3/6/20

اکبر ا لٰہ آبادی– معاصر کلاسیکی غزل کے تناظر میں مضمون نگار: لطف الرحمن





اکبر ا لٰہ آبادی معاصر کلاسیکی غزل کے تناظر میں
لطف الرحمن
اردو شاعری میں ہماری ملاقات دو اکبر الہٰ آبادی سے ہوتی ہے۔ا لہٰ آباد کے ایک اکبر وہ ہیں جو جدید اردو شاعری کے اولین معماروں— آزاد، حالی، شبلی اور اسماعیل میرٹھی کے ہم نشیں ہیں اور — الہٰ آباد کے دوسرے اکبر وہ ہیں جو متأ خرین شعرائے اردو داغ، امیرمینائی، جلال لکھنوی، قلق، بحر وغیرہ کے ساتھ غزل خواں نظر آتے ہیں، یہ دونوں تخلیقی فرائض وہ بیک وقت انجام دے رہے ہیں۔ ’’کلیات اکبر ‘‘ مرتبہ نارنگ ساقی کے حصۂ اول کی دوسری غزل اس کا ثبوت ہے :
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا

بت کے بندے ملے، اللہ کا بندا نہ ملا
بزم یاراں سے پھری بادِ بہاری مایوس

ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا
گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش

طالب زمزمۂ بلبل شیدا نہ ملا
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے

کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم

رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے

شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبر

مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ ملا
اس غزل کا چوتھا، پانچواں اور چھٹا شعر ابتدائی تین شعروں اور مقطع سے کوئی سنجیدہ تخلیقی رابطہ نہیں رکھتالیکن یہی اکبر کا مخصوص رنگ کلام ہے جس نے ان کی پوری شاعری کا مزاج و معیار متعین کیا ہے۔
اکبر وحید الٰہ آبادی کے شاگرد تھے۔ وحید کا سلسلۂ تلمذ آتش دہلوی سے ملتا ہے۔ خواجہ محمد زکریا کے مطابق :
’’…اکبر الٰہ آبادی نے وحید الدین وحید متوطن کڑہ سے شروع شروع میں غزلیات پر اصلاح لی۔ وحید شیخ بشیر علی بشیر کڑوی کے شاگرد تھے اور بشیر نے مشورۂ سخن آتش سے لیا تھا... ‘‘
[اکبر الہٰ آبادی۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، ص294,295]
اکبر کی شعر گوئی کا آغاز کلاسیکی غزل کے پس منظر میں ہوا۔ آتش اور ناسخ کے عہد میں دبستان دلّی اور دبستان لکھنؤ کی حریفانہ کشمکش تاریخ ادب کا ایک نا قابل فراموش باب ہے، جس کی انتہا یہ ہے –
’’خود لکھنؤ میں شاعری کے دو مختلف اسکول قائم ہو گئے تھے۔ لیکن متاخرین شعرائے لکھنؤ کے دور تک یہ دونوں اسکول قائم نہ رہ سکے۔ بلکہ آتش و نا سخ اور دونوں کے تلامذہ کے رنگ سے مل جل کر ایک نیا مخلوط رنگ قائم ہوا اور متاخرین اساتذۂ لکھنؤ نے اسی مخلوط رنگ میں کہنا شروع کیا۔‘‘
[عبد السلام ندوی۔ شعر الہند، ص288]
دلّی اور لکھنؤ کے زوال و انتشار کے بعد ریاست رامپور شعرائے اردو کا نیا مرکز بنا۔ جہاں داغ، امیر مینائی، اسیر ، منیر، بحر، قلق، تسلیم، حیا اور جلال لکھنوی وغیرہ ایک ساتھ جمع ہو گئے۔ نتیجتاً دلّی اور لکھنؤ کے دبستانوں کے درمیان امتزاج و ہم آہنگی کی فضا پید اہوئی۔ ابتداء ً  تو یہ رنگ کلام بہت نمایاں نہیں ہوا، لیکن عبد السلام ندوی کے لفظوں میں :
’’تاہم جوں جوں زمانہ گزر تا جاتا تھا، داغ کی روش اس قدر مقبول ہوتی جاتی تھی کہ خود اساتذۂ لکھنؤ کو اس کے مقابلے میں اپنا کلام پھیکا نظر آتا تھا۔ اس بنا پر منشی امیر احمد صاحب مرحوم نے اپنی قدیم روش کو چھوڑ کر علانیہ داغ کا رنگ اختیار کرنا چاہا۔‘‘
[شعر الہند ، ص293]
معاصر کلاسیکی غزل گو شعرا میں داغ دبستانی عظمت کے مالک ہیں۔داغ کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دلی اور لکھنؤ کے لسانی اختلاف کو ختم کر کے ایک ایسی لسانی وحدت قائم کی جس کو ہندوستان گیر پیمانے پر قبولیت عام حاصل ہوئی۔ داغ نے قلعہ معلی کی ٹکسالی زبان اور دلی والوں کی روز مرہ اور عام بول چال کے دلکش امتزاج سے ایک منفرد اسلوب کو فروغ دیا۔ میرے نزدیک :
’’داغ نے جرأت کی معاملہ بندی اور مومن کی نفسیاتی اور واقعاتی تغزل کی سنجیدگی میں شوخی اور بانکپن کے امتزاج سے ایک نیا اسلوب پیدا کیا تھا جس کو فکری اور جمالیاتی سطح پر میر، درد، سودا اور غالب کی میراث ملی تھی۔ مگر لب و لہجہ داغ کا اپنا تھا۔ سلیقہ اپنا تھا۔‘‘
[نثر کی شعریات، ص31]
مگر غالب پرستی کے ہنگاموں اور جدید شاعری کے غلغلوں میں داغ کی انفرادیت نظر انداز ہو کر رہ گئی، حالانکہ وہ کلاسیکی تغزل کے آخری امین ہیں اور ایک مخصوص دبستان سخن کے موجد بھی اور خاتم بھی۔ داغ کے متعدد اشعار مشہور زمانہ ہیں اور ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں:
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں


وہ دنیا تھی، جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری

یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری


شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج

یہ برقِ  بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج


راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں


ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی

اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
امیر مینائی نے دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوںکے امتزاج سے ایک مخصوص رنگ سخن پید اکیا تھا۔ان کی آواز کی انفرادیت نمایاں سطح پر روشن ہو رہی تھی لیکن داغ کی مقبولیت نے ان پر کچھ اس طرح سحر طرازی کی کہ انھوں نے اپنا رنگ سخن ترک کر کے داغ کی پیروی شروع کر دی۔ یہ ایک عظیم نقصان ہوا اردو غزل کا۔ آتش نے جس طرح ناسخ کی مقبولیت کے زیر اثر ناسخ کی پیروی شروع کر دی تھی اسی طرح تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا۔ امیر مینائی کا اسلوب تو دور سے پہچانا جاتا تھا:
فنا کے بعد ایسے بیکسوں کو کون پوچھے گا

مگر اے بے کسی رویا کرے گی مجھ پہ تو برسوں


دل جو سینے میں راز سا ہے کچھ

غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
کل تو آفت تھی دل کی بیتابی

آج بھی بے قرار سا ہے کچھ


فرہاد پہ کیا گزری جو مجھ پر نہیں گزری

میں اپنے سوا کیوں کہوں افسانہ کسی کا
خنجر چلے کہیں پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
دبستان لکھنؤ کی حد سے زیادہ خارجیت کے رد عمل میں غالب کی روایت تغزل نے شعرا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ جلال لکھنوی غالب سے متاثر ہونے والے پہلے شاعر ہیں۔ غالب کے زیر اثر رعایت لفظی اور خیالی بندی کی جگہ فکری سنجیدگی نے لے لی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں لکھنؤ میں معیار پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ غالب کی زمینوں میں مشاعرے بر پا کیے گئے، یعنی خارجیت کے خلاف ایک تحریک چلی۔ غالب کے زیر اثر متاخرین کے طرز کلام میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔ خاص طور پر متاخرین کے دوسرے دور میں تو رنگ سخن بالکل ہی بدل گیا جس کا اثر عزیز ، صفی اور ثاقب پر نمایاں ہے– جلال لکھنوی نے دہلوی روایت سخن کے زیر اثر اخیر میں اثر آفریں شعری سرمایہ چھوڑا:
عدو کو خوش ہمیں ناشاد رکھنا

ذرا اے چرخ اس کو یاد رکھنا
کیا الفت نے جس کی ہم کو برباد

الٰہی تو اسے آباد رکھنا


نالہ کرنا دلِ حزیں نہ کہیں

چٹکیاں لے وہ نازنیں نہ کہیں


آئیں جو وہ تو آپ میں آئیں جلال بھی

اپنا بھی ان کے ساتھ اسے انتظار ہے
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

ملا وہ غم کدہ جس کو چراغ بھی نہ ملا
مگر غالب کے تتبع میں سب سے زیادہ کامیابی وحشت کو ملی جو متاخرین کے دوسرے دور میں تھے۔ وحشت نے داغ، امیر ، جلال کے اثرات بھی قبول کیے مگر وہ بنیادی طور پرجمالیات غالب کے زیر اثر رہے۔ دیوانِ وحشت (مطبوعہ1810) کی تعریف و تحسین حالی، شبلی اور اقبال نے بھی کی۔حالی نے واضح الفاظ میں یہ کہا–کہ وحشت نے تتبع غالب کا پورا پورا حق ادا کیا:
بسانِ دیدۂ بسمل زیارت گاہِ حسرت ہوں

مری ہر ہر نگہ فریاد کرتی ہے زباں ہو کر


میں سادہ لوح واقف رسم بتاں نہ تھا

اقرار عشق کر کے گنہ گار ہو گیا


مجال ترکِ محبت نہ ایک بار ہوئی

خیال ترکِ محبت تو بار بار آیا


اس نگاہ سرمگیں نے کر دیا رسوا ہمیں

ہائے وہ افسوں کہ جو آخر کو افسانہ ہوا


زبان بے زبانی کہہ رہی ہے داستاں میری

شکایت سنج ہوں میں کس کے جور بے نہایت کا
اس عہد کے ایک ممتاز و مفرد شاعر شاد عظیم آبادی ہیں۔ داغ کی طرح شاد بھی دبستانی اہمیت کے حامل ہیں۔ میں نے شاد کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’جرأت کی رنگینی کو شاد نے درد کی وجدانی کیفیت ، میر کے سوز و گداز ، سودا کی بلند آہنگی، آتش کے قلندرانہ خروش، مومن کی باطنی نغمگی اور غالب کے فلسفیانہ ذہن سے معتدل اور متوازن سطح پر ہم آہنگ ویک رنگ کر کے ایک ایسے اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں سادگی ، صفائی، متانت، پاکیزگی، معنوی اور انقلابی شعور کے پہلو بہ پہلو درد و سوز آرزو مندی ملتی ہے۔ یہ اسلوب بجائے خود ایک دبستانی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘
[نثر کی شعریات، ص34]
چند مثالیں :
سنی حکایت ہستی تو درمیاںسے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم


غضب نگاہ نے ساقی کی بندوبست کیا

شراب بعد کودی، سب کو پہلے مست کیا
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے واقف

ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں


یہ بزم مئے ہے یاں کو تاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
داغ و امیر کے ہم عصروں میں شیخ امداد، بحر لکھنوی (ولادت1810) خواجہ اسد علی خاں قلق، سید اسمٰعیل منیر شکوہ آبادی (ولادت1813 ) کا شمار محض اس بنا پر ہوتا ہے کہ سقوط دہلی کے بعد یہ سارے شعرا رام پور میں یک جا ہو گئے تھے لیکن رام پور سے وابستہ شعرا میں انفرادیت و امتیاز داغ و امیر ہی کو حاصل ہے۔
وحید الہٰ آبادی (1829-1892) بھی داغ و امیر کے ہم عصروں میں ہیں۔ وحید حسن پرست آدمی تھے۔ قمر الدین بدایونی کے مطابق:
’’الہٰ آباد کی کوئی حسین اور خوش گلو طوائف ایسی نہ تھی، جس کے ہاں نہ جاتے ہوں، بلا کے حسن دوست تھے، لیکن بدکاری سے کوسوں دور۔ امامن ،نصیبن اور ببّن کے ہاں زیادہ جاتے تھے۔‘‘
[بزم اکبر، ص33]
وحید اپنے ساتھ اکبر کو بھی کوٹھوں پر لے جاتے تھے۔ اکبر ستار بھی اچھا بجاتے تھے۔ ان کی دوسری شادی بھی ایک کم عمر نو خیز طوائف ’’بوٹا جان‘‘ سے ہوئی تھی جس کا جلد ہی انتقال ہو گیا۔
وحید کی حسن پرستی نے ان کے ذوق شعری کو بھی متغز لانہ انفرادیت بخشی۔ چند اشعار نمونتاً ملاحظہ فرمائیے :
ہم نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا

دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو


کچھ کہہ کے اس نے پھر مجھے دیوانہ کر دیا

اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا


وقت مجھ پر دو کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد


لب پہ کیا عذر گنہ لائیے آہوں کے سوا

عمر بھر ہم نے کیا کیا ہے گناہوں کے سوا


مرنے پر بھی نہیں بھولا مجھے دنیا کا خیال

کچھ اثر اب بھی ہے اے خواب پریشاں تیرا
وحید الہٰ آبادی کا کلام دستیاب نہیں مگر یہ اشعار ان کے متغز لانہ مزاج کی فصاحت و بلاغت اور تخلیقی اُپج کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اکبرالہٰ آبادی نے اپنے استاذ سے زبان و بیان ، روز مرہ اور محاورے کے استعمال میں مہارت حاصل کی۔ وحید کے زیر اثر ان پر لکھنوی رنگ بھی اثر انداز ہوا لیکن وحید اور آتش کی روایات شعری نے ان کو صوفیانہ رجحان و میلان سے بھی قریب کیا۔ اکبر کی سنجیدہ غزلوں میں سلاست و روانی اور قلندرانہ بانکپن کے ساتھ ہی تغزل کا حسن کا رانہ اظہار اسی روایت کا غمّاز ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
اک عکس نا تمام پہ عالم کو وجد ہے

کیا پوچھنا ہے آپ کے حسن و جمال کا


ہم آہ بھی کرتے  ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا


دوں گا ذرا سمجھ کے جواب ان کی بات کا

رخ دیکھتا ہوں، سلسلۂ واقعات کا


گل کو خنداں، بلبلوں کو نوحہ گر دیکھا کیے

باغ عالم کی دورنگی عمر بھر دیکھا کیے


گو بہت کچھ رنج یاران وطن سے تھا ہمیں

آنکھ میں آنسو مگر وقت سفر آہی گیا


اجل سے وہ ڈریں جینے کو جو اچھا سمجھتے ہیں

یہاں ہم چار دن کی زندگی کو کیا سمجھتے ہیں


تمھی سے ہوئی مجھ کو الفت کچھ ایسی

نہ تھی ورنہ میری طبیعت کچھ ایسی


دکھلاتے ہیں بت جلوۂ مستانہ کسی کا

یاں کعبۂ مقصود ہے دیوانہ کسی کا


رہا مرنے کی تیاری میں مصروف

مرا کام اور اس دنیا میں کیا تھا


شعر اکبر میں کوئی کشف و کرامات نہیں

دل پہ گزری ہوئی ہے اور کوئی بات نہیں


وہی نگاہ جو رکھتی ہے مست رندوں کو

غضب یہ ہے کہ کبھی محتسب بھی ہوتی ہے


سمجھ میں صاف آجائے فصاحت اس کو کہتے ہیں

اثر ہو سننے والوں پر بلاغت اس کو کہتے ہیں
معاصر کلاسیکی شعرا کے اسی پس منظر میں اکبر کی شاعری ارتقائی مرحلوں سے گزری۔ملکہ خدا داد اور مشق و ممارست نے اکبر الہٰ آبادی کو مصحفی کی طرح ہر رنگ سخن میں شعر گوئی کی قدرت بخش دی تھی۔ وہ فارسی شعری روایت کا بھی معتبر شعور رکھتے تھے اور اردو کی کلاسیکی روایات کی آ گہی بھی۔ اکبر بتدریج ایک سنجیدہ غزل گو کی حیثیت سے اپنے منفرد لب و لہجے کی تشکیل کی راہ پر گامزن تھے، کہ اسی درمیان انھوں نے اچانک اپنا اسلوب سخن بدل دیا اور انشاء اللہ خاں انشا کی طرح اپنے فن کے ساتھ بے مثال بد سلوکی کی۔ یعنی سنجیدہ غزل گوئی سے زیادہ وہ طنزیہ و ظریفانہ غزل گوئی کی طرف ما ئل ہو گئے۔ یہ انقلاب عصری پس منظر کی دین تھا۔
انقلاب 1857 کے بعد مسلمانوں کی معاشرتی، علمی اور اقتصادی حالت زوال و انحطاط کے نازک مرحلوں پر پہنچ گئی تھی۔ چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے غصب کی تھی اور انقلاب 1857 کی سر براہی بہادر شاہ ظفر نے کی تھی، اس لیے انگریزوں نے مسلمانوں سے اس کا بد ترین انتقام لیا۔ سقوط دہلی کے بعد دہلی ، الہٰ آباد، میرٹھ، آگرہ اور پنجاب وغیرہ میں وسیع پیمانے پر خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جس کی تفصیل تاریخی و ادبی کتابوں میں موجود ہے– جب انگریزوں کی حکومت مستحکم ہوئی تو عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں نے بیک وقت اسلام اور بانیِ اسلام کی ذات پر حملے شروع کر دیے۔ سر سید نے 1857 کے لیے صرف مسلمانوں کو ذمے دار ٹھہرائے جانے کے موقف کی تردید میں ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھی اور عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں سے مناظر ے کیے۔مسلمانوں کا نام نہاد اشرافیہ طبقہ جو اپنے حال میں مست تھا اور بتدریج غربت و جہالت میں غرق ہوتا جا رہا تھا، اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سر سید نے        ’’ علی گڑھ تحریک ‘‘کی بنیاد رکھی تھی جس نے انگریزی تعلیم و تہذیب کے حصول کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا۔ تعلیم نسواں کی تحریک چلائی، تجارت کی طرف ما ئل کیا، حرمت سود پر مضامین لکھے اور مسلمانوں کو سود کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک پوری قومی و معاشرتی زندگی پر محیط تھی۔ اپنی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے انھوں نے زبان و ادب میں بھی انقلاب کا صور پھونکا۔ حالی، شبلی اور نذیر احمد وغیرہ نے اس تحریک کو عوامی مقبولیت سے ہم کنار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن المیہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا نام نہاد اشرافیہ طبقہ ان کا مخالف ہو گیا۔ خاص طور پر مخالفین میں ایسے لوگ زیادہ متحرک رہے جو خود انگریزی سرکار کے ملازم تھے۔ جنھوں نے انگریزی پڑھی تھی، جن کے گھروں میں انگریزی طور طریقے رائج تھے مگر جو عام مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں علمی و اقتصادی ترقی کے بوجوہ مخالف تھے۔ اس طرح سر سید کے مخالفین کی ایک جماعت سر گرم عمل ہو گئی۔ المیہ یہ ہوا کہ اکبر بھی اسی جماعت سے وابستہ ہو گئے۔ اکبر کے علاوہ ڈپٹی کلکٹر امداد العلی، واحد علی خاں اور    نبی بخش خاں وغیرہ زیادہ شدت پسند تھے۔ جمال الدین افغانی اپنی ’’پان اسلامی تحریک‘‘ کے سلسلے میں تین سال ہندوسان میں قیام پذیر رہے۔ انھوں نے بھی اپنے مضمون ’’ہندوستانی نیچری‘‘ میں سر سید کو ملحد قرار دینے پر اپنا زور قلم زیادہ صرف کیا جس نے سر سید کی مخالفت کے سنہری مواقع فراہم کر دیے۔ اس جماعت نے سر سید کو ملحد، بے دین، کافر، نیچری، غرض کہ کیا کچھ نہ کہا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں ’’اودھ پنچ‘‘ اخبار کا اجرا ہوا جس کے مدیر منشی سجاد حسین تھے۔ 1877 کے بعد ’’اودھ پنچ‘‘ کا بنیادی مقصد سر سید اور علی گڑھ تحریک کو ملعون و مرد و دہی کرنا رہ گیا تھا۔ اکبر بھی ’’اودھ پنچ‘‘ کے رنگ میں رنگ گئے۔ مثالیں دیکھیے:
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے

شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا


یوں قتل سے لڑکوں کے وہ بد نام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی


نئی تہذیب کے ساقی نے اتنی گرم جوشی کی

کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی


علی گڑھ کو شرف بخشا ہے اقبالِ نصاریٰ کا

کہ جو مسلم اٹھا شوق ترقی میں یہیں آیا


ایمان بیچنے پہ ہیں سب تلے ہوئے

لیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سے


ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں


وہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے

کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا


راہ مغرب میں یہ لڑکے لٹ گئے

واں نہ پہنچے اور ہم سے چھٹ گئے


سید سے علی گڑھ میں یہ جا کر کوئی کہہ دے

ہے تجھ کو طلب قوم کی قسمت سے زیادہ


کہے کوئی شیخ سے یہ جا کر کہ دیکھیں آکر وہ بزم سید

یہ رونق اور چہل پہل ہو تو کیا برا ہے گناہ کرنا
ایسی سینکڑوں مثالیں کلیات اکبر میں موجود ہیں۔
مخالفین سر سید بنیادی طور پر قدامت پسندی اور ماضی پرستی کے شکار تھے مگر اس سے زیادہ دور رسی اور دوربینی کی صلاحیتوں سے محروم تھے۔1857 کی قیامت صغریٰ کے بعد قوم کو زوال و ادبار سے محفوظ اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سر سید کی تحریک دور رس فراست و حکمت عمل پر مبنی تھی۔ اکبر اور ان کے گروہ کے لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ ان لوگوں سے زیادہ روشن خیالی، دور بینی اور ہوش مندی تو غالب کے یہاں ملتی ہے جنھوں نے سر سید کو انگریزی علوم و ایجادات کی طرف متوجہ کیا۔ مزید یہ کہ ان لوگوں نے سر سید کے جس موقف کی مخالف کی، خود عملی زندگی میں اسی پر عمل پیرا تھے۔ اکبر الہٰ آبادی ہی کی مثال سامنے رکھیں۔
اکبر نے خود مشن اسکول میں تعلیم پائی تھی۔ انگریزی اس حد تک سیکھ لی تھی کہ ملازمت کے آخری دنوں میں فیصلے انگریزی ہی میں لکھنے لگے تھے۔ سر سید کے صاحبزادے سید محمود بیرسٹری کی تعلیم کے لیے لندن گئے تو اکبر نے بھی اپنے بیٹے عشرت حسین کو اسی مقصد کے لیے لندن بھیجا۔ ٹائپ اور پائپ سے نفرت تھی مگر اس کے بغیر کام چل ہی نہ سکتا تھا۔ اس حیثیت سے اکبر کی عملی زندگی اور ان کے تعلیمی، سماجی اور معاشرتی نقطۂ نظر میں تضاد ہی تضاد تھا۔ چنانچہ اکبر کو قدامت پسند یا ماضی پرست کہہ کر مسئلے کو  پسِ پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کے اسباب و علل کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ ماہر نفسیات اور مشہور افسانہ نگار و نقاد پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں:
’’چنانچہ ان (اکبر) کے اندر بھی ویسی ہی مقبولیت، ویسے ہی اعزاز و عظمت کی تمنا کروٹیں لیتی رہی جو ان کے ہم عصر سر سید کو حاصل تھی، لیکن قوم و ملت نے سر سید کی جیسی قدر شناسی کی، مسلم پبلک کے ایک بڑے تعلیم یافتہ اور سر بر آوردہ حلقے میں ان کی جیسی آؤ بھگت ہوئی، اکبر الہٰ آبادی اس سے محروم رہے۔ سرکار برطانیہ نے بھی جس کے وہ نمک خوار تھے جہاں سر سید کو سر کے خطاب سے نوازا، انھیں صرف خان بہادری کے قابل سمجھا۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید کے لیے رشک و عناد کے جذبات اکبر الہٰ آبادی کے اندر پرورش پانے لگے۔ چنانچہ سر سید کی شاید واحد ذات ہے جسے انھوں نے بہ حیثیت فرد کے اپنی طنزیہ شاعری کا نشانہ بنایا ہے۔ سر سید کو ملعون و مطعون کرنے میں انھوں نے کوئی کسر چھوڑ نہ رکھی۔ انھیں ملحد، دشمن دین و ایمان، نیچری، بندۂ حبّ جاہ، مغربی تہذیب کا پرستار وغیرہ کیا کیا نہ کہا—‘‘
[جائزے ، ص40]
اکبر کو مصلح قوم بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا نتیجہ ہے۔ اکبر نے مسلمانوں کی قدامت پسندی ، تو ہم پرستی، رسم و رواج کی بے لچک پابندی، تقلیدی رویے، جہالت و غربت، معاشرتی و اقتصادی پس ماندگی کو موضوع فن بنایا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ اکبر مصلح کی حیثیت رکھتے تھے مگر اس کے بر عکس جن لوگوں نے مسلمانوں کی ترقی کے لیے ہمہ جہت مثبت اصلاحی تحریکیں چلائیں، اکبر نے انھی کی راہیں مسدود کیں جس سے مسلمانوں کو دور رس نقصانات پہنچے۔ اکبر یہی نہیں کہ رجعت پسند تھے بلکہ شدید احساس کمتری کا شکار تھے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی تو ایک اور سبب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
’’غالباً اکبر الہٰ آبادی اپنی جوانی کے زمانے ہی سے کلبیت زدہ (Cynic)تھے اور حقائق کو اپنے تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ وہ حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود حقیقت پسند نہیں ہو پائے۔‘‘
[سر سید احمد خاں اور جدت پسندی، ص46]
اکبر نے عمر کے آخری پچیس سالوں میں سر سید کی مخالفت ترک کر کے ان کی ہمنوائی شروع کر دی تھی۔ مولوی فرید الدین سب جج (رئیس کڑا) نے اکبر کو اپنے موقف پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کیا– ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے لفظوں میں:
’’انھوں نے وہی کام کیا جو حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن ؒ گنج مراد آبادی کی ہدایت پر نظامی پریس کے مالک عبد الرحمن خاں نے کیا تھا۔ یعنی سر سید کی مخالفت سے دست کشی، شاہ فضل الرحمن ؒ نے فرمایا تھا–سر سید احمد خاں کی نیت صاف ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں، ان کے خلاف مہم بند کی جائے۔(مولانا عبد الرحمن کانپوری)‘‘
[سر سید احمد خاں اور جدت پسندی، ص50]
یہ واقعہ 1894 کے بعد کا ہے، مگر افسوس کہ اکبر کے ذہن و فکر کی اس تبدیلی کے بعد سر سید بہت زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکے، 1898 میں ان کی رحلت ہو گئی۔ا گرچہ اکبر نے اس کے بعد اپنی آخری سانسوں تک سر سید کے نقطۂ نظر کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا لیکن سر سید کی تحریک کو جتنا نقصان پہنچا سکتے تھے پہونچا چکے تھے جس کا کفارہ ادا کرنا ان کے بس میں نہیں رہ گیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ وہ ابتدا میں Human Resources  کی اہمیت سے کماحقہ واقف نہیں تھے۔ سر سید کی حمایت میں ان کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں:
مفر نہیں ہے ہمیں خانقاہ سید سے

قفس میں ہیں تو اس اڈے کو چھوڑ جائیں کہاں
علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلق سے کہتے ہیں:
سب جانتے ہیں کہ علم سے ہے زندگی کی روح

بے علم ہے اگر تو وہ انساں ہے نا تمام
تعلیم گر نہیں ہے زمانے کے حسب حال

نیچر کا اقتضا ہے رہے بن کے وہ غلام
سید کے دل پہ نقش ہوا اس خیال کا

ڈالی بنائے مدرسہ لے کر خدا کا نام
صدمے اٹھائے، رنج سہے، گالیاں سنیں

لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام
سر سید کی وفات پر اس تاثر کا اظہار کیا :
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا

نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
اکبر کے قومی معاشرتی اور اقتصادی نقطۂ نظر سے الگ جدید اردو شاعری کے اولین معماروں میں ان کا نام نا قابل فراموش اہمیت رکھتا ہے۔
جدید شاعری کی سب سے پہلی آواز تو محمد حسین آزاد نے بلند کی۔ پھر حالی ان کے ہم نوا ہوئے۔ علی گڑھ تحریک نے انقلابی ذہن و شعور کی تربیت و تہذیب کے لیے ادب کو آلہ کار بنایا تو جدید شاعری کو زیادہ فروغ ہوا۔ جدید شاعری کے اولین معماروں میں حالی، شبلی تو بہ طورخاص تحریک علی گڑھ سے وابستہ ہیں مگر آزاد اور اسمعٰیل نے اپنے اپنے طور پر اردو شاعری کے دامن میں وسعت اور تنوع پیدا کیا۔ اکبر نے بھی اردو شاعری کے دائرۂ کار میں نیرنگی پیدا کی۔ انھوں نے غزل ، قطعہ، رباعی اور نظم کی صنفوں اور مخمس وغیرہ میں اپنے جمالیاتی تجربے کا اظہار کیا۔ صنف غزل کو سیاسی علایم و رموز سے تو حالی ہی نے سب سے پہلے روشناس کیا۔ ہندوستان کی سیاسی فرقہ بندی پر حالی لکھتے ہیں :
کبک و قمری میں یہ جھگڑا ہے چمن کس کا ہے

کل بتا دے گی خزاں یہ کہ وطن کس کا ہے
قومی پس ماندگی اور زبوں حالی کی تصویر کشی دیکھیے :
یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا

ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے


پھر زخم پھوٹ نکلا، حالی نہ چھیڑنا تھا

فصل خزاں کا قصۂ ذکر گل و سمن میں
گو رو چکے ہیں دکھڑا سو بار قوم کا ہم

پر تازگی وہی ہے اس قصہ کہن میں
اس باغ کی خزاں نے کچھ خاک سی اڑا دی

فصل بہار گویا آئی نہ تھی چمن میں
آزاد کے یہاں بھی غزلیہ اشعار میں سیاسی مضامین خوبصورتی کے ساتھ ادا ہوئے ہیں۔ حالانکہ آزاد نے نظم گوئی پر توجہ مرکوز کر دی تھی :
جو آغاز ہے یہ خدایا ہمارا

تو انجام دیکھیں گے ہو کیا ہمارا
جنوں نے جو کی فصل گل کی رفاقت

تو دیکھو گے تم بھی تماشا ہمارا
تمھاری جفائیں، ہماری وفائیں

یہ قصے بھی ہوں گے سنانے کے قابل


قیدیانِ زلف پر کیا جانے شب کیوں کر کٹی

آج زنداں سے نہیں اٹھی صدا فریاد کی
سروساں زنجیر الفت سے ہے پابند چمن

نام کو آزاد ہے، حالت ہے یہ آزاد کی
اسمعٰیل میرٹھی بھی بنیادی طور پر نظم نگار ہیں، مگر اپنے ابتدائی غزلیہ اشعار میں کہتے ہیں:
غایتِ ترکیب اعضا ہے یہی کچھ کام کر

کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا
جرم بھی اور خیرگی، یہ سیرتِ ابلیس ہے

ابن آدم کو ہے شایاں عذر ہی تقصیر کا
اگر آدمی کو نہ ہو مشغلہ کچھ

بہشت بریں میں ہے دشوار رہنا
خبر بھی ہے آدم سے جنت چھٹی کیوں

خلاف جبلّت ہے بیکار رہنا
مگر حقیقت یہ ہے کہ اکبر نے غزل میں نہ صرف یہ کہ سیاسی علائم اور رموز کو زیادہ سے زیادہ جگہ دی بلکہ غزل کی لفظیات میں گراں قدر اضافے کیے اور ایسے الفاط کو بھی غزل کی لغت میں شامل کیا جن کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ پرانے علائم و رموز کو بھی انھوں نے عصری سیاق و سباق میں نئے سیاسی معانی و مفاہیم دیے جس کی وجہ سے جدید اردو شاعری اور خصوصیت کے ساتھ اردو غزل میں ہمہ جہت انقلاب اور وسعت و رفعت پیدا ہوئی۔ انھوںنے غزل کو ظریفانہ و طنزیہ اسلوب سے جمالیاتی رفعت و نزاکت کے ساتھ ہم آہنگ کیا یہاں تک کہ وہ اس اسلوب سخن کے موجد بھی ہوئے اور خاتم بھی۔
مختصر یہ کہ معاصر کلاسیکی غزل گوئی کی تاریخ میں اکبر الہٰ آبادی کی کلاسیکی اہمیت اتنی ممتاز و منفرد نہیں لیکن انھوں نے کلاسیکی روایات کی بنیاد پر ایک جہان نو کی تعمیر کی جس نے انھیں لازوال جمالیاتی عظمت کا مالک بنا دیا۔


پتہ:
لطف الرحمن
Sapna Apartment
Naya Tola, Patna- 800006
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں