میں کفر و الحاد کا تصور
حقانی القاسمی
عقیدوں یاعقیدتوں میں محصور معاشرہ خردافروزی، تعقل پسندی یا آزادہ روی کی روش کوپسند نہیں کرتا۔کسی بھی مکیف معاشرے میں مذہبی مسلمات یا معینہ اقدار سے انحراف اور اختلاف کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ نظری ادعائیت یا مذہبی نرگسیت تنقید یاطنز کی متحمل نہیں ہوتی، ذرا سی روشن خیالی، عقلیت پرستی، اعتزال پسندی کے اتہام کے لیے کافی ہوتی ہے۔
غزل کا جس معاشرے سے سابقہ پڑا، وہ علمی اور ادراکی پسماندگی کا شکارتھا۔ ایک خلاقیت مخالف معاشرہ جہاں مذہب سے بڑی کوئی میزان نہیں تھی، قوت متخیّلہ، وجدانیہ کو معطل کرنے والا یہ ایسا معاشرہ تھاجہاں مذہبی پیراڈائم سے انحراف کفروالحاد کی حدوں میں پہنچا دیتاہے، شرعی سخت گیری کے ایسے ماحول میں متعینہ راہ وروش سے انحراف دارورسن کو دعوت دینے کے مترادف ہے،مگر اس معاشرتی اور مذہبی جبر کے باوجود بڑے خلاق ذہنوں نے فکری عبودیت اوربندگی کی بندشوں کو توڑکر حیات و کائنات کودیکھنے اور پرکھنے کے اپنے پیمانے وضع کیے۔ شاعروں کی محدود اقلیت نے معاشرے کی روش عام سے اجتناب کیااور فکرونظر کی نئی بستیاں آبادکیں۔ پرانے مسلمات کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور اس طرح تشکیک پسندی کی ایک لہرنے جنم لیا۔جس سے مذہبی مسلمات کی طنابیں اکھڑنے لگیں۔ان اذہان نے اس روشنی کی جستجو کی جس کی سزاسنگ باری ہوتی ہے۔ خودآگہی کی منزل کی طرف ان ذہنوں نے یہ سوچ کر اپنے قدم بڑھائے کہ احتجاج یااختلاف سے عاری اورمقلدمعاشرے کاارتقارک جاتا ہے۔
ایسے انحرافی اذہان کی منطق یہ تھی کہ اثبات یا انکار کا تعلق واضح حقائق سے ہوتاہے اور جب حقیقت ہی مبہم ہو تو اثبات یا انکار کاسوال ہی کہاں پیدا ہوتاہے۔ ان ذہنوں کی تشکیک تحقیق کی ایک نئی منزل کی متلاشی ہوئی،جس کے نتیجے میں تشکیک ایک حاوی اور غالب رویے اور رجحان کی صورت میں ابھری، مگر پس رو،تفکیر،تدبیر اور تعمیل سے عاری معاشرے کو یہ رجحان ایک آنکھ نہیں بھایا۔ جبکہ یہ ایک صحت مندرویہ تھا، کیونکہ  اسی رویے سے خیروصداقت کے حقیقی سرچشمہ تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے اور یہی رویہ تحقیق وتخلیق کاحقیقی منصب بھی ہے۔ جون ایلیا نے اپنے مضمون میں اس معنی خیزنکتے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
’’عقیدوں کے نظام، غیرمشروط حسن، خیراور صداقت سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں چنانچہ مابعدالطبیعی حقائق کے شاعر، شاعر سے بلندتر مرتبے کے حق دار توہوسکتے ہیں مگرشاعرنہیں ہوسکتے۔’’شاعری ایک واقعے کو چار آنکھ سے دیکھنے اور ایک کیفیت کو دوذہنوں سے محسوس کرنے کاعمل ہے۔‘‘(ادبی شخصیات: ڈاکٹر ظفر مرادآبادی، ص-20)
تشکیک تخلیق کا عنصری جوہرہے اس لیے یہ رویہ اکتشاف حقائق تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہے۔
پروفیسر وحیداختر نے اس کی بابت لکھا ہے :
’’تشکیک جو نسبتاً وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوسکتی ہے ایک عام ذہنی رویہ ہے۔ علمیاتی یا مابعدالطبیعاتی نظریہ نہیں، یہ ایسا مثبت اورصحت مند رجحان ہے جو تمام رائج الوقت فلسفوں اور اقدار کوشک کی نگاہ سے دیکھتا انھیں جانچتا اور پرکھتاہے تاکہ حقیقت کی ماہیت اور تہہ تک پہنچ سکے۔یہ میلان آج ہماری پوری سماجی اور ذہنی زندگی پرمحیط ہوتا جارہاہے۔ پھربھی ناقدین نے نظریات کی عینک لگاکر اسے کبھی فراری ذہنیت کا نام دیا کبھی آزادی کی ایسی لگن بتایا جس میں ذمے داری کا احساس نہ ہو۔ کبھی اسے مقصد کے فقدان کانام دیاگیا اورکبھی ذہنی کم مائیگی کہاگیا۔ انسان کے متجسس اور توانا ذہن کو مروجہ عقائد اور تصورات و اقدار کو جانچنے پرکھنے اور شک کی نظر سے دیکھنے کی اجازت ہی نہ دینے کا نام ادعائیت (Dogmatism)یا ملائیت برہمنیت ہے تشکیک کے اس مثبت رجحان ہی میں آئندہ کے تصورات واقدار تک پہنچنے کا امکان بھی ہے اور مستقبل کی صورت گری کی قوت بھی۔‘‘
(فلسفہ اور ادبی تنقید)
اردو کے جو شاعر مستقبل کی صورت گری کی قوت کے رمز سے آگاہ ہوئے، انھوں نے ایک انحرافی راہ اور اختراعی روش اختیار کی اور غزل کو محبوس معاشرے کا محدود اظہاریہ بننے سے بچالیا اورغالب کے شکوے کے باوجود غزل کی صنف کو کچھ اور وسعت مل گئی۔ حسن وعشق کے حدود سے نکل کر کائنات کے ان مسائل و موضوعات کو مس کرنے لگی جن کا تعلق انسان کی ذات کے اضطراب،المیے،بحران، انتشار، سماجی وقوعے،سیاسی واردات سے تھا۔ اس طرح غزل نے ایک طویل سفر طے کیا اور لمحہ لمحہ زندگی کے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔ویسے بھی جس معاشرے میں غزل کی صنفی تشکیل ہوئی، وہاں سے ہندوستان تک آتے آتے اس کی صورت ہی نہیںسیرت بھی بدل گئی۔ غزل، یہاں ایک ’تیسری تہذیب‘ سے آشناہوئی جسے انڈومسلم کلچرکانام دیاگیا۔ اس تہذیب کے تصورات نے غزل کی فکر اور فرہنگ کو بدل دیا۔ لسانی، فکری ’امتزاجیت‘ کے عناصر نے اس کی کتھارسس کی اور اس  فلسفے  سے آشنا کیاجوآریائی ذہنوں کا وضع کردہ تھا جسے ’وحدت وجود‘ یا ’ہمہ اوست‘ کا عنوان دیاجاتاہے۔ اس فلسفہ کی رو سے موجود صرف  ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے اور اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔کائنات کا وجود خیالی ہے۔ اس کے ہر ذرے میں خدا کی نمود ہے۔ اس طرح کائنات خدا کے وجود کا حصہ ہے اور اس کے مظاہر خداکی شکلیں ہیں۔ عرب دنیامیں اس تصور کی تشہیر اور تبلیغ محی الدین ابن عربی نے کی جبکہ ہندوستان میں اس فلسفے کے محرک سری شنکر ہیں۔ یہ نظریہ ویدانت اور اپنشد سے ماخوذ ہے۔اہل دانش کی طرف سے اس کی شدت سے مخالفت ہوئی کہ اس میں ترک عمل اور نفی خودی پرزور ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب میں یہ بھی لکھ دیا کہ   :
’’مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعرا نے عجیب و غریب اور بظاہر دل فریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے ‘‘       (نقد اقبال: میکش اکبرآبادی، ص-24)
اسی نظریے کی مخالفت میں وحدت الشہود کا تصور سامنے آیا جس کے محرک شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی تھے۔ ان کے مطابق مخلوقات کا وجود وجود ظلی ہے اور خدا کا وجود ابدی اور ازلی ہے اور کائنات کی ہر شے خدا کی ذات کا حصہ نہیں ہے ورنہ ہر شے قابل پرستش قرار پائے گی۔  اہل تصوف زیادہ تر وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ اسی لیے بعض علما تصوف کو مشرکانہ عقائد کا مجموعہ کہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں فلسفیانہ اور جدلیاتی مسائل ہیں۔ دونوں میں انتہا پسندی خطر ناک ہے۔ دونوں میں صرف تعبیرات کا فرق ہے۔ یہ معنیات کا اختلاف ہے جسے فکری مجادلے اور مناقشے میں بدل دیا گیا ہے۔ فتاوی عثمانی میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ :
’’وحدت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذات باری کا ہے اس کے سوا ہر وجود بے ثبات ‘فانی اور نا مکمل ہے ‘‘
وحدت الوجود کا فلسفہ اتنا گنجلک بنا دیا گیا کہ اس کی صحیح تعبیرات سامنے نہ آسکیں اور کائنات کی ہر شے میں معبود کی موجودگی اس طرح متصور کر لی گئی کہ خالق اور مخلوق کے درمیان کا فاصلہ ختم سا ہو گیا۔خدا کی ذات اور صفات میں بھی دوسری اشیا کوشریک کر لیا گیا۔ اس طرح وحدت الوجود کے صحیح مفاہیم اور مقاصد سے مکمل آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس تصور کی سرحدیں کفر ‘ الحاد اور زندقہ سے ملتی گئیں جبکہ وحدت الوجود کے نفس تصور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔اگراس میں الحاد وزندقہ کا عنصرہوتا تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مرزامظہرجان جاناں،قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے علمااس نظریے کی تائید نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی آخر میں وحدت الوجود کے فلسفے کی تصدیق و تائید کی جس کی تفصیل میکش اکبرآبادی کی کتاب ’نقد اقبال‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اردو کے خمیر میں وحدت الوجود کا ہی تصور ہے اس کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ مختلف مذاہب میں مشترکات اور مماثلات کی تلاش ہے  دوسری وجہ اردو کی سیکولر روح ہے کہ اس کی جنم بھومی وہ سرزمین ہے جہاں مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ بستے ہیں۔ جہاں مذہبی تصلب، تقشف اہل ایماں کے وجود اور تشخص کے لیے ہی نہیںبلکہ اپنے تصور کی ترسیل اور تبلیغ کے لیے خطرہ بن جاتا، اس لیے پروانہ چراغ دیر و حرم نمی داند پر عمل کرنا لازمی ٹھہرا کہ اجنبی فضا میں ترابط اور تفاہم سے ہی آگے کی راہیں کھلتی ہیں۔۔مقامی مقتضیات کے مد نظر رواداری،آزادروی کے تصور کا فروغ فطری تھا۔ 
اردوغزل میں وحدت الوجود کے نظریات کی آمیزش رفتہ رفتہ ہوتی گئی اور اس طرح غزل ویدانتی فکر سے آشناہوکر مذہبی جذبات سے زیادہ صلح کل اور وسیع المشربی کی ترجمان بن گئی۔اردو کی غزلیہ شعری روایت خاص طور پرکلاسیکی شاعری وحدت الوجود کے تصور سے ہی متاثر رہی ہے۔پروفیسر گوپی چندنارنگ نے اردو غزل میں ہندوستانی ذہن و تہذیب کی تلاش کے دوران اس خاص نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے:
’’ہمہ اوست اورہمہ ازاوست کا بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک کثرت آرائی عالم کو عین ذات کہتا ہے۔ دوسرا اسے مظہرصفات توتسلیم کرتا ہے لیکن عین ذات قرارنہیں دیتا۔ پہلے کی رو سے کائنات چونکہ وحدت کی تجلی ہے اس لیے کثرت حقیقی یا اصلی نہیں بلکہ واہمہ اورفریب حواس ہے۔ ہمہ ا زاوست کی رو سے کائنات کا ذرہ ذرہ چونکہ خالق باری کی تخلیق ہے،اس لیے عالم ظاہر،غیراصل،موہوم یا معدوم نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔ تصوف کا یہ دوسرا نظریہ وحدت وجود کے غیراسلامی رنگ کو ختم کرنے اور تصوف کو توحید اسلامی سے مطابقت دینے کے لیے بہت بعدمیں وجود میں آیا۔ ظاہرہے کہ یہ اسلامی مذہبی روح کا وہ ردعمل تھا جو اپنی بنیاد کے تحفظ کی خواہش کے تحت کسی بھی مذہب میں پیدا ہوجانافطری ہے۔ وحدت شہود کے نظریے کو فلسفیانہ بنیادوں پر قائم کرنے کاکام ہندوستان میں ہواکیونکہ وحدت وجود کے ہندی تصورات سے ملتے جلتے نظریات اسلام میں سب سے زیادہ عمل دخل یہیں پاگئے تھے،لیکن یہ اصلاحی کوشش چونکہ ایسے رجحان کے خلاف تھی جو بنیادی طورپر ہندوستانی مزاج سے گہری مناسبت رکھتاتھا اور مشترک تہذیب کی جڑوں تک اترگیاتھا، اسے پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی اوروحدت وجود کا نظریہ بدستور مذہب، اخلاق، علمیت، قابلیت، شعروادب وغیرہ ہرشعبے پرصدیوں تک چھایارہا۔ماحول کے ان رجحانات سے اردوغزل نے جو تصوف کی گودمیں پروان چڑھی گہرا اثرقبول کیا اور روحانی ماورائیت کے یہ وجودی خیالات اس میں طرح طرح سے راہ پاگئے۔‘‘(اردوغزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب،ص-243-44)
یہاں کی مختلف تحریکوں مثلاً بھکتی اور رامانند،کبیر،نانک، تکارام کے تصورات نے بھی اردوغزل کی فکر کو متاثر کیا اور مذہبی ظاہرداری سے بیزاری بڑھتی گئی۔ یوگ اور تصوف کے امتزاج واشتراک نے اردوشاعروں کے ذہنی زاویے بھی تبدیل کردیے اور انھیں بھی داراشکوہ کاوہ ’سراکبر‘ مل گیاجوامتزاجی نظریے پرمبنی تھا اور جس کی رو سے ـوید بھی الہامی کتابیں ہیں اور تمام ادیان کی منزل ایک ہے، گوراستے جداجدا ہیں۔ مرزامظہرجان جاناں،سیدعبدالولی عزلت،ملاشاہ بدخشی، سرمد شہید، سب اسی  نظریے کے حامل ہیں:
