25/3/21

بیکانیر میں غیرمسلم حضرات کی اردو خدمات - مضمون نگار: معین الدین شاہین

 



تلخیص

بیکانیر میں اردو شعرو ادب کا ایک زریں سلسلہ ہے اور وہاں شیخ محمد ابراہیم آزاد سے اس کی ابتدا ہوتی ہے۔ بیدل بیکانیری، رانا لکھنوی جیسی شخصیتوں کی وجہ سے وہاں شعر و ادب کو نہایت فروغ ملا۔ نثری اور شعری دونوں ادب میں وہاں کی اردو خدمات قابل ذکر ہیں۔ خاص طور پر غیرمسلم حضرات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کا اردو زبان و ادب سے بہت گہرا جذباتی رشتہ رہا ہے۔ کامیشور دیال حزیں، پریم سنگھ کمار پریم، ستیہ پرکاش گپتا ناداں، پریم شنکر شرما وحشی، ملاپ چند راہی، رام کرشن سائل دہلوی، دیوان چند دیوان اور اس طرح کے دیگر ادبا و شعرا سے یہاں کی اردو محفلوں کی بڑی رونق رہی ہے ۔ اس مضمون میں بیکانیر میں اردو شعر و ادب کے حوالے سے غیرمسلم قلم کاروں کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں بہت سے وہ گوشے تلاش کیے گئے ہیں جن سے نوواردان تحقیق کو بڑی مدد مل سکتی ہے۔

کلیدی الفاظ

راجستھان، بیکانیر،مہاراجہ راؤ جودھا، چھوٹی کاشی، راجپوتانہ، سوہن لال بھٹناگر، ابوالفیض عثمانی، منشی دیوی پرشاد بشاش، آثار الشعرائے  ہنود، رام بابو سکسینہ، بابو مکتا پرشاد سکسینہ، تواریخ بیکانیر، میگھ سنگھ، شاہد احمد جمالی، پریم سنگھ کمار، دامانِ باغباں، کامیشور دیال سکسینہ حزیں، دیوان چند دیوان،  ملاپ چند راہی، پریم پنڈت شنکر وحشی، دلبر نورانی، ستیہ پرکاش گپتا، پنڈت رام کرشن شرما سائل۔

————

بیکانیر راجستھان کا مشہور تاریخی شہر ہے، جس کی بنیاد جودھپور کے مہاراجہ راؤ جو دھا کے پسرِ کلاں راؤ بیکانے سمّت 1545، مطابق 1488 میں ’اکشے تِرتیا‘ (ویشاکھ شکل تِرتیا) کے روز ڈالی تھی۔ اس سلسلے میں ایک مشہور دوہا اس طرح ہے     ؎

پندرہ سو پینتالوے، سُد بیساکھ سُمیر

تھاور بیج دھرپیو، بیکا بیکانیر

بیکانیر کا قیام عمل میں آنے سے قبل اس خطے کو ’وکرما کھنڈ‘، ’وکرم نگر‘، ’وکرم پوری‘ اور ’جانگل پردیش‘ جیسے ناموں سے موقع بہ موقع موسوم کیا گیا اور وہاں کے فرماں رواؤں کو’جنگل دھر بادشاہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں اس شہر کو راجستھانی زبان کی نسبت سے ’بیکانا‘ اور ہندی اور اردو میں ’بیکانیر‘ کہا جاتا ہے۔ اس شہر کو آباد کرنے والے راؤبیکاجی کا تعلق راجپوتوں کے راٹھور خاندان سے تھا۔

بیکانیر اپنے مخصوص تہذیب و تمدن کے لیے مشہور ہے، چونکہ یہاں ہندی زبان و ادب کو خاطرخواہ فروغ ملا۔ اس لیے اسے ’چھوٹی کاشی‘ کے نام سے بھی یاد کیا جانے لگا۔ ہندی کے علاوہ راجستھانی زبان و ادب کو اس علاقے میں بھرپور فروغ ملا لیکن صد افسوس کہ اردو زبان و ادب کو اس خطے میں اس قدر فروغ حاصل نہیں ہوا جیسی مثالیں سابق راجپوتانہ اور موجودہ راجستھان کے دیگر علاقوں کے تناظر میں ملتی ہیں۔ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی نے لکھا ہے کہ جب بیکانیر ریاست کے تعلقات مغلیہ سلطنت سے استوار ہوئے تو ’’فارسی کے اثرات نے بیکانیر میں آہستہ آہستہ اردو کے فروغ کے لیے راہ ہموار کی۔ مہاراجہ مذکور (مہاراجہ صورت سنگھ) نے 1820 میں سلاطین مغلیہ سے اپنے قدیم مراسم کو ختم کرکے انگریزوں کے ساتھ سیاسی عہد و پیمان قائم کیے۔ اس وجہ سے ریاست میں انتظامی اصلاحات کے لیے نئے محکمے قائم ہوئے اور نئے حکام اور اہلکار مامور کیے گئے جن میں بیشتر حضرات مختلف مقامات سے بیکانیر پہنچے تھے۔ ان میں فارسی اور اردو داں حضرات بھی شامل تھے جنھوں نے ریاست کے دفاتر میں فارسی کے استعمال کو تقویت پہنچائی اور اردو کے لیے راستہ ہموار کیا۔ ریاستِ بیکانیر کے انیسویں حکمراں مہاراجہ سردار سنگھ کا عہد حکومت (1852 تا 1872) آتے آتے وہاں اردو کے نقوش بھی ابھرنے لگے تھے، اسی زمانے میں 1857 کا غدر ہوا تھا او راس مصیبت کے مارے پریشان حال اربابِ علم و ادب راجپوتانہ کی دوسری ریاستوں کی طرح بیکانیر بھی پہنچے۔‘‘1؎

ڈاکٹر عثمانی کا مذکورہ قول بڑی حد تک درست ہے، ابتداً ریاستی دور میں جب اردو کو سرکاری زبان بنایا گیا تو اردو زبان کے ساتھ ساتھ ادبی نقوش بھی ابھرنے لگے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے جو حضرات ریاستی امور اور ملازمتوں کے پیشِ نظر بیکانیر تشریف لائے ان میں شعرا و مصنّفین بھی شامل تھے۔ ان حضرات کی آمد سے یہاں ادبی سرگرمیاں بڑھنے لگیں۔

چونکہ اردو ایسی شیریں و لطیف زبان ہے جسے اپنا کر ہر شخص لطف و سرور اور امتیاز و افتخار محسوس کرتا ہے تاہم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم حضرات نے بھی اردو کا دامن تھام کر اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی۔ بیکانیر میں جن بیرونی غیرمسلم حضرات نے اردو کے دامن میں پناہ لی ان میں ایک اہم نام منشی سوہن لال بھٹناگر کا بھی ہے۔ اگرچہ بھٹناگر صاحب کے مفصل سوانحی حالات کسی کتاب یا تذکرے میں نہیں ملتے خود موصوف نے بھی اپنی کتاب جس کا ذکر آئندہ سطورمیں کیا جائے گا، میں اپنے متعلق معمولی سی معلومات فراہم کی ہیں۔ بھٹناگر صاحب قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) کے رہنے والے تھے اور 11 اپریل 1884 کو بیکانیر ریاست میں ملازمت اختیار کی تھی۔ اس سلسلے میں خود تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’11 اپریل 1884 کو حسب الطلب ملازمت گورنمنٹ انگریزی سے تبدیل ہوکر ریاستِ ہذا میں آیا اور محکمۂ مال کا افسر مقرر ہوا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد علاوہ کام مال کے محکمہ کونسل میں بھی ایڈیشنل ممبر مقرر کیا گیا۔ چونکہ ایسے عہدہ کی ذمے داری کے لیے تاریخی واقفیت بہت کچھ ممد و معاون ہوتی ہے لیکن اس ملک میں مشرح اور مفصل تاریخ سوائے کھیانت کے (جو کہ چند لوگوں نے متفرق طور پر حالات درج کیے ہوئے ہیں) موجود نہ تھی، جس کے ذریعے سے حالات ماضیہ فرماں روایانِ بیکانیر و طرز فرمانروائی و طریق معاشر رعایا معلوم کرسکتا اور انتظامِ سابقہ کے حسن و قبح پر نظر کرکے تدابیر شائستگی انتظام سوچتا۔

اسی اثنا میں بحکم سری دربار 1885 کے اندر یہاں کا بند و بست اراضی شروع ہوا اور مؤلف (سوہن لال) اس کام کا کار پرداز اور مہتمم مقرر ہوا اس کے انصرام کے لیے علاقۂ ریاست میں پے در پے دورہ کرنا پڑا اور ہر قسم کے لوگوں سے اتفاق گفتگو ہوتا رہا اور چارن اور بھاٹوں سے بھی جو کہ راجپوتوں کے مورخ شمار ہوتے ہیں، بات چیت کرنی پڑی اور کبِت وغیرہ جو انھوں نے اپنے ممدوحین کی مدح میں کہے تھے سنے۔‘‘ 2؎

دراصل یہ تمام کام سوہن لال بھٹناگر نے تب کیے جب مہاراجہ گنگا سنگھ، والیِ بیکار نے ان سے اپنی ریاست کی تاریخ مرتب کرنے کا مطالبہ کیا۔ مولوی عبدالحق کے بعض غیرمتحقق اور مغالطہ آمیز بیانات اس سلسلے میں الجھنیں پیدا کردیتے ہیں، انھوں نے یہ لکھا ہے کہ:

’’مہاراجہ کو تاریخِ بیکانیر کو لکھوانے کا شوق پیدا ہوا تو اردو زبان ہی کو ترجیح دی گئی۔ اگرچہ یہ کتاب پبلک میں نہیں آئی اور کسی خاص وجہ سے اِس کو شائع نہیں کیا گیا لیکن اس کی کاپیاں گورنمنٹ پریس بیکانیر میں موجود ہیں۔‘‘3؎

اسی سلسلے میں بابائے اردو ایک اور جگہ اسی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اگرچہ یہ کتاب شائع نہیں ہوئی اور لوگوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا مگر سب سے قدیم کتاب اسی کو جانا جاتا ہے۔ یہ کتاب 1889 میں نول کشور پریس لکھنؤ میں چھپی ہے۔ پوری کتاب 340 صفحات پر مشتمل ہے۔‘‘4؎

مذکورہ دونوں اقتباسات میں کچھ حق بیانی اور کچھ غلط بیانیاں موجود ہیں۔ یہ حق ہے کہ مذکورہ تاریخ مہاراجہ بیکانیر کے حکم پر لکھی گئی، جو بیکانیر میں اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب ہے او ریہ 340 صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ صریحاً غلط ہے کہ کتاب غیرمطبوعہ ہے۔ اس کا سنہ طباعت 1889 نہیں، بلکہ 1890 ہے۔ نول کشور پریس لکھنؤ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ جیل پریس، بیکانیر میں چھپی تھی۔ اس وقت یہ کتاب راقم کے پیشِ نظر ہے جس کے سرورق کی تحریر من و عن اس طرح ہے:

 

’’ہوالغنی

تواریخ

راج سری بیکانیر

مرتبہ

منشی سوہن لال صاحب ایڈیشنل ممبر محکمہ ریجنسی کونسل

راج موصوف

باہتمام بابو ہیرا سنگھ نیٹو سپر نٹنڈنٹ سنٹرل  جیل بیکانیر

1890

مطبوعہ جیل پریس راج سری بیکانیر

بتسطیر فدوی کیشوناتھ کاتب‘‘

ڈاکٹرابوالفیض عثمانی نے بھی اس تاریخ کا عنوان جگہ جگہ ’تاریخِ راجیہ بیکانیر‘ 5؎ لکھ لکھ کر غلط فہمیوںکو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ تاریخ ہذا کی تکمیل پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے سوہن لال بھٹناگر نے لکھا ہے:

’’مورخ حقیقی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ یہ تاریخ بعد محنت و جانفشانی کمال بعہد مہاراجہ دھراج راج راجیشر نراندر سرومن سری حضور مہاراجہ گنگا سنگھ جی صاحب بہادر والیِ بیکانیر دام اقبالہ و بزمان حکومت جناب فیضمآب خداوند نعمت کرنل والٹر صاحب بہادر اور ایجنٹ گورنر جنرل راجپوتانہ و عالیجاہ آقائے نامدار میجر اے سی ٹالبسٹ صاحب بہادر سی آئی ای پولیٹیکل ایجنٹ بیلی صاحب پولیٹیکل ایجنٹ بہادر کے وقت میں اس کی اشاعت کا حکم نافذ ہوا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تالیف عدیم النظیر اور بے مثال ہے مگر نہ ہونے سے ہونا بہرحال بہتر ہے۔ اب میں اس کتاب کو چار ابواب مفصلہ ذیل پر منقسم کرکے اربابِ دانش و بینش کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ اس کے ذریعے سے حالاتِ مہاراجگان اور ملک بیکانیر سے آگاہی حاصل کرکے حظ وافر اٹھائیں اور مؤلف کو دعائے خیر سے یاد فرمائیں جہاں کہیں سہو و خطا پائیں قلم مکرمت رقم سے اصلاح دے کر چھپائیں۔ عیب جوئی کو کام میں نہ لائیں۔

(1) باب اوّل جغرافیہ و حالات مقامی (2) باب دوئم ذکر مہاراجگان و مہمات (3) باب سوئم انتظام ریاست و حال آمدنی و خرچ (4) باب چہارم ذکر امرا و اراکین ریاست‘‘6؎

سوہن لال بھٹناگر اگرچہ شاعر و ادیب نہیں تھے لیکن اس تاریخ کی ترتیب و تہذیب میں انھوں نے جو زبان و اسلوب استعمال کیا ہے وہ انھیں ادیبو ںکی صف میں لاکرکھڑا کردیتا ہے، چونکہ بھٹناگر صاحب فارسی اور اردو میں مہارت رکھتے تھے اسی لیے بھی انھیں کامیابی ملی۔ انھوں نے جو واقعات مذکورہ تاریخ میں شامل کیے انھیں ایک محقق کی طرح خوب چھانا اور پھٹکا۔ دوسرے یہ کہ ان کے بیانات سے تعصب اور فرقہ پرستی کی بالکل بو نہیں آتی۔ کسی تاریخ یا تذکرے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بیکانیر میں کب تک رہے۔ تاریخ نویسی کے علاوہ انھوں نے او رکیا کچھ لکھا۔ ان کا انتقال کب اور کہاں ہوا۔ ان کے اہل و عیال اور پس ماندگان میں کون کون حضرات شامل رہے، وغیرہ وغیرہ۔

منشی سوہن لال بھٹناگر کی مذکورہ تاریخ سے بیکانیر میں دو صاحب قلم حضرات کی موجودگی اور خدمات کا بھی علم ہوتا  ہے۔ ان میں جے سکھ رام اور منشی شنکر سروپ نجات کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

جے سکھ رام سوہن لال بھٹناگر کی تاریخ کی تکمیل میں ان کے معاون رہے تھے جس کا اعتراف بھٹناگر صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’چونکہ عدم موجودگی تاریخ کے سبب بہت کچھ مشکلات پیش آتی ہیں لہٰذا میں نے بہ نظر فائدہ خاص و عام کے تاریخ اس ریاست کی ترتیب  وار لکھنی شروع کی۔ اس تاریخ کی ترتیب اور تکمیل میں مجھ کو پنڈت جے سکھ رام سے بڑی مدد ملی ہے جو پہلے محکمۂ مال میں سر رشتہ دار تھے اور اب میرے نائب مقرر ہیں۔‘‘7؎

واضح ہو کہ پنڈت جے سکھ رام سرسہ ضلع حصار کے باشندہ تھے اور نائب افسرِ مال کی حیثیت سے ریاست بیکانیر میں مقیم تھے، وہ قوم سے گوڑ برہمن تھے۔ ان کے والد کا نام پنڈت کسل سنگھ تھا۔ جے سگھ رام نے جو قطعہ ہائے تاریخ بھٹناگر صاحب کی کتاب کے اختتام پر لکھے ان سے ان کی قادرالکلامی ظاہر ہوتی ہے۔ انھو ںنے عیسوی اور سمت دونوں میں مادہ ہائے تاریخ نکالے جو اس طرح ہیں      ؎  

در سنہ عیسوی

جناب منشی عالیجناب سوہن لال

کہ ہست فرق ہمہ اہلِ خامہ را سر تاج

وقائع ز مہاراجگان بیکانیر

نوشت داد بدنیائے پنجر و زہ رواج

تلاش کرد چو سالِ مسیح جے سکھ رام

سروش گفت بگوباب سر گذشت راج

 

(1885)

درسمّت

منشی عالیجناب رائے سوہن لال نے

والیانِ ملک کی تاریخ کیا عمدہ لکھی

پڑھ کے حالاتِ رؤسائے زمانِ ماضیہ

یاد کرکے انھیں قاری کا بھرا آتا ہے جی

نام بیکانیر کا دنیا میں روشن کردیا

صفحۂ ہستی سے ظلمت جہل کی سب دور کی

سالِ سمت پوچھیں جے سگھ رام تو کہہ دو یہی

نام تاریخی ہے اس کا سرگذشتِ نادری

 

(1945)

جے سکھ رام کے مزید حالات اور تخلیقات ہزار کاوش کے باوصف اور کہیں سے موصول نہیں ہوئے۔ اس لیے لے دے کر بھٹناگر کی تاریخ ہی ان کے مختصراً حالات اور نمونۂ کلام کا ذریعہ ہے۔

شنکر سروپ نجات بھی اس وقت بیکانیر میں مقیم تھے۔ ان کی تحریر کردہ تقریظ کے ساتھ یہ تحریر بھٹناگر کی تاریخ میں موجود ہے:

’’تقریظ از شنکر سروپ متخلص بہ نجات خلف منشی رام سروپ مرحوم سابق سررشتہ دار کلکٹری ضلع فرخ آباد، قوم کایستھ متوطن قصبہ سکندر آباد ضلع بلند شہر، وارد حال بیکانیر شاگرد جناب مرزا کلب حسین خاں ڈپٹی کلکٹر مرحوم و مغفور متخلص بہ نادر‘‘ 8؎

جب کہ منشی دیبی پرشاد بشاش نے ’آثارالشعرائے ہنود‘ میں نجات کا تعارف ان الفاظ میں کیا ہے:

’’نجات تخلص، شنکر سروپ ابن لالہ رام سروپ متوطن کروانی ضلع مین پوری، مالک و مہتمم مطبع دلکشا واقع فتح گڑھ۔‘‘9؎

بھٹناگر کی تاریخ میں نجات کے چار عدد قطعات در سمت، در ہجری، در شاکا اور در سنہ عیسوی میں شامل ہیں۔ یہاں چاروں قطعات نقل کیے جارہے ہیں   ؎

در سمت

واہ وامنشیِ سوہن لال نے

راجوں کی لکھی یہ روداد عجیب

کردی روشن شمعِ نام راجگان

روح بیکاجی ہوئی فرحت نصیب

کیں رقم کیا سرگذشتِ واقعی

پڑھ کے جن کو پاتا ہے دل فرح و طیب

ایسا افسر پاک طینت ہو جہاں

کیوں نہ کھل جائیں ریاست کے نصیب

مصرعۂ تاریخ سمت لکھ نجات

لکھے ہیں زیبا وقوعات غریب

 

(1945)

در سنہ ہجری

صاحبِ جاہ و حشم منشیِ سوہن لال نے

رویداد والیانِ راج بیکانیر

محنت و تحقیق کامل سے مرتب کی کتاب

آج تک روئے زمیں پر ہوگی نہ ایسی ہوئی

زندۂ دائم ہوئے مہاراجگان سرگ باش

کیوں نہ اس نسخے کو کہیے بحرِ آبِ زندگی

سچ اگرپوچھو تو دریا ہے کیا کوزہ میں بند

شوق کی تاریخ کے اس سے بجھے گی تشنگی

مصرعۂ تاریخِ سال ہجر سے یہ اے نجات

ماجرائے خاندانِ راجگان لکھا اجی

درشاکا

تحریر کی منشی عظیم الشان نے

واہ وا وا سرگذشت دلچسپ

بہرِ سن شاکا اے نجات اب

لکھّو، کیا سرگذشت دلچسپ

 

(1810)

در سنہ عیسوی

منشیٔ ذی نواں فلک بارگاہ نے

ایڈیشنل ہے ممبر کونسل جو خوش صفات

لکھی ہے بیکانیر کے راجوں کی سرگذشت

دنیا میں یادگار ہیں تا یہ سانحات

تاریخ سال کے لیے دل نے کہا کہ  اب

لکھو سنِ مسیح میں ایک مادّا نجات

کرتے ہی فکر چرخ چہارم سے ہاتفی

بولا لکھو- عجیب ہے تاریخ واقعات

 

(1889)

بشاش نے اپنے تدکرے میں نجات کے تعارف کے ساتھ نمونۂ کلام کے طور پر تین اشعار پیش کیے ہیں، ان میں دو شعر اردو اور ایک شعر فارسی میں ہے۔ وہ تینوں اشعار یہ ہیں    ؎

مہرباں مجھ پر جو وہ خورشیدِ سیما ہوگیا

آج روشن میری قسمت کا ستارا ہوگیا

——

ہوگیا طولِ نپٹ مرضِ دلِ آزار کا

لادوا درد ہوا ہے عشق کے بیمار کا

——

عشق جانکاہ ترا من نچنیں دانستم

ایں زماں قدر تو اے غارتِ دیں دانستم

شاعری اور نثر دونوں میں نجات نے اپنا کمالِ فن دکھایا۔ جب بھٹناگر کی محولہ تاریخ مرتب ہوئی تو نجات نے پرمغز تقریظ سپردِ قلم کی جس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ انھیں نثر نگاری میں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ بطور نمونہ اس تقریظ کی یہ تحریر ملاحظہ کیجیے:

’’قدرتِ لم یزل کا کارخانہ نامحدود ہے۔ خرد مند کے نزدیک ہستی دنیائے دودن محض بے ہست و بود ہے    ؎   نجات سرمت صہبائے صعوبات للہ ذرا ہوش میں آ۔ اور بہ نظر غور مشاہدہ کر کہ اس مدتِ قلیل میں حالِ زمانہ کیا سے کیا ہوگیا۔ کیسے کیسے سلاطین عالی وقار و مہاراجگان جرار و ہذا نے اس دارِفانی میں آکر کس کس شان و شوکت سے کوس فرمانروائی بجایا اور کیسے کیسے عظیم الشان دشمنان روئین تن کو زیر کرکے میدانِ وغا سے ہٹایا۔ بڑی بڑی محنت قوت بازو سے ملک بسائے۔ بہت کچھ دقتوں سے مال و متاع گراں بہا حاصل کیا۔ کیسے کیسے قلعہ جات عالیشان تعمیر کرائے۔ اونچی اونچی کرسی کے محل کہ کرسی چرخِ بریں بھی جن کے سامنے نیچی معلوم ہو اپنے رہنے کو بنوائے، مگر افسوس کہ غنیم موت نے  تاخت لاکر ان سے ایک دم میں قلعہ کا کالبد خاکی خالی کرالیا۔ مال ومتاع ہوش و حواس تو کیا نقد جان تک تاراج کیا۔ دولت و حشمت ساری دنیا کی دنیا ہی میں رہی۔ کسی  کے ساتھ نہ گئی۔ ایک چھوڑ کر دوسرا مالک بنا۔ بقول خواجہ حافظ شیرازی   ؎

نخواہد ایں چمن از سرولالہ خالی ماند

یکے ہمبر و دو دیگرے ہمین آید

آہ افسوس وائے حسرت    ؎

یاں کے جانے سے جی الجھتا ہے

کیا ہی دل کش سرائے فانی ہے

یہ گلزارِ ہستی سیر جاودانی کا مقام نہیں۔ کسی بھی گل کو ہمیشہ یہاں قیام نہیں۔

بقول حضرت سعدی شیرازی     ؎

ہر کہ آمد عمارتِ نوساخت

رفت و منزل بدیگرے پرداخت

واں دگر پخت ہمچنین ہَوسے

دین عمارت بسر نبرد کسے

کیا مفلس، کیا امیر کیا جوان کیا پیر جو اس سرائے فانی میں آیا، ہر ایک نے تھوڑے ہی سے پس و پیش میں نقارہ بچایا۔ پھر ہر چندتلاش کیا، ان میں سے ایک کا بھی پتہ نہ پایا      ؎

نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر آرا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

مگر آفرین صد آفرین کہ ان دنوں عالیجناب فیضمآب خداوند نعم عالی ہمم مبلغ جود و کرم رعایا پرور انصاف گستر جلیل القدر رفیع المنزلت صاحبِ جاہ و شوکت عدیم المثال منشی سوہن لال جی صاحب افسر محکمۂ مال و ایڈیشنل ممبر محکمۂ عالیہ ریجنسی کونسل راج سری بیکانیر نے کمر ہمت چست باندھی، اور محنت شاقہ سے تحقیقات کامل کرکے جمیع مہاراجگان فرمانروایان بیکانیر کی تمام و کمال سرگذشت واقعی لکھی۔ سچ پوچھیے تو منشی صاحب ممدوح نے یہ ایسا برا کام کیا ہے کہ علاوہ یادگاری مہاراجگان بیکانیرنے اپنا بھی تمام دنیامیں مشہور نام کیا ہے۔ ابتدائے قیام راج سے آج تک ہر ایک فرمانروا کی سرگذشت جداگانہ سوائے دیگر حالات شہر کے تھوڑے سے اجزا میں قلمبند کی گویا دریائے اعظم کو کوزہ میں جگہ دی۔ اگر کوئی منصف مزاج آدمی اس کتاب نایاب کو بہ چشم غور معائنہ کرے تو یہی کہے کہ واقعی آج کے دن منشی صاحب نے راج کا حق نمک پورے طور پر ادا کردیا، کہ شیرینی مضامین یادگاری مندرجہ تواریخ ہذا کے آبِ حیات سے مہاراجگان سر گباش بیکانیر کو زندہ جاوید کیا۔ زیادہ طوالت کلام میں مبالغہ سمجھا جاتا ہے، دل ہر اک شخص کا پڑھنے سے گھبراتا ہے، لہٰذا اب اس تقریظ کا چند قطعاتِ تاریخ پر اختتام ہے۔ یہی دعائیہ کلام ہے کہ یہ تاریخ بے نظیر تا بہ ابد دنیا میں شائع ہوکر مطبوع طبائع اہلِ روزگار رہے۔ صفحۂ زمین پر مہاراجگان بیکانیر اور منشی صاحب ممدوح کا نیکی سے نام یادگار رہے۔ منشی صاحب مع وابستگان دامن دولت سلامت و شادمان رہیں جس جگہ رہیں حکمراں رہیں۔‘‘10؎

نجات کی مذکورہ تحریر کو پڑھتے وقت قدم قدم پر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم کسی تقریظ کے، بجائے افسانوی ادب کا مطالعہ کررہے ہیں۔ انھیں نظم و نثر پر جو قدرت تھی وہ جملوں کی ساخت اور قطعہ ہائے تاریخ کے اشعار سے ظاہر ہوتی ہے اور غالباً اسی لیے بشاش نے انھیں اپنے تذکرے میں شامل کیا۔

منشی سوہن لال بھٹناگر کے ہی ایک اور ہم وطن شاعر بابو رام پرشاد متخلص بہ تشنہ کا حوالہ دو تین کتابوں میں ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تشنہ کا تعلق قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یوپی) سے تھا اور وہ عدالتہائے ریاست سرکاری بیکانیر میں بہ حیثیت وکیل اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ سب سے پہلی کتاب بعنوان ’النبی الموعود‘ ہے جو 1907 میں مطبع نورالانوار پریس، میرٹھ میں چھپی تھی۔ اس کتاب کے مصنف امیرالدین خاں بھی بیکانیر میں سرکاری وکیل تھے۔ اس کتاب میں تشنہ کا ایک قطعۂ تاریخ فارسی میں ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تشنہ اور منشی امیرالدین خاں میں دوستانہ تعلقات رہے ہوں گے، کیونکہ دونوں ایک ہی محکمہ میں زیرِملازمت تھے۔ تشنہ کا وہ قطعہ یہ ہے   ؎

طبعُ شد تحفۂ النبیِ موعود

ظلمت طبع گمرہاں را بدر

ہاتفم گفت از پئے تاریخ

گو بدل نسخۂ گرامی قدر11؎

 

24ھ 13

دوسری کتاب کا عنوان ’عرسِ مہتاب‘ہے جو پرسٹیم پریس لاہور سے 1924 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب دراصل پیر سید مہتاب شاہ کی تیسری برسی پر منعقد ہونے والے عرس او رطرحی منقبتی مشاعرے کی روداد ہے جو اس مصرعۂ طرح پر انعقاد پذیر ہوا تھا :

’’آلِ احمد کی صفت اور ثنا کرتے ہیں‘‘

اس روداد کو پیر حیدر شاہ قادری کرمانی نے مرتب کیا تھا۔ مذکورہ مصرعۂ طرح پر بابو رام پرشاد تشنہ نے جو منقبت کہی تھی وہ یہ ہے    ؎

’’نام لیوا ہیں تیرا نام لیا کرتے ہیں

اے شہِ ارض و سماں عہدِ وفا کرتے ہیں

فرض پہچانتے ہیں فرض ادا کرتے ہیں

’’آلِ احمد کی صفت اور ثنا کرتے ہیں‘‘

تشنگایانِ طریقت کے لیے آبِ حیات

تجھ پہ جاں اہلِ شریعت بھی فدا کرتے ہیں

ہم نشیں یہ تو بتا آج یہ چرچا کیا ہے

کیسا مجمع ہے یہ کیوں آہ و بکا کرتے ہیں

کون اوجھل ہوا نظروں سے یہ کس کا غم ہے

اشک جو آنکھوں سے ہر وقت بہا کرتے ہیں

کس کی برسی ہے کہ نالے ہیں قیامت کے یہاں

سینہ کوباں جو یہاں حشر بپا کرتے ہیں

سید شاہ و مہتاب کہ جن کا ہے عرس

اولیاؤں میں شمار ان کا کیا کرتے ہیں

وعظ میں آپ تھے یکتائے زمانہ لاریب

جو سنا کرتے ہیں، اقرار کیا کرتے ہیں

تشنہ تک پہنچی تھی تابوتِ منور کی ضیا

دل میں انوار ابھی تک وہ رہا کرتے ہیں‘‘12؎

جب طفیل احمد صمدانی نے 1968 میں اپنے والد خلیل احمد صمدانی کا مجموعۂ کلام ’گلزارِ خلیل‘ شائع کیا تو بیکانیر میں اردو کے خدمت گاروں کا تذکرہ کیا، اس میں بابو رام پرشاد تشنہ کا بھی نام شامل تھا۔ اگرچہ یہ تذکرہ محض اسم شماری تک محدود تھا لیکن اس سے یہ معلوم ضرور ہوتا ہے کہ اہلِ بیکانیر نے تشنہ کو نظرانداز نہیں کیا۔ بعد کا حال معلوم نہیں ہوا کہ تشنہ کہاں رہے اور کہاں گئے۔

ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے پر مشتمل کتاب ’راجستھان میں اردو زبان و ادب کے لیے غیرمسلم حضرات کی خدمات‘ مطبوعہ 1986 میں صفحہ نمبر 306 پر یہ اشارہ کیا ہے کہ سوہن لال بھٹناگر کے ہم عصر ایک شاعر کا نام بندیشر پرشاد شمس تھا جن کا ایک قطعۂ تاریخ مہر بھرت پوری (منشی سکھ دیو پرشاد) کے مجموعہ کلام ’سلکِ گوہر‘ میں شامل ہے لیکن باوجود کوشش و کاوش راقم کو یہ مجموعہ اور شمس کے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں ہوسکیں۔

ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ اینگلو انڈین حضرات بھی اردو کی لطافت پر سر دھنتے تھے تام بیکانیر میں دو ایسے حضرات کے اسمائے گرامی ملتے ہیں جو باپ بیٹے تھے، اور اردو جن کی خاندانی وراثت میں شامل تھی۔ ان میں والد کا نام ڈومنگو پال لوئس متخلص بہ ذرّہ تھا۔ جو مہاراجہ سردار سنگھ کے عہدِ حکومت میں افسرِ جیل و میو نسپلٹی اور فوج کے کپتان تھے۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ نے ذرّہ کے سوانحی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

’’ذرّہ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ یکتا لکھنوی سے اصلاح لیتے تھے جن کا انھوں نے جابجا اپنے اشعار میں ذکر بھی کیا ہے۔ ان کے دیوان میں 140 غزلیات، تین سہرے، ایک نظم بہ عنوان ’ہولی‘ اور ایک مرثیہ شامل ہے اور اس کے علاوہ بہت سا کلام ضائع بھی ہوگیا۔‘‘13؎

واضح ہو کہ رام بابو سکسینہ نے اپنے تذکرے ’یورپین اینڈ انڈویوروپین پوئٹس آف اردو اینڈ پرشین‘ کے ضمیمہ میں ذرّہ کا جو انتخاب کلام درج کیا اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ نظم ’ہولی‘کے علاوہ انھوں نے بیکانیر ریاست کے دیوان امین محمد کی وفات پر ایک قطعۂ تاریخ بھی کہا تھا۔ اس کے علاوہ تین سہروں میں سے ایک سہرا جارج شور (مقیم الور) کی دوسری شادی کے موقعے پر کہا تھا۔ اگرچہ ذرہ اس شادی میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن بطور تہنیت سہرا روانہ کردیا تھا جو کسی اور شخص نے وہاں پڑھ کر سنایا تھا۔ اس سہرے سے چند شعر ملاحظہ فرمائیے   ؎

شور صاحب کے بندھا دھوم سے سر پر سہرا

ہو مبارک یہ انھیں آج منور سہرا

باندھتا یوں تو ہر اک نوشہ ہے سر پر سہرا

پر عجب شان کا ہے آپ کے رخ پر سہرا

فوجِ انجم ترے گھر آئی براتی بن کر

ہو فلک تخت رواں ماہِ منور سہرا

دم بہ دم کیو ںنہ چلے دورِ شراب اے ساقی

ساز و سامان عروسانہ ہے پُرزر سہرا

ذرّہ مجبور ہے یوں دور ہے محفل سے تری

ورنہ وہ شوق سے خود باندھتا آکر سہرا

اسی طرح خان بہادر دیوان امین محمد، ریاست بیکانیر کی وفات (11؍ اکتوبر 1888) کے موقعے پر جو قطعۂ تاریخ، ذرہ نے کہا تھا وہ یہ ہے   ؎

امین محمد نے پائی وفات

ریاست کے دیوان تھے اور خیرخواہ

ہوا ان کے مرنے کا وہ رنج و غم

کہ جس کی نہیں حد خدا ہے گواہ

ملا خان بہادر جب ان کو خطاب

اسی دن سے سب راج تھا خیرخواہ

ہوئی فکرِ تاریخ جب ذرّہ کو

تو بولا وہ ہاتف، غمِ مرگ آہ14؎

جیسا کہ رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے، ذرّہ اپنے استادِ سخن یکتا لکھنوی کا بہت ادب و احترام کرتے تھے اور اپنے اشعار میں بھی ان کا ذکر خیر کیا کرتے تھے تاہم  اس ضمن میں ان کے چند اشعار پیش ہیں    ؎

ذرّہ نئی غزل کہی استاد کے فیض سے

گو وردِ شعر و سخن تم کو کم رہا

مگر استاد یکتا سا نہیں ذرہ زمانے میں

ہوئے ہیں یوں تو دنیا میں ہزاروں نامور پیدا

برق کی طرح سے چمکتی شاعری ذرّہ تری

نام تونے خوب روشن کردیا استاد کا15؎

ذرّہ کی مرصع غزلوں سے چند اور مثالیں ملاحظہ فرمائیے   ؎

ہو نہیں سکتی رہائی عمر بھر اِس دام سے

آپڑا گردن میں پھندا کاکلِ دلدار کا

عجب قدرت ہے ذرّہ کیا بنایاچشمِ مردم کو

اجالے میں اندھیرا ہے، اندھیرے میں اجالا ہے

شمع رو کچھ بھی شکایت نہیں تجھ سے اصلا

ہم کو پیدا ہی خدا نے کیا جلنے کے لیے

——

وہ عندلیب ہوں کہ سدا مجھ کو غم رہا

باغِ جہاں میں نخلِ تمنا قلم رہا

ہم عاشقوں کو خاک نشینی پسند ہے

وہ شاہِ اوج حسن تجمل سے مبتلا

موت برباد نہ کرتی جو غبارِ دل کو

یہی صحرائے قیامت کا بگولا ہوتا

اور یہ مستزاد کے اشعار بھی قابل غور ہیں   ؎

جس کو دلدار سمجھتے تھے دل آزار ہوا

کیا یہ اسرار ہوا

پہلے تھا اہلِ وفا اب وہ جفاکار ہوا

یار اغیار ہوا

جو گرا آنکھ سے دُر وہ دُرِ شہسوار ہوا

ایک انبار ہوا

ذرّہ کے مذکورہ اشعار میں ان کی قادرالکلامی کی جھلک ملتی ہے اور جابجا ان کے استاد یکتا لکھنوی کا فیض بھی نظر آتا ہے۔ اگر کوئی غیرملکی شخص جس کی مادری زبان اردو نہ ہو اور ایسی عمدہ شاعری کرے تو ا س کی سخنوری اور سخن پروری کی داد دیتے ہی بنتا ہے۔ اپنی ملازمت کی مدت ختم ہونے پر ذرّہ جے پور چلے گئے تھے اور بقولِ منشی سوہن لال بھٹناگر انھوں نے جے پور میں 1909 میں وفات پائی۔16؎

ڈومنگوپال ذرّہ کے بیٹے لوئس پیٹرک لینروا نے جب شاعری شروع کی تو پہلے پہل اپنا تخلص بیخود رکھا لیکن نہ جانے کیوں تخلص بدل کر توقیر ہوگئے جب کہ  ان کے دادا کپتان توقیر (گوالیار) کا تخلص بھی یہی تھا۔ تخلص کی یہ تبدیلی بعض اوقات مغالطہ آمیزی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ لوئس پیٹرک کی ولادت 1876 میں ہوئی تھی۔ فارغ التحصیل ہوکر توقیر نے ریاست بیکانیر کے ریوینیو ڈپارٹمنٹ میں ہیڈ کلرک کی حیثیت سے ملازمتی زندگی کا آغاز کیا لیکن ترقی کرتے ہوئے ایڈیشنل ریونیو منسٹر کے عہدۂ جلیلہ تک پہنچ گئے۔ توقیر بیکانیر میں عہدہ تحصیل دار پر بھی فائز رہے تھے۔ علاوہ ازیں 1910 میں ناظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1912 سے 1935 تک کسٹم اور ایکسائز میں انس پیکٹر جنرل رہے۔ 1918 میں اسٹیٹ کونسل میں جوائنٹ منبر ہوئے۔ 1932 سے `1935 تک ڈسٹرک مجسٹریٹ بھی رہے۔ اس دوران اٹھارہ سالوں تک بیکانیر کے میونسپل بورڈ کے صدر بھی رہے۔ ان کی خدمات سے متاثر ہوکر بیکانیر کے مہاراجہ نے ایم بی ای کے خطاب سے نوازتے ہوئے سونے کا تمغہ (کڑا) عطا کیا۔ 17؎ توقیر نے اپنے بزرگوں کی روایت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے شعرگوئی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی اور ڈاکٹر شاہد احمد جمالی نے ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کے مذکورہ تذکرے کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ توقیر کا کلام رسالہ ’پیامِ یار‘ (لکھنؤ) میں شائع ہوتا تھا۔ ان کے کلام سے چند مثالیں بطور نمونہ پیش ہیں    ؎

جب اٹھایا سر تو پاؤں کے تلے رونداگیا

گلشنِ عالم میں ہے اپنا تو رتبہ کاہ کا

گالیاں کھانا خون پی لینا

ذائقے ہیں یہ دل لگانے کے

وہ اپنی بزم میں غیرو ںکے خوف سے توقیر

ہماری سمت کرم کی نگاہ کرتے ہیں

——

مطلع دیوان ہے رنگ ابروئے دل خواہ کا

جوں ہلالِ عید قرباں مد ہے بسم اللہ کا

بارِ غفلت دور کر توقیر بس ہو چل سبک

قافلہ جاتا ہے کرلے تو بھی ساماں راہ کا

——

زمیں سے نور پہ آدم کو انتخاب کیا

یہ تونے خاک کے ذرے کو آفتاب کیا

دل اپنا ہوکے پریشاں بکھرتا جاتا ہے

کسی کی زلف کو شاید کہ پیچ و تاب کیا

——

کبھی جو دیکھا ہے چشم پرآب میں پانی

صدف میں دُر ہے نہ درِّ خوش آب میں پانی

نہ چھیڑ آبلۂ دل کو پھوٹ جائے گا

حباب پانی میں ہے اور حباب میں پانی

——

کئی بار دیکھا تمھیں شیخ جی

درِ مئے کدہ سے نکلتے ہوئے

وہ ملنے کو آتے ہیں توقیر سے

خرماں خرماں ٹہلتے ہوئے

  توقیر نے اپنے والد کی شاگردی میں شاعری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ بقول رام بابو سکسینہ 18؎  22؍ اپریل 1938 کو ان کے انتقال کے ساتھ ختم ہوگیا۔

بیکانیر میں بابو مکتا پرشاد سکسینہ (1875 تا 1935) ایسے شخص تھے جن کے ادبی کارناموں کو اہل اردو نے قابل توجہ نہیں سمجھا جبکہ اہل ہندی نے انھیں اور ان کے کارناموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ موصوف پیشے سے وکیل اور مشہور مجاہد آزادی تھے۔ سکسینہ صاحب نے ملی جلی زبان میں دو عدد ڈرامے بعنوان ’دھرم وجے‘ اور ’ستیہ وجے‘ بہ زبان اردو تخلیق کیے تھے۔ یہ دونوں ڈرامے تحریکِ آزادی کے سلسلے میں ان کی تنظیم ’مترمنڈل‘ کے ذریعے اسٹیج پر پیش کیے گئے تھے۔ اوّل الذکر ڈرامے سے قطع نظر ثانی الذکر ڈرامے کا ترجمہ کرکے کتاب کے مدیر لکشمی نرائن پاریک صاحب نے اردو مخطوطہ جو سکسینہ صاحب کے دستِ قلم کا مرہون منت ہے۔ راقم کو دکھایا تھا تاہم راقم نے اس میں جگہ جگہ اصلاحیں کرکے ایک مقدمہ تحریر کیا تھا۔ اس ڈرامے کی اشاعت ’پستک مندر‘ بیکانیر سے 2003 میں عمل میں آئی تھی۔

مذکورہ ڈراموں پر پارسی تھیٹر کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ آغا حشر کاشمیری، امتیاز علی تاج اور امانت لکھنوی کی ڈرامانگاری کے اثرات موجود ہیں۔ بقول ڈاکٹر مدن کیولیہ نرائن پرشاد بیتاب کی طرح مکتا پرساد سکسینہ بھی ملی جلی زبان میں اظہار خیال کو ترجیح دیتے تھے، یعنی     ؎

نہ ٹھیٹھ ہندی، نہ خالص اردو

زبان گویا ملی جلی ہو

ملی جلی زبان کے بہترین نمونے سکسینہ صاحب کے مذکورہ ڈراموں کی اہمیت کو بڑھا دیتے ہیں۔ ان ڈراموں میں جا بجا اپنے مافی الضمیر کی صراحت کے پیش نظر ملی جلی زبان کے اشعار بھی مذکورہ ڈراموں میں دیکھے جاسکتے ہیں، مثلاً     ؎

مرنا دھرم کی راہ میں لطفِ عظیم ہے

جائے شہیدِ خاص بہشت نعیم ہے

——

بدل سکتی نہیں سختی کبھی رنگت دلیروں کی

مصیبت سے بڑھا کرتی ہے ہمت اور شیروں کی

——

اٹھایا سر کسی نے گر دبا ڈالا بلا بن کر

پھنسایا لوبھ نے ورنہ مٹا ڈالا قضا بن کر

——

ہمیں عالم کے مالک، راج کے روحِ رواں ہم ہیں

حکومت، دھرم، تخت و تاج کے اک پاسباں ہم ہیں

نہیں طاقت کسی کی جو جہاں میں ہم سر بر آئے

اڑا دیں چرخِ گردوں کو اگر کچھ دل میں شر آئے

——

وِدھنا کہاں ہوا ہے آکر میرا ٹھکانہ

پنجرے میں مجھ کو لایا میرا ہی آب و دانہ

ڈربان کا نہیں ہے جب دھیان میں ہے اوٗشا

لیکن ستا رہا ہے کم بخت قیدخانہ

——

اب نکل سکتی نہیں آ جنم کار اگار سے

گر ضرورت ہو مٹا دو ںاس کو اس سنسار سے

راج، دھن، اور پتر آدی ہسیہ آگے دھرم کے

اوشائے ناچیز کیا عالم جلا دوں نار سے

اس قسم کی اور بھی مثالیں نثر و نظم میں مکتا پرشاد سکسینہ کے مذکورہ ڈراموں میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ چونکہ سکسینہ صاحب گاندھی جی سے متاثر تھے اس لیے ’ہندوستانی زبان‘ کو ترجیح دیتے تھے، اہلِ بیکانیر پر لازم ہے کہ مذکورہ دونوں ڈراموں کے اردو مخطوطات آنجہانی ستیہ نرائن پاریک جی کے یہاں موجود ہیں، انھیں  اردو میں طبع کراکر منظرِ عام پر لائیں۔ دراصل مذکورہ دونوں ڈرامے مکمل طور پر ہندی میں نہیں چھپے ہیں۔ مرتب نے اپنی پسند کے مطابق حذف اور تراش خراش کرکے ان کی تلخیص ہندی میں شائع کرائی ہے جس کا راقم الحروف عین شاہد ہے۔

بابو مکتا پرشاد کی طرح ہی ایک اور شخص کے کارناموں کو اہل ِبیکانیر نے نظرانداز کردیا  ہے۔ اس شخص کا نام میگھ سنگھ ہے، جس نے ایک ضخیم کتاب بعنوان ’تواریخ بیکانیر‘ بڑی تقطیع میں شائع کرائی تھی۔ میگھ سنگھ راٹھوڑوں کے راجپوت خاندان سے متعلق تھے۔ اس کتاب کو انھوں نے سوہن لال بھٹناگر مذکورہ تواریخ کے طرز پر لکھا تھا۔ اس میں بھی بیکار نیر کے محلوں، ذات برادریوں، تعلیمی اداروں، میلوں ٹھیلوں اور تہذیبی وتمدنی رکھ رکھاؤ کا تذکرہ بڑے دل چسپ انداز میں کیا ہے۔ راج گھرانے پر اس میں اعتراضات بھی کیے گئے ہیں۔ بیکانیر کے بعض بزرگوں نے زبانی طور پر بتایا تھا کہ راج گھرانے کی مذمت کے سبب اس کتاب کو پڑھنے اور اپنے گھروں پر رکھنے کی پابندی ریاستی دور میں نافذ کردی گئی تھی تاہم لوگوں نے گجنیر روڈ پر واقع بڑے قبرستان کے کنویں میں اس کتاب کو ڈالنا شروع کیا لیکن اس سوکھے کنویں سے باذوق اور شائقین اردو نے اسے وہاں سے نکال کر اپنے گھروں میں محفوظ کرلیا۔ راقم کے ایک دوست رشید احمد غوری (محلہ پھڑبازار، (بیکانیر) کے پاس یہ کتاب موجود ہے جسے راقم نے کئی مرتبہ جستہ جستہ پڑھا ہے۔ اس کی نثر میں کھردرا پن موجود ہے اس کا سبب یہ ہے کہ میگھ سنگھ کے اسلوب پر راجستھانی (مارواڑی) زبان کا غلبہ تھا۔ ہوسکتا ہے اس کے بعض تاریخی واقعات قابلِ اعتراض بھی ہوں لیکن بیکانیر میں اردو نثر کے ارتقائی سفر میں اس تواریخ کی اہمیت سے یکسر صرفِ نظر بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے جنگ بہادر جنگ میرٹھی نے کوٹہ میں رہائش اختیار کی۔ تب ان کے بڑے صاحب زادے للتا پرشاد شاد میرٹھی نے ان کے ساتھ کوٹہ میں مثالی ادبی کارنامے انجام دیے۔ لیکن ان کے دوسرے نورِ نظر بنام بابو تروینی پرشاد ماتھر متخلص بہ رنگ میرٹھی تلاشِ معاش میں مصروف ہوئے تو انھیں ریاست بیکانیر میں ملازمت مل گئی۔ رنگ نے اپنے والد کے تخلص جنگ کی نسبت سے اپنا تخلص اختیار کیا اور اپنے بڑے بھائی شاد کی طرح قلم بدست ہوگئے۔ ڈاکٹر شاہد احمد جمالی ان کے سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ:

’’بیکانیر میں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ ان کا ایک تاریخی قطعہ للتا پرشاد شاد میرٹھی کے مجموعۂ ’کلام شاد، معروف بہ مخزن اسرارِ معرفت‘ میں شامل ہے۔ وہی یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اس قطعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک کہنہ مشق شاعر تھے:

مرے برادرِ عالی کا چھپ گیا دیواں

بڑھے گی اس سے بہت رونق و فصاحتِ بزم

لکھا یہ رنگ نے کیا خوب مصرعۂ تاریخ

ہے شاد شاعرِ والا صفاتِ عزتِ برم

 

(2006 بکرمی)19؎

ڈاکٹر جمالی صاحب نے درست فرمایا کہ رنگ کہنہ مشق شاعر تھے، کیونکہ مذکورہ قطعۂ تاریخ میں ایک طرف ان کے والد جنگ کا رنگ اور دوسری طرف برادرِ کلاں شاد کا ڈھنگ موجود ہے۔

بیکانیر کے شہرت یافتہ شاعروں میں ایک اہم نام سردار پریم سنگھ کمار پریم کا بھی ہے۔ راجستھان کے مدرس شعرا کے تذکرے ’دامانِ باغباں‘ میں ان کے تفصیلی حالات درج ہیں، جن میں سے ایک حصہ یوں منقول ہے ’’جناب پریم سنگھ کمار 21؍ اکتوبر 1913 کو خان پور، ریاست بھاول پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم جناب دیوی دیال صاحب ایڈوکیٹ اردو اور فارسی کی اعلیٰ قابلیت رکھتے تھے۔ انھوں نے ہی جنابِ پریم کو گلستاں بوستاں پڑھائی۔ آپ نے آٹھویں کلاس گورنمنٹ مڈل اسکول خان پو رسے پاس کی میٹرک صادق ڈین ہائی اسکول بھاول پور سے اور ایف۔ اے صادق اجرٹن کالج بھاول پور سے پاس کیا۔ بی۔ اے خالصہ کالج گجرانوالہ سے اور بی۔ٹی گورنمنٹ سینٹرل کالج، لاہور سے پاس کیا۔ اس کے علاوہ فارسی اور اردو میں آنرس کے امتحان بھی پاس کیے۔ تواریخ میں ایم۔ اے راجستھان یونیورسٹی سے پرائیویٹ پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ مڈل اسکول خان پور کے ہیڈ ماسٹر بنے اور 1940 میں جب مڈل اسکول ہائی اسکول بن گیا تب آپ کا عہدہ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہوگئے۔ 1947 میں آپ کو خا ںپور چھوڑنا پڑا اور ایک رفیوجی کی حیثیت سے بیکانیر پہنچنے۔ 5 جنوری 1948 کو سادول پبلک اسکول میں ریذیڈنٹ ماسٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1951 میں ہیڈ ماسٹر بن کر ناگور تشریف لے گئے، پھر فورٹ اسکول بیکانیر میں ہیڈ ماسٹر رہے پھر سادول ملٹی پرپز ہائر سیکنڈری اسکول بیکانیر میں ہیڈ ماسٹربنے۔ یکم جولائی 1960 کو آپ کی ترقی ہوئی اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر بنے اور پھر پرنسپل سادول پبلک اسکول بنے اور پھر انسپکٹر آف اسکول اودے پور کے عہدہ پر فائز رہے اور اس وقت ڈپٹی ڈائرکٹر آف سوشل ایجوکیشن کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔‘‘20؎

مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پریم صاحب اپنے دفتری امور میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے، لیکن اس کے باوصف آپ نے علم و ادب کے لیے وقت نکالا اور بہترین تخلیقات پیش کیں۔ آپ کا ایک شعری مجموعہ بعنوان ’بہت دور جانا ہے تجھ کو مسافر‘ اور بعض دیگر انتخابات اور تذکرہ جات کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے غزل کے علاوہ نظم اور قطعہ وغیرہ کے حوالے سے اظہارِ جذبات کیا ہے۔ ان کی غزلوں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں      ؎

عنایت آج پھر اک بار یہ کیا؟

دوا سے بڑھ گیا آزار یہ کیا؟

تمھیں نے تو سکھایا پریم کرنا

تمھیں ہو پریم سے بیزار یہ کیا؟

——

خواہشِ دید اگر ہے تو نظر پیدا کر

خندہ زن دار پہ جائے وہ جگر پیدا کر

پریم کیا ڈھونڈتا ہے کعبہ میں، بت خانہ میں

اس کو ہر ذرّے میں دیکھے وہ نظر پیدا کر

——

کیا لبِ ساحل کھڑا تکتا ہے حیرانی کے ساتھ

کود جا طوفاں میں اور کھیل طغیانی کے ساتھ

انتہائے دردِ الفت ہے دوائے دردِ دل

پریم کی منزل کٹے گی اب تو آسانی کے ساتھ

پریم سنگھ کمار کی منظومات میں ’بھنور کو اپنی کشتی موج کو ساحل سمجھتے ہیں‘، ’میرے رنگین خیالو ںکی اے تصویر حسیں‘، ’پھول کی کہانی اپنی زبانی‘، ’ایک نادار کے جذبات عید کے دن‘، ’یاد آرہی ہے‘، اور ’بسنت‘ وغیرہ کامیاب اور مقبولِ عام تخلیقات میں شمار ہوتی ہیں، جیسے    ؎

بسنت ہے، بہار ہے، گل پر نکھار ہے

دوش پر ہوا کے آج بوئے گل سوار ہے

ہے نقابِ سبز سے جھانکتی کلی کلی

اور نسیمِ خوشگوار ان کو گدگدا رہی

ڈال ڈال ہے لیے ہاتھ میں سبوئے گل

رختِ زرد زیبِ تن کس ادا سے نازنیں

بانٹنے لگی شراب

نو یدِ عید سے کیا جاں بلب ہوں فاقوں سے

مجھے تو موت کا ہے انتظار عید کے دن

ہے گونج عید مبارک کی ایک عالم میں

نہیں ہے کوئی مرا غمگسار عید کے دن

جو گود میں ہیں مسرت کی آہ! کیا جانیں

کہ غمزدہ ہے کوئی اشکبار عہد کے دن

مسرتیں مری حالت پہ آج رو دیں گی

جو دل کے زخموں کی دیکھیں بہار عید کے دن

اسی امید پہ جیتا ہوں میری دنیا میں

کبھی تو آئیں گے پروردگار عید کے دن

پریم ہوش میں تو کہہ کہ لوگ کہتے ہیں

کلام تیرا ہے کچھ ناگوار عید کے دن

پریم صاحب کی غزلوں اور نظموں کی طرح ان کے قطعات بھی مؤثر اسلوب لیے ہوئے ہیں اور ان میں بھی تغزل کی نرالی شان جلوہ گر ہے، اس امر کی تشریح کے لیے ان کے قطعات سے صرف دو مثالیں ملاحظہ ہوں      ؎

محبت کا ترانہ چاہتا ہوں

میں کلیوں کو ہنسانا چاہتا ہوں

محبت سب ہیں کرسکتے مگر میں

محبت کو نبھانا چاہتا ہوں

——

وفا کی جنسِ اعلیٰ ڈھونڈتا ہوں

زمیں پر عرشِ بالا ڈھونڈتا ہوں

ہوں تیری مسکراہٹ کا طلب گار

اندھیرے میں اجالا ڈھونڈتا ہوں

مرتبین تذکرہ ’دامانِ باغباں‘ نے مشترک طور پر متفق ہوتے ہوئے پریم سنگھ کمار کی شاعری سے متعلق بجا طور پر لکھا ہے:

’’شعر جب بغیر کسی تکلف اور کوشش کے طبیعت سے پیدا ہوتا ہے تو واقعی شعر ہوتا ہے۔ پریم صاحب کا کلام اس لحاظ سے آورد اور تصنع سے پاک ہے۔ ان کی شاعری صاف ستھری ہے۔ زبان سلیس ہے۔ ان کی شاعری  انسانیت، اعلیٰ خیالات اور پاکیزہ جذبات کی آئینہ دار ہے۔ قدیم روایت کی پابندی میں گو انھوں نے اچھی غزلیں کہی ہیں لیکن ان کا ذوقِ شعری آزاد نظموں میں زیادہ ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات اور زندگی کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آپ نے بہت اچھی آزاد نظمیں کہی ہیں۔ ’پھولوں کی کہانی آپ اپنی زبانی‘ روانی، شگفتگی اور معنویت لیے ہوئے ہے۔ ’مزدور‘ بہت مختصر اور جامع نظم ہے۔ اس سے ناداروں اور مفلسوں کا درد بھرا نقشہ نظر کے سامنے آتا ہے۔ ’میرے رنگیں خیالوں کی اے حسیں تصویر‘ شاعر کی رنگین مزاجی اور رومان بھرے دل کی ترجمان ہے۔ ’بھنور کو اپنی کشتی موج کو ساحل سمجھتے ہیں‘ ان کے عزم اور ہمت کی آئینہ دار ہے۔‘‘21؎

پریم سنگھ صاحب 1979 میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور اسی سال 10 جولائی 1979 کو اس دار فانی سے کوچ کیا۔

کامیشور دیال سکسینہ متخلص بہ حزیں کو اپنے معاصرین میں یہ امتیاز حاصل رہا کہ آپ نے شاعری کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت افسانہ نگار بھی اپنی خدمات انجام دیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خطہ بیکانیر میں حزیں کے علاوہ اور کوئی افسانہ نگار نہیں ہوا جس کے افسانوں کو بھی معاصر رسائل و جرائد نے اپنے شماروں میں زیورِ طبع سے آراستہ کرکے پذیرائی کی۔

حزیں کا ذکر اکثر تذکرہ جات نے بالتفصیل کیا ہے جس سے ان کے سوانحی حالات پردۂ خفا میں نہ رہے۔ ان کی پیدائش 23 فروری 1915 کو میرٹھ کے ایک گاؤں لاوڑ میں ہوئی۔ والد کا نام وشمبھر سہائے سکسینہ تھا جو خوش اخلاق اور شریف النفس انسان تھے اور گزر بسر کے لیے کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ آپ نے حزیں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ صرف کی تاہم حزیں نے میرٹھ کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد 1944 میں آگرہ یونیورسٹی سے پرائیویٹ طور پر ایم۔ اے، اردو کا امتحان پاس کیا۔ تذکرہ ’دامانِ باغبان‘ کے مطابق:

’’اردو میں ایم۔اے کرنے سے پہلے ہی آپ کا تعارف ادبی دنیا سے ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوچکا تھا۔ آپ کی تین کہانیاں ’مینی‘، ’غلطی‘ اور ’یاد‘ قیمتاً پبلک رلیشن ڈائرکٹوریٹ گورنمنٹ آف انڈیا کے ماہنامے ’سندباد‘ میں شائع ہوئیں اور آپ کے افسانے ’سماج کے باغی‘، ’دینو‘، ’ٹوٹا ہوا ستار اور ’ردِّعمل‘ دوسرے ماہناموں میں شائع ہوئے۔ میکسیم گورکی کے ایک افسانے ’چھبیس آدمی اور ایک لڑکی‘ کا اردو ترجمہ ’مشہور‘ دہلی میں شائع ہوا۔ آپ کے مشہور افسانے ’کامنی‘ کو سن کر ان کے دوست محمد عثمان عارف اور احمد حسن سلیمانی نے کہا تھا کہ آپ تو نثر میں بھی شاعری کرتے ہیں۔‘‘22؎

اگر حزیں کے مذکورہ  افسانے اور کہانیوں کو یکجا کرلیا جائے تو ایک مجموعہ ترتیب دیا جاسکتا ہے لیکن کوشش بسیار کے باوصف ان کی یہ تخلیقات ہمدست نہیں ہوسکیں حتیٰ کہ راقم نے حزیں کی دھرم پتنی کمل جین اور صاحبزادی ڈاکٹر سُلکشا دتّا تک بھی رسائی کی لیکن انھیں بھی ان تحریروں کا علم نہیں ہے۔ البتہ ان کا پہلا مجموعہ ’جان حزیں‘ مطبوعہ 1968 ان کی تحویل میں ہے جو حزیں کی حیات میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’دل حزیں‘1991 میں کمل جین صاحبہ کی کوششوں سے حزیں کے انتقال کے بعد زیورِ طبع سے آراستہ ہوا تھا۔ صد افسوس کہ اردو کے اس صاحبِ طرز شاعر کے دونوں مجموعہ ہائے کلام دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوئے جب کہ ان پر پہلا حق صرف اور صرف اردو کا تھا۔ چونکہ حزیں کے افسانے اور کہانیاں پیش نظر نہیں ہیں۔ اس لیے ان پر فی الحال گفتگو نہیں ہوسکتی، صرف ان کے دستیاب کلام کی روشنی میں ان کے شاعرانہ مقام کے تعین کی سعی کی جاسکتی ہے۔ حزیں نے غزل گوئی پر خصوصی توجہ صرف کی۔ حالانکہ کچھ قطعات بھی ان سے منسوب ہیں اور کچھ ایسی چار مصرعی نظمیں جنھیں انھوں نے رباعی کہا ہے، جبکہ وہ رباعی کے اصل عروضی نظام سے لاتعلق ہیں تاہم انھیں بھی قطعات میں شمار کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ مرحوم خلیق عزیزی بیکانیری نے راقم کو یہ بتایا تھا کہ حزیں کا ایک شعر اس قدر مقبول خاص و عام ہوا تھا کہ ناظم مشاعرہ انھیں ا س شعر کے حوالے سے محفلوں میں پیش کرتے تھے، وہ شعر یہ ہے   ؎

اپنا ضمیر بیچ کے خوشیاں خرید لیں

ایسے تو اس جہاں کے طلب گار ہم نہیں

اس غزل کے بقیہ اشعار بھی قابلِ ستائش ہیں جنھیں یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہورہا ہے، ملاحظہ فرمائیے   ؎

دل خون رو رہا ہے مگر آنکھ نم نہیں

دنیا سمجھ رہی ہے مجھے کوئی غم نہیں

تازہ ستم کوئی بھی براہِ کرم نہیں

کیا اب تیری جفاؤں کے لائق بھی ہم نہیں

وہ آنکھ کیا جو غیر کی خاطر نہ رو سکے

وہ دل ہی کیا  کہ جس میں زمانے کا غم نہیں

کوئی تو بات ہو، میں کہوں جس کو التفات

تیرا ستم نہیں، کوئی تیرا کرم نہیں

کچھ امتیازِ رنگ نہ ملت کی قید ہے

یہ میکدہ ہے، آئیے دیر و حرم نہیں

مجھ کو تو اس کی شانِ کریمی پہ ناز ہے

سجدے کرے وہ جس کو یقین کرم نہیں

جھوٹی توقعات کا باعث ہے اے حزیں

ان کی توجہ ان کی جفاؤں سے کم نہیں

حزیں کی غزل گوئی کا جو رنگ و آہنگ مذکورہ غزل میں مضمر ہے یہی شکوہ ان کی دیگر غزلیات میں بھی رقصاں ہے۔ان کی دوسری قابلِ قدر غزلیات سے چند اور اشعار پیش خدمت ہیں    ؎

مجھ سے اب تک تعلق غم ہے

ان کا اتنا کرم بھی کیا کم ہے

راس آئے تو زندگی جنت

ورنہ یہ زندگی جہنم ہے

——

گلشن نہیں، بہار نہیں، ہمنوا نہیں

صیاد کیسے وقت پہ چھوڑا ہے دام سے

اب نام بھی بدلنا پڑے گا تجھے حزیں

نفرت سی ہوگئی ہے انھیں تیرے نام سے

——

عمر بھر رسم الفت نبھاتے رہے

درد سہتے رہے مسکراتے رہے

اپنے قبضے میں بس دولت اشک ہے

ان پہ اشکوں کے گوہر لٹاتے رہے

——

وعدۂ امروز کے پردے میں دے اس کو فریب

وعدۂ فردا کا اب دھوکا نہیں کھاتا ہے دل

عقل رہبر بن نہیں سکتی کبھی دل کی حزیں

جب خرد سے کام لیتا ہوں بٹھک جاتا ہے دل

——

بھول کر حرفِ تمنا لب پہ لاسکتا نہیں

دل کی خاطر عشق کی عظمت گھٹا سکتا نہیں

لے لیا کہہ کر حزیں یہ حسن نے آغوش میں

اب تجھے دنیا کا کوئی غم ستا سکتا نہیں

——

جنھیں دل نوازی بھی آتی نہیں

مری جان کا آسرا ہوگئے

حزیں تم کو ہے آرزوئے اجل

وہ جینے کے ارمان کیا ہوگئے

کامیشور دیال حزیں 1940 میں اپنے وطن سے بیکانیر میں وارد ہوئے تھے جب آپ کا تقرر سادول اسکول میں بہ حیثیت مدرس ہوا تھا، ان کی شادی بھی بیکانیر میں ہوئی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ بیکانیر میں رہے اور آخرکار 18 جولائی 1985 کو یہ آفتابِ سخن غروب ہوگیا۔ حزیں نے جس قدر خدمت ادب انجام دی اسی قدر انھیں عزت و تکریم حاصل ہوئی۔ ضرورت ہے کہ ان کے دونوں شعری مجموعوں کو اردو میں شائع کیا جائے اور ان کے افسانوں اور کہانیوں کو محولہ بالا رسالوں کی ورق گردانی کرکے ایک مجموعے کی صورت میں منظرعام پر لایا جائے۔ یہی حزیں کے تئیں حقیقی خراجِ عقیدت ہوگا۔

سرزمینِ بیکانیر میں صدق دل سے اردو کی خدمت کرنے والے حضرات میں دیوان چند دیوان کو ہمیشہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ آپ کی پیدائش 13 نومبر 1933 کو نانک شہر ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں صوبہ سرحد میں ہوئی تھی۔ آپ کا شروعاتی نام بہاری لال تھا لیکن ایک بزرگ فقیر کے حکم کی تعمیل میں دیوان چند ہوگیا۔ آپ کے والد کا نام ٹیکن رام تھا۔ جب دیوان چند چودہ پندرہ برس کے تھے تب 1947 میں تقسیم ہند کا حادثہ ہوگیا۔ تاہم وہ اپنے والدین کے ہمراہ 1948 میں مہاجر کی حیثیت سے بیکانیر آگئے۔ دیوان چند کی تعلیم محض ساتویں جماعت تک ہوئی لیکن ان جماعتوں میں انھوں نے اردو اور فارسی پڑھی تھی۔ اس لیے ان زبانوں کا اچھا خاصا علم رکھتے تھے۔ ابتداً انھوں نے جے پور اور بیکانیر میں محنت مزدوری کرکے دن گزارے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ خود کی برتنوں کی دوکان کوٹ گیٹ بیکانیر کے ریلوے کراسنگ کے قریب قائم کرلی۔ یہاں ایک خوش آئند واقعہ یہ پیش آیا کہ ان کے پڑوس میں مشہور شاعر شمس الدین ساحل بیکانیری کی بھی دوکان تھی جس میں وہ درزی کا کام کیا کرتے تھے، چنانچہ جب ان سے دیوان چند کے تعلقات بڑھے تو طبیعت شعر گوئی کی طرف مائل ہونے لگی۔  انھوں نے ساحل بیکانیری کو اپنا کلام برائے اصلاح دکھانا شروع کیا اور اپنے نام کے مخفف ’دیوان‘ کو ہی اپنا تخلص بنا لیا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ ساحل صاحب کی سرپرستی اور اصلاح نے بھی ان کے کلام میں پختگی اور چمک دمک پیدا کردی۔ بیکانیر کی بیشتر ادبی تقریبات میں دیوان چند صاحب کی شرکت لازمی سمجھی جاتی تھی جہاں آپ نے اکثر ان اشعار کے ذریعے اپنا شاعرانہ تعارف پیش کیا       ؎

 

ان کو ہی دیوان چند بھی جانیے

کرکے ہجرت آگئے ہندوستاں

ملک کی تقسیم پر تھے نوحہ خواں

شمس دیں ساحل کے وہ شاگرد تھے

مشغلہ ان کا تجارت جانئے

مرحبا کہ آپ کہتے نعت بھی

جو یقینا ہے عقیدت سے بھری

مذکورہ اشعار دیوان بیکانیری کا منظوم تعارف ہی نہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی گہری عقیدت کو ظاہر کرتے ہیں، ایسی ہی عقیدت و محبت ان کے دیگر نعتیہ اشعار میں بھی موجود ہے، اس ذیل میں حسبِ ذیل اشعار بغور ملاحظہ کیجیے     ؎     

سب نبیوں کا سردار نبی ہم کو ملا ہے

یہ خالقِ کونین کی بے مثل عطا ہے

دشمن کو دعا دے کوئی ایسا بھی ہوا ہے

ہاں ہاں میرے سرکار نے ایسا ہی کیا ہے

کیوں اس پہ گرجتے ہیں یہ مندر کے پجاری

دیوان تو دیوانۂ محبوبِ خدا ہے

——

انگلی کے اک اشارے سے ٹکڑے قمر ہوا

جرأت نہ تھی کہ ٹال دے فرمانِ محمد

بے شک وہ شخص نارِ جہنم سے بچ گیا

آیا جو زیرِ سایۂ دامانِ محمد

اللہ رے یہ حلقۂ اسلام کی وسعت

دنیا میں ہر جگہ ہیں غلامان محمد

کچھ دوستوں کا فیض تھا، کچھ جذبِ دل بھی تھا

دیواں بھی ہوگیا ہے ثنا خوانِ محمد

——

جو لوگ مصطفی کی قیادت میں آگئے

وہ خوش نصیب منزل مقصود پاگئے

کشتی بھنور میں تھی میرا لازم تھا ڈوبنا

اللہ کے رسول میرے کام آگئے

دونوں جہان میں وہی امن و امان ہیں

دیوان راہ جو ہمیں آقا بتا گئے

نعت گوئی کے علاوہ دیوان کی غزل گوئی اور قطعہ نگاری میں بھی گہری دل چسپی تھی۔ ان کی غزلیں بظاہر سادہ و سلیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس سادگی کے پردے میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہوتا ہے، اس امر کو ان کی غزلیات کے مندرجہ ذیل اشعار کی وساطت سے سمجھا جاسکتا ہے     ؎

جانِ من جینا مرا دشوار ہے تیرے بغیر

ہر نفس چلتی ہوئی تلوار ہے تیرے بغیر

زندگی کیا زندگی، جس زندگی میں تو نہیں

یوں سمجھ لے زندگی بے کار ہے تیرے بغیر

جانِ من اے دلربا آکر اسے تو تھام لے

زندگی گرتی ہوئی دیوار ہے تیرے

لوگ تو کہتے ہیں کہ دیواں نے بازی جیت لی

لیکن اس کی جیت بھی تو ہار ہے تیرے بغیر

غزلیات سے قطع نظر دیوان بیکانیری کے قطعات میں بھی وارداتِ قلبیہ کے داؤں بیچ، لطف و انبساط، سرور و شادمانی، نغمگی و موسیقیت اور حسن و جمال کی وجدآفریں فضا ہموار دکھائی دیتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ دیوان کے قطعات ان کی غزلیات کی انگلی پکڑ کر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں، جیسے کہ مندرجہ ذیل قطعات     ؎

دل پہ سو رنج و غم اٹھائے ہیں

زخم کھاکر بھی مسکرائے ہیں

کیا کریں گے گلوں کا ہم دیواں

ہم کو کانٹے ہی راس آئے ہیں

——

غیر ممکن ہے غمِ یاس سے میں گھبراؤں

دوست تو دوست ہیں دشمن سے گلے مل جاؤں

میری ہستی تو ہے مرجھائے ہوئے گل کی طرح

راز کی بات ہے دیوان کسے سمجھاؤں

دیوان چند کا ابھی تک کوئی شعری مجموعہ منظرعام پر نہیں آیا ہے، حالانکہ ان کا کلام کثیر تعداد میں ان کے کاغذات میں محفوظ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے مسلسل اپنا کلام اردو اور ہندی کے مختلف رسالوں اور اخبارات میں برائے اشاعت ارسال کیا جو روزنامہ ’عوام‘ دہلی، روزنامہ ’یگ پکش‘ (ہندی- بیکانیر)، ماہنامہ ’زیب و زینت‘ (دہلی)، پندرہ روزہ ’مشیر‘ (دہلی)، ماہنامہ ’سند‘ (دہلی) اور ہفت روزہ ’میرٹھ میلہ‘ وغیرہ میں طبع ہوتا رہا۔ چند تذکروں، کتابوں اور انتخابات میں بھی ان کا کلام شائع ہوکر دعوتِ فکر دیتا رہا۔ دیوان چند نے اسی بیکانیر میں آخری سانس لی جہاں وہ مہاجر کی حیثیت سے آئے تھے۔

دیوانِ چند دیوان کی طرح ہی ملاپ چند راہی بھی تقسیمِ ہند کے بعد ڈیرہ اسماعیل خاں سے ہجرت کرکے بیکانیر وارد ہوئے تھے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ علاقہ بیکانیر سے قریب ہے اور بیکانیر میں آکر بود و باش اختیار کرنے والے غیرمسلم حضرات نے وہیں سے ترکِ وطن کرکے بیکانیر کا رخ کیا تھا۔ راہی کے ہم وطن اور اردو و ہندی کے مشہور ادیب سدرشن بالی نے راہی سے متعلق ایک تعزیتی مضمون میں لکھا ہے کہ:

’’ملاپ چند راہی کو مرحوم کہتے ہوئے اگر زبان لرزتی ہے تو مرحوم لکھتے ہوئے قلم بھی کانپتا ہے۔ اردو کا یہ جواں سال شاعر 31 اکتوبر 1981 کو اس دنیائے فانی سے رحلت کرگیا لیکن دنیائے شعر و ادب میں ایک لافانی وجود چھوڑ گیا۔

ملاپ چند 1935 میں شمالی مغربی سرحدی صوبے کے ایک مشہور اور خوبصورت شہر ڈیرہ اسماعیل خاں میں پیدا ہوئے۔ تقریباً بارہ سال کی عمر تک وہیں اپنا بچپن گزار کر اور ابتدائی تعلیم حاصل کرکے تقسیمِ ملک کے باعث اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیکانیر میں سکونت پذیر ہوئے۔

میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہوگئے۔ بیکانیر کے لوگ ملاپ چند کے بیکانیری ہونے کا بجا طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں لیکن ڈیرہ اسماعیل خاں کی گلیوں میں بارہ سال تک جس ماحول میں ان کا بچپن گزرا اس کا ایک دائمی اثر ان کی روح پر ہمیشہ موجود رہا۔‘‘ 23؎

راہی کے استادِ سخن انصار احمد محشر امروہوی نے اپنے تعزیتی مضمون ’ملاپ چند راہی- میرا بچہ میرا شاگرد‘ میں یہ وضاحت کی ہے کہ بیکانیر اور جے پو رکے اکثر شعرا و ادبا نے راہی کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ان کے جائز حقوق سے انھیں محروم رکھا، ان کی شاعرانہ حیثیت کو مشکوک سمجھا لیکن راہی نے قدم  قدم پر امتحان دے کر نہ صرف کامیابی وکامرانی حاصل کی بلکہ اپنی شاعرانہ حیثیت و عظمت کو منوا کر دم لیا۔ ان کے سلسلۂ تلمذ کے متعلق ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی نے یہ لکھا ہے کہ انھیں ’حضرت اثر عثمانی سے تلمذ ہے‘‘ 24؎ لیکن یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ راہی یا کسی اور حوالے سے ا س کی تصدیق نہیں ہوتی۔  ان پر لکھنے والے حضرات اور خود محشر امروہوی نے انھیں اپنا شاگرد لکھا۔ خود راہی نے خود ایک خط کے ذریعے ان کی شاگردی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ محشر کے مذکورہ مضمون کی یہ عبارت تمام غلط فہمیوں اور غلط  بیانیوں سے پردہ اٹھا دیتی ہے:

’’ایک ہم قریشی صاحب (مشیرالدین قریشی) کے یہاں سے اپنے مستقر پر لوٹ رہے تھے۔ موسم سہانا تھا۔ میں فکر شعر میں کھویا ہوا تھا کہ ملاپ چند نے اچانک ایک بند لفافہ دیا اور کہا کہ اسے آپ گھر جاکر غور سے پڑھیں۔ لفافہ پاکر اس وقت دل میں عجیب ہلچل سی مچ گئی۔ ذہن مختلف الجھنوں میں گرفتار ہوگیا۔ تین میل کا راستہ سیکڑوں کوس کے فاصلے میں تبدیل ہوگیا۔

ملاپ ہنومان گڑھ ٹاؤن پہنچنے کے بعد اپنے چچا جگل داس جی کے یہاں چلے گئے۔ میں تنہا گھر پہنچا۔ لیمپ جلا کر لفافہ چاک کیا تو راہی کی پہلی کاوش ایک غزل کے روپ میں برآمد ہوئی۔ اسی کے ساتھ ایک مختصر سا پرچہ بھی بصورت خط ملا جس کو ملاپ کے ہی الفاظ میں ہدیۂ ناظرین کرتا ہوں:

’’محترم محشر صاحب!

میں ہندی میں تو بہت عرصے سے گیت لکھ رہا ہوں مگر اردو سے دلی لگاؤ ہونے کی وجہ سے اردو شاعری سے مجھے عشق ہے۔ بہت ڈرتے ڈرتے اصلاح کے لیے یہ غزل دے کر آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری ہمت بڑھائیں گے۔ اور اس راستے سے میں آپ کے ساتھ چل سکوں گا۔ بیکانیر کے مشاعروں میں، میں خاص طور سے آپ کو سننے جاتا تھا مگر وہاں آپ سے نہ مل سکا     ؎

آپ کا چھوٹا بھائی

ملاپ چند راہی25؎

محشر امروہوی کے اسی مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ راہی گیت، غزل، نظم اور قطعہ نگاری کو پسند کرتے تھے۔ راجستھان میں جدید غزل کا تذکرہ ہونے پر راہی کا نام بجا طور پر آہی جاتا ہے۔ اہلِ راجستھان بخوبی واقف ہیں کہ ڈاکٹر اظہار مسرت یزدانی کس مزاج و مذاق کے شخص تھے۔ وہ اچھے اچھوں اور بڑے بڑوں کی عظمت کو آسانی سے تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ راجستھان یونیورسٹی جے پور کے ایک قومی سمینار میں ہم لوگ موجود تھے، ڈاکٹر اظہار مسرت مرحوم کو جدید شاعری پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے راجستھان کے اکثر شعرا کا تذکرہ کیا اور جب ملاپ چند راہی پر گفتگو شروع کی تو مرحوم نے یہ فرمایا کہ:

’’ملاپ چند راہی ان شعرائے راجستھان کی فہرست میں شمارے ہوتے ہیں جنھوں نے جدید اردو شاعری کی پرورش کا فریضہ انجام دیا‘‘ اور پھرانھوں نے راہی کا یہ شرع پڑھ کر سنایا جس پر حاضرین نے واہ واہ کی صدائیں بلند کردیں      ؎

کھویا ہوا ہوں میں تو تمھارے خیال میں

دنیا سمجھ رہی ہے مجھے نیند آگئی

راہی کی غزلیہ شاعری واقعی راجستھان میں جدید غزل گوئی کے کارواں کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہی ان کے چند اشعار تو ایسے ہیں کہ جو ضرب الامثال کی طرح شائقین ادب کی نوکِ زبان پر دیکھے گئے یہ مرتبہ اور پسندیدگی بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتی ہے اس سلسلے میں ان کی غزلیات سے چند ایسے اشعار یہاں نقل کرنا اس لیے ضروری معلوم ہورہا ہے کہ یہی وہ تخلیقات ہیں جو انھیں صوبۂ راجستھان کے غزل گویوں میں انفرادیت دلانے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں      ؎

یار ملتے ہی نہیں اب کہیں یاروں کی طرح

بات بھی کرتے ہیں اب نامہ نگاروں کی طرح

یہ کہیں آگ کا طوفان نہ برپا کردیں

آنچ کیوں آتی ہے پھولوں سے شراروںکی طرح

——

کیا دورِ تذبذب کے معمار اسے دیں گے

گھبرایا  ہوا انساں تسکین اگر مانگے

پرواز کی حسرت ہی پرواز نہیں راہی

پرواز تو جذبہ ہے، پرواز تو پر مانگے

——

دشمنی مصلحتِ وقت کا رکھتی ہے خیال

دوستی رشتۂ جذبات سے آگے نہ بڑھی

دامنِ صبر نہ چھوڑا کبھی دل نے راہی

ٹیس ابھری بھی تو نغمات سے آگے نہ بڑھی

——

رنگینیٔ بہار وہی ہے مگر اداس

گویا ترے بغیر ہے شام و سحر اُداس

——

تری نگاہ نے گلیوں کا انتخاب کیا

مری نگاہ کے دامن میں اشکِ شبنم ہے

——

خاک پروانہ تو دیکھی ہے مگر دیکھ کبھی

رات کے پچھلے پہر شمع کا تنہا ہونا

——

کچھ اس ادا سے آج تری یاد آگئی

خاموش زندگی میں تلاطم اٹھا گئی

راہیں بدل بدل کے اسے ڈھونڈتے رہے

راہی وہ زندگی جو قیامت اٹھا گئی

غزلیہ شاعری جیسی نرالی شان راہی کے قطعات میں بھی نظرنواز ہوتی ہے۔کبھی کبھی وہ محض چار مصرعوں میں وہ بات کہہ جاتے تھے جو لمبی چوڑی اور جامع تخلیقات میں بھی موجود نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے قطعات دراصل خطاب کرتے ہیں، سوال پوچھتے ہیں، اور بعض اوقات خود ہی جواب بھی پیش کردیتے ہیں، چند مثالیں سماعت فرمائیے     ؎

جو بھی آیا زباں پہ کہہ ڈالا

کچھ نہ سوچا ترے دیوانے نے

کیوں زمانے کا میں خیال کروں

کیا دیا ہے مجھے زمانے نے

——

میرے غم آپ کو اگر ملتے

آپ نے ہوش کھودیے ہوتے

میرا دم ہے کہ مسکراتا ہوں

آپ ہوتے تو رو دیے ہوتے

——

تیز رفتار گردشِ دوراں

جب مجھے ساتھ ساتھ لے جائے

مجھ کو جانا پڑے گا مجبوراً

جس جگہ بھی حیات لے جائے

——

اس طرح زندگی نہیں ملتی26؎

مانگنے سے خوشی نہیں ملتی

دل اگر مطمئن نہیں ہوتا

روح کو تازگی نہیں ملتی

محشر امروہوی نے اپنے محولہ بالا مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ راہی نے نظم، منقبت اور نعت بھی کہی تھیں لیکن ان اصناف سے متعلق کلام دستیاب نہیں ہوا۔ سہ ماہی ’نخلستان‘ کے شمارہ بابت اکتوبر تا دسمبر 1981 میں جو گوشۂ ملاپ چند راہی ترتیب دیا گیا اس میں بھی صرف ان کے قطعات اور غزلیات سے نمونۂ کلام پیش کیا گیا ہے۔

اپنی عمر کے آخری ایام میں راہی اس قدر ہر دل عزیز او رپسندیدہ شاعر ہوگئے تھے کہ جے پور میں ادبی تنظیموں کی ماہنامہ نشستوں میں ان کے مصرعوں پر شعرا کو دعوتِ شعر گوئی دی جاتی تھی جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن بھی ان کی غزل کے اس مصرعے پر شعری نشست ہونے والی تھی: ’’کسی کو دیکھ سکے سیڑھیاں اترتے ہوئے‘‘

اس بابت سدرشن بالی تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’شام کو سات بجے تک راہی اس نشست میں نہیں پہنچے تو ایک سائیکل سوار کو ان کے گھر بھیجا گیا جس نے واپس آکر راہی صاحب کے ایس ایم ایس ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں بے ہوش پڑے ہونے کی خبر سنائی۔ تھوڑی دیر میں ایمرجنسی وارڈ راہی کی لاش کو دیکھ کر مجاز (ڈاکٹر پی کے شری واستو مجاز جے پوری، سابق پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی، یونیورسٹی آف راجستھان، جے پور) بے ہوش ہوگئے۔ ان کی روح تو شام سات بجے باپو بازار کی ایک دوکان سے باہر نکلتے ہی قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ ادھر سات بجے تبسم سہارنپوری نے اپنی طرحی غزل کا یہ مطلع سنایا    ؎

کبھی تو سوچیے دنیا کی فکر کرتے ہوئے

کہ وقت لگتا نہیں آدمی کو مرتے ہوئے27؎

ملاپ چند راہی کی موت نے نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ دوست، احباب اور ان کے استادِ سخن محشر امروہوی کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ محشر نے  ان پر چند تعزیتی قطعات کہہ کر ’اپنے بچے اور شاگرد‘ کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا       ؎

جس کو لکھنا تھا مرثیہ میرا

اس کے غم میں جگر فگار ہے آج

چشم گریاں ہے، روح مضطر ہے

اب انھیں کس کا انتظار ہے آج

——

بزمِ شعر و سخن ہوئی سونی

راہیِ خوش بیاں کہاں ہے تو

تیری تخئیل تھی، حسیں پیکر

شاعرِ نوجواں کہاں ہے تو

——

ہم سفر تھا جو ایک مدت سے

راہیِ باوفا کہاں ڈھونڈوں

میرا ہمدم، میرا رفیق و عزیز

آج اس کا نشاں کہاں ڈھونڈوں

——

آج راہی میرے لیے تجھ بن

وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا

ایسی تاریک ہوگئی دنیا

آج تیرا کوئی نشاں نہ رہا

ملاپ چند راہی ’راجستھان اردو اکادمی‘ (جے پور) ’ادبی سنگم‘ اور ’لوک منچ‘ جیسی ادبی تنظیموں سے وابستہ تھے۔ ان سبھی اداروں نے راہی کی موت کے بعد ان کے بچوں کی اسکول کی فیس اور کتابوں کا خرچ اٹھانے، ان کا مجموعۂ کلام اردو اور دیوناگری رسم الخط میں شائع کرانے جیسے کئی اعلان کیے، لیکن صد افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔

پنڈت پریم شنکر وحشی کے بزرگوں کا وطن ریواڑی (ہریانہ)، جہاں یکم اکتوبر 1923 کو ان کی پیدائش ہوئی۔ وحشی کے والد کا نام پنڈت مان سنگھ تھا جن کی دلی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، لیکن وحشی میٹرک سے آگے پڑھائی نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ انھیں سرکاری ملازمت مل گئی تھی۔ اس ملازمت کے ملنے پر انھوں نے بیکانیر میں آکر مستقل رہائش اختیار کرلی آج بھی ان کے اہل و عیال محلہ دھوبی تلائی میں رہتے ہیں۔ وحشی کو بچپن ہی سے شعر و سخن میں دل چسپی تھی جس کا اظہار وہ طرح طرح سے کیا کرتے تھے لیکن انھوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 1946 میں کیا اور انور بھوپالی کو اپنا استاد بنایا۔ بیکانیر کی ادبی سیاست سے وہ ہمیشہ بیزار رہے اس لیے مشاعروں میں کم اور کوی سمیلنوں میں زیادہ شرکت کرتے تھے، لیکن اردو کے تئیں ان کی محبت اور وفاداری ہمیشہ قائم رہی۔ اس کا ایک ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ ایک ادارے نے ان کا کلام دیوناگری رسم الخط میں چھاپنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے صاف منع کردیا کہ اردو میری  ماں ہے، میں ماں کے ساتھ غداری کیسے کرسکتا ہوں۔ انھوں نے اپنا مجموعۂ کلام ’وحشی کدہ‘ کے زیرعنوان ترتیب دیا تھا، جسے وہ اپنی پینشن کی رقم سے چھپوانا چاہتے تھے لیکن دریں اثنا وہ آنجہانی ہوگئے۔ ’وحشی کدہ‘ آج تک اشاعت کا منتظر ہے۔ وحشی اگرچہ قدیم رنگ کو پسندکرتے تھے لیکن گہرائی میں ڈوب کر شعر کہنے کی کوشش کرتے تھے اور انھیں بسااوقات کامیابی بھی مل جاتی تھی۔ ان کی ایک بہترین غزل اور چند دیگر اشعار ملاحظہ فرمائیں    ؎

خدا غارت کرے اِس تیرگی کو

ترستے ہی رہے ہم روشنی کو

سمجھ کر ایک زندہ لاش اس کو

لیے پھرتے رہے ہم زندگی کو

لیے جاتی ہے پھر بستی کی جانب

یہ کیا سوجھا میری دیوانگی کو

تیری یادوں سے وابستہ ہوا ہوں

دعا دیتا ہوں تیری بے رخی کو

جدھر دیکھو اُدھر غارت گری ہے

الٰہی ہو گیا کیا آدمی کو

وہی دیکھے گا قدرت کا  تماشہ

سمجھ لے جو رموزِ عاشقی کو

تیرے آنسو بھی وحشی بے اثر ہیں

بجھائیں کس طرح دل کی لگی کو

——

محبت کے نشے میں جب بھی ہوکے چور دیکھا ہے

تمھارے حسن میں ہم نے خدا کا نور دیکھا ہے

——

نظر کو اپنی اٹھاؤ کہ دورِ جام چلے

وگرنہ چھوڑ کے میخانہ تشنہ کام چلے

——

آپ آئے تو زندگی آئی

میری دنیا میں ہر خوشی آئی

وحشی جب نظم کہتے تھے تب بھی غزل کی ہیئت استعمال کرتے تھے۔ چند قطعات بھی ’وحشی کدہ‘ میں موجود ہیں۔ یہ مجموعہ راقم کی نظر سے گزر چکا ہے۔ کاش کہ اس کی اشاعت ہوجائے۔

بیکانیر میں چند ایسے غیرمسلم حضرات بھی ہیں جو کم سخن شعرا کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ کم سخن ان معنوں میں کہ وہ کبھی کبھار شعرگوئی کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن جب بھی کچھ کہتے ہیں تو کوئی نہ کوئی مثالی تخلیق عمل میں آتی ہے۔ اس ذیل میں منموہن کرشن دتّا کی مثال پیش کی جاتی ہے، جنھیں ادبی دنیا میں دلبر نورانی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ دتّا صاحب کے والد کا نام چودھری کل دیپ رائے دتا تھا۔ آپ کی پیدائش 11 جولائی 1938 کو الہ آباد میں ہوئی۔ بی۔ اے کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سرکاری ملازمت میں آگئے اور پنڈت رگھبیر داس ساحر کی شاگردی اور سرپرستی میں اپنے شعری سفر کو آگے بڑھایا۔ چھوٹی بحر میں خوب غزلیں کہتے ہیں جو متاثر کیے بغیر نہیں رہتیں، ایک غزل سے اس کی تصدیق ملاحظہ فرمائیے     ؎

خوب دیکھا نظر نہیں آتا

آپ جیسا نظر نہیں آتا

ذکر تو روز تیرا ہوتا ہے

صرف چہرہ نظر نہیں آتا

ہو بصیرت تو دیکھ لو اس کو

یوں ہی مولا نظر نہیں آتا

دل سے ملتا ہے جب، خلوص سے دل

تیرا میرا نظر نہیں آتا

آکے ظلمت نے کردیا ہے جدا

میرا سایہ نظر نہیں آتا

لوگ کہتے ہیں رہنما اس کو

وہ تو ایسا نظر نہیں آتا

جو سمایا ہے قلب دلبر میں

وہ سراپا نظر نہیں آتا

دلبر نورانی کی طرح ستیہ پرکاش گپتا ، نادان موسوی بھی اترپردیش سے آکر بیکانیر میں مقیم ہوئے۔ نادان کی پیدائش 10 اکتوبر 1920 کو موضع موسا ضلع مظفر نگر میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام رام سروپ گپتا تھا جو مخلص انسان تھے۔ نادان 1935 میں بیکانیر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آکر آباد ہوئے تب آپ کی عمر پندرہ برس تھی اس لیے آپ کی اعلیٰ تعلیم گورنمنٹ ڈونگر کالج، بیکانیر میں ہوئی۔ اگرچہ آپ نے ایف۔ اے کے بعد ایل۔ ایل۔ بی کی سند بھی اسی کالج سے حاصل کی لیکن آپ نے وکالت کو پیشہ نہیں بنایا۔ مذکورہ کالج میں ’بزمِ ادب‘ کی تقریبات میں آپ طالب علم کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے تاہم وہیں سے شعر و سخن میں آپ کی دلچسپیاں بڑھنے لگیں اور ایک دن خود بھی شعر کہنے لگے۔ آپ اسٹیٹ بینک آف بیکانیر اینڈ جے پور کے اعلیٰ عہدے تک پہنچے اور 1980 میں آپ کی اسی عہدے پر سبکدوشی ہوئی۔ اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد بیکانیر سے دل اچٹ جانے پر آپ نے اپنی صاحبزادی کے پاس، جے پور میں جاکر رہنا شروع کیا جو جے پور کے ایک اسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ شعرگوئی کے علاوہ نادان کی ترتیب و تدوین میں بھی دل چسپی رہی ہے۔ تاہم اپنے دوست کا میشور دیال حزیں کا مجموعۂ کلام ’دل حزیں‘  (مطبوعہ 1991) آپ کی کوششوں سے منظرِ عام پر آیا۔ نادان چونکہ سرکاری ملازمت میں بے حد مصروف رہتے تھے اس لیے اپنی شاعری پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ ان کا مجموعہ کلام بھی ہنوز منظرعام پر نہیں آیا جبکہ آپ دوسروں کے مجموعوں کی طباعت کے لیے متفکر رہنے والے شخص ہیں۔ اس کم سخن لیکن بااخلاق شاعر کے مندرجہ ذیل شعر بطور نمونہ ملاحظہ فرمالیجیے   ؎

کاٹ دی جیسے بھی ناداں کٹ گئی

زندگی میں مرحلے کچھ کم نہ تھے

——

ستارو تم سے پوشیدہ نہیں تاریخ انساں کی

بتاؤ تم ذرا کتنے صحیح انسان گزرے ہیں

——

اسے جینا نہیں آیا، اسے مرنا نہیں آیا

کتاب زندگی ناداں جسے پڑھنا نہیں آیا

پنڈت رام کشن شرما سائل، محلہ کوچہ پنڈت نئی دہلی کے آبائی باشندے تھے، لیکن سرکاری ملازمت اختیار کرنے پر انھیں بیکانیر میں آکر بسنا پڑا۔ وہ پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف (پی اینڈ ٹی)  ڈپارٹمنٹ سے سبکدوش ہوکر پینشن یاب ہوئے۔ سائل چونکہ باذوق تھے اس لیے بیکانیر کے بزرگوں اور نوجوانوں نے ان کی بڑی قدر و منزلت کی اس کی ایک  وجہ یہ تھی کہ وہ اعلانیہ طور پر خود کو عاشق رسول کہا کرتے تھے۔ شاید یہی سبب رہا ہو کہ ان کی شاعری تصوف اور روحانیت سے قریب تر ہے۔ سائل نے اپنا بیش تر کلام خلیق عزیزی بیکانیری کو برائے اصلاح دکھایا لیکن خلیق صاحب کی شرافت اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ انھوں نے اس عمل کو استادی و شاگردی پر محمول نہ فرما کر دوستانہ اور مخلصانہ مشوروں سے تعبیر کیا۔ سائل غزل، نعت اور منقبت پر خصوصی توجہ صرف کرتے تھے اور اگر نظم کہنا چاہتے تو صرف عنوان ہی سے وہ نظم لگتی، درحقیقت وہ بھی غزل ہی ہوتی تھی۔ وہ اکثر حضرات سے کہا کرتے تھے کہ میں اپنا مجموعۂ کلام ’دل میں ہے مدینہ‘ کے زیرعنوان شائع کراؤں گا لیکن ان کی یہ خواہش و تمنا جیتے جی پوری نہ ہوسکی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے وہ مجموعہ اسی عنوان سے، لیکن دیوناگری رسم الخط میں شائع کرایا، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وہ مجموعہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ زیور طبع سے آراستہ ہونے پر بھی نذر قارئین و شائقین ادب نہیں ہونا مجموعے کی کم نصیبی ہے، تاہم اس کے مشمولات کی عدم موجودگی میں اس پر رائے ظاہر کرنا محال ہے، راقم کے پاس ان کے صرف مندرجہ ذیل اشعار محفوظ ہیں جنھیں یہاں پیش کیا جارہا ہے    ؎

شبِ فراق ہے تنہائیوں کا عالم ہے

ترے بغیر نظامِ حیات برہم ہے

سائل نے جب اس قسم کے شعر کہے تب انھیں شہرت اور ہر دلعزیزی کا درجہ ملا تھا اور اس سے قبل ان کی شاعری توجہ کا مرکز نہیں بنی تھی۔

بیکانیر میں اس وقت چند ایسے حضرات بقیدِ حیات ہیں جو 1947 کے بعد مہاجرین کی حیثیت سے اس علاقے میں آباد ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھی اردو میں ہوئی تھی۔ ابتداً ان کی شعری و نثری تخلیقات بھی اردو رسم الخط میں شائع ہوئی تھیں، لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے اردو سے ترکِ تعلق کرکے ہندی کا دامن تھام لیا اور اپنی اردو تخلیقات میں پھیر بدل کرکے ہندی کا جامہ پہنا دیا۔ ایسے معمر حضرات آج ملک گیر سطح پر ہندی ادب کے معتبر اہل قلم تسلیم کیے جاتے ہیں۔

حواشی

1؎         نخلستان (سہ ماہی) ص 19، بابت جولائی تا ستمبر 1988 ، راجستھان اردو اکادمی، جے پور

2؎         تواریخ راج سری بیکانیر، مرتبہ: منشی سوہن لال ص 2، مطبوعہ جیل پریس راج سری بیکانیر 1890

3؎         جائزۂ زبانِ اردو، حصہ اوّل ریاست ہائے راجپوتانہ، مرتبہ: انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی 1940، ص 225

4؎         ایضاً، ص 229

5؎         راجستھان میں اردو زبان و ادب کے لیے غیرمسلم حضرات کی خدمات، ص 302, 303, 306, 329

6؎         تواریخ راج سری بیکانیر، ص 3,4

7؎         تاریخ راج سری بیکانیر، ص 3

8؎         تاریخ راج سری بیکانیر، ص 338

9؎         تذکرہ ’آثار الشعرائے ہنود‘ مرتبہ: دیبی پرشاد بشاش، ص 131، مطبوعہ رضوی پریس 1885

10؎       تواریخ راج سری بیکانیر، ص 336,337

11؎       النبی الموعود، ص 310

12؎       عرسِ مہتاب، ص 9

13؎       یوروپین اینڈ انڈویوروپین پوئیٹس آف اردو اینڈ پرشین، ص 225

14؎       ایضاً، ص 235 (ضمیمہ)

15؎       یوروپین اینڈ انڈویوروپین پوئیٹس آف اردو اینڈ پشین، ص 226 (ضمیمہ)

16؎       تاریخِ راجیہ بیکانیر، ص 290

17؎       تذکرہ شعرائے راجپوتانہ- 1950 تک (جلد اوّل) مرتب: شاہد احمد جمالی، ص 238، ناشر راجپوتانہ اردو ریسرچ اکادمی، جے پور، سنہ اشاعت 2018

18؎       یوروپین اینڈ انڈو یوروپین پوئٹس آف اردو اینڈ پرشین، ص 226

19؎       تذکرہ شعرائے راجپوتانہ (جلد دوم) ص 117 مرتبہ: ڈاکٹر شاہد احمد جمالی، ناشر : راجپوتانہ اردو ریسرچ اکادمی، جے پور 2019 (بارِ اوّل)

20؎       دامانِ باغباں، مرتبین: پریم سنگھ کمار پریم، کامیشور دیال حزیں اور محمد عثمان عارف نقش بندی، ص 7,8، ناشر نیشنل اکادمی، دہلی، اگست 1968

21؎       دامانِ باغباں، ص 8

22؎       دامانِ باغباں، ص 27,28

23؎       سہ ماہی ’نخلستان‘ ص 73,74، بابت اکتوبر تا دسمبر 1981،جلد 2، شمارہ 3، راجستھان اردو اکادمی، جے پور

24؎       راجستھان میں اردو زبان وادب کے لیے غیرمسلم حضرات کی خدمات‘، ص 306، مرتبہ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی، ناشر اے پی آر آئی ٹونک 1985

25؎       سہ ماہی ’نخلستان‘ ص 85، بابت اکتوبر تا دسمبر 1981

26؎       یہ قطعہ راہی نے دراصل فراق گورکھپوری کے اس شعر سے مصرعہ لے کر کہا ہے    ؎

            بندگی سے کبھی نہیں ملتی        اس طرح زندگی نہیں ملتی      (راقم)

27؎       نخلستان‘ (سہ ماہی) ص 75، بابت اکتوبر تا دسمبر 1981


Dr. Moinuddin Shaheen

395-A, Azad Nagar Kotra

Pushkar Road

Ajmer - 305001 (Rajasthan)

Mob.: 9351357872

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں