4/3/20

نئی غزل کی علامتیں مضمون نگار: اعجاز علی ارشد





نئی غزل  کی علامتیں
اعجاز علی ارشد
علامت نگاری اردو شعرو ادب کی دنیا میں اب ایک جانی پہچانی روایت بن چکی ہے اس کے حوالے سے کتابیں بھی سامنے آرہی ہیں اور مضامین بھی ۔ خود میں نے آج سے تقریباً پچیس برس پہلے اردو افسانے میں علامتوں کے استعمال کی مختلف صورتوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھاتھا:
’’علامتوں کی ایک صورت تو آفاقی یا Universalہوتی ہے اور ایسی صورت میں علامتوں کے مفاہیم نہ صرف متعیّن ہوجاتے ہیں بلکہ اکثر لوگوں کے علم میں ہوتے ہیں ۔ دوسری صورت وہ ہوتی ہے جسے ہم ذاتی یا شخصی کہہ سکتے ہیں اور اس صورت میں علامتوں کا مفہوم عام نہیں بلکہ نامعلوم ہوتا ہے اور تخلیق کار کے ذہن میں محفوظ رہتا ہے ۔ ایک تیسری صورت آرک ٹائیپی ہوتی ہے جو اجتماعی لاشعور کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ ان تینوں صورتوں کی تخلیق کا بنیادی سبب یہی ہے کہ زندگی کی طرح تخلیقی قوت بھی ’برہنہ حرف نہ گفتن ‘ کی طرح مائل رہی ہے ۔ اس لیے جیسے جیسے تجربے اور مشاہدے کی نوعیت پیچیدہ ہوتی جاتی ہے ، علامت شاعری سے ہوتے ہوئے نثر کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔‘‘ 1
میں آج بھی ان نکات سے انحراف کی ضرورت نہیں سمجھتا ،مگر چند باتیں اور کہنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ جدیدیت نے بلا شبہ ترقی پسندی کے رد میں جن چیزوں پہ زور دیا ان میں سے ایک سادگی کے مقابلے میں پرکاری اور ابہام بھی ہے اور اشعار میں اکہرے مفہوم کی جگہ معنی کا جلوہ صد رنگ دکھائی دے ، اس کے لیے علامتوں کا سہارا لینا ضروری ٹھہرا ۔مگر اردو شاعری میں الفاظ کی جدلیاتی صورت کسی خاص تحریک یا رجحان کی دین نہیں ہے ،بلکہ کم و بیش ہر زمانے میں لفظوں کے استعمال کی یہ صورت کسی نہ کسی طور پہ موجود رہی ہے ۔ غالب کی مثال اس سلسلے میں بالکل سامنے کی ہے ۔ان کے تمام تر اشعار تو نہیں ،لیکن :
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
جیسے اشعار نہ صرف یہ کہ اپنے وسیع تر جہان معنی کے سبب آج بھی معنویت کے حامل ہیں بلکہ مسلسل نئی تشریحات و تعبیرات کا تقاضہ کررہے ہیں ۔ شاید اسی لیے بعض اہم ناقدوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ غالب کے اکثر اشعار کسی ایک مفہوم تک محدود نہیں ہیں ۔ مختلف ذہن کے لوگ اپنے اپنے طور پر نہ صرف ان کی تشریح کرتے رہے ہیں بلکہ بدلتے ہوئے زمانے اور حالات کے تحت ان کی پسند اور ناپسند کے پہلو بھی بدلتے رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ غالب کے یہاں تشبیہات و استعارات کی ندرت کے سبب بھی یہ صورت پیدا ہوئی ہے ، مگر میں جس دوسرے نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اس کے بارے میں بھی ان ناقدین کی آرا میں اشارے موجود ہیں ۔ میری مراد کلام غالب کے اس سنجیدہ قاری سے ہے جو اپنے طور پر کسی بھی شعر کی مختلف جہتوں کی تلاش کرتا ہے ۔ گویا اپنے تخلیقی اظہار کے لیے شاعر جب علامتوں کا سہارا لیتا ہے تو اپنے طور پہ کچھ مفاہیم طے کرتا ہے پھر قاری بھی اپنے مطالعے کی روشنی میں کچھ معانی طے کرتا ہے اور دونوں میں مطابقت ضروری نہیں۔جس طرح موضوعات کو برتنے کے لیے فنکار آزاد ہے اسی طرح شعرو ادب کی تفہیم کے لیے قاری بھی آزاد ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ ابتدا میں جو علامتیں وضع کی جاتی ہیں وہ عام طور پر نجی یا شخصی ہوسکتی ہیں ، مگر کثرت استعمال کے نتیجے میں یہ علامتیں جب آفاقی صورت اختیار کرلیتی ہیں تو ان کے معنی متعین( fix) ہوجاتے ہیں اور یہ استعارے کی سرحدوں میں داخل ہوجاتی ہیں ۔اقبال اور فیض کی بعض علامتوں کے حوالے سے یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے ۔مگر یہاںمیرا مقصد ان تکنیکی مباحث میں پڑنا یا اردو شاعری میں علامت نگاری کی تاریخ مرتب کرنا نہیں ہے ۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران شمس الرحمن فاروقی ، انیس اشفاق اور وہاب اشرفی  جیسے اہم ناقدین خاصی کامیابی کے ساتھ یہ کام کرتے رہے ہیں بلکہ موخرالذکر نے تو علامت پسندی اور علامت نگاری کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے پر زور دیا تھا ۔ گرچہ ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔ 2
بہرحال، میں جس نئی غزل کے حوالے سے علامت سازی کا جائزہ لینا چاہتا ہوں ، اس کا آغاز میرے خیال سے 1960 کے آس پاس ہوا ہے ۔ اسی زمانے میں ہندوستان میں’شب خون‘ اور سوغات اور پاکستان میں ’اوراق‘ کے صفحات میں نئے موضوعات پہ مشتمل غزلوں کو نمایاںجگہ ملنے لگی تھی۔ گرچہ جدیدیت کے موضوعات بھی محدود ہی تھے ،مگر یہاں ترقی پسندی سے زیادہ گنجائش تھی۔ ویسے بھی ترقی پسند تحریک میں غزل گوئی کے امکانات محدود تھے اور جو علامتیں ابھری تھیں ان کے معنی تکرار کے سبب متعین ہوچکے تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بعض مغربی ملکوں کی طرح ہندوپاک میں بھی زندگی رفتہ رفتہ زیادہ تہہ دار اور پیچیدہ ہونے لگی ۔ تجربوں کی نوعیت بھی اسی اعتبار سے بدلی تو شاعروں نے وسعت اظہار کے لیے علامتوں کا سہارا لیا ۔اب جن لوگوں کے پاس تخلیقی قوت، Sincerityاور روایت سے استفادے کی صلاحیت تھی ان کے یہاں علامتیں حسن بن گئیں اور جنھوں نے محض ’زمانے کا چلن‘ اپنانے کی کوشش کی تھی ان کے لیے یہی علامت نگاری رسوائی کا سبب بنی ۔ یہاں بہتر ہوگا کہ اپنی بات واضح کرنے کے لیے میں چند انفرادی مطالعوں کی طرف رخ کروں ،مگر اس سے قبل یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تمام تر مباحث کی روشنی میں علامت نگاری کی بنیادی شرط لفظوں کا جدلیاتی استعمال ہے جس کے سبب کسی شعر کا معنی متعیّن نہ ہو سکے اور ہر عہد ، معاشرہ یا ذہن اپنے طور پر اس کا مفہوم تلاش کرے ۔ اب اس بنیادی شرط کے حوالے سے دو ایسے غزل گو شاعروں کا ایک ایک شعر ملاحظہ ہو جو1960 کے آس پاس مستند ہو چکے تھے ۔ حسن نعیم کا شعر ہے :

بام خورشید سے اترے کہ نہ اترے کوئی صبح
خیمہ شب میں بہت دیر سے کہرام تو ہے
ظاہر ہے کہ اس شعر کا حسن خوب صورت ترکیبوں کے علاوہ معنی کی مختلف جہتوں کا بھی مرہون منت ہے ۔’’بام خورشید‘‘ اور ’’خیمہ شب‘‘ کے مفاہیم متعین کرنا محال ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ پہلا مصرع ایک مثبت اور دوسرا منفی صورت حال کو پیش کررہا ہے ، مگر ہر قاری اپنے اپنے طور پر اس کا مفہوم طے کرکے اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
ویسے تو اس طرح کے اشعار میں مفہوم کی کتنی ہی جہتیں قائم کی جاسکتی ہیں ،لیکن میں فی الحال صرف چار Situationsطے کرتا ہوں:
(الف)    ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ایک تعلیم یافتہ نوجوان جو مختلف جگہوں پر قسمت آزمائی کررہا ہے۔
(ب)       مناسب رشتے کی جستجو میں ناکام کوئی جوان لڑکی یا اس کے والدین۔
(ج)        سیاست کی پر خار وادی میں بھٹکتا کوئی سیاست داں جس کی نامرادی کئی آستانوں پہ دستک دے چکی ہے۔
(د)          امید و بیم کی کیفیت سے گزرتا ہوا کوئی بیمار انسان۔
 اب ذرا چشم تصور سے دیکھیے اور زور تخیل سے سوچیے کہ اس طرح کی اور بھی کتنی صورتیں درپیش ہوسکتی ہیں جن سے دوچار قاری اپنے اپنے طور پر اس شعر کی تشریح کرسکتے ہیں اور چونکہ معنیFixنہیں سیّال ہیں ، اس لیے ہر تشریح اپنی جگہ درست بھی ہوگی ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو معنی قاری اپنے طور پہ متعین کرے وہ شاعر کے عندیہ میں نہ ہو ۔ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نادر ترکیبوں کے استعمال کے سبب ہوا ہے۔ مگر میں ان ہی چاروں سچویشن کا مطالعہ بظاہر سادہ لگنے والے خلیل الرحمن اعظمی کے اس شعر کی روشنی میں بھی کرسکتا ہوں :

میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
  اب یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ ’دھوپ‘ کا معنی کس طرح بدل رہا ہے ۔ علامہ جمیل مظہری کے یہاں بھی دھوپ کا ایک منظر تھا :

اب تو دھوپ آپہنچی جھاڑیوں کے اندر بھی
اب پناہ لینے کو تیرگی کہاں جائے
مگر وہاں ’دھوپ‘ استعارہ تھی علم و آگہی کا ، یا پھر سائنسی ترقیات و ایجادات اور فکر کی بالیدگی کے مقابلے میں اوہام کی شکست کا لیکن یہا ںدھوپ استعارہ ہے زندگی کی پریشانی اور سختی کا۔ اور چونکہ زندگی کی اس بھاگ دوڑاور پریشانی کی صورت متعیّن نہیں ہے اس لئے یہ لفظ جدلیاتی تیور کے ساتھ معنی کی مختلف جہتیں پیدا کردیتا ہے ۔ چند اور اشعار درج کرتا ہوں :
اسی قدر ہے حیات و اجل کے بیچ کا فرق

یہ ایک دھوپ کا دریا وہ اک کنارۂ شام
سر اٹھاتے ہی کڑی دھوپ کی یلغار ہوئی

دو قدم بھی کسی دیوار کا سایہ نہ گیا
میں مسافر ہوں دھوپ کا ارشد

میں کہاں چھاؤں میں ٹھہرتا ہوں
دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیار شب سے

سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
پہلے شعر میں زندگی کو ’دھوپ کا دریا ‘ کہہ کر ایک نیا استعارہ ابھارنے کی کوشش ہے مگر مفہوم بالکل محدود ہوگیا ہے ، خصوصاً ’کنارۂ شام ‘سے اس کے تقابل کے سبب۔ دوسرے اور تیسرے شعر میں معنی کی کچھ وسعت موجود ہے مگر چوتھے شعر میں علامت نے جو حسن پیدا کیا ہے وہ ایک الگ سی کیفیت کا حامل ہے ۔ گرچہ بعض ناقدوں نے اس شعر کا بھی مفہوم متعیّن کرنا چاہا ہے اور کسی نے اسے Absurdبھی قرار دیا ہے لیکن’دھوپ کا قہر‘ ،’’دیار شب‘‘ اور ’سر برہنہ پرچھائیوں‘‘ کی مختلف تعبیرات پیش ہوتی رہی ہیں اور ممکن ہے آئندہ بھی ہوتی رہیں گی ۔
یہ مثالیں میں نے صرف اس لیے دیں تاکہ کلاسیکی شاعری ، ترکیبوں اور لفظوں سے قربت کے باوجود نئی غزل میں علامت کی جو صورتیں ابھر سکتی ہیں ان کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ’دھوپ‘ کا لفظ پہلے بھی شاعری میں موجود تھا ،مگر یہ علامتی انداز میں نئی غزل کے وسیلے سے ہی آیا ہے ۔ مگر یہ صرف ایک مثال ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں مستعمل بہت سارے الفاظ مثلاً قفس، چمن، پھول، باغ، صیاد، رفیق، رقیب، دشت ،صحرا، ہوا اور چراغ وغیرہ نئی غزل میں مفاہیم کی تازہ دنیا لے کر سامنے آئے ہیں ۔ صرف ایک شعر پیش کرتا ہوں :
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
ناصر کاظمی کا نام کلاسیکی رکھ رکھاؤ کے ساتھ شعر کہنے والے نئے غزل گو شاعروں میں     سر فہرست رکھا جاتا ہے انہیں علامت نگاری سے زیادہ لگاؤ نہیں اور یہ بھی درست ہے کہ نئی علامتوں کا استعمال ان کی غزلوں میں بہت کم ہوا ہے ، لیکن ان کے اس شعر میں معنی کی دنیا کس قدر وسیع ہے ؟ ’شہر بے چراغ‘‘ سے آخر کیا مراد ہے؟ وہ شہر یا جگہ جہاں کوئی دانشور نہیں ، کوئی قدر داں نہیں ، کوئی خوشی نہیں یا کوئی رونق نہیں ؟ اور پھر یہ’شہر‘ بھی بظاہر تو دنیا ہے یا موجودہ عہد اور معاشرہ ،لیکن اس کے اور بھی مفہوم متعیّن کیے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح ’شب فراق ‘ اور ’’گھر‘‘ بھی تشریح طلب ہے اور سادگی بیان کے باوجود شعر علامت نگاری کا اچھا نمونہ بن جاتا ہے ۔ یہ صورت ان کے درج ذیل اشعار میں بھی دیکھی جا سکتی ہے :
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

فاختہ سر نگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا

بجھی آتش گل اندھیرا ہوا
وہ اجلے سنہرے ورق اب کہاں
ناصر کاظمی اس صف میں تنہا نہیں ہیں۔نئے غزل گو شعرا کی ایک بڑی تعداد نے قدیم لفظوں اور اصطلاحوں سے کام لے کر ان میں نئے مفاہیم پیدا کیے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی کسی بھی فہرست سازی میں چند نام چھوٹ جانے کا احتمال رہتا ہے جس سے شکایت کے در وا ہوتے ہیں۔ اس لیے میں بھی نام گنوانے سے گریز کروں گا ۔ البتہ یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ناصر کاظمی، منیر نیازی ، احمد مشتاق، ظفر اقبال، بانی، شہر یار ، زیب غوری، مظہر امام، عرفان ؔصدیقی، افتخارعارف، ساقی فاروقی ، سلطان اختر، ظہیر صدیقی اور لطف الرحمن کے علاوہ کم و بیش ایک درجن شعرا علامت نگاری کی راہ اختیار کرنے والوں میں نمایاں ہیں ۔ ایسے میں پروفیسر انیس اشفاق کی جرأت قابل تعریف ہے کہ انھوں نے خود کو جوکھم میں ڈال کر صرف دس نمائندہ شاعروں کے حوالے سے غزل کا نیا علامتی نظام مرتب کرنا چاہا ہے۔ 3
بہر حال، یہ بات تو جملہ معترضہ کے طور پرزیر گفتگو آگئی ۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ نئی غزل میں اکثر الفاظ یا تراکیب تو روایت کے خزانے سے ہی آئے ہیں مگر ان میں مفاہیم کی ایک    نئی دنیا آباد ہوگئی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہر شاعر نے اپنے اپنے طورپہ ان لفظوںکو برتا ہے اور نہ صرف یہ کہ مختلف شعرا کے یہاں ان لفظوں کے الگ الگ معنی ہیں بلکہ ایک ہی شاعر نے مختلف مواقع پران لفظوں کو الگ الگ معنوی جہتوں کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ ایسے تمام تر الفاظ کے مختلف النوع استعمال کی مثالیں دی جائیں یا مختلف شاعروں کی پسندیدہ علامتوں پر روشنی ڈالی جائے مگر چند منتخب الفاظ کے حوالے سے یہ نکتہ واضح کیا جاسکتا ہے ۔ سب سے پہلے میں ہوا،کو لیتا ہوں جواپنے مختلف تلازمات کے ساتھ ہماری روایتی غزل کا بھی حصہ ہے اور مختلف نئے غزل گو شعرا کی ایک پسندیدہ علامت بھی ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اڑے جاتے ہیں اوراقِ خزانی
(ناصرکاظمی)
طناب خیمہ گل تھام ناصر
کوئی آندھی افق سے آرہی ہے
 ’’    
ہوائیں بادباں کھولیں لہو آثار بارش ہو

زمینِ سخت تجھ کو پھولتا پھلتا ہوا دیکھیں
( شہر یار)
شام کی دہلیز تک آئی ہوا
اور پھر آگے نہ چل پائی ہوا
 ’’   
عہد گل کے سبھی آثار ہوا لے جاتی
زرد پتّوں کو بہت دور اڑا لے جاتی
     ’’    
رنگ لپک سے عاری جسم ادا سے خالی

یہ کیسی بستی ہے عکس ہوا سے خالی
(بانی)
کچھ تو دل آپ ہی بجھتا سا چلا جاتا ہے

اور کیا کیا نہ ہوائیں سر شام آئیں گی
( بانی  )
میں ڈوبتا جزیرہ تھا موجوں کی مار پر

چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا
(ظفر اقبال)
شہر سارا سو رہا ہے نیند کی گرمی میں گم

بند دروازے ہوا کے کھولتا پھرتا ہوں میں
 ’ ’ 
منظر سحر خزاں کے پیچھے

کھو گئی سبز ہوا کی آہٹ
’’ 
میں عکس آرزو تھا ہوا لے گئی مجھے

زندانِ جسم و جاں سے چھڑا لے گئی مجھے
(زیب غوری)
کچھ میں بھی بادبان شکستہ سنبھال لوں

جب تک ہوا بھی ٹوٹے ہوئے پر نکال لے
 ’’  
تم ہوا ہو تو بکھیرو مجھے ساحل ساحل

موج سے ہو تو بہادو مجھے دریا کی طرح
(مظہر امام)
ایک آندھی مکانوں میں پلتی ہوئی

اک پرندہ فضا میں سنبھلتا ہوا
   ’’   
میں نے بھی آسمان سے آنکھیں اتار لیں

تو بھی نہ یوں پتنگ اڑا تیز ہے ہوا
(لطف الرحمن)
بیج بوتے ہیں جو ہواؤں میں

کتنے معصوم ہیں وہ بے چارے
(پرکاش فکری)
درختوں کا لہو شامل ہے شاید

ہوا کا ذائقہ بدلا ہوا ہے
(سلطان اختر)
قدم قدم پہ بگولوں کے اختیار میں تھا

ہوا کا قافلہ پیراہن غبار میں تھا
  ’’  
وہ خوف ہے کہ دیے خود ہی بجھتے جاتے ہیں

ہوا ذرا سا اگر زاویہ بدلتی ہے
(عالم خورشید)
ہوا پڑوس میں ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے

چراغ دل کو لیے دو قدم بھی چلتے کیا
(راشد انور راشد)
نرم ہوا کے لمس نے جیسے کھلا دیا گلاب

رنگ نگاہ شوق سے اس کا بھی لال ہو گیا
(منظور ہاشمی)
ہوا کے رخ پہ لویں متحد نہیں لیکن

ابھی چراغوں میں ایسا نہیں کہ جان نہیں
(شاہد جمیل)
یہ مثالیں بلاکسی ترتیب یا تخصیص کے دی گئی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اوربھی نئے اشعار سامنے آسکتے ہیں ، مگر شاید ان کا مزاج و میلان بھی یہاں پیش کردہ اشعار سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا ۔ بہر حال، اب ان اشعار پہ الگ الگ غور کیجیے۔ ناصر کاظمی کے یہاں ’ہوا ‘ آندھی کی صورت میں موجود ہے جو خزاں رسیدہ پتوں کو اڑاکر لے جاتی ہے ۔ زمانے کا سردو گرم دیکھے ہوئے یہ خزاں رسیدہ پتّے شاید وہ عمر دراز لوگ ہیں جنھیں دوسرے شعر میں خیمہ گل کا مکیں بتایا گیا ہے ۔ ممکن ہے انہی خزاں رسیدہ لوگوں میں شاعر کی ذات بھی شامل ہو ۔ بہر حال’’ طناب خیمہ گل‘‘میں علامت کی ایک صورت موجود ہے ۔ اب آگے چلیے تو شہر یار کے یہاں ’ہوا‘ ایک منفی قوت کی شکل میں ابھرتی ہے اور فنا کی صورت میں بھی یا پھر عہد گزشتہ کے مقابلے میں نیا زمانہ بن کر۔مگر ’ہوا‘ کی علامت جن مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہے ،وہ سب ہماری روایتی شاعری سے الگ ہیں۔ بانی کے یہاں بھی ہوا منفی پہلوؤں کے ساتھ موجود ہے ۔مگر ان کے یہاں اس علامت کے استعمال میں نہ تو نیرنگی ہے نہ جدّت ۔ انیس اشفاق کا یہ خیال درست ہے کہ ہوا سے متعلق بانی کے اشعار میں ظفر اقبال کے لہجے کی باز گشت صاف سنائی دیتی ہے۔چونکہ انھیں وہ معنوی قوت میسر نہیں جوظفر اقبال کوحاصل ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ظفر اقبال کے یہاں ’ہوا‘ جن Shadesاور Dimensionکے ساتھ موجود ہے وہ دوسروں کے یہاں یکجا نہیں ہو پاتے ۔ مختلف رنگوں کے ساتھ ہوا کی مماثلت نے ایک عجیب منظر نامہ مرتب کیا ہے ۔ اب زیب غوری کا پہلا شعر دیکھیے اور اسی قبیل کے دوسرے اشعار ،تو ’ہوا‘ موت اور فنا کی علامت ہے جو شعلۂ جاں کو بجھا دیتی ہے۔ یہ علامت اس قدر واضح ہے کہ استعارہ بن گئی ہے ، مگر دوسرے شعر پہ غور کیجیے تو ’ہوا‘ مخالف قوتوں کی نمائندہ بن کر ابھرتی ہے اور یہ قوتیں بھی واضح یا طے شدہ نہیں ہیں ۔ مظہر امام کے یہاں بھی ’ہوا ‘بکھیرنے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ آندھی بن کر بھی پرندے کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی ۔ اس لیے شاعر کا لب و لہجہ نہ صرف پر اعتماد ہے بلکہ ایک طرح سے مقابلہ آرائی کی دعوت بھی دیتا ہے ۔ اس کے برخلاف چونکہ لطف الرحمن وجودی طرز فکر کے شاعر ہیں اس لیے راضی بہ رضا ہوکر آسمان سے نظریں ہٹالینے اور مخالف تیز ہوا کے سامنے دوسروں کو بھی پتنگ نہ اڑانے کا مشورہ دیتے ہیں۔مگر آسمان کے معنیFixنہیں ہیں۔ ہوا البتہ مخالفت کی ہی علامت ہے ۔ پرکاش فکری کے شعر میں ہوا مخالفت کے علاوہ شہر یا اقتدار کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ بیج بونے کا مفہوم بھی واضح نہیں ہے ۔ سلطان اختر کے یہاں ’ہوا‘ ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی ۔ یعنی ایک طرف تو وہ ہوا ہے جو درختوں کا لہو چاٹ چکی ہے اور دوسری طرف وہ ہے جو قدم قدم پہ بگولوں کے اختیار میں ہے ۔ معنی دونوں ہی جگہ Fixنہیں ہوتے مگر یہ تو ظاہر ہے کہ ایک ہی شاعر نے ہوا کی علامت دو مختلف صورتوں میں پیش کی ہے ۔
 انھوں نے ’ہوا‘ کی علامت پیش کرتے ہوئے ایک نیا نکتہ پیدا کیا ہے یعنی ہوا کے خوف سے دیے خود ہی بجھنے لگتے ہیں ۔اب اس ’ہوا‘ کا مفہوم کیا ہے جس کی ذرا سی حرکت پر چراغ بجھنے لگتے ہیں ؟ اقتدار سے لے کر سیاست اور اسٹاک اکسچینج تک معنی کے کتنے ہی پہلو پیدا ہو سکتے ہیں ،مگر اتنا طے ہے کہ ہوا کا رول یہاں بھی خوف ہی سے عبارت ہے ۔آخری دو تین اشعار میں ’ہوا‘ کوئی علامت یا بلیغ استعارہ نہیں بنتی ۔ منظور ہاشمی کے یہاں ’نرم ہوا‘ گویا نگاہ شوق ہے جس سے محبوب کا رنگ گلاب کی طرح نکھر جاتا ہے ۔ معنی کی اور بھی جہتیں پیدا کی جاسکتی ہیں مگر یہ ایک سعی لاحاصل ہوگی۔ البتہ راشدکے یہاں ’ہوا‘ ایک استعارہ بن جاتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ہوا کون ہے جو دل کا چراغ بجھانے پر آمادہ ہے ؟ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں ،جن کے سبب شعر کو علامت نگاری کا نمونہ تسلیم کیا جاسکتا ۔ ’ہوا کی علامت نسبتاً نئے شاعروں کے یہاں بھی تواتر سے پیش ہورہی ہے ،مگر عام طور سے اس علامت کے معنی واضح اور Fixہوجاتے ہیں ،مثلاً :
ہوا میں آگئی ہلچل کہاں سے
یہ خود کو کون لہرانے لگا ہے
(خالد عبادی)

آواز لگانے کا ہنر کام نہ آیا
کیا رات تھی کیا لوگ تھے کیا سرد ہوائیں
(خالد عبادی)

اسیری تو اچھا ہے کہ مر جا
پتوار کے وار سے پہلے بکھر جا
(سرور ساجد)
شاہد جمیل کے شعر میں بھی ’ہوا‘کا مفہوم محدود نہیں ہے۔ اگر یہ مخالفت کی علامت ہے تو یہ مخالفت کون کررہا ہے اور کس کی؟ یہ ہندوستانی اقلیتوں کی مخالفت کا معاملہ ہے یا عربوں کی مخالفت کا ، یا پھر مظلوم عورتوں کی، ایماندار سیاست دانوں کی؟ ’چراغ‘ کا معنی بھی متعیّن کرنا مشکل ہے۔
’ہوا‘ کے حوالے سے یہ گفتگو ختم کرنے سے پہلے میں پاکستان کے ایک اہم شاعر پیر زادہ قاسم کی ایک غزل اور چند متفرق اشعار نقل کرنا چاہتا ہوں ۔ ملاحظہ ہووہ غزل جس کی ردیف ہے،ہوا پہ تحریر کردیا ہے :
کسی نے اک حرف زیست پیہم ہوا پہ تحریرکردیا ہے

سو میں نے بھی اپنا شجرہ غم ہوا پہ تحریر کردیا ہے
بہ طرز تحریر نکہت گل بہار موسم کے ہاتھ نے تو

وہی جو ہے زندگی کا ماتم ہوا پہ تحریر کردیا ہے
وصال لمحے نے بیکراں ہجر موسموں کی نوید پاکر

سلام آخر بہ چشم پرنم ہوا پہ تحریر کردیا ہے
سیاست گلستاں عجب ہے کہ جاتے جاتے گلوں کی رت نے

بدست خود ہی خزاں کا موسم ہوا پہ تحریر کردیا ہے
غبار، بارود، رقص ، شعلہ، دھمال میزائیلوں کا پیہم

یہ کیسا منشور امن عالم ہوا پہ تحریر کردیا ہے
لسانی تشکیلات سے قطع نظر اس غزل کے عمومی مزاج پر نگاہ ڈالی جائے تو اس میں ’ہوا‘ یا تو زمانے کا استعارہ ہے یا تاریخ کا ،مگر ان کے بعض دوسرے اشعار پڑھیے تو ’ہوا‘کبھی اقتدار کا استعارہ بن جاتی ہے اور کبھی طاقت یا امیری کا ، کبھی وہ مخالف کا رول ادا کرتی ہے اور کبھی غم گساروں کی ہمدرد بھی بن جاتی ہے ۔’’تند ہوا کے جشن‘‘ میں تلمیحاتی رنگ بھی موجود ہے ۔ گویا ایک ہی شاعر نے ’ہوا‘ کا لفظ مختلف صورتوں میں استعمال کیا ہے جن کا قاری اپنے طور پر بھی مطلب نکال سکتا ہے ۔ اشعار ملاحظہ ہوں :
پھر وہ ہوا کا قہقہہ کان میں گونجنے لگا

اور بھی اک دیا بجھا مجھ کو یقین آگیا
تند ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر

تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی ردا گئی
میں نے تو ہواؤں سے داستان غم کہہ دی

دیکھتے رہے حیراں سب حجاب دنیا کے
میرے لہو میں جل اٹھے اتنے ہی تازہ دم چراغ

وقت کی سازشی ہوا جتنے دیے بجھا گئی
وضاحت کی زیادہ ضرورت نہیں ۔چونکہ میں نے ابتدا ہی میں یہ واضح کردیا تھا کہ ایک شاعر نے کسی علامت کو مختلف جگہوں پر الگ الگ مفہوم میں استعمال کیا ہے اور ہم عصر شاعروں کے یہاں بھی اشتراک و اختلاف دونوں کے پہلو موجود ہیں ۔ دراصل یہی علامت کی پہچان بھی ہے ۔ اس لیے اب میں مزید علامتوں کا تفصیلی تذکرہ کئے بغیر چند ایسے اشعار نقل کرکے آگے بڑھنا چاہوں گا جن میں  نئی غزل کی نمائندہ علامتیں موجود ہیں ۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار جن کے معنی کہیں پابند نہیں ہوتے بلکہ زمان و مکاں یا قاری کی تفہیم کے مطابق نئی تشریحات و تعبیرات سے آشنا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں :
صحرا کا زرد پھول بکھرنے لگا ہے زیب

بیٹھا ہے کیوں خموش کسی کو پکار بھی


(زیب غوری)
بکھر رہا ہے گل زرد شام آہستہ

مرا بھی نقش نشاں زیب گرد راہ میں ہے


(زیب غوری)
اپنی اپنی قبر کے گھر گھر مجاور ہیں یہاں

میں بھی دونوں ہاتھ اٹھائے فاتحہ خوانی میں ہوں


( خورشید اکبر)
بے چہرہ منظروں کو بھی کچھ خدو خال دے

اس تیز روشنی میں اندھیرا اچھال دے


(مظہرامام )
جو چاہتی ہے دنیا وہ مجھ سے نہیں ہوگا

سمجھوتہ کوئی خواب کے بدلے نہیں ہو گا


( شہر یار)
یہ کہہ کے مجھے چھوڑ گئی روشنی کل رات

تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے


(ساقی فاروقی)

تشنگی، جانکنی، برہمی کچھ نہیں

یعنی یہ کہ سمندر ہے ٹھہرا ہوا


(کشور ناہید  )
کرب کی آگ میں جلتا رہا تنہا کوئی

سیکڑوں ابر سیہ اٹھے نہ برسا کوئی


(شکیب ایاز)
میں اس سے ساری فصیلیں گرا کے ملتا ہوں

وہ روز اک نئی دیوار کھینچ دیتا ہے


(نعمان شوق)
جو بال و پر پہ نازاں ہو رہے ہیں

انہیں بے بال و پر دیکھا تو جائے


(طارق متین)
نہ اس کی آنکھ میں موتی نہ میرے خواب میں جھیل

تماشہ اب کے برس کوئی درمیان نہیں


(شاہد جمیل)
سمندر اور دریا ہیں پرانے آشنا اپنے

برستا ہے جو پانی مہرباں ہے میری مٹی کا


(جمال اویسی)
لاکھ دریا سمیٹ لے خود کو

میں اسی تشنگی سے ملتا ہوں


(اویناش امن)
کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے

راوی کا انداز بدل بھی سکتا ہے


(شمیم قاسمی)
مذکورہ بالا شعروں میں نشان زدالفاظ پر غور کیجیے تو نئی غزل کے اشعار میں علامتوں کی کارکردگی خاصی واضح ہوجاتی ہے ۔ یہاں دو اشعار زیب غوری کے ہیں ۔ ان کے یہاں بھی ظفراقبال کی طرح زرد رنگ یا زردی ، زوال شکست، پامالی اور ختم سفر کی علامت ہے۔ میں نے ان دونوں اشعار کے ساتھ خورشید اکبر کا ایک شعر صرف اس لیے نقل کیا ہے کہ بظاہر یہ بھی ’ختم سفر ‘ کے بعد کی روداد معلوم ہوتا ہے ،مگر ایسا ہے نہیں ۔ ویسے خورشید اکبر ’سمندر ‘کے حوالے سے علامتیں وضع کرنے کے لیے خاصے مشہور ہیں اور ان کے مجموعۂ کلام ’’سمندر خلاف رہتا ہے‘‘ کانام بھی تہہ دار معنویت کا حامل ہے۔ مگر جو شعر یہاںنقل کیا گیا ہے اس میں تمام الفاظ اپنے تلازمات کے ساتھ موجود ہیں یعنی      ’ قبر‘مجاور اور فاتحہ خوانی وغیرہ ۔ اس کے باوجود شعر کے معنی Fixنہیں ہوتے ۔ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ دراصل یہی علامت نگاری کا حسن ہے ۔ چوتھے پانچویں اور چھٹے شعر میں بھی علامت نگاری کے اسی حسن کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ مظہر امام کلاسیکی شاعری کے اچھے قاری رہے ہیں مگر ان کا ذہن جدید علامتوں اور تلازموں کی پیشکش میں خاصا فعال رہا ہے ۔ شہر یار کی غزلوں میں خواب اور اس کے تلازمات کا تذکرہ مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ ایک صورت وہ بھی ہے جو اس شعر میں موجود ہے ۔ساقی فاروقی کے شعر میں چراغ اپنے ایک تلازمے روشنی کے ساتھ موجود ہے مگر ’چراغ‘ کی حفاظت نہ کرنے کے سبب روشنی کا چھوڑ جانا ایک پوری قوم کا ایسا المیہ ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ کشور ناہید کے شعر میں سمندر جنسی جذبوں یا جنسی تحرّک کی علامت ہے ،مگر اس کے دوسرے مفاہیم بھی لیے جا سکتے ہیں ۔ باقی اشعار میں فصیل، دیوار، بال و پر ، موتی، جھیل ، تماشہ ، ابر سیاہ، کھوٹا سکہ، دریا اور تشنگی وغیرہ ایسی علامتیں ہیں جو پرانے لفظوں کے ساتھ نئے تخلیقی برتاؤ کا نتیجہ ہیں ۔زیب کے درج بالا دو اشعار کے حوالے سے میں اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ پرانے الفاظ کے ساتھ نئے تخلیقی برتاؤ کے سبب  جو علامتیں پیدا ہو رہی ہیں ان کے پہلو بہ پہلو نئی ترکیبیں بھی تلاش کی جا رہی ہیں۔ یہاں مثال کے طور پہ صرف دو اشعار پیش کرتا ہوں:
آنکھ کھلتے ہی ملا زرد چٹانوں کا حصار

رات بھر خواب کے کھیتوں کا بدن دھانی تھا


(شام رضوی)
چھوڑ کر زرد چٹانوں کے حصاروں میں مجھے

سبز موسم کی طرح وہ بھی گزر جائے گا


(معین کوثر)
اس سے قطع نظر کہ کون شعر کس سے بہتر ہے ، میں معنی کی اس Fluidityکی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو ’’زرد چٹان ‘‘ میں موجود ہے۔ لطف یہ ہے کہ دونوں اشعار آج سے تیس برس قبل کے ہیں ،مگر آج بھی یہ علامت اردو غزل میں عام نہیں ہو سکی ہے ۔ شاید اس لیے کہ اس کے زیادہ تلازمات ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے صرف دو تین اشعار اور پیش کروں گا ۔
ہر عکس اپنے آپ میں اب ڈوبنے لگا

شاید یہ اختتام سفر آئینے کا ہے


(سلطان اختر)
آئینہ عکس رخ رنگ سے خالی ہے کہ ہوں

سات پردوں کے سوا آٹھواں حائل میں بھی


(ظفر اقبال)
کیا دھوپ تھی کہ آنکھ ٹھہرتی نہ تھی کبھی

تھا کس کا عکس آئینہ آفتاب میں


(ظفر اقبال)
یہاں بھی اس حقیقت سے قطع نظر کیجیے کہ فنی اعتبار سے پہلا شعر بقیہ دو اشعار سے بہتر ہے ،ایک نو تشکیل یافتہ علامت ہمارے ہاتھ آتی ہے ۔ یہ بات بہت پرانی ہے کہ آئینہ دل ہے اور دل ہی اصل حیات ہے ۔ اب چونکہ آئینہ یعنی دل میلا ہوگیا ہے تو عکس رخ یار (مشاہدۂ حق) اس میں صاف صاف کیسے نظر آئے ؟لیکن آئینے کو نئی علامتوں کے روپ میں استعمال کرکے معنی کی نئی جہتوں سے ہم کنار کرنا غزل گو شعرا کے اس بدلتے ہوئے تخلیقی رویّے کا اظہار ہے جس کی طرف بار بار اشارہ کرنے کا دل چاہتا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ پرانی علامتوں کے افق سے نئی علامتیں طلوع ہو رہی ہیں اور یہ اپنے تلازمات جس قدر جلد پیدا کریں گی اسی قدر تیز رفتاری کے ساتھ مقبول ہوں گی۔
مجھے احساس ہے کہ نئی غزل میں علامت نگاری کے حوالے سے یہ گفتگو خاصی طویل ہوچکی ہے ،لیکن اسے ختم کرنے سے قبل مختصراً ہی سہی علامتوں کی اس نوعیت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے ۔جو اساطیر، دیو مالا یا تلمیحات وغیرہ کے وسیلے سے سامنے آتی ہے۔ انیس اشفاق نے اسے صرف کربلا اور اس کے متعلقات تک محدود کرکے عرفان صدیقی اور افتخار عارف کی غزلوں سے مثالیں پیش کی ہیں ،مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی علامتیں وضع کرنے کے لیے کربلا اور اس کے متعلقات سر فہرست ضرور ہیں لازمی نہیں ہیں ۔ پہلے چند ایسے اشعار ملاحظہ ہوں جن میں واقعات کربلا یا اہلِ بیت کی طرف بالواسطہ یا بلا واسطہ اشارے موجود ہیں :
اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے

دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے


(افتخار عاف)
سروں کے پھول سرِ نوک نیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی


(عرفان صدیقی)
یہاں سے پیاسوں کے خیمے تو اٹھ گئے کب کے

یہ کیوں رکی ہوئی جوئے رواں ابھی تک ہے


( عرفان صدیقی)
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے


(افتخار عارف)
مرا نسب اسی تاریخ کا حوالہ ہے

جہاں چراغ بجھائے تو روشنی پھیلی


(عاشور کاظمی)
دونوں کو پیاسا ماررہا ہے کوئی یزید

یہ زندگی فرات ہے اور میں حسین ہوں


(عاشور کاظمی)
ان اشعار کی تشریح ضروری نہیں اور کیوں؟ اس لیے کہ واقعات کربلا اور ان کے پہلے اور بعد کے مناظر سے ہم سب واقف ہیں ،مگر مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ ان تمام اشعار میں ایک صورت تلمیح کی بھی ابھرتی ہے ۔اور یہ صورت کسی نہ کسی سطح پر اس اجتماعی لا شعور کا نتیجہ ہوتی ہے جس سے شاعر بہرہ ور ہوتا ہے ۔ یہاں صرف دو اشعار نقل کرتا ہوں جن میں تلمیح علامت کے طور پہ ابھری ہے :
بندہ پرور آپ جو فرمائیے منظور سب

میرا کیا جب سر نگوں ہیں سرمد و منصور سب
 (نعمان شوق)
اب حسن کے معیار کا کیسے ہو تعیّن
 یوسف تو چلے آئیں گے بازار نہیں ہے
 (قاسم خورشید)
میں سمجھتا ہوں کہ نئی غزل میں علامت سازی کا یہ جائزہ یہیں پر ختم کیا جا سکتا ہے ۔ویسے اور بھی مثالیں پیش کرکے ان کا تجزیہ ممکن ہے ،لیکن مجھے یقین ہے کہ وہی نکات سامنے آئیں گے جن کی طرف میں بار بار اشارہ کرتا رہا ہوں ۔ صاف ظاہر ہے کہ نئے غزل گو شعرا ایک طرف تو سامنے کے ٹکسالی الفاظ کو نئے مفاہیم عطا کررہے ہیں ۔دوسری طرف نئی ترکیبات ، اشارات، اورعلامات کی مدد سے ایک نیا جہان معنی آباد کررہے ہیں ۔ اور تیسری طرف تلمیحات کی مدد سے جن میں واقعات کربلا اور ان کے متعلقات سر فہرست ہیں ، علامتوں کی ایک واضح صورت سامنے لا رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ علامت نگاری کی طرف غزل گو شعرا کا یہ رجحان قابلِ ستائش ہے چونکہ اس سے نہ صرف شاعر کو اظہار خیال کی تہہ داری حاصل ہوتی ہے بلکہ قاری بھی اپنی ترجیحات کے مطابق اشعار کی تشریح کرکے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ اور مختلف زمانوں یا معاشروں میں شعر کی معنویت برقرار رہتی ہے۔مگر یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ علامت نگاری ہی غزل گوئی کا معیار متعیّن کرتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ عمومیت شاعری کو اس کے منصب سے گراتی ضرور ہے ،مگر کوئی غزل گو شاعر اگر علامت سازی میں ناکام ہوجائے تو وہ بھی کچھ زیادہ ہی رسوا ہوتا ہے ۔ کہہ سکتے ہیں کہ غزل کے کسی شعر میں الفاظ جدلیاتی نوعیت کے ہوں اور اس سے شاعری میں ابہام پیدا ہو تو اسے حسن سمجھنا چاہیے ،لیکن اگر علامت سازی فیشن پرستی کا نتیجہ ہو تو اسے رد کردینا مناسب ہے ۔ دراصل لفظوں کو نئے مفاہیم سے آشنا کرنا بہت آسان بھی نہیں ہے ۔
اس لیے برادر محترم لطف الرحمن کے اس Note of Cautionکے ساتھ اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں :
لفظوں میں معنویت پرونا

پتھر میں جان ڈالنا ہے
تلوار کی دھار پر لہو کو

اس رزم گہہ میں اچھالنا ہے
   حواشی  :
   .1اسلوب و معنی،مطبوعہ1989، پٹنہ
   .2حرف حرف آشنا،مطبوعہ1995 ، نئی دہلی
 .3غزل کا نیا علامتی نظام،مطبوعہ2010 ،لکھنؤ
Prof. Ajaz Ali Arshad
Department  of  Urdu,
Patna University, Patna, Bihar

سہ ماہی فکر و تحقیق،جنوری تا مارچ 2013

1 تبصرہ: