ہندوستان کی ریاست بہار کا
شمالی حصہ عہدِ قدیم میں بدیہہ، مدھیس اور بعدکے دنو ں میں متھلانچل کہلانے لگا۔
سناتن دھرم کی تاریخ میں اس علاقے کو ’راجہ جنک کی بھومی‘ کے نام سے منسوب کیا گیا
ہے۔ یہ خطہ اپنی مخصوص تہذیبی وتمدنی شناخت کی بدولت پورے ملک میں امتیازی حیثیت
کا حامل رہاہے۔ لسانی اعتبار سے بھی یہ علاقہ مختلف زبانوں کامرکز رہاہے۔ تغیرِ
زمانہ کے ساتھ اس علاقے کا نام بھی بدلتا رہاہے۔ انگریزی حکومت نے اس کا نام
’ترہت‘ رکھاتو تاریخ کے اوراق یہ شواہد بھی پیش کرتے ہیں کہ کبھی اس علاقے کا نام
’انگ‘بھی تھااور ویشالی بھی۔ ویشالی تو ا س لیے بھی ہندوستانی تاریخ کا ایک روشن
باب ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا پہلا چراغ یہیںروشن ہوا۔ وید اور پران کے مطالعے سے
یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پانچ سو سال قبل مسیح اس علاقے کی زبان سنسکرت تھی۔
سناتن دھرم کے بیشتر صحیفے بھی سنسکرت زبان میں ہی موجود ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی
اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اس خطّے میں جب سنسکرت کا سورج غروب ہونے لگا تو ایک نئی
زبان ’اوہٹ‘ نے جنم لیا اور اوہٹ کی ترقی یافتہ شکل ہی ’میتھلی‘ ہے۔ ماہرِ لسانیات
نے ہندوستان میں زبانوں کے ارتقائی سفر کو تین ادوار میں منقسم کیا ہے۔ دورِ اول
بالعموم پندرہ سو قبل مسیح،جسے قدیم ہند آریائی دور بھی کہا جاتاہے۔ دوسرا دور
پانچ سو قبل مسیح سے ایک ہزار عیسوی تک مانا جاتا ہے جس میں پراکرت پروان چڑھتی
ہے۔جب کہ تیسرادور ایک ہزارعیسوی سے عہد حاضر تک کا ہے اس میں اپبھرنش کی ترقی
ہوتی ہے اور مختلف ہندوستانی زبانوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ میتھلی کو ہند یوروپی
خاندانی زبان تسلیم کیا گیاہے اور یہ زبان بھی مختلف ہندوستانی زبانوں کے لین دین
سے پروان چڑھی ہے۔ جہاں تک میتھلی زبان پر اردو کے اثرات کا سوال ہے تو بارہویںصدی
عیسوی کے بعد متھلانچل میں اردو کا چراغ اس وقت روشن ہوتا ہے جب محمد بختیار خلجی،
راجہ نرسنگھ دیو کی حکومت کو شکست دے کر یہاں اپنی حکومت قائم کرتے ہیں۔ اگرچہ
دربارکی زبان فارسی تھی لیکن عوام الناس اوہٹ اور مقامی بولیوں کی ملی جلی شکل کا
استعمال کرتے تھے جسے آغاز میں ’ریختی‘ بھی کہا جاتا تھا۔ میتھلی زبان کی نثری
اور شعری تخلیقات کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ میتھلی میں اردو کے
الفاظ دو صورتوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ اولاً اردو الفاظ اپنی اصل ہیئت اور صحت کے
ساتھ اوردوئم معمولی تبدیلی کے ساتھ۔میتھلی زبان وادب کی پہلی تصنیف ’ورن رتناکر‘
(1340) مصنف جیوتیشور ٹھاکر کی تحریروں میں بھی اردو کے الفاظ مل جاتے ہیں اور
میتھلی زبان وادب کا عظیم المرتبت شعرا ودیاپتی، چندا جھا، راما نند رائے، ناگارجن
وغیرہم کی نثری وشعری تخلیقات میں اردو الفاظ کے استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔ میتھلی کی تاریخ کے مطالعے
کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ میتھلی زبان کے خمیر میں ہندوستان
کی کثیر اللسان فضا آبِ حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔بلا شبہ زبان کی تشکیلی سماجیات
میں اس کا عوامی کردار سب سے اہم عنصر ہوتا ہے۔
کلیدی الفاظ
بدیہہ، مدھیس،
متھلا،ترہت،ویشالی، اوہٹ، اپبھرنش،سنسکرت، متھلانچل، ورن رتناکر، وید، پران،
ودیاپتی، چندا جھا، میتھلی، کثیر اللسان، تہذیب وتمدن، فیلن، جان شیکسپئر، مسٹر
واٹلن، راجہ نرسنگھ دیو، علاء الدین خلجی، تشکیلی سماجیات۔
————
شمالی بہار کا خطہ متھلانچل
عہد قدیم سے ہی ویدک تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور لسانی اعتبار سے بھی مختلف زبانوں
کا مرکز رہا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عہد قدیم میں یہ
علاقہ بدیہہ‘ کہلاتا تھااور یہاں راجہ جنک کی حکومت تھی۔تغیر زمانہ کے ساتھ اس خطے
کا نام بھی تبدیل ہو تا رہا۔چونکہ راجہ جنک کو ’ میتھی ‘ اور ’ میتھل‘کے نام سے
بھی پکارا جاتا تھااس لیے اس کی ریاست کو ’متھلا‘ کہا جانے لگا۔ بعدہٗ اس کا نام ’
ترہت‘ ہوا اور پھر’ویشالی‘ و ’ا نگ‘ کے نام سے بھی تاریخ میں درج ہوا لیکن عہد
مغلیہ سلطنت میں اس کو متھلاریاست کے نام سے ہی شاہی منظوری دی گئی اور اس کے جغرافیائی
حدود ’’ ازکوش تا گوش با گنگ تا سنگ‘‘ طے پائے۔ یعنی کوسی ندی سے گنڈک تک اور گنگا
سے ہمالیہ تک کے علاقے کو’متھلا‘قرار دیا گیا۔ واضح ہو کہ مغل شہنشاہ جلال الدین
محمد اکبر نے پنڈت مہیش ٹھاکر کو ’متھلا‘ کا راجہ بنایا تو ا س نے اپنے شاہی فرمان
میں یہی حدود طے کیے۔اس وقت حالیہ دربھنگہ، سہرسہ، بھاگلپور اور پورنیہ کے ساتھ
ساتھ نیپال کاجنوبی حصہ ’ مدھیس‘ بھی متھلا کہلاتا تھا۔ ویداور پران کے مطالعے سے
یہ عقدہ اجاگر ہوتا ہے کہ پانچ سو سال قبل مسیح اس علاقے کی زبان سنسکرت تھی۔ یہاں
ویدک سنسکرت کا ایک بڑا ذخیرہ دستیاب ہے۔سناتن دھرم کے بیشتر صحیفے بھی سنسکرت
زبان میں ہی موجود ہیںلیکن ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جس دور میں یہاں سنسکرت کا
چلن تھا بلکہ یہ کہا جائے کہ بول بالا تھا اسی دور میں عوام کی زبان ’اوہٹ‘ پروان چڑھ رہی تھی اور اس وقت اوہٹ کسی
زبان کا نام نہیں بلکہ یہ مختلف مقامی بولیوں کی ایک اجتماعی شکل تھی اور یہی اوہٹ
بعد میں میتھلی زبان کی صورت اختیار کر گئی۔
ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں
کہ ماہر لسانیات نے ہندوستان میں زبانوں کے ارتقائی سفر کو تین ادوار میں منقسم
کیا ہے۔دور اول بالعموم پندرہ سو قبل مسیح تسلیم کیا گیا ہے اور اس عہد کو ’قدیم
ہند آریائی‘ قرار دیا گیا ہے۔دوسرا دور پانچ سو قبل مسیح سے ایک ہزار عیسوی تک
مانا جاتا ہے جس میں پراکرت پروان چڑھتی ہے جبکہ تیسرا دور ایک ہزار عیسوی سے عہد موجودہ تک ہے اور اس عہد
میں اپ بھرنش کی ترقی ہوتی ہے۔ماہرین لسانیات اس عہد کو ہند آریائی کا جدید عہد
قرار دیتے ہیں۔چونکہ میرے مقالے کا عنوان’’ میتھلی زبان و ادب پر اردو کے اثرات‘‘
ہے اس لیے لسانی تاریخ کی بحث سے اپنا دامن چھڑاتے ہوئے سیدھے میتھلی زبان کی
تاریخ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ میتھلی زبان کی تاریخ کے اوراق یہ شواہد پیش کرتے ہیں
کہ ’’ میتھلی ‘‘ کو بطور زبان سب سے پہلے سر جارج ابراہم گریرسنS.G.A.
GRIERSON) ) نے اپنی مشہور
زمانہ تصنیف ''Linguistic Survey of India'' میں متعارف کرایا۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ گریرسن اس
سے پہلے بھی اپنی کتاب
"
''A Grammer of seven Bihari Dialectمیں میتھلی کا ذکر کر چکے تھے بقول گریرسن
:
"Maithili
is a language and not a dialect"
لیکن میتھلی زبان کے ایک اہم
مورخ پروفیسر جئے کانت مشرا کا خیال ہے کہ اوہٹ کے بعد یعنی ایک ہزار عیسوی میں
میتھلی زبان اپنی ایک انفرادی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور اس وقت اسے میتھلا اپ
بھرنش کہا جاتا تھا۔H .T Cole Brooke نے پہلی بار اس کو میتھلی زبان کے طور پر 1801 عیسوی میں
تسلیم کیا۔پروفیسر جے کانت مشرا اپنی کتاب
History of Maithili Litirature میں
اس کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
"The earliest name by which the language of Mithilia was known,appears to be Apabhramsa ,We are told ,signified in Mithila the Desa.Bhasha ( the ,vernacular,or the ,desila ,baend ) as distinguished from classical sanskrit and Prakrits. In medieval times there is no clear mention of this language . save if we interpret Amir Khusros (c, 1253) reference to the languages of Gaur as distinct from Bengal. We find the name Tirahutiya,(spelt Tourutiana) given to it in Alphabetum Brammhanicum (1771) This was obviously a confusion between the appellations ,Tirhutia, sometimes used for the people of Mithila ,and,Tirhuta,the script of Maithila. H.T.Cole Brooke in Asiatic Researches for the first time called the language Maithili
(spelt ,Mithelee,orMythili) in 1801. William Carey following him,called it,Tirhuti(1853) and classed it under Bengali just as Sir John Beams Called it who in 1874 established its independence as the Languages of Bihar . But the name Maithili, however continued to be used. Eventually Sir George Abraham Grierson fixed this name finally and permanently for the language (1880)."1
ماہر لسانیات ڈاکٹر سنیتی کمار
چٹرجی نے اپنی کتاب ’انڈو آرین اینڈ ہندی‘ میں میتھلی کوہندیوروپی خاندان کی شاخ
ہند ایرانی زبان قرار دیا ہے اور اس کا رشتہ مگدھی اپ بھرنش یعنی مگہی،بھوج پوری،
بنگالی، آسامی اور اڑیہ سے جوڑا ہے۔ میتھلی زبان کے ایک معروف مورخ ڈاکٹر درگا
ناتھ جھا شریش نے بھی اپنی کتاب ’ میتھلی
ساہتیک اتہاس ‘ میں میتھلی کوہند یوروپی خاندان کی زبان تسلیم کیا ہے اور یہ قبول
کیا ہے کہ میتھلی زبان مختلف ہندوستانی زبانوں کے لین دین سے پروان چڑھی ہے۔میتھلی
زبان و ادب کے ایک ممتاز مورخ ڈاکٹر دنیش کمار جھا اپنی کتاب ’میتھلی ساہتیک
آلوچناتمک اتہاس ‘ میں لکھتے ہیں:
’’ شبدا ولک درشٹی سو پرتیک بھاشا میشرت ہوئت اچھی۔میتھلی بھاشا سے ہو
اپوادنئی اچھی۔‘‘
یعنی الفاظ کے لین دین سے ہی
کوئی بھی زبان ثروت مند ہوتی ہے اور میتھلی بھی اس سے مبریٰ نہیں ہے۔ڈاکٹر جھا نے
یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ میتھلی زبان پر ہند آریائی زبانوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی
زبانوں کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ میتھلی میں اردو کے ہزاروں الفاظ کھپ گئے ہیں۔
انھوں نے اردو کو ’ مسلمانی زبان ‘ کہا ہے اور اس میں فارسی و عربی کے الفاظ کو
بھی شامل کیا ہے۔
میتھلی زبان پر اردو کے اثرات
کے متعلق گفتگو سے قبل یہ لازم معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس تاریخی پس منظر پر بھی
مختصر سی روشنی ڈالی جائے کہ کس تاریخی نشیب و فراز کی وجہ سے میتھلی زبان و ادب
میں اردو،فارسی اور عربی کے الفاظ کو فطری طور پر جگہ ملی ہے۔واضح ہو کہ شمالی
بہار میں سب سے پہلے 1202میں محمد بن بختیار خلجی سارن کے راستے داخل ہوا اور راجہ
نرسنگھ دیو کو شکست دے کر یہاں اپنی حکومت قائم کی لیکن وہ جلد ہی بنگال کی طرف
کوچ کر گیا۔ خلجی کے بعد التمش نے 1225میں میتھلانچل کو اپنے حدود میں شامل کر لیا
اور پھرعلاء الدین خلجی نے 1295سے 1316 تک یہاں حکومت کی۔ اس کے بعد غیاث الدین
تغلق اور اس کے جانشین سلطان محمد بن تغلق کی حکومت رہی اور اس کے بعد بقول معروف
مورخ شاداں فاروقی:
’’ جون پور کے فرماروا سلطان ابراہیم شاہ شرفی 1402عیسوی میں ترہت کے راجہ
شیوسنگھ کو شکست دے کر قابض ہوئے لیکن ابراہیم شاہ نے جلد ہی شیو سنگھ کے والد دیو
سنگھ کو حکومت واپس کر دی ‘‘2؎
واضح ہو کہ میتھلی زبان کے
عظیم شاعر ودیا پتی(1350-1440) شیو سنگھ کے دربار سے ہی وابستہ تھے۔ودّیا پتی کو
میتھلی کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے متھلا میں سنسکرت کے مقابلے لوک بھاشا
اوہٹ میں شاعری کی اور میتھلی زبان کے لیے زمین تیار کی۔انھوں نے اپنی کتاب ’ کرتی
لتا‘ اور ’ کرتی پتا کا‘ میں شیو سنگھ اور اس کے بھائی کرتی سنگھ کے ساتھ ابراہیم
شاہ شرقی کی منظوم داستان بیان کی ہے چند
اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
کہن اک من دے سنو بیکھن
کچھ بولوں تر کانوں لکھن
تتوبے کمار و پیٹھے بجاری
جہن لکھ گھورا مونگا ہجاری
کھریدے کھریدے بہوتو گلامو
ترکیں ترکیں اپن کو سلامو
پھر دوسری جگہ ودیا پتی
ابراہیم شاہ کے متعلق لکھتے ہیں ؎
ابراہیم شاہ پوان اوپوہی
نر سرکون سہی
گر ساگر پار ابار نہیں، رعیت
بھیلن جیون
جب مغل سلطنت قائم ہوئی
تومیتھلانچل بھی اس کی حکومت کا حصہ بن گیا اور اس عہد میں یہاں کی دفتری زبان
فارسی قرار پائی۔ لہٰذا اب فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کا چلن بھی عام ہوا اور یہی وہ
دور ہے جس میں میتھلی ادب کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اس لیے میتھلی کے شعرا اور ادبا کی
تخلیقات میں اردو الفاظ کا استعمال فطری طور پر ہونے لگتا ہے۔میتھلی زبان و ادب
میں اردو زبان کے الفاظ دو صورتوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ اولاً اردو کے الفاظ اپنی
اصل صورت میں میتھلی کی شعری اور نثری تخلیقات میں استعمال کیے گئے ہیں جبکہ دوسری
صورت میں اردو الفاظ کی صحت میں معمولی سی تبدیلی کے بعد استعمال ہوئے ہیں۔میتھلی زبان کی لغت میں بھی ہزاروں
اردو الفاظ اپنے اصل معنی کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔سب سے پہلے S.W. Fallonنے
اپنی ڈکشنری A new Hindustani English Dictionary مطبوعہ 1879 میں اردوکے سیکڑوں الفاظ کو میتھلی میں اپنی
اصل صورت میں شامل کیا ہے لیکن فیلن نے میتھلی کو ترہوتی زبان کہا ہے۔َ فیلن کے
بعد مسٹر واٹلنگ(Mr. Watlling) نے اپنی لغت A Dictionary belongs to the Hindustani
Language میں بہتیرے ایسے
فارسی الفاظ کی نشاندہی کی ہے جو میتھلی میں شامل ہیں.
William careyنے بھی 1793میں
میتھلی کی ایک لغت تیار کی تھی اس میں بھی انھوں نے اردو کے بہت سارے الفاظ کو
میتھلی کے خانے میں ڈال دیا ہے۔ مسٹر ٹرنر نے اپنی کتاب ’’ نیپالی
ڈکشنری‘‘۔1931اور ہری چرن بندھو اپادھیائے نے اپنی ڈکشنری ’بنگیا شبد کوشا‘،میں
بھی اردو کے الفاظ کو میتھلی کے طور پر ہی لکھا ہے کیونکہ ان لغت نویسوں نے میتھلی
کی شعری اور نثری تخلیقات کے مطالعے کی بنیاد پر لغت تیار کی تھی۔جن میتھلی لغت کو
قبولیت کا درجہ حاصل ہے ان میں بھی اردو کے سیکڑوں الفاظ اپنی اصل صورت اورلغوی
معنی میں موجود ہیںمثلا ً ’متھلا بھاشاکوش‘ مرتب دین بندھو جھا (1950) متھلا شبد کوش مرتب ڈاکٹر گوبند جھا(1992)
’متھلا شبد کلپدرم ‘ مرتب پنڈت متی ناتھ مشرا (1997)، انگیکا۔ ہندی شبد بھاشا مرتب
ڈاکٹر دومن ساہو سمیر (1997) اور کلیانی شبد کوش مرتب پنڈت گوبند جھا(1999)۔ ان
تمام لغات میں میتھلی ادب کی شعری و نثری تخلیقات میں استعمال ہونے والے الفاظ کو
مرتب کیا گیا ہے۔
لسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ
حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سولہویں صدی کے بعد میتھلی نے اردو زبان کے اثرات کو قبول
کیا اور اردو فارسی کے ساتھ ساتھ عربی کے الفاظ بھی میتھلی ادب میں جگہ پانے لگے۔
جیسا کہ جان شیکسپیئر نے اپنی مشہورِ
زمانہ ڈکشنری ''A Dictionary, Hindustani and
Enlish"میں لکھا ہے:
''In India Extensive as it is and peopled by many diffirent reces of men, variety of dialiects must be expected to Occur in the most prevelent colloquial language, wether denomnated Zaban-I- URDU, Rekhta, Hindi, Hindustani or Dukhni and words of common use in some parts may appear strange, or be even unintelligible, to the inhabitants of others.3
یہ ذکر اس سے قبل آچکا ہے کہ
میتھلی میں اردو کے الفاظ دو صورتوں میں استعمال ہوئے ہیں اولاً اردو الفاظ اپنی
اصل ہیئت اور صحت کے ساتھ اور دوئم معمولی تبدیلی کے ساتھ۔ایسے الفاظ جو اپنی اصل
صورت میں میتھلی شعر و ادب کا حصہ بن گئے ہیں اس کی مختصر سی فہرست دیکھی جا سکتی
ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
میتھلی نے کس طرح اردو کے اثرات قبول کیے ہیں۔ یہ الفاظ ہیں:
قلعہ،جمعدار،فوج،بہادر،بارود،سپاہی،سرنگ،حولدار،علاقہ،تحصیل،پرگنہ،
محلہ، شہر، امین، چپراسی، دربان، داروغہ، نواب، پیشکار،منشی، مالک، سردار،سرشتہ
دار،عرضی، عدالت، فائدہ، خزانہ، خانہ تلاشی، قانون، جرمانہ، دلیل، دستور،فرمان،
بندوبست،باقی، مدعی، مہر،رسید، ثبوت،حاضر،حق، حکم، آستین، کرتا،تکیہ، پیجامہ،
مخمل، رومال، مسالہ، بادام، اشرفی، کرسی، صندوق، صابن، کارخانہ، جلسہ، جواب، دخل،
نصیب، مکان، مذاق، منظور، حساب،خلیفہ، تقدیر، پیغمبر،فقیر، مولوی، حرام، شہید،
قوالی، دف، طبلہ،ستار، سفید، بادامی، نظر بند، شطرنج وغیرہ۔
اس کے علاوہ بہت سے ایسے الفاظ
ہیں جو تھوڑی سی تبدیلی کے بعد میتھلی زبان و ادب میں استعمال کیے گئے ہیں مثلاً
بندوق کو بنوق،زمیندار کو جمیدار ضبط کو
جپت، ظلم کوجلوم،فکر کو فیکر،فرصت کو پھرستی،مدد کو مددتی،مسجد کو مہجد، کاغذ
کوکاگت،شرط کو سرت وغیرہ۔
چونکہ یہاں تفصیل کی گنجائش
نہیں اس لیے مندرجہ بالا الفاظ کی روشنی میں بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا
ہے کہ میتھلی زبان و ادب پر اردو کے نمایاں اثرات ہیں اور میتھلی کے تمام چھوٹے
بڑے تخلیق کاروںنے اپنی تخلیقات میں اردو کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگرچہ اب یہ
تمام الفاظ میتھلی لغت کا حصہ بن گئے ہیں اور
میتھلی زبان و ادب کی شعری و نثری تخلیقات میں کہیں اپنے اصل معنی میںتو
کہیں معمولی سی ہیئتی تبدیلی اور معنوی تبدیلی کے ساتھ استعمال ہورہے ہیں۔ میتھلی
زبان و ادب کی پہلی نثری تصنیف ’ ورن رتناکر‘ (1340) مصنف جوتیشور ٹھاکر کی
تحریروں میں بھی اردو کے الفاظ مل جاتے ہیں اور میتھلی زبان وادب کے عظیم المرتبت
شعرا ودیا پتی، چندا جھا، چنڈی داس،رامانند رائے، ناگارجن یاتری،سریندر جھا
سمن،چندر کانت مشر امر، رام دیو، سوم دیو، تنتر ناتھ جھا، ڈاکٹر بھیم ناتھ جھا،
ڈاکٹر ویبھوتی آنند،پھول چندر مشر، پروفیسر وینا ٹھاکر، پروفیسر رمن جھا، ڈاکٹر
جیوتسنا،ڈاکٹر اشوک، ڈاکٹر مہندر رام،ڈاکٹر ابھیلاشا وغیرہ کی نثری و شعری تخلیقات
میں اردوالفاظ کے استعمال کو دیکھا جا سکتا ہے۔چندا جھا(1831-1907)جنھیں میتھلی
ادب کا قطب نما تسلیم کیا جاتا ہے کہ انھوں نے میتھلی شاعری کو موضوع اور مواد
دونوں اعتبار سے افقِ نو سے آشنا کرایا ہے۔ ان کی شاعری ’پداولی ‘ میں غزلیہ
شاعری کا رنگ وآہنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی ’پداولی‘ کا یہ پد دیکھیے جس میں کس
خوبصورتی سے انھوں نے اردو الفاظ کو میتھلی کے قالب میں ڈھال دیاہے ؎
آئے سو بہت خرچ، قرض نار چھوٹ
گیہہ مدھیہ چھل سوگوار
آبی لوٹ
اس پد میں بہت، خرچ، قرض، اردو
کے الفاظ ہیں اور اپنے اصل معنی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔
بلا شبہ زبان کی سماجیات میں
اس کا عوامی کردار سب سے اہم عنصر ہوتا ہے۔میتھلی کی تاریخ کے مطالعے کے بعد یہ
نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ میتھلی کے خمیر میں ہندوستان کی کثیر اللسانی
فضا آبِ حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میتھلی ہند آریائی زبان
ہے اور اس پر اردو، عربی وفارسی کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم
ہے کہ میتھلی کے فروغ میں جس طرح تہذیبی وتمدنی اختلاط معاون رہے ہیں اسی طرح
لسانی اختلاط نے اس کی قبولیت کو استحکام بخشا ہے۔ ایک زندہ زبان کی سب سے بڑی
خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ جس طرح وہ کہیں سے بھی اور کسی زبان سے اپنے مزاج کے الفاظ
کو اپنا لیتی ہے اسی طرح اپنے معاشرے کی زبان کو متاثر بھی کرتی ہے۔ متھلانچل میں
زبانوں کی یہی فطری روش عام ہوتی ہے اور اردو یہاں کی علاقائی زبانوں پر اپنا گہرا
نقش قائم کرتی ہے۔چوں کہ متھلانچل میں میتھلی عوامی رابطے کی زبان کے ساتھ ساتھ
تخلیقی زبان کی بھی حیثیت اختیار کرتی ہے اس لیے اردو الفاظ میتھلی ادب میں فطری
طورپر استعمال ہونے لگتے ہیں۔متھلانچل کے معروف اسکالر پروفیسر امرناتھ جھا نے اس
حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ :
’’تخلیق کار پر کسی طرح کا قصداً جبر خطرناک ہوتاہے۔ اعلیٰ
درجے کی تخلیق کے لیے تخلیق کار کا ذہن ودل کسی بھی جبر کو قبول نہیں کرتا۔ تخلیق
انسان کے احساسات ومشاہدات اور تجربات سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا وسیلۂ اظہار
زبان ہے اور وسیلۂ اظہار کو بس میں کون لا سکتا ہے۔ چھوٹی ندی کی دھارا تو روکی
جا سکتی ہے، ساگر پر قابو نا ممکن ہے۔ ‘‘4؎
اٹھارہویں صدی کے آخر اور
انیسویں صدی کے آغاز میں اردو نہ صرف میتھلی زبان پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ
متھلانچل کے لسانی معاشرے کو بھی اپنی جادو ئی گرفت میں لے لیتی ہے۔متھلانچل کے
غیر اردو داں ادبا اور شعرا اردو کو تخلیقی ذریعۂ اظہار بنانے لگتے ہیں۔ بالخصوص
اردو میں نہ صرف شاعری کو فروغ دیتے ہیں بلکہ کئی ادبا اور شعرا صاحب دیوان اور
صاحب تصانیف کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ دو تذکرے ’شورش وعشقی‘ مرتب پروفیسر
کلیم الدین احمد(1963)، ’تذکرہ ہندو شعراے بہار‘ مصنف فصیح الدین بلخی(1962)، ہفتہ
وار’انسان‘کشن گنج، پورنیہ نمبر( جنوری 1955)، ’سخنورانِ سارن‘ مرتب پروفیسر اے
حمید و زاہد فیروز پوری (1972)، ’ندیم‘ گیا بہار نمبر(1960)، ’خمخانۂ جاوید‘ مصنف
لالہ سری رام (1908)، ’تاریخ شعراے بہار‘ مصنف سید عزیزالدین بلخی (1931)،
’آئینۂ ترہت‘ مصنف منشی بہاری لال فطرت (1883)، ’ریاض ترہت‘ مصنف منشی اجودھیا
پرساد بہار (1868)، ماہنامہ ’پیامِ یار‘ شمارہ جنوری (1900) اور ’تذکرہ بزمِ شمال‘
جلد اول، مصنف شاداں فاروقی (1986) کے ساتھ ساتھ ’بہار ڈسٹرکٹ گزیٹیر‘(1904) کے
سرسری مطالعے سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی
متھلانچل میں اردو شعر وشاعری کا ماحول سازگار ہو جاتا ہے اور سیکڑوں غیر مسلم
وغیر اردوداں ادبا اورشعرا اردو کی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں اور پھر شعروسخن کی
دنیا آباد کرتے ہیں۔
مندرجہ
بالا تذکروں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شعرا اردو کی
کلاسیکی شاعری کی زرخیزی سے متاثر ہیں اور غزلیہ شاعری کے دلدادہ ہیں۔ تذکروں کے
مطالعے سے بیشتر شعرا کی تاریخِ وفات تو حاصل ہوتی ہے لیکن تاریخِ پیدائش کا ذکر
بہت کم ہوا ہے۔ لیکن تاریخِ وفات کے اندراج سے یہ تحقیقی سراغ مل جاتا ہے کہ یہ
تمام شعرا انیسویں صدی کے اخیر اور بیسویں صدی کے آغاز تک اردو شاعری کی فضا
کواپنی تخلیقیت کی خوشبو سے معطر کرتے رہے ہیں۔یہاں تفصیلی ذکر باعثِ طوالت ہوگا
اس لیے ان شعرا کا مختصر تعارف اور ان کا نمونہ کلام قارئین کی خدمت میں پیش کرنے
کی سعادت چاہتا ہوں تاکہ متھلانچل میں اردو کے لسانی ارتقاء اور شاعری کی بہ تدریج
ترقی کا پتہ بہ آسانی لگایا جا سکے۔
(1) منشی آشا رام ذوق: منشی آشا رام نام اور ذوق تخلص کرتے تھے۔ کائستھ
برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ شہر دربھنگہ کے محلہ بھگوان داس کے باشندہ تھے اور ترہت
ریاست میں فوجدار کے عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے راجہ رام نرائن موزوں سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ وہ کچھ دنوں تک عظیم
آباد میں بھی قیام پذیر رہے اس لیے شورش نے اپنے تذکرے میں انھیں عظیم آبادی
لکھا ہے۔ لیکن مولوی الیاس رحمانی نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ منشی آشا
رام ذوق دربھنگہ کے آبائی تھے اور ان کے بڑے بھائی منسا رام بھی اردو کی تعلیم سے
آراستہ تھے۔ تاریخِ پیدائش کا ذکر نہیں ملتا البتہ تاریخِ وفات 1215ھ مطابق 1808
کئی تذکروں میں درج ہے۔حضرت شاداں فاروقی نے ’تذکرہ بزمِ شمال‘ میں بھی تاریخِ
وفات کو ہی بنیاد بنایا ہے۔ذوق نے بعد میں مرزا فدوی سے بھی اپنے کلام کی اصلاح لی
تھی اور اس کا اعتراف بھی انھوںنے اپنے اس شعر میں کیا ہے ؎
کیوں نہ ہو شعر کا رتبہ مرے اے
ذوق بلند
فدوی ہو کر رہے فدوی سے استاد
کے ساتھ
ان کے غزلیہ اشعار کے مطالعے
سے یہ عقدہ واضح ہو جاتا ہے کہ ذوق کلاسیکی مزاج کے شاعر تھے اور اس وقت کے استاد
شعرا کی زمین پر طبع آزمائی کرتے تھے۔ علم العروض وبلاغت پر دسترس حاصل تھی اس
لیے شعر میں فنی پختگی نظر آتی ہے اور کلام بھی صاف ستھرا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ
فرمائیں ؎
وہ نظر مجھ کو جب نہیں آتا
کچھ نظر مجھ کو تب نہیں آتا
دل جانتا ہے تیرے ہوا خواہ کا
اسے
شعلہ کی طرح رات جو کچھ اضطراب
تھا
——
ذوق کے مرنے کا افسوس نہیں کچھ
اس کو
غم کہاں شمع کے دل میں کسی
پروانے کا
——
دل تو کہے ہے آنکھوں نے مجھ
کو کیا خراب
آنکھیں کہے ہیں دل ہی نے ہم
کو ڈوبا دیا
——
دلِ پر داغ کی کروں ہوں سیر
نہ خزاں سے نہ کچھ بہار سے کام
——
بگڑا کسی کا کچھ نہیں اے ذوق
مفت میں
دونوں کی ضد نے خاک میں ہم کو
ملا دیا
(2)
دیوان جیون لال تحقیق: اصل نام
دیوان جیون رام اور تخلص تحقیق تھا۔ والد کا نام لالہ کرپا رام جو موضع شیودھا ضلع
مظفرپور کے ایک رئیس کائستھ خاندان میں شمار ہوتے تھے۔مہاراجہ مادھو سنگھ کھنڈوال
دربھنگہ کے دربار میں دیوان کے عہدہ پر فائز تھے۔حضرت شاداں فاروقی نے مقامی لوگوں
کی روایات کی بنیاد پر ان کی تاریخِ وفات 1805 لکھی ہے۔تحقیق اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبان پر بھی
عبور رکھتے تھے۔ لیکن شاعری کے لیے فارسی کو ہی وسیلۂ اظہار بناتے تھے۔اس لیے
’آئینۂ ترہت‘ میں ان کے فارسی اشعار کو
ہی حوالہ بنایا گیا ہے۔ اردواشعار کم ہی ملتے ہیں۔یہاں میں ایک شعر فارسی کا اور
ایک اردو کا بطور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں
؎
ہر عمل پختہ شود خام کہ در
خانہ بماند
چوں پلا ذر کہ دیگر سالِ نماید
درشاخ
——
مئے مصفا جام سے،مئے سے مصفا
جام ہے
فرقِ بینائی کرے کیوں کر ایاغِ
دوستی
(3)
منشی شمبھو دت رفعتی:خاندانی
نام شمبھو دت او رتخلص رفعتی تھا۔ راجا پیارے لال الفتی عظیم آباد ی کے تلامذہ
میں تھے۔ لالہ اجاگر چند الفت کے دیوان میں رفعتی کا ایک قطعہ شامل ہے اس سے معلوم
ہوتا ہے کہ رفعتی کا انتقال 1829میں ہوا۔ وہ مہاراجہ چھتر سنگھ کھنڈوال راج خاندان
دربھنگہ کے دربار سے وابستہ تھے۔ فارسی میں شعر موزوں کرتے تھے اور علمی حلقے میں
قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ رفعتی کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے ؎
تا ہر گو بند گوش چہ پختہ نمود
از سال بنا ووصف دے طبع فہیم
از فصلی وہجری ومسیحی سمبت
ہر چار دیں دربیت کردم ترقیم
جاہ بصفا زمزم وسردوخنکے
شیریں بمزہ آمد از آب تسنیم
خوش با مزہ والذ بسے ہمچو ز
لال
کوثر بہ لطافت وے آبست حمیم
تطبیق حسنین چار
گا نہ باہم
تا حال ندیدہ شد زاسلاف قدیم
انصاف کہ رفعتیؔ چہ دُر سفتہ
بدیع
ایں طرز چہ
الفتی نمودش تعلیم
ساکا شود عیاں
بطرز تو شیخ
بادل چو
تا ملے کند طبع سلیم
(4)
منشی اجودھیا پرشاد بہار:ان کا
اصل نام منشی اجودھیا پرشاد اور تخلص بہارتھا۔ ان کے والد گوپال رائے داروغہ کے
عہدے پر فائز تھے۔ ان کا آبائی وطن منیر شریف پٹنہ تھالیکن 1857 کے بعد ان کا
خاندان دربھنگہ منتقل ہوگیا۔ بہار شاعر کے ساتھ ساتھ ایک مؤرخ اور صحافی بھی تھے۔
انھوںنے 1868 میں ’اخبار الاخیار‘ شائع
کیا۔ سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’ریاضِ ترہت‘ (1868) ہے جو ترہت ریاست کی سیاسی،ادبی، تہذیبی،
ثقافتی اور لسانی تاریخ کی حوالہ جاتی کتاب ہے۔
اردو ان کی مادری زبان تھی کہ اس وقت کائستھ برادری کی گھریلو زبان اردو
تھی لہٰذا ان کی ابتدائی تعلیم بھی اردو میں ہوئی۔ انھیں عربی اور فارسی پر بھی
دسترس حاصل تھی۔ان کا انتقال1307ھ بمطابق 1889
دربھنگہ میں ہوا۔ نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے کلام میں کلاسیکی
شاعری کا آہنگ اور موضوعی خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں ؎
نہیں اضطراب اے بہار اب کسی کو
فقط اس سے ملنے کی اب آرزو ہے
——
جس گلستاں میں بوٹا سا قد یار
نہیں
پھول ہیں، خار بیابان ہے،
گلزار نہیں
——
ہراک رنگ میں جلوہ گر ماہِ رو
ہے
اسی کا یہ جلوہ، اسی کی یہ بو
ہے
——
ہمیشہ کرتے ہو تم قول،پر قرار
نہیں
ذرا بھی وعدہ کا صاحب کے
اعتراف نہیں
——
عبث ملول فضا میں ہوئی ہے اے
بلبل
خزاں کے بعد پھر آئے گی کیا
بہار نہیں
(5) منشی مہادیو پرشاد منتظر: اصل نام منشی مہادیو پرشاد اور تخلص منتظر ہے۔ یہ
اجودھیا پرشاد بہار کے چھوٹے بھائی تھے۔ دربھنگہ راج میں ملازم تھے۔ان کی بھی
تاریخ پیدائش معلوم نہیں البتہ تاریخ وفات 1308ھ مطابق 1890 ہے۔ اپنے بڑے بھائی
اجودھیا پرشاد بہار سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کی شاعری کی بیاض سے پتہ چلتا ہے کہ ان
کے اندر بھی بے پناہ شاعرانہ صلاحیت موجود تھی۔ان کے یہاں بھی کلاسیکی رنگ نمایاں
ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
تیرے عارض ہیں یا گلاب کے پھول
کس نے دیکھے یہ آب وتاب کے
پھول
——
رکھنے دیتی قدم زمیں پہ نہیں
اب ٹھکانہ مرا کہیں بھی نہیں
کیسا رسوائے خلق مجھ کو کیا
یا خدا ہو برا محبت کا
(6) منشی کیول پرشاد فقیر:خاندانی نام منشی کیول پرشاد اور تخلص فقیر تھا۔ان کے والد رائے کالکا پرشاد اسکول ٹیچر
تھے۔ منشی کیول پرشاد فقیر اپنے زمانے کے ایک خوشخط شاعر تھے اس لیے انھیں ’خورشید
رقمی‘ بھی کہا جاتا تھا۔ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ سنسکرت پر بھی انھیں
دستگاہ حاصل تھی۔ان کی بھی تاریخِ پیدائش دستیاب نہیں ہے البتہ تاریخِ وفات 1308ھ
مطابق 1890 ہے۔ ’تذکرہ ہندو شعراے بہار‘ میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔ صوفیانہ مزاج
کے مالک تھے۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔انھوں نے ایک مثنوی بھی
لکھی تھی جس کا ذکر مذکورہ تذکرے میں آیا ہے۔اشعار ملاحظہ فرمائیے ؎
میں احوال اپنا
لکھوں مختصر
نہیں کذب کا اس میں کچھ بھی
اثر
کہ تھے از بزرگانِ من رنگ لال
دو فرزند ان کو،لکھوں ان کا حال
——
کہتے ہیں عزا کو کہ صنع کرتے
ہیں
مجبور ہیں ہم سن کے قنع
کرتے ہیں
ایماں ہے فقیر بس عزائے حسنین
کافر ہیں وہ جو اس سے منع کرتے
ہیں
(7)
منشی بھوانی پرشاد حسرت: اصل
نام بھوانی پرشاد پیشۂ دیوانی سے وابستہ تھے اس لیے منشی بھی لکھتے تھے۔ تخلص
حسرت تھا۔مولوی مرشد حسن کامل دھرمپوری سے اصلاح لیتے تھے۔ انھیں فارسی کے ساتھ
اردو اور سنسکرت پر دسترس حاصل تھی۔ شاعری کا صاف ستھرا ذوق تھا۔ افسوس ہے کہ ان
کا کلام دستیاب نہیں ہے البتہ ’ریاضِ ترہت ‘ میں ان کا ایک قطعۂ تاریخ اور شعر
موجود ہے ؎
سحر سے دوپہر شب تک ذرا فرصت
نہیں ملتی
رہا ہوں جب سے کورٹ میں حواس
اپنا ہے چکر میں
اور قطعۂ تاریخ دیکھیے ؎
منشی نامور
کرم گستر
شاعر خوش بیان
و خوش افکار
خاتم عصر و
صاحب توقیر
گوہر دُرج
گنج عز و و
قار
بحر فیض است در جہاں ذاتش
شمع روئے
صفا و کبار
کرد تالیف چو ں
بطرز نیکو
خوش کتابے کہ ہست رشک بہار
بلبل خانہ چ ہچہہ
زن شد
سال تاریخ ،
غیرتِ گلزار
1868
ان کی تاریخِ پیدائش کا کہیں
ذکر نہیں ملتا۔ حضرت شاداں فاروقی نے اپنے ’تذکرہ بزمِ شمال‘ جلد اول میں ان کی
تاریخِ وفات 1890 لکھی ہے۔
(8) لالہ سدا نند، نند دربھنگوی: اصل نام لالہ سدا نند اور تخلص نند تھا۔ نند
دربھنگوی کے نام سے ان کا کلام شائع ہوتا تھا۔بزمِ کامل کے بنیاد گزاروں میں
تھے۔اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں شعر کہتے تھے۔ الیاس رحمانی نے ان کے قلمی بیاض
کا ذکر کیا ہے لیکن اب کہیں دستیاب نہیں ہے۔ ’ریاضِ ترہت ‘ میں ان کا ایک قطعہ موجود
ہے۔ملاحظہ کیجیے ؎
از رہِ لطف کردار شارم
بندہ پرور کریم
و بندہ نواز
بہ نگارید سال
تاریخے
داشتم فرق
بر زمین نیاز
فکر کردم بہ سال تاریخش
عرض کردم کہ شد، غریب نواز
(9)
منشی راجندر سہائے عشرت
دربھنگوی: خاندانی نام راجندر سہائے، تخلص عشرت تھا۔ پیشۂ دیوانی سے وابستہ تھے
اس لیے منشی راجندر سہائے عشرت دربھنگوی لکھتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ ان کا نمونۂ
کلام کسی بھی تذکرے میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ان کی شاعرانہ صلاحیت کا اعتراف سبھی
نے کیا ہے۔ ’ریاضِ ترہت ‘ میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔عشرت دربھنگوی کا انتقال
دربھنگہ میں 1890 میں ہوا۔ شاداں فاروقی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں ان کا ایک شعر
درج کیا ہے جو اس طرح ہے ؎
زلف ان کی جو رخ سے ہٹ رہی ہے
دن بڑھتا ہے رات گھٹ رہی ہے
(10)
منشی مہاراج سنگھ مطلب
دربھنگوی: خاندانی نام مہاراج سنگھ تھا، مطلب تخلص تھا۔ ان کے والد منشی درباری
لال دربھنگہ کے مشہور دیوان تھے۔ انھوں نے بھی پیشۂ پدری کو اپنایا تھا۔ منشی بدری
ناتھ شبنم سے اصلاح لیتے تھے۔ ’تذکرہ گلزارِ سخن‘ میں ان کا کلام دستیاب ہے۔ ان کا
انتقال 1308ھ مطابق 1890 دربھنگہ میں ہوا ۔عصرِ حاضر میں بھی ان کے خاندان کے لوگ
شہر دربھنگہ کے محلہ منہرن لال میں قیام پذیر ہیں۔لیکن اب ان کے یہاں اردو کا چلن
نہیں رہا۔اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
عمارت کی بنا ہم کیا کریں خاک
ثبات اک
دم نہیں قصرِ تن
کا
ہمیشہ ٹیڑھے وہ رہتے ہیں ہم سے
گھمنڈ ان کو ہے
اپنے بانکپن کا
دہن میٹھا ہو اپنا بھی
تو مطلب
کیا جب وصف اس شیریں دہن کا
(11) جنگ بہادر جنگ: خاندانی نام جنگ بہادر اور تخلص بھی جنگ تھا۔ ان کے والد کا
نام رائے کالکا سہائے تھا۔ان کی سنہ ولادت 1834 اوروفات 1890 دستیاب ہے۔ جنگ کو
عربی، فارسی اور اردو پر گہری دسترس حاصل تھی۔ عربی میں ایک رسالہ بھی جاری کیا
تھا۔1865 میں گورنر جنرل کی مدح میں انہو ں نے ایک قصیدہ کہا تھا اور جسے مظفرپور
کی نمائش میں پڑھا گیا تھا۔اشعار ملاحظہ کیجیے
؎
قانون عدل ودار کا
عالم میں شور ہے
آہنگ جس کے درس کا رکھتے
ہیں جاوداں
پر اب تلک عوام کو اس سے
خبر نہ تھی
عدلِ بدر کو جرم
سمجھتے ہیں کوز
وکاں
بالفعل جو
ہوا ہے نمائش
کا اہتمام
آئیں رموز
کا عقدہ ہوا
عیاں
اس روز عرض عام کی ہو
خاصیت عجیب
ہو جنس وفصل ونوع کا جب شہ
نگاہباں
کیا خوب ہے وہ روز کہ جس روز میں تمام
ملحوظ شاہ
ہوئیں رعایا کی
خوبیاں
اشیائے نادرات
و غرائب جہان کے
یکتائے ہر
علوم و افراد
سروراں
(12) بابو پنجاب رائے طاہر دربھنگوی: خاندانی نام بابو پنجا ب رائے اور تخلص
طاہر تھا۔ راجہ درگا پرشاد کے یہاں دیوان ہوئے۔ منشی بہاری لال فطرت کے چچا زاد
بھائی تھے۔ دفتری امور کو انجام دینے کے لیے زیادہ تر عظیم آباد میں رہتے تھے
لیکن دربھنگہ کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ تاریخ پیدائش معلوم
نہیں۔ 1891 میں ان کا انتقال دربھنگہ میں ہوا۔اردو کے ساتھ فارسی میں بھی شعر کہتے
تھے۔ ان کا بھی دیوان شائع ہوا تھا لیکن کہیں بھی دستیاب نہیں البتہ ایک غزل
’گلدستہ‘ مطبع نول کشور لکھنؤ(1875) میں شائع ہوئی تھی۔ ملاحظہ کیجیے ؎
ماشاء اللہ
ہے کیا تیرا
معطر گیسو
نافۂ مشک ختن سے بھی ہے بہتر
گیسو
کیا کروں وصف کہ کیا ہے ترا
دلبر گیسو
سنبلستان ارم یا کہ معنبر گیسو
لب سے، آنکھوں سے، زنخدان سے
رخساروں سے
سب سے خوبی میں بڑھا ہے ترا
نمبر گیسو
سورج گرہن کا گماں ہو وے منحم
کو ابھی
رخ خورتاب سے مل جائیں جو دم
بھر گیسو
عکس سے تاخ مرصّع کے یہ ہوتا
ہے گماں
دشت ظلمات میں ہے معدی گوہر
گیسو
آج کیا ہے کہ پریشانی ہے چہرے
سے عیاں
کیوں سراسر یہ نظر آتے ہیں
ابتر گیسو
کیوں اداسی ہے یہ چہرے پہ، کہو
حال ہے کیا
رخ کے فق رنگ ہیں کیوں اور ہے
ابتر گیسو
دست رس کیسے ہو، ہے ارض وسما
کی دوری
آپ کے پائوں تو ہیں آج فلک
پر گیسو
یہ خطا اپنی ہے خود کردہ رایاں
چہ علاج
خود پشیماں ہوں چڑھا کر مجھے
سرپرگیسو
بال کھولے نہ لبِ بام تم آؤ ہرگز
کہیں بن جانئیں نہ اڑجانے کو
شہپر گیسو
کیا الٹ پھیر ہے کیا شانِ خدا
ہے طاہر
شانہ گیسو پہ کبھی شانے کے
اوپرگیسو
(13)
منشی ہر چرن سنگھ حسین
مظفرپوری: خاندانی نام ہر چرن سنگھ تھا۔ ان کے والد منشی چیت نرائن سنگھ اپنے
زمانے کے مشہور دیوان تھے۔ انھوں نے بھی پیشۂ پدری کو اپنایا تھا۔ اس لیے منشی ہر
چرن سنگھ حسین مظفرپوری کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعد میں سیشن جج ضلع پٹنہ کے پیشکار
رہے اور کلکٹر سارن کے بھی پیشکار رہے۔ان کی تاریخِ پیدائش معلوم نہیں البتہ 1882
میں وفات کا ذکر موجود ہے۔ شاعری کا صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے لیکن افسوس کا مقام
یہ ہے کہ ان کا سارا شعری سرمایہ تلف ہوگیا۔ ’آئینۂ ترہت ‘ میں اس کا ذکر موجود
ہے۔
(14) منشی بہاری لال فطرت: نام بہاری لال،تخلص فطرت تھا۔ان کے والد کا نام منشی
جے کشن لال تھا۔ انھوں نے پیشۂ پدری کو اپنایا تھا اور منشی بہاری لال فطرت کے
نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مولوی امیر علی الٰہ آبادی اور حضرت
مولانا امام شاہ ومولانا بہرام شاہ کی دیکھ ریکھ میں ہوئی۔ انھیں عربی، فارسی اور
اردو پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے بعد میں انگریزی تعلیم حاصل کی اور 1856 میں
وکالت کا امتحان پاس کیا۔ انھیں 1876 میں بحکم بنگال گورنمنٹ آنریری مجسٹریٹ
بنایا گیا۔ 1877 میں عدالتِ منصفی دربھنگہ میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے۔ 1889میں
میونسپل کمشنر منتخب ہوئے اور آخری عمر تک پیشۂ وکالت سے وابستہ رہے۔ ان کی
تاریخ پیدائش کا کہیں تذکرہ نہیں ہے ان کی سالِ وفات 1899 ہے۔شعر وسخن میں مولوی
مرشد حسن کامل دھرمپوری کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ان کی مشہور زمانہ تصنیف
’آئینۂ ترہت‘ (1883) ریاست ترہت کی مکمل تاریخ ہے۔ فطرت کلاسیکی رنگ وآہنگ کی
شاعری کے دلدادہ تھے اورچونکہ اس وقت غزل گوئی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا لہٰذا
انھوں نے بھی غزلیہ شاعری کو ہی اپنی شناخت کا ضامن بنایا۔ اگرچہ انھوں نے مہاراجہ
لکشمیشور سنگھ بہادر، ریاست دربھنگہ کی مدح میں ایک قصیدہ بھی کہا ہے۔اشعار ملاحظہ
کیجیے ؎
چتونوں سے ہے آپ کی ظاہر
آگ تم نے کہیں لگائی ہے
کیا بھروسہ ہے ان کی الفت کا
چار دن کی یہ آشنائی ہے
تری درگاہ کے ہیں سب سائل
آسماں کاسۂ گدائی ہے
——
اشک پی لیتے ہیں غم کھاتے ہیں
فطرت ہرروز
ایسے دانے ایسے پانی سے گذر
کرتے ہیں
——
مٹالو حسرتِ دیدار چل کے اے
فطرت
سنا ہے آج کل دیدارِ عام ہوتا
ہے
——
دل میں، جگر میں، سینہ میں،
پہلو میں درد ہے
اے چارہ گر بتا کہ بتائوں کہاں
کہاں
(15) منشی بدری ناتھ شبنم: خاندانی نام بدری ناتھ، تخلص شبنم تھا۔ ان کے والد کا
نام منشی جے کشن لال تھا۔ دربھنگہ شہر کے محلہ منہرن لال، حال مقام جے پی چوک کے
باشندہ تھے۔ انھیں فارسی اور اردو پر دسترس حاصل تھی۔ان کی تاریخ پیدائش بھی معلوم
نہیں البتہ تاریخ وفات 1328ھ مطابق 1910 مختلف تذکروں میں درج ہے۔انھوں نے بھی
مولوی مرشد حسن کامل دھرمپوری سے اصلاح لی تھی۔ غزلیہ شاعری کے دلدادہ تھے اور
روایتی رنگ میں شعر کہتے تھے۔ نمونۂ کلام درج ذیل ہے ؎
یہ ضعف ہے حاصل جو وہ آتے ہیں
کسی روز
تسلیم کو بھی ہاتھ اٹھایا نہیں
جاتا
ہو جائے وصال اپنا کہ ہو
جائیں سبکدوش
بارِ غمِ فرقت کو اٹھا یا نہیں جاتا
——
برابر ہوں،کب پایہ انسان کے
کہ انگلی ہے چھوٹی بڑی ہاتھ
میں
——
عیادت کو جو آئے دیکھ
کر ہم کو لگے
کہنے
یہ بیمارِ
محبت آج شاید رات بھر ٹھہرے
کہی ہے خونِ دل کھا کھا کے
اپنی یہ غزل میں نے
تمام اشعار اے شبنم مرے لختِ
جگر ٹھہرے
(16)
گلاب جان گلاب: نام گلاب جان
اور تخلص گلاب تھا۔پورنیہ حال ضلع کٹیہار کے گردو نواح میں ان کی بڑی مقبولیت تھی۔
یہ ایک موسیقارہ تھیں۔کسی غیر معروف شاعر حبیب سے اصلاح لیتی تھیں۔ ان کی تاریخ
پیدائش معلوم نہیں البتہ تذکرہ بزمِ شمال میں تاریخِ وفات 1910درج ہے۔ان کی ایک
مرصع غزل رسالہ’پیامِ یار‘ لکھنؤ شمارہ جون 1904 میں شائع ہوئی تھی۔ غزل ملاحظہ
کیجیے ؎
جانِ من تم
کو پیار کرتے
ہیں
دل تم ہی پر نثار کرتے
ہیں
اب تو
آئو ا جی خدا
کے لیے
ہر گھڑی انتظار کرتے
ہیں
نہ شبِ وصل
کی سحر ہو
کبھی
یہ دعا کردگار
کرتے ہیں
دیکھیں کس دن ہو اس کا وصل
گلاب
روزوشب انتظار کرتے ہیں
(17) پرتھی چند لال صبا: خاندانی نام پرتھی چند لال صبا تخلص تھا۔ ان کے والد
بابودھرم چند لال راجہ کہلاتے تھے۔ ان کا شمار پورنیہ کے رئیسوں میں ہوتا تھا۔
پرتھی چند لال صبا نے شوق نیموی سے اصلاح لی تھی۔ اردو کے ساتھ فارسی پر بھی
دستگاہ حاصل تھی لیکن شعر سادہ وسلیس اردو میں کہتے تھے۔ ان کی شاعری کا رنگ بھی
روایتی ہے اور غزلیہ شاعری کے پیش پا افتادہ مضامین پر مبنی ہے۔ اشعار ملاحظہ
کیجیے ؎
عشق لیلیٰ کا اگر قیس کو کامل
ہوتا
مانع دید نہ کچھ پردۂ مہمل
ہوتا
——
جفائے دوست کا
شکوہ جو بار
بار کیا
دلِ حزیں نے محبت کو شرمسار کیا
نہ چین آیا شبِ ہجر میں کسی کروٹ
تمام رات قیامت کا
انتظار کیا
جہاں میں اور بھی کچھ غم ہے اے
صبا لیکن
بصد خوشی غمِ دل ہم نے اختیار
کیا
ان کا سنہ وفات 1912 ہے۔
(18) پدمانند سنگھ افسر: اصل نام پدمانند سنگھ اور تخلص افسر تھا۔ ان کے والد
مہاراجہ لیلا نند سنگھ راج بنیلی پورنیہ تھے۔ ان کی ولادت 1271ھ مطابق 1854 پورنیہ
میں ہوئی۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد 1883 میں اپنی ریاست کے سربراہ مقرر ہوئے۔
انگریزی حکومت نے انھیں راج بہادر کا خطاب بھی دیا تھا۔ ان کا انتقال 1328ھ مطابق
1910 میں ہوا۔ اردو، فارسی، انگریزی اور بنگلہ زبان پر عبور رکھتے تھے۔ شعر وسخن
میں دلچسپی تھی۔ غزلیہ شاعری کو اپنے تخلیقی اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا تھا۔ چند
اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
دل میں حسرت نہ رہے آج اگر تم
چاہو
لب بہ لب، سینہ بہ سینہ ہو،
بسر وصل کی رات
——
چاہنے والوں کی ہوتی نہیں چاہت
برباد
شمع جل کر ہوئی پروانہ کی صورت
برباد
——
جو آرزوئیں دل میں تھیں سب
خاک ہوگئیں
تیغِ ازل نے کاٹ دئے دست وپائے
حرص
(19)
منشی اٹل بہاری لال اسیر:
خاندانی نام اٹل بہاری لال، تخلص اسیر تھا۔ منشی بہاری لال کے صاحبزادہ تھے۔ سالِ
ولادت 1810 ہے۔ ابتدائی تعلیم موضع سمرا ضلع دربھنگہ میں ہوئی۔ انھیں عربی، فارسی
اور اردو پر دسترس حاصل تھی۔ انگریزی حکومت نے انھیں کلکتہ جیل میں بند کردیا تھا
جہاں وہ 1878 سے 1883 تک اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور رہے۔ان کا دیوان ’دیوانِ
اسیر مسلسل‘ قلمی 1915 موجود ہے۔ یہ دیوان 200 صفحات پر مشتمل ہے اور اب تک شاداں
اردو لائبریری دربھنگہ کی ملکیت میں ہے۔ ان کا انتقال 1915 کے آخر میں ہوا۔ چند
اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
توڑ کر کفر
وہ بت صاحب ِ ایماں نکلا
کعبۂ دل کیا
تسخیرِ مسلماں نکلا
درد دل کو جو مرے ہے کہیں کیا
تم سے اسیر
جان نکلی نہیں تن سے،نہیں
ارماں نکلا
——
بنا کر یہ زلفیں کدھر جائیے گا
سمجھتے ہیں ہم بھی جدھر جائیے
گا
——
خدا کے واسطے مجھ کو حلال کر
ڈالو
سنو تو کرتا ہے کب سے یہ نیم
جاں فریاد
——
چمن ہے، ابر ہے، ٹھنڈی ہوا ہے
غضب ہے، گل سے کیوں بلبل جدا
ہے
کسی پر دل نہیں گر
آگیا ہے
تمھارا زرد
چہرہ کیوں ہو ا
ہے
——
اسیر اچھا کیا منہ اس سے موڑا
یہی ان بے وفائوں کی سزا ہے
——
اسیر محبت کو بھولو نہ اپنے
کہ عالم سے رسوا ہیں ہم ہو کے
بیٹھے
(20)
بھگوتی پرشاد ہمراز: اصل نام
بھگوتی پرشاد اورتخلص ہمراز تھا۔ ان کی پیدائش شہر چھپرہ، ضلع سارن میں 1895 میں
ہوئی تھی۔ بہت کم عمر پائی کہ ان کے انتقال کا سنہ 1920 درج ہے۔اردو، فارسی کے
ساتھ سنسکرت پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ بچپن سے ہی شعروسخن کا ذوق تھا۔ حکیم محبوب
احمد عنقا چھپروی کے شاگرد تھے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے ؎
تری صورت کچھ ایسی دلنشیں
معلوم ہوتی ہے
جہاں ہو دیکھنا مجھ کو وہیں
معلوم ہوتی ہے
——
محبت کی یہ
انتہا ہو رہی ہے
کہ ان کی جفا پر وفا
ہو رہی ہے
ستم پر ستم ا ور
جتنا کرو تم
مرے دردِ دل کی دوا ہو رہی ہے
کسی سے کسی کا نہ دلبر جدا ہو
یہی حق سے میری دعا ہورہی ہے
کسی کی محبت میں ہمراز اب تو
طبیعت بہت مبتلا
ہو رہی ہے
(21) بابو مہیشور پرشاد جوش: نام مہیشور پرشاد اور جوش تخلص تھا۔ ان کا شمار
رئیسِ مظفرپور میں ہوتا تھا۔ انھوں نے حفیظ جونپوری سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ ان
کا ایک مختصر سا مجموعہ کلام ’بہارِ جوش‘ صفحات 90 دستیاب ہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے ؎
یہی ہے حال تو آئے گا دشمنوں
کو ترس
عجب نہیں کہ سفارش کرے عدو
میری
خدا بخشے اسے الفت تھی مجھ سے
وہ کہتے ہیں مری تربت پہ آکے
’تذکرہ ہندو شعراے بہار‘ کے مطابق ان کا انتقال 1920 کے
قریب ہوا۔
(22) بھولا ناتھ مائل مدھیپوروی: نام بھولا ناتھ تخلص مائل تھا۔مدھے پورہ سابق
ضلع سہرسہ کے رہنے والے تھے۔ اردو شاعری سے انھیں بے حد دلچسپی تھی۔ ’تذکرہ ہندو
شعراے بہار‘ کے مطابق 1922 میں مدھے پورہ میں ان کا انتقال ہوا۔ تاریخِ پیدائش
کہیں درج نہیں ہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے ؎
دل کو تباہ کیجیے پر دیکھ بھال
کے
یہ ٹوٹا پھوٹا گھر حرمِ
کردگارہے
——
فغاں
کے ساتھ لب تک دم بہ دم آنے سے کیا حاصل
دلِ مضطر کو سمجھا دو کہ
گھبرانے سے کیا حاصل
جو پیشانی کا لکھا ہے
وہ پیش آنا
ضروری ہے
تو پھر تقدیر کی باتوں پہ غم
کھانے سے کیا حاصل
غم سے مرا کب حال پریشاں نہیں
دیکھا
کب اس دلِ صد چاک کو گریاں
نہیں دیکھا
کھوبیٹھا ہے دل جو کہ تھا
گنجینۂ اسرار
مائل سا بھی ہوشیار
نگہباں نہیں دیکھا
——
کیا پوچھتے ہو حسرتیں میری
کہاں گئیں
سب مر مٹی ہیں دل ہی میں سب کا
مزار ہے
مائل ترے کلام کا شائق ہے ہر
کوئی
کچھ اور گل
کھلا یہ زمیں
پُر بہار ہے
(23) مہابیرببر: خاندانی نام مہابیر اور تخلص ببر تھا۔بیتیا چمپارن کے باشندہ
تھے۔پیشۂ درس وتدریس سے وابستہ تھے۔ اردو اور فارسی کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی
دستگاہ حاصل تھی۔ شعر اردو میں کہتے تھے۔ ’تذکرہ ہندو شعرا ئے بہار‘ میں ان کی
وفات کا سال 1930 لکھا ہے۔اشعار ملاحظہ کیجیے
؎
دیتی ہے مجھ کو قدرتِ صانع کا
وہ پتہ
جو شیے بنائی ہے مرے پروردگار
نے
——
وائے تقدیر کہ اک دن نہ خبر لی
اس نے
چار سو خلق میں جس کے لیے رسوا
میں ہوں
——
آج یا کل مرے قابو سے نکل
جائے گا
خوب حالِ دلِ وحشی کا شناسا
میں ہوں
(24) بابو اودھ بہاری سنگھ بیدل: خاندانی نام اودھ بہاری سنگھ اور تخلص بیدل
تھا۔ ان کا تعلق برہمن خاندان سے تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1866 ہے۔یہ ایک بڑے
زمیندار تھے۔ اردو کے ساتھ فارسی پر دستگاہ تھی۔ مظفرپور کے ادبی حلقے میں ان کے
اشعار کی پذیرائی ہوتی تھی۔ بعد میں انھوں نے علم طب بھی پڑھا تھا اور1882 میں
انٹرنس کا امتحان بھی پاس کیا۔لنگٹ سنگھ کالج، مظفرپور کی بنیاد پڑی تو اس میں
شعبۂ عربی وفارسی کے استاد مقرر ہوئے۔ان کے مزاج میں بڑی انکساری تھی اور صوفیانہ
زندگی جینے کے قائل تھے۔حضرت جھاؤ شاہ صاحب ؒ سے بیعت حاصل کی۔ ان کا انتقال 1930
بمقام مظفرپور ہوا۔اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
بیدل ہے مرا مولا بِن مانگے
دینے والا
جو ہیں کریم خود وہ سائل کو
ڈھونڈتے ہیں
——
اگر اپنے دل پہ ظالم ہمیں
اختیار ہوتا
نہ یہ جاں کنی ہی ہوتی، نہ
انتظار ہوتا
——
بے وجہ یہ تڑپ نہیں مرقد میں
ہے ضرور
بیدل کسی کے پائوں کی ٹھوکر
لگی ہوئی
——
سوزِ دل مثلِ چراغ تہہِ داماں
ہی رہا
نالہ نکلا تو دھواں بن کے
پریشاں نکلا
——
بیانِ دردِ الفت ہو تو کیوں کر
ہو
نہ زباں دل کے لیے، نہ دل زباں
کے لیے
(25) رام پرشاد کھوسلہ ناشاد: خاندانی نام رام پرشاد کھوسلہ ولد سالگ رام کھوسلہ
اور تخلص ناشاد تھا۔ ان کا خاندان لاہور سے منتقل ہو کر پہلے دربھنگہ اور پھر
مظفرپور میں قیام پذیر ہوا۔ان کی ابتدائی تعلیم تو لاہور میں ہوئی تھی اور بعد میں
وہ انگلینڈ گئے اوروہاں سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری لے کر واپس ہوئے۔ 1917 میں جی وی
وی کالج، موجودہ لنگٹ سنگھ کالج، مظفرپور میں بہ حیثیت پرنسپل رہے اور اسی کالج سے
وہ ٹی این جے، موجودہ ٹی این بی کالج بھاگلپور منتقل ہوگئے۔ 1934 میں پٹنہ کالج کے
وہ پہلے ہندوستانی پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1935 میں پھر مظفرپور واپس لوٹ آئے۔ 1938
میں انڈین ہسٹری کانگریس الٰہ آباد کی انھوں نے صدارت کی تھی۔ ان کا سنہ انتقال
1942 ہے۔انھیں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ وہ اپنے وقت کے
ایک نامور مؤرخ، دانشور اور شاعر تسلیم کیے جاتے۔ انھوں نے غزلیں بھی لکھیں اور
نظمیںبھی لیکن ان کی شاعری کا اصل جوہر غزلیہ شاعری میں کھلتا نظر آتا ہے۔ ان کا
مجموعہ کلام ’نالۂ ناشاد‘ اب بھی خدا بخش لائبریری،پٹنہ میں دستیاب ہے۔چند اشعار
ملاحظہ کیجیے ؎
جستجو تیری غرض سے جو مبرّا
ہوتی
ذرہ ذرہ تجھے خضرِ رہِ منزل
ہوتا
——
بجھا دے گا اسے بادِ سحر کا
ایک ہی جھونکا
رہے گی شمع کب تک،شمع کی
چنگاریاں کب تک
——
تری خودی کی بھی کوئی حد ہے جہاں میں اے تشنہ کام ہستی
خدا کو ترچھی نظر سے دیکھا،
لگا کے ہونٹو ں سے جامِ ہستی
——
اس آستاں کا پتہ پوچھتا ہے
کیا قاصر
مری جبیں کا وہاں پر نشان باقی
ہے
——
اگر ناشاد احساسِ خودی کا
رازداں ہوتا
تو پھر وہ محرمِ رمزِ زمین
وآسماں ہوتا
(26)
پنڈت بندیشوری دت بسمل سیوانی:
خاندانی نام پنڈت بندیشوری دت شکل اور تخلص بسمل تھا۔ سیوان کے رہنے والے تھے۔ اس
لیے بسمل سیوانی کے قلمی نام سے مشہور تھے۔غزلیہ شاعری کے دلدادہ تھے۔ ’تذکرہ
سخنورانِ سارن‘ میں ان کا کلام دستیاب ہے لیکن تاریخِ پیدائش وتاریخِ وفات کا ذکر
نہیں ملتا۔دیگر تذکروں میں بھی اس کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔کلام کے مطالعے سے یہ
اندازہ لگانا آسان ہے کہ وہ کلاسیکی غزلیہ شاعری کے رنگ میں شعر کہتے تھے۔ چند
اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
نہیں ہے زلف سے کالوں کو نسبت
اے بسمل
لکھا کرے کوئی شاعر تو کیا
کتاب میں سانپ
——
یہ کہاں قسمت کہ مرے گھر میں
وہ تشریف لائیں
پر مجھے ان کو کسی شب میں
بلانا چاہئے
——
اٹھ گیا پہلو سے کوئی یاس
وحرماں چھوڑ کر
یہ بھی تو چلتے ہوئے اب مجھ کو
بے جاں چھوڑ کر
منزلِ مقصودِ واحد کے لیے
دونوں چلے
دیر ہندو
چھوڑ کر، کعبہ مسلماں
چھوڑ کر
مندرجہ بالا کل 26 شعرا کے
کلام کے سرسری مطالعے سے بھی یہ عقدہ کھلتا ہے کہ متھلانچل میں اردو شعر وسخن
کوفروغ دینے میں غیر مسلم شعرا وادبا کا اہم کردار رہا ہے۔آغاز میں اردو نے یہاں
کی علاقائی زبان میتھلی کو اثر انداز کیا اور پھر بعد کے دنوں میں اردو کا چلن عام
ہونے لگا۔ بالخصوص بیسویں صدی میں اردو نہ صرف تحریر وتقریر تک محدو د رہی بلکہ
ایک اچھا خاصا ادبی ذخیرہ غیر مسلم اور غیر اردو داں ادبا اور شعرا کے ذریعہ اردو
زبان وادب کی تاریخ کے لیے سرمایۂ افتخار ثابت ہوا۔چونکہ اس مقالے میں اتنی
گنجائش نہیں تھی کہ مذکورہ تمام شعرا کی شاعری پر ناقدانہ تبصرہ کیا جائے لیکن یہ
حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ان شعرا نے اردو شعری لوازمات کے تقاضوں کو کما حقہٗ
پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور انیسویں صدی وبیسویں صدی میں جو اردو شاعری کی موضوعی
سمت ورفتار تھی اسی راہ پر چل کر ان شعرا نے اردو کی کلاسیکی شاعری کی روایت کو نہ
صرف فروغ دیا بلکہ استحکام بخشاہے۔ اس لیے اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت کے
تاریخی مطالعے کے لیے متھلانچل کے ان شعرا کی خدمات سے واقفیت بھی ضروری ہے کہ ان
کے ذکر کے بغیر ہماری ادبی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ اب آخر میں میتھلی زبان وادب
کے عظیم شاعر ودّیا پتی کے اس شعرپر اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں جس میں اردو
الفاظ کا خوبصورت میتھلی روپ دیکھا جا سکتا ہے
؎
جتنے جتک دھن پاپے،بٹور
لہو ملی ملی پریجن کھائے
مرنک دیری ہری کوئی نہ پوچھت
کرم سنگے چل جائے
حواشی:
1. History of Maithili Litirature .Jaya
kant Mishra pub Sahitya Akademi, New Delhi 1976 pp .16
.2 حوالہ ’’تذکرہ بزم شمال۔حصہ اول ۔ایڈیشن اول 1986 ص 24
3. '' A Dictionary, Hindustani and Enlish"-
Pub. J.L. Cox & son London: 1831: P.12
.4 بحوالہ: ہندی ساہتیہ کے کچھ پرشن‘‘ ڈاکٹر امرناتھ
جھا۔ہنڈریڈ ا یس۔2005۔ص:560، اکادمی پریس الٰہ آباد
مراجع و مصادر:
.1 ہسٹری آف میتھلی لٹریچر(انگریزی)مصنف: جے کانت مشرا،
مطبوعہ: ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی 1976
.2 میتھلی ساہتیک آلوچناتمک اتیہاس(میتھلی)مصنف: ڈاکٹر
دنیش کمار جھا، میتھلی اکیڈمی، پٹنہ1979
.3 میتھلی ساہتیک اتیہاس(میتھلی) ڈاکٹر درگا ناتھ جھا شریش،
بھارتی پُستک کیندر، پٹنہ1991
.4 ڈکشنری کلیانی کوش(میتھلی): مرتب: پنڈت گووند جھا۔
کلیانی فائونڈیشن، دربھنگہ1999
.5 اے ڈکشنری، ہندوستانی اینڈ انگلش۔ جان شیکسپئر، جے ایل
کوکس اینڈ سَن، لندن 1831، ص: 12
.6 ڈاکٹر امرناتھ جھا۔ہنڈریڈ ایئرس۔مرتب: پروفیسر ایس جھا
اینڈ پروفیسر ایم ایم ٹھاکر، اکادمی پریس الٰہ آباد2005، ص:560
.7 تذکرہ بزمِ شمال (جلد اول) شاداں فاروقی، شعرستان،
دربھنگہ1986
.8 تاریخ ادب اردو(جلد اول): ڈاکٹر جمیل جالبی، ایجوکیشنل
پبلشنگ ہائوس، دہلی1977
.9 پنجاب میں اردو: حافظ محمود شیرانی، نسیم بک ڈپو،
لکھنؤ1928
.10 انڈو آرین اینڈ ہندی(انگریزی)، ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی، ایڈیشن اول1942
.11 ہندی ساہتیہ کا اتیہاس، برج رتن داس، ہندی ساہتیہ کیئر، وارانسی،2009
.12 اردو لسانیات،سید محی الدین قادری زور، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی،
دہلی1962
.13 اردو زبان کا ارتقا، شوکت سبزواری، چمن بک ڈپو، دہلی 1964
.14 مقدمہ تاریخ زبانِ اردو، مسعود حسن خاں، سرسید بک ڈپو، علی گڑھ1948
.15 بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقا:1857 تک،پروفیسر اختر اورینوی، پبلی سیٹی
پریس، پٹنہ1957
.16 آئینۂ ترہت، منشی بہاری لال فطرت، بہار کشمیر پریس، لکھنؤ1883
.17 ریاضِ ترہت، اجودھیا پرشاد بہار، مطبع چشمۂ نور، مظفرپور1868
.18 ہسٹری آف متھلا(انگریزی)، اوپندر ٹھاکر، متھلا انسٹی ٹیوٹ، دربھنگہ1956
.19 ہسٹری آف مسلم رول اِن ترہت(انگریزی)، پروفیسر آر کے چودھری،چوکھمبا،
وارانسی1970
.20 متھلا بھاشا،مااتیہاس(میتھلی)،ایم مکند جھا بخشی،وارانسی1949
.21 دوتذکرے(شورش وعشقی) مرتب: پروفیسرکلیم الدین احمد، جلد اول1963
.22 تذکرہ ہندو شعراے بہار۔ فصیح الدین بلخی، پلاموں 1962
.23 سخنورانِ سارن۔پروفیسراے حمید؍زاہدفیروزپوری1972
.24 تاریخ شعراے بہار۔سید عزیز الدین بلخی،پٹنہ1931
.25 خمخانۂ جاوید۔ لالہ سری رام، مطبع نول کشورپریس، لکھنؤ1908
.26 ’ندیم‘گیا(بہارنمبر)1960
.27 ماہنامہ’پیامِ یار‘شمارہ جنوری 1904
.28 ہفتہ وار ’انسان‘، کشن گنج،پورنیہ نمبر1955، مدیر: اکمل یزدانی
Dr. Mushtaque Ahmad
Registrar, L.N.M University
Darbhanga -846004 (Bihar)
Mob: 9431414586
E-mail: rm.meezan@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں