4/6/20

اردو ڈراما: تنقیدی و تحقیقی تناظر مضمون نگار: محمد شاہد حسین




اردو ڈراما: تنقیدی و تحقیقی تناظر
محمد شاہد حسین
ڈرامے صرف ادبی کارنامے ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے ذریعے کسی قوم کے تہذیبی عناصر کو اظہار کا وسیلہ بھی ملتا ہے۔ چنانچہ اردو ڈرامے میں بر صغیر کے معاشرے کی عکاسی اور اس کے تہذیبی عناصر اور فنی عوامل کا راہ پا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ مگر بد قسمتی سے اردو ڈرامے کو ابتدا سے ہی مغربی ڈرامے کے فنی معیار پر پرکھا جانے لگا اور اس لحاظ سے اس میں کوئی کمی پائی گئی تو اسے اردو ڈرامے کے نقائص پر محمول کیا گیا اور ایسا کرتے ہوئے ان تمام وسائل سے رشتہ منقطع کر لیا گیا جن میں ایشیائی تہذیبی روایات نے اظہار پایا تھا۔ اسی لیے اردو ڈرامے کے اکثر نقاد اس کی روح، اس کے معیار اور اقدار کو پہچاننے میں ناکام رہے اور اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کرتے رہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کسی دور، کسی علاقے اور کسی ادب کے مخصوص مزاج کو سمجھے بغیر کوئی فیصلہ کسی صنف پر صادر کیا جا سکتا ہے۔ اردو ڈرامے کے مزاج کو دیکھا جائے تو اتنی بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ یہ محض مانگے کا اجالا نہیں نہ محض مغرب کی دین ہے بلکہ اس کی جڑیں اس متاع گم شدہ سے جا ملتی ہیں جو سنسکرت ڈرامے کے زوال کے بعد یہاں لوک ناٹک کی شکل میں بکھری ہوئی تھیں۔ اردو ڈراما اس متاع گم شدہ کی ایک اہم کڑی ہے جو واجد علی شاہ کے رہس اور امانت اور مداری لال کی اندر سبھاؤں کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ چنانچہ اس کا مطالعہ اس پس منظر میں کیا جانا چاہیے۔
دراصل اردو ڈراما انیسویں صدی کے نصف اول کے عوامی ڈرامے کی روایات سے اثر لے کر ایک تفریحی مشغلے کے طور پر ظہور پذیر ہوا۔ اس دور کے سماجی، ثقافتی اور تہذیبی عناصر سے اس کا خمیر تیار ہوا۔ یعنی یہ ڈرامے خالص ہندوستانی مزاج کے حامل ہیں۔ ابھی تک ان پر جو تنقید لکھی گئی ہے اس میں اس کی ہندوستانیت کو نظر انداز کر کے طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ مثلاً ان پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حقیقت نگاری سے مبرا ہیں۔
بر صغیر کے روایتی ڈرامو ں میں حقیقت پیش کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ زمانۂ قدیم سے ہی یہاں کے ڈراموں میں فوق فطری اور تخیلی کردار و واقعات کار فرما رہے ہیں۔ اس کی وجہ ایک خاص ایشیائی مزاج اور ایک مخصوص طرز فکر ہے اور اس مخصوص طرز فکر نے حقیقی زندگی کی گھٹن کو دور کرنے کے لیے اپنے گرد تصوراتی زندگی کا ایک جال بنا رکھا ہے۔ جس سے وہ غمگین لمحات میں روشنی اور مسرت حاصل کرتا ہے اور یہاں کی زندگی سے اس طرح وابستہ ہے کہ ’’اس کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ عرف عام میں اسے صنمیاتی زندگی کہتے ہیں۔ (1)
یہ بھی اعتراض ہے کہ اردو ڈراموں کے پلاٹ میں وہ گٹھاؤ اور وہ تراش خراش نہیں جو حقیقت نگاری کے ذریعے مغربی ڈرامے میں پیدا کی جاتی ہے۔ کہانی اور پلاٹ یہاں بھی ہوتا ہے اور ناظرین کو کہانی کے کسی انجام تک پہنچنے کا کسی قدر انتظار بھی رہتا ہے لیکن یہاں کے ڈراما نگاروں کا مقصد اتنا منزل پر پہنچنا نہیں ہوتا جتنا راہ کے منظر نامے سے نئی کیفیات پیدا کرنا، اسی لیے ہمارے ناظرین غزل، گیت، ٹھمری اور رقص کے ذریعے کہانی کے نت نئے موڑ لینے کی بہ نسبت زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اردو کے ابتدائی ڈراموں کے فوق فطری واقعات و کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور لالہ کنور سین نے کہا کہ ’’پری آتشی اور انسان خاکی ہے، اس لیے ان کا ملاپ ممکن نہیں۔‘‘
عقلاً تو یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر روایت اور سماجی حالات کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ جس زمانے میں یہ ڈرامے لکھے گئے اس وقت لوگ فوق فطری عناصر پر یقین رکھتے تھے اور اسی لیے فوق فطری واقعات ان کی دلچسپی کا باعث ہوتے تھے۔ مزید یہ کہ داستانوں اور مثنویوںمیں بھی یہی چیزیں ہوتی تھیں۔ ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا ۔ ڈرامے میں تو یہ چیزیں وہیں سے آئی ہیں۔
پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پری، دیو، شاہ، جن،  راجہ اندر کا نام تو ان کے کرداروں کو قصے کی ضرورت کے تحت دے دیا گیا۔ ورنہ ان کے اندر وہ تمام انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انھیں اس وقت کے معاشرے کا فرد بناتی ہیں۔ یہ کردار طنز کرتے ہیں، طنز سے متا ثر بھی ہوتے ہیں، یہ اپنی انا کا اظہار بھی کرتے ہیں اور انا کے مجروح ہو جانے پر بے چین بھی ہو جاتے ہیں یہ اپنی فوق فطری قوت کے باوجود بے بس بھی دکھائی دیتے ہیں، خواہ یہ بے بسی گلفام کی ہو، سبز پری کی ہو یا راجہ اندر کی۔ غم و غصہ ، پیار محبت، خوف و طمع اور بغض و عداوت کی انسانی صفات ان میں پوری طرح پائی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ سب کردار اپنی بول چال اور عادات و اطوار کے اعتبار سے فوق فطری مخلوق کے بجائے اپنے معاشرے کے افراد معلوم ہوتے ہیں۔
اردو کے ابتدائی ڈراموں پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ان کا موضوع ہمیشہ عشق پر مبنی ہوتا ہے جس میں انتہا پسندی بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسے بھی بہت سے اردو ڈرامے ہیں جن کا موضوع عشق نہیں۔ مثال کے طور پر رونق کا ڈراما ’’غرور رعد شاہ عرف چندا حور اور خورشید نور‘‘ کا موضوع نیکی اور بدی کا ٹکراؤ ہے۔ اسی طرح آغا حشر کے بہت سے ڈرامے ہیں جو سماجی اور اصلاحی موضوعات کو لے کر لکھے گئے ہیں۔جیسے ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ ، یہودی کی لڑکی ‘‘، ’’دل کی پیاس‘‘ ، ’’بھارتی بالک‘‘ ، ’’شیر کی گرج عرف نعرۂ توحید‘‘ اور ’’سورداس عرف بلوا منگل ‘‘ اگر زیادہ ڈرامے عشق کے موضوع پر ہیں تو عشق انسانی جذبات میں شدید ترین جذبہ ہے۔ اگر اس کی عکاسی ڈرامے میں ہوتی ہے تو کیا ہرج ہے۔ رہی بات شدت کی تو مبالغہ ایشیائی فن کی خصوصیت ہے۔
ان ڈراموں پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ان کے پلاٹ میں تعمیرِ قصہ پر زور نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے اس کا پلاٹ گٹھا ہوا نہیں ہے، یہ ڈرامائی عمل، کش مکش اور تصادم سے بھی محروم ہے۔ دراصل ہندوستانی ڈراما پلاٹ کی ساخت اور چستی پر زور نہیںد یتا، یہاں تک کہ بھرت منی اسے ڈرامے کے بنیادی اجزا میں بھی شمار نہیں کرتے، یہاں تصادم برائے نام ہوتا ہے۔ سنسکرت ڈراما نگار تصادم کے ذریعے نقطۂ عروج پیدا نہیں کرتے بس ہلکے پھلکے تصادم سے صرف واقعہ پیدا کرنے کا کام لیتے ہیں۔بعدہ‘ اسے رس اور بھاؤ سے سجاتے ہیں، کیونکہ قدیم  ہندوستانی ڈرامے میں جو چیز بھی ڈرامائی فن میں ڈھالی جاتی وہ جمالیاتی حظ کے اس لطف آ گیں تجربے کے تحت ہوتی جسے ’’رس‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں پورا ڈراما اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ شروع اسی سے ہوتا ہے اور ختم بھی اسی پر ہوتا ہے۔ ارد و ڈرامے پر بلا واسطہ یا بالواسطہ اسی روایت کا اثر ہے۔ مزید یہ کہ مغرب میں جہد للبقا کے نظریے پر عمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے شدید کش مکش اور تصادم پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ’’سکھا شیم‘‘ اور ’’جیو اور جینے دو ‘‘ کا نظریہ کار فرما ہے اس لیے یہاں تصادم اور ٹکراؤ کم ہے۔ پھر مغربی ڈرامے کی محبوب ترین صنف المیہ ہے اور المیہ میں تاثر پیدا کرنے کے لیے شدید کش مکش اور تصادم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہندوستانی ڈراما المیے کو سرے سے خارج کرتا ہے اس لیے اس میں شدید تصادم اور کش مکش کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اردو ڈراموںپر ایک اعتراض یہ ہے کہ ان میں رقص و موسیقی کی بہتات ہے اور بعض لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ یہ ڈرامے نہیں بلکہ رقص و سرود کی محفلیں ہیں۔ جس زمانے میں یہ ڈرامے لکھے جا رہے تھے اس وقت آج کی طرح گونا گوں وسائلِ تفریح میسر نہ تھے۔ رقص، موسیقی اور شاعری تفریح کے بنیادی ذرائع تھے۔ اور ہندوستانی معاشرے میں تو رقص اور موسیقی نہ صرف تفریحی مشغلہ تھا بلکہ پوجا اور عبادت کا درجہ رکھتا تھا۔ کلاسیکی ہندوستانی موسیقی میں مذہبی نظام فکر سے یکجائی اس درجہ قریبی ہے کہ موسیقی سے حاصل ہونے والی کیفیات کو آنند کا وہی درجہ دیا گیا جو مذہبی تپسیا اور ریاضت کا مقصد ہے، اور خالص ڈرامائی تعلق سے بات کریں تو اوپر بیان ہوا کہ ہندوستانی ڈرامے کا مقصد ’’رس‘‘ پیدا کرنا ہے اور بقول صفدر آہ ’’رس‘‘ سب سے زیادہ آسانی سے رقص و موسیقی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اردو ڈراما ’’دو چار گھڑی دل لگی کی صورت ‘‘ کے لیے وجود میں آیا تھا چنانچہ وہ رقص و موسیقی سے گریز کیسے کر سکتا تھا۔
اردو کے ابتدائی ڈراموں کو اس نقطۂ نظر سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ان میں کردار نگاری مفقود ہے، یہ بات پورے طور پر درست نہیں ہے۔ ان میں فنی نقطۂ نظر سے معیاری کردار کے نمونے بھی ملیں گے مثال کے طور پر اندر سبھا امانت میں سبز پری کا کردار نہایت فعال اور متحرک کردار ہے اور فنی نقطۂ نظر سے ارتقائی بھی۔
رونق کے ڈرامے ’’خون عاشق جاں باز‘‘ کا ’’اسفل ‘‘ اور ’’مست ناز‘‘ ارتقائی کردار ہیں۔ طالب بنارسی کے یہاں بھی کردار نگاری کی اچھی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ آغا حشر کے یہاں تو مثالی اور ارتقائی دونوں طرح کے کردار موجود ہیں۔ ان کے ارتقائی کرداروں میں ’’سلور کنگ‘‘ کے افضل اور ابو،  ’’سفید خون‘‘ کے بیرم اور ارسلان، ’’یہودی کی لڑکی‘‘ کی عذرا،  ’’عشق اور فرض‘‘ کا سہراب اور بہرام اور ’’خوبصورت بلا‘‘ کے توفیق کا شمار جا سکتا ہے۔ اس طرح ان کے مثالی کردار ’’خوبصورت بلا‘‘ کی شمسہ اور طاہرہ، سلور کنگ‘‘ کی پروین ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ کی سروجنی ہیں۔
مزید یہ کہ اردو ڈرامے پر ابتدائی تنقید نہ تو فن کے نقطۂ نظر سے تھی اور نہ ہی تکنیک کے اور نہ ہی ادب کے بلکہ اس کا اخلاقی پہلو تنقید کی زد میں آیا، اور بقول ابراہیم یوسف ’’اس کے باعث عرصے تک ڈراما فن شریف ہونے کے لیے ترستا رہا۔‘‘
ابتدا میں امانت نے خود اپنی تخلیق سے بھی اپنی ذات کو منسوب کرنا مناسب نہ سمجھا اور ’’اندر سبھا‘‘ کی غزلوں میں امانت کے بجائے استاد تخلص اختیار کیا۔ ناصر لکھنوی نے اپنے تذکرے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ میں لکھا کہ :
’’غرض کہ یہ اندر سبھا خوب چمکی اور مشہور خلائق ہوئی ۔ جیسے کہ میر حسن کی مثنوی سے ہزار ہا عورتیں فاحشہ ہو گئیں ویسے ہی اس مثنوی اندر سبھا سے ہزار ہا مرد لوطی اور مغلم ہو گئے۔‘‘ (2)
مولوی نذیر احمد نے ’’توبتہ النصوح ‘‘ میں جن کتابوں کو ’’سوختنی و دریدنی‘‘ قرار دیا ہے ان میں ’’اندر سبھا‘‘ بھی ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستان میں انگریزوں کے عروج کے ساتھ ساتھ مغربی اثرات کے تحت بمبئی میں اردو ڈرامے پھولے پھلے، پارسی لوگوں نے اسے تجارتی ضرورتوں سے متعلق کر کے ایک نیا رخ دیا مگر یہ رخ نہ تو پورے طور پر مغربی تھا اور نہ مشرقی۔ پارسی اسٹیج کے ابتدائی ڈراما نگار نہ مغرب کے ڈرامے سے واقف تھے نہ سنسکرت ڈرامے سے۔ اسی لیے کوئی صحت مند ڈرامائی تنقید وہاں بھی نہ پنپ سکی۔ البتہ ترجمہ و تلخیص کے اثر سے اتنا ہوا کہ ڈرامے کی زبان و بیان اور پلاٹ پر بات کی جانے لگی تھی۔ چنانچہ ’’خورشید ‘‘ کے دیباچے میں بہرام جی فریدوں جی مر زبان لکھتے ہیں:
’’اس کھیل کو اپنے حوصلے کے موافق سلیس اور روزمرہ ہندی زبان میں لکھا۔ تاکہ وہ پارسیوں اور ہندوؤں کے لیے بھی آسان ہو اور سمجھ میں آئے۔ ترجمہ کیا کیوں کہ سخت فارسی عربی عبارت سمجھنا اکثروں کے لیے مشکل ہے۔ ‘‘ (3)
اس وقت کے زیادہ تر ڈرامے منظوم ہوتے تھے۔ لہٰذا الف خاں حباب اپنے ڈرامے ’’شرر عشق طلسم ارض العمان ‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’اب شائقینِ باریک بیں کی خدمت میں التجا ہے کہ ہر زبان کی سند اہل زبان سے ہے، اسی طرح اردو کی شاعری کے واسطے پیروی زبان فصیح لکھنؤ اور اردوئے معلی دہلی کی چاہیے… گوناٹک میں زیادہ بلاغت نہیں، فصاحت اور شیریں کلامی تو ضرور ہے، ہر چند کہ ناٹک ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ جب سخن ور جوہر پہچاننے والے سنیں تو ہنسی ہو۔ اور غلطی فاش ثابت ہو۔ یعنی ٹھمریوں میں ترکیب اضافت فارسی کی نہ ہو اور غزل میں متروک الفاظ نہ آئیں۔ ‘‘ (4)
بہر حال اس سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ زبان و بیان کی درستگی اور فصاحت و بلاغت کا خیال پیدا ہو رہا تھا۔ اور شاید اس لیے ہو کہ مرزا محمد ہادی رسوا نے اپنے دور کے ڈراموں کی زبان کو مچھلی بازار کی زبان کہا تھا۔
عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں:
’’میاں امانت نے … اپنی اندر سبھا تصنیف کی جس میں ہندوؤں کی دیو مالا میں مسلمانوں کے فارسی مذاق کی آمیزش کا پہلا نمونہ نظر آیا۔ اس مذاق نے ڈراما اور تھیٹر کی مضبوط بنیاد ڈال دی تھی۔ اگر چند روز اور شاہی کا دور رہتا تو بہت اچھے اصولوں پر خالص ہندوستانی ناٹک ایک خاص صورت پیدا کر لیتا، جو بالکل اچھوتی اور ہندوستانی مذاق میں ڈوبی ہوتی۔ ‘‘ (5)
عبد الحلیم شرر نے سب سے پہلے ہندوستانی مذاق کے قومی تھیٹر کی ضرورت محسوس کی مگر پارسی تھیٹر اس طرح ذہنوں پر چھا گیا کہ اردو ڈراما مغربی زلفوں کا اسیر ہوتا چلا گیا، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اردو ڈرامے کے لیے مغربی تنقید کے اصول قبول کر لیے گئے اور خالص ہندوستانی شے اندر سبھا کو بھی مغربی تنقید کے اصولوں پر ہی پرکھا جانے لگا۔
1930 کے آس پاس اردو ڈراما حقیقت نگاری کے تصور سے بھی اثر پذیر ہوا۔ اب اس میں فوق فطری واقعات و کردار کے بجائے حقیقی زندگی سے واقعات و کردار لیے جانے لگے اور سماجی مسائل ڈرامے کا موضوع بنے۔ اس تبدیلی سے ڈرامے کی تنقید کا رخ بھی بدلا، اور اب اس پر تبصرہ اس کے نفس مضمون کے اعتبار سے کیا جانے لگا۔ داخلی کیفیات پر زور دیا گیا، اس کا تمثیلی پہلو بھی جائزے کا مستحق قرار پایا۔ اور خاص بات یہ کہ اب اس کا رشتہ لوک ناٹک یا عوامی ڈرامائی روایات سے جوڑا جانے لگا۔ اس سلسلے میں مسعود حسین رضوی ادیب، صفدر آہ، ابراہیم یوسف اور محمد اسلم قریشی کے نام قابل ذکر ہیں۔
ابتدا میں اردو کے معتبر ادیبوں نے ڈرامے کو نہ تو فن شریف سمجھا اور نہ ہی ادبی صنف اس لیے ڈراما، ایک آدھ کو چھوڑ کر ، کم صلاحیت کے لوگوں کے ہاتھوں میں رہا چنانچہ اس میں زبان و بیان کی غلطیاں درآئیں۔ جس کا احساس کرتے ہوئے کچھ اہم ادیبوں نے اس کی طرف توجہ کی جیسے عبد الحلیم شرر (میوۂ تلخ اور شہید وفا ) عبد الماجد دریاآبادی( زود پشیماں ) پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی       ( مراری دادا ) مولانا ظفر علی خاں (جنگ روس و جاپان ) اور دوسرے بہت سے ڈراما نگار۔ اس دور کے ڈراموں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان ادیبوں کی وجہ سے اردو ڈرامے کا ادبی معیار تو بلند ہوا مگر یہ ڈرامے کے فن خصوصاً پیش کش کے فن اور تقاضے سے واقف نہ تھے اس لیے ان کے ڈرامے بے جان اور فنی اعتبار سے ناقص ٹھہرتے ہیں۔ اس دور کے ڈراموں پر تبصرہ کرنے والوں میں احتشام حسین، مسیح الزماں اور محمد حسن کے نام اہم ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے تحت بھی ڈرامے میں عصری مسائل پیش کیے جانے لگے اور معاشرتی، سماجی اور سیاسی مسائل اردو ڈرامے کا موضوع بنے۔چنانچہ ترقی پسند نقادوں نے بھی اردو ڈرامے میں تفریحی عناصر کی جگہ سماجی مسائل اور فکر کی گہرائی کی طرف توجہ کی۔
بیسویں صدی میں خصوصاً آزادی کے بعد انیسویں صدی کے ڈراموں پر جن لوگوں نے لکھا ان میں عبد العلیم نامی، بادشاہ حسین، صفدر آہ، احتشام حسین، فصیح احمد صدیقی اور کئی دوسرے نقاد اہم ہیں مگر ان کے یہاں متوازن تنقید کا فقدان ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے ڈرامے کے کسی ایک پہلو پر ہی سارا زور صرف کیا ۔ مثلاً عبد العلیم نامی اندر سبھاؤں کو ڈراما ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں اور پارسی تھیٹر کے ڈراموں کے ایسے مداح ہیں کہ ان کی خامیاں بھی انھیں خوبیاں نظر آتی ہیں۔ صفدر آہ کو پارسی تھیٹر میں نہ تو ہندوستانی روح نظر آتی ہے نہ قومی کلچر اورآرٹ۔ وہ اسے خالص انگریزوں کا  مرہون منت قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر احتشام حسین فرماتے ہیں کہ :
’’اردو کے یہ ڈرامے (قدیم ڈرامے ) فکرو فن دونوں کی بلندی سے محروم تھے …پارسی تھیٹر کمپنیوں کے ڈراما نگار اپنا مواد عصری زندگی کی کشاکش سے حاصل نہیں کرتے تھے۔‘‘ (6)
بادشاہ حسین ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’بعض متاخرین ڈرامائی اثر کے سمجھنے اور واقعات کو ڈرامائی رنگ میں پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس لیے اردو کے بہت سے ڈرامے ایسے ہیں جنھیں ڈراما کہتے ہوئے تکلف ہوتا ہے۔‘‘ (7)
مگر اسی دور میں کچھ ایسے نقاد بھی تھے جو اردو ڈرامے پر متوازن تنقید کر رہے تھے ان میں سید حسن، محمد اسلم قریشی، محمد حسن اور ابراہیم یوسف کے نام شامل ہیں۔
اس کے بعد کچھ ایسے ڈراما نگار سامنے آئے ہیں (مثال میں ظہور الدین کا نام پیش کیا جا سکتا ہے) جنھوں نے اردو کے جدید ڈراموں میں بریخت کے ایپک تھیٹر کے عناصر کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی خصوصاً حبیب تنویر کے ’’آگرہ بازار ‘‘ محمد حسن کے ضحاک ‘‘ کمار پاشی کے ’’جملوں کی بنیاد‘‘ اور شمیم حنفی کے ’’پانی پانی ‘‘ میں ایپک کے ساتھ ساتھ لایعنی ڈرامے کے عناصر کو بھی تلاش کیا گیا ہے۔ ان ڈراموں میں ایپک اور لایعنی ڈرامائی اثرات کتنے ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن اس سے اردو ڈرامے کی تنقید کا ایک نیا پہلو ضرور سامنے آتا ہے۔
1947 کے بعد انفرادی ڈراما نگار یا جو ڈرامے ناقدین کی توجہ کا مرکز بنے ان میں امتیاز علی تاج کا ’’انار کلی ‘‘ ، عابد حسین کا ’’پردۂ غفلت ‘‘محمد مجیب کا ’’خانہ جنگی‘‘ حبیب تنویر کا ’’آگرہ بازار ‘‘ اور   محمد حسن کا ’’ضحاک ‘‘ قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح مختصر مضامین میں بھی کسی ایک ڈراما نگار کے فن کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے اور اس کی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ مثلاً نثار احمد فاروقی نے ’’پریم چند کے ڈرامے ‘‘ احتشام حسین نے ’’آغا حشر کی ڈراما نگاری ‘‘ ابراہیم یوسف نے ’’منجو قمر کی ڈراما نگاری ‘‘ اور شمیم حنفی نے ’’مجیب صاحب کی ڈراما نگاری ‘‘ میں ان ڈراما نگاروں کے فن کا جائزہ لیا ہے۔
ڈراما، ناول یا افسانے کی طرح صرف تحریری ادب نہیں ہے جو لکھے یا پڑھے جانے کی حد تک محدود ہو بلکہ اس کا لازمی رشتہ اسٹیج سے ہے۔ یہ مکمل اسی وقت ہوتا ہے جب اسے اداکاروں کے ذریعے اسٹیج پر عملاً پیش کر دیا جائے۔ مگر یہ اردو ڈرامے کی بدقسمتی ہے کہ اس پہلو کی طرف بہت کم توجہ دی گئی۔
امانت کا یہ قدم قابل ستائش ہے کہ انھوں نے شرح اندر سبھا میں اس کی پیشکش کی تفصیل دے دی ہے۔ واجد علی شاہ نے ’’رادھا کنھیا کا قصہ ‘‘ میں اسٹیج ہدایات دی ہیں۔ لیکن بعد کے ڈراما نگاروں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ مسعود حسن رضوی ادیب نے ’’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج‘‘ میں ’’واجد علی شاہ کی تین اسٹیج مثنویاں ‘‘ کے تحت ان کی پیشکش پر بھی گفتگو کی ہے۔ میمونہ دلوی نے ’’بمبئی میں اردو ‘‘ میں پارسی تھیٹر کے ڈراموں کی پیشکش کے سلسلے میں کچھ معلومات فراہم کیں ہیں۔ فصیح احمد صدیقی نے ’’رادھا کنھیا کا قصہ ‘‘ کی عملی پیشکش کی تدابیر بتائیں اور اسٹیج کا خاکہ پیش کیا۔ پروفیسر محمد حسن نے ڈرامے میں پیشکش کی اہمیت اور طریقۂ کار پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ پھر بھی اردو ڈرامے کی پیشکش پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ناکافی ہے۔ اردو ڈرامے کی تنقید اس وقت تک نا مکمل اور غیر معیاری رہے گی جب تک اس کی پیشکش کو مد نظر نہ رکھا جائے۔
بہر حال بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے چھٹی ساتویں دہائی تک آتے آتے اردو ڈرامے کی تنقید میں یہ تبدیلی آئی کہ پہلے صرف اس کے اخلاقی پہلو یا زیادہ سے زیادہ اس بات پر گفتگو ہوتی تھی کہ اردو میں ڈراما کیوں نہیں۔ مگر ساتویں دہائی اور اس کے بعد کے ناقد اردو ڈرامے میں ان سماجی مسائل کی کھوج بھی کرنے لگے ہیں جن کا کسی طور ڈرامے میں امکان ہو سکتا ہے۔ اب ڈرامے میں حقیقی زندگی کی تلاش، عصری مسائل، کرداروں کی داخلی کشمکش اور خارجی تصادم کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔
تحقیق کے تعلق سے بات کریں تو اردو ڈرامے کی ابتدائی تحقیق مفروضات پر منحصر ہے۔ اردو ڈرامے پر تحقیق کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی پہلی کتاب نور الہٰی و محمد عمر صاحبان کی ناٹک ساگر ہے جو 1924 میں مکمل ہوئی۔ اس کی تحقیقی حیثیت اس لیے مشکوک ہے کہ یہ بہت کچھ سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ اس کی وجہ سے اندر سبھا امانت کے سلسلے میں مندرجۂ ذیل غلط فہمیاں عام ہوئیں۔
1۔ یہ اوپیرا کی نقل ہے یا اسی کی طرز پر لکھی گئی ہے۔
2۔ یہ سب سے پہلے قیصر باغ میں کھیلی گئی۔
3۔ واجد علی شاہ کے دربار میں کوئی فرانسیسی مصاحب بھی تھا جس سے اوپیرا کی تعریف سن کر انھوں نے ہندوستانی مذاق کا اوپیرا تیار کر نے کا حکم دیا۔
4۔ امانت واجد علی شاہ کے درباری شاعر تھے اور واجد علی شاہ کی ہی فرمائش پر انھوں نے اندر سبھا تصنیف کی۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے عبد الحلیم شرر نے اپنے ایک مضمون میں اعتراض کیا جو رسالہ ’دلگداز‘ میں جنوری 1922 میں چھپا۔ پھر مسعود حسن رضوی ادیب اپنی کتاب ’’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج ‘‘ میں ان باتوں کو مدلل طور پر غلط ثابت کیا ۔ یعنی اندر سبھا امانت نہ تو کبھی قیصر باغ میں کھیلا گیا نہ ہی واجد علی شاہ کے دربار میں کوئی فرانسیسی تھا جس کی تجویز پر واجد علی شاہ کے حکم سے یہ لکھا گیا ۔ نہ ہی امانت واجد علی شاہ کے درباری شاعر تھے۔ اس سے قطع نظر ڈرامے کی تحقیق کی ابتدا اسی کتاب یعنی ’’ناٹک ساگر ‘‘ سے ہی ہوتی ہے۔
مسعود حسن رضوی ادیب ایک معتبر محقق ہیں انھوں نے نہ صرف یہ کہ متنی تنقید کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اندر سبھا امانت کا ایک بنیادی و معتبر متن مع شرح اندر سبھا تیار کر دیا بلکہ اس پر دو سو صفحات کا مبسوط مقدمہ لکھ کر تمام تفصیلات بھی پیش کر دیں۔ یہ کتاب’’ لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ان کا دوسرا کارنامہ ’’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج ‘‘ہے جو بنیادی طور پر ’’رادھا کنھیا کا قصہ ‘‘ کا مقدمہ ہے۔ جس میں انھوں نے واجد علی شاہ کی تمام ڈرامائی و نیم ڈرامائی کوششوں کی تفصیلات پیش کر دی ہیں۔ مسعود حسن رضوی ادیب اپنی تحقیق کی بنیاد مفروضات پر نہیں رکھتے بلکہ ہر بات کے لیے کوئی نہ کوئی معتبر حوالہ، کوئی ثبوت، کوئی قابل قبول منطقی جواز ضرور دیتے ہیں۔
چار جلدوں پر مشتمل عبد العلیم نامی کی کتاب ’’اردو تھیٹر ‘‘ پارسی اسٹیج کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے۔ لیکن تحقیقی نقطۂ نظر سے اس میں یہ کمی ہے کہ بہت سی باتیں بغیر کسی حوالے اور بغیر ثبوت کے لکھ دی گئی ہیں۔ اس کے بارے میں ابراہیم یوسف لکھتے ہیں کہ ’’بلا تحقیق اس میں سب کچھ جمع کر دیا گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر فصیح احمد صدیقی نے اردو یک بابی ڈرامے کی تاریخ تقریباً پندرہ سو صفحات میں مرتب کی، جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صدیقی نے ڈرامے کی تنقید و تحقیق پر جو خیالات پیش کیے ہیں یا اردو ڈرامے پر جو تبصرہ کیا ہے ان میں اختلاف کی گنجائش تو ہے مگر ان کے اس کام کی اہمیت مسلم ہے۔ ہزاروں یک بابی ڈرامے جو رسالوں کے اوراق میں گم تھے، انھیں تلاش کر کے یک جا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انھوں نے یہ کام کر کے اردو ڈرامے پر احسان کیا ہے۔
عشرت رحمانی کی دو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ’’اردو ڈراما تاریخ و تنقید ‘‘ اور ’’اردو ڈراما کا ارتقا‘‘ دوسری کتاب کو پہلی کتاب کا دوسرا ایڈیشن کہنا بے جا نہ ہوگا جس میں معمولی تبدیلی کے بعد دو نئے باب شامل کر دیے گئے ہیں۔ پھر بھی یہ دونوں کتابیں اردو ڈرامے کی تاریخ مرتب کرنے کی سنجیدہ کوشش ہیں۔
پروفیسر سید حسن کی کتاب ’’بہار کا اردو اسٹیج اور اردو ڈراما ‘‘بہار کے اردو ڈرامے اور تھیٹر کی تاریخ بہت کامیابی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس میں رونق ، حباب ظریف اور احسن پر لکھے اپنے مضامین بھی شامل کر دیے ہیں جو اس قدر پر از معلومات ہیں کہ ان حضرات پر اس قدر معلومات اور کہیں شاید ہی مل سکے۔
محمد اسلم قریشی کی کتاب ’’ڈرامے کا تاریخی و تنقیدی پس منظر ‘‘ جو مجلس ترقی ادب، لاہور سے 1971 میں شائع ہوئی تحقیقی نقطۂ نظر سے بہت وقیع ہے، اس میں مغربی اور مشرقی دونوں ڈراموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں ہر بات کے لیے مستند حوالے موجود ہیں۔
ابراہیم یوسف نے ’’اردو کے اہم ڈراما نگار ‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں ایک کتاب تصنیف کی۔ ان کی دوسری تصنیف ’’اندر سبھا اور اندر سبھائیں ‘‘ ہے جس میں انھوں نے چار اندر سبھاؤں کو مرتب کیا ہے۔ اس کے مقدمے میں ان سب کا موازنہ بھی کیا ہے۔ تحقیقی نقطۂ نظر سے ان کا کام اس لیے اہم ہے کہ انھوں نے حوالے کے لیے بنیادی مآخذ کا استعمال کیا ہے اور کوئی بات بغیر حوالے کے نہیں کہی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی منظر عام پر آئیں جیسے بادشاہ حسین کی ’’اردو میں ڈراما نگاری ‘‘ عطیہ نشاط کی ’’اردو ڈراما روایت اور تجربہ ‘‘ قمر اعظم ہاشمی کی ’’اردو ڈراما نگاری ‘‘ مگر ان میں کوئی بات قابل ذکر نہیں۔
اردو ڈرامے کی تحقیق کا دوسرا مرحلہ ’’ پہلے ڈرامے ‘‘ کی بحث پر منحصر ہے۔
اردو کے کچھ ناقدین و محققین ایک لمبے عرصے تک نواز اور کاظم علی جوان کو اردو کا پہلا ڈراما نگار مانتے رہے۔
در اصل عہد فرخ سیر (1713تا 1719) میں نواز نامی شاعر نے جو ہندوستانی تلفظ کے مطابق ’نواج‘ کہلاتا تھا ایک کتاب برج بھاشا میں شکنتلا ناٹک کے نام سے لکھی۔ یہ مزمل پریس الٰہ آباد سے 1959 میں شائع ہوئی۔ فورٹ ولیم کالج میں کاظم علی جوان نے 1801 میں اسی نام کی ایک کتاب تصنیف کی ، کہا جاتا ہے کہ یہ نواز کی شکنتلا ناٹک کا ترجمہ ہے ۔ درحقیقت نواز کی شکنتلا ناٹک نہ ہی کالی داس کے شکنتلا ناٹک کا ترجمہ ہے اور نہ ڈرامے کی ہئیت میں لکھی گئی ہے۔ یہ برج بھاشا میں لکھا گیا ایک منظوم قصہ ہے جو ہندی کی مختلف بحروں میں بیان کیا گیا ہے۔ کاظم علی جوان کی شکنتلا کا بھی ڈرامے سے کوئی تعلق نہیں یہ متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔ اس کا ایک ایڈیشن ترقی ادب لاہور سے 1963میں اور دوسرا اردو دنیا، کراچی سے 1964 میں شائع ہوا۔ مسعود حسن رضوی ادیب ’’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج ‘‘ میں دونوں کے ڈراما نہ ہونے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ محمد اسلم قریشی ، ’’ڈرامے کا تاریخی و تنقیدی پس منظر ‘‘ میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دونوں تصانیف ڈراما نہیں ہیں۔
مسعود حسن رضوی ادیب نے اپنی تحقیق کی رو سے یہ نظریہ پیش کیا کہ واجد علی شاہ کا ’’رادھا کنھیا کا قصہ ‘‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے گو کہ موصوف اردو کے بڑے محقق ہیں پھر بھی یہاں ان کو تھوڑا سہو ہوا۔ واجد علی شاہ 1842 میں ولی عہد ہوئے اس وقت انھوں نے رادھا کنھیا کی زندگی پر منحصر ایک رہس ترتیب دیا جو مکمل ڈراما نہیں ہے۔ اس میں صرف رادھا اور کنھیا کی پرستش کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ معزول ہو کر واجد علی شاہ 1857  میں مٹیا برج کلکتہ گئے تو وہاں انھوں نے ’’رادھا کنھیا کا قصہ ‘‘ کے نام سے ایک ڈراما تصنیف کیا جو مکمل ڈراما ہے ، دونوں کا بنیادی فرق اول الذکر کو ڈرامے کی فہرست سے خارج کرتا ہے اور مؤخر الذکر کو ڈرامے کی فہرست میں داخل کرتا ہے۔
کچھ محققین نے یہ بات بھی اٹھائی کہ ’’اندر سبھا مداری لال ‘‘ پہلے لکھی گئی یا ’’اندر سبھا امانت ‘‘ اس پر مسعود حسن رضوی ادیب اور دوسرے ادیبوں نے کافی بحث کی ہے جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’اندر سبھا مداری لال ‘‘ کے سنہ تصنیف کے جتنے شواہد ہیں سب قیاسی ہیں۔ مگر اندر سبھا امانت کے پاس تحریری ثبوت موجود ہے۔ امانت ’’شرح اندر سبھا ‘‘ میں ’’اندر سبھا ‘‘ کے مکمل ہونے کی تاریخ چودہ شوال 1268ھ لکھتے ہیں جو مطابق ہے 01اگست1852۔ یہ ڈراما چودہ جنوری 1854 کو پہلی بار پیش ہوا۔
عبد العلیم نامی اپنی کتاب ’’اردو تھیٹر ‘‘ میں ’’گوپی چند جلندھر ‘‘کو اردو کا پہلا ڈراما بتاتے ہیں۔ اپنے اس قول کے ثبوت میں انھوں نے اس کھیل کی پیشکش کے اشتہار کی عبارت نقل کی ہے یہ اشتہار 25-26 نومبر1853 کو ’’ٹیلی گراف ‘‘ میں شائع ہوا تھا ،جس میں اس ڈرامے کے پیش ہونے کی تاریخ 26نومبر1853 درج ہے۔
گوکہ اندر سبھا امانت کی تصنیف 01اگست 1852 تک پوری ہو گئی تھی لیکن تاریخ پیشکش کو ہی بنیاد بنائیں، کیونکہ ڈرامے کے میدان میں تاریخ تصنیف سے زیادہ تاریخ پیشکش ہی اہم ہوتی ہے، تو اس اشتہار کے مطابق ’’گوپی چند جلندھر‘‘ کی پیشکش ’’اندر سبھا امانت ‘‘ سے اڑتالیس دن پہلے ہوئی۔ مگر ’’گوپی چند جلندھر ‘‘ کا صرف اشتہار ہی ملا وہ ڈراما آج تک مطبوعہ یا غیر مطبوعہ دستیاب نہیں ہوا اور جب تک یہ دستیاب نہ ہو جائے بات نہیں بنتی۔ ہو سکتا ہے تاریخ پیشکش کے اعلان کے باوجود ڈراما پیش نہ ہوا ہو اور عین موقع پر دوسرا ڈراما پیش کرنا پڑا ہو۔
خواجہ احمد فاروقی نے ’’اردوے معلی ‘‘ کے قدیم اردو نمبر شمارہ9 میں ایک ڈرامے کا ڈیڑھ سین پیش کرتے ہوئے اسے اردو کا پہلا ڈراما بتایا۔ اس مخطوطے پر سنہ اور تاریخ درج نہیں ہے صرف اسٹریجی کی ایک تحریر ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ان کی ملکیت تھا۔ خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ رچرڈ اسٹریجی 1816 سے 1818 تک لکھنؤ میں ریزیڈنٹ تھا تو مخطوطہ اسے اسی زمانے میں ملا ہوگا۔ اس لیے یہ ان سنین سے قبل کی تصنیف ہے۔
یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ رچرڈ اسٹریجی کی ملکیت رہا ہے مگر یہ کیا ضروری ہے کہ قیام لکھنؤ کے دوران ہی اسے یہ ملا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ لکھنؤ سے جانے کے کافی بعد ملا ہو اور اس نے اس پر کچھ لکھ دیا ہو۔ مزید یہ کہ آج تک وہ ڈراما منظر عام پر نہیں آیا چنانچہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی کل جمع پونجی ہی ڈیڑھ سین ہوں۔
کچھ لوگوں نے ’’خورشید ‘‘ ’’بلبل بیمار ‘‘ اور ’’صولت عالمگیری‘‘ کو اردو کا پہلا ڈراما ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان ڈراموں کی تاریخ تصنیف موجود ہے اور وہ اتنے بعد کی ہے کہ اُس پر اِس نقطۂ نظر سے گفتگو کرنا وقت ضائع کرنا ہے۔
متنی تنقید ادب کا ایک شعبہ ہے۔ جب تک مستند متن موجود نہیں ہوگا ہم کسی ادب پارے یا کسی مصنف کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ متنی تنقید کے نقطۂ نظر سے بھی اردو ڈرامے پر بہت کم کام ہوا ہے۔ اور دوسری اصناف کی بہ نسبت ڈرامے میں یہ کام زیادہ مشکل بھی ہے کیونکہ ڈرامے میں پیشکش زیادہ اہم ہے اس لیے اس کے اسکرپٹ کو محفوظ رکھنے یا اس کا مستند متن تیار کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ بعض دفعہ تو ناشرین اداکاروں سے مکالمے پوچھ پوچھ کر ڈرامے ترتیب دلواتے پھر ایک کمپنی دوسری کمپنی کے ڈراموں اور ایک مصنف دوسرے مصنف کے ڈراموں میں تحریف کر کے انھیں پیش کروا دیتی۔ ایسی صورت میں مستند متن حاصل کرنا مشکل ضرور ہے ، پھر بھی اس سلسلے میں کچھ لوگوں نے قابل قدر کوششیں کی ہیں۔ مثلاً مسعود حسن رضوی ادیب نے ’’اندر سبھا امانت ‘‘ اور ’’رادھا کنھیا کا قصہ‘‘ کا متن متنی تنقید کے تمام اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مرتب کیا ہے۔ مسیح الزماں نے ’’اندر سبھا امانت ‘‘ اور ’’خورشید ‘‘ کو مرتب کیا۔ محمد حسن نے ’’انار کلی ‘‘ مرتب کیا انھوں نے جدید ڈراموں کا ایک انتخاب بھی مرتب کیا ہے جسے قومی کونسل براے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی نے چھاپا ہے۔ ابراہیم یوسف نے ’’صولت عالمگیری‘‘ اور چار اندر سبھاؤں کو مرتب کیا۔ وقار عظیم نے آغا حشر کے چھ ڈراموں کو مرتب کر کے شائع کیا۔ اس پر ایک لمبا چوڑا مقدمہ بھی موجود ہے، مگر ان ڈراموں کے متن سے متعلق کوئی اطلاع اس میں موجود نہیں ہے۔ اس طرح ان متون کا استناد مشکوک ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مجلس ترقی ادب، لاہور نے آرام، رونق، حافظ عبد اللہ، طالب، بیتاب احسن اور دیگر مصنفین کے ڈراموں کو مرتب کروا کے شائع کرایا۔ یہ ایک بہت معیاری اور قابل تحسین کام ہے۔ دراصل یہ اردو ڈرامے کی صحیح خدمت ہے۔ اس میں مقدمے کے علاوہ ہر ڈرامے پر الگ الگ تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، مگر بعد کے کچھ مجموعوں میں یہ بات نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں قومی کونسل براے فروغ اردو زبان، نئی دہلی نے آغا حشر کے ڈراموں کو کئی جلدوں میں شائع کیا ہے جو آغا جمیل کاشمیری اور یعقوب یاور نے مل کر مرتب کی ہیں۔ ان میں بھی متن سے متعلق کوئی بات نہیں کہی گئی ہے ان کے مستند ہونے کا صرف ایک حوالہ ہے کہ یہ آغا حشر کے بھتیجے آغا جمیل کاشمیری کی ملکیت تھے۔ خاکسار کو بھی ان مخطوطات کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان پر نہ مصنف کے دستخط ہیں نہ وہ مصنف کے تحریر کردہ ہیں نہ ان پر کوئی تاریخ درج ہے نہ ہی آغا جمیل یہ بتا سکے کہ یہ مخطوطے انھیں کس طرح حاصل ہوئے۔
یہ درست ہے کہ ڈرامے میں پیشکش زیادہ اہم ہے مگر متن کی دستیابی اور استناد کچھ کم اہم نہیں۔ اردو ڈرامے کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے اور اس کے فنی و ادبی معیار کو پرکھنے کے لیے اس کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اردو ڈرامے کی تحقیق کے بہت سے گوشے اب بھی تشنہ ہیں اور اسے کسی معیار تک پہنچاناباقی ہے۔


 حواشی :
1۔ ابراہیم یوسف ’’اندر سبھا اور اندر سبھائیں ‘‘، لکھنؤ، ص15،1980
2۔ شمیم انہونوی (مرتب) ’’تذکرہ خوش معرکہ زیبا ‘‘، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، ص192-93
3۔ڈاکٹر مسیح الزماں (مرتب )’’خورشید ‘‘، کتاب نگر، لکھنؤ، ص19-20
4۔ سید امتیاز علی تاج، ’’حباب کے ڈرامے ‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور، ص54
5۔ عبد الحلیم شرر، ’’گزشتہ لکھنؤ ‘‘ ، مرتبہ : شمیم انہونوی، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، ص209-211
6۔ احتشام حسین:  ’’جدید اردو ڈراما اور اس کے بعض مسائل ‘‘، آج کل ڈرما نمبر، دہلی، جنوری1959
7۔ سید بادشاہ حسین:  ’’اردو میں ڈراما نگاری ‘‘، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص6-9


پتہ :

محمد شاہد حسین
Jawaharlal Nehru University
New Delhi - 110067
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق‘ اپریل تا جون 2010


1 تبصرہ:

  1. معلوماتی اور ہر مغز مقالہ ہے اور صنف ڈراما کو کو احاطہ کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...