’’ ان کے نزدیک ہنود بھی موحد ہیں کہ وہ بتوں کو متصرف اورمؤثر بالذات نہیں مانتے۔ ان کا سجدہ عبودیت کا نہیں، تحیت کا ہوتا ہے۔ صوفیا کی طرح وہ بھی صاحب صورت سے مناسبت پیدا کرتے ہیں۔ اور اسی نسبت سے حوائج معاش اور معاد کو پورا کرتے ہیں۔‘‘ (تفصیل کے لیے : عہد وسطی میں ہندو مسلم تعلقات ‘ ڈاکٹر محمد عمر مشمولہ اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب مرتبہ کامل قریشی ص 301 )
وحدت ادیان کے بنیادی تصورپر محیط وحدت الوجود کے ہندوستانی نظریے کا نفوذ ذہنوں میں اس طرح ہوا کہ اسلامی شعائر بھی اس کی زد میں آ گئے۔ سب سے پہلے خالق کائنات کا وجود ہی شک کے دائرے میں آگیا۔ اور اس کے وجود کو تسلیم کیا گیا تو وجود کی شکلیں بگاڑ دی گئیں۔  اس کے وجود میں کچھ ایسی اشیاء بھی شامل کر لی گئیں کہ خدا کے ازلی اور ابدی وجود اور ذات واحد کا معنی و مفہوم ہی مسخ ہو گیا۔
غالب نظریہ وحدت الوجود کے قائل تھے مگرانھوں نے توخدا کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگادیا:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیاہوتا
اور پھران کی صفات پر بھی سوال کھڑے کردیے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
یہ خداکی صفت ’عدل‘ سے انکارنہیں توکیا ہے؟
خدا کی ذات سے انکاربھی ’کفر‘ میں شامل ہے مگر شاعروں نے خدا کے وجود کو ایک واہمہ تخیل قرار دینے سے گریز نہیں کیا۔
 ایسا ہی انکار شجاع خاور کے اس دعائیہ آہنگ میں بھی ہے:
یا الٰہی تو اگر ہے تو ہویدا ہوجا
اور نہیں ہے تو ابھی وقت ہے پیدا ہوجا
خدا کی کثرت بھی اس کی وحدت کوتسلیم کرنے کی راہ میں مانع بنی۔چنانچہ ساحرلدھیانوی نے اسی منطق کی رو سے خدا کی ذات سے ہی انکارکردیا:
ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا
کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں
اور یگانہ چنگیزی کا ذہن بھی اسی کشمکش کا شکار رہا :
بندے نہ ہوں گے جتنے خدا ہیں خدائی میں
کس کس خدا کے سامنے سجدہ کرے کوئی
خدا کی ذات کو ایک کرے یا منطقے میں محدود کرنے کا رویہ بھی عام ہے۔ساحرلدھیانوی نے کہا:
آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم
آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم
تو جون ایلیا نے یوں طنز کیا:
یہ جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
نطشے کی طرح خدا کی موت یااس کے مفلوج و معطل ہونے کااعلان بھی شاعروں نے کیا ہے۔ سلطان اختر کا ایک شعر ہے:
دل مطمئن ہے اس کی رضا کے بغیر بھی
ہر کام چل رہاہے خدا کے بغیر بھی
شجاع خاور نے بھی اسی طرح کے شعر کہے ہیں جن میں خدا کی ذات یا صفات پرگہرا طنزہے:
نہ اتنے زور سے سوچو کہ جاگ اٹھے وہ
خدا ابھی ہمیں تخلیق کرکے سویا ہے
یا توجہ میری دنیا کی طرف پوری دے
یا پھر ایک اور خدا کی مجھے منظوری دے
شاعروں نے صرف خدا کی ذات سے انکار نہیں کیا بلکہ اپنی ذات میں بھی ’خدائی عنصر‘ دریافت کرلیا:
یہاں کے لوگ تو ہم کو خدا سمجھتے ہیں
کسے سنائیے اپنی وفات کا قصہ
خدائی پہ خاموش رہتے ہیں لوگ
خدائی کا دعویٰ ذرا کیجیے
(شجاع خاور)
میں نے بھی اک بنائی ہے دنیا یہاں سے دور
ایسا بھی اک جہان ہے جس کا خدا ہوں میں
(اختر انصاری)
اردو کے کچھ شاعروں نے خداکو ایک وہم وگمان سے زیادہ نہیں سمجھا۔ حالات کے جبرنے ان کے ایمان اور عقیدے کو اتنامتزلزل کردیا کہ خداکے اعمال اوراس کے نظام پر طنز کرنے لگے:
اسے بھی اپنی اناپر بہت بھروسہ ہے
مجھے بھی خوف نہیں ہے کسی خدا کا اب
مرے وجود سے خائف ہے آسماں اختر
کہ میرے پاؤں تلے آچکی ہے دنیا اب
خداوندا ترے ہوتے ہوئے بھی
ہراساں اس قدر انسان کیوں ہے
قیامت کو اگرباقی ہیں کچھ دن
توبرسوں حشر کا میدان کیوں ہے
(سلطان اختر)
حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہاتھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا
(عرفان صدیقی)
یہ ایک طرح کا ذہنی فرسٹریشن یا افسردگی کا اظہار ہے۔ ورنہ ان شعرا کو بھی پتہ ہے کہ یہ کائنات تضادی تفریق (Binnary Opposition)کے نظام پر قائم ہے۔تمناؤں اور آرزوؤں کی شکست ہی خدائے وجود کااثبات ہے۔ یہ دنیا رزم گاہ خیروشر ہے۔ یہاں ہرلمحہ انسان کے ایمان و ایقان کی آزمائش ہوتی ہے۔ اگرانسانوں کے ارادے کے مطابق ہی یہ کائنات چلے تو اس کا سارا نظام ہی معطل ہوجائے گا۔ حضرت علیؓ نے کہاتھا کہ ارادوں کی شکست نے ہی خدا کی معرفت عطا کی۔تویہ جملہ اپنے اندر ایمان اور عقیدے کی پوری صلابت اور حرارت لیے ہوئے ہے۔
خدا کی ذات شاعروں کے لیے طعن وتشنیع کا مرکز ومحوررہی ہے۔ خالق کے بجائے اسے بھی ایک مخلوق کی حیثیت دی گئی۔ خدا کی ذات و صفات میں بھی بشریت کے عناصر کی جستجو اور اس کے ساتھ زمینی مسائل ومتعلقات میں خدا کی لاچاری، مجبوری،بے بسی کو شاعری میں پیش کیاگیا ہے:
کون جانے گا اب خدا اس کو
جس کی ہر بات آدمی سی ہے
(اقبال حیدر)
قیامت کی دھمکی، عذابوں کا ڈر
ابھی تک خدا سے ہوا کچھ نہیں
(ارتضیٰ نشاط)
خدا کے صفاتی تشخص پر یلغار کے ساتھ انسان کی طرح خدا کی شکست وریخت کا اعلان بھی کیاہے:
سویرے میری ان آنکھوں نے دیکھا
خدا چاروں طرف بکھراپڑا ہے
(بشیربدر)
دعا کے ہاتھ پتھر ہوگئے ہیں
خدا ہر ذہن میں ٹوٹا پڑا ہے
(ندافاضلی)
نہ دن کے بعد سکوں ہے نہ چین رات کے بعد
خدا ملول ہے تخلیق کائنات کے بعد
(شریف احمدشریف)
میں دونوں کے بیچ میں پڑکر کانچ کی صورت ٹوٹ گیا
اک چٹان سی بے حس دنیا اور خدا اک پتھر جیسا
(ظفرگورکھ پوری)
بعض شاعروں نے توخالق ومخلوق کے مابین حدفاصل ہی ختم کردی:
یاد اب خود کو آرہے ہیں ہم
کچھ دنوں تک خدا رہے ہیں ہم
ہم خدا بن کے آئیں گے ورنہ
ہم سے مل جاؤ آدمی کی طرح
(بشیربدر)
راکشش تھا، نہ خدا تھا پہلے
آدمی کتنا بڑا تھا پہلے
(ندافاضلی)
اگر دشوار ہوجائے خدائی
مجھے آواز دے لینا خدایا
(قیصرالجعفری)
(بحوالہ اردو شاعری میں خدا: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، مطبوعہ، صحافت ممبئی 13جنوری 2013)
دیکھ اب اپنے ہیولے کو فنا ہوتے ہوئے
تو نے بندوں سے لڑائی کی خدا ہوتے ہوئے
(شہزاداحمد)
اردو کے ان شاعروں  کے ذہنوں پر شاید ان افکار کے اثرات ہیں جو قدیم زمانے سے بعض معاشروں میں عام رہے ہیں۔ ان کے ڈانڈے ایک طرف سانکھیہ کے اس تصور ثنویت سے ملتے ہیں جس میں خدا کا وجود محض ما بعد الطبیعاتی مفروضہ ہے جو کائنات کی تخلیق کو پرش اور پراکرتی کے اتصال کا نتیجہ مانتی ہے یا پھر ان جدید تصورات سے جن میں ماورائیت کی موت پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی ہے۔ جرمن فلسفی نطشے نے خدا کی موت کا اعلان کیا تو جدید ذہنوں نے بھی اس تصور کو قبول کرتے ہوئے ماورائی خدا کے امکان کو ہی مسترد کر دیا۔ Thomas J Altizer  نے  اس خیال کو عام کر دیا کہ خدا  اپنی الوہی صفات سے محروم ہو چکا ہے اور اپنا مقدس وجود بھی۔ وہ مسیح کی شکل میں مکمل طور پر انسان بن چکا ہے اور یہودیوں کی کبالہ شاخ نے نہ صرف یہ کہ خدا کی موت کا اعلان کیا بلکہ محل موت کا بھی تعین کر دیا۔ اس فکر کے مطابق دنیا کی تخلیق کرتے ہوئے خدا کی موت واقع ہو گئی تھی اور اس کی موت ہٹلر کی بنائی ہوئی عقوبت گاہ Auschwitz میں ہوئی  جو یہودیوں کی اذیت گاہ کے نام سے مشہور ہے۔ فرینک ہگ فاسٹر نے بھی اپنے ایک لکچر میں یہ صاف طور پر اعلان کیا کہ ماڈرن کلچر پس الحادی مرحلہ Post  theistic stage   پر پہونچ گیا ہے اور خدا کے تمام اختیارات اور قوت تخلیق پر انسانوں کا تسلط ہو گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ شرمن روایت سے بھی ان شاعروں کی شناسائی ہوجہاں الوہیت یاربوبیت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔غالب امکان ہے کہ جدید شاعروں نے ان تمام قدیم وجدیدتصورات سے استفادہ کیا ہو اور ایک نئے وژن کے فیشن میں اس طرح کے انحرافی خیالات ظاہر کیے ہوں۔
ویسے دیکھا جائے تو  زیادہ تر شعروںمیں ’’خدا‘‘ بطوراستعارہ یاعلامت استعمال کیا گیاہے۔ چونکہ خدا قوت،عظمت اقتدار اور اسٹبلشمنٹ کا استعارہ ہے  اس لیے حساس انسانی مزاج ہر اقتداری نظام کے خلاف احتجاج کر تا ہے۔ یہ اقتدار سے گلہ اور شکوہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ویسے لغت میںخدا کا معنی ’معشوق‘ بھی ہے جو ستمگر اورجفاشعار ہوتاہے۔ یہاں شخصی خداؤں، مختلف طبقات کے تخلیق کردہ خاص طورپر بورزواؤں کے خدا اور ارباب مذہب کے نرالے خداؤں کے بارے میںبیان ہے ——’اصلی خدا‘کا ان شعروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف شاعری کی تخلیقی اٹھکھیلیاں ہیں یا وحدت الوجود کی نازک خیالیاں۔ اس  خدا بیزاری میں بھی تعلق، یاقرابت قریبہ، کا ایک پہلو نکلتاہے۔جیسے کہ علامہ اقبال کے شکوہ میں اسی قربت کی ایک جہت روشن تھی اسی لیے معتبر اور مستند علما نے ان کی تکفیر میں تعجیل سے کام نہیں لیا۔ زیادہ تر شاعروں کی داخلی سائیکی میں خدا اورمذہب کا وجود مسلم ہے۔یہ اور بات کہ خارجی موثرات اور عوامل ان کے شعور کی منطق کو بدلتے رہتے ہیں۔ یہ اشعار شاعر کی داخلیت سے زیادہ خارجیت کا اظہارہیں۔ یہ مذہب کی روح نہیں رسومات کے خلاف جذباتی تخلیقی ردعمل ہیں۔ شخصی خدا کے بندگان خانہ زاد کی پیداوار دین کے خلاف اپنے غصے کا اظہار ہے۔مذہب اوراس کے متعلقات کی مسخ شدہ شکلوں کے خلاف یہ تخلیقی احتجاج ہیں۔غالب کا یہ شعر اسی حقیقت کا مظہر ہے:
ہم مؤحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
ان میں سے بیشتر شعرا نے حمدیہ، نعتیہ، منقبتی اشعار بھی کہے ہیں اس لیے مذہب ان کے باطن میں موجزن ہے۔ صرف خارجی حالات یا جبران کی ذہنی کیفیت پریوں اثرانداز ہوجاتے ہیں کہ قرآن پاک کی یہ آیت نگاہوں میں آجاتی ہے ’والشعراء یتبعھم الغاؤن۔‘ اور یہ کہ’ الم تر انھم فی کل واد یھیمون وانھم یقولون مایفعلون‘یعنی ان کے قول اور عمل میں تضاد کی نسبت ہوتی ہے اسی لیے شاعروں کے ان اقوال کو ان کے اعمال کی میزان بنانا شاید موزوں نہ ہوگا اور یوں بھی تعبیرات اور تاویلات کے دروازے جب کھلے ہوں تو تمام جہتوں کو دیکھتے ہوئے ہی کوئی بات کہی جانی چاہیے۔محتسبوں جیسا رویہ اپنانے سے بیشتر شاعر کافر ‘ملحد اور زندیق قرار پائیں گے۔
اسلام کے مرکزی تصورتوحید کے علاوہ بنیادی عقائد اورتعلیمات پر بھی شاعروں نے طنز کیا ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں آخرت،جنت ودوزخ اور تقدیرکا تصور بھی ہے۔ شعرا نے اپنی شاعری میں اس کی بھی تردید،تنسیخ کی ہے۔
مرزا اسداللہ خاں غالب نے معتقدات اور مسلمات سے انحراف کرتے ہوئے مذہب اور اس کے تلازمات پر یوں طنز کیا:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
طاعت میں تار ہے نہ مے انگبین کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
(غالب)
واعظ بجا ہے کہیے جو ویرانے کو بہشت
جنت اسی کا نام ہے آدم جہاں نہ ہو
(داغ)
مذہبی مسلمات اور دینی شعائر سے انحراف اور انکار کی صورتیں کلاسیکی شاعری سے لے کر آج تک کی شاعری میں عام ہیں۔ بعض تصورات توایسے ہیں جن کی سرحدیں کفروالحاد سے جاملتی ہیں۔مثلاً خدا کی ذات وصفات میں کسی اور کو شریک کرنا، بت پرستی کو خداپرستی کے مساوی سمجھنا،مثال کے طورپر جوشش کا یہ شعر:
چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے
بت پرستی بھی حق پرستی ہے
یا بہادرشاہ ظفر کایہ شعر:
مئے وحدت کی ہم کو مستی ہے
بت پرستی، خدا پرستی ہے
اسی طرح سودا کا ایک شعر ہے:

ہندو ہیں بت پرست مسلمان خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشناپرست
میر نے بھی اس نہج کاایک شعر کہا:
کس کو کہتے ہیں نہیں میں جانتا اسلام وکفر
دیر ہو یا کعبہ مطلب مجھ کو تیرے در سے ہے
یہ صریحاً ’ان الدین عنداللہ الاسلام‘ اور من یبتغ غیرالاسلام دینا‘جیسی  آیتوں کا انکار ہے۔ اس طرح کے اور بھی اشعار ہیں جن میں کفرواسلام کی امتیازی لکیروں پرخط تنسیخ کھینچ دی گئی ہے:
کفر کچھ چاہیے اسلام کی زینت کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا
(سودا)
دیر و حرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
(غالب)
کفر واسلام کی نہ کر تکرار
دونوں یکساں ہیں چشم بینا میں
(جوشش)
خدا کے دین اور شریعت سے انکاربھی کفر والحاد کے دائرے میں آتاہے۔ساحر لدھیانوی کے اشعار میں اس طرح کے ملحدانہ تصورات ملتے ہیں۔انھوں نے عقائد اورمذہب کوایک خیال خام سے تعبیرکیاہے:
عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستہ اوہام ہے ساقی
آؤپرکھیں دین کے اوہام کو
علم موجودات کی باتیں کریں
بے زار ہے کنشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگران دین کی سوداگری کی خیر
انسان الٹ رہاہے رخ زیست سے نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
الحاد کر رہا ہے مرتب جہاں نو
دیر و حرم کے حیلہ غارت گری کی خیر
ان شعروں میں ’کفروالحاد‘کا شائبہ ضرور ہے مگرحقیقت میں یہ اشعار تکفیر کی بنیاد نہیں بن سکتے کیونکہ تکثیر معنی اور منشائے مصنف کے تناظرمیں دیکھاجائے تو بادی النظر میں ان کے وہ مفاہیم و مطالب ضرورہوسکتے ہیں جو مستوجب کفر ہیںمگرحقیقت میں یہ متعینہ مفاہیم سے الگ ہیں اور اس کی تفہیم کے لیے دیدہ دل کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
ویسے بھی غزل ایک رمزیہ اظہار ہے اس میں استعارات وعلائم کا ایک مبسوط نظام ہے۔اس میں میخانہ، پیمانہ، ساقی کے وہ لغوی معانی نہیں ہیں جو رند ی کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ ان میں بھی تصوف کے اسرارورموز پنہاں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ استعارے اور علامتیں ہیں جن کے مفاہیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یوں بھی کفر کی شرعی اور شعریاتی تعبیر میں بہت فرق ہے۔ کفر کے تعلق سے علامہ اقبال کی شعری تعبیر یوں ہے:
ہر کہ او را قوت تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست 
(جوقوت تخلیق سے محروم ہے وہ ہمارے نزدیک کافرو زندیق ہے)
انھی کا ایک اور شعر ہے :
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نظر جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
کارل مارکس کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ خیال اسی تناظر میں ہے :
قلب او مومن دماغش کافر است 
صوفی شاعر امیر خسرو کے شعروں میں اس کی تعبیر یوں روشن ہوئی ہے :
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آری آری می کنم با خلق ما را کار نیست 
شریعت اور شاعری کے تناظرات الگ الگ ہیں۔ شریعت نہ شاعری کی ساحری کو قید کر پائی اور نہ ہی شاعری نے اس کے اوامر و نواہی ‘ محظورات و ممنوعات سے کوئی شرعی رشتہ رکھا۔  پیمانہ شریعت سے شاعری کو ناپا نہیں جاسکتا کہ شاعری گنجینہ معنی کا طلسم ہے۔ 
اردو شاعری میں بھی ’کفر یا کافر ‘کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان کے مفاہیم اور مطالب قطعی وہ نہیں ہیں جو دینیات میں ہیں۔یہاں کفراور اسلام کی آمیزش انسانی وحدت کے مثبت تصور کو جنم دے رہی ہے۔ یہاں مذہب سے انکار نہیں بلکہ احترام ادیان کا جذبہ حاوی ہے۔
کفر و ایماں دوندی ہیں عشق کیں
آخرش دونوں کا سنگم ہوئے گا
کافر ہوا ہوں رشتہ زنار کی قسم
تجھ زلف حلقہ دار کے ہرتار کی قسم
(سراج اورنگ آبادی)
کعبہ و دیر میں حاتم بخدا غیرخدا
کوئی کافر نہ کوئی ہم نے مسلماں دیکھا
(شاہ ظہورالدین حاتم)
نہیں ہے وحدت وکثرت میں فرق مومن وکافر
کہ یہ کہتا ہے ہردم وحدہ اور وہ کہے ہرہر
(شاکرناجی)
غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر وحرم دیکھتے ہیں
عاشقوں کو شیخ دین وکفر سے کیا کام ہے
دل نہیں وابستہ اپنا سبحہ وزنار کا
(مرزامحمد رفیع سودا)

آئے ہیں میر کافر ہوکر خدا کے گھر میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
(میرتقی میر)

کفر سے اسلام کو اے شیخ بیگانہ نہ جان
ہے تری تسبیح سے رشتہ مرے زنار کا
کفرو اسلام اک جا پایا
دیر کو خانہ خدا پایا
(اشرف علی فغاں)

اے مرد خدا ہو تو پرستار بتاں کا
مذہب میں مرے کفر ہے انکار بتاں کا
(عبدالحی تاباں)

توڑ نا دیر وحرم تک بھی نہ چنداں ہے گناہ
اپنے مذہب میں ہے کچھ کفر نعرۂ آزردن دل
(قائم چاندپوری)

کفر اور دیں میں جدائی نہیں گردیکھے خوب
ساتھی تسبیح کے دانوں کی توزناربھی ہے
(شیخ غلام ہمدانی مصحفی)

دیر و مسجد میں سنے ذکرجو اس کافر کا
در و دیوار سے سر شیخ و برہمن مارے
(شیخ قلندربخش جرأت)

عین ایمان سمجھتے ہیں ہم ان کا دیدار
نہ تو ہیں کفر سے آگاہ نہ دیں سے واقف
جا کے دیر و کعبہ میں کیا لوگے تم اے غافلو
ہاتھ اٹھاؤ کفر اور اسلام سے بیٹھے رہو
(بہادرشاہ ظفر)

مومن سوئے شرق اس بت کافر کا گھر ہے
ہم سجدہ کدھرکرتے ہیں اور کعبہ کدھر ہے
(مومن خاں مومن)

اے دل ہو مست کشمکش کفر ودیں سے چھوٹ
مے خانے بھی بنائے ہیں دیروحرم کے ساتھ
کافر عشق ہوں حاجت نہیں زنار کی بھی
بار تسبیح مبارک رہے دین داروں کو
(شیخ امام بخش ناسخ)

کفر واسلام سے آزاد ہوں بے قیدہوں میں
مجھ سے کافر بھی نہ جھگڑے نہ تودین دار الجھے
قول اپنا ہے یہ سبحہ و زنار کے لیے
دوپھندے ہیں یہ کافر وایمان دار کے لیے
کمندوں سے نہیں کم سبحہ وزنار کے پھندے
پھنسے وہ جو فریب کافر و دین دار میں آئے
کون چھینے بت کو توڑے برہمن کے دل کو کون
اینٹ کی خاطر کوئی کافر ہی مسجد ڈھائے گا
(خواجہ حیدرعلی آتش)

کفر آشنا کہاں ہے کوئی مجھ سا دوسرا
مسجد کا تارا ہاتھ میں زنار ہوگیا
(منشی امیراحمد امیرمینائی)

برہمن و شیخ ہیچ ہیں سب نہ کوئی مذہب نہ کوئی ملت
ہمیں تری بندگی سے مطلب کہاں کا جھگڑا یہ کفر و دیں کا
                                  (سیدضامن علی جلال لکھنوی)

اسلام و فکر کچھ نہیں آتا خیال میں
مدت سے مبتلاہوں میں آپ اپنے حال میں
بے خودی پوچھے جو مذہب کوئی کیااس کو بتائیں
نہ خبر کفر کی ہم کو ہے نہ اسلام کی ہے
(سیدعلی محمدشادعظیم آبادی)

جبیں صرف جبیں بے جبیں معلوم ہوتی ہے
طبیعت بے نیاز کفر و دیں معلوم ہوتی ہے
جو مومن و کافر ہیں وہ دل ہی نہیں رکھتے
دنیائے محبت میں کعبہ ہے نہ بت خانہ
(شوکت علی خاں فانی بدایونی)

اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید و بند نے جسے ایماں بنا دیا
رسم فرسودہ نہیں شایان ارباب نظر
اب کوئی منظر بلند از کفرو ایمان دیکھیے
(اصغرگونڈوی)

سب ترے سوا کافر آخراس کا مطلب کیا
سر پھر ادے انساں کا ایسا خبط مذہب کیا
نشہ یک رنگ میں دونوں ہیں کیا ڈوبے ہوئے
کیسی جنگ زرگری ہے کافر و دیں دار میں
(یاس یگانہ چنگیزی)

قیامت کے یہ کالے کوس روشن ہو نہیں سکتے
عبث ہے ہم رکاب کافر و دین دار ہوجانا
(یگانہ)
یہ تمام اشعار اندھی مذہبیت اور خبط مذہب کے خلاف ہیں یہ اس مذہبی آویزش سے متعلق ہیں جو صرف محبت کو نفرت میں نہیں بدلتی بلکہ قتل و غارت گری کا مذہبی جواز بھی تلاش کرلیتی ہے۔شعرا چونکہ انسانیت کو سب سے بڑا مذہب مانتے ہیں اسی لیے وہ مذہبی ظاہر پرستی کے ہر رنگ و روپ کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے بجا لکھا ہے کہ :
’’ شاعر اور خاص طور پر غزل گو شاعر کا مزاج اور افتاد طبع ادعا پسندی کی کبھی حریف نہیں ہو سکتی۔ ادعا پسندی کا علمبردار زندگی کے پے چیدہ حقائق کو من مانے طور پر سادہ تصور کر کے صرف اپنے نقطہ نظر سے انہیں سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ کسی دوسرے کے نقطہ نظر کو دیکھنا پسند نہیں کرتا اور نہ سمجھنا چاہتا ہے ۔ وہ سب کچھ کرتا ہے سوائے احتساب نفس کے۔کٹر پن اور ادعا پسندی کے جلو میں تعصب اور تنگ نظری کا قافلہ بھی ہے جو ہر اس تصور کو اپنے پاؤں تلے روندتا جاتا ہے جس میں رواداری اور انسانی محبت کی بات ہو۔ یہ ادعا پسندی ایک زمانے میں مذہبی رنگ لیے ہوئے تھی، اسی لیے ہمارے شاعروں نے زہد پر چوٹیں کیں اور اس کی چوریاں ایک ایک کرکے دکھائیں اور تجریدی اور مذہبی اصول سے زیادہ محبت اور انسانیت کو اہمیت دی۔ ‘‘(اردوغزل : ڈاکٹر یوسف حسین خاںص312)
ایسا نہیں ہے کہ اردو شاعروں نے مذہب پر تنقید کی نئی طرح ڈالی ہو۔ قدیم زمانے سے ہی یونان و روما میں مذہبی تصورات پر تنقید کی روایت عام رہی ہے مذہب کو فرد اور سماج کے لیے نہ صرف مضر قرار دیا گیا بلکہ ذہنی مرض ‘ افیم اور مقتدرہ حاکم طبقے کے مفادات اور مراعات کے تحفظ کے لیے حربہ بھی کہا گیا۔ انسانوں کے قتل اور غارت گری کے لیے بھی اسے ذمے دار ٹھہرایا گیا۔ مذہب کی مسخ شدہ شکلوں نے ہی مذہب بیزاری کے رجحان کو بڑھاوا دیااور یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں کے احبار اور عیسائیوں کے رہبان نے مذہب میں اتنی تحریف اور ترمیم کی ہے کہ اس کی اصل روح ہی ختم ہو گئی اور یہی سازش اسلام کے ساتھ کی گئی کہ تفاسیر میں اسرائیلی روایات کی آمیزش بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی کہ بہت سی مذہبی حقیقتیں مسخ ہو گئیں۔تحریف کی کوششوں کی وجہ سے علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا :
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
اسی تحریف اور ترمیم کے تناظر میں ڈاکٹر اسرار عالم نے منطقی دلائل کے ساتھ ایک معروضہ پیش کیا ہے جس سے علما ئے دین قطعی اتفاق نہیں کریں گے کہ ’’نبی آخر الزماں حضرت محمد صلعم کا برپا کردہ نظام اسلام 661 عیسوی میں ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) اسلام مذہب کا لبادہ زیب تن کر کے برپا ہو گئی ‘‘( سرسیدکی  بصیرت ص 161)۔حساس فنکاروں نے بھی شاید یہ محسوس کیا ہوگا کہ دین کے نام پر جو تعبیرات پیش کی جا رہی ہیں وہ اسلام کی اساس سے مطابقت نہیں رکھتیں اس لیے مذہب کے تعلق سے ان کا رویہ تشکیک اور تذبذب کا رہا۔ اردو کے زیادہ تر شاعروں نے مذہب کی ظاہر پرستی پر ہی طنزکیا ہے۔ مذہب کی بنیادی روح پر وار کرنے کی ہمت یاجرأت کامظاہرہ نہیں کیاہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اردو شاعری پرتصوف کابہت گہرا اثررہاہے اور یہ وہ مثبت فلسفہ ہے جو بقول ڈاکٹر وحیداختر:
 ’’ادعائیت، ملائیت، مذہبی تشدد و سخت گیری، ظاہرپرستی،تفرقہ اندازی اور ابن الوقتی کے خلاف بغاوت بن کر روشن خیالی، رواداری، انسان دوستی اور عوام سے قربت کا مسلک بن جاتاہے۔‘‘(تصوف اوربھکتی کاتہذیبی کردار،بحوالہ سیکولرزم اور اردوشاعری،اختربستوی،ص541)
اردو کی غزلیہ شاعری میں ایسے افکار کی کثرت ہے جوکفر کی شقوں مثلاً کفرالعناد، کفرالانکار، کفرالکبر، کفر النفاق، کفر الاستحال، کفرالکرہ، کفرالاستہزا،کفرالارادہ، کفرالاستبدال کے ذیل میں آتے ہیں مگر اس سے کسی بھی شاعر کی فنی عظمت مجروح نہیں ہوتی کہ شاعر کا مذہب یالامذہبیت اس کی عظمت کا معیار ومیزان نہیں ہے کیونکہ اگر مذہب معیار ہوتا تو حضورؐ امراء القیس کے بارے میں یہ نہ کہتے’اشعرالشعرا وقائدہم الی النار‘ اور پھر حضرت علیؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا سب سے بڑا شاعر کون ہے تو انھوں نے فرمایا:
قوم نے اس میدان میں ایک ہی اسلوب میں نہیں دوڑلگائی کہ نشانہ اڑاتے وقت تیز رفتار اور کامیاب پہچان لیا جائے اگر یہ فیصلہ ضروری ہی ہے تو پھرامراؤ القیس
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
’’حضرت علیؓ رمضان میں ہرشب لوگوں کو کھانے پر مدعو کرتے تھے اور ان کو گوشت کھلاتے تھے لیکن اس غذا کو خود تناول نہیں فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد ان کے سامنے خطبہ دیتے اور وعظ ونصیحت فرماتے تھے۔ ایک شب کھانے کے دوران ان کے درمیان گزشتہ شعرا پر بحث چھڑگئی، حضرت علیؓ نے کھانے کے بعدخطبہ ارشاد فرمایا اور اس کے ضمن میں کہا:
تمھارے امور کے لیے معیاردین ہے۔تمھارا محافظ ونگہبان تقویٰ ہے، تمھارا  زیور ادب ہے اور تمھاری آبرو کا حصار علم پرہے اس کے بعد ابوالاسوددوؤلی کی طرف مخاطب ہوئے جووہاں موجود تھے اوراس کے قبل شعرا پر ہونے والی بحث میں شریک تھے اور فرمایا:
بتاؤ کہ میں بھی سنوں تمھاری نگاہ میں دنیائے عرب کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟  ابوالاسوددوؤلی نے ابوداؤد ایادی کا ایک شعر پڑھا اور کہا کہ یہ شخص میری نگاہ میں سب سے بڑا شاعر ہے۔ آپ نے فرمایا:تم نے انتخاب میں غلطی کی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ ان کے درمیان مورد بحث موضوع کے بارے میں دلچسپی کا اظہار فرما رہے ہیں تو بیک زبان ہوکر سب نے آواز دی اے امیرالمؤمنین! آپ ہی بیان فرمادیں کہ دنیائے عرب کا سب سے عظیم شاعر کون ہے؟ آپ نے فرمایا اس موضوع میں فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگرتمام شعرا نے کسی ایک میدان میں طبع آزمائی کی ہوتی تو ان کے بارے میں فیصلہ کرنا اورجیتنے والے کی شناسائی کرانا ممکن تھا۔ پھربھی اگراظہار نظرضروری ہی ہوجائے تو اس شخص کو پیش کرنا چاہیے جو نہ ذاتی خواہشات سے متاثرہواور نہ خوف و ہراس نے اس کو متاثرکیا( بلکہ صرف قوت تخیل اور ذوق شعری) کی بنیاد پر اشعار کہے ہیں۔ وہ دوسروں سے آگے ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا،اے امیرالمؤمنین وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا وہ فاسد و گناہ گار بادشاہ امرؤالقیس ہے۔‘‘ (بحوالہ:نہج البلاغہ کی سیر، مفکرشہیداستادمرتضیٰ مظہری)
امراؤالقیس کے فحش شعروں کواعلیٰ قراردیاجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ تقییم شعر کا معیار اور پیمانہ اخلاقیات سے مختلف ہے۔ اس کا معیار فن ہے، تخلیقی جوہرہے اور لسانی لطافتیں ہیں نہ کہ نظری فکری مذہبی عناصر۔ اسی لیے توابوبکر صولی نے ابو تمام کی شاعری کومجموعہ کفر قراردینے والوں سے کہا کہ کفر سے شاعری میں انحطاط اورایمان سے ازدیادنہیں ہوتا۔ دونوں الگ الگ ہیں اور دونوںکے مابین ایک نقطہ انقطاع ہے۔ورنہ نظری مذہبی خطوط پرسوچاجائے توبہت سے شاعروں کا غیرضروری اخراج لازم آئے  گا اور بیشتر ان شاعروں کاجن پرتخلیق کی عظمت اورشاعری کی رفعت کادارومدار ہے۔

  استفادی کتابیات
.1           دنیا کے بڑے مذہب ‘عماد الحسن آزاد فاروقی۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی(1986)
.2            اردو غزل ‘ڈاکٹر یوسف حسین خاں۔دار المصنفین اعظم گڑھ (1996)
.3           غزل اور مطالعہ غزل ‘ڈاکٹر عبادت بریلوی۔ ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑہ (2005)
.4            اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب ‘گوپی چند نارنگ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی۔ (2002)
.5           سیکولرزم اور اردو شاعری ‘ڈاکٹر اختر بستوی۔ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو (1996)
.6           اردو غزل ‘کامل قریشی۔ اردو اکادمی دہلی۔(2006)
.7           نقد اقبال ‘میکش اکبر آبادی۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی (2011)
.8           اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ‘ڈاکٹر کامل قریشی۔ اردو اکادمی دہلی (1987)
.9           اردو میں صوفیانہ شاعری ‘ڈاکٹر محمد طیب ابدالی۔ مکتبہ صوفیا نالندہ (1984)
.10         نئی اردو غزل ‘ ڈاکٹر سرور الہدی۔معیار پبلی کیشنز دہلی (2004)

Mr. Haqqani Al Qasmi
D-64, Flat No. 10, Abul Fazal Enclave,
Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-25
سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2013 

1 تبصرہ:

  1. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امراؤ القیس کو "فاسد گنہگار" کہا ۔ اس بات پر توجہ دی جاے۔ شاعری میں الحادی اور کفریہ الفاظ نہیں بولے جاسکتے

    جواب دیںحذف کریں