اکبر
ا لہٰ آبادی، نو آبادیاتی نظام اور عہد حاضر
شمس
الرحمن فاروقی
یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ
قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام اکبر الہٰ آبادی پر یہ سہ روزہ قومی سیمینار الہٰ
آباد ہی میں منعقد ہو رہا ہے۔ اہل الہٰ آباد نے، اور اہل الہٰ آباد ہی کیوں، اہل
اردو نے اکبر کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے اور آج کے زمانے میں اکبر کی جو معنویت
ہے اس پر تو شاید بالکل ہی توجہ نہیں دی گئی۔ مجھے امید ہے کہ یہ سیمینار جس میں
ملک کے کئی نامور نقاد شریک ہو رہے ہیں، اکبر الہٰ آبادی کی از سر نو تعیین قدر
کے سلسلے میں مثبت قدم ثابت ہوگا۔
اکبر الہٰ آبادی کے بارے میں
چند باتیں عام ہیں۔ ہم انھیں دو حصوں میں منقسم کر کے مختصر اً یوں بیان کر سکتے
ہیں:
(1)
اکبر طنز و مزاح کے بڑے شاعر تھے۔
(2) وہ
حریت پسند تھے۔
(3) انھوں
نے انگریز کی مخالفت میں پرچم تو نہیں اٹھایا لیکن بہت سی انگریز مخالف باتیں
ضرور لکھیں۔
دوسرے حصے میں حسب ذیل باتیں ہیں :
(1) وہ
ترقی کے مخالف تھے، یعنی انگریزی تعلیم کے مخالف تھے۔
(2) انگریزی
تعلیم ہی نہیں، وہ تمام جدید چیزوں، مثلاً ریل، تار، چھاپہ خانہ، ٹیلی فون،
صنعت و حرفت ، ان سب کے مخالف تھے۔
(3) وہ
جدید تہذیب کے اداروں، مثلاً سیاسی پارٹی، کانفرنس، کونسل، کونسل کی ممبری، وغیرہ،
ان سب کے مخالف تھے۔ حالانکہ یہ چیزیں
در اصل ہمارے لیے آزادی کا پیش خیمہ تھیں۔
(4) وہ
عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے بھی مخالف تھے۔
(5)
لہٰذا وہ رجعت پرست تھے، نئی روشنی کے دشمن تھے اور آج ان کی شاعری ہمارے مطلب
کی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا باتوںمیں سے سب
نہیں تو زیادہ تر باتیں اکبر کے موافقین بھی کہتے ہیں۔یعنی اکبر کے موافقین کی بھی
نظر میں اکبر ایک مزے دار طنزیہ مزاحیہ شاعر تھے لیکن ان کا پیغام اب ہمارے لیے
نقصان دہ نہیں تو بے معنی ضرور ہے۔ قمر رئیس صاحب نے تو حال میں، بلکہ اسی
سیمینار میں، یہ بات بھی کہی ہے کہ جوش
ملیح آبادی کا اکبر سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جوش تو اکبرسے بہت ہی
زیادہ بڑے شاعر ہیں۔
دوسری بات، جس پر اکبر کے
چاہنے والے اور اکبر سے چڑنے والے دونوںمتفق ہیں، یہ ہے کہ طنزیہ شاعری کی عمریوں
بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ جب اسباب طنزنہ رہیں تو طنز بھی اپنی قوت اور معنی کھو دیتا
ہے، لہٰذا ان لوگوں کے خیال میں اکبر کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زیادہ تر
تخلیقی قوت طنز و مزاح میں صرف کی۔ وہ مسائل نہ رہے جن کو انھوں نے اپنے طنز کا
موضوع بنایا تھا تو وہ طنز بھی نہ رہا، صرف کتابی بات ہو کر رہ گیا۔
میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اکبر
کو اردو کے پانچ یا چھہ سب سے بڑے شاعروں میں شمار کرتا ہوں اور دنیا کے طنزیہ
مزاحیہ ادب میں اکبر کا مقام بہت بلند سمجھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اکبر کے ساتھ
انصاف نہیں کیا گیا اور ان کے کلا م کو سطحی طور پر ، یا سر سری پڑھ کر یہ فیصلہ
کر لیا گیا کہ وہ ایک قدامت پسند بوڑھے تھے۔ اگر چہ جذبۂ حریت ان میں ضرور تھا
اور اپنے طنز کو انھوں نے سماجی اصلاح کے مقصد کے لیے استعمال تو کیا، لیکن انھوں
نے یہ نہ سوچا کہ اصلاح اور ترقی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ترقی کے خلاف رہیں تو اصلاح
نہیں ہو سکتی۔ اس کے بر عکس میرا خیال یہ ہے کہ اکبر پہلے شخص ہیں جن کو بدلتے
ہوئے زمانے، اس زمانے میں اپنی تہذیبی اقدار کے لیے خطرہ، اور انگریزی تعلیم و
ترقی کو انگریزی سامراج کے قوت مند ہتھیار ہونے کا احساس شدت سے تھا اور انھوں نے
اس کے مضمرات کو بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ اس معاملے میں مہاتما گاندھی اور اقبال
بھی ان کے بعد ہیں۔ہونا بھی چاہیے، کیونکہ اکبر کی پیدائش 1846 کی ہے، مہاتما
گاندھی 1869 میں پیدا ہوئے اور اقبال 1877 میں۔ میں نے کئی سال پہلے کے ایک مضمون
میں اس تہذیبی بحران کا ذکر کیا ہے جس کا احساس اکبر کو تھا اور جس کی بنا پر
انھوں نے انگریزی سامراج کی علامتوں کو مطعون کیا۔ آج کی صحبت میں اس سے ذرا
مختلف مضمون بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اکبر دراصل محض غیر ملک کی غلامی کے خلاف
نہیں تھے، بلکہ وہ نو آبادیاتی نظام کے خلاف تھے اور انھوں نے سرمایہ داری اور نو
آبادیاتی نظام میں مضمر کئی بنیادی خطرات کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ صرف رسماً
انگریز مخالف نہیں تھے، اور نہ ہی وہ محض قدامت پرستی کی بنا پر مغربی تہذیب کے
خلاف تھے۔
آج الہٰ آباد میں
جوسیمینار اکبر الہٰ آبادی اور نو
آبادیاتی تجربے کے بارے میں تکمیل پذیر ہوا ہے، اس میں فضیل جعفری نے اپنے پرچے
میں اکبر کو محض روایتی قدامت پسند نہیں بلکہ روشن خیال قوم پرست ثابت کیا۔ ہندی
کے مشہور نقاد راجندر کمار نے اپنے مضمون میں مہاتما گاندھی کی کتابHind
Swaraj مطبوعہ 1908
کا ذکر کیا جس میں گاندھی جی نے ریل گاڑی اور تار وغیرہ کے بارے میں بہت سی باتیں
ایسی کہی ہیں جو اکبر کہتے تھے۔ راجندر کمار نے مہاتما گاندھی کی کتاب کے پہلے کی
ایک مراٹھی کتاب ’’دیشیر کتھا‘‘ مطبوعہ 1904 کا بھی ذکر کیا جس کے مصنف گنیش سکھا
رام دیوسکر (Ganesh Sakhram Devuskar) نے بھی تار، ریل، جدید ذرائع تجارت وغیرہ
کو اصلاً انگریزی راج کے ہتھکنڈوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ وسائل در اصل نو
آبادیاتی حاکم کی قوت کو پھیلاتے اور مضبوط کرتے ہیں۔ دیوسکر کی کتاب کا ترجمہ
ہندی میں ہو چکا ہے اور میں اس کی رسم اجرا میں شریک تھا۔ افسوس کہ اردو والے ابھی
بظاہر اس سے بے خبر ہیں۔
راجندر کمار کا کہنا یہ نہیں
ہے کہ مہاتما گاندھی اور گنیش سکھا رام دیو سکر نے اکبر کو پڑھا ہوگا۔ اور نہ ہی
میں یہ کہتا ہوں۔ میں نے اپنے مضمون مطبوعہ 2002 میں یہی کہا تھا کہ اکبر کو نو
آبادیاتی اور سامراجی نظام کی تخریبی قوتوں کا احساس تھا، ورنہ وہ یوں ہی محض
قدامت پرستی کی ضدم ضدا میں یہ نہیں کہتے تھے:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ چلتا ہے، آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے
اکبر کی پہلی عظمت اس بات میں
ہے کہ مہاتما گاندھی اور اقبال دونوں نے مغرب اور اس کی تہذیب اور تعلیم کو براہ
راست اور بہت قریب سے دیکھا تھا، لیکن اکبر نے ملک کے باہر جائے بغیر اس تہذیب اور
تعلیم کی علامتوں اور مضمرات کو سمجھ لیا۔
اکبر کے خلاف یہ الزام صحیح ہے
کہ وہ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے خلاف تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ
عورتوں کی انگریزی تعلیم اور بے پردگی کے خلاف تھے، اصلاً تعلیم کے خلاف نہ تھے۔
لیکن یہ تو ان کے زمانے کے زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کا موقف تھا، اکبر اکیلے
اس کے مجرم نہیں :
ایں گنا ہیست کہ در شہر شما
نیز کنند
اقبال کا مشہور قطعہ آپ سب کے
ذہن میں ہوگا :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدِّ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
لہٰذا اگرچہ تعلیم و آزادیِ نسواں
کے بارے میں اکبر کے خیالات سے میں اتفاق نہیں کرتا، لیکن یہ خیالات اس زمانے میں
بہت متداول تھے۔ اکبر کی بڑائی ان باتوں میں ہے جو صرف انھوں نے سب سے پہلے دیکھیں
اور محسوس کیں۔اکبر نے بقول محمد حسن عسکری مشرق اور مغرب کا تصادم صرف ہندوستان
نہیں بلکہ پورے ایشیا (اور آج کی زبان میں کہیں تو تیسری دنیا) کے نقطۂ نظر سے
دیکھا۔ مغربی تہذیب کے لیے اکبر نے بعض الفاظ وضع کیے مثلاً برگڈ (Brigade)، کیمپ (Camp)، توپ، انجن وغیرہ جو علامت کا حکم رکھتے
ہیں اور جن کی کارفرمائی ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ برگڈ سے ان کی مراد وہ
ہندوستانی تھے جو انگریزوں کے وفادار تھے۔اور کیمپ سے ان کی مراد مغربی معاشرت
تھی۔ توپ، استعماری قوت کے اظہار ، اور انجن اس قوت کو پھیلانے والے ذرائع کا
استعارہ ہیں۔ چونکہ یہ چیزیں اشیا بھی ہیں لہٰذا ان کا استعاراتی رنگ عموماً
علامتی رنگ بن گیا ہے، یعنی اکبر نے ’’برگڈ‘‘ ، ’’کمپ‘‘ ، ’’انجن‘‘ وغیرہ کو علامت
کے طور پر استعمال کیا ہے۔
نیّر مسعود نے بھی اپنے ایک
پرانے مضمون میں اکبر کے یہاں علامتی اظہار کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن انھوں نے
اکبر کے کرداروں، مثلاً بدھو، جمن، شیخ وغیرہ کو بھی علامت قرار دیا تھا۔ لیکن
علامت میں شئیت ہوتی ہے اور علامتیں ہمیشہ کسی نظام فکر کے تابع ہو کر آتی ہیں۔
اس کے بر خلاف کرداروں اور اداروں کے ناموں میں شئیت نہیں بلکہ تمثیلی رنگ ہوتا
ہے۔ لہٰذا بدھو، بفاتی، جمن وغیرہ علامت نہیں تمثیلیں ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک
نہیں کہ نیّر مسعود نے اکبر کے یہاں علامتی رنگ کی نشان دہی کی ہے۔
مغرب، یا انگریز کی مخالفت
اکبر کے یہاں ایک مکمل نظام فکر کے تحت ہے۔ یہ کوئی فیشن ایبل، چلتی ہوئی بات پر
مبنی رویہ نہیں ہے۔ مغربی تعلیم کے بارے میں ان کی پہلی شکایت یہ تھی کہ یہ انسان
کو ’’ صاحب دل‘‘ نہیں بناتی،صرف نوکری کے کام کا رکھتی ہے۔ اکبر کو لارڈ میکالی (Lord
Macaulay) کے اس نوٹ
کی خبر نہ رہی ہوگی جو اس نے 1835 میں تحریر کیا تھا کہ ہم ہندوستانیوں کو انگریزی
پڑھا کر ایسی نسل پیدا کریں گے جو رنگ میں کالی لیکن دل سے انگریز ہوگی تاکہ ہم
اس سے اپنی ضرورت کے مطابق کام لے سکیں
اور ہمارا نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اکبر کو مغربی تعلیم کی
انگریزی پالیسی کے مضمرات کا پورا احساس تھا۔ نئی تعلیم کے بارے میں اکبر کے
خیالات دیکھیے:
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے
آدمیّت سے
جناب ڈارون کو حضرتِ آدم سے
کیا مطلب
یہاں اقبال کا شعر یاد آتا ہے
:
آدمیت احترامِ آدمی
باخبر شو از مقامِ آدمی
جدید تعلیمی نصاب انسانوں کو
’’صاحب ‘‘ یا ’’بابو‘‘ تو بنا دیتا ہے، ’’آدمی ‘‘ نہیں بناتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
یہ تعلیمی نصاب علم کی تبلیغ سے زیادہ اس مقصد سے بنایا گیا ہے کہ لوگوں کو سرکاری
نوکریوں میں کام پر لگایا جائے۔ اکبر کہتے ہیں کہ ’’آدمی ‘‘ بنانے کے لیے روحانی
اور ذہنی تصرف کے ساتھ انسان دوست (Humane) تعلیم بھی درکار ہے :
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی، آدمی بناتے ہیں
جستجو ہم کو آدمی کی ہے
وہ کتابیں عبث منگاتے ہیں
کتابوں سے آدمی نہیں بنتا،
کیونکہ نو آبادیاتی تعلیم میں انسانیت کی روح اور امتیاز حق و باطل کی صفت نہیں
ہے۔ وہ ایک طرح سے بے ذہن کی مشین (Mindless Machine) ہے جو ہم پر مسلط کر دی گئی ہے :
آگے انجن کے دین ہے کیا چیز
بھینس کے آگے بین ہے کیا چیز
یہاں انجن استعارہ ہے نو
آبادیاتی سامراجی طاقت کی بے امتیاز قوت کا اور دین استعارہ ہے مشرقی روحانیت کا۔
ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو بھینس اور بین میں ہے۔
آدمیت کے موضوع پر اکبر کے
مندرجہ ذیل دو شعر بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ وکٹوریائی تعلیم اور فلسفہ یہ سبق
پڑھاتے تھے کہ مغربی تہذیب اور زندگی اور علم، سب ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ فطرت
(Nature) چونکہ اسی
کو جینے کا حق دیتی ہے جو سب سے قوی ہو، لہٰذا مغربی تہذیب کی ترقی ثابت کرتی ہے
کہ مغرب سب سے زیادہ مر تقی اور سب سے زیادہ قوی ہے۔ اس پر اکبر کہتے ہیں:
یا الٰہی یہ کیسے بند رہیں
ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوئے
اکبر کا شعر ہے :
کتابِ دل فقط کا فی ہے اکبر
درسِ حکمت کو
میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ
سے مل نہیں ملتا
اس بات سے قطع نظر نہ کیجیے کہ
یہ دو نام یوں ہی نہیں لائے گئے ہیں۔ اسپنسر (Herbert
Spencer) مادیت کے
فلسفے کا حامی تھا اور مل (John Stuart Mill) کی سب سے اہم کتاب On
Liberty تھی۔ مادیت
کے بھروسے پر سائنس اور تجارت نے ترقی کی اور آزادی کے تصور کے بہانے سے اقوام کو
غلام بنایا گیا کہ وہ ابھی اس آزادی کے لائق نہیں ہوئے ہیں جس کا ہم ذکر کر رہے
ہیں اور ہم جسے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے نظریوں نے White
Man's Burden اور Enlightened
Self-interest جیسے فقروں کو جنم دیا۔ اہل یورپ اور اہل ایشیا
دونوں سے مخاطب ہو کر اکبر کہتے ہیں:
عیسیٰ نے دلِ روشن کو لیا اور
تم نے فقط انجن کو لیا
کہتے ہو کہ وہ تھے باپ سے خوش
اور تم ہو خالی بھاپ سے خوش
لفظ ’’خالی‘‘ اور ’’بھاپ‘‘ پر
غور کیجیے۔ بھاپ در اصل گرم ہوا ہے ، اور انگریزی میں فضول باتوں کو Hot
air کہتے ہیں۔
بھاپ کے معنی Vapour بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جدید ایٹمی بم جہاں گرے گا وہاں کی ہر
چیز دور دور تک Vaporize ہو جائے گی، یعنی بھاپ بن
جائے گی۔ ایٹم بم کے پہلے بھی ایسے بم ایجاد ہو گئے تھے جو کسی بڑے رقبے کو نہیں
تو چھوٹے ہی رقبے کو خاک سیاہ کر کے بھاپ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ خالی بھاپ کی
معنویت اب واضح ہے، کہ یہ در اصل بے حقیقت اور معنویت سے خالی ہے۔ ’’کتاب دل‘‘،
’’دل روشن‘‘ کے بعد اب ’’روح کی رہ مستقیم‘‘ کے بارے میں اکبر کو سنیے:
برق و بخارات کا زوراے حکیم
کب ہے پئے روح رہِ مستقیم
تار پہ جاتے نہیں اہل نظر
ریل سے کھنچتا نہیں قلبِ سلیم
’’روح کی رہِ
مستقیم‘‘ کے بعد اکبر صرف روح، اور اس کے ساتھ عقل کی بات کرتے ہیں کہ جدید تعلیم
نے ان دونوں ، یعنی روح اور عقل کو مغربی اصولوں کا غلام بنا دیا ہے :
عقل سپردِ ماسٹر مال سپردِ
آنجناب
جان سپردِ ڈاکٹر روح سپردِ
ڈارون
حقیقت یہ ہے کہ اکبر پہلے
ہندوستانی تھے جنھوں نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان میں ’’تعلیم‘‘ ،
’’ترقی‘‘، ’’اصلاح‘‘ اور جدید مصنوعات اور وسائل کے قیام کے نام پر جو کچھ ہو رہا
ہے وہ در اصل نو آبادیاتی سیاست اور مغربی سرمایہ دارانہ پھیلاؤ کے استحکام کے
لیے ہے۔ خاص کر نئی تعلیم کے تخریبی اثرات ، اور اس کے باعث مشرق و مغرب کے درمیان
ذہنی کشمکش کا احساس بھی اکبر کو اقبال سے پہلے ہوا۔ جیسا کہ ٹائس برک ہارٹ (Titus
Burckhardt) نے کہا ہے، پہلے زمانے کی تعلیم وہ تھی جو
انسان کو پہلے ’’حکمت‘‘ (Wisdom) سکھاتی تھی اور پھر اسے درجۂ کمال (Perfection) تک پہنچاتی تھی۔ اکبر کہتے ہیں کہ جدید
تعلیم ہمیں صرف بازار کا مال بنا دیتی ہے
اور ہمیں سرکار کی گوں کا آدمی بناتی ہے۔ میکالی کا قول ذہن میں رکھیے اور یہ شعر
سنیے:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ
کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا
ہے فقط سرکاری ہے
یہ علم بازاری اور یہ عقل
سرکاری کیوں نہ ہوں، جب اصل حال یہ ہو کہ :
اس کا پسیجنا ہے اور اس کے ہیں
بھپارے
یورپ نے ایشیا کو انجن پہ رکھ
لیا ہے
محاورہ ہے ’’تلوار پر رکھ
لینا‘‘ ، اکبر سارے مشرق کو مغربی انجن پر سوار دیکھتے ہیں، گویا یورپ نے مشرق کو
اپنی صنعت و حرفت کی تلوار پر رکھ لیا ہے، یا مال کی طرح لاد لیا ہے۔ سچ ہے :
مال گاڑی پہ بھروسا ہے جنھیں
اے اکبر
ان کو کیا غم ہے گناہوں کی
گرانباری کا
یعنی اصل چیز تو مال، اور مال
برداری ہے۔ لیکن بات تعلیم کی ہو رہی تھی۔ یہ تعلیم ہندوستانی یا ایشیائی ذہن کو
کیا دیتی ہے، اکبر سے سنیے :
پیری سے کمر خم ہے پہ فرماتے
ہیں تن جا
قابو میں نہیں ہاتھ تو کیا ہو
سکے پنجہ
وسعت ہے درِ علم میں، ہے راہِ
عمل بند
ہے صاف سڑک، پاؤں پہ لیکن ہے
شکنجہ
یعنی یہ تعلیم ذہن کو تیز تو
کر سکتی ہے ، لیکن عقل نہیں دیتی کہ اس علم کو استعمال کرنے کی توفیق ہو، اور نو
آبادیاتی حاکم تعلیم کے ساتھ ساتھ پاؤں میں بیڑیاں بھی ڈال دیتا ہے کہ قوت عمل
ساقط ہو جائے۔ اس موضوع پر اکبر نے حیرت انگیز طور پر جدید باتیں کہی ہیں۔ اوپر کے
دو شعروں پر ذرا ٹھہریے اور پھر اکبر کا ایک شعر اور ایک رباعی سنیے:
دیا سلائی کی تیزی تو آ گئی
ہم میں
کسر یہی ہے کہ ڈبیا انھیں کی
جیب میں ہے
لفظ ’’تیزی‘‘ کو دھیان میں
رکھیے۔ اب رباعی ملاحظہ ہو :
اکبر مجھے شک نہیں تری تیزی
میں
اور تیرے بیان کی دل آویزی
میں
شیطاں عربی سے ہند میں ہے بے
خوف
لاحول کا ترجمہ کر انگریزی میں
لاحول کا ترجمہ انگریزی میں
کرنے کی تلقین میں دونوں طرف طنز ہے۔ ہندوستانی پر طنز، کہ وہ قدیم علوم کی خوبیوں
کو انگریز کے سامنے بیان کرنا جانتا نہیں، اپنی قوتوں کو بھول چکا ہے۔ اور انگریز
پر طنز ، کہ وہ اپنے علاوہ کسی کی بات سمجھنے سے قاصر ہے۔
اکبر اس نکتے سے واقف تھے جسے
آج کی زبان میں Stokholm Syndrome کہا جاتا ہے۔ یعنی محبوسی
اور مجبوری کی وہ صورت حال جس میں قیدی کو اپنے قید کرنے والے سے ایک لگاؤ پیدا
ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ اغوا، یا قید کیا ہوا شخص خود اپنے اغوا کار، یا قید کرنے
والے کو اور خود کو ایک ہی سمجھنے لگتا ہے، یعنی اس کے ساتھ اپنے کو Identify
کرنے لگتا ہے۔ یہ صورت حال آج اس طرح بھی موجود ہے کہ مغربی اقوام تیسری
دنیا کا استحصال کر رہی ہیں اور تیسری دنیا کے لوگ انھی پر مرے جا رہے ہیں۔ اکبر
کہتے ہیں :
مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو تو اپنا
کام کرتے ہیں
مجھے حیرت تو ان پر ہے جو اس
مٹنے پہ مرتے ہیں
اور یہ دل ہلا دینے والا شعر
بھی ملاحظہ ہو :
کس رہے ہیں اپنی منقاروں سے حلقہ
جال کا
طائروں پر سحر ہے صیاد کے
اقبال کا
یہاں پھر اقبال کا شعر یاد
آتا ہے جو ’’خضر راہ‘‘ میں ہے :
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا
محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں
کی ساحری
پھر اکبر کے یہ دو شعر بھی یاد
رکھنے کے قابل ہیں:
قتل سے پہلے ہے کلورو فارم
شکر ہے ان کی مہربانی کا
—
ہزاروں ہی طریقوں سے ہم
انگریزوں کو گھیرے ہیں
طواف ان کے گھروں کا ہے انھیں
سڑکوں کے پھیرے ہیں
اور اب قیدی کی مناجات سنیے :
اے خدا مجھ کو کر دے صاحب لوگ
دور ہو مجھ سے اس جنم کا روگ
میرا قالب ہو قالبِ غربی
بھول جاؤں زبان بھی اپنی
رنگ چہرے کا میرے جائے بدل
کروں ایجاد میں بھی توپ و رفل
سو کے اٹھوں جو آج صبح کو میں
لوگ سمجھیں کہ لاٹ صاحب ہیں
محکوم کی کوشش ہمیشہ یہی ہوتی
ہے کہ وہ خود کو حاکم سے ہم آہنگ کر لے ،لیکن اکبر اس سے آگے جا کر منا جاتی کی
زبان سے یہ بھی کہلاتے ہیں کہ میں بھی اپنے حاکم کی طرح تباہ کاری کے اسلحہ اور
وسائل ایجاد کر سکوں اور فوج کے ذریعے دوسری اقوام کو اپنا غلام بنا سکوں۔ یعنی نو
آبادیاتی حاکم اپنے محکوم کے جسم اور روح دونوں کو اپنے تخریبی رنگ میں رنگ لیتا
ہے۔ حاکم اور محکوم کے اس اتحاد کی ایک صورت نوکر شاہی ہے، کہ نوکر شاہی میں محکوم
نو کر اپنے مالک کی طاقت کو مستحکم کرنے کا کام کرتا ہے اور اپنے سے کمتر لوگوں پر
زور ظلم سے کام لیتا ہے۔ ہندوستانی نوکر شاہی ، خاص کر آئی.سی.ایس. کو برطانوی
حکومت کا ’’فولادی ڈھانچا‘‘ (Steel Frame of the
British Empire) یوں ہی تو
نہیں کہا جا تا تھا۔ اس فولادی ڈھانچے کی پہلی خصوصیت تھی کہ تعمیل حکم میں کوئی
کمی نہ کرنا، چاہے اس میں اپنی قوم کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اکبر کہتے ہیں :
باتیں ہرگز خلافِ عزت نہ کرو
دم بھر بھی شرارت و بغاوت نہ
کرو
بدنام کرو نہ وضعِ انگریزی کو
پتلون پہن کے ترک طاعت نہ کرو
نوکر شاہی بے روح بھی ہوتی ہے
اور جتنا چھوٹا نوکر ہو اتنی ہی زیادہ اس میں صلاحیت ہوتی ہے کہ صاحبان غرض کو تنگ
کرے اور ان کا کام نہ ہونے دے۔ ان نکات کو اکبر نے خوب واضح کیا ہے :
باقی نہیں وہ رنگ گلستانِ ہند
میں
محنت کا اب ہے کام قلستانِ ہند
میں
کیوں گفتگو کسی کو ہواس ٹھیک
بات میں
شیخی زبان میں ہے حکومت ہے
ہاتھ میں
’’قلستان
ہند‘‘ کی ترکیب میں جو درد اور غصہ پنہاں ہے وہ ہم پر آج بھی آشکار ہونا چاہیے۔
ورنہ یہ شعر سن لیجیے:
جب غور کیا تو مجھ پہ یہ بات
کھلی
دقّت میں تو وہ ہیں جو نہ صاحب
نہ قلی
اکبر غالباً پہلے ہندوستانی
ہیں جن کو اس بات کا احساس تھا کہ سامراجی نو آبادیاتی نظام کی توسیع میں جنگ اور
تشدد کے ساتھ تعلیم بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہے :
توپ کھسکی، پروفیسر پہنچے
جب بسولا ہٹا تو رندا ہے
بسولا یعنی لکڑی یا پتھر کو
کاٹنے کی کلہاڑی ، اور رندا یعنی لکڑی کو چھیل چھال کر اس کی ناہمواریاں نکال دینے
کا اوزار۔ لہٰذا پہلے تو اہل ہند کی حکومتوں کو تاراج کرو، پھر وہاں انگریزی
پڑھانے والے استاد بھیجو تاکہ ہندیوں کا ہندوستانی پن نکل جائے۔ اقبال کا شعر یاد
کیجیے:
میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
ریل یعنی مغربی طاقت سے حکومت
تو پھیلتی ہے لیکن قلب سلیم نہیں کھنچتا، یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ نوکر شاہی
کس طرح انسان کا کردار مسخ کرتی ہے، اس کی کچھ جھلک ان شعروں میں دیکھیے :
بہرِ خدا جناب یہ دیں ہم کو
اطلاع
صاحب کا کیا جواب تھا بابو نے
کیا کہا
—
تیغِ زباں کی دیکھو ہر سو بر
ہنگی ہے
بابو کے حوصلے ہیں صاحب کی دل
لگی ہے
—
ضعف ِمشرق نے تور کھّا پاؤں
کو چھکڑ ا وہی
مغربی فقروں نے لیکن مجھ کو
انجن کر دیا
—
اچھے اچھے پھنس گئے ہیں نوکری
کے جال میں
سچ یہ ہے افزونیِ تنخواہ جو
چاہے کرے
—
میری نصیحتوں کو سن کر وہ شوخ
بولا
نیٹو کی کیا سند ہے صاحب کہیں
تو مانوں
انگریزوں نے جب 1803 میں
مراٹھوں کو بے دخل کر کے شاہ عالم ثانی کو اپنی ’’حفاظت‘‘ میں لے لیا تو نو
آبادیاتی فکر رکھنے والے مورخین نے بعد کے زمانے کو English
Peace سے تعبیر
کیا کہ چو ر اُچکے راستوں سے غائب ہو
گئے، جاٹوں اور میواتیوں کی لوٹ مار بند ہو گئی ، وغیرہ۔ ممکن ہے اس English
Peace میں انگریزی عمل داری کی برکت شامل ہو، ممکن ہے
نہ ہو۔ لیکن ہندوستانی، خصوصاً اہل دہلی کی ذلت اس میں بہت تھی۔ پھر بھی، کچھ لوگ
آج بھی انگریزی راج کو یاد کرتے ہیں کہ اس زمانے میں اس قدر نقض امن نہ تھا۔ اکبر
نے کس خوبی سے اس English Peace کی قلعی کھولی ہے :
ممنون تو میں ہوں ترا اے سایۂ
شجر
سر پر مگر عذاب ہے چڑیوں کی
بیٹ سے
آج کل ہر طرف عالم کاری (Globalization) اور سرمائے کے پھیلاؤ کو مغربی قوتوں کی
نئی استعماری حکمت عملی ، اور صارفیت کی مقبولیت کو بھی سرمایہ دار طاقتوں کا ایک
حربہ کہنے کا رواج ہے۔ اور یہ باتیں صحیح بھی ہیں۔ لیکن اکبر کے وقت میں نہ صارفیت
تھی نہ عالم کاری، اور نہ وہ کارل مارکس کے اس قول سے واقف تھے کہ سرمایہ داری کا
انتہائی مقصود یہ ہے کہ تمام دنیا ایک بازار میں تبدیل ہو جائے۔ اس کے باوجود اکبر
کی چشم جہاں بیں نے یہ باتیں دیکھ لی تھیں:
یورپ میں گو ہے جنگ کی قوت
بڑھی ہوئی
لیکن فزوں ہے اس سے تجارت بڑھی
ہوئی
ممکن نہیں لگا سکیں وہ توپ ہر
جگہ
دیکھو مگر پیئرس کا ہے سوپ ہر
جگہ
—
مجھے بھی دیجیے اخبار کا ورق کوئی
مگر وہ جس میں دواؤں کا
اشتہار نہ ہو
—
چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں
بات وہ ہے جو پانیر میں چھپے
صارفیت اور عالم کاری کے ساتھ
جو بات جدید انسان کو بہت پریشان کر رہی ہے وہ ماحول کی آلودگی ہے۔اکبر کے زمانے
میں ایسا کوئی تصور نہ تھا۔ ہر چند کہ 1815 میں جب پہلی بار ریلوے انجن کا منظر
انگلستان کے لوگوں نے دیکھا تو کسی نے اس کو ’’جہنم کا شرارہ‘‘ کہا، کسی نے اس کے
شور اور گرج کی برائی کی، کسی نے اس کے دھوئیں کا برا مانا۔ لیکن چند ہی برسوں میں
صنعتی انقلاب کے دباؤ نے ان احتجاجی آوازوں کو خاموش کر دیا۔ اکبر کو، بلکہ اس
زمانے میں شاید کسی کو بھی ریل گاڑی کی تاریخ کے بارے میں کچھ معلوم نہ رہا ہوگا۔
لیکن اکبر نے یہاںبھی دونوں باتیں دیکھ لیں۔ انجن یا ریل گاڑی محض سامراجی طاقت کی
توسیع کا وسیلہ ہی نہیں، بلکہ زمین کے ماحول کو بگاڑنے کا بھی ہتھیار ہے :
مشینوں نے کیا نیکوں کو رخصت
کبوتر اڑ گئے انجن کی پیں سے
—
تنہائی و طاعت کا یہ دور ہے اب
دشمن
پیڑوں پہ نہ وہ طائر صحرا پہ
نہ وہ جوبن
جنگل کے جو تھے سائیں وہ ریل
کے ہیں پائیں
املی کی جگہ سگنل قمری کی جگہ
انجن
پھر اس شاہکار شعر (یا پیروڈی)
سے آپ سب واقف ہی ہوں گے :
ابھی انجن گیا ہے اس طرف سے
کہے دیتی ہے تاریکی ہوا کی
شہروں کی نئی تنظیم سے ہم واقف
ہیں۔شہر کے کچھ علاقوں میں بڑے لوگ یا دولت مند طبقہ رہتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ہم
آپ جیسے غریب غربا رہتے ہیں۔ جھگی جھونپڑی والوں کی بستیاں بھی ہیں جنھیں عام طور
پر دور سے دور تر رکھنے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مغل شہر میں ایسی کوئی تفریق
اور تنظیم نہ تھی۔ اور اسی لیے طبقوں کے فرق کا وہ احساس بھی نہ تھا جو آج کی
زندگی کی تکلیف دہ حقیقت ہے۔ حسب معمول اکبر نے سب سے پہلے شہروں کی اس تقسیم و
تفریق کا احساس کیا جو عہد انگریز کی دین ہے :
شیخ ہوں شہر میں اور کمپ میں
سیّد ہوںیہ کیا
جس میں مل جل کے رہیں سب وہی
بستی اچھی
—
کیمپ میں پاتا ہوں یاروں کو جو
دن کو بیشتر
یہ اثر ہے اصطبل کا ورنہ خر
کوئی نہیں
کمپ /کیمپ سے مراد شہر کے وہ
اعلیٰ علاقے ہیں جہاں طرز معاشرت انگریزی ہے اور شہر سے مراد ہے جسے ہم اب ’’پرانا
شہر ‘‘ کہتے ہیں۔ اصطبل سے مراد ہندوستانی کردار کی پستی ہے جو انگریز کے راج نے
پیدا کی تھی۔ قمر الدین احمد بدایونی ’’بزم اکبر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دن ان سے
اکبر نے کہا :
شہروں میں ترمیم دیکھو کہ
حکمراں طبقہ اور امرا سول لائن میں ہیں ، غربا کے لیے زیست کے دن گذارنے کے واسطے
شہر کے گندے گوشے علاحدہ ہیں۔ مراد اس سے یہی ہے کہ امیر و غریب یک جا نہ ہوں گے،
نہ ایک دوسرے کے دکھ درد سے ہمدردی ہوگی۔
ایسے شخص کے بارے میں یہ
سمجھنا زیادتی اور نا انصافی کے سوا کچھ نہیں کہ وہ ترقی کا مخالف تھا، رجعت پرست تھا
اور دیدۂ حق آگاہ سے محروم تھا۔ اور اسے بدلتے ہوئے زمانے کی خبر تھی تو بس اتنی
کہ وہ اس کے خلاف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکبر تعلیم کی ترقی اور سائنس اور صنعت کے
مخالف نہیں تھے۔ وہ اس بات کے مخالف تھے کہ یہ چیزیں نو آبادیاتی نظام کے استحکام
کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، یا نو آبادیاتی نظام کی علامتیں ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر
دیکھ چکے ہیں، اکبر نے ’’توپ‘‘ کو جگہ جگہ استعاراتی، بلکہ تقریباً علامتی معنی
میں استعمال کیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’توپ‘‘ اگر لفظ ہے تو استعارہ ہے،
اور اگر شے ہے، تو علامت ہے۔ ایک قطعہ سنا کر رخصت ہوتا ہوں جس میں ’’توپ‘‘
استعارہ بھی ہے، علامت بھی ہے، اور ظریفانہ فقرے کی خاطر آگ بھی اگلتی ہے:
بس کدورت سے دل اس تیرہ دروں
کا ہے بھرا
یہ تو بربادیِ اربابِ و غا
چاہتی ہے
لگی لپٹی نہ لگا رکھتی تھی
تلوار کی جنگ
توپ کیا چاہتی ہے صرف دغا
چاہتی ہے
نوٹ: الہٰ آباد کے اکبر
سیمینار میں افتتاحی اور اختتامی خطبے پیش کرنے کا اعزاز مجھے نصیب ہوا تھا۔ خطبے
میں نے زبانی پیش کیے تھے۔ یہ مضمون انھی خطبات پر مبنی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
الہ آباد
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں