7/10/20

فراق گورکھپوری کی خطوط نگاری مضمون نگار: عزیز احمد خان

 



فراق گورکھپوری کا نام علم و ادب کے ان اکابر میں شامل ہے، جن کے خطوط سے ہم ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے بخوبی واقف ہوسکتے ہیں۔فراق گورکھپوری کے خطوط کا ایک مجموعہ پاکستان میں رسالہ ’نقوش‘ کے مدیر محمد طفیل نے ’من آنم‘ کے نام سے مرتب کیا تھا۔ فراق نے اپنے احباب کو خاصی تعداد میں خط لکھے ہوں گے لیکن ’من آنم‘ میں محمد طفیل نے ان کے چند منتخب خطوط شائع کیے ہیں اور ہم انھیں کے وسیلے سے فراق کی مکتوب نگاری کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ ان خطوط کی خصوصیت یہ ہے کہ فراق نے یہ سب خطوط محمد طفیل کے نام ہی لکھے ہیں۔ بلکہ ہم یوںکہہ سکتے ہیں کہ محمد طفیل نے فراق سے لکھوائے ہیں۔  جیسا کہ محمد طفیل نے خود لکھا ہے:

’’میں نے کئی بار سوچا کہ اس کتاب کا خالق کون ہے میں یا فراق ؟ یہ بات میرے ذہن میں اس لیے آتی ہے کہ یہ خط فراق صاحب نے لکھا نہیں۔ میں نے لکھوائے ہیں۔‘‘

(فراق گورکھپوری، من آنم، ص نمبر3، طابع، شیروانی آرٹ پر نٹرز، دہلی، سنہ اشاعت1997)

فراق گورکھپوری کے خطوط کا یہ واحد مجموعہ ہے۔ اس میں شامل خطوط سے ادب کے مختلف پہلوؤں پر فراق کے خیالات کے علاوہ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ اپنی زندگی بالخصوص ازدواجی زندگی اور جنس کے بارے میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔ محمد طفیل کے مطابق کچھ خطوط میں تو وہ اتنے کھلے ہیں کہ کھل کر ہی رہ گئے ہیں۔’ نقوش‘ کے مدیر محمدطفیل نے جہاں اعلیٰ وضخیم نمبروں کا سلسلہ شروع کیا وہیں ’صاحب‘، ’جناب‘وغیرہ اہم تصانیف کے ذریعہ اردو کی اہم شخصیتوں سے ہمیں ملانے، ان کی خوبیوں اور خامیوں سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی فراق سے خط و کتابت کی ہے۔ فراق سے خط و کتابت کے ذریعہ ا ن کی زندگی کے حالات واقعات اور راز ہائے سربستہ سے واقف ہونے، ان کے جذبات و احساسات و خیالات سے آگاہ ہونے کی پوری کوشش کی۔ فراق نے بھی تشفی بخش جواب تفصیل کے ساتھ دیے اور اپنے بارے میں انہو ں نے وہ سب کچھ بتایا جس کی امیدعام طور سے عام لوگوں سے نہیں کی جاسکتی۔

فراق سے اس طرح کی خط و کتابت کا مقصد یہ تھا کہ ان خطوط کے ذریعہ فراق کی زندگی کے پوشیدہ لمحات اور بکھرے اوراق کو یکجا کردیا جائے تاکہ فراق شناسی میں مدد مل سکے۔ فراق نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ محمد طفیل خطوط بھی شائع کرسکتے ہیں اس لیے مطمئن ہوکر خطوط کے جواب دیتے گئے۔ جس کے نتیجے میں وہ کہیں کہیں اتنے بے باک ہوئے کہ وہ ’بے راہ روی‘ کے حدود میں بھی داخل ہوگئے۔ حالانکہ ان کے خلوص اور سچائی نے ان کی بے راہ رویوں کو قابل قدر بنادیا ہے۔ جب خطوط کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی اور قیمتی مواد یکجا ہوگیا تو مدیر نقوش، محمد طفیل نے سوچا، کیو ں نہ حالات زندگی مرتب کرنے کے بجائے ان خطوط کو ہی شائع کردیاجائے۔ انھوں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے اس ارادہ کااظہار فراق گورکھپوری سے کسی خط میںکردیا جس کاجواب دیتے ہوئے انھو ں نے لکھا:

 ’’پہلے تو آپ کاخیال تھا کہ میرے جوابات کی روشنی میں مجھ پر لکھیں گے اب آپ کا یہ کہنا کہ اگر اجازت ہو تو ان خطوط کو ہو بہو چھاپ دوں،میری طرف سے تو ان کی اشاعت کی اجازت ہے، اس دریافت کا بھی شکریہ کہ ان خطوط میں تاریخی مواد ہے اور انھیں حرف بہ حرف چھپنا چاہیے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ دو ایک بار آپ نے لکھا تھا کہ میں نے بعض جگہوں پر بڑی رواروی میں لکھا ہے بس ان باتوں کا خیال رکھ لیجیے۔ لیکن یہ مت کیجیے گا کہ آپ مجھے انسان بھی نہ بننے دیں۔ میری کمزوریوں کابھی اظہار ہونا ہی چاہیے۔ اگر مجھے پہلے علم ہوتا کہ آپ میرے ہی خط چھاپیں گے، تو میں صرف اپنی کمزوریاں ہی کمزوریاں بیان کرتا اس لیے کہ لوگ صرف اپنی خوبیاں ہی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔‘‘  

(فراق گورکھپوری ،من آنم،ص 106-107)

ایک خط میں انھو ں نے مزید لکھا:

’’یہ طعنہ مجھے نہ دیجیے کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ میں جیسا کچھ ہوں اسی طرح آپ کے اور سب کے روبرو آنا چاہتا ہوں۔ البتہ اتنی درخواست آپ سے کروں گا کہ میرے ان خیالات کو اپنے تک محدود رکھئے گا اور ان کابقدر ضرورت خرچ ہو۔ معاف کرنا میں نے یہاں ایک بڑا بیہودہ فقرہ لکھ دیا ہے، اگر میرے آئینے میں میری ہی شکل نظر آتی ہے تو اس سے ڈرنا کیسا میں نے کوئی پیغمبری یا اوتاری کادعویٰ کیاہو تو لوگوں سے خطرہ، میں تو شاعر ہوں، بلکہ انسان ہوں، اس لیے میں شاعری بھی کروں گا اور اپنے انسان ہونے کاثبوت بھی دوں گا۔‘‘(فراق گورکھپوری ،من آنم،ص 65-66)

فراق کے ان خطوط سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام گوشوں کو عوام کے سامنے لانے میں کوئی تردد نہیں کرتے۔ اس سے ان کی عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے لیکن محمد طفیل، فراق گورکھپوری کی جرأت کا ساتھ نہ دے سکے اور حالات کے سامنے سپر ڈالتے ہوئے سارے خطوط ایک ساتھ شائع نہیں کیے بلکہ یہ لکھتے ہوئے انھیں الگ کردیا:

’’ان کے کچھ خط ابھی میں نے پیش نہیں کیے۔ اس لیے کہ ان میں یہ کچھ زیادہ ہی مخلص اور کچھ زیادہ ہی سچے ہوگئے ہیں۔ چونکہ زیادہ مخلص انسان اپنی تمام تر ہوش مندی کے باوجود پاگل اور اپنی تمام تر شرافت کے باوجود بد تمیز کہلاتا ہے۔ اس لیے میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے اس پیارے دوست کو ان ’خرابیوں‘ سے بچالے جاؤں۔ اس کے باوجود فراق، ان خطوط میں ہر طرح سے اور ہر رنگ میں سامنے آئے ہیں۔ یہی فراق کی وہ خوبی ہے جس پر مصلحت آمیز شرافت کے سارے غلاف نثار کیے جاسکتے ہیں۔‘‘ (فراق گورکھپوری، من آنم ص4)

چنانچہ محمد طفیل نے ان خطوط میں سے 19خط اور اس کے ساتھ ایک مضمون جو کہ’ اسلامی ادب‘ کے نام سے نقوش میں شائع ہوا تھا، اور اس کے بعد ادبی دنیا میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی تھی، کا انتخاب کرکے شائع کردیا۔ان خطوط میں فراق نے اپنی زندگی اور اس کے اتار چڑھائو سے آگاہ کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور ان کی شخصیت مختلف پر توں میں سے کبھی نمایاں کبھی دھندھلاہٹ کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔

من آنم‘ میں ابتداء میں جو خط ہیں ان میں فراق نے زیادہ تر اپنی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالی ہے، کہیں اپنے خیالات کا تجزیہ کیا ہے، کہیں جنسیت نگاری کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور بعد کے خطوط میں ’اسلامی ادب‘  پر اظہار خیال کیاہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ شروع میں محمد طفیل کا مقصد تھا کہ فراق کے خطوط کے آئینے میں ان کی شخصیت پر مضمون لکھیں گے۔ لہٰذا انھوں نے فراق کی زندگی کے ان بہت سے پہلوئوں تک رسائی حاصل کرلی جواب تک مخفی تھے۔  فراق بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ جو کچھ ہیں، اسی طرح سب کے روبرو آئیں۔ اپنے بچپن اور جوانی کا حال انھوں نے پہلے خط میں بہت تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے:

’’بچپن ہی سے میں اپنے بھائی بہنوں سے اپنے کو بہت مختلف پاتا تھا۔ مثلاً میں ان سب سے زیادہ جذباتی  تھا۔ محبت اور نفرت کی غیر معمولی شدت میں اپنے اندر پاتا تھا۔ مانوس چیزیں بھی مجھے حددرجہ مانوس اور حد درجہ عجیب محسوس ہوتی تھیں۔ مناظر قدرت سے میں اتنا مثاثر ہوتا تھا کہ ان میںکھوجایا کرتا تھا۔ میرے بچپن کی دوستیاں بھی بہت شدید قسم کی ہوتی تھیں۔ بچپن کے کھیل اور کھلونوں سے بھی اتنی زبردست لگاوٹ محسوس کرتا تھا کہ گھر والے تعجب کرتے تھے، اور کبھی کبھی میرا مذاق اڑاتے تھے، میری والدہ کا کہنا ہے کہ دو تین برس کی عمر ہی سے میں کسی بد صورت مردیا عورت کی کی گود میں جانے سے انکار کردیتا تھا بلکہ یہاں تک ضد کرتا تھا کہ ایسے لوگ گھر میں نہ آنے پائیں۔ اس کی خوب ہنسی اڑتی تھی او رکبھی کبھی اس کے لیے مجھے چڑایا بھی جاتا تھا۔‘‘

فراق گورکھپوری اپنی شادی کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اندازاً 18برس کی عمر میںمیری شادی کردی گئی۔ میری بیوی کی صورت شکل وہی تھی بلکہ اس سے بھی گئی گزری جوان لوگوں کی تھی جن کی گودمیں جانے سے میںدو تین برس کی عمر میں ہی انکار کردیا کرتا تھا اور زندگی کی دوسری صلاحیتیں بھی ان پڑھ انسانوں سے میری بیوی میں کم تھیں۔ میری شادی نے میری زندگی کو ایک زندہ موت بنا کر رکھ دیا۔ زندگی کے عذاب ہوجانے کے باوجود میں نے خود کشی نہیںکی نہ پاگل ہوا اور نہ جرائم پیشہ بنا، نہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار ہوا۔ اس لیے کہ شدید حسن پرستی کے باوجود زندگی کی شراف کی ہو قدریں مان چکا تھاان کا میں نے سہارا لیا۔ فرائض شناسی نے مجھے برباد ہونے سے بچالیا۔‘‘   (فراق گورکھپوری، من آنم، ص12-13)

فراق گورکھپوری شادی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا المیہ قرار دیتے ہیں اور انھیں کی زبان میں شادی نے ان کی زندگی کو ایک زندہ موت بنا کر رکھ دیا۔ ایسے حالات میں جب انھوں نے شاعری شروع کی تو ان کی کوشش ہوئی کہ اپنی ناکامی اور غم کو مندمل کرنے کے لیے اشعار کے ذریعہ مرہم تیار کریں بقول فراق گورکھپوری:

’’میری زندگی جتنی تلخ ہوچکی تھی اتنے ہی پرسکون اور حیات افزا اشعار کہنا چاہتا تھا۔ بلکہ یوں کہوں کہ تلخی کو شیرینی میں بدل دینا چاہتا تھا۔‘‘ 

(فراق گورکھپوری، من آنم، ص13-14)

 اس طرح فراق نے اپنے پہلے خط میں اپنی زندگی کے حالات کو محور بنایا ہے۔ لیکن ان کی جس کمی کو بیشتر ناقدوں نے نشانہ بنایا ہے وہ پہلے ہی خط میں نظر آتا ہے۔ وہ اپنے کلام کے بارے میں لکھنے کے ساتھ اپنے آپ کو شاعر نیم شبی کہلوانا چاہتے ہیں:

’’رات کی کیفیتیں اور رات کی رمزیت جس طرح میرے اشعار میں فضا باندھتی ہیں، وہ چیزکہیں اور نہیں ملے گی۔ میرے کلام کاایک حصہ ایسا ہے جس کی بناپر مجھے شاعر نیم شبی کہا جاسکتا ہے۔‘‘(فراق گورکھپوری، من آنم، ص 14)

اپنی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے اسی خط میں آگے لکھتے ہیں:

’’شاعر ہر وقت داد کامحتاج ہے، اور مجھے تو میرے فن نے باقی شعرا سے زیادہ ہی بھوکا بنادیاہے‘‘

(فراق گورکھپوری، من آنم، ص 16)

 فراق گورکھپوری کے خطوط سے اگر کوئی ان کی زندگی کے واقعات یکجا کرنا چاہے تو یقینا یہ خطوط ممدومعاون ثابت ہوں گے۔ ان خطوط میںفراق نے اپنی آپ بیتی بڑی بے باکی اور صاف گوئی سے بیان کی ہے۔ ایک دوسرے خط میں اپنے لڑکپن کی چند خصوصیات پر روشٹی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’لڑکپن ہی سے حسن پرستی کے ساتھ ساتھ اور اس سے ملی ہوئی میرے اندر کچھ اور صفتیں بھی تھیں۔ یعنی زندگی کی اعلیٰ قدروں، نیکی، خلوص، ہمدردی، شرافت، انسانیت دوستی، علم پرستی،حقیقی عظمت پرستی اور بعد کو اشتراکیت کاعلم ہونے کے پہلے سے سچی وطن پرستی اور ہندوستان کی آزادی، ہندوستان کی عظمت کا احساس یہ تمام چیزیں میرے اندر کار فرما تھیں۔‘‘

(فراق گورکھپوری، من آنم، ص25)

18 سال کی عمر میں فراق کی شادی نے ان کی زندگی کو غم ناک بنادیا اور مغلوب الغضب بھی۔ فراق نے اپنے کردار کے منفی رحجانات کابھی جائزہ لیا ہے اور ان پرروشنی ڈالی ہے۔ جو ان کی سیرت اور نفسیات کے ایک خاص پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے ایک خط میں فراق لکھتے ہیں:

’’بچپن ہی سے میںایک مغلوب الغضب شخصیت و کردار کا اپنے آپ کو حامل پاتا رہا ہوں۔ بچپن ہی سے خاص موقعوں پر میرے اندر غصے کا جوالا مکھی پھوٹ جایا کرتا تھا۔ میں مغلوب النفرت بھی اپنے آپ کو پاتا ہوں۔‘‘

 (فراق گورکھپوری، من آنم، ص52)

فراق ان خطوط میں اپنی شخصیت کو لوگوں کو اسی طرح سمجھانا چاہتے ہیں جیسا وہ سمجھتے ہیں اور اپنی تمام تخلیقات کا اندازہ بھی اس طرح کرانا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ خود کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے خطوط کے ذریعہ آئیڈیل بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ عقیل رضوی فراق کی انہی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ خطوط، قاری کو فراق کی صحیح تفہیم سے روکتے ہیں۔ بہ حیثیت ایک انسان کے بھی اور ایک شاعر یا ادیب کے ناتے بھی، اپنے عشق اور ادراک حسن کو جس طرح فراق صاحب نے ان خطوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے، وہ بہت کچھ آئیڈیل ہے، حقیقی نہیں۔ اس طرح ان خطوں سے جو تصویر فراق صاحب کی بنتی ہے، وہ محض اکتسابی اور اک رخی ہے۔ ہر خط میںجو جا بجا انھوں نے اپنی بیماری، اپنی بیوی کی بدصورتی کاذکر کیاہے اور اس سے اپنی بد بختی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، وہ بھی آئیڈیل بننے کی کوشش ہے۔ ‘‘

(فراق گورکھپوری فن اور شخصیت مرتبین علی احمد فاطمی، رفیع اللہ انصاری ص44)

عقیل رضوی نے فراق کے خطوط کی اس کو تاہی کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے لیکن وہ فراق کے خطوط کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ فراق کے خطوط کی ستائش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہرحال فراق صاحب کے خطوط، اس لحاظ سے اہم ضرور ہیں کہ وہ ان کی ایسی شخصیت کو پیش کرتے ہیں، جیسا کہ فراق صاحب خود کو سمجھتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ان خطوں میں ادبی مباحث اور نکات ورموز ادب کاایک ایسا خزانہ چھپا ہواہے جس پر کبھی کبھی ارسطو کی بوطیقا اور افلاطون کی فید روس (Phaedros)کی پرچھا ئیاں گزرتی نظر آتی ہیں۔‘‘

(فراق گورکھپوری فن اور شخصیت مرتبین علی احمد فاطمی، رفیع اللہ انصاری صفحہ45)

فراق کے خطوط میں ان کے حالات زندگی، واقعات اور تجربات کے ساتھ ساتھ ان کے ادب، زندگی اور معاشرے سے متعلق افکار و خیالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ فراق نے ساری زندگی ادب کامطالعہ کیاہے۔ اس سے متعلق غور خوض کیا اور اپنے نظریات و خیالات قائم کیے اور پھراعتماد و یقین کے ساتھ ان کااظہار کیا۔ فراق نے ان خطوط میں فلسفیانہ مباحث اور ادبی نکات کو اس طرح سمودیا ہے کہ قاری نہ صرف ان سے مستفید ہوتا ہے بلکہ اسے فراق کے تصور فن کو سمجھنے میںمدد بھی ملتی ہے۔ فراق اپنے ایک خط میں شاعری کے مقصد اور اپنے شعری محرکات کے متعلق لکھتے ہیں:

’’میں شاعری کاایک مقصد یہ بھی سمجھتا ہوں کہ زندگی کے خوشگوار اور ناخوشگوار حالات و تجربات کا ایک سچا جمالیاتی احساس حاصل کیا جائے۔ زندگی کا ایک وجدانی شعور حاصل کرنا،وہ آسودگی اور طمانیت عطاکرتا ہے جس کے بغیر زندگی کے دکھ سکھ دونوں نامکمل رہتے ہیں۔ یہ احساس میرے محرکات شعری رہے ہیں۔‘‘

 (فراق گورکھپوری، من آنم، ص18)

ابتدائی شاعری میں فراق سیاسی، سماجی یا وطنی موضوعات سے اجتناب کرتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ شاعری میں میں حسن وعشق کے ہی جادو جگاتے رہیں اور جنسیت کو کمزور کیے بغیر اس کو زیادہ سے زیادہ رچا سکیں۔ فراق اپنے خطوط میں اس بات کابھی ذکر کرتے ہیں کہ وہ مغربی ادب خصوصًا ورڈ سورتھ کی شاعری اور انگریزی ادب کے دیگر اکابرو مشاہیر کے کارنامے کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور فارسی ادب سے متاثرہوتے رہے اور ان کی شاعری اردو ادب کے مقابلے غیر اردو ادب سے زیادہ متاثر رہی۔

فراق گورکھپوری اپنے ایک خط میں اپنی دو نظموں ’آدھی رات‘ اور’ پرچھائیاں‘ کی تعریف کرتے ہیں اور اسی طرح کی مزید نظمیں لکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ اردو نظم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اردو کی نظمیں بھی غزلیت زدہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو نظموں کو نکھارنے کی کوشش کاذکر کرتے ہوئے بڑی ترکیب سے اپنا رشتہ بڑے شعرا کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’میں چاہتا ہوں کہ ورڈ سورتھ، کیٹس، شیلے، کولرج، ٹینی سن، میتھیو آرنلڈ، سون برن وغیرہ شعراء کے اسلوب اور تکنیک میں جو خلاقانہ صلاحیتیں ملتی ہیں اور گھلاوٹ اور نغمگی کے ساتھ جو سنجیدگی ملتی ہے اس نمونے کی کچھ نظمیں کہہ سکوں، کچھ ایسی نظمیں کہہ بھی چکا ہوں۔‘‘

(فراق گورکھپوری، من آنم، ص40)

 فراق گورکھپوری 12ستمبر 1953جو کہ ’من آنم‘ کاساتواں خط ہے، میں اپنی نثرنگاری اور نظم نگاری کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اردو ادیبوں میں بہت کم ایسے کرسکے ہیں کہ ادب کے کئی اصناف کو اپنا سکے ہوں جب کہ میں اپنی ادبی تخلیق میں بہت سارے اصناف سخن کو پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ فراق اپنی کتاب، اندازے‘ کو تاثراتی تنقید (Impressionistic Criticism)کا پہلا مجموعہ گردانتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ میرے تمام مساعی پرنہ ہو کر صرف عشقیہ غزل یا جمالیاتی رباعیوں تک محدود رہتی ہے۔ اس کے بعد فراق نے رباعی، نظموں میں تلاش  حیات، دھرتی کی کروٹ،آدھی رات، ترانہ خزاں،عشق اور موت، رقص شب تار، اکبر الہ آبادی، ڈالر دیس اور شاہنامہ آدم سے مثالیں پیش کی ہیں۔

فراق نے اس خط میںلکھاہے کہ اردو نظم کے مشاہرنظیر اکبر آبادی، سودا،انیس، اکبرالہ آبادی، چکبست، درگاسہائے سرور،اقبال، حفیظ جالندھری، حالی، اختر شیرانی کی سنجیدہ مسلسل نظموں میں اسلوب کا تنوع اور اس کی رنگا رنگی نہیں ملتی۔

 فراق گورکھپوری اپنی فن کاری کو اپنے معاصرین میں سب سے بلند دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ فراق کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنے کلام کی تعریف میں مضمون لکھ کر دوسرے کے نام سے شائع کراتے تھے۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مطرب نظامی نے لکھا ہے:

’’یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ اس بات کا چونکہ فراق صاحب نے خود اعتراف کیا ہے۔ اس لیے یہ بات صرف موصوف ہی کو نہیں معلوم ہے بلکہ عوام بھی اس سے واقف ہیں۔ ادبی دنیا میں شاید ہی کوئی فرشتہ صفت شاعر ہو جو اپنی شہرت کے راستے نہ فراہم کرتا ہو۔‘‘

(مطرب نظامی،فراق گورکھپوری،ذہنی خاکوں میں،ص10)

فراق جس زمانہ میں ترقی پسندوں سے خفا تھے اسی دور میں ان کا اثر لکھنؤی سے ’روپ میری نظر میں‘ کے ریویو پر مناقشہ چل رہا تھا اور فراق مغلوب الغضب ہوکر ’نقوش‘ لاہور میں اثر لکھنوی کے لیے اس طرح کے شعر غزلوں میں لکھ رہے تھے        ؎

فراق اپنی  غزل پڑھتا ہے جس دم

اثر بیٹھے ہوئے کرتے ہیں ہی ہی

قلم کا زور ناحق صرف کرتے ہیں

غزل اک ایسی کہہ لائیں حریفوں میں اگر دم ہے

اثر رو رو کے کہتے ہیں، فرقواراہ لگ اپنی

تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

فراق کے خطوط میں بھی اس طرح کی تحریروں سے وقتی طور پر ایک لطف ومزاح کی فضا بنتی ہے، لیکن یہ مذاق فراق کے خطوط کو ادبی بلندیوں سے نیچے اتار لیتا ہے۔ اس طرح کی تحریریں فکری بلندی و جمالیاتی اور شاعرانہ فضا سے محروم ہوتی ہیں۔ فراق شاعری پر بحث کرتے وقت ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بظاہر ایک معمولی لفظ یا ایک معمولی فقرہ ادب عالیہ بن جائے، میر کے علاوہ یہ بات مشاہیر اردو کے یہاں نہیں ملتی پھر میر کا شعر پیش کرتے ہیں       ؎

’’ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں

میر کو تم عبث ادا س کیا

غالب کو اداس کے لفظ کا معجزہ انگیز استعمال کرنے کا ایک موقع ملا ہے اگر چہ پہلا مصرع غیر معمولی محاسن کا حامل نہیں ہے       ؎

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد

مجنوں  جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے

لیکن جو جادو میر کے ’اداس‘ میں ہے وہ غالب کے اداس میں نہیں ہے‘‘(فراق گورکھپوری،من آنم۔ ص97)

اس کے بعد اپنے اشعار پیش کرتے ہیں       ؎

یہ سہانی اداس تنہائی

لیتی ہے پچھلی رات انگڑائی

زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوست

سوچ لیں اور اداس ہوجائیں

ان اشعار کو پیش کرنے کے بعد فراق نے کچھ اور معمولی الفاظ بھولنے اور یاد کرنے کو غیر معمولی تاثیر دینے کی کوشش کرنے کا دعوی کرتے ہوئے مزید اشعار پیش کیے ہیں       ؎

ہماری زندگی عشق کا وہ پہلا خواب

مجھے بھی بھول چکا ہے تمھیں بھی یاد نہیں

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں یا ترے بھلانے میں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

اس طرح ’خیر‘ جو کہ بول چال کا ایک معمولی لفظ ہے اس کی مثال پیش کرتے ہیں       ؎

ہم سے کیا ہوسکا محبت میں

تم نے تو خیر بے وفائی کی

آخر میں ’جاگنا‘ اور’سونا‘ الفاظ کو اپنے شعر میں استعال کرنے کے بعد ان کے پرتاثیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں      ؎

ایک شبِ غم وہ بھی تھی جس میں نیند نہ آئی روئے بھی

ایک شب غم یہ بھی ہے جس میںکچھ جاگے کچھ سوئے بھی

فراق گورکھپوری کا یہ کہنا بجا ہے کہ احساس وجذبات کی معصومیت جب انتہا درجے کو پہنچ جاتی ہے،تب معمولی الفاظ بھی معجزہ بن جاتے ہیں اور معجزہ کردیتے ہیں۔ لیکن فراق نے جس طرح اپنے اشعار پیش کیے ہیں اور تمام شعرا کو علاوہ میر کے، اس ہنر سے عاری قرار دیا ہے۔ یہ ان کی خود پرستی کو واضح کرتاہے۔

فراق کی زندگی کے مخفی پہلو سامنے آنے کے ساتھ ساتھ ان خطوط میں فن کے متعلق ان کی سوچ کا اظہار بھی اسی طرح ہوا ہے جیسا کہ دیگر اہم ادیبوں کے خطوط سے ہوتاہے۔ یہاں بس تھوڑا فرق یہ ہے کہ ’من آنم‘ میں شامل خطوط پڑھتے ہوئے بعض جگہوں پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فراق کا کوئی انٹرویو پڑھ رہے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو ایک خطوط کے بعد ہی محمد طفیل نے بتادیا تھا کہ ان کے خطوط کا وہ کیا کریں گے۔ پھر بھی ان خطوط سے فراق کی نجی زندگی اور ادبی زندگی کے متعلق بہت سی معلومات اور ان کے تاثرات منظر عام پر آئے ہیں اس لیے اس کی ایک ادبی اور تاریخی حیثیت تو ہے ہی۔

استفادی کتابیات

(فراق گورکھپوری، اندازے،ادارہ انیس اردو،الہ آباد 1959

فراق گورکھپوری، اردو غزل گوئی، ادارہ فروغ اردو لاہور 1955ص124

فراق گورکھپوری اردو کی عشقیہ شاعری ص 11مکتبہ عزم عمل کراچی بار اول1966

فراق گورکھپوری،حاشیے، سنگم پبلشنگ ہاوس الہ آباد، س ن

فراق گورکھپوری ،من آنم،طابع،شیروانی آرٹ پر نٹرز،دہلی، سن اشاعت1997

گورکھ پرشاد، عبرت، حسن فطرت، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ1982

فضل حق، کامل قریشی(مرتبہ )فراق گورکھپوری،بزم ادب، کروڑی مل کالج، دہلی یونیورسٹی، 1967

امیر عارفی، مرتب، فراق اور نئی نسل، ساقی بک ڈپو، دہلی 1997

بھودیو پانڈے،سودیش کے فراق،وانی پرکاشن، نئی دہلی، 2008

رمیش چندر دیویدی، فراق صاحب، رام نرائن لال، ارون کمار، الہ آباد۔1987

سیدہ جعفر، فراق گورکھپوری، ساہتیہ اکادمی،دہلی۔2006

شمیم حنفی،(مرتبہ)فراق شاعر اور شخص، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، 1982

علی احمد فاطمی( مرتبہ) فراق گورکھپوری، فن اور شخصیت، نصرت پبلشرز،لکھنؤ، 1986

گوپی چند نارنگ، فراق گورکھپوری،شاعر، نقاد، دانشور، ساہتیہ اکادمی، دہلی 2008

محمد طفیل،صاحب،ادارہ فروغ اردو، لاہور۔س ن

 مخمور سعیدی،مرتب، فراق گورکھپوری، ذات و صفات، اردو اکادمی،دہلی۔1998

مشتاق نقوی، فراق صاحب، جلد اول، تقسیم کار نصرت پبلشرز، لکھنؤ1984

Dr. Aziz Ahmad Khan

C/o Abdullah 151, First Floor,

Sarai Julena, New Delhi- 110025

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2020

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں