9/3/20

مرزا سلامت علی دبیر کی غزل کائنات مضمون نگار: ابوبکرعباد


مرزا سلامت علی دبیر کی غزل کائنات
ابوبکرعباد
تلخیص
مرثیہ نگار کی حیثیت سے اور میر انیس کے معاصرو مقابل کے طور پر مرزا دبیر کی شہرت کچھ ایسی پروان چڑھی کہ ان کی دوسری علمی اور ادبی جہات کافی حد تک ماند پڑ گئی، یا یوں کہیے کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ گئی۔اس مضمون میں مرزا دبیر کے انھی غیر منورگوشوں،یا نظروں سے اوجھل جہتوں میں سے ایک یعنی ان کی غزل گوئی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔مضمون میں مختلف حوالوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دبیر نے اپنی نوجوانی کے دنوں میں خاصی تعداد میں غزلیں کہی ہیں۔لیکن جب ایک بلند پایہ مرثیہ نگار،مقبول عام ذاکر اور مذہبی بزرگ کے طور پر ان کی توقیر کی جانے لگی تو انھوں نے بذات خود اپنی غزلوں کو عام لوگوں تک پہنچنے اور اس کی اشاعت پر پابندی عائد کرلی ۔ چنانچے ایک عرصے تک یہ قضیہ معرض بحث رہا کہ آیا دبیر نے غزلیں کہی بھی ہیں یا نہیں،کیونکہ ان کے شائع شدہ دفاتر میں ایک بھی غزل شامل نہ تھی۔اس اعتبار سے یہ مضمون اہم اور دلچسپ ہے کہ اس میں دبیر کی غزل گوئی کے ثبوت فراہم کیے گئے ہیں،غزلوں کو پردۂ خفا میں رکھنے کے اسباب دریافت کیے گئے ہیںاور دبیر کی تمام تر شائع شدہ اور معلوم غزلوں کو اس مضمون میں یکجا کردیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ
شعری اصناف: سلام، رباعیات، مثنویات ،مخمس، نوحے ،قطعات، مثنویاں ،ٹھمریاں ،غزلیں۔
نثری اصناف:خطوط،168صفحات اور چھے ابواب پر مشتمل ایک کتاب ’ابواب المصائب‘ کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ ،یہ کسی شیعہ عالم کی اردو نثر میں لکھی ہوئی پہلی کتاب ہے ۔اس سے پہلے شیعہ عالم یا تو بہ زبان شاعری یا پھر عربی وفارسی میں کتابیں لکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ یہ سورۂ یوسف کی تفسیربھی ہے ،جسے شیعہ عالم کی لکھی ہوئی پہلی اردو تفسیرہونے کا امتیاز حاصل ہے۔
————————
مرزا دبیر کے اجداد شیراز سے دہلی آئے تھے۔یہاںان کے پردادا مغلیہ دربار میں منشی کے عہدے پر فائز رہے۔ مرزا دبیرکی پیدائش 29 اگست 1803 میں د ہلی کے محلہ بلی ماران میں ہوئی، جہاں غالب نے بھی زندگی کا ایک عرصہ گزار اتھا۔ جب دہلی اجڑنے لگی تو ان کے والد مرزا غلام حسین نے لکھنؤ کا رخ کیا، اس وقت دبیر محض سات برس کے تھے۔ لکھنؤ میں انھوں نے میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی اور گیارہ برس کی عمر سے مرثیہ کہنا شروع کیا۔ اس زمانے کے لحاظ سے دبیر نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔
 ان کی شادی سید انشا ء اللہ خاں انشاکی نواسی سے ہوئی ۔جلد ہی انھوں نے لکھنؤ میں ایک مرثیہ نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کرلی ۔جب میر انیس لکھنؤ آئے تودبیر کی شہرت کاڈنکابج رہا تھا۔ 1857 کے ہنگامے میں وہ لکھنؤ سے سیتا پور چلے گئے ۔ دوبارہ لکھنؤ آئے ، کچھ دنوں کانپور رہے اور پھر باندی بیگم کی دعوت پر عظیم آباد چلے گئے۔ باندی بیگم کے نذرانے پر ہی ان کے اخراجات پورے ہو رہے تھے۔ آخر عمر میں آنکھوں میںموتیا بین اترآیا تھاجس کا علاج نواب واجد علی شاہ کے توسط سے کلکتے میں ہوا۔کچھ دنوں بعد عظیم آباد سے لکھنؤلوٹ آئے جہاں6مارچ 1875کو ان کاانتقال ہوگیا۔ یوں وہ لکھنؤ کے محلہ نخاس میں ہی اپنے ذاتی مکان کے اندر سپرد خاک ہوئے، اورجو گھر زندگی میں ان کا مسکن کہلاتاتھا وصال کے بعد ان کا مدفن بنا۔
 دبیرپابند شرع اور بڑے ہی مذہبی آدمی تھے ۔جیسے ان کی زندگی کے بیشترپہلو مذہب سے وابستہ تھے، اسی طرح ان کی بیشتر تخلیقات میں بھی مذہب کا رنگ نمایاں ہے۔ ہمارے کئی ناقدوں نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ دبیر خاندانی شاعر نہ تھے،یہ صحیح نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دبیرکے اسلاف ، ان کے اخلاف اور ان کی سسرال میں شاعری کی روایت اور شعرا کی خاصی تعداد موجود تھی۔ ان کے اسلاف میں ملا اہلی شیرازی فارسی کے مستند شاعر تھے۔ان کی مثنوی ’سحر حلال‘اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ اس کے ہر شعر میں دو قافیے ہیں اورہر شعر دو بحروں میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاعری سے دبیر کاکئی نسلوں اور رشتوں سے تعلق رہا ہے ۔
یوں تو دبیر نے سلام، رباعیات، مثنویات، مخمس، نوحے ،قطعات، مثنویاں اورغزلیں بھی لکھی ہیں لیکن ان کی بنیادی شناخت مرثیہ نگار کی ہے ۔بعض روایتوں کے مطابق انھوں نے آٹھ مثنویاںلکھی ہیں، جن میں دو مطبوعہ ہیں ،ایک :مثنوی’ احسن القصص‘اور دوسری’ معراج نامہ۔‘یہ دونوں مثنویاں سید عقیل رضوی اور گیان چند جین کے مطابق ’دفتر ماتم ‘کی پندرھویں جلد میں شامل ہیں۔ اکبر حیدری نے نادر شاہ درانی کے حالات کے سلسلے میںلکھی ہوئی ان کی سولہ اوراق پر مشتمل ایک غیر مطبوعہ اور غیرمعنون مثنوی دیکھنے کا ذکر کیاہے ،جس کے یہ اختتامی اشعار بھی انھوں نے نقل کیے ہیں      ؎
درِ خیمہ پر جلد حاضر ہوا
بغل گیر شرماکے نادر ہوا
دوچنداں ہوئی خیمے کی آب وتاب
کہ اک برج میں آئے دو آفتاب
 (بحوالہ مقدمہ ’انتخاب مراثی مرزا دبیر‘،اتر پردیش اردو اکادمی ،1979 ص،9)
نصیرالدین حیدر کی فرمائش پر دبیر نے بھاکامیں چند ٹھمریاں بھی کہی تھیں۔ شعری اصناف کے علاوہ نثر میں بھی انھوں نے 168صفحات اور چھے ابواب پر مشتمل ایک کتاب ’ابواب المصائب‘ کے نام سے لکھی ہے۔ (دوجدتوں کی وجہ سے اس کتاب کی بڑی تاریخی اہمیت ہے ۔ایک تو یہ کہ کسی شیعہ عالم کی اردو نثر میں لکھی ہوئی یہ پہلی کتاب ہے ۔اس سے پہلے شیعہ عالم یا تو بہ زبان شاعری یا پھر عربی وفارسی میں کتابیں لکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ یہ سورۂ یوسف کی تفسیربھی ہے ،جسے شیعہ عالم کی لکھی ہوئی پہلی اردو تفسیر ہونے کا امتیاز حاصل ہے ۔) اس کتاب کو ’ حدیث خوانی ‘اور ’نثر خوانی ‘ کا مرکب کہنا چاہیے، گوکہ اس میں برمحل اشعار سے بھی مدد لی گئی ہے۔ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات بیان کیے گئے ہیں، مگر جگہ جگہ سید الشہداء کے مصائب کی آمیزش کرکے اسے ذاکری کی کتاب کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
 مولانا محمد حسین آزادتحریر فرماتے ہیںکہ: ’’دبیر نے اپنی زندگی میں کم سے کم تین ہزار مرثیہ لکھا ہوگا۔  سلاموں ، نوحوں اور رباعیوں کا شمار نہیں۔‘‘ آب حیات، ص،541) ’ دفتر ماتم ‘کے نام سے دبیر کاکلام بیس جلدوں میں شائع ہوا تھاجو اردو میں کسی بھی مرثیہ گو کے مرثیوں کی مطبوعہ جلدوں سے کافی زیادہ ہیں،تاہم واضح رہے ان جلدوںمیں ان کا تمام کلام شامل نہیں ہے۔ فراق گورکھپوری نے کہیں لکھا ہے کہ: ’’دبیر کاذخیرہ ٔکلام اتنا بڑا ہے کہ عام پڑھنے والے اس بحر ذخار کی پیراکی نہیں کر سکتے۔‘‘ ان کے مرثیوں کی صحیح تعداد کا علم ہنوز تحقیق طلب ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق انھوں نے ہزار مرثیے کہے ہیں جن میں سے کم وبیش ساڑھے تین سو کے چھپنے کی اطلاع ہے۔البتہ یہ با ت درست ہے کہ مرزا دبیر بسیارگو اور زود نویس تھے اس کااظہار ان کے ’دفتر ماتم ‘ کی بیس جلدوں کے علاوہ بعض مرثیوں میں پوشیدہ اشاروں سے بھی ہوتاہے، مثلاً اپنے ایک مرثیے میں کہتے ہیں     ؎
کل چار ساعتوں میں ہے یہ مرثیہ کہا
یا یہ مقطع کہ      ؎
خاموش دبیر اب کے عجب حشر بپا ہے 
یہ مرثیہ ہرچند بہت جلد کہا ہے
 اکبر حیدری ’افشائے فرقانی‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :’’عوام وخواص کاتو ذکر ہی کیا خود بادشاہ وقت محمد واجد علی شاہ جان عالم جو خود بھی صاحب تصانیف تھے ،ان سے اس قدر مانوس تھے کہ بے ساختہ فرمایا کرتے تھے     ؎
بچپن سے ان کے دام سخن کا اسیر ہوں
میں کم سنی میں عاشق نظم دبیر ہوں
(انشائے فرقانی،ص3،اودھ اخبار،مطبوعہ،1875،بحوالہ کتاب نما، دبیر نمبر،ص27)
اس میں کوئی شک نہیں کہ زودنویس ہونے کے باوجود دبیرمرتب ذہن کے مالک ، صاحب استعداد اور حد درجہ قادرالکلام تھے۔ منیر شکوہ آبادی دبستان دبیر کے مسلم الثبوت استاد شاعر تھے۔ انھوں نے بھی اپنے استاذ مرزا دبیر کی اعلیٰ علمی استعداد ،زباندانی،شاعری اور سیرت کی تعریف ایک غزل میں بڑے عمدہ طریقے سے بیان کی ہے ۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جن سے دبیر کے فکری اور تخلیقی اوصاف کا پتہ چلتاہے      ؎
خلیل کعبہ فکر رسا جناب دبیر
کلیم طور فصاحب ضیا جناب دبیر
شباب علم بدیع وبیان ومعنی ونظم
مسیح ہر سخن جانفزا جناب دبیر
فرزدق ومتنبی، و وعبل و حسان
پکارتے ہیں کہ ہیں مقتداجناب دبیر
زبان فارسی و اردو کی بلاغت میں
برنگ موجۂ آب بقاجناب دبیر
کمال مرثیہ میں فخر سابق ولاحق
بہار جمت بزم عزا جناب دبیر
بیاض نقش قدم شرح سلّم منبر
کتاب واقعہ کرب وبلاجناب دبیر
حدیث و فقہ و تفاسیر کے بھی دریاسے
نکالتے ہیں درِ بے بہاجناب دبیر
ہر ایک مرثیہ عرش الکمال مضموں ہے
سخنوری میں ہیں معجز نما جناب دبیر
تسلیم کرنا چاہیے کہ عمومی، سوانحی اور تعریفی باتو ںسے قطع نظر، مرزا دبیر کے کلام کے تعلق سے سنجیدہ گفتگو یا مباحث کا آغاز شبلی کی تنقید سے ہوتا ہے۔ اگرچہ اس تنقید میں انیس کے مقابلے دبیر، دبیر کی فنی بالیدگی ،ان کے تنقیدی شعور اور ان کی تخلیق کے ساتھ مساویانہ سلوک اور مخلصانہ رویہ نہیں برتا گیا۔ ہاں، شبلی کی تحریک سے اتناضرور ہوا کہ دبیر کی فنی خوبیوں کی جستجواور ان کی تخلیقی کاوشوں کی تحقیق کا ایک نیا باب کھل گیااور لوگ کثرت سے دبیر کے متعلق لکھنے لگے۔ اعتراف یہ بھی کرنا چاہیے کہ کلام دبیر کے بارے میں کوئی آزادانہ اور واقعتا  ًناقدانہ رائے قائم کرنے سے زیادہ ہمارے ناقدین یا تو علامہ شبلی کی ’موازنۂ انیس ودبیر ‘ میں مین میخ ڈھونڈنے میںمصروف رہے یاہیں،یا پھر جواب اور ردالجواب کے افراط وتفریط میں ڈوبتے ابھرتے رہے۔ شاید اسی لیے احسن فاروقی نے کہا تھا کہ ’’موازنۂ شبلی ایک دیوار ہے، اسے توڑنے کی ضرورت ہے۔‘‘یہ بات تو قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ’ بنی ناقدین‘ کا کوئی کوہ کن‘ یا ’دیوار شکن‘ یہ کارنامہ انجام دے پایا،یانہیں ،لیکن میر صفدر علی،افضل حسین ثابت، اکبر حیدری کاشمیری اور کاظم علی خاں جیسے محققین نے دبیر کی شخصیت کو اجالنے اور ان کی تخلیقات کی تلاش وتعیین میں جس مشقت ،ژرف بینی اورسلیقے کے ثبوت دیے ہیں،اردو دنیا کو ان حضرات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
دبیر کے عہد جوانی کے لکھنؤمیں غزل کے بھی شباب کا دور تھا۔اور بقول پروفیسر اعجاز حسین ’’ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فضا میں شاعری برس پڑی ہے ۔‘‘ان دنوں آتش وناسخ اور ان کے شاگردوں کی غزلوں کی لکھنؤ میں دھوم تھی۔ معلوم ہوتا تھا پورا معاشرہ غزل کے رنگ میں شرابور ،اور اس کے نشے میں مخمور ہے۔ اس صنف لطیف کو صاحبان ذوق وفن نے ایسی ایسی صنعتوں میں ملبوس کیا، اچھوتی تشبیہات و استعارات سے سجایا،اور نئے نویلے الفاظ کے نگینوں سے اِس سلیقے اور خوش اسلوبی کے ساتھ آراستہ کیا کہ اس کے حسن، ہنر، اور بانکپن کے ذکر سے کوئی علمی ،ادبی،محفل ،رندانہ مجلس اور تقریباتی نشست خالی نہ رہی۔ سو، جُنوں صفاتوںکا اس عجمی محبوبہ سے ارتباط پیدا کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں،وجہ حیرت اور قابل توجہ امر یہ ہے کہ مفتی و مصلح اور ناصح و ذاکر حضرات نے بھی اس سے آشنائی کا یہ جائز حیلہ دریافت کرلیا کہ     ؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
اس حوالے سے ایک اہم تاریخی واقعہ یہ ہے کہ غزل جوپہلے’ ریختہ‘ کے کسی قدر غیرملائم نام سے جانی جاتی تھی ، دبیر کے عہد میں ہی ناسخ نے اسے ’غزل کے نازک نام سے نواز کر اس کی دوشیزگی میں مزید کشش پیدا کردی ۔بہر حال یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ دبیر نے غزلیں کہی ہیں یا نہیں؟کہی ہیں، تو ان کے ’دفتر ماتم‘ میں شامل کیوں نہیںہیں؟ اور اگر نہیں کہی ہیں تو تاریخ و تحقیق اور تذکرہ و تنقید کے صفحات میں ان کی غزلوں کے اشعار کہاں سے آئے؟
دلچسپ بات ہے کہ جن بڑے شاعروں نے غزل کی مخالفت کی اور غزلیں لکھنے سے انکار کیا ہے، ان کے یہاں بھی غزلیہ اشعار چوری چھپے یا لاشعوری طور پر شاعر کے تحت الشعور سے نکل کر صفحہ قرطاس پر آجاتے ہیں۔اس کی مثالیں عظمت اللہ خاں کی نظموں، گیتوں اورجوش کی نظموں اور مرثیوں میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔یوں بھی مرثیے میں غزلیہ یا عشقیہ،یا عشقیہ نما اشعار کی شمولیت سے پرہیز کو لازم نہیں سمجھا گیا۔ شبلی کی ’موازنہ انیس ودبیر ‘ سے یہ اقتباس دیکھیے:
 ’’ رزم میں عشقیہ الفاظ اور تشبیہات کااستعمال وہیں تک جائز ہے جہاں تک کلام کا اثر نہ جانے پائے اور کلام میں ابتذال نہ آجائے ۔مرزا دبیر صاحب نے بھی میر انیس کی تقلید کرنی چاہی لیکن کلام کا یہ رنگ ہوگیا۔تلوار کی تعریفـ    ؎
جب خوں میں بھری فوج کے انبوہ سے نکلی 
غل یہ تھاکہ وہ لال پری کوہ سے نکلی‘‘
                                                    (موازنۂ انیس و دبیر،ص،)
مذکورہ شعر کے تعلق سے ڈاکٹر اکبر حیدری نے لکھا ہے کہ یہ شعر نہ تو دبیر کے مطبوعہ کلام میں ہے، نہ ان کے غیرمطبوعہ کلام میں۔بہر حال دبیر کے مرثیے میںتلوار کی معشوقانہ تعریف کے یہ دو بند دیکھیے۔ جس میں غزل کا مکمل رنگ موجود ہے اور دبیرکے مطبوعہ کلام میں بھی شامل ہے     ؎
جس مورچے میں لیلیِ تیغ دوسر گئی
چنگے بھلوں کو سائے سے دیوانہ کرگئی
ہر صف نے خاک اڑائی اِدھر سے اُدھر گئی
پھر یہ نہا نہا کے لہو میں اتر گئی
عالم نہ پوچھو قطرہ فشانی کے حسن کا 
جوبن ٹپک رہا تھا جوانی کے حسن کا 
مجنوں کی برق آہ تھی بن کے چمک گئی
فرہاد کا وہ تیشہ بنی کوہ تک گئی
شیریں کی تھی کلائی کھنچی اور مڑک گئی
لیلیٰ کی تھی کمر کہ چلی اور لچک گئی
گاہے دلوں کے پردہ سے منھ ڈھانکنے لگی
زخموں کے روزنوں سے کبھی جھانکنے لگی
نہیں بھولنا چاہیے کہ لکھنؤ میں سلام و مرثیہ کے ہم دوش بصورت غزل صناعانہ اورعاشقانہ شاعری کا چلن کہیں زیادہ تھا۔ اور شاعروں کی فنکارانہ اور خلاقانہ صلاحیتوں کی شہرت و مقبولیت کا دارومدار بھی در اصل غزل گوئی پر ہی تھا۔’بگڑا شاعر مرثیہ گو‘کی اصطلاح بھی شاید اسی لیے رائج رہی ہوگی ۔ سو، ممکن نہیں کہ غزل کے اُس عہد شباب اوراپنی جوانی میں دبیر نے غزلیں نہ کہی ہوں۔
 میر صفدر حسین کی اس بات کو حقیقت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کہ ’’دبیر غزل کی طرف کبھی مائل نہ تھے۔‘‘ اور نہ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے اس قول کو جزو یقین بنایا جاسکتا ہے کہ دبیرنے ’’تمام عمر کسی اتفاقی سبب سے غزل یا کوئی شعر کہاہو۔‘‘ ’’ثابت لکھنوی نے’حیات دبیر‘ میںان کی غزلوں کے تین دواوین کا ذکر کیا ہے لیکن ثبوت کے طور پرپیش کرنے کے لیے انھیں ایک بھی مستند شعر نہیں ملا۔یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’غزلیں بھی ابتدا میں مرزا صاحب نے کہیں اور کثرت سے کہیں،۔۔۔۔ سناہے کہ مرزا صاحب کی غزلوںکے تین دیوان تھے۔ان میں سے ایک یادودیوان میر بادشاہ علی بقامرحوم اس زمانے میں مانگ لائے تھے۔جب وہ مشق سخن کرتے تھے۔باقی ایک یا دونوں دیوان مرزا صاحب نے تلف کردیے۔۔۔۔۔۔ آج مجھ کو ایک غزل بھی معتبر ذرائع سے نہیں ملی جو میں بالیقین کلام دبیر مرحوم کہہ کر ناظرین کے سامنے پیش کروں۔‘‘
                                                                                                                                      (حیات دبیر،جلد1،ص،85-86)
ناصر لکھنوی نے بتایاکہ انھیں تلاش بسیار کے بعد لوگوں کی زبانی دبیر کا یہ تنہاشعر دستیاب ہواتھا    ؎
مے سے توبہ کی ستمگر نے غضب تو دیکھو 
جب کہ تیار مری خاک سے پیمانہ ہوا
دبیر کے حوالے سے اہم کام کرنے والے کاظم علی خاں اپنے مضمون ’’مرزادبیر کی غزل گوئی۔ سوانحی حالات کے آئینے میں ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’دفتر ماتم کی بیسوں جلدوں میں تلاش کرنے کے باوجود مجھے دبیر کی ایک غزل بھی نہ ملی۔‘‘(تلاش دبیر ، نامی پریس، لکھنؤ،1979 ، ص 80) تاہم وہ بھی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ دبیر نے غزلیں نہیں کہی ہوں گی۔چنانچے وہ مختلف حوالوں سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دبیر نے غزلیںتو کہی تھیںلیکن ان کے تقویٰ، ان کی پرہیزگاری ، پابندی شرع اور ان کا ذاکر منبر رسول ہوناان کی غزلوں کی شہرت میں حائل ہوئے ۔ شاد عظیم آبادی کے ایک بیان سے دبیر کی غزل گوئی کا سرا واضح طورپر ہاتھ آتا ہے۔یہ اقتباس دیکھیے:
’’ایک دفعہ میں نے (مرزا دبیر صاحب سے)گستاخانہ عرض کیا کہ حضور نے غزلیں تو بہت فرمائی ہوں گی ۔ایسے متاثر ہوئے گویا میں نے گناہ کبیرہ کو یاد دلادیا۔فرمایا کہ جانے دیجیے وہ دن ہی اور تھے ۔‘‘اس کے بعد شاد لکھتے ہیں ’’یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایسے محتاط بزرگ غزل گوئی کو ایک شعبۂ اوباشی سمجھتے تھے۔‘‘ (فکربلیغ، ص 166)
شاد عظیم آبادی کے نام اپنے ایک خط مورخہ 10 ذی قعدہ،1286ھ مطابق 11فروری 1870 میں لکھتے ہیں: ’’مدتے است کہ ترک غزل سرائی کردہ ام۔‘‘یعنی غزل گوئی ترک کیے ہوئے ایک مدت ہوگئی۔ سو ثابت ہوا کہ مرزا دبیر اپنے ابتدائی دور میں غزلیں کہتے تھے۔یہ تو طے ہے کہ دبیر نے لکھنؤکے ماحول سے متاثر ہوکر ،معاشرے کے تقاضے کے تحت یا دلی جذبات واحساسات کے اظہار کے وسیلے کے طور پر غزلیں کہیں اوربعض روایتوں کے مطابق مشاعروں میں بھی پڑھیں۔لیکن بعد میں وہ جس مذہبی رتبے اور مسند بزرگی پرفائز ہوئے ؛ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی غزلیں آلات موسیقی پر ،یا عیش و نشاط کی محفلوں میں گائی جائیں،لہٰذا انھوں نے اپنی غزلوں کو حتی الامکان پوشیدہ رکھنے اور دوسروں تک پہنچنے سے روکنے کی کوششیں کیں، جسے شریعت ادب میں پسندیدہ فعل سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ ثابت لکھنوی اپنے نانا کے حوالے سے 1857کے پہلے کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
 ’’جب مرزادبیر کو یہ علم ہوا کہ ایک تقریب ِعقد کے موقع پر محفل رقص وسرود میںاس زمانے کی مشہور طوائف حسین باندی نے مرزادبیر کی غزل گائی تو مرزا صاحب نے دوسرے ہی روز اس طوائف کو آئندہ اپنی غزلیں گانے سے روک دیا۔‘‘ (حیات دبیر،جلد،1،ص،86)
بہت ممکن ہے کہ دبیر اپنی غزلوں کولوگوں میں اس لیے بھی مشتہرنہ ہونے دینا چاہتے ہوں ،کہ وہ خوب جانتے تھے کہ ان کی غزلیںان کے مرثیوں کے مقابلے میں بہت کمتر ہیں۔فکروخیال، زبان وبیان اور معیار کے لحاظ سے بھی ۔ اِس کی بنیادی وجوہ یہ ہیں کہ اُن کی تمام غزلیں ابتدائی تجربات، ماحول اور معاصرین کے مزاج سے اثر پذیری، ان کی کم عمری اور ان کی نومشقی کے زمانے کی ہیں۔ بہرحال دبیر نے جن وجوہ کی بنا پر بھی غزل گوئی ترک کی ،یا کہی ہوئی غزلوں کی اشاعت اور لوگوں تک ان کی رسائی کونا پسند کیااس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ ان کی غزلیہ تخلیق پہلے ’نادرات‘ کے عجائب خانوں میں روپوش ہوئیں اور پھر دھیرے دھیرے ’نایاب‘ کی گہری دھند میں کھوتی چلی گئیں۔
دبیرنے بھلے ہی اپنی غزلوں کوبیس جلدوں میں پھیلے اپنے ’دفتر ماتم‘ کے کسی گوشے میں جگہ نہ دی ہو،لیکن ان کی چند غزلیں اور غزلوں کے کچھ اشعار بعض کتابوں، تذکروںاور بیاضوں میں موجود ہیں اوران کی شخصیت اور فن کے اس پہلو کو منور کرتے ہیںجسے خود دبیر نے دھندلانے کی کوشش کی ۔ ’خم خانۂ جاوید‘میں ان سے منسوب ایک غزل منقول ہے۔غزل واقعتاً دبیر کی ہی ہے اس کی تصدیق بعض مصرعوں کی تقدیم وتاخیر کے اختلاف کے ساتھ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری اور کاظم علی خاںلکھنوی دونوں نے کی ہے۔غزل یہ ہے   ؎
دفن کرنا مجھ کو کوئے یار میں
قبر بلبل کی بنے گلزار میں
اپنے یوسف کا عزیز و ہوں غلام
چاہے مجھ کو بیچ لے بازار میں
سر مرا لٹکا کے قاتل نے کہا
پھل لگا ہے آج نخل دار میں
گرمیِ خوں کی مرے تاثیر دیکھ
پڑ گئے چھالے تیری تلوار میں
سر کے کٹنے کا مجھے کوئی غم نہیں 
خم نہ پڑجائے تری تلوار میں
قبر میں روزن مری رکھنا ضرور
مرگیا ہوں انتظار یار میں
میرا مرنا ان کے گھر شادی ہوئی
خون کے چھاپے لگے دیوار میں
بعدِ مُردن میرے لاشے کو دبیر 
دفن کرنا کوچۂ دلدار میں
(خم خانۂ جاوید ،جلد،2لالہ سری رام پرنٹنگ پریس، دہلی،1917ص،160)
’تذکرہ نادر ‘ میں بھی دبیر کی ایک غزل شامل ہے۔اکبر حیدری نے تصدیق کی ہے کہ یہ غزل دبیر کی ہی ہے۔ اس غزل کے دو اشعار صاحب ’سخن شعرا‘ نے بھی نقل کیے ہیں۔’تذکرۂ نادر ‘ میں غزل اس طرح درج ہے      ؎
اگر وہ غیرت شمشاد جائے سیر گلشن کو
گلو ئے سرو میں پہنا دے قمری طوق گردن کو
گلوں کی بے ثباتی پر جو اس کا دھیان جاتا ہے
تو کیا روتی ہے شبنم منھ پہ رکھ کرگل کے دامن کو
دِلااِن چشم تنگوں سے نہ چشم مہر تو رکھیو
کسی کے حال پر روتا نہ دیکھا چشم سوزن کو
سوادِ نامۂ اعمال کیا یہ اشک دھوئیں گے
نہ شبنم نے کیا تبدیل رنگ برگ سوسن کو
دبیر آئے گا کب وہ بھول کر گور غریباں میں
جو اکثر روندتا ہے ناز سے پھولوں کے خرمن کو
مگر’خم خانۂ جاوید ‘کی تیسری جلد میں یہ غزل پانچ کے بجائے سات اشعار پر مشتمل ہے اور دوسرے شعر کے بعد تیسرے اور چوتھے کے بطور اس میں یہ اشعار درج ہیں      ؎
رواں کرتا تھا خنجر گاہ، گاہے روک لیتا تھا
عجب ناز وادا سے اس نے کاٹا میری گردن کو
میں کشتہ ہوں کسی کی مسی آلودہ دنداں کا 
چڑھانا باغباں تربت پہ میری برگ سوسن کو
کاظم علی خاں نے ماہنامہ ’آجکل ‘دہلی ،ستمبر 1976کے شمارے میں شائع اپنے ایک مضمون ’مرزا دبیر کے بعض نادر قلمی آثار‘میںدبیر کی اس غیر مطبوعہ غزل کو دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے     ؎
تل نمایاں ہے عارض جاناں کے تلے
ہے ستارا کہیں روشن مہ تاباں کے تلے
کیا ہی بے چین ہوئے نالۂ بلبل سن کر
ٹھہرے اک دم جو کسی نخل ِ گلستاں کے تلے
چاک سینہ کو مرے دیکھ کے ناصح بولا
لاکھوں ہی داغ ہیں یاں تیرے گریباں کے تلے
ہم تو چھٹنے کے نہیں ہم دموں اس دام سے آہ
اب دل چاہے پھنسا ،اس زلف ِ پریشاں کے تلے
ہاتھ چھاتی پہ مری رکھ کے یہ حکما نے کہا
دل نہیں ،آگ ہے یاں سینۂ سوزاں کے تلے
اُس کو مت برق سمجھ ،یہ جو فلک پر ہے چمک
ہے دبیر آہ تری گردش دوراں کے تلے
اکبر حیدری نے ان کے پڑپوتے کے پاس ان کا غیر مطبوعہ دیوان غزلیات دیکھنے کادعویٰ کیا ہے اور انھوں نے دبیر کے کئی اشعار بھی نقل کیے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دبیر نے خاصی تعداد میں غزلیں کہی ہیں ،مگر جانے کیوں انھیں شائع ہونے سے روکے رکھا۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’راقم نے مرزا دبیر کے پرپوتے مرزامحمد صادق کے پاس قلمی مراثی کے علاوہ دبیر کا دیوان غزلیات بھی دیکھا۔یہ دیوان ہنوز غیر مرتب ہے اور اکثر وبیشتر غزلوں میں مقطع کی جگہ خالی چھوڑدی گئی ہے۔دیوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ دبیر چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑی روانی اور بے ساختگی کے ساتھ غزلیں کہتے تھے۔اور صنف غزل میں بھی انھیں قدرت حاصل تھی۔‘‘ (مقدمہ، انتخاب مراثی مرزا دبیر،اترپردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1979ص 8)
اس کے بعد حیدری صاحب نے ان کے مخطوطہ دیوان سے کچھ اشعار نقل کیے ہیں،ان میں سے چند آپ بھی ملاحظہ فرمائیے       ؎
دبیر بے گنہ مارا گیا کل اس کے کوچے میں
بڑا افسو س یاروں کو ہوا اس کی جوانی کا
چھیڑا تھا ذکر جس کا وہ خوش خرام آیا
یادش بخیر اے لو، لیتے ہی نام آیا
گہ شعلہ کبھی شرار ہیں ہم
گہ باغ، گہے بہار ہیں ہم
آئینہ کی شکل آنکھ کھولے 
قمشتاقِ لقاء یار ہیں ہم
دفن کرنا مجھ کو کوئے یار میں
قبر بلبل کی بنے گلزار میں
اگر وہ غیرت شمشاد جائے سیر گلشن کو
گلوئے سرو میں پہنا دے قمری طوق گردن کو
ان غزلوں کے علاوہ محمد زماں آزردہ نے اپنی کتاب ’مرزاسلامت علی دبیر‘ میں مرزاصادق کے پاس محفوظ دیوان دبیر کے قلمی نسخے سے ان کی ایسی سات غیر مطبوعہ غزلیں نقل کی ہیںجن میں دبیر کا تخلص موجود ہے ۔ یہ غزلیں دبیر سے متعلق کسی اور مضمون یا کتاب میں شامل نہیں ہیں ۔ سو، کہنے کی اجازت دیجیے کہ غالباً تمام مطبوعہ کتابوں، رسالوں اورتذکروںمیں دبیر کی غزل کائنات بس اتنی ہی ہے جن کا ذکراس مضمون میں موجود ہے۔محمد زماں آزردہ کی کتاب میں شامل غزلیں یہ ہیں:
زخم جو سینہ و جگر کے ہیں
انھیں ہاتھوں کے سب یہ چر کے ہیں
زلف سے سانپ کو ہے کیا نسبت
ایسے کالے غلام گھر کے ہیں
اہل دنیا سے لے کے تا فقراء
سب یہ طالب مزید زر کے ہیں
لخت دل جو ترے ہیں دامن پر 
گل کھلے اپنے چشم تر کے ہیں
چشم بر راہ، گوش بر آواز
منتظر بیٹھے نامہ بر کے ہیں
قیس و فرہاد اور جناب دبیر
دشت اور کوہ ان کے گھر کے ہیں
وہ جو تونے سنا ہے کوئے عشق 
رہنے والے یہ اس نگر کے ہیں
(2)
یہ مانا [فلک] پر ستارے بہت ہیں 
مگر داغِ دل اپنے پیارے بہت ہیں 
یہاں لوگ تھوڑے سے کچھ بڑھ گئے ہیں
عدم کی طرف کو سدھارے بہت ہیں 
اسی واسطے ہے مزاروں پہ سنبل  
کہ یاں اس کی زلفوں کے مارے بہت ہیں
نہ بولو جو غیروں میں صاحب نہ بولو
تسلی کو میری اشارے بہت ہیں
کسی ماہ کی مشتری ہم بھی ہوتے 
میں اوس ڈھب کے سمجھو اتارے بہت ہیں
دبیر اب تو مانو میں کہتا ہوں تم سے 
وہاں لوگ دشمن تمھارے بہت ہیں
(3)
آشکارہ زلف کے حلقے سے خالِ یار ہے
حلقۂ پرکار میں یا نقطۂ پرکار ہے
طائران ارض ماہِ نو سمجھتے ہیں جسے
بیضۂ گردوں سے پیدا ہنس کی منقار ہے
رحم ہے یہ اس صنم کے ہاتھ کا اے بخیہ گر
رشتۂ زنار، یاں بہر رفو درکار ہے
دیکھ کر بیمار کو میرے یہ کہتے ہیں طبیب
جو کہ مجنوں کو ہوا تھایہ وہی آزار ہے
مرحبا العشق تجھ کو عدل یوں ہی چاہیے
واہ ری انصاف پرور کیا تری سرکار ہے
(ق)
میں نے پوچھا آپ واقف ہیں دبیر
سن کے فرمایا کہ ہاںپر ایسا بد اطوار ہے
آنکھ اٹھا کر اس طرف دیکھا نہ میں نے آج تک
گو کہ اک مدت سے روز و شب پسِ دیوار ہے
(4)
پہنا جس دن سے اس نے مالاہے
چرخ میں ماہ نو نے ڈالاہ ے
رات بھر کچھ جلن سی رہتی ہے
دل ہے پہلو میں یا کہ چھالاہ ے
(ق)
کھلے ہاتھوں میں ہائے ری وہ زلف
چونکتا جس کو دیکھ کالا ہے
ہم سے پوچھو تو ہم یہی بولیں
سانپ ہے پر کسی کا پالاہ ے
بے وفائی کا تو اس کی دبیر
کس لیے ذکر یہ نکالا ہے
اس نے چاہا رکھا، رکھا نہ رکھا
دوستی کا یہاں قبالہ ہے
(5)
قاصد جو نامہ لے کے پھرا کوئے یار سے
رویا لپٹ کے خوب ہمارے مزار سے
جاری کفن میں اشک جو تھے چشم زار سے
رویالپٹ کے ابر ہمارے مزار سے
عارض پہ اس کی دیکھ خط سبز کی نمود
وصلی لکھی کسی نے تھی خط غبار سے
حیراں ہوں اس کے کشتۂ لوح جبیں کو دیکھ
آئینہ صاف کرتے ہیں جس کے غبار سے
واحسرتا رہی یہ تمنا، تمام عمر
اک دن دبیرکہہ کے پکارا نہ پیار سے
(6)
دل اس زلف کا جو دیوانہ ہوا ہے
تو پھر رات سے دردِ شانہ ہوا ہے
کسی کی کہیں زلف شاید کھلی ہے
جو تاریک سارا زمانہ ہوا ہے
عجب حسن دلکش ہے زلفوں کا اس کی
گرفتار جس کا زمانہ ہوا ہے
وہ ہنس ہنس کے کل مجھ سے یوں پوچھتا تھا
تجھے کیا ہوا کیوں دیوانہ ہواہے
یہ بے وقت دھوپ میں اس دوپہر کو 
کدھر سے دبیر آج آنا ہوا ہے
(7)
ہجر میں کس طرح سے جیتے ہم 
منھ ہمیں یار کو دکھانا تھا
اب تم آتے نہ یاں تو کیا کرتے 
کوئی باقی بھلا بہانا تھا
مفت میں غیر ہوگیا جو رنگ 
ہم پہ ہاتھ اس کو آزمانا تھا
اِس طرف منتیں تھیں زاری تھی
اُس طرف عذر تھا بہانا تھا
یاد وہ صحبتیں دلا نہ دبیر 
خواب تھا، وہم تھا، فسانہ تھا
آزردہ صاحب کے مطابق پہلی اور دوسری غزلیں مکمل ہیں۔تیسری غزل میں دو مطلعے تھے ،پہلی کو انھوں نے حذف کردیاہے۔چوتھی غزل میں نو اشعار تھے ، صرف چھے نقل کیے ہیں۔پانچویں غزل سات اشعار کی تھی انھوں نے صرف پانچ نقل کیے ہیں۔چھٹی غزل بھی پانچ اشعار سے زیادہ کی تھی۔ ساتویں کا مطلع انھیں نہیں ملا،غزل بھی پانچ اشعار سے زائد کی تھی۔اس کا ایک شعر یہ ہے   ؎
نہ پھو ل تھے،نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہے کہ دبستان لکھنؤ کی بیشتر شاعری میںدل کی بجائے ذہن، تصوف کے مقابلے عشق اور جذباتی خلوص وسنجیدگی کی جگہ شوخی و تصنع نے لے لی تھی۔ اسی طرح عام سی اصطلاحات، محاورات اور لفظی بازیگری نے غزل کی اقلیم سے اعلیٰ فکر اور بلند خیالات کو نکال باہر کیا تھا۔ دوسرے یہ کہ غزل میں قصیدے کے عناصر بھی شامل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے مضامین میں ایک نوع کی عمومیت اور فن میں بجائے فکرانگیزی کے صناعی لکھنؤ میں کہی جانے والی غزلوں کے واضح شناخت نامے طے پائے۔ سو ،کہنے کی اجازت دیجیے کہ لکھنؤکے اُس عہد کی غزلوں کا یہ عام اور نمایاں رنگ دبیر کی غزلوںمیں بھی جلوہ ریز ہے ۔دبیر کی ان غزلوں کا نہ تو دبیر کے مرثیوں سے تقابل کیا جانا چاہیے ،نہ ہی ان کی مرثیہ نگاری کے فنی معیار پر انھیں پرکھنے کی کوشش کودرست قرار دیاجاسکتاہے ۔یوں بھی دبیر کی تمام غزلیں تب کی ہیں جب دبیر کا شعور ابھی پختہ نہیں ہواتھا۔ یہ ان کی ادبی زندگی کا ابتدائی دور اور ان کی نومشقی کازمانہ تھا۔علاوہ ازیںان کی غزلوں میں فکری بالیدگی میں کسر رہ جانے کی ایک وجہ ان کا مذہب سے گہرا تعلق اور مرثیے سے ان کے گہرے قلبی لگاؤکو بھی قرار دینا چاہیے، جس کی وجہ سے وہ غزل گوئی پرویسی توجہ نہ دے سکے ،جو انھوں نے سلام اور مرثیوں کے لیے وقف کررکھی تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں ان کے نجی جذبات واحساسات اور ذاتی فکرو تصورات سے کہیں زیادہ ان کے عہد کی پیروی اور ان کے معاشرے کے اجتماعی مزاج کی نمائندگی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ بات بہر طور ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ دبیر کی غزلیں ان کے مرثیوں کے مقابلے میں کم مرتبہ سہی؛ غزل کے فنی معیار پرنہ صرف پوری اترتی ہیں بلکہ اپنے عہد کے غز ل گویوںمیںممتاز مقام رکھتی ہیں اور دبیر کی شخصیت کے ایک قدرے کم روشن پہلو کو منور اور ان کی شاعرانہ شخصیت کو مکمل کرتی ہیں۔
حواشی:
(1)         حیات دبیر، سید افضل حسین ثابت لکھنوی، سیوک اسٹیم پریس لاہور، 1913
(2)         خم خانہ جاوید،سری رام پرنٹنگ پریس، دہلی،1917                 (3)         دفتر ماتم، مطبع محمد تیغ بہادر لکھنؤ،1910
(4)         سرورسلطانی از رجب علی بیگ سرور،مرتبہ آغا سہیل،لاہور،1975         (5)         انتخاب مراثی مرزادبیر، لکھنؤ، 1979
(6)         سبع مثانی،مرتبہ سرفراز حسین خبیر ،لکھنؤ، 1349ھج                (7)         فکربلیغ،شادعظیم آبادی
(8)         نادرات مرزادبیر،مرتبہ ڈاکٹر سید صفدر حسین، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور
(9)         ماہنامہ ‘آجکل،دہلی،ستمبر،1978            (10)      مرزا سلامت علی دبیر، محمد زماں آزردہ
(11)      آب حیات،محمد حسین آزاد، اسرارکریمی پریس الٰہ آباد،1967

Abu Bakar Abbad
Department of Urdu
University of Delhi
Delhi - 110007
Phone: 9810532735
Email.: bakarabbad@yahoo.co.in

سہ ماہی فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں