5/3/20

ترجمہ سے ترجمانی تک مضمون نگار: امیر حمزہ



ترجمہ سے ترجمانی تک
امیر حمزہ
’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیونکہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیا کے نام بتائے تھے جیسے سورج، دھوپ، آگ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انھوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انھیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انھیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیا کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیا اب بھی ہیں،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیا اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیا، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔
کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب ’سرگزشت الفاظ‘ میں لکھی ہے کہ ’’ نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو’وان ڈیمنزلینڈ‘ میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے۔‘‘(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)
 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں پر قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں۔
تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمے داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا، جس میں معنی رنگوں کے ذریعے پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں:
فقلت ماسمک
فقال لو لو
فقلت لی لی
فقال لالا
جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے’’میں نے اُس سے کہا تمھارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں‘‘ یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔
اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔
ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’بہ اسم عرفی‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے:
لجامع مولانا المؤید رونق
منارتہ تزہو علی الفخر والزینِٖ
تقول وقد مالت علیّ ترفقوا
فلیس علی حسنی اضر من العینٖ
(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و، میرے حسن پر (عین) بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے) اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا۔ اس پر انھوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے۔
منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت
و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ
قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ
وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖٖ
( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے،میں نے کہا یہ غلط ہے، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے۔
تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے، یہ بامحاورہ ہے، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے، یہ ٹھیک ترجمہ ہے،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلے کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’ سب رس ‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’ حسن و دل ‘ سے، غواصی کا ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ عربی کا مشہور قصہ ’ الف لیلہ ‘ سے، ابن نشاطی کا ’پھول بن ‘ فارسی کا قصہ ’بساتین الانس ‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں ’’ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
(ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47)
لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں ترجمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔
 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دے کر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں۔
 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعے کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’ادب میں بائیں پسلی‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انھوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔ اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔
ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔ جبکہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔ جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں
Humpty Dumpty sat on a wall,
Humpty Dumpty had  a great  fall,
All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men
Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.
اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں        ؎
ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت
ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ
راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے
ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے
اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘
اٹکن بٹکن
دہی چھٹاکن
آلو بیگن
کھٹا چورن
گھنگرو باجے
چھن چھن چھن چھن
گھنٹہ بولا
ٹن ٹن ٹن ٹن
ہنستے گاتے
چنّن منّن
اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے، چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے، بلی، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟۔
الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔
ترجمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔
آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے۔
’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’مجھ کو چلا ‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمے دار ہوتی ہے۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انھوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے۔

Amir Hamza
K-12, Third Floor
Haji Colony, Jamia Nagar
New Delhi - 110025
Mob.: 8877550086


 ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2020





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں