6/10/20

عہد اکبری میں مثنوی سرائی مضمون نگار: الطاف حسین




عہد اکبری 963ہجری تا 1014ھ ق فارسی شعر و ادب و مثنوی سرائی کے لحاظ سے زریں عہد شمار کیا جاتا ہے۔ اکبربادشاہ نے اپنے اجداد کی طرح فارسی شعر و ادب اور ترجمہ نویسی میں پیش قدم ہونے کا ثبوت دیا۔ اگرچہ اکبر بادشاہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اپنے اجداد کی طرح علمی ادبی ذوق رکھتا تھا۔

اس عہد میں جو کتابیں تصنیف ہوئیں، ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جیسے ’اکبر نامہ،‘ ’آئین اکبری‘،’ طبقات اکبری‘،’ منتخب التواریخ‘، ’تاریخ اکبری اور تاریخ الفی وغیرہ۔ یہ تمام تاریخی کتابیں نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام بیرونی ممالک میں اہمیت کی حامل ہیں۔صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ یہ کتابیں وسطی ایشیا کی آگاہی کے لیے بھی بے مثال نمونہ  ہیں۔ اہل نظر ان میں سے مطالب کے پھول اور فوائد کے میوے چن چن کر دامن بھرتے ہیں۔

عہد اکبری تاریخ نویسی، ترجمہ نویسی، تذکرہ نویسی اور شعری اصناف جیسے قصیدہ، غزل، اوررباعی و مثنوی کے فروغ میں اپنی مثال آپ ہے۔اگر چہ اس عہد میں مثنوی کم کہی گئی ہیں لیکن جو بھی ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔

عہد اکبری میں دو طرح کی مثنوی کو عروج حاصل ہوا، عارفانہ و فلسفیانہ اور عاشقانہ۔ پہلے عارفانہ و فلسفیانہ مثنویوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عرفی شیرازی، فیضی، غزالی مشہدی، ملک قمی نے مشہور ترین عارفانہ و فلسفیانہ مثنویاں لکھیں البتہ عاشقانہ مثنویوں میں بھی وہ مہارت رکھتے تھے۔

عہد اکبری کی عارفانہ و فلسفیانہ مثنویاں

عرفی شیرازی ایران و ہندوستان کے شعر و ادب میں یکساں دسترس رکھتے تھے۔انھوں نے سب سے پہلے ہندوستان میں فیضی سے ملاقات کی پھر حکیم ابوالفتح گیلانی اور خانخاناں کی مدح میں قصیدے لکھے۔ حکیم ابوالفتح نے 997ھ میں وفات پائی۔ خانخاناں کی مدح میں لکھے گئے قصیدے کا ایک شعر ملاحظہ ہو       ؎

تو آگہی کہ مرا از غروب ایں خورشید

چہ گنجہائے سعادت زیان جاں آمد

یہ شعر حکیم ابوا لفتح کی وفات پر لکھا گیا ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تمھارے ذریعے معلوم ہوا کہ اس سورج کے غروب ہونے سے کتنے قیمتی خزانے دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔

اکبر بادشاہ اور شہزادہ سلیم کی مدح میں بھی قصیدہ کہے گئے۔ عرفی قصائد اور مثنویاں آج بھی ہندوستان میں داخل نصاب ہیں۔ انھوں نے اصطلاحات اور استعارے ایجاد کیے جیسے۔آباد، امکان آدائے، کیواں پرور وغیرہ۔ اس کے علاوہ عشقیہ شاعری، فلسفہ اور اخلاق میں بھی وہ کمالِ فن رکھتے تھے۔

 عرفی شیرازی کی عارفانہ و فلسفیانہ مثنویاں:

مجمع الابکار: ’مجمع الابکار‘عہد اکبر کی مشہور ترین مثنویوں میںشمارکی جاتی ہے۔ مثنوی مجمع الابکار ’مخزن الاسرار‘ نظامی کے طرز پر لکھی گئی۔

عرفی شیرازی کی مثنوی مجمع الابکار کے مضامین زیادہ تر باری تعالیٰ کی ستائش، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی مدح، حسن و عشق اور بہ داستان و حکایت پر مشتمل ہیں۔یہ مثنوی نظامی کی مثنوی مخزن الاسرار سے متاثر نظر آتی ہے۔ دونوں مثنویوں کے آغاز میں مشابہت ملتی ہے۔ ذیل کے شعروں سے واضح ہے:

نظامی:  بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہست کلید در گنج حکیم

عرفی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

موج نخست است و بحر قدیم

 تصنیفات عرفی: رسالہ نفیسہ جو تصوف پر ہے۔

اس کے علاوہ عرفی شیرازی نے مخزن الاسرار اور شیریں و خسرو کے جواب میں بھی مثنوی لکھی۔جس سے  معلوم ہوتا ہے کہ عرفی شیرازی عہد اکبر کے معروف ترین مثنوی گو شعرا میں آتے ہیں۔ آخر کار یہ مثنوی نگار سال 999ھ میں اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔

ملک الشعرا فیضی کا شمار عہد اکبر کے معروف ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے دادا شیخ خضر دسویں صدی ہجری میں وطن چھوڑ کر ناگور آئے اور یہیں شادی کی۔وہ بڑے عالم و فاضل تھے۔ شیخ مبارک کی ولادت ناگور میں ہوئی۔ ان کے والد بڑے عالم و فاضل تھے۔ ان کی مشہور ترین تفسیر ’منبع العیون‘ ہے۔شیخ مبارک ناگور سے گجرات اورپھر آگرہ آئے۔ فیضی یہیں سال 954ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والد سے حاصل کی۔ 996ھ  بھی ملک الشعرا کا خطاب ملا۔  997ھ میں اکبر بادشاہ نے کشمیر کا سفر کیا تو فیضی بھی ساتھ تھا۔کشمیر پر مبنی ’قصیدہ کشمیریہ‘ اسی سفرکے دوران لکھا۔

شیخ فیضی کا ایک بڑا کتب خانہ تھا جس میں طب، نجوم، موسیقی و ادب، حکمت و فلسفہ پر کتابیں تھیں۔ فیضی پہلا شخص ہے جس نے سادہ نگاری کی ابتدا کی۔فیضی کا نو ہزار اشعار پر مشتمل ایک غزلیہ دیوان ہے، جس کا نام ’طبع شیر الصبح‘ ہے۔ انھوں نے ترجمہ نویسی میں بھی جیسے رامائن، مہابھارت اور لیلیٰ دامتی میں اہم رول ادا کیا۔ فیضی کی ممتاز خصوصیت شاعری میں استعارات کی شوخی اور تشبیہات کی لذت ہے۔

مرکز ادوار‘ عہد اکبر کی معروف ترین عافانہ و فلسفیانہ مثنوی ہے۔اشعار کی تعداد 2351ہے۔ فیضی کی مرکز ادوار مانند نظامی کی مخزن الاسراراس شعر سے شروع ہوتی ہے۔      ؎

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

گنج ازل راست طلسم قدیم

گنج ازل چیست کلام خدا

مھر ابد کردہ بہ نام خدا

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ہمیشہ باقی رہنے والا خزانہ ایک قدیم  راز ہے۔اور ہمیشہ باقی رہنے والا خزانہ اللہ کا کلام ہے جس نے اللہ کے نام کے ذریعہ دوام پا لیا۔شعر نظامی مخزن الاسرار۔ مانند    ؎

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہست کلید در گنج حکیم

غزالی مشہدی کا شمار دسویں ہجری کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ابتدا میں شاہ طہماسب صفوی کے دربار میں شامل ہوکر شہرت حاصل کی۔ بعد میں ہندوستان ہجرت کی اور بلند مقام پایا۔ وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے دولت گورکانی ہند میں مرتبہ ملک الشعرا پایا۔ ابتدا میں برصغیرِ ہند میں علی قلی خان معروف بہ خان زمان کے دربار میں رسائی کی۔ اس وقت علی قلی خان صوبہ دار جونپور تھے۔ جب خان زمان کی وفات ہوئی تو اکبر کے دربار میں ادبی  خدمات انجام دیں۔

غزالی غزل، قصیدہ اور مثنوی میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سہ معروف ترین عرفانی و فلسفیانہ مثنوی، قدرت آثار، نقش بدیع اور مشہد الانوار لکھیں۔ لیکن ان کی معروف ترین عارفانہ مثنوی نقش بدیع ہے۔

نقش بدیع‘ نظامی کی مثنوی’مخزن الاسرار‘کی تقلید میں لکھی گئی ہے۔ مخزن الاسرار در بارہ خود شناسی، خدا شناسی اور پسندیدہ اخلاق پر ہے۔ غزالی نے بھی ان تمام خصوصیات کی پیروی کی۔

نقش بدیع مانند مخزن الاسرار اس شعر سے شروع ہوتی ہے  ؎

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نقش بدیع است ز کلک قدیم

مولانا میرزا محمد قمی کی پیدائش 909ش میں ہوئی۔ وہ ملک الکلام سے جانے جاتے تھے۔ ملک قمی گیارہویں صدی کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ سال 987 ق کو ہندوستان ہجرت کی اور دکنی شاہان کے دربار میں رسائی پائی۔انھوں نے شاہانِ دکن کی مدح میں اشعار کہے۔ عبدالرحیم خان خاناں نے جب وہاں فتح حاصل کی تو اس کی ملازمت میں خدمات انجام دیں۔ پھر بیجاپور ہجرت کی اور عادل شاہ ثانی کے دربار میں بلند مقام پایا۔ جب بادشاہ اکبر 1003ھ میں احمد نگر گئے، ملک قمی نے ان سے ملاقات کی۔ بادشاہ کی خدمت میں قصیدہ کہا اور انعامات سے سرفراز ہوئے۔ سال 995ش میں بیجاپور میں وفات پائی۔

منبع الانہار: ملک قمی نے مثنوی منبع الانہار بہ پیروی مخزن الاسرار نظامی لکھی۔ منبع الانہار یعنی دربارہ نہر مشہور است۔ ملک قمی نے اس میں جابجا شعر عارفانہ اور فلسفیانہ کا استعمال کیا ہے۔

ان کی دوسری تصنیفات’ ثمن و برہمن ‘ہے۔ یہ کتاب خسرو وشیرین کی پیروی میں لکھی گئی ہے۔ عادل شاہ کے دستور پر ملک قمی نے ظہوری تر شیزی کے ساتھ مجموعہ ’گلزار ابراھیم‘ اور ’خوان خلیل‘ کو بھی فراہم کیا۔

 عہد اکبری کی عاشقانہ مثنویاں

عاشقانہ مثنویوں کی روایت ادبیات فارسی میں زمانہ قدیم سے ہے۔فارسی ادب میں عاشقانہ غزل کافی مشہور ہیں۔ فارسی میں بہت ساری عاشقانہ داستانیں مثنوی کی طرز میں موجود ہیں۔ جیسے ژال و رودبہ، شیریں و فرہاد اور بیژن و نیژہ شاہنامہ فردوسی اور یوسف و زلیخا ر وغیرہ۔ نظامی گنجوی کی عاشقانہ مثنوی جیسے ہفت پیکر، لیلیٰ و مجنون امیر خسرو کی تقلید میں لکھی گئی ہیں۔

(i) نل و دمن فیضی: فیضی نے یہ عاشقانہ مثنوی نظامی کی پیروی اور افکار امیر خسرو دہلی کے لیے لکھی ہے۔ پیش ہے ایک شعر      ؎

صد بلبل مست نغمہ گر خاست

کند ہند گل عراق برخاست

جس کا مفہوم ہے کہ اگرسیکڑوں بلبل نغمہ سرائی کرنا چاہیں تو عراق سے بلند ہو کر ہندوستان کی مٹی میں آنا ہو گا۔

عہد اکبری میں فیضی، غزالی مشہدی کے بعد دوسرے ملک الشعرا تھے جنھوں نے ادب کی طرف توجہ مبذول کی۔ بادشاہ اکبر کی خواہش پر فیضی نے چہار ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی ’نل و دمن‘ لکھی۔ یہ سال 1003ھ ق میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔

مثنوی ’نل و دمن‘ حمد خدا سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد اکبر شاہ، مناجات، نعت سیدالمرسلین، معراج، عشق نل و دمن، بیقراری دمن از جدائی نل وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔

مثنوی ’نل و دمن‘ در حقیقت دربارہ نل بادشاہ اجین و دمن دختر راجہ بھیم سین کہ حکمرانان بیدر ہے۔

نل و دمن در حقیقت قسمتی ’مہابھارت‘ و ’رامایانہ‘ میں آتی ہے۔ ملک الشعرا فیضی نے قرن دہم ہجری میں سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا اور بعد میں نظم فارسی میںنظامی کی مثنوی لیلیٰ و مجنوں کے طرز پر لکھا۔ عبدالقادر بدایونی نے نل و دمن کے بارے میں لکھا ہے:

’’والحق مثنوی است کہ در این صد سال قبل آن بعد از امیر خسرو در ہند کسی دیگر گفتہ باشند۔‘‘

متذکرہ بالا تصنیفات سے  معلوم ہوتا ہے کہ فیضی اپنے زمانے کے ماہر مثنویات تھے۔ ان کی تصنیفات کو آج بھی دانشوارانِ فارسی ادب اور محققین تحقیقی نگاہ سے پرکھتے ہیں۔

(ii) صنم و برھمن: ملک قمی نے یہ مثنوی نظامی گنجوی کی عاشقانہ مثنوی خسرو شیرین کے طرز میں لکھی۔ اس مثنوی کے مضامین عشق برہمن و صنم و نور ایمان از دل فم، مناجات و توحید ایزد تعالیٰ، علاوہ اس کے شب معراج، رسول صل اللہ علیہ وسلم میں ہے۔ در اصل یہ ملک قمی کی تمثیلی مثنوی اور عقاید مذہبی ہندوان پر ہے۔

(iii) سوز و گداز:  نوعی خبوشانی معروف شاعر قرن دہم و اوائل یازدہم خبوشان میں پیدا ہوا۔ سوز و گداز پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی عہد اکبری کے ایک حقیقی واقعہ پر مشتمل ہے۔ روایت کے مطابق یہ مثنوی،  ’عشق نامہ‘ حسن دہلوی سے تاثر پذیر ہے۔ مثنوی ’عشق نامہ‘ دراصل داستان عاشقانہ دو جوان ہندی ہے۔ جو کہ رسم ستی کے عاشقانہ سوز کی تعبیر کرتی ہے۔ مثنوی سوز و گداز بھی قصہ مردم ہندی پر مبنی ہے۔ رسم ستی عہد اکبری میں منع قرار دی گئی۔

(iv) فرہاد و شیرین:  عرفی نے یہ معروف عاشقانہ مثنوی نظامی کی مثنوی خسرو شیرین کی پیروی میں لکھی۔ فرہاد و شیرین عرفی کی آخری عمر تک ناتمام رہی۔ شاعر کی عمر نے وفانہ کی اور اس کے بعد وصال شیرازی نے درنیمہ دوم صدہ سیزدھم(2nd half of thirteen century) کو مکمل کیا۔ عرفی نے اس کو 1080بیت پر لکھا تھا۔

وصال شیرازی نے اس کو 1251اشعار کا اضافہ کیا ہے مگر وصال شیرازی بھی مکمل کرنے سے قاصر رہے۔ اس کے بعد صابر شیرازی نے در نیمہ دوم صدہ سیزدھم میں 304بیت اور شامل کیے اور مثنوی 3000بیت پر مشتمل پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اگر ہم نظامی کی مثنوی خسرو شیرین اور عرفی کی فرہاد و شیرین کا تقابلی مطالعہ کریں،  تو واضح ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے تاثر پذیر ہیں۔

شعر مثنوی ’’خسرو شیرین‘‘ نظامی:     

خدا وند در توفیق بگشای 

نظامی را رہ تحقیق بنمای

دل دہ کو یقینت را بشاید

زبانی کہ آفرینت را سراید

اے میرے اللہ تو توفیق کا در وا کر دے اور نظامی کو حقیقی راست کی رہنمائی کر دے۔اگر صدق دل سے تیرا یقین کیا جائے تو زبان بنانے والے کی قصیدہ خوانی کرتی نظر آتی ہے۔

شعر مثنوی ’فرھاد و شیرین‘ عرفی     ؎

خداوند دلم بی نور تنگ است 

دل من سنگ و کو ہ طور سنگ ست

دلم را گو تاہ دہ چشمہ نور

تجلی کن کہ موسی ھست دو طور

اے میرے مالک میرا دل بے نور ہونے کی وجہ سے تاریک ہے۔میرا دل پتھر بھی اور کوہِ طور بھی پتھر  ہے۔ اے میرے اللہ میرے دل کو نور کے دریا میں غوطہ دے دے۔تاکہ روشن ہو جائے کیونکہ حضرت موسیٰ بھی کوہِ طور پر تھے۔یوسف و زلیخا:۔ مثنوی یوسف وزلیخا معروف شاعر ’کا ھی‘ کی ہے۔ کاھی نے عہد عسکری اور اس کے بعد عہد اکبر کے دربار میںادبی خدمات انجام دیں۔ یوسف و زلیخا دوسری عاشقانہ مثنویوں کی طرح عاشقانہ مثنوی ہے۔

اس کے علاوہ مثنوی دلفریب سید شاہی کی ہے۔ یہ مثنوی عشق موھنی و موسیٰ پر مشتمل ہے۔ موسیٰ در اصل سرھنگ تھا۔ سر انجام موسیٰ نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ اس کے بعد موھنی، موسیٰ کی قبر پر جاتی ہے اور اپنی جان دے دیتی ہے۔ درحقیقت مثنوی ’’دلفریب‘‘ میں موھنی کو والدین نے موسیٰ سے ازدواج کے لیے روکا۔ اس طرح دونوں نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔یہ عہد اکبری کی معروف ترین عاشقانہ مثنوی ہے۔

حوالہ جات:

(1)    شریف قاسمی، ڈاکٹر ذاکرہ،فارسی شاعری، ایک مطالعہ،، انڈیو پرشین سوسائٹی،لال کنواں، دہلی، طبع اول 1987

(2)    نعمانی، شبلی،شعرالعجم، جلد سوم،دارالمصنّفین اعظم گڑھ،   2002ء

(3)    احمدخواجہ، نظام الدین،طبقات اکبری، جلد دوم،  باتصحیح بی۔ دے، ایشیاٹک سوسائٹی، بنگال، 1931

(4)    عبد القادر،بدایونی با تصحیح مولوی احمد، علی منتخب التواریخ، جلد سوم،، انجمن آثار و مفافر فرھنگی، 1889

(5)    آزاد،محمد حسین، دربار اکبری، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وزارت انسانی وسائل حکومت ہند، 2000

(6)    خاتون ڈاکٹر عابدہ، ہندو فارسی شعرا مغل عہد میں، بازار مٹیا محل جامع مسجد، دہلی، 2014

(7)    عبدالرحمن،صباح الدین، بزم تیموریہ، جلد اول، دارالمصنّفین شبلی، اعظم گڑھ، 1995


Altaf Hussain

Research Scholar, Dept of Persian

Jawaharlal Nehru University

New Delhi, 110067

Email: altaf1091@gmail.com

Mob no: 8800339070

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں