غالب
اور مثنوی چراغ دیر
ابو بکر
عباد
شیخ محمد ابراہیم ذوق کو دکن
سے بلاوا آیا تو انھوں نے صاف اعلان کر دیا کہ : ’’کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں
چھوڑ کر ۔‘‘ دہلی کی گلیاں غالب کو بھی بے حد عزیز تھیں، لیکن انھیں زندگی کے نوبہ
نو جلوؤں کی جستجو اور خوب سے خوب ترکی تلاش بھی تھی۔ ان کا ایک فارسی شعر ہے :
اگر بہ دل نہ خلد ہر چہ از نظر
گزرد
زہے روانی عمرے کہ در سفر گزرد
بھلا اس سے اچھی بات اور کیا
ہو سکتی ہے کہ زندگی کی مسافت سفر میں گزر جائے۔ بس شرط یہ ہے کہ آنکھ جو کچھ
دیکھے وہ دل میں نہ چبھے۔ حضرت علی سے منسوب ایک قول ہے کہ ’’سفر کرو اس میں برکت
ہے، اور یہ کہ سفر سے علم و حکمت کے دروازے کھلتے ہیں۔ غالب کا یہ شعر بھی تو اسی
قول کی تفسیر ہے :
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرمِ
تماشا ہو
کہ چشمِ تنگ شاید کثرت نظارہ
سے وا ہو
غالب کا یہی فلسفہ اور شوق
تماشا تھا جو انھیں شہر شہر قریہ قریہ لیے پھرا، اور تمنا کے دوسرے قدم کی تلاش
میں وہ رہ نوردی کے مشکل ترین مرحلوں کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔
غالب کا پہلا سفر تیرہ برس کی عمر میں آگرے سے دہلی تک کا تھا۔ اس کے بعد انھوں
نے متعدد چھوٹے بڑے سفر کیے۔ مختلف علاقوں کے بیسیوں مقامات دیکھے، ہزاروں لوگوں
سے ملاقاتیں کی، ان کی معیشت و معاشرت کا بغور مشاہدہ کیا اور نہ جانے کتنے تلخ و
شیریں تجربات سے گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے دوستوں ، شاگردوں اور نیاز مندوں میں
ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ ان میں عمائدین سلطنت اور ارباب شعرو حکمت بھی تھے مشرقی
علوم و فنون کے ماہرین اور انگریز حکام بھی۔ مے فروش اور مہاجن بھی تھے اور
ساہوکار اور جواری بھی۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ستربرس کی
عمر میں عوام سے نہیں، خواص سے ستر ہزار آدمی نظر سے گزر چکے ہیں۔ میں انسان نہیں
ہوں انسان شناس ہوں۔ ‘‘
انھوں نے جن شہروں کے سفر کیے
یا دوران سفر جن شہروں میں قیام کیا ان میں بھرت پور، لوہارو، فیروزپور جھرکہ،
سکندر آباد، کان پور، لکھنؤ، باندا، الٰہ آباد ، بنارس ، پٹنہ، عظیم آباد،
کلکتہ، میرٹھ اور مراد آباد شامل ہیں۔
وہ جہاں بھی گئے بڑے طمطراق سے
گئے اور جہاں بھی پہنچے ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ انھوں نے دیکھے ہوئے مقامات اور
ان کی اہم چیزوں کے بارے میں بلا تذبذب اپنے تاثرات رقم کیے اور وہاں کے باشندوںسے
متعلق اپنی رائے کا بے باکانہ اظہار بھی کیا۔ کلکتہ جاتے ہوئے غالب اپنے ابتدائی
دور کے محبوب شاعر اور اپنے استاد معنوی مرزا عبد القادر بیدل کی جائے پیدائش پٹنے
میں بھی ٹھہرے تھے، انھیں وہاں کی سون ندی کا پانی بے حد پسند آیا تھا، چنانچہ وہ
اپنی ایک فارسی رباعی میں اس کی تعریف یوں کرتے ہیں :
خوش بود آبِ سوہن از قند و
نبات
باوَے چہ سخن زنیل و جیحون و
فرات
ایں پارۂ عالمے کہ ہندش نامند
گوئی ظلمات و سوہن است آب
حیات
ترجمہ : سون کا پانی قندو نبات
سے بھی اچھا ہے، نیل، جیحوں اور فرات اس کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔اگر دنیا
کے اس قطعۂ ارض کو ظلمات فرض کر لیا جائے، تو اس ظلمات میں سون ندی چشمۂ حیات
ہے۔ ایک اور شعرمیں اس ندی کی تعریف دیکھیے کس انوکھے اندازسے کرتے ہیں :
مرحبا سوہن و جاں بخشیِ سوہن
غالب
خندہ بر گمرہیِ خضرو سکندر
دارم
ترجمہ : خضرو سکندر کی گمرہی
پر ہنسی آتی ہے کہ سون ندی کے حیات بخش پانی کی انھیں خبر نہیں۔ یعنی خضر و سکندر
کو اگر سون ندی کی خبر ہوتی تو اس طرح وہ بھٹکتے نہ پھرتے ، اور آب حیات کی تلاش
میں چشمۂ حیواں کا رخ نہ کرتے۔
اسی طرح الٰہ آباد سے متعلق
اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی بڑے کھلے انداز میں کرتے ہیں۔ یہاں اصل متن کے بجائے
پروفیسر حنیف نقوی کے مضمون ’’غالب کا سفر کلکتہ ‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’یہ شہر
(الٰہ آباد ) غالب کے لیے خلاف توقع انتہائی وحشت خیز اور تکلیف دہ ثابت ہوا۔
یہاں نہ انھیں حسب ضرورت کوئی دوا دستیاب ہوئی اور نہ کوئی ’متاع شائستہ‘ میسر آ
سکی۔ زن و مرد عموماً شرم و حیا سے بیگانہ اور پیرو جواں محبت و مروت سے بے بہرہ
نظر آئے۔ حتٰی کہ ان کے (غالب کے ) نزدیک اس ’وادیِ ہولناک ‘ کو شہر کہنا ’نا
انصافی‘ اور اس ’دام گاہِ غول ‘ میں آدم زاد کا قیام کرنا بے حیائی قرار پایا۔
چنانچہ انھوں نے اس ’خرابے ‘ میں ایک رات بدرجۂ مجبوری اس طرح بسر کی جیسے کوئی
قیدی قید خانے میں وقت گزارتا ہے۔ ‘‘
(غالب ۔
احوال و آثار ، دوسرا ایڈیشن، نئی دہلی، 2007 ، ص۔83)
کلکتے سے متعلق بھی غالب نے
کافی کچھ لکھا ہے لیکن اس حوالے سے ان کا یہ شعر نمائندہ ہے آپ چاہیں تو اسے
کلکتے کی یادوں سے متعلق غالب کی مسرتوں کا اظہار سمجھیں یا ان کی کلفتوں کا بیان
:
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم
نشیں
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ
ہائے ہائے
غالب کے کلام اور ان کے خطوط
میں کئی شہروں کی تعریف و توصیف محفوظ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی تلخیاں بھی
وابستہ ہیں۔ یہ امتیاز صرف بنارس کو حاصل ہے کہ غالب نے اس شہر کو نہ صرف پسند کیا
بلکہ اس سے حد درجہ انسیت اور یگانگت کا اظہار بھی کیا ہے۔ بنارس میں وہ اپنے قیام
کے دوران اس شہر ، یہاں کے مناظر، اور یہاں کے لوگوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے
جذبات و احساسات کو مثنوی ’’چراغ دیر ‘‘ کی شکل میں ڈھال کر شہر بنارس اور مملکت
شعرو ادب کو ایک بیش بہا تحفہ بھی دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غالب نے نہ
تو بنارس کے سفر کا قصد کیا تھا اور نہ یہ ان کی منزل مقصود تھا۔ غالب تو اپنی
پنشن کے قضیے کے حل کے لیے کلکتے کا سب سے طویل اور دشوار گزار سفر کر رہے تھے، اس
امید کے ساتھ کہ پنشن کے معاملے میں ان کے رشتے داروں نے ان کی جو حق تلفی کی ہے، انصاف
پسند انگریز حکام اس کا ازالہ کر دیں گے اور انھیں ان کا حق مل جائے گا، لیکن
کلکتے کا یہ سفر ان کے لیے بار آور نہ ہو سکا۔ البتہ ہمارے ادبی سرمائے کے لیے
غالب کا یہ سفر بے حد بابرکت ثابت ہوا، کہ اس سفر کے دوران غالب نے مثنوی باد
مخالف، متعدد قصیدے ، قطعات اور غزلیں لکھیں، اپنے اردو اور فارسی کلام کا انتخاب
’’میخانۂ آرزو‘‘ کے نام سے مرتب کیا اور مثنوی ’’چراغ دیر ‘‘ بھی تخلیق کی۔
ایسا نہیں ہے کہ ہماری مشرقی
شعری روایت میں شہر بنارس کو اس درجہ پسند کرنے والے غالب پہلے شخص تھے۔ اسے صرف
چشم مجنوں کی خوبی سمجھنے کے بجائے ، رخ لیلیٰ کے حسن کا اعتراف بھی کہنا چاہیے کہ
یہ شہر اپنے روحانی تقدس اور مذہبی رواداری کی وجہ سے ہر دور میں ممتاز رہا ہے۔
اور اہم شعرا کی توجہ کا مرکز بھی۔ غالب سے پہلے اس شہر نے، یہاں کی رنگینیوں نے
اور یہاں کے مہوشوں کی رعنائیوں نے شیخ علی حزیں کو بھی اپنے دام سحر میں گرفتار
کیا تھا۔ یہیں سے شیخ علی حزیں نے دنیا کو محبت، اخوت اور مذہبی رواداری کا پیغام
ان الفاظ میں دیا تھا :
از بنارس نہ رَوم معبدِ عام
است ایں جا
ہر برہمن پسرے لچھمن و رام است
ایں جا
اور بنارس ہی وہ شہر ہے جہاں
ملا طغریٰ مشہدی نے جوانی کی لے میں محبت کا یہ نغمہ گایا تھا :
حسنِ بت راسیر کردم، ذو قہا در
دیر کردم
نقد ایماں خیر کر دم ، پیشِ
دربانِ بنارس
اس لیے اس میں حیرت کی کوئی
بات نہیں ہے کہ غالب کو یہاں سب سے زیادہ روحانی سکون ملا، جمالیاتی آسودگی حاصل
ہوئی اور بنارس کو انھوں نے حد درجے پسند کیا۔ حیرت تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ
مذہبی رواداری، روحانی سکون اور جمالیاتی آسودگی کے متلاشی بعض اور دوسرے شاعروں
نے بنارس کا رخ کیوں نہ کیا۔
غالب کی زندگی اور شاعری میں
’’چراغ دیر ‘‘ کو یوں ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ یہ مثنوی نہ صرف غالب کے اعلیٰ
جمالیاتی ذوق اور ہندوستان کی سر زمین سے ان کی بے پناہ محبت کی آئینہ دار ہے،
بلکہ ادبی اور فنی نقطۂ نظر سے بھی یہ ایک بلند پایہ نظم ہے۔ اس مثنوی میں بظاہر
بنارس اور اہل بنارس کی مدح و ستائش کی گئی ہے ، لیکن بغور مطالعہ کیجیے تو اس
مثنوی کی کئی ایسی خصوصیات سامنے آتی ہیں جن کا تعلق براہ راست غالب کے غیر
معمولی فکرو فن ، منفرد زاویۂ نگاہ، لطیف جذبات و احساسات اور انوکھی شخصیت سے
ہے۔ بنارس کے حسن کو انھوں نے واقعاتی اور مشاہداتی سطح پر بیان کر کے نہ صرف اپنے
ذوق جمال کا اظہار اور اپنے باطن کو آشکار کیا ہے بلکہ منظر نگاری کے فن کو بھی
معراج کمال تک پہنچا دیا ہے۔
یہ پوری مثنوی ایک سو آٹھ
اشعار پر مشتمل ہے، جس کا آغاز غالب اپنے قلبی اضطراب کے اظہار سے کرتے ہیں۔ اس
میں ان کی غریب الوطنی کا احساس ، عزیزوں اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم اور اہل خانہ
کی یادیں شامل ہوتی ہیں۔ دوستوں سے نامہ و پیام کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے
غالب ان پر اور اپنے شہر پر بے مہری کا الزام عائد کرتے ہیں اور بالآخر دہلی کو
ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد سے مثنوی کا وہ حصہ
شروع ہوتا ہے جہاں غالب ، بنارس ، اہل بنارس اور مناظرِ بنارس کی دل کھول کر تعریف
کرتے ہیں۔ یہاں پر میں مثنوی کے اصل فارسی متن کے بجائے اختر حسن کے منظوم ترجمے
سے کچھ اقتباس نقل کرتا ہوں :
مرے ذوقِ سخن کو ناز ہے اس کی
ستائش پر
مرے اشعار میں شامل ہے اس کے
حسن کا جوہر
کرے شرمندہ جنت کو بھی اپنے
کیفِ رنگیں سے
بنارس کو خدا محفوظ رکھے چشمِ
بد بیں سے
بنارس کو کسی نے چین سے تشبیہہ دے دی تھی
ابھی تک اس کے ماتھے پر شکن
ہے رودِ گنگا کی
فدا ہے اس کی وضعِ دلربا پر
جان دلی کی
زباں پر ورد ہے ’’صلِّ علیٰ
صلِّ علیٰ کاشی‘‘
یہ کوہِ قاف کی پریاں ہیں یا
حوریں ہیں جنت کی
مجسم ہو گئی ہوں جیسے موجیں
نورو نکہت کی
یہاں کی خاروخس میں بھی ہے
پھولوں کی سی رعنائی
یہاں کی گرد میں بھی ہے اک
اعجازِ مسیحائی
بہاریں یاں خزاں کے خوف سے
آزاد رہتی ہیں
کوئی موسم ہو، یا رنگینیاں آباد
رہتی ہیں
فلک یہ اپنی پیشانی پہ جو قشقہ
لگاتا ہے
اسی کے گلشن و گلزار سے سرخی
چراتا ہے
بنارس، جانِ جاناں، پائے تختِ
بُت پرستاں ہے
بنارس ارضِ خوباں ہے زیارت
گاہِ مستاں ہے
بنارس کو عبادت خانۂ ناقوسیاں
کہیے
بنارس کو بجا ہے کعبۂ
ہندوستاں کہیے
غالب دہلی اور بنارس کا تقابل
کر کے بنارس کو دہلی پر علم و حکمت اور عبادت و ریاضت کے اعتبارسے فوقیت دیتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ بنارس کی پاکیزگی کا یہ حق ہے کہ دہلی کو اپنی بزرگی کے باوصف
بنارس کا طواف کرنے کے لیے آنا چاہیے، کہ بنارس ’’زیارت گہ مستاں ‘‘ اور ’’کعبۂ
ہندوستاں‘‘ہے۔ عقیدت اس حد تک پہنچتی ہے کہ ’’عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
‘‘ پر ایمان رکھنے والے غالب بنارس کے مقدس ماحول میں پہنچ کر تناسخ کے عقیدے کی
وکالت کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہاں وفات پانے والوں کی روح کہیں اور نہیں جاتی
بنارس میں ہی رہتی ہے :
تناسخ پر عقیدہ رکھنے والے سب
یہ کہتے ہیں
بنارس میں جو مرجاتے ہیں وہ
بھی زندہ رہتے ہیں
یہ مانا، پھر سے وہ پیوند
جسمانی نہیں پاتے
یہ مانا، چشمِ ظاہر بیں کے
آگے وہ نہیں آتے
بنارس کا مگر اک سحر کہیے،
شعبدہ کہیے
یہاں کی جانفزا آب و ہوا کا
معجزہ کہیے
کہ مرنے والے سب قالب بدل کر
زندہ رہتے ہیں
مجسم نور بن کر جاوداں پائندہ
رہتے ہیں
معشوق کا بناؤ سنگار کے لیے
آئینہ لیے رہنا اردو اور فارسی کی روایتی شاعری میں عام بات ہے۔ غالب بھی بنارس
کو محبوب فرض کر کے گنگا کو بنارس کا آئینہ قرار دیتے ہیں۔ مگر غالب اس میں ایک
نئی بات یہ پیدا کرتے ہیں، کہ اگر بنارس لاثانی رہتا تو اس کو حاسدوں کی نظر لگ
جانے کا اندیشہ تھا۔ لیکن جب بنارس اپنے آئینے یعنی گنگا میں عکس ریز ہوتا ہے تو
وہ لاثانی نہیں رہتا آپ ہی اپنا ثانی بن جاتا ہے اور یوں وہ حاسدوں کی نظر بد سے
بھی محفوظ رہتا ہے۔
مگر گوئی بنارس شاہدے ہست
زِ گنگش صبح و شام آئینہ
دردست
بہ گنگش عکس تا پر تو فگن شد
بنارس خود نظیر خویشتن شد
چو در آئینۂ آبش نمودند
گزندِ چشمِ زخم، از وے ربودند
بنارس کی بڑائی بیان کرنے کے
بعد غالب وہاں کے حسینوں کی دلکشی ، دلربائی، رعنائی اور نین نقش کی دل کھول کر
تعریف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ نازک کمر ہیں ،لبوں پر فطری مسکراہٹ ہے دہن رشک گل
ہیں، ان کی چال فتنۂ محشر کو جگانے والی ہے، وہ خرام ناز میں خونِ عاشق سے زیادہ
تیز رو ہیں، جب وہ اٹھلا کر چلتے ہیں تو گل پوش جال بچھاتے ہیں اور ان کے چہرے کی
دمک سے گنگا کے کنارے چراغاں کا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس حصے میں عاشق کے
جمالیاتی احساس کے اظہار کے ساتھ ساتھ شاعر کا فن بھی اپنی بلندی پر نظر آتا ہے۔
خوبصورت تشبیہہ اور استعارے کے ذریعے محض خیالی محبوب کا پیکر ذہن میں نہیں
ابھرتا، بلکہ حقیقی محبوب اپنے قدو قامت اور ناز و ادا کے ساتھ نگاہوں کے روبرو
آموجود ہو تا ہے :
صنم یاں کے بنے ہیں شعلہ ہائے
طور سے گویا
زسرتا پا عبارت ہیں خدا کے نور
سے گویا
کمر دیکھو تو نازک، دل مگر
کتنے توانا ہیں
بظاہر بھولے بھالے ہیں، بکارِ
خویش دانا ہیں
نشاطِ جسم و جاں، آرامِ دل،
سرمایۂ عشرت
بہارِ بستر و نوروزِ آغوش و
مہِ خلوت
شبِ فرقت میں موجِ رنگ و نکہت
بن کے آجائیں
لطافت بن کے آغوشِ تمنا میں
سما جائیں
وہ رخساروں کی تابانی، نظر
حیران و ششدر ہے
لبِ گنگا، سراسر اک چراغاں کا
سا منظر ہے
قیامت قامتِ بالا، ادا کافر،
نظر قاتل
دلوں کو بے محابا تیرِ مژگاں
سے کریں گھائل
پری پیکر بنارس کے جو گنگا میں
نہاتے ہیں
وہ گویا آبرو ہر موجِ گنگا کی
بڑھاتے ہیں
اتاریں پاؤں پانی میں تو
موجیں کھول دیں باہیں
قدم بوسی کی چاہت میں بھنور
پایاب ہو جائیں
دلِ دریا میں ذوقِ وصل و حرفِ
مدّعا جاگے
تہِ دریا، در و گوہر کا بختِ
نارسا جاگے
بنارس کو اگر ٹھہرائیے اک
شاہدِ زیبا
وہ جس کے رو برو صبح و مسا
گنگا کا آئینہ
تو یہ بھی جان لیجے ہے اسی کا
عکس ہلکا سا
شپہرِ نیلگوں کے ہاتھ میں
خورشید کا شیشا
حسینوں کے سراپا اور ان کی دل
ربائیوں کے بیان کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے (اور دراصل کہانی کا یہی چھوٹا سا
حصہ نظم چراغ دیر کو مثنوی بناتا ہے، ورنہ شاید یہ بنارس کا قصیدہ ہوتا ) کہانی
یوں ہے کہ ایک رات شاعر کی ملاقات آسمانی گردشوں کے رازسے واقف ایک روشن ضمیر
بزرگ سے ہوتی ہے۔شاعراپنے عہد کے ابتر حالات ، اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت ،
رشتوں کی پامالی، مہر و محبت اور شرم و حیا کے فقدان اور مذہب کی ناقدری کا ذکر
کرتے ہوئے اس خدا رسیدہ بزرگ سے سوال کرتا ہے کہ ان تمام آثارِ قیامت کے ظہور
پذیر ہونے کے باوجود بھی قیامت کیوں نہیں آتی۔ شاعر کی تمام باتوں کو تحمل سے
سننے کے بعد مردِ بزرگ اپنی انگلی سے شہر بنارس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیتا
ہے :
کہ حقّانیست صانع را گوارا
کہ از ہم ریزد ایں رنگین بنارا
ترجمہ :
اسے دیکھو یہ شہر نور و نکہت ،
یہ حسیں وادی
نہیں صنّاع فطرت کو گوارا اس
کی بربادی
(ایسے حالات
و اسباب کی بنا پر قیامت تو کب کی آچکی ہوتی، یہ تو شہرِ بنارس کی خوبصورتی اور
اہلِ بنارس کی پاکیزگی ہے جو اسے ٹالے ہوئے ہے۔ )
مثنوی کا یہ حصہ پڑھنے کے بعد
علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’خضر راہ ‘‘ کا وہ سین آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے جب
شاعر کی خضر سے ملاقات ہوتی ہے اور شاعر حضرت خضر سے ان پانچ سوالوں کے جوابات
پوچھتا ہے جو اسے بے چین کیے ہوئے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی نظم کا
ابتدائی سین غالب کی مثنوی ’’چراغ دیر ‘‘ کے اسی حصے سے متاثر ہو کر تخلیق کیا ہو۔
مثنوی کے آخری حصے میں غالب
تخیل کی دنیا سے لوٹ کر حقیقی صورت حال سے دو چار ہوتے ہیں۔ تب انھیں اپنے سفر کی
غرض و غایت یاد آتی ہے اور بنارس کے مناظر سے لطف اندوز ہونے اور یہیں کا ہو کر
رہ جانے پر خود کو ملامت کرتے ہیں۔ اسی اثنا میں گھر سے آیا ہوا خط انھیں ملتا ہے
جسے پڑھ کر ایک بار پھر انھیں وطن کی یاد ستاتی ہے اور گھر والوں کے مصائب کی یاد
ان کے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ حصول مقصد کے لیے سرگرم عمل ہونے کا عزم
مصمم کرتے ہیں۔
مثنوی کا آخری حصہ گو کہ کسی
حد تک ناصحانہ اور فلسفیانہ رنگ میں ڈوبا ہوا ہے لیکن غالب نے اصل میں یہاں انسان
کو خود اعتمادی ، جہد مسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیا ہے اور عقل پر جنوں خیزی کو
ترجیح دی ہے۔ باور کرنا چاہیے کہ مثنوی کے اس حصے میں بلا پسندی اور جنوں خیزی کا
جو نظریہ پیش کیا گیا ہے خود غالب کا اردو کلام اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے
اور یہ کہ اس نظریے کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علامہ اقبال نے محسوس کیا اور
کم و بیش اپنی فکر کو اسی انداز میں انھوں نے ڈھالا بھی ہے بالخصوص عشق اور عقل کے
تصور کے حوالے سے۔
اس میں شک نہیں کہ مثنوی
’’چراغ دیر ‘‘ غالب کی فکر اور ان کی شخصیت کے بعض ایسے گوشوں کو منور کرتی ہے
جنھیں ان کا اردو اور فارسی کلام آشکارنہ کرپایا تھا۔ اس لحاظ سے یہ مثنوی غالب
کے فکرو فن ، اس عہد کے بنارس کی معاشرت، غالب کے حب وطن ، ان کی مذہبی رواداری
اور ان کے عقل و خرد اور عشق و جنوں کے فلسفے کی تفہیم میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔
پتہ:
ابو بکر عباد
Deptt.
of Urdu
Delhi
University, Delhi.
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق‘ اپریل تا جون 2010
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں