1/6/20

قرۃ العین حیدر— تخلیق اور نیا ویژن مضمون نگار: دیویندر اسرّ



قرۃ العین حیدر تخلیق اور نیا ویژن
دیویندر اسرّ
’’آخر کار وہ خوبصورت ویژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے۔ زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کی تندرو آندھیوں کے سامنے کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان ہماری طرف لوٹو... اس ویژن کی طرف۔‘‘
                                                          [قرۃ العین حیدر]
موجودہ دور میں انسان اقدار کے جس زوال اور تہذیب کے خلفشار سے گزر رہا ہے قرۃ العین حیدر کی تخلیقات نہ صرف فردوس گم گشتہ کی داستانیں رقم کرتی ہیں بلکہ جنت موعودہ کے ویژن کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جس کے بغیر ہمارے عہد کا امکان روحانی خلا اور وجودی تنہائی میں معلق ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ مسلسل یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ کیا تبدیلی کے عمل، اس کے اجزائے ترکیبی، اس کی رفتار اور سمت کے ادراک کے بغیر یہ ممکن ہے کہ ہم گم شدہ جنت کو پھر سے حاصل کر سکیں۔ شاید یہی باعث ہے کہ  قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں جلاوطنی اور بے گھری کچھ اس طرح حاوی ہے کہ ہم اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ تہذیب کے زوال کی نوحہ خواں نہیں بلکہ تبدیلی کے عمل کو سمجھنے پر زور دے رہی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں میں اس کٹھن ڈگر کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جس پر چل کر ہی ہم زندگی اور ویژن کی جانب لوٹ سکتے ہیں۔
تہذیب کا المیہ:
ہماری بے معنی ہونے کی جدید صورت حال انسان کی بنیادی اقدار کے زوال کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ ہمارا اپنی قریبی دنیا سے کوئی ذاتی رشتہ نہیں رہ گیا۔ بقول زاہد حسن آج دنیا میری گرفت سے پھسل رہی ہے / میں ایک مسلسل روحانی عذاب میں مبتلا ہوں۔ تہذیب کا المیہ صرف یہ نہیں کہ جس تہذیب میں ہماری پرورش ہوئی ہے وہ اوراق پارینہ بن کر رہ گئی ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ خواب بھی ختم ہو گئے ہیں جس کے بغیر نوعِ انسانی زندگی بخش ویژن سے محروم ہو گئی ہے۔’’ہاؤسنگ سوسائٹی ‘‘میں   جمشید بھائی سلمیٰ مرزا کو اپنے خط میں لکھتا ہے:
’’آپ کو معلوم ہو چکا ہوگا دنیا بڑی ذلیل جگہ ہے۔ میں بھی دنیا کا ایک فرد ہوں۔ آپ کے بھائی نے دنیا سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اور امید ہے کہ بہت جلد اسے معلوم ہو جائے گا یا شاید معلوم ہو چکا ہو کہ اس کے تجزیے، اس کی انتہا پسندی اور آئیڈ یلزم قطعاً غلط ہیں۔ آپ نے اپنے حالات اور اپنی مجبوریوں کے تحت میرے ذریعے دنیا سے ایک حد تک سمجھوتہ کر لیا ہے۔ جس طرح ثریا نے میرے ذریعے دنیاسے سمجھوتہ کر کے سورج کے نیچے اپنی جگہ بنالی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قطعی فیصلہ کرنے سے قبل اسے شدید ذہنی کشکمش کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ مگر اسے معلوم ہو چکا ہے اور آپ بھی دیکھ چکی ہیں کہ آج کی دنیا ایک بہت عظیم الشان بلیک مارکیٹ ہے جس میں ذہنوں ، دماغوں، دلوں اور روحوں کی اعلیٰ پیمانے پر خرید و فروخت ہو گئی ہے۔ بڑے بڑے فن کار، دانشور، عینیت پسند، خدا پرست میں نے اس چور بازار میںبکتے دیکھے ہیں۔ میں خود ان کی خرید وفروخت کرتا ہوں‘‘۔
’’میں یہ سب باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ ذہنی طور پر بڑی ہو جائیں۔ اور زندگی کی طرف سے کسی قسم کے مزید الوژن اور خوش فہمیاں آپ کے دل میں باقی نہ رہیں۔ ورنہ آپ کو مرتے دم تک مزید صدمے اٹھانے پڑیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ زندگی سے خوف زدہ ہونا چھوڑ دیں اور زندگی کے مکرو فریب اور ریاکاری اور کمینے پن کا الٹی ہتھیاروں سے مقابلہ کریں۔ دنیا میں زیادہ تر انسان جنگل کے درندے ہیں اور ہمیں جنگل کے قانون کا ساتھ دینا ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ موجودہ ملازمت سے کس قدر دہشت زدہ تھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ زندگی کی دہشت پر جلد از جلد قابو پالیں۔‘‘
اس اقتباس پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ ان سطروںکو پڑھتے ہوئے مجھے اسّی سے زائد برس قبل شائع ہوتی ٹی.ایس.ایلیٹ کی طویل نظم ’’دی ویسٹ لینڈ‘‘ کی یاد آ رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی تہذیب کی بنجر زمین میں داخل ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن زاہد حسن کی نظم کے اگلے حصے کو دہرایا جا سکتا ہے۔
 ’’سوچتا ہوں/جس سیارے کی جانب سفر کر رہا ہوں / اس کے آگے دھند، دھوئیں اور غبار کا ایک دبینر پردہ پڑا ہوا ہے۔‘‘

جلاوطنی کا المیہ :
’’پھر اس نے کہا :دراصل سیتا میر چندانی تم مجھے بے حدغیر جذباتی سمجھتی ہو۔ مگر جلاوطنی کا مسئلہ مجھے بھی بے حد پریشان کر تا ہے۔ مغربی برلن میں، ہانگ کانگ میں ہر جگہ میں نے پناہ گزینوں کو دیکھا ہے۔ امریکن شہروں میں، مشرقی یوروپ سے بھاگتے ہوئے لوگوں سے ملا ہوں۔ جارڈن میں میں نے فلسطین کے مہاجروں کی حالت دیکھی ہے۔ اور کہیں جو بات بات پر تم سے الجھتا ہوں اور تمھاری ہر بات مذاق میں ٹالنا چاہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جس میں چالیس کروڑ انسانوں کی نفسیات یکسر بدل گئی ہے۔ ان کے خیالات، نظریے، جذبات ، ردعمل…‘‘
                                                     [سیتا ہرن، میں عرفان]
’’آفتاب بہادر تم کو پتہ ہے کہ میری کیسی جلاوطنی کی زندگی ہے۔ ذہنی طمانیت اور مکمل مسرت کی دنیا جو ہو سکتی ہے اس سے دیس نکالا جو مجھے ملا ہے اسے بھی اتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ اب کہیں اپنے متعلق سوچ ہی نہیں سکتی۔‘‘
                                                 [جلاوطن ،میں کنول کماری]
جلاوطنی محض زمین سے نہیں ہوتی ذہن سے بھی ہوتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کی تحریریں ہمیںاس زمینی اور ذہنی جلاوطنی سے آشنا کرتی ہیں جو عہدِ حاضر کے امکان کی مشیت بن چکی ہیں۔ ٹکراؤ محض ملکی اور غیر ملکی تہذیبوں کے مابین ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی ملک میں دو مختلف تہذیبوں یا ایک ہی تہذیب کے تغیر میں بھی ہوتا ہے۔
تہذیب جب بدلتی ہے تو اقدار بھی بدل جاتی ہیں اور انسان کے ذہن میں تلاطم برپا ہو جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے حقیقت کے ادراک کو یکسر بدل دیا ہے جس کے باعث ترقی پسند حقیقت نگاری بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ انھوں نے حقیقت کے تصور کو نئے معنی اور سیاق و سباق عطا کیے ہیں۔ شاید انھوں نے وقت کا نیا تصور پیش کیا ہے۔ اسی لیے ہمیں ماضی، روایت ،تاریخ، جڑوں کی تلاش اور تشخص کے مسائل پر نئے انداز سے سوچنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے :
’’وقت کے پیٹرن میں طلعت جہان بیٹھی تھی وہی طلعت اسی پیٹرن میں ایک جگہ اور موجود تھی اور دونوں لفظوں کے درمیان برسوں کا فاصلہ تھا۔ اوہ اس فاصلہ پر انسان صرف آگے کی طرف چل سکتا ہے، آگے اور آگے۔ پیچھے جانا ممکن نہ تھا، گوہزاروں طلعتیں ان گنت ٹکڑوں میں ایک ہی چہرے کے مختلف عکس نظر آتے ہیں۔‘‘
                                                            [آگ کا دریا]
انسانوں کے مابین فاصلے کتنے بھی بڑھتے جائیں، لیکن زندگی کے ہر موڑ پر ایک طلعت بیٹھی ہوئی مل جائے گی، کیا ہم ایک ہی چہرے کے مختلف عکس نہیں۔ اس سوال کا جواب ہی انسان کے مستقبل کی ضمانت ہے۔
یادیں:
یہ صحیح ہے کہ ماضی کے مرگھٹ پر مستقبل کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ تسلسل اور تواتر تاریخ کا ہی نہیں زندگی کا بھی مسئلہ ہے۔ کبھی میلان کند یرانے کہا تھا کہ جبر کے خلاف جد و جہد در حقیقت یادوں کے فنا کے خلاف جہاد ہے۔ ایک فسطائی نظام کی سب سے بڑے خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کس طرح انسان کی یادوں کو مٹا دے۔ کیونکہ اسے مٹا کر ہی وہ اپنے فریب و مکر کے جال کو پھیلا سکتا ہے ۔قرۃ العین حیدر کی تخلیقات قارئین کو اجتماعی نسیان کے خطرے سے مسلسل آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ شاید اسی لیے انھوں نے گھر اور وطن کے تصور پر گہرائی سے غور کیا ہے۔ وہ بار بار نوعِ انسانی کے اجتماعی لاشعور کی جانب لوٹتی ہیں، ازلی      گھر کی جانب: 
’’یہ ہندوستان کیا تھا اس کا شعوری طور پر اس نے کبھی تجزیہ نہیں کیا۔ بچپن سے وہ ہندوستان کا عادی تھا جہاں اس کے پر کھے آٹھ سو سال سے پیدا ہوتے آئے تھے۔ ہندوستان بستی ضلع کا وہ مٹھ تھا جہاں میں اپنے بابا کے ساتھ گیا تھا۔ ہندوستان اٹاوہ کی کائی آلودہ درگاہ تھی… ہندوستان قدیر ڈرائیور کی ماں تھی، ہندوستان بوڑھا حاجی بشارت حسین خانساماں تھا… یہ ماتا کے سامنے ہاتھ جوڑنے والا مسلمان بوڑھا ہندوستان تھا، اس کے علاوہ اس کی ماں اور خالائیں اور گھر کی دوسری بیبیاں ہندوستان تھیں۔ ان کی آپس کی بول چال، محاورے، گیت، رسمیں اور پرانی کہانیاںجو مغلانیاںسناتی تھیں... ہندو پرانوں اور دیو مالا کے قصے، مسلمان اولیا کے قصے... یہ سب کمال کی ذہنی بیک گراؤنڈ تھی۔‘‘
                                                           [آگ کا دریا]
لیکن جوں جوں نئی نسلیں جوان ہوتی جائیں گی، ہندوستان کا تصور مٹتا چلا جائے گا۔ آگ کا دریا میں کمال اپنے بابا سے پوچھتا ہے:’’کربلا ہجرت کی جیے گا یا پا کستان؟ میں یہیں رہوں گا۔ انھوں نے اطمینان سے جواب دیا۔‘‘ اس پر کمال کا یہ رد عمل: ’’... میں اپنے والد کا نقطۂ نظر سمجھتا ہوں۔ مجھے صرف اس کا افسوس ہے کہ اس سر زمین میں ان کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ترک وطن کر کے سندھ اور بلوچستان کو اپنا ملک کیسے سمجھیں؟ بابا بوڑھے آدمی ہیں۔‘‘
تقسیم کا المیہ :
تقسیم کے المیے اور انسان کے بکھراؤ، ذہنی اور زمینی کے بارے میں نہ جانے کتنی کہانیاں اور ناول لکھے گئے ہیں لیکن جو مقبولیت ’’آگ کا دریا‘‘ کو ملی شاید ہی کسی دوسرے ناول کو ملی ہو :
’’سات دنوں میں صدیوں کا سفر ختم ہو گیا۔ ہندوستان کا تصور بکھر گیا۔ اگر بکھراؤ کی مختلف صورتوں کو کسی ایک تاریخی سانحے کے حوالے سے دیکھنا ہو تو وہ ہے تقسیم……
یہ تقسیم شدہ دنیا ہے۔ ملک ، انسان، نظریے، روحیں، ایمان، ضمیر، ہر شے تلواروں سے کاٹ کاٹ کر تقسیم کر دی گئی ہے۔ یہاں ہر طرف سرحدیں ہیں۔ تقسیم شدہ دنیا میں ہم ایک دوسرے سے سرحدوں پر ہی مل سکتے ہیں۔‘‘
                                        [’’آگ کا دریا‘‘، گو تم روشن آرا سے]
’’افسانہ ’’جلاوطن ‘‘میں کشوری کے یہ الفاظ ہمیں اکثر یاد آتے ہیں۔’’ہم اپنے بد قسمت ملک کی وہ نوجوان نسل ہیں جو یوروپ کی جنگ اور اپنے سیاسی انتشار کے زمانے میں پروان چڑھی۔ اسی خانہ جنگی کے دور نے اس کی ذہنی تربیت کی اور اب اس ہولناک سرد لڑائی کے محاذ پر اسے اپنے اور دنیا کے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔‘‘
ہومی بھا بھا نے اپنی کتاب ’’دی لوکیشن آف کلچر ‘‘میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے ... ہم ان لوگوں میں سے بہتوںنے تاریخ کی سزا بھگتی ہے۔ غلامی، غلبہ، بکھراؤ (Diaspora) بے مکانی، زندہ رہتے اور سوچنے کے دیر پا سبق سیکھتے ہیں۔‘‘
قرۃ العین حیدر کی تحریر یں ہمیں یہ سبق بار بار از بر کراتی ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ ان کی تحریریں پڑھتے ہیں وہ بھی شاید یہ ’دیرپا سبق‘ نہیں سیکھتے۔ ہم اس امر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم سب اپنے ماحول، اپنے ماضی، اپنے تہذیبی ورثے، یادوں اور اجتماعی لاشعور کے پالے ہوئے ہیں۔ ہمارا کردار اور ہماری شخصیت، ایک سنجیدہ جامد ٹھہرا ہوا، لمحہ یا نقطہ نہیں بلکہ مسلسل رواں دواں ندی ہے جس پر پل باندھنے کی ضرورت ہے تاکہ جو کشتیاں موجود بھی ہیں ان کو جلانے کی۔ گم شدہ یادوں، نا آسودہ حسرتوں، ناکام تمناؤں، شکستہ آرزوؤں اور پامال امیدوں کے مرگھٹ سے پرے، ذاتی محرومیوں اور اجتماعی شکست و ریخت سے گزرتے ہوئے ہمیں گردش رنگ چمن کا شعور حاصل کرنا ہوگا اور سننی ہوگی پت جھڑ کی آواز ...
                                             [گردش رنگ چمن، پت جھڑ کی آواز]
میں نے اپنے کالج کے زمانے میں قرۃ العین حیدر کی کتاب’’ ستاروں سے آگے‘‘ پڑھی تھی اور تمام ترقی پسند نوجوانوں کی مانند اسے بالائی طبقے کی ایک بگڑی ہوئی لڑکی کے افسانے سمجھ کر رد کر دیا تھا لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ پوم پوم ڈارلنگ ایک دن ہمیں’’ آگ کا دریا ‘‘میں ڈوب کے جانے کے لیے مجبور کر دے گی۔ کبھی آسولڈ اشپنگلر، نے مغرب کے زوال کی خبر دی تھی اور کہا تھا :
’’ہر تہذیب کی زندگی میں ایک ایسا مقام آتا ہے جب اس کے اندر کی سب چیزیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ داخلی نشو و نما بند ہو جاتی ہے اور تہذیب کے تحفظ کے لیے خارجی ترقی ہی ایک راستہ رہ جاتا ہے۔‘‘
جب فرانز کا فکا نے اپنا ناول ’’دی ٹرائسل‘‘ اپنے دوستوں کو پڑھ کر سنایا تو وہ ہنس دیے تھے۔ آج بھی شاید کچھ لوگوں کو قرۃ العین حیدر کی صوفیوں کی پیروی ایک پسماندہ سوچ نظر آئے لیکن ہمیں اس عہد کے ان لوگوں کی بات بھی سننی پڑے گی جو روحانیت کو ایک پسماندہ فکر نہیں سمجھتے۔ مغرب میں بھی وہ لوگ جو ٹیکنا لوجی کو یکسر ترک نہیں کر سکتے اب اسے روحانی تجربے کے دائرے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’’بدھ ایشور کا اوتار، ڈجی ٹل کمپیوٹر کے سرکٹس یا سائیکل ٹرانس میشن کے گیرز میں اتنے ہی آرام سے بسیرا کرتا ہے جتنے آرام سے وہ کسی پربت یا کسی پھول کی پتیوں پر بسیرا کرتا ہے۔‘‘ Rohat Pirzigi Zen and the Art of Motor Cycle Maintenance (1934) سعادت حسن منٹو جیسے حقیقت نگار نے بھی یہ محسوس کیا: ’’روحانیت یقینا ‘‘ کوئی چیز ہے... انسان کا جو مرتبہ ہے اگر ان کو ذہن نشین ہو جائے گا تو میں سمجھتا ہوں اپنی لغزشوں سے آگاہ ہو جائیں گے اور روحانی غسل سے شفایاب ہو ں گے۔‘‘اس لیے خارجی ترقی ہی انسان کے تحفظ کا ایک ہی راستہ نہیں ہے، راستے اور بھی ہیں۔
آخر میں
قرۃ العین حیدر نے ہمارے سامنے اتنے را ستے وا کر دیے ہیں کہ کئی بار ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ کس راستے پر چل کر ہم منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہیں۔ شاید یہ ہماری وجود ی مشیت ہے— انتخاب کی آزادی اور ذمے داری اور آزادی کا بوجھ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بغیر انسان عہدِ حاضر کی رزمِ خیرو شر کے روبرو کامیاب ہو کر سرخرو ہو سکتا ہے۔ شاید اس کے لیے اس ویژن کی ضرورت ہے جس کی جانب قرۃ العین حیدر کی تخلیقات اشارہ کرتی ہیں اور جس کی جانب ہمیں لوٹنا ہوگا۔

پتہ:
دیویندر اسرّ
B-3/153, janakpuri
New Delhi - 110058

سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2008

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں