تلخیص
الیاس احمد گدّی(1923-1997) اردو فکشن کا ایک بڑا نام
ہے۔متحدہ بہار(جھارکھنڈ )میں غیاث احمد گدی کے بعد کسی نے ملک گیر شہرت حاصل کی تو
وہ نام الیاس احمد گدّی کا ہے۔ 14 سال کی عمرمیں ادبی زندگی کی شروعات کی۔ پہلا
افسانہ ’سرخ نوٹ ‘ماہنامہ ’افکار‘، بھوپال 1948 میں شائع ہوا۔ان کے دو افسانوی
مجموعے’آدمی (1980)، ’تھکا ہوا دن‘ (1989)تین ناول’ زخم‘ (1953) ’مرہم‘ (1954)
اور فائر ایریا (1994) منظر عام پر
آ ئے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کا سفر نامہ ’لکشمن ریکھا کے پار‘ اور’مگدھ پوری کا داستان گو‘ نام سے
سوانحی خاکہ بھی لکھا۔ ایک ادھورا ناول ’بغیرآسمان کی زمین‘ہے۔اس ناول کا موضوع
چھوٹا ناگپور کی قبائلی زندگی، اس سے جڑے مسائل اور متوسط مسلم معاشرے کی زبوں
حالی ہے۔ اس کی پانچ اقساط ’ذہن جدید‘دہلی میں شائع ہوئیں۔اس مضمون میں ان کے چار
افسانے ’سناؤں تمھیں بات ایک رات کی‘،’شناخت‘ گھر بہت دور ہے ‘ اور آخری حربہ
‘کو موضوع بحث بنایا گیاہے۔ یہ چاروںافسانے ان کے کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں
ہیں۔ یہ افسانے اپنی زبان اور کرافٹ کی وجہ سے بے حد اہم ہیں۔ ان کے یہاں موضوعات
میں انفرادیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ہر افسانے کے لیے ایک الگ موضوع اختیار کرتے
ہیں۔آدی باسیوں کی زندگی کا مشاہدہ انھوں نے بہت قریب سے کیا ہے۔ اس لیے ان کے
افسانوں میں آدی باسیت جا بجا نظر آتی ہے۔ان کے دو چار افسانوں کے مطالعے کے بعد
افسانے کا پارکھ اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ الیاس احمد گدّی اپنے دور کے صاحب
اسلوب اورمنفرد افسانہ نگار ہیں۔ ان کے بے شمار افسانے ہندو پاک کے اہم رسائل میں
بکھرے پڑے ہیں۔ ازسر نو ان کے افسانوں پرگفتگو کی ضرورت ہے تاکہ انصاف ہو سکے۔
جتنا کام ان پرہونا چاہیے تھا وہ مجھے لگتا ہے کہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے باوجوداردو
فکشن کے حوالے سے جو بھی تاریخ لکھی جائے گی وہ الیاس احمد گدّی کے نام کے بغیر
ادھوری سمجھی جائے گی۔
کلیدی الفاظ
متحدہ بہار،سرخ نوٹ، ماہنامہ
افکار،افسانوی مجموعے، آدمی، تھکا ہوا دن، ناول،زخم،مرہم، فائر ایریا،تجزیہ،
’سناؤں تمہیں بات ایک راتک کی‘،’شناخت‘ گھر بہت دور ہے ‘ آخری حربہ ‘ چھوٹا
ناگپور، قبائلی زندگی،موضوعات، انفرادیت، آدی باسیت،صاحب اسلوب، منفردافسانہ نگار
————
الیاس احمد گدی ( پیدائش: 14
اپریل 1934، موت:27 جولائی 1997) غیاث احمد گدّی کے چھوٹے بھائی ہیں۔دونوں نے اپنے
افسانوں اور ناولوں سے متحدہ بہار (جھارکھنڈ )کا نام ہی روشن نہیں کیا بلکہ ملک
گیر شہرت بھی حاصل کی۔ انیس سال کی عمر میں غیاث کا پہلا افسانہ ـ’دیوتا‘
ماہنامہ ’ہمایوں ‘ لاہور، ستمبر 1947 میں شائع ہوا، وہیں الیاس نے صرف 14 سال میں اپنی
ادبی زندگی کی شروعات کی۔ پہلا افسانہ ’سرخ نوٹ ‘ماہنامہ ’افکار‘، بھوپال 1948 میں
شائع ہوا۔اس طرح دونوں بھائیوں کے درمیان کا ادبی فاصلہ محض ایک سال کا رہ
گیا۔غیاث احمد گدی کے تین افسانوی مجموعیـ’بابا
لوگ‘ (1969) ’ پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘(1977)’سارا دن دھوپ‘ (1985) کے علاوہ ایک ناولٹ
’پڑاؤ‘ شائع ہوا، وہیں الیاس احمد گدّی کے دو افسانوی مجموعے’آدمی ‘(ناشر۔شب خون
کتاب گھر، الہ آباد۔ 1980) ’تھکا ہوا دن‘ (مکتبہ غوثیہ، گیا1989)تین ناول’
زخم‘(1953) ’مرہم‘ (1954،ناشر : مشورہ بُک ڈپو،
دہلی) اور فائر ایریا (1994، معیار پبلی کیشنز، دہلی) منظر عام پر آ ئے۔
اس کے علاوہ بنگلہ دیش کا سفر نامہ ’لکشمن ریکھا کے پار‘ اور’ مگدھ پوری کا داستان
گو‘ نام سے سوانحی خاکہ بھی لکھا۔ ایک ادھورا ناول ’بغیرآسمان کی زمین‘ہے۔اس ناول
کا موضوع چھوٹا ناگپور کی قبائلی زندگی، اس سے جڑے مسائل اور متوسط مسلم معاشرے کی
زبوں حالی ہے۔
دونوں
بھائیوں کے متعلق جو مذکورہ تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ
دونوں کے فن پر کوئی تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے گا، بلکہ دونوں کے ادبی کارناموں
کو سامنے رکھ کر یہ بتانا مقصود ہے کہ الیاس احمد گدّی کو کم عمری میں اپنے ہی گھر
میں غیاث احمد گدّی کی صورت میں ایک ایسا مینٹر ملا جنہوں نے ان کے فن کو جلا بخشی۔
یہی وجہ ہے کہ الیاس کے ابتدائی افسانوں میں غیاث احمد گدّی کی چھاپ نظر آتی
ہے۔لیکن عمر کے ساتھ ساتھ فن میں جیسے جیسے پختگی آتی گئی الیاس اس سے باہر نکلتے
چلے گئے۔جس کی واضح مثال ناول ’فائر ایریا ‘اور ’ٹام جیفرسن کے پنجڑے‘‘قبیل کے
افسانوں میں آپ صاف دیکھ سکتے ہیں۔
الیاس احمد گدی کے افسانوی
مجموعوں اور ان میں شامل افسانوں کے متعلق بہت گفتگو ہو چکی ہے۔ یہاں میں نے کوشش
کی ہے کہ ان افسانوں پرقلم اُٹھاؤں جو قاری کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ الیاس احمد
گدّی کے افسانوں کی جب بھی بات ہوتی ہے تو لوگ آسانی کے لیے ان کے افسانوی مجموعے
’آدمی ‘ اور ’تھکا ہوا دن‘ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں میں ان کے چار پانچ ایسے
افسانوں کا ذکر بطور خاص کرنا چاہوں گاجو ان کے مجموعے میں نہیں ہیں اور ان پر بات
بھی کم ہوئی ہے۔ شناخت‘،’ سناؤں تمھیں بات ایک رات کی‘،’گھر بہت دور ہے ‘ اور’
آخری حربہ‘۔ ان افسانوں پر گفتگو کے دوران آپ محسوس کریں گے کہ تجزیاتی مطالعے
کے ساتھ تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کی تھوڑی بہت کوشش کی گئی ہے۔
افسانہ’ سناؤں تمھیں بات ایک
رات کی‘ماہنامہ’ ایوان اُردو‘ اگست 1995 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔اس افسانہ میں
یوں تو الیاس احمد گدّی نے نہ تو کوئی بڑی بات کہنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی
بڑے افسانے کی بنیاد ہی رکھی ہے۔لیکن اس کے باوجود انھوں نے جس طرح سے ایک رات کا
قصّہ بیان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔کہانی کا مرکزی کردار ایک عورت ہے۔ وہ اپنا سب
کچھ گنوا کرکس طرح کہانی سنانے والے( راوی) کے پاس آجاتی ہے اوروہ راوی جو کبھی
اس کے حسن پر مر مٹا تھا وہ اپنی حسین وجمیل محبوبہ کوہڈی کے پنجرمیں تبدیل ہوتے
ہوئے دیکھتاہے، تو اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیںاور پھر دونوں کے درمیان ماضی
اپنی زندگی کا آئینہ لے کر کس طرح سامنے آ تاہے۔وہ بے حد اہم ہے۔جسے بڑی ہی
دلچسپ پیرائے میں یہاںبیان کیا گیا ہے۔
افسانے کی شروعات یوں ہوتی ہے:
’’وہ رات دوسری راتوں سے مختلف تھی کہ اس رات اندھیرا بہت
تھا اتنا کہ ہاتھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ آسمان پر ستارے بے شمار تھے مگر جیسے کسی
خوف سے دھیرے دھیرے کانپ رہے ہوں۔ آج تارے ٹوٹ کر گر بھی بہت رہے تھے۔جب وہ ٹوٹتی
روشنی کی لمبی لکیر تیر کی طر ح اندھیرے کے کلیجے کی سمت لپکتی۔ مگر نیچے پہنچنے
سے پہلے ہی اندھیرے کے سیاہ ہاتھ اس کو بکھیر دیتے۔ پھر کُتّوں کا جھنڈ تھا جو
مسلسل بھونکے جا رہا تھا۔ پہلے تو کتّے اتنا نہیں بھونکتے تھے۔ایسا لگتا تھا
ڈاکوؤں کا کوئی جتّھابستی میں گھُس آیا ہو، یا جیسے بدروحیں بھٹک کر آ گئی ہوں
اور انھیں دیکھ کر کُتّے پاگل ہو اُٹھے ہوں۔ ‘‘1؎
اس افسانے کی شروعات دراصل ایک
طرح سے ڈرامائی انداز میں ہوتی ہے۔رات کا وقت ہے اور ہیر و کی شکل میں موجود
کردار’ وہ ‘جو اس کہانی کا راوی بھی ہے،کھلے آنگن میں چارپائی پر لیٹا ہوا ہے اور
بہت دیر سے سونے کی کوشش کر رہا ہوتاہے۔ اس کوشش میں بار بار اس کی نگاہیں آسمان
کی طرف اُٹھ رہی ہوتی ہیں جہاں وہ ستاروں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔ٹوٹتے ہوئے
ستاروں کو دیکھتے وقت اگر کوئی دعا مانگے تو کہتے ہیں کہ قبول ہوتی ہے۔ یہاں کہانی
کے ہیرو کو کسی طرح کی کوئی دعا مانگتے ہوئے نہیں دکھایا گیا ہے۔ لیکن اس کے بعد
فوراً اس کی محبوبہ کا ہیرو کے پاس آ جانا بہت کچھ کہتا ہے۔یہاں الیاس احمد گدّی
نے کچھ باتیں بین السطور کے حوالے کر دی ہیں۔ یعنی جسے وہ زندگی بھر چاہتا رہا اور
شادی نہیں کی۔جس کی یاد میں رات رات بھر کروٹیں بدلتا رہاتھا اوراس وقت بھی ہمیشہ
کی طرح وہ ستاروں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا،اس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک
اندھیرے میں وہ بھاگتی ہوئی آتی ہے اور اس کی چارپائی کے نیچے گھس جاتی ہے۔
اورپھر اس سے کہتی ہے۔ وہ لوگ میرا پیچھا کررہے ہیں۔یعنی تم مجھے ان لوگوں سے بچا
لو اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لو۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ وہ
پیچھا کرنے والے لوگ کون ہیں۔ اس کا شوہر، سسرال والے اور چند غنڈے۔ اگرراوی اپنی
محبوبہ برج بانو کوبچانے کی کوشش کرے تو اس کوشش میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔
محبوبہ کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔اس کے
سسرال والوں کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت اس میں اس وقت بھی نہیں تھی، جب محبوبہ اس
کی آنکھوں کے سامنے سرخ جوڑے میں وداع ہورہی تھی۔ و ہ بس بے بسی سے دیکھتا رہ گیا
تھا۔ لیکن آج جب ان ظالموں کے چنگل سے نکل کر ان کی چارپائی کے نیچے آ گئی تھی
تو کیا وہ اپنی محبوبہ کو بچانے کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالتا۔یہ الگ بات ہے
کہ ان لوگوں نے انھیں جگا کر پوچھانہیں۔ ورنہ ہیرو کی اصلیت کھل بھی سکتی تھی لیکن
کہانی میں ایک وقت ایسا آیا جہاں پیچھا کرنے والے جگاکر اس سے برج بانوکے بارے
میں پوچھنا چاہتے ہیں۔ لیکن پوچھنے والے اس سے پہلے پوچھتے کہ گفتگو اس مقام پر آ
کر ٹھہر جاتی ہے کہ اسے جگانے اور پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ہم میں سے ہر کسی
کو جانتا ہے۔ یہاں تک کہ برج بانو کو بھی۔ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ کسی مصیبت میں پڑ
جائیں اور جب یہ سویا ہوا ہے تو اس سے پوچھنے کا فائدہ کیا ہے۔ اگر پوچھنے کے چکر
میں رہیں تو ہو سکتاہے برج بانواس کی دسترس سے دور نکل جائے۔ اس لیے وہ لوگ وہاں
سے جلد نکل جانا چاہتے ہیں، نہیں پوچھتے ہیں۔
یہاں الیاس احمد گدی نے سسرالی
غنڈوں سے جو مکالمے کہلوائے ہیں وہ نہیں بھی کہلوائے جاتے تو بھی کہانی میں کوئی فرق
نہیں پڑتا۔لیکن جب پیچھاکرنے والے آگے بڑھ جاتے ہیں تب واحد متکلم ’میں‘ کی صورت
میں موجود ہیرو چارپائی سے اُٹھتا ہے اور برآمدے میں رکھی لالٹین اٹھا کر لاتا ہے
اور پھر چارپائی کے نیچے چھپی عورت کو دیکھتا ہے توچونک جاتا ہے۔ منہ سے بس اتنا
نکلتا ہے۔’’ارے تم ۔۔۔۔؟‘‘ اور یہی وہ الفاظ ہیں جو سب کچھ بیان کر دیتے ہیں۔لیکن
سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ اس وقت جب اس کے پاس بھاگتی ہوئی آئی تھی اور اس نے آ تے
ہی کہا تھا۔’’ وہ لوگ میرے پیچھے ہیں۔ ‘‘تووہ اس کی آواز کو کیوں نہیں پہچان
پایا۔وہ بھی اس محبوبہ کی آواز جو ہر وقت اس کی سماعت میں رس گھولتی رہی ہو گی۔
ممکن ہے کہ شر پسند لوگوں کی بھاگ دوڑ اور کتوّں کے بھونکنے کی وجہ سے وہ سمجھ
نہیں پایا ہوکہ یہ آواز برج بانو کی ہو سکتی ہے۔کہانی آگے بڑھتی ہے اور کہانی
کار اس ہانپتی کانتی برج بانو کو چارپائی کے اوپر بٹھاکر لالٹین کی مدھم روشنی
میں بڑی ہی باریکی سے اس کے خدوخال کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے:
’’کھری چارپائی پر بیٹھی وہ ابھی تک ہانپ رہی تھی۔ اس کا
چہرہ ایک دم پیلا پڑ گیا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ سوکھے ہونٹوں پر
پپڑیاں جمی تھیں۔دونوں دبلے اور بے جان بازو مرے ہوئے سفید چوہوں کی طرح جھول رہے
تھے۔ وہ کیا سے کیا ہو گئی تھی۔ سرخ و سفید۔ چہرے کی ساری تازگی، شرارت بھری شوخ
آنکھوں کی چمک، گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح تروتازہ ہونٹ کہ لگے کہ چُٹکی سے پکڑ لو
تو رس ٹپک پڑے اور وہ گداز سڈول صندلیں بازو۔۔۔۔۔۔‘‘2؎
مذکورہ اقتباس پر نظر ڈالنے کے
بعد کوئی بھی یہ نتیجہ اخذکر سکتا ہے کہ ہیرو برج بانو کی خوبصورتی پر مر مٹا تھا
اور کسی کی نظر نہ لگے اس کی دعائیں بھی مانگا کرتا تھا۔ لیکن اب جب وہ شادی کے
بعد اپنے شر پسند شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گھر سے بھاگ کر اس کے پاس آئی ہے تو وہ اسے دیکھ کر حیران ہے جو کبھی خوبصورتی کا مجسمہ ہو ا کرتی تھی اب اسے
وہاں صرف کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دے رہا تھا۔ زندگی کی ساری رعنائیاں ماتم کدے کا
حصّہ بن گئی تھیں۔ایسے میں وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسا
کیسے ہو گیا۔ کیا کوئی اس طرح سے بھی اپنے حسن کو گنوا سکتا ہے۔ یہاں ہیرو کی اس
سوچ کو برج بانو سمجھ جاتی ہے۔اس لیے ردّ ِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے برج بانو اس سے
کہتی دکھائی دیتی ہے:
’’میں نے گنوایا کچھ بھی نہیں ہے۔ انھوں نے سب چھین لیا
ہے۔ میری رعنائی، میری آرائش، میرے زیورات۔۔۔۔۔۔۔ تب اُسے یاد آیا کہ ایک وقت وہ
گہنوں سے لدی پھندی رہتی تھی۔پیروں کی جانجھ بجتی تو گہری نیندمیں ڈوبی آنکھیں وا
ہو جاتیں۔ بازو بند کے پھندنے لہراتے تو خنجر کلیجے میں دور تک اُتر جاتا۔ کانوں
کے آویزوں پر رشک آتا جو گردن کی ہر حرکت پر رخساروں کو چوم لیتے۔ گلے میں پڑی
اصلی موتیوں کی مالاسیمیں گردن سے اُتر کر چھاتیوں کے درّے میں اُتری رہتی کہ
نظریں ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ وہی لڑکی کسی بیوہ کی طرح اُجاڑ اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
نہیں۔ اب شاید اس کو لڑکی کہنا بھی درست نہ تھا۔ کیونکہ اب وہ ایک جہاں دیدہ بلکہ
جہاں گزیدہ عورت تھی ۔۔۔۔۔۔تھکی ہاری ٹوٹی ہوئی عورت۔ اُجاڑ چہرے پر کچھ نہیں تھا
ایک خوف کے سوا۔ آنکھوں میں کچھ نہیں تھا ایک حزن کے علاوہ ۔۔۔۔۔‘‘ 3؎
کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے
قاری کے اندر تجسس پیدا ہو تا چلا جاتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس خوبصورت برج
بانو کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوئی۔
یہاںکہانی کار کی طرف سے فنکارانہ اظہار بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور وہ تجسّس کو
برقرار رکھتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ
عورت جب اپنے حسن کی تعریف سنتی ہے تومدہوشی کی ایک کیفیت اس پر طاری ہو جاتی ہے۔
یہاں جب اس کا شوہر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے تو اس قدر مدہوش ہو جاتی
ہے کہ اس کا لالچی شوہر اس کے جسم سے حسن کے ایک زیور کو اُتارلیتا ہے اور اسے بیچ
کر اپنے لیے عیّاشی کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اور زیورات اُتارنے کا یہ عمل مسلسل
چلتا رہتا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب سارے زیورات اُتار لیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد اسے نمائش گاہ میں سجا سنوار کر ہوس پرستوں کے سامنے پیش کیا جانے لگتا
ہے۔ برج بانواس بات کو محسو س کرنے لگتی ہے کہ اس کا شوہر اس کے حسن کو کیش کراکر
اونچے عہدے تک پہنچنا چاہتا ہے۔منزل کی حصولیابی کے لیے اسے سیڑھی کے طور پر
استعمال کرنا چاہتاہے۔ لپ اسٹیک پاؤڈر اور کریم وغیرہ لگا کر اس کے حسن
کوروزبروزنکھارا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ چونکہ اس کی قید میں تھی۔ وہ وہی سب کرنے پر
مجبور تھی جو اس کا شوہر اس سے کروانا چاہتا تھا۔ اسے یہ سب کچھ پسند نہ تھا کہ
کوئی اس کے حسن کی قیمت لگائے۔ لیکن جب ایک ایک کر کے سارے زیورات اُتر گئے اور
شرم وحیا کے آبگینے بکھرنے لگے تب اُس نے دیکھاکہ اس کے پاس توکچھ بھی نہیں
رہا۔وہ اب ایک طوائف ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر لمحہ اس کی قیمت لگائی جارہی ہے۔ ایسے
میں کئی بار اس نے سوچا کہ ایسی زندگی سے بہتر ہے کہ خود کشی کر لوں، لیکن یہ
خواہش بھی اس کی آسانی سے پوری نہیں ہوسکتی تھی کہ اس کی زندگی پر اس کا تھوڑا
بھی اختیار نہیں تھا۔ وہ تو قید خانے میں محصور کر دی گئی تھی۔لیکن وہ آزادی کی
خواہاں تھی۔کیا وہ آزاد ہو پائے گی۔یہ سوچنا بھی اس کے لیے گناہ تھا۔لیکن جب تک
وہ یہ گناہ نہیں کر لیتی اندر کی بے چینی اُسے سکون سے جینے نہیں دے رہی تھی۔اس
لیے اسے ایک دن گھر سے بھاگنا ہی تھا۔
یہ ساری باتیں الیاس احمد گدی
برج بانو کی زبانی سنواتا ہے۔ہیرو کے اندر بھی اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ بات
ہی بات میں بہت کچھ جاننا چاہتا ہے کہ جب سب کچھ لٹ گیا تو پھر وہ تمھیں قید میں
کیوں رکھنا چاہتا تھا۔اس کے جواب میں برج بانو اسے حقیقت سے جہاں آگاہ کرتی ہے
وہیں اس بات کو شدّت سے محسوس کر رہی تھی کہ سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی اس کا عاشق
اسے اسی نظر سے دیکھ رہا ہے جیسے پہلے دیکھا کرتا تھا۔اس لیے وہ ہیرو سے کہتی
ہے۔’’سُنو! حسن محبوب کے پیکر میں نہیں، عاشق کی آنکھ میں ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ
ہوتا تو آج یہ اُجاڑ صورت تمہیں حسین نظر نہیں آتی۔‘‘ یہاں ہیرو بھی ایک طرح سے
اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ جس طرح سے وہ اس کی طرف دیکھ
رہا تھا اس کی وجہ سے اس کی چوری پکڑی جاتی ہے۔اورخود کشی والی بات پر جب ہیرو اس
کے سوکھے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا مت کہوورنہ تمھارے بے
شمارچاہنے والوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے کیاجواز رہ جائے گا۔ایسے وقت میں برج
بانو نے کوئی جواب نہیں دیا اور الیاس احمد گدی نے بھی مسکراتے ہوئے کھری چارپائی
پر لٹاتے ہوئے نیند کے حوالے کرنا چاہا۔ لیکن ہیرو کی محبت بیدار تھی۔ اسے لگ رہا
تھا کہ پتہ نہیں اس کھری چارپائی میں اس کی محبوبہ کو نیند آئے گی یا نہیں۔ لیکن
یہاں جس طرح سے ہیرو نے مذاقاًکہا کہ آبنوس کے پلنگ میں خوشبوؤں بھرے ریشمی بستر
پر سونے والی کو اس کھری چارپائی پر نیند آئے گی بھی یا نہیں۔اسے برج بانو نے طنز
سمجھا اور پھر جو جواب دیا وہ کہانی کو ایک اور ہی طرف لے جاتا دکھائی دیتا ہے۔
برج بانو کا جواب سنیے:
’’طعنے مت دو۔۔۔۔۔۔کیا میں اپنی مرضی سے گئی تھی ان کے پا
س؟ تمھیں ایسے چاہنے والے تھے تو روکا کیوں نہیں تھا ؟ سب کچھ تو تمھارے سامنے ہوا
تھا۔ تمھاری موجودگی میں ۔۔۔۔۔۔یہاں اس کھری چارپائی پر کھلے آسمان کے نیچے جو
پیار ہے، جو تحفظ ہے، وہ کہاں نصیب ہو گا۔ پھر تمہاری قربت، تمہاری بے پناہ اور بے
لوث محبّت۔‘‘4؎
اور اس طرح کہانی اپنے کلائمکس
کی طرف بڑھ جاتی ہے:
’’میں نے دیکھااس کی آنکھوں میں نیند اُتر آئی تھی۔ میں
نے بڑے پیار سے، بڑی لگاوٹ سے، بڑے جذبے سے اس کو دیکھا اور اس کی نیم وا آنکھوں
کو انگلیوں سے بند کر دیا۔‘‘
’’اچھا اب سو جاؤ، برج بانو۔ تمھاری آنکھیں نیند سے
بوجھل ہو گئی ہیں۔ ‘‘5؎
کہانی ایک خوبصورت انجام کے
ساتھ ختم تو ہو جاتی ہے لیکن ساتھ میںکئی سوال چھوڑ جاتی ہے۔ برج بانو سسرال سے
کیوں بھاگی یہ تو قاری کو سمجھ میں آ تا ہے، لیکن وہ اس کمزور عاشق کے پاس لوٹ کر
کیوں آئی جواسے پہلے بھی بچا نہیں پایا تھا۔ان طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر پایا
تھاتو رات ختم ہونے کے بعد جب صبح ہو گی اور گاؤں میں یہ خبر پھیل جائے گی اور
کہانی کی کہانی ہر زبان پر ہو گی تو پھر ان شرپسند وں سے راوی خود کو اور برج بانو
کو کیسے بچا پائے گا۔
٭
الیاس احمد گدی کا افسانہ’
شناخت ‘عہد ساز فلمی رسالہ’ شمع‘ کہانی نمبر 1986 میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانے کا
موضوع بہت حد تک ان کے ایوارڈ یافتہ ناول فائر ایریا کے ایک خاص حصے سے تعلق رکھتا
ہے۔اس کہانی میں کولیری اور کولیری میں ٹھیکے کو لے کر اکثر ٹھیکیداروں کے بیچ خون
خرابہ ہوا کرتا ہے۔ ناول میں سہدیو ہے تو اس کہانی میں سنت لال۔یوں تو پوری کہانی
سنت لال کے ارد گرد گھومتی ہے لیکن کہانی کا مرکزی کردار ایک اسکول ٹیچر سنالنی ہے
جس کے شوہر کو کولیری کے غنڈے موت کی گھاٹ اُتار چکے ہیں۔ شوہر کے غم میں ڈوبی
سنالنی کا اسکول کے علاوہ کہیں آنا جانا نہیں ہے۔ رشتے دار بھی نہیں ہیں۔ چھوٹے
سے دو کمروں کے مکان میں نوکرانی جمنی کے
ساتھ رہتی ہے جو اس کی غیر موجودگی میں گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
کہانی کی شروعات میں دکھایا
گیا ہے کہ پولس انسپکٹر سنالنی کے گھر ایک مرڈر کیس کی تفتیش کے لیے آتا
ہے۔انسپکٹر کو دیکھ کر سنالنی خوف زدہ ہو جاتی ہے۔گھر میں داخل ہوتے ہی انسپکٹر کو
اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ پرائمری اسکول میں پڑھانے والی یہ اسکول ٹیچر اکیلی
رہتی ہے۔ بات ہی بات میں وہ اپنے شوہر کے متعلق بتاتی ہے کہ گیارہ سال قبل کچھ
نامعلوم لوگوں نے گھر میں گھس کرخون کر دیا تھا۔ سنالنی اس بات کی بھی ناراضگی
جتاتی ہے کہ اس کولڈ فیلڈمیں جب بھی کسی کا قتل ہوتا ہے تو الزام کسی نامعلوم
لوگوں کے سر مڑھ دیا جاتا ہے اور پولس ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جاتی ہے۔ پولس انسپکٹر
سنالنی کی بات پر مسکراتے ہوئے اس کی ناراضگی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ پولس
اپناکام ایمانداری سے کرتی ہے، لیکن جو چشم دید ہوتے ہیں وہ ڈر کے مارے یا کسی
مصلحت سے پولس کا ساتھ نہیں دیتے اور مجرم آسانی سے چھوٹ جاتا ہے۔یہاں پولس
انسپکٹرسنالنی کو یہ کہتے ہوئے سمجھاتاہے کہ جس طرح آپ کے پتی کو بہت سے لوگوں نے
دیکھا تھا لیکن کسی نے گواہی دینے کی ہمّت نہیں جٹائی، اسی طرح ایک کیس کے سلسلے
میں میں آپ کے پا س آیا ہوں، آپ ہمت دکھائیں اور سچ کا ساتھ دیں۔دونوں کے
درمیان کی گفتگو کو الیاس احمد گدّی نے افسانے میں بڑی ہی ہنر مندی سے برتا ہے۔
’’کل مدھوبنی کولیری میں ایک انتہائی خوں خوارآدمی کو کچھ
نامعلوم لوگوں نے گولی مار دی ہے۔‘‘
وہ سر سے پاؤں تک لرز کر رہ
گئی۔
’’مقتول نوجوان کی شناخت ہو چکی ہے۔ وہ کسی خود ساختہ ٹریڈ
یونین لیڈر کے لیے کام کرتا تھا۔یعنی کسی لیڈر کا غنڈہ تھا۔‘‘
قصہ یوں ہے۔انسپکٹر رازداری سے
بولا۔’’ سنت لال کے کمرے سے جو کاغذات نکلے ہیں، ان میں آپ کا بھی نام ہے۔‘‘
’’میرا نام؟ وہ حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔میں کسی ایسے آدمی
کو نہیں جانتی۔‘‘6؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسپکٹر کچھ دیر خاموش رہ کر
بولا۔’’دیکھئے مسز گھوش، قانون کی مدد کرنا آپ کا فرض ہے۔ آپ اگر ہماری مدد کریں
گی تو قاتلوں کو پکڑنا آسان ہو جائے گا۔آپ ایک بار پھر سوچ کر دیکھئے، کیونکہ جس
کاغذ میں آپ کا نام پتہ لکھا ہوا ملا ہے، اسی میں سو روپئے کا ایک نوٹ بھی لپٹا
ہوا تھا۔‘‘7؎
اس افسانے کا تانا بانا الیاس
احمد گدی نے بڑی خوبصورتی سے بنا ہے اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں افسانے کو آگے
بڑھایا ہے۔جس کا قتل ہوا ہے اس کی تصویر جب سنالنی کو دکھائی جاتی ہے تو وہ اندر
سے کانپ جاتی ہے۔ وہ اس کو جاننے کے باوجود اپنے آپ پر قابو رکھتی ہے اور پہچاننے
سے انکار کر دیتی ہے۔ حالانکہ انسپکٹر اس پر دباؤ بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ
پہچانے اور سب کچھ اس کے متعلق بتا دے۔ یہاں انسپکٹر کو یہ امید تھی کہ وہ ضرور
بتائے گی کیونکہ مقتول کے گھر سے تلاشی کے بعد جو سامان ملا تھا اس میں ایک کاغذ
بھی تھا جس میں سنالنی کا نام لکھا ہوا تھا اوراس کے اندر سو روپئے کا نوٹ بھی
تھا۔
سو روپے کے نوٹ کا بھی الگ
قصّہ ہے کہ ایک دن جب سنالنی اسکول سے لوٹتی ہے تو اپنے گھر کے برآمدے میں ایک
لڑکے کو بے سُدھ سوئے ہوئے دیکھتی ہے۔ چھونے پر پتہ چلتا ہے کہ اسے بخارہے۔ وہ اس
لڑکے کو کمرے میں لے آتی ہے اور انسانیت کے ناطے ڈاکٹر کو بلا کر اس کا علاج
کرواتی ہے۔دوا انجکشن کے باوجود لڑکا رات بھرغنودگی کی حالت میں رہتا ہے اور جب
دوسرے دن آنکھ کھلتی ہے تواپنے آپ کو سنالنی کے گھر میں دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔
یہاں پر افسانہ نگار نے بچے کے ساتھ سنالنی کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک
دوسرے کے اندر ہمدردی کے ایک ایسے جذبے کو جنم دینے کی کوشش کی ہے جو فطری معلوم
پڑتا ہے۔ ایک طرف جہاں بچے کی ماں ابھی کچھ ماہ قبل اسے چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا
ملی ہے وہیں سنالنی کی آنکھوں کے سامنے اس کے دو دن کے بچّے کا وہ چہرہ جوقریب
گیارہ بارہ سال قبل ستاروں میں کہیں گم ہو گیا تھا،گھوم جاتا ہے۔ یہاں دردِ مشترک
کی تلاش کرتا ہوا افسانہ نگار دکھائی دیتا ہے۔ لڑکا بخار کی حالت میں ہے۔ ہونٹ
سوکھے ہوئے ہیں اور بخار کی حدت سے چہرے کا رنگ بدل کر سرخ ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا ہی کچھ نظارہ اس نے اس دن دیکھا تھا جب اس
کا دو دن کا بچہ بخار سے تپ رہا تھا اور پھر بخار کی تاب نہ لا کر وہ ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ماں کی ممتا اور ممتا کی اس تڑپ کو یہاں صاف دیکھا
جا سکتا ہے۔ یہی وہ فنکاری ہے افسانہ نگار کی کہ ایک ماں بر آمدے میں بخار سے تپ
رہے بچے کے اندر اپنے دو دن کے بچّے کو ڈھونڈ لیتی ہے۔ یہاں پر ماں کی ممتا اپنے
الگ ہی رنگ میں دکھائی دیتی ہے جب وہ سنالنی کو اپنی ماں کی جگہ پاتاہے تو وہ اندر
سے تڑپ اٹھتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگتا ہے۔ اس دوران افسانہ نگار نے ماں
کی ممتا کے ساتھ اس تڑپ کو بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جب کسی ماں کو یہ معلوم
ہوتا ہے کہ اس کی اولاد کو کسی نے بڑی بے دردی سے مارا ہے تب وہ ہر زخم دیکھنا
چاہتی ہے۔ پیار سے وہ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتی ہے۔ لڑکا درد سے بلبلا اٹھتا ہے
اورجب اس کی قمیص سرکا کردیکھی جاتی ہے تواس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں
کیونکہ ساری پیٹھ لاٹھی کی مار سے پھٹی ہوئی تھی۔سنالنی کی آنکھوں میں اس وقت ماں
کا درد آنسو بن کر بہنے لگا تھا۔
سنالنی کے کردار کو یہاں الیاس
احمد گدّی نے ماں کے روپ میں ڈھال کر اس کہانی کو ایک ایسے موڑپر لا کھڑا کیا ہے
جہاںسنالنی کے بہت پوچھنے کے باوجود انجان لڑکے کا کچھ نہ بتانا کہ وہ کون ہے، اسے
کس نے مارا ہے،پھر بھی وہ اپنے گھر پر رکھ کر اس کا علاج کرواتی ہے۔ ایک ہفتے کے
بعد جب طبیعت ٹھیک ہو جاتی ہے تو بھی وہ اسے اپنے گھر سے جانے کے لیے نہیں کہتی
ہے۔وہ ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہتی ہے جس میں دو ہی کمرے ہیں۔ ایک میں وہ خود
رہتی ہے اور دوسرا اس نے اپنی نوکرانی جمنی کو دے رکھا ہے۔ لیکن جب سے وہ لڑکا
آیا ہے وہ جمنی کے کمرے میں رہتا ہے اور جمنی سنالنی کے کمرے میں۔ٹھیک اس طرح
جیسے وہ برسوں سے اس گھر میں رہتا آیا ہو۔
یہاں افسانہ نگار چاہتا تو
سنالنی کے اسکول جانے کے بعد نوکرانی جمنی اور اس لڑکے کے درمیان تھوڑی بہت
نزدیکیاں قاری کے سامنے پروس سکتا تھا۔ لیکن انھوں نے موقع رہتے ہوئے بھی ایسا
نہیں کیا۔جب کہ وہ جمنی کے کام میں ہاتھ بٹا یا کرتا تھا۔ سنالنی چاہتی ہے کہ وہ تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا جان جائے۔ لڑکا اس طرف
مائل نہیں ہوتا۔
ایک
دن جمنی اس کے پاس پستول دیکھ لیتی ہے۔وہ اس کی شکایت سنالنی سے کرتی ہے۔سنالنی یہ
جاننا چاہتی ہے کہ وہ کون ہے۔ اوراس کے پاس یہ پستول کہاں سے آیا ہے۔وہ سنالنی کے
سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتا ہے۔ سنالنی ایسے میں اس لڑکے کو اپنے گھر پر نہیں
رکھ سکتی تھی۔وہ پولس کو خبر کرنے کی بھی بات کرتی ہے۔تب مجبور ہو کر وہ اسے بتاتا
ہے کہ باپ کی موت کے بعد اس کی ماں کولیری میں کام کرنے لگی۔ اس کی ایک جوان بہن
تھی۔ دو غنڈے اسے اور اس کی ماں کو جب چاہتے تھے گھر سے باہر نکال دیتے اور اس کی
بہن کے ساتھ من مانی کرتے تھے۔ پھر اس کی ماں بھی اس دنیا سے چلی گئی۔ اس کے بعد
تو آئے دن اس کی موجودگی میں کولیری کے وہ غنڈے پستول کی نوک پر اسے کھینچ کرگھر
سے باہر نکال دیتے۔ ایک دن بڑی صفائی سے اس نے وہ پستول چھپا دی۔ بہن اور بھائی کو
غنڈوں نے بہت مارا تھا۔ بہن کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ پستول اس کے بھائی نے
چھپایا ہے۔ لاکھ مار کھانے کے بعد بھی رگھو نے اقرار نہیں کیا۔ وہ جانتاتھا کہ اگر
معلوم ہو گیا تو خونخوار غنڈے اس کی جان لے لیں گے۔ غنڈے پستول کھوج کے رکھنے کی
دھمکی دے کر چلے جاتے ہیں۔ یہی وہ پستول تھا جسے رگھو لے کربھاگا تھا۔بھاگتے
بھاگتے وہ تھکن سے چور ہو گیا تھا،اوپر سے اسے بہت مار پڑی تھی جس کے باعث اسے تیز
بخار آگیا اور اسی حالت میں وہ سنالنی کے گھر کے برآمدے تک پہنچ کرایسا گرا کہ
ہوش ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
سنالنی کوجب معلوم ہو اہے کہ
اس کے پاس پستول ہے تو وہ غصے میں دکھائی دیتی ہے۔دوسری طرف رگھو بھی نہیں چاہتا
کہ اس کی وجہ سے اس عورت کو کسی طرح کی پریشانی ہو جس نے اسے پیار دیا، سہارا دیا۔
وہ خود ہی چلا جانا چاہتا تھا۔ لیکن کہاں اور کس کے پاس؟ اس کے پاس تو کہیں جانے
کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ اس لیے وہ سنالنی کی تنخواہ ملنے کے دن تک انتظار کرتا
ہے۔ کہاں رکھتی ہے اس پر بھی اس کی نظر ہوتی ہے۔ لیکن اتنا سب کرنے کے باوجود وہ
تنخواہ کے سات سو روپے میں سے صرف ایک سو روپیہ نکالتا ہے اور وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے فرار ہو جاتا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ جب اس کے پاس پیسے ہوں گے تب وہ پہلی
فرصت میں ان کو پیسے لوٹا دے گا۔ اور ایسا کرتا بھی ہے۔ سو روپئے الگ کر کے ایک
کاغذ میں سنالنی کا نام اور ایڈریس لکھ کر رکھ دیتا ہے تاکہ وہ جب بھی موقع ملے گا
وہ سنالنی جیسی ماں صفت عورت کے پیسے لوٹا دے گا۔اپنے کیے کی معافی مانگے گا۔لیکن
قدرت کا کھیل دیکھیے کہ اسے پیسہ لوٹانے کا موقع ہی نہیں ملا اور اس سے پہلے ہی
کسی نے اسے مارڈالا۔اور پولس اس ایڈریس کی وجہ سے تفتیش کے لیے سونالنی کے گھر
پہنچ گئی۔ رگھو کی شناخت کے لیے۔
یہاں پر الیاس احمد گدی نے
چابکدستی دکھائی ہے۔ کہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ رگھو کو کس نے مارا۔ لیکن کہانی
کو ترتیب در ترتیب جب سجاتے جائیں گے تو یہ بات سامنے آ ئے گی کہ مارنے والے وہی
لوگ ہیں جن کا پستول لے کر رگھو بھاگا تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ
کیا رگھو کرمنل تھا۔ نہیں اور اگر ان دنوں وہ کرمنل بن بھی گیا تو بنایا کس نے؟ یہ
کون نہیں جانتا کہ ہر جگہ غریبوں اور کمزوروں کا استحصال ہو تا ہے اور کچھ رگھو
جیسے لوگ بھی ہیں جوماں بہنوں کی عزّت بچانے کی خاطر احتجاج کرتے ہیں اور اپنی جان
گنواتے ہیں۔
کہانی میں جہاں اچھائیاں ہیں
وہیں کچھ کمیاں بھی ہیں۔ افسانہ نگار نے وہ کام کیوں نہیں کیا کہ جو اس کی بہن کی
عزّت کے ساتھ برسوں سے کھیلتا آیا تھا اسے اسی کی پستول سے مار گراتا۔سنالنی کے
گھرسے جب وہ غائب ہوا تو اس کے بعد کہانی میں اس کی شناخت ایک غنڈہ کی شکل میں ہی
افسانہ نگار پولس والے کے سامنے رکھتا ہے۔ رگھو کا مارا جاناایک عجیب سی بات لگتی
ہے۔جس کے ساتھ ظلم ہوا، وہی مارا گیا۔ کچھ حد تک منفی اثرات پڑھنے والے کے ذہن میں
مرتسم ہو تے ہیں۔ سنالنی کے پتی کوجس نے مارا ہے اسے بھی پولس آخر تک پکڑ نہیں
پاتی ہے۔ سنالنی کو ایک مضبوط کردار کے روپ میں بھی پیش کیا جا سکتا تھا۔وہ بولڈ ہو
کر رگھو کو پہچانتی اور ساتھ میں اپنے شوہر کی لڑائی بھی جاری رکھتی۔ رگھو کو
پہچاننے سے انکار کرنے کی صورت میں ایک ٹیچر کا کردار کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
اگر مان لیں کہ وہ رگھو کو پہچان لیتی اور اصل واقعہ پولس انسپکٹر کے سامنے رکھ
دیتی تو اس سے کیا فرق پڑتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لوگوں کو پولس والوں پر بھروسہ
نہیں رہا۔
افسانے کا انجام بہت کچھ کہتا
ہے جس میں طنز بھی ہے اور مزاح کا پہلو بھی کہ ایک طرف ہم یہ دعوی کر رہے ہیں کہ
تہذیب یافتہ ہیں اورچاند تک کا سفر طے کر لیا ہے، لیکن دوسری طرف لوگ قانون کی
دھجیا ں اُڑاتے ہوئے انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر وحشی پن کی انتہا پر پہنچ چکے
ہیں۔ افسانے کے اس آخری حصّے پر ایک نظر ڈالیے۔ سب کچھ عیاں ہو جائے گا:
’’رگھو کی آپ بیتی سوچ کر سنالنی تڑپ اٹھی۔دیر تک سوچتی
رہی کہ یہ کس دور کی کہانی ہے۔کیا یہ اسی بیسویں صدی کا واقعہ ہے جب آدمی چاند پر
اتر رہا ہے؟ساری تہذیب،ساراقانون،ساری انسانیت۔۔۔۔۔۔۔۔کیا آج بھی ہم وہی غاروں
میں رہنے والے وحشی ہیں؟ یا شاید اس سے بھی بدتر۔بڑی دیر بعد سنالنی نے رگھو سے
کہا۔ ’’تم یہ پستول پھینک دو اور گھر لوٹ جاؤ یا پھر پولس میں خبر کر و۔‘‘
رگھو نے کوئی جواب نہیں دیا۔
چپ چاپ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
دوسرے دن سنالنی اسکول سے لوٹی
تو اسے معلوم ہواکہ رگھو کہیں چلا گیا ہے۔ گھر کی ساری چیزیں جوں کی توں موجود
تھیں۔ البتہ سات سو روپے جو کل اس نے تنخواہ کے لا کررکھے تھے، اس میں سے ایک سو
روپے کا نوٹ غائب تھا۔
’’شاید اب تک آپ کو یاد آ گیا ہو گا۔‘‘انسپکٹر نے چائے
ختم کر کے پیالی رکھتے ہوئے پوچھا۔
سنالنی چونکی، دم بھر کر
سوچا،پھر بڑے اعتماد سے بولی۔’’ نہیں، میں اس آدمی کو نہیں جانتی۔‘‘8؎
سوال یہ ہے کہ اس افسانہ میں
افسانہ نگار کس کی شناخت کرنا چاہتا ہے یا پولس سے کسی کی شناخت کروانا چاہتا ہے؟
کہانی پڑھنے کے بعد تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقتول رگھو کی شناخت سنالنی سے
کروانا چاہتی ہے۔ یا اس پولس کی شناخت مقصود ہے جو جانتی سب کچھ ہے لیکن قاتل کو
پکڑنے میں ناکام رہتی ہے۔چشم دید کی شناخت بھی دھندلکے میں گم ہوتی ہوئی دکھائی
دیتی ہے کہ وہ ایک انجانے خوف کی وجہ سے گواہ بننے سے دور بھاگتے ہیں۔لیکن ان تمام
باتوں کے با وجود افسانے میں ایک ایسی بات ضرور ہے جو خود کو پڑھوا لیتی ہے۔یہ ایک
عام سی کہانی ہوتے ہوئے بھی عام سی کہانی اس لیے نہیں رہتی کہ جس طرح سے افسانے کا
تانا بانا بُنا گیاہے وہ بہت مؤثر ہے۔ اس وجہ سے اسے ایک اچھا افسانہ کہا جا سکتا
ہے۔
٭
افسانہ ’گھر بہت دور ہے‘میں
الیاس احمد گدّی نے ایک ایسے جوڑے کو دکھانے کی کوشش کی ہے جس میں شوہر جب جسمانی
طور پر کمزور ہو جاتا ہے اور اسے لگنے لگتا ہے کہ اب وہ کسی بے کار شئے کی طرح اس
گھر میں موجود ہے تو اس کی حالت کپل جیسی ہو جاتی ہے۔ اس کی سوچ میں راتوں رات
تبدیلیاں رو نما ہو نے لگتی ہیں اور یہ تبدیلی اور بھی جان لیوا تب بن جاتی ہے جب
اس کی بیوی ہر روز بن سنور کر آفس کے لیے نکلنے لگتی ہے۔ ایسے میں کپل جیسے شوہر
کے ذہن میں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں،جن کا جوا ب بیویوں کے پاس نہیں ہوتا ہے۔
جہاں تک بات جنسی خواہش کی ہے تو یہ ہر کسی کے اندر ہوتی ہیں۔خواہ وہ مرد ہو یا
عورت۔ کبھی انسان اس پر قابو پا لیتا ہے اور کبھی ناکام رہتا ہے۔ افسانے کا مرکزی
کردار کپل ایک ایسا ہی شوہر ہے جو اپنی بیوی کو جسمانی خوشی عطا کرنے سے محروم ہے
اور اس محرومی میں کیا کچھ ہوتا ہے اور کس کس طرح کی سوچ سے وہ گزرتا ہے وہ فکر
انگیز ہے۔
افسانے کی شروعات کچھ اس طرح
ہوتی ہے:
’’اس نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ وہ ایزی چیئر پر
بیٹھے بیٹھے ہی سو گیا تھا۔شاید وہ کتاب پڑھ رہا تھا۔ جب نیند نے اس کو مغلوب کیا۔
کیونکہ کھلی کتاب ابھی تک اس کے گھٹنوں پر پڑی تھی۔ کتاب کو گرنے سے بچانے کے لیے
اس نے اس پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جوابھی تک اُسے تھامے ہوئے تھا۔اس کی ٹیڑھی سوکھی
انگلیاں دور سے صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے کئی دفعہ کہا تھا کہ ہمیشہ دستانے
پہنے رہا کرو، اس کے لیے اس نے کئی طرح کے دستانے لا دیے تھے۔ گرم، ٹھنڈے،
ہلکے،بھاری اور مختلف وضع کے۔ مگر وہ اکثر دستانے نہیں پہنتا۔ کہتا ہے دنیا سے تو
بہت کچھ چھپایا جا سکتا ہے مگر اپنے آپ سے؟‘‘9؎
یہاں افسانے کی شروعات میں ہی
افسانہ نگار قاری کا ذہن اس طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوتا ہے کہ شوہر ایزی چیئر
پر بیٹھا کتاب پڑھتے پڑھتے سو گیا ہے اور اس کی انگلیاں سوکھی اور ٹیڑھی ہیں۔یہاں
یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بیوی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر دستانے پہنے تاکہ لوگوں
کو اس کی سوکھی اور ٹیڑھی انگلی دکھائی نہ دے۔ یہاں یہ بات بھی دیکھنے والی ہے کہ
ہم جس کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اس کی کمیاں اور کمزوریوں کو چھپانا چاہتے ہیں ایسا کر
نے کا مطلب اپنی کمیوں کو چھپانا بھی ہوتا ہے تاکہ ان کمیوں پر دوسروں کی نظر نہ
پڑے۔ لیکن یہاں بیوی چھپانا چاہتی ہے اورشوہر بے نیاز ہے۔ جیسا ہے ویسا ہی رہنا
چاہتا ہے۔ اس کی سوچ الگ ہے کہ دوسروں سے چھپانے سے وہ چیز چھُپ تو جائے گی لیکن
سوال یہی ہے کیا خود سے بھی اس عیب یا اس کمی کو وہ کبھی چھپا پائے گا اور اگر
نہیں تو پھر کپل نے دستانہ نہیں پہن کر اپنی سوچ کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
میاں بیوی دونوں کے درمیان ایک
خوشگوار رشتہ دکھائی پڑتا ہے لیکن یہ رشتہ کمزور اس وقت ہوتا نظر آتا ہے جب کپل
کو اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ اب زندگی اس کے مطابق نہیں چل رہی ہے۔ وہ جس طرف
اسے لے جائے گی اسے اس طرف جانا پڑے گا۔ اور وہ اس کے لیے تیار بھی ہو جاتا
ہے۔لیکن اس کے ساتھ انسان کو اپنی عزّت کا بھی پاس رہتاہے۔ ایسے میں کہیں اس کی
عزت پر کوئی حرف تو نہیں آرہا ہے، اس پر بھی اس کی نگاہ ہوتی ہے اور یہی سب اس
افسانے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔کپل اس بات کو بخوبی جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے
کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہم اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں،عمارت کی تعمیر
سے لے کر کمروں کے فرنیچر، دیواروں کی سجاوٹ، گھر کا ساز و سامان مختلف آرائشی
چیزیں، ان میں سے زیادہ تر نمائش کے لیے ہوتی ہیں۔دوسروں کو مرعوب کرنے کے
لیے۔لیکن یہاں ان ساری چیزوں کے ساتھ اس کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے انسان کو
زندہ رہنے کے لیے بہت ساری چیزوں کی ضرورت نہیں ہے، کم میں بھی گزارہ کر سکتا ہے۔
بہت تھوڑے سے سامان کی ضرورت پڑتی ہے اوران سامانوں میں ایک سامان کا ذکر انھوں نے
خاص طور پر کیا ہے۔ سونے کے لیے ایک گرم بسترکی۔لیکن اب وہ اس بات کو محسوس کرنے
لگا تھا کہ اس کا وہ بستر جو کبھی گرم رہا کرتا تھا اوراس کی گرماہٹ سے اسے اچھّی
نیند بھی آ یا کرتی ہے، وہ سب قصّۂ پارینہ بن چکے ہیں اور پھرجب ایک دن بستر کی
اسی گرماہٹ کا ذکر بیوی نے کر دیا تو اس کے اندر ہلچل تیز ہو گئی۔
’’اس کا بستر برا بر ٹھنڈا رہتا ہے، کئی بار اس کی چادر
درست کرتے وقت یا تکیہ کا غلاف بدلتے ہوئے جب بھی وہ اس کے بستر پر بیٹھی ہے اس کو
ٹھنڈا ہی پایا ہے۔ ایک دن اس نے ایسے ہی بات بات میں کہا تھاکہ تمہارا بستر ٹھنڈا
رہتا ہے۔ تم ڈاکٹر کو بتاتے کیوں نہیں؟ شاید تمہارے جسم کی حرارت۔۔۔۔۔۔!‘‘10؎
یہاں الیاس احمد گدّی نے ٹھنڈے
اور گرم کے ذریعہ ایک اہم زاویے سے اس کو دکھانے کی کوشش کی ہے اوراس کوشش میں
انھوں نے بیوی کے ذریعے شوہر کو کہلوایا بھی ہے کہ وہ ڈاکٹر سے رجوع کرے تاکہ
زندگی کی حرارت نسوں میں پھر سے دوڑنے لگے۔یہاں بیوی کے کہنے پر شوہرکے چہرے کا
رنگ ایک دم بدل سا جاتا ہے۔ ایک ایسی نظروں سے دیکھتا ہے جسے دیکھ کر بیوی ڈر جاتی
ہے۔ وہ پتھر کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔بیوی کو لگا کہ پلٹ کر وار کرے گا لیکن وہ
خاموش رہتا ہے۔ کچھ حد تک نارمل دکھائی دیتا ہے۔اس وقت بیوی کاشوہر کے پیچھے جا کر
کھڑا ہو جانا اور بالوںکاسہلانا بھی بہت کچھ کہتا ہے۔شاید یہ جو اس نے کہا تھا اسے
نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اس لیے وہ جاننا چاہتی ہے کہ کہیں اُسے برا تو نہیں لگا۔لیکن
بات شوہر کو بری لگی تھی اسی لیے تو وہ یکایک خاموش ہو گیا تھا اور اداس لہجے میں
پوچھا تھا۔’’جانتی ہو جسم کی گرمی کیا ہوتی ہے؟‘‘ یہاں افسانہ نگار یہ بتانے میں
کامیاب ہے کہ جسم کی آگ کیا ہوتی اور اسے کس طرح بجھایا جاتا ہے۔ اس بات کو یہاں
انھوں نے بیوی کے جذبات میں لپیٹ کر قاری کے سامنے پیش کیا ہے:
’’
برسوں کی نا آسودگی جسم کی
ساری آگ بجھا دیتی ہے۔ اس لیے کبھی کبھی وہ پگھلتے پگھلتے اس حد تک پہنچ جاتی ہے
کہ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے وجود کا ذرہ ذرہ اپنے بدن کی بوند بوند حرارت اس
کو سونپ دے مگروہ پھر اپنے آپ کو روک لیتی ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے برسوں کے ٹوٹے
ہوئے رشتے صرف ایک گرم اور بھر پور محبت پرٹکے ہوئے ہیں۔ ایک بے نیاز چاہت کچھ
نہیں چاہیے، بس ایک رفاقت شاید ایک لفظ وفاداری یا شاید اس سے بھی ایک اچھا لفظ
تیاگ۔ لیکن آدمی صرف دل و دماغ سے نہیں جیتا۔ ہر طرح کے تیاگ کے باوجود اس کے پاس
ایک بھوکا اور نا آسودہ جسم بھی ہوتا ہے، جسم کی طلب بھی ہوتی ہے۔ یہ جسم سمندر
کے جوار بھاٹے کی طرح چنگھاڑتا بھی ہے، بے چین بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک دم
اس قدر سرکش ہو جاتا ہے جیسے سارا بند توڑ دے گا۔ سب کچھ بہا لے جائے گا۔‘‘11؎
ایسا اکثر دیکھا گیا کہ نا
آسودگی انسان کو مضمحل اور پریشان کر دیتی ہے اور معاملہ اگر جنس کا ہو اور
آسودگی کے سارے راستے بندہو چکے ہوں تو دھیرے دھیرے خواہشات دب سی جاتی ہیں۔ لیکن
ایسا ہمیشہ ہو ضروری نہیں ہے۔ شوہر کی دبی ہوئی خواہشات کو اُبھارنے کی وہ ہر ممکن
کوشش کرتی ہے۔جسم کی حرارت کو کشید کر کے وہ اس کے بستر پررکھ دینا چاہتی ہے، لیکن
ایسا کرنے سے پہلے ڈاکٹر کی باتیں اسے یاد آ جاتی ہیں۔ اس کی صحت اور سلامتی کے
لیے اس کا دور رہنا ضروری ہے۔ ورنہ سرد جسم میں گرماہٹ پیدا کرنے میں کہیں بے
احتیاطی ہوئی تو پھر گرتی ہوئی صحت کو سنبھالنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ایسے وقت
میں شوہر بھی احتیاط برتنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو سنبھالتا ہے۔ لیکن
کبھی کبھی اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود کو سنبھال نہیں پائے گا۔ جسمانی سمندر میں
اُٹھنے والے جوار بھاٹے اس کے وجود کو اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے۔لیکن یہاں بیوی
کی ہمت اور ارادے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ خود کو سنبھال لیتی ہے اور
اپنے شوہر کو بھی نارمل رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
افسانہ نگارنے یہ واضح کیا ہے
کہ ایسے جوڑے ایسے حالات میں کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں، اس سے بچنے
کے لیے وہ کسی نہ کسی کام میں خود کو مصروف رکھتے ہیں تاکہ ناآسودگی کے حصار کو
توڑ کروہ باہر نکل سکیں۔ایسی زندگی جینے والے دوہری زندگی کے کرب کو بھی جھیلتے
ہیں۔یہاں شوہر کتابوں کی دنیا میں پناہ لیتا دکھائی دیتا ہے وہیں بیوی اپنے بچے
شروکی دیکھ بھال میں خود کو مستغرق رکھتی نظر آتی ہے۔اور یہیں وہ زندگی کی ساری
خوشیاں تلاش کرتی دکھائی بھی دیتی ہے۔ اس کی انگلیوں کا لمس اسے زندگی سے جوڑ کر
رکھتا ہے۔الیاس احمد گدی کے حساب سے یہ وہ راستے ہیں جس کا استعمال دونوں قصداً
کرتے ہیں اور دونوں کو اس کا علم بھی ہے۔یہاں تک کہ دونوں یہ جانتے ہیں کہ صحت
یابی کے لیے اسپتال میں غیر معینہ مدت تک کپل کو رہنا پڑے گا اور اب ایسے میں گھر
میں ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی بیوی کپل کے لیے شجر ممنوعہ ہو چکی ہے۔لیکن کبھی وہ
اس پر لٹّو تھا۔اس کی ایک ایک ادا پر مرتا تھا۔ بہانے سے نہ جانے کہاں کہاں چوم لیتا
تھا۔ آسودگی کی خاطر کبھی کبھی رات کا بھی انتظار نہیں کرتا اور کالج سے جلد لوٹ
آتا تھا۔ لیکن وقت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا اب وہ پہلے کی طرح اسے نہ چاہتا
ہے اور نہ ہی اس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے۔ کیونکہ وہ اب دیکھ کر کیا
کرے گا۔چھو کرکیا کرے گا۔ وہ تو اندر ہی اندر مر چکا ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال اس کے
ذہن میں ضرور جنم لیتا ہے کہ کیا محبت کے لیے جسم اتنا ہی ضروری ہے؟ کیونکہ جب جسم
کی گرماہٹ اس کے ساتھ تھی تو زندگی کا سارا حسن اس کی آنکھوں میں اُتر آتا تھا۔
لیکن اب جب وہ اندر سے کمزور ہو گیا ہے تو ایسے میں وہ بیوی کی طرف دیکھنے سے بھی
گھبراتا ہے۔اب اس کی پسند میں ایسے مغربی ناول زیادہ شامل ہو گئے ہیں جو جسم فروشی
پر مبنی ہیں۔مطالعے میں جوچیزیں ہوتی ہیں وہ ذہن پر اپنے اثرات بھی چھوڑتی ہیں۔
ناول کا ہی اثر تھا کہ ایک دن وہ اپنی بھولی بھالی بیوی پر شک کرنے کی وجہ سے سوال
کرتا ہے۔ سوال کیا تھا اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ساتھ میں شوہر کی ذہنی حالت کا
بھی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
’’تمھارے دفتر میں تو بہت سے مرد کام کرتے ہوںگے؟‘‘
’’ہاں !کیوں؟‘‘
’’ظاہر ہے تمہارے ان ساتھیوں میں تمھارے کچھ دوست بھی
ہوںگے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔۔۔؟‘‘وہ چمکی تھی۔
’’میر امطلب ہے کہ کچھ لوگوں کے سامنے تم کبھی کبھی کمزور
بھی پڑتی ہوگی۔۔۔۔۔؟‘‘
وہ ایک دم سے برہم ہو اٹھی
تھی۔
’’تم کہناکیا چاہتے ہو؟کیا تم مجھے بازاری عورت سمجھتے ہو؟
کیا تم سمجھتے ہوکہ میں باہر۔‘‘
اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔وہ
روہانسی ہو گئی تھی۔
’’دیکھو میرا مطلب یہ نہیں تھا-‘‘وہ بے حد سنجیدگی سے
بولا۔ ’’میرا مطلب تھاکہ جب ہم نے عورتوں کو آزاد کر دیا، جب ہم اس کو بازار میں
لے آئے تو پھر ہمیں اپنی عصمت کے بوسیدہ تصور کو بھی بدل دینا چاہیے۔ عور ت بھی
گوشت پوست کی بنی ہوئی ہے۔ وہ باہر سیکڑوں مردوں کے ساتھ رہتی ہے، وہ کہیں بھی
کمزور پڑ سکتی ہے، کہیں ہار بھی سکتی ہے۔!12؎
یہاں پراس گفتگو کی روشنی میں
افسانہ نگار اشارے ہی اشارے میں یہ بتا دیتا ہے کہ کپل جو پہلے جسمانی بیمار ی کا
شکار تھا اب ناآسودگی نے اس کے اندر شکوک وشبہات کو جنم دے دیا ہے جس کے باعث اب
وہ ذہنی طور پر بھی بیمار ہو گیا ہے۔ جسمانی بیماری کو تو دوا سے ٹھیک کیا جا سکتا
ہے، لیکن ذہنی بیماری کا علاج بہت مشکل ہوتا ہے۔بیوی کو بھی لگتا ہے کہ اس کی
بیماری بڑھ رہی ہے۔ وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے اورساتھ ہی ساتھ دلاسہ بھی
دیتی ہے کہ تم ایک دن ٹھیک ہو جاؤگے اور پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن کپل کا
سچ اپنی جگہ پر ہے کہ اس کی ٹیڑھی انگلیاں مصافحہ کے لائق بھی نہیں۔ لوگ ملتے ہوئے
جھجھکتے ہیں۔ہاتھ ملاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔غلطی سے کوئی ہاتھ ملا بھی لیتا ہے تو وہ
اس طرح ہاتھ ہٹا تا ہے جیسے ہاتھ میں کوئی گندگی ہو۔ ایسے ہی موقعوں کے لیے بیوی
اس سے ہمیشہ کہتی ہے۔اشارے کی زبان کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔کہا کچھ جا رہا ہے
لیکن اس کے پسِ پردہ بات کچھ اور ہے۔ یہاں الیاس احمد گدی نے بات ہی بات میں فن کے
وہ دستانے بھی بیوی کے ہاتھوں شوہر کوپہنانے کی کوشش کہ ہے جو وہ پہننا نہیں
چاہتا۔یہ حصّہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
’’اسی لیے تو کہتی ہوں کہ تم ہمیشہ دستانے پہنے رہا
کرو۔‘‘وہ گھبرا کر بولی اور کپل ہنس پڑا تھا۔
’’کتنی سچائیوں کو دستانے پہناؤ گی؟اس طرح کا ایک ننگا سچ
وہ بھی ہے جو میں نے ابھی ابھی تم کو بتایا ہے۔ جانتا ہوں میری باتوں سے تم کو
تکلیف ہوئی ہے۔مگر کبھی ٹھنڈے دل سے سوچنا کہ میں نے جو کہا ہے کیا وہ سچ نہیں ہے۔
یا تم نے کبھی اپنے ساتھ کام کرنے والے مردوں کی آنکھوں پر غور کیاہے؟کیا ہے
وہاں۔۔۔۔۔؟‘‘13؎
یہاں پر افسانہ نگار نے کچھ
دیر کے لیے بیوی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ وہ سب کچھ
جانتی ہے کہ ان آنکھوں میں کیا رہتاہے۔وہ آنکھیں اس کے اندر کیا ڈھونڈتی ہیں۔کچھ
آنکھیں تو ایسی ہوتی ہیں جو چھید کر اس کے اندر اُتر جانے کے لیے بے تاب نظر آتی
ہیں۔نشیب وفراز سے گزر جانے والی آنکھوں سے وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھتی آئی تھی۔
لیکن جب کپل نے اسے یاد دلایا اور پوچھا تو وہ انکار کردیتی ہے کہ کوئی ایسا نہیں
ہے جس کی آنکھیں گوشت پوست کے اندر انی بن کر اترنے کے لیے بے تاب ہیں۔
اس کے بعد افسانہ کلائمکس کی
طرف بڑھتا ہے۔ یقیناوہ اس رات بہت مشکل سے سوئی ہو گی اور جب سوئی ہوگی تو خیالات
کا لا متناہی سفر سامنے شروع ہو گیا ہوگا۔ وہ خود کو ایک سنسان سڑک پر دیکھتی ہے
اور کیا دیکھتی ہے کہ تین ریچھ اس کا پیچھا کر رہے ہیں، جن کا سر انسان کا ہے۔ وہ
پہچان بھی لیتی ہے۔ وہ تینوں کوئی اور نہیں اس کے دفتر کے ہی لوگ ہیں جنھیں وہ
اچھی طرح جانتی اور پہچانتی بھی ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر ان ریچھوں کے چنگل سے نکل
بھاگنا چاہتی ہے۔لیکن تیز بھاگ نہیں پاتی ہے اور پکڑی جاتی ہے۔مدافعت کرتی ہے۔
لیکن سب بے سود۔دھیرے دھیرے اس کے کپڑے پھٹتے چلے جاتے ہیں۔وہ ہارتی چلی جاتی
ہے۔کیونکہ وہ بھاگ کر گھر نہیں پہنچ سکتی۔گھر اسے وہاں سے بہت دور دکھائی دیتا ہے۔
کلائمکس میں خواب۔ اور خواب کی
تعبیر پر آپ نظر ڈالیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کپل جس کے اندر کی جنسی قوّت
کسی بیماری کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے، وہ اپنی خوبصورت بیوی پر شک کرنا شروع کرتا
ہے کہ اگر اس سے اس کی خواہش پوری نہیں ہو پارہی ہے تو وہ اس خواہش کی حصولیابی کے
لیے دوسروں سے رشتے استوار کر رہی ہو گی۔ لیکن اس وقت تک جب تک کپل اس سے اس سلسلے
میں کچھ نہیں کہتا ہے وہ خود کو محفوظ رکھ پانے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے، لیکن
جیسے ہی وہ اس طرح کی بات کرتا ہے بیوی کی خواہشات میں اُبال آ جاتا ہے۔
ناآسودگی سے آسودگی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور یہی وہ سفر ہے جو لاشعور سے شعور
کی سطح پرچلا آتا ہے۔ خواب ہی میں سہی اس کی خواہشات کی تکمیل ہوتی نظرآتی ہے۔
مدافعت کرنے کی طاقت روز بروز کم ہو تی چلی جاتی ہے اور وہ مردوں کے چنگل میں
پھنستی دکھائی دیتی ہے۔آخر میں افسانہ اس ایک جملہ پر ختم ہوتا ہے۔’’ہاں گھر بہت
دور ہے۔‘‘ اس سے یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اب وہ دیر سے گھر لوٹنے لگی ہے۔
کپل سے دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ایسے بہت سارے جوڑے ہمارے یہاں موجود ہیں جنھیں گھر
کے ا ندر خوشیاں نہیں ملتی ہیں تو باہر کی دنیا انھیں دور سے پہچان لیتی ہے۔ ان کے
پیچھے پڑ جاتی ہے۔ مجبور کر دیتی ہے۔ اتنا کہ وہ ایک مقام پر پہنچ کر مدافعت تو
کرتے ہیں لیکن اس میں خود سپردگی کا جذبہ بھی موجود ہوتا ہے۔نا آسودگی سے آسودگی
کی طرف یہ افسانہ دھیرے دھیرے سفر کرتا ہے۔ جسے ہم ایک اچھاا فسانہ کہہ سکتے ہیں۔
٭
الیاس احمد گدی کا افسانہ
’آخری حربہ‘کاشمار جدید افسانوں میں ہوتا ہے۔یہ اس دور کا افسانہ ہے جس دور میں
جدیدیت اپنے عروج پر تھی۔ تشبیہ، استعارہ اورعلامتوں کے ذریعہ بات کو جدید پیرائے
میں رکھنے کا رواج عام تھا۔لیکن اس عام کو خاص بنانے کا ہنر الیاس احمدگدی کو
بخوبی آتا تھا۔اس لیے انھوں نے جدیدمکالماتی طرزاسلوب اختیار کرتے ہوئے واقعات کا
ایک ایسابیان پیش کیا ہے جس سے معنویت کی نئی دنیا افسانے میں آباد ہو گئی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے اسے گنجلک بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ترسیل کے لیے
ایسی افسانوی فضا قائم کی ہے کہ قاری کچھ دیربھول بھلیوں میں تو بھٹکتا ہے لیکن پھر
وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں افسانہ نگار پہنچانا چاہتاہے۔ شروعات پر نظر ڈالیے:
’’ان میں جو سب سے کم عمر تھا اُس نے اُٹھ کر ایک چھوٹا سا
سوال کیا۔
’’آپ لوگوں میں سے کسی نے اس کی شکل دیکھی ہے؟‘‘
لمبی میز کے ارد گرد بیٹھے
لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ مایوسی سے ان کے چہرے لٹک گئے تھے، ایک آدمی
اُٹھ کر کہناشروع کیا:
’’میں نے اس کی شکل تو نہیں دیکھی، مگر ٹھیک اس وقت جب وہ
تخت و تاراج کے بعد واپس لوٹ رہا تھا اس کی پشت دیکھی تھی۔آپ یقین کیجئے اس کی
پشت اتنی چوڑی تھی جیسے پانچ چھ آدمیوں کی پشت ایک ساتھ ملا دی گئی ہو۔ ایک شانے
سے دوسرے شانے تک کی چوڑائی لگ بھگ چار فٹ ہو گی۔‘‘14؎
افسانے کے ان ابتدائی جملوں سے
گزرنے کے بعدکوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ جب اتنے اہم معاملے کو سلجھانے کے لیے
محلے والے جمع ہوئے ہیں اور بھیڑ کو مخاطب ایک کم عمر لڑکا کرتا ہے۔ ویسے یہ سوال
کسی بزرگ سے یہاں کروانا چاہیے تھا۔ ایسا ہو سکتا ہے کچھ باتیں بین السطور کا حصّہ
ہوں۔ ممکن ہے جہاں سے افسانے کی ابتدا ہورہی ہے وہ ابتدا نہ ہو۔ بات پہلے سے
بزرگوں کے درمیان چل رہی ہو اور بیچ میں کم عمر لڑکا چھوٹا سا سوال لے کر سامنے آ
گیا ہواور افسانہ نگاراس چھوٹے سے سوال میں اتنا محو ہو گیا ہوکہ اس جملے سے ہی
آغازکرنا مناسب سمجھا ہو۔ خیر یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن جو سوال قائم ہو ا تھا
وہ سوچ کو متزلزل کر دینے والا تھا۔ اس وقت جو باتیں چل رہی تھیں ان کے مطابق کوئی
ایسا تھا جس نے اس علاقے میں کچھ ایسا کر دیا تھا جو کسی کے سان گمان میں نہیں تھا
اور جو ہوا تھا اس سے سبھی خوف زدہ تھے اور اب اس خوف سے نکلنا سب کے لیے ضروری
تھا۔ لیکن خوف بستی میں کس طرح درآیا تھا، کون لایا۔ وہ کیسا دکھتا ہے کسی کو
نہیں معلوم تھا۔بستی کو خوف سے باہر نکالنے اور لوگوں کو زندگی سے جوڑنے کے لیے
ضروری تھا اس شخص کی تلاش کی جائے جو بستی میں خوف کی وجہ بنا ہوا ہے۔ یہ میٹنگ
اسی خوف سے نجات کے لیے کی جا رہی تھی۔ لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔صرف ایک
شخص تھا جس کے مطابق اس نے پیچھے سے دیکھا تھا۔اسے ایسا دکھائی دیاجیسے کوئی ظالم
بادشاہ کسی علاقے کو زیر کر کے اپنے پیچھے ظلم کی کہانی چھوڑنے کے بعد نہایت ہی
مغرور چال چلتا ہوا آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔اس دیو قامت شخص کے سامنے آنے کی
کسی میں طاقت نہیں تھی۔ پیچھے سے پشت کا دیکھنااور وہ بھی پانچ چھ آدمیوں کے
برابر ہونا اور ایک شانے سے دوسرے شانے کی چوڑائی چار فٹ کے قریب دکھائی دے رہی
تھی۔ یہاں یہ سب افسانے میں طاقت کے ساتھ غرور اور انانیت کی نشانی ہے۔ آگے پھر
وہی شخص کچھ نئے انکشاف کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ وہ مادر زاد ننگا تھا اور اس کے
بازو ہاتھی کے پیر جیسے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ مادرزاد ننگا ہونا، مطلب صاف ہے اس کے اندر
شرم نا م کی کوئی چیز نہیں تھی۔انسانی تہذیب دور سے بھی اسے چھو کر نہیں گزری
تھی۔اس کا شغل انسانیت کا ننگا کھیل تھا۔جب جہاں چاہے کسی کو بھی ننگا کر سکتا ہے
اور خود بھی ننگا ہو سکتا ہے۔
افسانہ آگے بڑھتاہے۔ لوگ اب
بھی ہال میں جمع ہیں۔ اس عجیب و غریب شخص کے معمے کو سلجھانے کے لیے۔ یہاں الیاس
احمد گدّی نے افسانے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی کھولنے کی کوشش کی تاکہ قاری تک وہ
انسانی جسم اور اس کے کپڑوں کے جلنے کی بدبوکولوگوں کے اندر اُتار سکے۔تعفُّن اور
سڑانڈ کی وجہ سے لوگوں کی آنتوں میں اینٹھن سی ہو جائے۔بدبو دار دھوئیں سے بچنے کے
لیے لوگوں نے رومال اپنے چہرے پر رکھ لیا تھا۔لیکن کب تک رکھتے۔ کہاں تک لوگ تیز
بدبودار دھوئیں کے مرغولے سے بچتے۔ہوا کا ایک تیز جھونکا ہی کافی تھا اورہوتا بھی
یہی ہے کہ وقت کی بے رحم ہوا ادھر رومال کے ساتھ چھڑ چھاڑ کرتی ہے اور اپنے ساتھ
دوراُڑا لے جاتی ہے۔جس کی وجہ سے بدبو ناک کے راستے جسم میں حلول کرجاتی ہے۔ناقابل
برداشت بدبو سے لوگوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔دراصل یہاں اس دیو قامت شخص کو بدبو اور
تعفن کا استعارہ بنا کرافسانہ میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
تہذیب کے جو پرخچے اڑے تھے اس
کے لیے ایک شخص نے مادر زاد شخص کو اس کا نشانہ بنایا تھا، لیکن جیسے ہی بدبو ہال
میں داخل ہوئی ایک دوسرے شخص کو وہ شخص جو انسانی کھیتوں میں آگ کی فصل بو رہا
تھا، ہر طرف بدبو اور تعفن پھیلا رہا تھا وہ لحیم شحیم کے بجائے دبلا پتلا دکھائی
دیتا ہے جس کا نہ کوئی چہرہ تھا اور نہ ہی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔ گردن سے اوپر سر نہیں
تھا اور آنکھ کی جگہ جلتے ہوئے دو انگارے اور ہاتھ خون سے لت پت تھا۔دلچسپ بات یہ
بھی ہے کہ کسی کو وہ چاروں ہاتھ پیر سے چلتا ہوادکھائی دیا۔جس کے جسم پر بال تھے
اور ناخن لمبے نکیلے تھے۔جو نشانیاں تھیں ان کی مناسبت سے کوئی جانور ہو سکتا تھا
لیکن لوگوں کی بصیرت دیکھیے کہ انھوں نے جانور یا درندہ ماننے سے انکار کر دیا تھا
کہ بھلے نشانیاں اس طرف اشارہ کرتی ہوں لیکن یہ کوئی انسان ہی ہے۔انسان ہی اس
دھرتی کا ایسا کرتب باز ہے جو پل پل اپنا روپ بدل سکتا ہے۔ انسان سے بڑا بہروپیا
کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو بدلنے اور دوسرے کو دھوکا دینے کے معاملے میں
انسان ابتدائے آفرینش سے بہت سارے کارنامے انجام دے چکا ہے لیکن اس کے بعدبھی کچھ
لوگ نشانیوں کو لے کر مشکوک تھے۔ ان میں سے ایک شخص نہایت ہی سنجیدگی سے اپنی بات
رکھتا ہے جوبے حد اہمیت کا حامل ہے:
’’یہ عجیب بات ہے، ہم انٹلکچوئل لوگ ہیں، دانشور ہیں،
ہمارے بیان میں اس قدر تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ایک صاحب کہتے ہیں وہ بہت موٹا تھا۔
دوسرے فرماتے ہیں کہ نہیں بہت دُبلا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘15؎
یہاں پر جس ذہنیت کا ثبوت یا
سنجیدہ پن دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اس کی وجہ سے پڑھتے پڑھتے قاری کچھ دیر کے لیے
ٹھہر جاتا ہے کہ یہ کہیں افسانہ نگار کی آواز تو نہیں ہے جو لوگوں کو متنبہ کر رہی ہے کہ جب ہم جیسے پڑھے
لکھے لوگوں میں اتنا تضاد ہے کہ ایک ہی چیز کو دیکھنے اور دکھانے کا نظریہ زاویہ
کے بدلتے ہی الگ ہو جاتا ہے تو ایسے میں کسی مسائل کا حل تلاش کرنا بہت مشکل ہے
کیونکہ تعفن پھیلانے والا ایک شخص کسی کو موٹا تو کسی کو دُبلا دکھائی دیتا ہے۔یہ
تضاد اس سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگ اپنے مفاد کے لیے اپنے پیمانے خود بناتے
ہیں۔ متحد ہو کر کوئی رائے نہیں رکھ پاتے۔ جس کی وجہ سے ملک کے لیے کوئی بڑااور
اہم کام ہوتے ہوتے خلا میں معلق ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسے یہاں سیاسی چشمے سے بھی
دیکھ سکتے ہیں۔اقتدار میں رہنے والی اور مخالف پارٹیاں ایک ہی واقعے کو اپنے اپنے
فائدے اور نقصان کی مناسبت سے میڈیا میں رکھتے ہیں جو اکثر بے وقوفی بھری ہوتی ہیں۔
رٹو طوطے کی طرح سب ایک ہی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔پارٹی لائن سے ہٹ کراپنی بات رکھنے
کی ہمت کتنوں میں ہوتی ہے۔بس سب لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔مقصدایک ہی ہوتا ہے سچ کو
جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا۔اور اس میں مذہب بھی پستا ہے۔ بات کچھ ہوتی ہے اور
بتائی کچھ اور جاتی ہے۔ خوشیوں بھرے تہوارجیسے موسم میں بھی قتل و غارت گری کے
چولہے پرسیاسی روٹیاں سینکی جاتی ہیں جسے افسانہ نگار ایک شرم ناک لمحے سے تعبیر
کرتا ہے۔
افسانہ کے وسط تک اس عجیب
وغریب خوفزدہ کرنے والے شخص کی خصوصیات پر بحث جاری رہتی ہے۔ مثلاً وہ جہاں چاہے
وہاں نمودار ہوسکتا ہے، جب چاہے ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسری جگہ حاضر ہو سکتا
ہے،جس آدمی کے ا ندر چاہے حلول کر کے اس سے تاخت و تاراج کا کام لے سکتا ہے اوراس
کے متعلق یہ اندازہ لگانا کہ وہ کب کہاں دکھائی دے گا مشکل ہے۔لیکن اس کے باوجود
لوگوں کا ایسا ماننا تھا کہ ایسے کچھ آثار ضرورنمودار ہوئے ہوں گے جو ان کی آمد
کے گواہ ہوں گے۔
’’یقینا۔ اکثر ایسی جگہوں پر اس کے پیروں کے بڑے بڑے نشان
دیکھے جاتے ہیں۔ ہوا تھم سی جاتی ہے۔ فضا ایک دم ساکت ہو جاتی ہے۔ چاروں طرف ایک
عجیب قسم کی تیز بو پھیل جاتی ہے ایک ایسی بو جو نتھنو ں سے گزرتی ہے تو دماغ پر
چڑھنے لگتی ہے۔جھلاہٹ عام ہونے لگتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی بلکہ بعض اوقات اپنی
پہچان کھونے لگتے ہیں۔‘‘
’’اور اس سے بھی حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اچانک کہیں پر،
کسی بھی وقت خاص طور پر پرب تہواروں کے موقعے پر نمودار ہو جاتا ہے۔ اس کی ناک،
آنکھ، کان اور منہ کے سوراخوں سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں۔وہ ہوا کے جھونکے کی طرح
سارے علاقے میں دندانے لگتا ہے۔ مکان اور دکانیں دھڑا دھڑ جلنے لگتے ہیں، دھوئیں
سے سارا ماحول اٹ جاتا ہے۔ پھر وہ ہزارہا معصوم اور بے ضرر انسانوں کے اندر حلول
کر جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے لگتے ہیں۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے
لگتا ہے۔ تمام خون بہنے لگتا ہے، تمام راکھ بکھر جاتی ہے، راکھ۔۔۔۔۔۔راکھ۔۔۔۔۔
راکھ۔۔۔۔۔‘‘16؎
الیاس احمد گدّی نے اس کے آنے
کی جو نشانیاں علامتوں کے ذریعہ پیش کی ہیں سے ان سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی
ہے۔ یہ سب کچھ ہندوستان میں خاص کر کسی خاص تہواریا کسی خاص موقعے پر جس طرح کا
ماحول بنتا ہے جس طرح سے فساد ات ہوتے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ خون کی ہولیاں کھیلی
جاتی ہیں۔ مکانوں دکانوں کو جس طرح سے جلایاجاتا، لاکھوں کروڑوں روپئے کا جس طرح
نقصان ہوتاہے وہ ملک کو پیچھے دھکیلتا رہتا ہے۔جس کے باعث کچھ خاص علاقے میں خوف
وہراس کا ماحول بنا رہتا ہے۔کچھ خاص تہوار کی آمد پر اچانک سب کچھ بدل سا جاتا
ہے۔خوف کی چادر چاروں طرف بچھ سی جاتی ہے۔ افسانہ نگار کو اس بات کا افسوس ہے کہ
ہم سب ہندوستانی ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں تو پھر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے
لیے کیوں تیار ہو جاتے ہیں۔ اس عفریت سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہمارے اندر کیوں پیدا
نہیں ہوتی۔ اسی عفریت کو پکڑنے کی تلاش میں افسانہ نگار لگا ہوا ہے اور کوئی ایسا
حربہ تلاش کر نے میں مصروف ہے یا کوئی ایسا طریقۂ کار استعمال کرنے کی جدو جہد
میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے مفاد پرست لیڈران جو عفریت بن کر ملک کو نگل رہے ہیں،
دہشت پھیلانے میں پیش پیش ہیں ان کا جڑ سے خاتمہ ہو سکے۔لیکن یہ کون کرے گا ؟ یہ
اہم سوال ہے۔ جواب بھی افسانے میں موجود ہے کہ عفریت سے جنتا کو نجات دلانے کا کام
حکومت کا ہے۔ اس لیے ہمیں احتجاج کرنا ہے عفریت کے خلاف۔آواز اُٹھاتے رہنا ہے
تاکہ حکومت کی آنکھ کھلے۔
افسانہ اپنے کلائمکس کی طرف
بڑھتا ہے۔ کھچاکھچ بھرے ہال سے لوگ خوف زدہ باہر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ میٹنگ
میںلاکھ کوشش کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا ہے۔ اس شخص کو تلاش کرنے اور ختم
کرنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس لیے سب کے چہرے پر خوف طاری ہے۔یہاں
تک پہنچتے پہنچتے افسانہ نگار کے علاوہ ہال میں صرف ایک شخص بچ جاتا ہے،بچ جاتا
نہیں، بلکہ بچایا جاتا ہے، تاکہ ماحول کواپنے مطابق اور بھی پراسرار بناکر، چاروں
طرف گہری خاموشی پھیلاکر افسانہ نگار اس سے وہ بات کہلوا سکے جو انھیں افسانے میں
کہنا تھا:
’’لوگوں نے اس کے چہرے مہرے کی بات کی، اس کے ڈیل ڈول کا
ذکر ہوا۔ اس کے ذریعہ مچائی گئی تباہ کاریوں پر آنسو بہائے گئے مگر وہ اصل بات پر
سوچنے کی ضرورت تھی اور غالباً سب سے زیادہ ضرورت تھی،لیکن اس پر غور ہی نہیں کیا
گیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں صرف اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ وہ کون سا حربہ ہے، جس سے
اس کو ختم کیا جا سکتا ہے!‘‘
وہ چپ ہو گیا، پھر اس نے بے
خیالی میں میز پر پڑے قلم کو اُٹھا لیا اور اس کی نِب کی نوک کو شہادت کی انگلی پر
رکھ کر یوں دیکھنے لگا، جیسے کسی ہتھیار کی دھار دیکھ رہا ہو۔‘‘17؎
اس شخص کے مطابق میٹنگ میں
ساری باتیں ہوئیں۔ اس کے ڈیل ڈول جسم، مچائی گئی تباہ کاریوں، لٹے لٹائے لوگوں کی
آنکھوں سے گرتے آنسواورجلتی دکانوں اورمکانوں کے گرتے شٹر سے لے کر جلتی لاشوں
کی بدبو تک، بہت کچھ۔ لیکن وہ بات نہیں ہوئی جو ہونا چاہیے تھا اور یہی وہ دکھ تھا
کہ اتنی گفتگو کے بعد بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا تھا۔ تو پھر ایسی میٹنگ کا
فائدہ کیا اور اگر ایسی میٹنگیں ہوتی ہیں۔ اور لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں تو صرف
تقریر کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ حل کے لیے پہل بھی کرنا ہو۔ کوئی نہ کوئی حربہ
تو استعمال کرنا ہی ہو گا۔ اپنے دشمن سے لڑنے کے لیے۔ اپنے دشمن کو پکڑنے کے لیے۔
اپنے دشمن کا صفایا کرنے کے لیے اور یہ دشمن کوئی اور نہیں، فسادہے جوبدقسمتی سے
اب ایک تہوارکی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اسے لوگوں کے ذہن سے نکالنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیڑ پر گولی نہیں، بلکہ بھیڑ کو جمع کرنے والے بھیڑئے پرگولی چلانی ہو گی۔
لیکن اس کے لیے افسانہ نگار نے
اس آخری حربے کا ذکر کیا ہے۔ یعنی جب سارے راستے بند ہو جائیں اور وہ کام جب گولی
سے ہوتا دکھائی نہیں دے، تب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ قلم کی معمولی سی دکھنے
والی نوک کو ہتھیار بنا کر میدان کار زار میں اُتر جانا چاہیے کہ قلم کی طاقت کے
آگے بڑی بڑی طاقتیں سر نگوں ہوئی ہیں۔یقینا یہ آخری حربہ کام آئے گا اور عفریت
کے خلاف اس جنگ میں یقیناًایک دن معمولی سی دکھنے والی قلم کی نوک کی جیت ہو گی۔
٭
الیاس احمد گدی کے ان چار
افسانوں کو میں نے موضوع ِ بحث بنایا ہے جو ان کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں،
ان کے تجزیاتی مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ الیاس احمد گدّی اپنے
دور کے صاحب اسلوب اورمنفرد افسانہ نگار ہیں۔ان پر جتنا کام ہونا چاہیے تھا، نہیں
ہوا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے وہ افسانے جو ہندو پاک کے اہم رسائل میں
بکھرے پڑے ہیں ان افسانوں کی تلاش کی جائے اور از سر نو گفتگو کے دروازے وا کیے
جائیں، تاکہ فن کے ساتھ انصاف ہو سکے۔ جتنا کام ان پرہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا
ہے۔ اس کے باوجوداردو فکشن کے حوالے سے جو بھی تاریخ لکھی جائے گی وہ الیاس احمد
گدّی کے نام کے بغیر ادھوری سمجھی جائے گی۔
حواشی
1؎ افسانہ ’سناؤں تمھیں بات ایک رات کی‘الیاس احمد
گدی، ایوان اردو ، دہلی،اگست 1995، ص19
2؎ ایضاً، ص19-20
3؎ ایضاً، ص 20
4؎ ایضاً، ص 22
5؎ ایضاً، ص 22
6؎ افسانہ ’شناخت‘ الیاس احمد گدی، رسالہ ’شمع‘ کہانی نمبر
1986، ص 142
7؎ ایضاً، ص 142
8؎ ایضاً، ص 145
9؎ افسانہ ’گھر بہت دور ہے‘ الیاس احمد گدی
10؎ ایضاً
11؎ ایضاً
12؎ ایضاً
13؎ ایضاً
14؎ افسانہ ’آخری حربہ‘ الیاس احمد گدی
15؎ ایضاً
16؎ ایضاً
17؎ ایضاً
Akhtar Ali
House No: 38, Road No: 1
Azad Nagar, Mango
Jamshedpur - 831012
Mobile: 09572683122
Mail : dr.akhtarazad@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں