سیتا ہرن —ایک مطالعہ
اسما مسعود
قرۃ العین حیدر
نے بیسویں صدی میں اردو ناول نگاری کو فکر اور فلسفے کی ایک نئی جہت سے روشناس
کیا۔ ان کے افسانے اور ناول ان کی ذہانت، فلسفیانہ تخیل ، عالمانہ با خبری اور
حساسیت کے علاوہ زندگی کی اخلاقی قدروں اور انسانی تہذیب سے ان کی وابستگی کا بین
ثبوت ہیں۔ تاریخی پس منظر میں انسانی تہذیب کی مرقّع نگاری نے قرۃ العین کے نظامِ
فن کو بڑی وسعت اور گہرائی دی ہے۔ انھیں ماضی سے خاص لگاؤ ہے لیکن وہ ماضی پرست
نہیں ہیں بلکہ زندگی کے منظر نامے پر ماضی اور حال کو یکجا کر دیتی ہیں تاکہ ماضی
کی روشنی میں حال کا جائزہ لیا جا سکے اور وقت اور تاریخ کے پس منظر میں مستقبل کی
تعمیر کا ایک بہتر تصور قائم ہو سکے۔ قرۃ العین حیدر کی عظمت یہ ہے کہ وہ انسانی
مسائل کو عالمی پس منظر میں پیش کرتی ہیں۔ ان کا ناولٹ ’’سیتا ہرن‘‘ تاریخی بصیرت
اور فنی صلاحیت کی بہت عمدہ مثال ہے۔ ’’سیتا ہرن‘‘ کا مرکزی کردار ڈاکٹر سیتا میر
چندانی ذہین ، حساس اور انٹلیکچوئل ہے۔ قرۃ العین حیدر نے سیتا کے کردار کے ذریعے
موجودہ تہذیبی انتشار اور نفسیاتی الجھنوں کو بہت خوبی سے ابھارا ہے۔ آسودگی کی
تلاش میں بھٹکتی ہوئی سیتا کا کردار پورے ناولٹ پر چھایاہوا ہے۔ روحانی آسودگی کی
تلاش میں نیپلز سے لے کر کولمبو، سندھ اور گنگ و جمن کے علاقے دو آبے تک بھٹکتی
ہے لیکن اس کی روح کو کہیں بھی سکون میسر نہیں آتا۔
تقسیم ہند کے
المیے نے سیتا اور اس کے خاندان کو اپنا گھر اور وطن[ سندھ] چھوڑ کر ہندوستان آنے
پر مجبور کر دیا۔ اپنی زمینی روایتوں اور جڑوں سے کٹ جانے کے باعث سیتا کی شخصیت ،
فکر اور اس کے احساسات مجروح ہو جاتے ہیں اور وہ ایک ذہنی الجھن سے دوچار ہو جاتی
ہے۔ وہ سیاسی اور تہذیبی انتشار کے باعث پریشان ہو کر ایک موقع پر کولمبوکے ایک
مشہور اخبار کے کالم نگار راما سوامی سے تمِلوں اور ہنسالیوں کے تصادم پر استفسار
کرتی ہے تو اسے جواب ملتا ہے —
’’تمھارے
یہاں جھگڑا کیوں ہوتا ہے؟ تم لوگ بھی ایک ملک کے باسی ہو۔ تم اور ہم دونوں سرمایہ
دار بورژوا سیاست کے شکار ہیں۔‘‘
[’’سیتا ہرن‘‘ مجموعہ ’’چار ناولٹ‘‘
ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑ ھ، ص۔227]
یہ تہذیبی اور
سیاسی انتشار آج کے انسان کا مقدر ہے جو دنیا میں ہر جگہ اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے۔
جس نے انسان کو شدید قسم کی تنہائی کا شکار بنا دیا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے آج کی
انسانی زندگی کے اس کرب کو بڑی شدت سے محسوس کیا ہے۔ برلن، ہانگ کانگ، اردن،
فلسطین، ہندوستان، پاکستان اور کولمبو کے ہزاروں لاکھوں مرد اور عورتوں کی طرح
سیتا بھی ہجرت کے المیے کا شکار ہوئی۔ جب وہ یہ کہتی ہے کہ —
’’اب
ہم وہ لوگ ہیں جن کا کوئی دیس اپنا نہیں‘‘
[سیتا ہرن، ص۔128]تو اس کی روح کے کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سیتا کے
کردار کے ارد گرد پوری کہانی گردش کرتی ہے ۔بظاہر سیتا کے ساتھ دوست احباب (شہزاد،
کامران، ہیما، للیتا، بلقیس اور حمیدہ) اور اس کے اعزہ و اقارب کا ایک بڑا حلقہ ہے
لیکن اس کی روح تنہا ہے۔وہ اپنی نیند میں اور روح کا سکون نیو یارک میں اپنے شوہر
اور اپنے بچے کے پاس چھوڑ آئی ہے۔ سیتا کی ایک غلطی کے سبب اس کے شوہر جمیل نے
اسے چھوڑ دیا۔ اپنے احساسِ جرم کا کرب اس کی روح کو بے چین رکھتا ہے۔ سگریہ کی 600
فٹ اونچی چٹان پر کھڑی ہو کر وہ لزلی مارشی سے کہتی ہے — ’’احساس ِ جرم سگریہ کی
چٹان کی طرح مہیب اور اٹل اور سیاہ اور خوفناک ہے۔‘‘
[سیتا ہرن، ص۔ 198]
اس کا معصوم
بیٹا راہل نیو یارک میں جمیل کے پاس ہے وہ اس کے لیے تڑپتی ہے۔ آسودگی کی تلاش
میں وہ قمر الاسلام ، لذتی مادشی، پروجیش کمار چودھری اور عرفان کی طرف بڑھتی ہے
لیکن جنھیں ساحل سمجھ کر وہ ان تک اپنی کشتی لے کر بڑھتی ہے حقیقت میں وہ تو ایسے
جزیرے ہیں جو وقت کے سمندر کی قید میں ہیں۔
سیتا سے غلطیاں
ہوتی ہیں لیکن اس کی مشرقیت اسے اس کی جڑوں کی طرف لوٹانے کی آرزو مند ہے۔ وہ
اپنے آبائی وطن سندھ میںجس طرح اپنی پرانی یادوں کو سمیٹتی ہے اور سیاسی جبر کے
ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں سے نکل جانے کے باجود جس آرزو مندی کے ساتھ وہیں لوٹ
جانا چاہتی ہے نیز اپنے شوہر سے جس خلوص دل کے ساتھ معافی مانگنا چاہتی ہے یہ تمام
باتیں سیتا کی مشرقیت کو ہی ظاہر کرتی ہیں۔ باجود اس کے کہ وہ Free thinker
ہے اور سیاسی اور سماجی محفلوں میں کھل کر بحثیں کرنے کے لیے مشہور ہے۔
راماین کے سیتا
ہرن کا واقعہ قرۃ العین حیدر کے ناولٹ میں آج کی سیتا کے روحانی کرب کی علامت بن
کر ابھرتا ہے۔ رام کی سیتا کو جب راون نے ہرا تھا تو اس نے مدد کے لیے رگھورائے کو
پکاراتھا اور اپنا دو پٹّا مدد کی آس میں پہاڑی پر بیٹھے ہوئے بندروں پر پھینک
دیا تھا لیکن آج کی سیتا جسے تہذیب ، سیاست اور فلسفے کے راون نے ہر لیا ہے مدد
کے لیے کسے پکارے؟’’ سیتا آج کی دنیا کے خوفناک جنگل میں کھو گئی ہے اس سیتا کو
آج کی دنیا کا راون اڑا لے گیا‘‘ ۔
[سیتا ہر ن، ص۔211]
ناولٹ کے آخری
حصے میں اس کی روح کا کرب اسے اس دنیا میں لے جاتا ہے جہاں اس کا کوئی رفیق اور
مونس و غمخوار نہیں۔ وہ اکیلی رہ گئی ہے۔ جمیل کے دوبارہ نہ اپنانے پر وہ اس سے
طلاق کا انتظار کرتی رہی تاکہ عرفان سے شادی کر کے اور ایک مقدس اور خوبصورت رشتے
میں بندھ کر سکون حاصل کر سکے لیکن جب وہ جمیل کا طلاق نامہ لے کر بڑی امید کے
ساتھ عرفان کے پاس لندن جاتی ہے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ عرفان نے شادی کر لی تھی۔
یہاں سیتا میر چندانی کا المیہ اپنی پوری شدت سے ابھرتا ہے :
’’کون........؟‘‘
’’میں
........مادام عرفان ہوں ........‘‘
’’جی
........؟ مادام عرفان ؟‘‘اجنبی نے جو ایک ادھیڑ عمر کا فرانسیسی تھا کواڑ سے
آدھا باہر نکل کر اسے غور سے دیکھا۔ ’’آپ کو یقین ہے کہ آپ مادام عرفان ہیں؟‘‘
’’جی
ہاں........کیوں........؟ کیا مطلب؟ غصے اور شرم اور خفّت سے اس کی ٹانگیں کانپنے
لگیں۔
مگر موسیو عرفان
تو کل ہی صبح مادام عرفان کے ساتھ دو مہینے کی رخصت پر کراچی گئے ہیں۔ اتنے عرصے
کے لیے اپنا فلیٹ مجھے دے گئے ہیں۔‘‘
[سیتا ہرن، ص۔ 255]
یہاں سیتا کا
المیہ اس کی بے بسی اور روح کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے قرۃ العین
حیدر عظیم الشان انسانی تہذیب کی مرقع
نگار ہیں۔ ’’سیتا ہرن‘‘ میںوہ جس طرح قدیم ہندو تہذیب اور سندھ کی تاریخ و تہذیب
کے نقشے کھینچتی ہیں یا سنہالی تاریخ و تمدن کو پیش کرتی ہیں اس سے ان کے مشاہدے
اور علم کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے اور ’’سیتا ہرن‘‘ سیتا کی بے قرار روح کی کہانی
سنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں انسانی تاریخ و تمدن سے بھی روشناس کراتا ہے۔
’’کینڈی
کے مشہور و معروف دانت کے مندر میں شام کی پوجا ہو رہی تھی۔ اس سے ملا ہوا کینڈی
کے آخری بادشاہ وکرم راج سنگھ کا چھوٹا سا چوبی محل سنسان پڑا تھا۔ لزلی اس کے
دیواروں کے نقش و نگار انگلیوں سے چھو کر دیکھتا رہا۔ اس بادشاہ کو 1815 میں
انگریزوں نے شکست دے کر لنکا پر قبضہ کر لیا تھا۔ سیتا کو یاد آیا اس نے کولمبو
میوزیم میں سر وکرم راج سنگھ کی رانی کا اطلسی بلاؤ ز ایک شو کیس میں رکھا دیکھا
تھا جس کے شانے پر خون کا مدھم سا دھبہ تھا۔ بلاؤز کے نیچے ایک پرچی پر لکھا تھا
’’کینڈی کو تاراج کرنے کے بعد محل پر حملہ کرتے ہوئے برطانوی سپاہیوں نے مسا رانی
کے کانوں سے دو بالیاں نوچی تھیں یہ اس کا خون ہے۔‘‘
[سیتا ہرن ، ص۔ 202]
سیتا اپنے
تہذیبی آثار کی تلاش میں سندھ جاتی ہے تو عرفان کو سندھ کی تاریخ و تہذیب سے واقف
کراتے ہوئے کہتی ہے:
’’یہ
سامنے جو سندھ بہہ رہا ہے ہمارے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس کے پچھم میں جہاں چاند
ڈوبتا ہے موت کا دیس ہے اور ہر سندھی جو مرتا ہے اس گؤ ماتا پر جو اس نے زندگی
میں برہمنوںکو دان کی —اس کی دم سے چمٹا ہوا اس دریا پر سے گزر جائے گا۔ بھادوں کی
پورن ماشی میں اس کی آتما اس ناؤ پر سوار ہو کر واپس آتی ہے جو اس کے گھر والے
پور نماشی سے دو روز پہلے سندھ دریا میں چھوڑ دیتے تھے۔ چیت کے مہینے میں بڑا
بھاری میلا ہوتا تھا۔ در اصل ہمارا سب سے بڑا خدا یہی دریا تھا کیونکہ ریگستان میں
بہتا تھا۔ جس طرح پراچین مصر والے نیل کو دیوتا مانتے تھے اسی سکھر میں مچھلی کی
پیٹھ پر سوار دریا دیوتا کا مندر تھا۔ اسی کو مسلمان دریا پیر اور خواجہ خضر کہتے
تھے۔ جنوبی پنجاب کے ہندو اسے دریا صاحب کہتے تھے۔‘‘
[سیتا ہرن، ص۔134-135]
جس طرح قدیم
ہندو تہذیب کبھی تلسی کی ’’راماین ‘‘کے دوہوں میں کبھی ’’پدماوت‘‘ کے ’’سنگھل دیپ کھنڈ‘‘ میں اور کبھی قدیم ڈرامے
’’مدر ا راکشش‘‘ کے صفحات پر ہمارے سامنے آتی ہے اسی طرح تاریخ و تمدن کی مرقع
نگاری قرۃ العین حیدر کا فنی امتیاز ہے۔ ان کے ناول اور ناولٹ ہمارا اہم تہذیبی
سرمایہ ہیں۔
مختصر طور پر
کہا جا سکتا ہے کہ ’’سیتا ہرن‘‘ ایک بہترین تمدنی مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ آج کی
عورت کی بے راہ روی اور بے بسی دونوں کا مؤثر اظہار ہے۔ زمانے کے حالات اسے پیڑ
سے ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح طوفانی لہروں پر بہاتے رہے اور وہ آخری لمحے تک طوفان کے
طمانچے کھاتی رہی۔
پتہ:
اسما مسعود
Deptt. of Urdu [CSSH]
Mohanlal Sukhadiya University
Udaipur - 313001
سہ ماہی ’ فکر و
تحقیق، جنوری تا مارچ 2008
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں