1/6/20

قرۃ العین حیدر کے چند افسانے مضمون نگار: افسر کاظمی




قرۃ العین حیدر کے چند افسانے
افسر کاظمی
قرۃ العین حیدر کے والدین سجاد حیدر یلدرم اور نذر حیدر اپنے وقت کے مستند قلم کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ نذر سجاد نے بہت سے افسانے اور ناول تصنیف کیے جو خواتین میں زیادہ مقبول ہوئے۔  سجاد حیدر یلدرم نے پہلی بار اردو قارئین کو ترکی ادب سے روشناس کرایا۔ انھوں نے تر کی ناولوں اور افسانوں کو اردو قالب عطا کیا۔ پھر خود بھی کئی افسانے اور انشائیے لکھے۔ ابتدائی دور کے ادیبوں میں ان کی حیثیت ایک صاحب طرز نثر نگار کی ہے۔ انھی کے گھر میں قرۃ العین حیدر کی پیدائش 1927 میں ہوئی۔
تخلیقی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے اوائل عمر سے ہی قرۃ العین حیدر میں لکھنے کا رجحان تھا۔1945 میں جب ان کی عمر 18 سال تھی  ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں ’’ستاروں سے آگے‘‘، ’’رقص شرر‘‘، اور ’’جہاں کا رواں ٹھہرا تھا‘‘ جیسے افسانوں نے توجہ حاصل کی۔ آج بھی جدیدافسانوں پر گفتگو کرتے وقت یہ افسانے زیر بحث آتے ہیں۔ اس مجموعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشہور ناقد محمود ہاشمی نے لکھا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ الفاظ اور اشیا کے درمیان ایک علامتی وحدت کو تخلیق کرنے کا رویہ قرۃ العین حیدر نے بہت پہلے اختیار کیا۔ قرۃ العین حیدر کے اس مجموعے کو ہم جدید افسانے کا نقطۂ آغاز تصور کر سکتے ہیں۔ اس مجموعے کے افسانے اردو میں پہلی باراس ریاضیاتی یا Cartesian منطق کو توڑتے ہیں جو واقعات اور کرداروں کو خطِ مستقیم میں سفر کرنے پر مجبور کرتی تھی اور جس کا مقصد بیانیہ طرز کا احوال تھا۔‘‘
                                   [اردو افسانہ روایت اور مسائل، ص۔437]
قرۃ العین حیدرکا دوسرا افسانوی مجموعہ 1954 میں ’’شیشے کے گھر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان دنوں وہ پاکستان میں مقیم تھیں۔آزادی اور قیام پاکستان کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ یہ ایک  تشکیلی اور عبوری دور تھا۔ بر صغیر کی تاریخ کا سب سے صبر آزما دور۔پرانے سانچے ٹوٹ رہے تھے اور نئے سانچے وجود پذیر ہو رہے تھے۔ بہت سارے خیالات و نظریات رخصت ہو چکے تھے اور نئے نئے میلانات اپنی جگہ بنا رہے تھے۔ایک طرف پرانی  بنیادوں کی شکست و ریخت ہو رہی تھی تو دوسری طرف کچھ نئی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ اس دوران قرۃ العین حیدرکے تین ناول بھی منظر عام پر آ چکے تھے۔ پہلا ناول ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ 1947 میں شائع ہو گیا تھا۔ دوسرا ناول ’’سفینۂ غم دل‘‘1951 میں شائع ہوا۔ 1959 میں ان کا شاہکار ناول ’’آگ کا دریا‘‘ منظر عام پر آیا۔ اسی ناول نے اردو میں ’شعور کی رو‘، کو ایک تخلیقی حربے کی صورت میں قائم کیا۔
’’شیشے کے گھر‘‘ میں قرۃ العین حیدر کے درج ذیل افسانے شامل ہیں جنھوں نے یہ طور افسانہ نگار ان کی اہمیت کا احساس کرایا…جب طوفان گزر چکا، سر راہے، آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا، میں نے لاکھوں کے بول سہے، برفباری سے پہلے، کیکٹس لینڈ، یہ داغ داغ اجالا، جہاں پھول کھلتے ہیں، دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم، انت بھئے رت بسنت میرو، لندن لیٹر اور جلاوطن۔
ان افسانوں میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ ان میں کہیں نہ کہیں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا موضوع واضح یا پوشیدہ طور پر موجود ہے۔ یہ افسانے سماج کے عام لوگوں کے بجائے اعلیٰ طبقے کی زندگی سے متعلق ہیں۔ ان میں لکھنؤ، مسوری، نینی تال وغیرہ مقامات پر گزارے ہوئے لمحے بار بار سامنے آتے ہیں۔ بیشتر افسانوں میں خود افسانہ نگار بھی موجود ہے۔ کہیں ’’میں‘‘ کی شکل میں اور کہیں    قرۃ العین حیدر کی شکل میں (مثال کے طور پر لندن لیٹرـ ، میں) اور کہیں ایک فرضی نام کے پردے میں۔( مثلاً ’’میں نے لاکھوں کے بول سہے‘‘، میں نین تارا کی شکل میں )۔
قرۃ العین حیدر کے ادبی مزاج کی تخلیق میں کئی عوامل کار فرما رہے۔ باپ کی تربیت ، ماں کی تحریروںسے بچپن سے ہی تعارف اور انگریزی ادب کے مطالعے نے ان کو لکھنے کی طرف مائل کیا۔ ان کے زمانے کے کچھ اور اہلِ قلم مثلاً کرشن چندر، نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری وغیرہ نے بھی ان کو متاثر کیا۔ ’’شیشے کے گھر‘‘ کے کئی افسانے اس رومانی لب و لہجے کی نشاندہی کرتے ہیں جو ان افسانہ نگاروں کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس سلسلے میںجب طوفان گزر چکا، سر راہے آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا، میں نے لاکھوں کے بول سہے ،جہاں پھول کھلتے ہیں اور برف باری سے پہلے وغیرہ افسانے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں بھر پور رومانیت ہے جو رفتہ رفتہ قرۃ العین حیدر کے افسانوں سے کم ہوتی گئی۔ شاید اس کی وجہ مغربی ادب کے اثرات رہے ہوں۔
’’لندن لیٹر‘‘ کا آغاز بڑے غیر روایتی انداز سے ہوا ہے بلکہ اسے ایک تجربہ قراردینا چاہیے۔ اس میں لندن سے لکھے گئے ایک خط سے قبل ایک طویل بلکہ خط کے برابر تمہید دیباچے کے عنوان سے شامل ہے۔ اس کے بعد خط درج کیا گیا ہے۔ دیباچے میںہلکے پھلکے انشائیہ نما انداز میں بیرون ممالک لکھے گئے پاکستانی /ہندوستانی نامہ نگاروں کے خطوں کی پیروڈی کر کے ان کی ذہنیت اور انداز فکر کی ایک جھلک پیش کی ہے۔
اس مجموعے کا ایک اہم افسانہ ’’جلا وطن‘‘ ہے جو لگ بھگ ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔اس مجموعے کے زیادہ تر افسانے طویل ہیں۔ یہ افسانہ بنیادی طور پر اس مشترکہ تہذیب و ثقافت کا المیہ ہے جو قیام پاکستان اور تقسیم ہند سے پارہ پارہ ہو گیا۔ اس کے بیسوں کرداروں میں سے چار اہم ہیں کھیم  ( کھیم وتی رائے زادہ) اس کی سہیلی کشوری (کشور آرا بیگم) کھیم کے ماموں (ڈاکٹر آفتاب رائے) اور ان کی محبوبہ( کنول رانی)۔
افسانے کا ماحول یو.پی. کے کسی قصبے کا ہے اور دور 1947 کے کچھ قبل سے لے کر آزادی کے بعد تک کا احاطہ کرتا ہے۔ اس دور کے گنگا جمنی معاشرے کی تفصیل قرۃ العین حیدر اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی واضح فرق نہ تھا خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساڑیاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ میں بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساڑی کے بجائے کھڑے پائچوں کا پائجامہ پہنتیں۔ ہندوؤں کے یہاں اسے ’اجار ‘ کہا جاتا ۔ مشغلوں کی تقسیم بڑی دلچسپ تھی۔ پولس کا عملہ اسّی فیصد مسلمان تھا۔ محکمۂ تعلیم میں ان کی اتنی ہی کمی تھی۔ تجارت تو خیر مسلمان بھائی نے کبھی ڈھنگ سے کرنے نہ دی۔چند پیشے مگر خاص مسلمانوں کے تھے جن کے دم سے صوبے کی مشہور صنعتیں قائم تھیں۔ لیکن خدا کے فضل سے کچھ ایسا مضبوط نظام تھا کہ سارا منافع تو بازار تک پہنچاتے پہنچاتے مڈل مین ہی مارے جاتا اور جو بھائی کے پاس بچتا تھا اس میں قرضے چکانے تھے، بیٹا کا جہیز بنانا تھا اور ہزاروں قصے تھے۔ آپ جانیے۔‘‘
                                                [شیشے کے گھر ،ص۔409]
کسی افسانے کے درمیان ایسے طویل بیانات افسانے کی رفتار کو توڑتے اور اسے قصے اور پلاٹ سے دور لے جاتے ہیں لیکن قرۃ العین حیدر اسے کس طرح افسانے کا حصہ بنا لیتی ہیں یہ بھی قابلِ غور ہے۔ اس افسانے کا اختتام کرسمس کے جلوس پر ہوتا ہے جس کے دیکھنے کو سب لوگ راستے پر کھڑے ہیں۔ یہ چاروں بھی الگ الگ یہاں موجود ہیں۔ افسانے کی اختتامی سطریں اس طرح ہیں :
’’کنول رانی‘‘ —کسی نے اندھیرے میں یک لخت پہچان کر چپکے سے پکارا۔’’ یہاں آجاؤ‘‘ اور ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر اس خوبصورت روشنی کو دیکھو جو آسمان پر پھیل رہی ہے۔ اب کسی پچھتاوے کسی افسوس کا وقت نہیں ہے۔‘‘
’’پرانے عہدنامے منسوخ ہوئے‘‘۔ کشوری نے آہستہ سے دہرایا۔ ’’ہم اس طرح زندہ نہ رہیں گے۔ ہم یوں اپنے آپ کو مرنے نہ دیں گے۔ ہماری جلاوطنی ختم ہوئی۔ ہمارے سامنے آج کی صبح ہے مستقبل ہے، ساری دنیا کی نئی تخلیق ہے لیکن کنول کماری تم اب بھی رو رہی ہو؟‘‘
یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ خود قرۃ العین حیدر نے دس بارہ سال کا عرصہ پاکستان میں گزارا اور ان کے لیے یہ بھی ایک قسم کی جلاوطنی تھی۔ 1960 میں وہ ہندوستان واپس آ گئیں۔ 1964 میں ان کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ کے نام سے آیا۔ اس مجموعے کے افسانے ’’شیشے کے گھر‘‘ کے افسانوں سے کئی اعتبار سے قدرے مختلف ہیں۔ ان میں وہ موضوعاتی اور ماحولیاتی یکسانیت نہیں ہے جو’’شیشے کے گھر‘‘ کے افسانوں میں دکھائی دیتی تھی۔ افسانوں کا حجم بھی نسبتاً کم ہے۔ کردار زیادہ Bold ہیں۔ سماجی حالات میں تبدیلی کی جھلک بھی ان افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی مثال میں ’’پت جھڑکی آواز‘‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس کہانی کی مرکزی کردار تنویر فاطمہ آزادیٔ ہند اور قیام پاکستان کے دور کی ایک پڑھی لکھی  اچھے گھرانے کی لڑکی ہے جو طبعاً آزادہے۔وہ فیشن کی دلدادہ اور سماجی بندھنوں سے بیزار ہے۔ اس زمانے میں تعلیم کے باوجود بیشتر گھرانوں میں بے پردگی معیوب سمجھی جاتی تھی۔ اس کے باوجود اس افسانے کی ہیروئن بے باکی کے ساتھ بے پردہ گھومتی ہے اور لڑکوں کے ساتھ دوستی کرتی ہے۔ پہلے اس کی دوستی خوش وقت کے ساتھ ہوئی۔ جب وہ اس کے دوست فاروق سے ملی تو فاروق کے ساتھ وقت گزرنے لگا۔ پھر یہ سلسلہ فاروق کے دوست وقار تک پہنچا۔ یہ تعلقات صرف دوستی کی حد تک نہیں رہے بلکہ جنسی روابط تک بھی پہنچے اور وہ بغیرشادی کیے وقار کے ساتھ رہنے لگی۔ ملک کی تقسیم کے بعد وہ پاکستان میں وقار کے ساتھ رہ رہی تھی اور مطمئن تھی۔ افسانہ نگار نے یہ افسانہ صیغۂ واحد متکلم میں لکھا ہے جس کے مرکزی کردار میں وہ’’میں ‘‘کی شکل میں موجود ہے۔
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد کے حالات اور تبدیلیوں کی جھلک ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان کے لفظوں میں :
’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ میں تقسیم سے پہلے کی ہندوستانی تہذیب اور تقسیم کے بعد کی پاکستانی تہذیب و معاشرت، جو افسانہ نگار نے اپنے تقریباً دس سالہ قیام کے دوران وہاں دیکھی تھی، اس کے مختلف پہلوؤں کو ان کے حقیقی رنگ میں ظاہر کیا ہے۔ اس افسانے میں نئی جہات کی نشاندہی ملتی ہے۔ اس کا ایک کردار جمشید نئے افکار و خیالات کا اظہار کرتا ہے اور اپنی قدیم تہذیب اور جاگیر دارانہ اقدار کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔‘‘
                                [اردو مختصر افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ، ص۔203]
اس افسانے میں جمشید خود اپنے ضمیر کی موت کا اعلان کرتا ہے۔ وہ ایک خط میں سلمیٰ کو لکھتا ہے :
’’چھوٹی بٹیا، پرسوں رات میں نے بہت سے پوشیدہ ڈھانچے اپنی الماری میں سے نکالے، ان کو جھاڑا پوچھا اور انھیں الماری میں دوبارہ مقفل کر دیا۔ میں نے اپنی لاش کا خود پوسٹ مارٹم کیا اور اسے زندگی کے مردہ خانے میں برف کی سل کے تلے دبا دیا اور آج میں وہی جمشید ہوں جس سے آپ پچھلے چار مہینے سے واقف ہیں۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک انتہائی ذلیل، بے رحم، خود غرض، کمینہ اور مفاد پرست انسان ہوں جس کے لیے کسی قسم کی پرانی اقدار، شرافت، اصول پرستی وغیرہ کے تصورات لا یعنی ہو چکے ہیں۔‘‘
یہ صرف جمشید کی نہیں اس دور میں دولت کے حصول کو اپنا ایمان بنا لینے والے ہزاروں لوگوں کا اقبالی بیان ہے جنھوں نے اپنی تمام تہذیبی، روحانی اور انسانی اقدار کو اپنے ہاتھوں قعِر فراموشی میں دفن کر دیا تھا۔
قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ ’’روشنی کی رفتار‘‘ 1982 میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل اٹھارہ افسانے ہیں جن میں سے بیشتربہت مشہور ہوئے۔ ویسے زیادہ تر افسانے جن سے بحیثیت افسانہ نگار قرۃ العین حیدر کی پہچان قائم ہوئی ہے، اسی مجموعے میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر۔’’ آوارہ‘‘،’’ ملفوظات‘‘، ’’حاجی گل‘‘، ’’بابا بیکتا شی‘‘،’’فوٹو گرافر‘‘، ’’حسب نسب‘‘، ’’نظارہ درمیاںہے‘‘ ،’’ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے‘‘، ’’سینٹ فلور آف جارجیا کے اعتراف ‘‘،  ’’روشنی کی رفتار‘‘ وغیرہ۔
یہ تمام افسانے اپنی خاص انفرادیت رکھتے ہیں اور انھی سے قرۃ العین حیدر کا اسلوب متعین ہوا ہے۔ ’’ملفوظات‘‘، ’’حاجی گل‘‘، ’’بابا بیکتا شی‘‘ اور’’ سینٹ فلور آف جارجیا کے اعتراف‘‘ کے کردار ماضی سے عہد حاضر تک کا سفر کرتے ہیں۔ پھر اپنے اپنے زمانوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ اسی عمل میں دونوں ادوار کا ایک تقابلی تجزیہ بھی سامنے آ جاتا ہے۔ کچھ چیزیں اسی تسلسل میں اب تک باقی ہیں۔ وقت بدل گیا ہے لیکن وقت کا کردار نہیں بدلا ہے یہ کیفیت ’’روشنی کی رفتار‘‘ میں اپنے عروج پر ہے۔ ان افسانوں میں افسانہ نگار نے زماں و مکاں کی حدود کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ ’’روشنی کی رفتار‘‘میں ایک افسانہ ’’فقیروں کی پہاڑی‘‘ ہے۔ اس افسانے میں ایک ایسی پہاڑی کا منظر پیش کیا گیا ہے جو زائرین اور فقیروں سے آباد ہے یہ منظر خود قرۃ العین حیدرکے الفاظ میں دیکھیے:
’’پہاڑی پر ہر وضع کا اپاہج موجود تھا، اندھے، لنگڑے، لولے، گنجے اور ایسے بھکاری اور بھکارنیںجن کے محض دھڑ ہی سالم تھے، چٹانوں پر آڑے ترچھے لیٹے صدا ئیں لگائیں رہے تھے۔ لمبے چونچ والے آنکھوں میں سرمہ لگائے، ہزار دانہ تسبیح پھراتے قلندر، مجذوب، بھنگ کے نشے میں مگن سادھو۔ فقیروں کی یہ عظیم الشان کامن ویلتھ یقینا لرزہ خیز اور حیرت انگیز تھی۔ یاتریوں کی قطاروں میں سندھی تاجر، اور جارجٹ نائلون کی ساڑیوں میں ملبوس ان کی خواتین، ٹرانسسٹر سنبھالے بانکے چھیلے لڑکے، بوہرے، خوجے، پارسی، گجراتی، مرہٹے، پنجابی ، ہندو اور مسلمان سب ہی رواں دواں ہانپتے کانپتے، بھکاریوں کے سامنے سکّے پھینکتے، چوٹی کی طرف چڑھنے میں منہمک تھے۔ ‘‘
                                                [روشنی کی رفتار، ص۔ 125]
مجموعی طور پر قرۃ العین حیدر کا افسانوی مزاج ثقالت پسند ہے۔ یہ کہنا تو شاید غلط ہوگا کہ وہ اپنے افسانوں کو قصداً بوجھل کرتی ہیں لیکن ان کے مطالعے کی وسعت اور حاصل شدہ ساری معلومات کو پیش کر دینے کی خواہش کے نتیجے کے طور پر ایسا غالباً غیر ارادی طور پر ہو جاتا ہے لیکن جہاں بھی انھوں نے اس پر قابو پا لیا ہے وہ افسانے شاہکار ہو گئے ہیں۔
قرۃ العین حیدر کے بیشتر کردار عموماً اونچے طبقوں کے ہوتے ہیں۔ اور ان کے ارد گرد وہ فضا ہوتی ہے جس سے ہر قاری مانوس نہیں ہوتا ،پڑھنے والوں کو ایک اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ پھر بھی ہندوستان کی مٹتی ہوئی گنگا جمنی تہذیب کے پس منظر میں انھوں نے جتنے افسانے لکھے ہیں وہ باشعور قارئین کے دل کو چھو جاتے ہیں۔ ترقی پسندی ان پر کبھی حاوی نہیں ہوئی نہ ہی ترقی پسند ادیبوں نے کبھی ان کو قبول کیا لیکن ان کے افسانوں میں جہاں جہاں حالات کے شکار، وقت کے مارے اور سماجی جبریت سے ٹوٹے ہوئے لوگوں کا ذکر آتا ہے وہاں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے دور سے ان کے حالات کی عکاسی نہیں کی ہے بلکہ ان کے دکھ میں شریک بھی ہے۔
در اصل قرۃ العین حیدر کا پورا افسانوی سرمایہ ایک مخصوص قسم کی انفرادیت کے زیر اثر ہے۔ یہ فکری اسلوب اور طرز بیان نہ ان سے قبل کسی کا تھا نہ ان کے بعد کسی نے اس کو اپنایا۔


پتہ:
Afsar kazmi
Flat No.6, M. Khan Colony
Azad Nagar,
Jamshedpur, Pin-83211
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2008


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں